اتحاد کا صحیح مفہوم اور فقہی اختلاف میں اعتدال کی راہ

از: مولانا رفیع الدین حنیف قاسمی‏، حیدرآباد

اسلام کامل ومکمل دین ہے ، یہ رہتی دنیا تک ساری انسانیت کی رہنمائی ورہبری کا عظیم فریضہ انجام دینے کے لیے آیا ہے ، انسانی زندگی سے متعلق تمام گوشوں میں اس کی جامع ہدایات اور رہنمایانہ خطوط موجود ہیں ، حیاتِ انسانی کے کسی بھی پہلو سے اسلام نے بے توجہی نہیں برتی ہے ، او رنہ ہی اس نے انسانی زندگی کے کسی گوشہ کو تشنہ اور ناتمام رہنے دیا ہے ، یہ اس قدر جامع اور مکمل دین ہے کہ نہ اب اس میں کسی قسم کی کمی اور نقص کی گنجائش موجود ہے اور نہ یہ کسی طرح کی زیادتی اور اضافے کا متحمل ہوسکتا ہے ، اس کے قانونِ الٰہی اور دستورِ خداوندی ہونے کی واضح دلیل یہ ہے کہ اس میں ہر زمانے کے تغیرات کو قبول کرنے ،ہر قسم کے مسائل وحوادث سے نمٹنے اور ہر طرح کی دینی ، معاشی ، معاشرتی اور سماجی الجھنوں کا بدرجہٴ اتم حل پیش کرنے کی صلاحیت موجود ہے ، نہ انسانی ترقی کا اس کی بلندیوں کے اوجِ کمال کوچھولینا اور اس کے نتیجے میں نت نئے مسائل کا پیدا ہونا، اس کی ہمہ جہتی وہمہ گیری پر اثرانداز ہوسکتا ہے ، اور نہ ہی گردشِ دوراں، انقلاباتِ زمانہ اور وقائع وحوادث کا تسلسل اس کی جامعیت کے لیے اثرانداز ہوسکتا ہے ،اس کا اصل منبع اور سرچشمہ قرآن وحدیث ہیں اور یہ دونوں وحی الٰہی سے ماخوذہیں ، شریعت کے ہرحکم کی دلیل کسی نہ کسی درجہ میں ان دونوں کے اندر موجود ہوتی ہے ؛ بلکہ فقہاء کے تمام اصولِ تخریج اور قواعدِ استنباط واستخراج بھی در اصل انھیں سے ماخوذہیں؛ اس لیے بلا جھجک او ردوٹوک انداز میں یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ فقہاء کے تمام اجتہادات واستنباطات اور ان کا کامل فقہی ذخیرہ بھی دراصل شریعت کا قیمتی سرمایہ اور دین کا لازمی جزء ہے ۔

فقہی اختلاف محمود ومطلوب ہے

یہ بات پیشِ نظر رہے کہ شریعت کی اصولی اور بنیادی تعلیمات بالکل واضح اور دوٹوک ہیں، اس میں کسی قسم کی پیچیدگی اور جھول نہیں پایا جاتا ، جن میں توحید ورسالت کا اقرار ، عقائد اور امورِ آخرت سے متعلق چیزیں اور دین کی وہ بنیادی باتیں شامل ہیں جوقطعی دلائل سے ثابت ہیں ، ان امور کا انکار یا ان سے سرِمو انحراف بسااوقات انسان کو دائرہ اسلام سے خارج کر کے کفر وشرک کے حدود میں داخل کردیتا ہے ، یہ منصوص احکام کہلاتے ہیں ، بعض دوسرے احکامات وہ ہیں جو شریعت کی جزوی تفصیلات اور فقہاء کی تحقیقات وتدقیقات سے تعلق رکھتے ہیں جنھیں شریعت کی اصطلاح میں ”امورِ مجتہد فیہا“ کہا جاتا ہے ، یہ غیر منصوص احکام کہلاتے ہیں ، ان فروعی مسائل میں فقہاء کے مابین اختلاف ہوا ہے ، اگر اس طرح کا علمی وفقہی اختلاف کسی مستند ومعتبر دلیل پر مبنی ہوتو یہ بجائے خود محمود ومطلوب ہے اور شریعت کا ایک حصہ ہے ۔

فقہاء کے درمیان ان جزوی مسائل میں اختلاف اس وجہ سے واقع ہوا کہ شریعت نے اپنے بڑے حصہ میں جزوی اور متعینہ احکام دینے کے بجائے محض اصولی ہدایات دی ہیں ؛ تاکہ ہر دور کے حالات اور ضروریات اور عرف ورواج کے مطابق عمل کی مختلف شکلیں وجود میں آسکیں اور اس نے اپنے احکام میں ایسی کشائش وگنجائش رکھی ہے کہ ایک ہی عمل کو مختلف شکل میں انجام دیا جاسکے اور امت ضرورت کے وقت عمل کی جس شکل کو چاہے اختیار کرے ،یہ اس طرح ہوا ہے کہ شریعت نے ایک حکم کو بتانے کے لیے کبھی ایسے لفظ کا استعمال کیا ہے جو مختلف معانی کا محتمل ہوتاہے ، جس میں ہر مجتہد اپنی فہم کی بنیاد پر ایک معنی متعین کرتا ہے ، معانی کے اس اختلاف سے عمل کی مختلف شکلیں وجود میں آتی ہیں ، اس طرح سے فقہاء کے مابین نقطہٴ نظر کا اختلاف ہوجاتا ہے ، کبھی یوں ہوتا ہے کہ حکم تو نص میں صراحت کے ساتھ موجود ہوتا ہے ، اس کے تعلق سے ائمہ کے درمیان اتفاق بھی پایا جاتا ہے ؛ البتہ اس حکم کے سبب اور علت کی تلاش وجستجو میں ہر فقیہ نے دلائل وشواہد کی روشنی میں الگ راہ اپنائی ہوتی ہے ۔

چنانچہ سبب کے اختلاف سے پیش آمدہ مسائل کے حل میں فقہاء کے درمیان اختلافِ رائے ہوجاتا ہے ، کبھی یوں ہواہے کہ حضور انے ایک کام مختلف طریقے سے انجام دیا ہے ، جس راوی نے اس کام کا جو طریقہ مشاہدہ کیا ہے ، اس نے اس کونقل کیا ہے ، پھر بعد کے دورمیں اپنے مذہب اور مسلک کی بنیاد بنایا ہے ، کبھی یوں ہوا ہے کہ حضور ا کا ایک عمل دورِ اول کا ہوتاہے ، پھر آئندہ چل کر حضورِ اکرم ا کے اس عمل میں تبدیلی آچکی ہوتی ہے ؛ لیکن فقیہ کو متعین طور پر یہ بات معلوم نہیں ہوتی کہ حضور اکرم اکا کونسا عمل دورِ اول کا ہے یعنی منسوخ ہے اور کونسا عمل بعدکا ہے یعنی ناسخ ہے۔ہر فقیہ فہم واجتہاد اور قواعد وضوابط کی روشنی میں ایک عمل کو دورِ اول کا قراردے کر اس کو اپنے لیے معمول بہ بناتا ہے ، کبھی یوں ہوتا ہے کہ ہر فقیہ کے یہاں روایات میں ترجیح کے معیارات مختلف ہوتے ہیں، ایک فقیہ اپنے نقطئہ نظر سے ایک روایت کو راجح قراردیتا ہے اور دوسری کو مرجوح ؛ جب کہ دوسرے فقیہ نے اپنے معیار کے مطابق دوسری روایت کو ترجیح دی ہوتی ہے ، اس طرح سے مذاہب کا اختلاف رونما ہوتا ہے ۔

ان عملی اسباب کی بنیاد پر یہ بات سمجھنے کی ہے کہ فقہاء کے مابین یہ اختلاف تقاضائے شریعت کے عین مطابق ہے اور چونکہ یہ اختلاف واجتہاد ، اخلاص وللہیت ، تلاشِ حق ، منشائے خداوندی کو سمجھنے اور مرادِنبوی کی حقیقت کو جاننے کے لیے ہوا ہے ؛ اس لیے اس اختلاف کو مذموم اور برا نہیں کہا جاسکتا ، اگر منشائے خداوندی یہ ہوتا کہ فقہاء کے مابین اس قسم کا اختلاف بالکل رونما نہ ہوتو اللہ عزوجل ان جزوی مسائل کو بھی انھیں قطعی دلائل کے ساتھ نازل فرماتے او ران کے تعلق سے بھی روایات اسی تواتر وتسلسل کے ساتھ وارد ہوتیں جیسا کہ شریعت کے بنیادی امور اور دین کے ضروری احکام قطعی دلائل اور متواتر روایات کے ضمن میں بیان کیے گئے ہیں ؛ بلکہ شریعت نے خود یہ چاہا ہے کہ ائمہ کے درمیان جزوی مسائل میں اس طرح کا اختلاف رونما ہو ، زمانے کے حالات وضروریات اور اس کے بدلتے تقاضوں کے مطابق اس عمل کو مختلف طریقے سے انجام دیا جاسکے اور مختلف مذاہب ومسالک کی شکل میں حضور ا کی متفرق سنتیں اور طریقے زندہ ہوں اور سماج ومعاشرے میں رواج پائیں ، تنگی کے وقت سہولت کا باعث بنیں ، اس سے معلوم ہوا کہ راستی اور درستگی کو پانے کے لیے اجتہاد او رغور وتدبر کے نتیجے میں جو اختلاف رونما ہو تا ہے ، یہ اختلاف قابلِ مذمت نہیں ہوتا ، خود صحابہث میں بھی حضور اکے حینِ حیات احکام ومسائل میں دو پہلووٴں کی گنجائش تھی ، ہر شخص نے اپنی فہم وبصیرت کی بنیاد پر ایک پہلو کو متعین کر کے اس پر عمل کیا ہے ، حضور ا نے کسی بھی عمل کو رد نہیں فرمایا ہے۔

چنانچہ بخاری شریف میں حضرت عبد اللہ بن عمر ص سے یہ روایت مروی ہے کہ رسول اللہ ا نے بنوقریظہ کے واقعہ میں صحابہث سے یوں فرمایا : ”لاَ یُصَلِّیَنَّ أَحَدُکُمْ الاّ فِيْ بَنِيْ قُرَیْظَةَ“ تم میں سے کوئی شخص نمازِ عصر بنی قریظہ کے علاوہ کہیں نہ پڑھے ، راستے میں صحابہ ث نے دیکھاکہ وہا ں جاتے جاتے عصر کا وقت نکل جائے گا تو صحابہث میں دو جماعتیں ہوگئیں۔ایک جماعت نے ظاہرِ الفاظ پر عمل کرتے ہوئے راستہ میں عصر کی نماز پڑھنے سے انکار کردیا اور وہیں پہنچ کر نمازِ عصر ادا کی؛ جب کہ دوسری جماعت نے یہ کہا کہ حضور ا کے قول کا مطلب یہ ہے کہ جہاں تک ہوسکے اس قدر عجلت سے جاوٴ کہ عصر کی نماز اداکرنے کی نوبت منزلِ مقصود پر پہنچ کر آئے ، یہ مقصد نہیں کہ ہر صورت میں نماز وہیں پہنچ کر پڑھو، چاہے نماز قضاء ہوجائے ،اس جماعت نے اجتہاد کیا اوراستہ ہی میں نماز پڑھ لی ، بعد میں حضورِ اقدس ا کی خدمتِ اقدس میں یہ واقعہ بیان کیا گیا تو حضور ا نے کسی پر ملامت نہیں فرمائی (بخاری)۔

مذکورہ بالاواقعہ میں ایک جماعت نے حدیث کے ظاہری الفاظ پر عمل کیا اور بنوقریظہ پہنچنے سے پہلے نماز نہیں پڑھی ، دوسری جماعت نے اجتہاد کیا اور اس کے بعد حدیث کی جو مراد انھیں سمجھ میں آئی اس پر عمل کیا اور وقت ہونے پر راستہ میں نماز پڑھ لی ؛ یہاں تک کہ حضور انے کسی کو غلط نہیں کہا ؛ بلکہ سب کی نماز کودرست قراردیا ۔ان مختلف مسائل میں فقہاء اور مجتہدین کے مابین اختلاف واقع ہوا ہے ، اس کی نوعیت صحابہ ثکے درمیان اجتہاد کے نتیجے میں عمل کی مختلف شکلوں میں رونما ہونے والے اختلاف ہی کے مانند ہے ، یہ اختلاف ایسا ہی ہے، جیسا کہ کسی پر جنگل یا تاریک رات میں قبلہ مشتبہ ہوجائے تو وہ شخص حضور ا کی ہدایت کے مطابق غور وفکر اور تحری کے بعد اپنے غالب گمان کے مطابق سمت ِ قبلہ کا تعین کرکے اس جہت میں نمازپڑھے ، اگر مثلا چند افراد ہوں اور ہر شخص اپنی فہم کی بنیاد پر سمتِ قبلہ کے تعین کے بعد مختلف جہتوں میں نماز اداکریں ، ان کے درمیان سمتِ قبلہ کے اس اختلاف کے باوجود ازروئے حدیث سب کی نماز درست ہوجائے گی ، یہی حال ائمہ کے اختلاف کا ہے کہ سب قرآن وحدیث کو سامنے رکھ کر اجتہاد کرتے ہیں ؛ اس لیے اگر ان کے مابین اختلاف واقع ہوتو ماخذ ومرجع کے ایک ہی ہونے کی وجہ سے سب کا عمل صحیح کہلائے گا؛ البتہ مصیب کو دوہرا اجر ملے گا(ایک اصابت حق کا او رایک سعی کا ) او رمخطئ کو صرف ایک اجر ملے گا ، روایت میں ہے : ”شرعی حکم لگانے والا کوشش کرتا ہے اور صحیح بات کو حاصل کرتا ہے تو اس کو دوہرا ثواب ملتا ہے اور جب کوشش کرتا ہے او راُس سے غلطی ہوجاتی ہے تو اس کو اِکہرا ثواب ملتا ہے“(متفق علیہ ،مشکوة : ۳۲۴)اس رواویت سے پتہ چلا کہ زیادہ ثواب کا حاصل ہونا یا کم ثواب کا حاصل ہونا بہرحال یہ ان کے عند اللہ مقبول ہونے کی علامت ہے؛ البتہ حق کس کوحاصل ہے اس کا صحیح علم تو اللہ عزوجل کو ہے ؛ لیکن ہر شخص نے صواب کو اور درستگی کو پانے کی انتھک کوشش کی ہے ؛ اس لیے ہر شخص اپنے آپ کو حق پر کہہ سکتا ہے ۔

فقہاء کے مابین اختلاف کی حقیقت وحیثیت

فقہاء کے مابین فروعی مسائل میں جو اختلاف واقع ہوا ہے ، اس کے تعلق سے قابلِ توجہ امر یہ ہے کہ ان کے درمیان یہ اختلاف جائز وناجائز او رحق وباطل کا ہے ؟ یا اس اختلاف کی نوعیت محض اولیٰ ، غیر اولیٰ او رراجح، مرجوح کی ہے ، جب اکثر مسائل میں فقہاء کے مابین اس اختلاف کی حقیقت وحیثیت کا جائز لیتے ہیں تو یہ بات واشگاف ہوتی ہے کہ اس اختلاف کی حیثیت افضل ، غیر افضل راجح اور مرجوح سے زیادہ نہیں ہے ، شاذ ونادر اور بہت ہی کم مسائل میں اس قسم کا اختلاف واقع ہوا ہے ، اس اختلاف کی حقیقت ونوعیت کا تذکرہ کرتے ہوئے حضرت شاوہ ولی اللہ محدث دہلوی رقم طراز ہیں : ”فقہاء کے مابین اختلاف کی بیشتر صورتیں ، بالخصوص وہ مسائل جن میں صحابہ ث کے اقوال دونوں جانب ہیں جیسے تکبیراتِ تشریق ،تکبیراتِ عیدین اور احرام والے کا نکاح ، ابن عباسص وابن مسعود صکا تشہد ، آہستہ او رجہر کے ساتھ بسم اللہ پڑھنا، آمین کہنا ، اقامت کو جفت اورطاق کہنا او راس کے مانند دیگر مسائل میں یہ اختلاف د وباتوں میں سے بہتر بات میں تھا، نفسِ مشروعیت میں ان کے مابین بالکل اختلاف نہ تھا“(حجة اللہ البالغة بحوالہ رحمة اللہ الواسعة : ۲/۱۷۰)حضرت شاہ ولی اللہ  کی اس توضیح وتصریح کی روشنی میں اس بات کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ فقہاء ِ مذاہب کے مابین اس اختلاف کا درجہ راجح ، مرجوح ، افضل اور غیر افضل سے بڑھ کر نہیں ہے ۔

اختلافی مسائل میں صحابہ اور اسلاف کا مزاج وطریق

 فروعی مسائل میں ائمہ کے درمیان اس اختلاف کی حیثیت محض افضل غیر افضل سے زیادہ نہیں ہے، اب یہ دیکھنا ہے کہ صحابہ وتابعین اور اسلافِ امت کا اس اختلاف کے بابت کیا مزاج ومذا ق رہا ہے ؟ کیا انھوں نے اولیٰ اور غیر اولیٰ کے اس اختلاف کو حق وباطل کا اختلافف قرار دے کر اس کو امت کے درمیان انتشار وافتراق کا سبب بننے دیا ہے ؟ اور انھوں نے اسے آپس میں بحث ومناظرہ اور جدل ومناقشہ کاموضوع بنایا ہے ؟ یا اس اختلاف کو معمولی اور محض بہتر وغیر بہتر کا اختلاف گردان کر ایک دوسرے کے آراء کے احترام کو ملحوظ رکھنے کی کوشش کی ہے؟جب ہم صحابہث وتابعین اور اسلاف کے حالات وواقعات کا تتبع کرتے ہیں تو ہمیں اس میں یہ بات ملتی ہے کہ وہ لوگ اکثر وبیشتر مسائل میں آپس کے اس قسم کے اختلافِ آراء کے باوجود ایک دوسرے کے ساتھ نہایت درجہ ادب واحترام کا معاملہ کرتے تھے ، اپنی آپسی ملاقاتوں میں اس معمولی اختلاف کو نظر انداز کر کے نہایت ہی خوش روی اور خندہ پیشانی کے ساتھ پیش آتے تھے، انھوں نے اس اختلاف کے بابت کبھی بھی ایک دوسرے پر زبانِ طعن دراز نہیں کی ہے، وہ اس بارے میں اس قدر فراخ دل اور وسعت پسند واقع ہوئے تھے کہ وہ لوگ نقطہٴ نظر اس اختلاف کے باوجود ایک دوسرے کے پیچھے نماز پڑھنے سے بھی گریز نہیں کرتے تھے ؛ چونکہ وہ لوگ یہ بات اچھی طرح جانتے تھے کہ ان کا یہ اختلاف عین مقتضائے شریعت ہے؛ چنانچہ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی صحابہ وتابعین کے اس اختلاف کے بابت ایک دوسرے کے ساتھ سلوک ورویہ کاتذکرہ کرتے ہوئے یوں لکھتے ہیں :” صحابہ وتابعین او ران کے بعد کے لوگوں میں کچھ لوگ تو نماز میں بسم اللہ پڑھتے تھے ، کچھ لوگ نہیں پڑھتے تھے ، کچھ لوگ جہراً بسم اللہ پڑھتے تھے ،کچھ لوگ سراً پڑھتے تھے ، بعض حضرات فجر میں دعائے قنوت پڑھتے تھے بعض حضرات نہیں پڑھتے تھے ، بعض پچھنالگانے ، نکسیر اور قئی کو ناقضِ وضو مانتے تھے اور بعض نہیں مانتے تھے ، بعض مَامَسَّتِ النَّارُ پر وضو کرتے تھے بعض نہیں کرتے تھے ، بعض اونٹ کا گوشت کھانے سے وضو کرتے تھے ، بعض نہیں کرتے تھے ؛ مگر بایں ہمہ ایک دوسرے کے پیچھے نماز پڑھتے تھے ، خواہ وہ امام مالکی ہو یا اس کے علاوہ ہو؛ حالاں کہ مالکیہ نماز میں بسم اللہ نہیں پڑھتے تھے ، اسی طرح ہارون رشید نے پچھنے لگوائے ، پھر نیا وضو کیے بغیر نماز پڑھائی ، امام مالک نے ان کو فتوی دیا تھا کہ فصد لگوانے سے وضو نہیں ٹوٹتا اور اس کے پیچھے امام ابویوسف نے نمازپڑھی اور اس کا اعادہ نہیں کیا(حالاں کہ ان کے نزدیک بدن سے خون نکلنے سے وضو ٹوٹ جاتاہے )اسی طرح امام احمد کامذہب یہ ہے کہ نکسیر آنے اور پچھنالگانے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے؛ مگر جب ان سے مسئلہ پوچھاگیا کہ ایک شخص کے بدن سے خون نکلا اور اس نے وضو کیے بغیر نماز پڑھائی تو کیا آپ اس کے پیچھے نماز پڑھیں گے ؟ تو آپ نے جواب دیا کہ ”میں امام مالک اور حضرت سعید بن مسیب کے پیچھے نماز کیسے نہیں پڑھوں گا ․؟، یہ بھی مروی ہے کہ امام ابویوسف  اور امام محمد  عیدین کی نماز پڑھاتے تھے تو ابن عباسصکے قول کے مطابق بارہ تکبیریں کہتے تھے ؛ کیوں کہ خلیفہ ہارون رشید کو اپنے دادا کی تکبیریں پسند تھیں،امام شافعی نے ایک مرتبہ امام ابوحنیفہ  کی قبر کے قریب فجر کی نماز پڑھی تو قنوت نہ پڑھا ، پوچھاگیا تو فرمایا کہ ”صاحب قبر کے ساتھ ادب کا معاملہ کرتے ہوئے میں نے ایسا کیا ہے “اور آپ کا یہ بھی ارشاد ہے کہ ”ہم کبھی اہلِ عراق کے مذہب کی طرف اترتے ہیں۔ “ (حجة اللہ البالغہ بحوالہ رحمة اللہ الواسعة :۲/۷۱۴)

اس کے علاوہ صحابہ وتابعین اور اسلافِ امت کے بے شمار ایسے واقعات ملتے ہیں کہ انھوں نے آپس کے اس اختلاف کے سلسلے میں نہایت کشادہ دلی ، وسعتِ قلبی او راعلیٰ ظرفی کا مظاہر کیا ہے ؛ بلکہ وہ لوگ اس قسم کے اختلاف کو امت کے حق میں رحمت وبرکت قراردیتے تھے اور اسے توسع اور فراخی کا باعث گردانتے تھے ۔امام سفیان ثوری ایسے اختلافی مسائل کے بارے میں کہا کرتے تھے : ”یہ نہ کہو کہ علماء نے مسائل میں اختلاف کیا ہے ؛ بلکہ یوں کہو کہ انھوں نے امت کے لیے توسع اور فراخی پیدا کی ہے “ (المیزان الکبری بحوالہ راہِ اعتدال : ۲۳)اسی طرح امام سیوطی  نے حضرت عمر بن عبد العزیز  کا اس بارے میں یہ قول نقل کیا ہے کہ وہ یوں کہا کرتے تھے : ”اگر اصحابِ محمدا میں اس طرح کے مسائل میں اختلاف نہ ہوتا تو مجھے اس بات سے خوشی نہ ہوتی ؛ اس لیے کہ ان کے مابین اس طرح کا اختلاف نہ ہوتا تو رخصت اور وسعت نہ ہوتی“(ردالمحتار زکریا: ۱/۱۶۸)ایسے ہی خطیب بغدای نے اس تعلق سے یہ روایت نقل کی ہے کہ ہارون رشید نے ایک مرتبہ امام مالک سے یو ں کہا تھا: میرا ارادہ ہے کہ پوری اسلامی سلطنت میں آپ کی ”موطا“ کی نقل روانہ کروں اور لوگوں کو اس کے مطابق عمل کرنے پرمتفق کروں تو امام مالک نے اس موقع سے یوں فرمایاتھا:امیر الموٴمنین! ایسا نہ کیجیے ! اوروہ شہروں میں پھیل گئے ہیں اور ہر ایک کا طریقہ چل پڑاہے ، ہارون رشید نے کہا : اے ابوعبد اللہ ! اللہ تعالیٰ آپ کو توفیقِ ارزانی بخشیں! “(حجة اللہ البالغة بحوالہ رحمة اللہ الواسعة : ۲/۶۱۰، ردالمحتار زکریا : ۱۶۸)

اختلافی مسائل کے بابت ہمارا رویہ کیا ہو ؟

 اس وقت امتِ مسلمہ کو آپسی اتحاد کی جس قدر شدید ضرورت ہے ، شاید کسی دور میں رہی ہو، ایسے وقت میں چند جزوی مسائل کو لے کر گھر گھر انتشار وافتراق کا ماحول پیداکرنا ، امتِ مسلمہ کی صفوں میں پھوٹ ڈالنا، ان مسائل کو ایمان وکفر کا معیار قرار دے کر برادرانِ اسلام اور اکابرینِ امت کے حق میں تضلیل وتکفیر کا دروازہ کھولنا یہ وقت وحالات کے تقاضے کے بالکل موافق نہیں ہے ۔

آج امتِ مسلمہ جس طرح کے خطرات وحالات سے دوچار ہے ، جس طرح دشمنانِ اسلام ہمیں لقمہٴ تر بنالینے ، اپنی فوجی ، عسکری اور فکری یلغار کے ذریعہ ہمارے تانے بانے بکھیرنے ، امت کے درمیان شقاق واختلاف کا ماحول پیدا کرنے اور اسلام اور اسلافِ امت اور ہمارے فقہی ذخیرہ وسرمایہ سے (جو قرآن وحدیث کے بعد اسی کی روشنی میں استخراج واستنباط شدہ زندگی کے تمام مسائل پر حاوی مجموعہ ہے، جو اسلام کا ایک نشانِ امتیاز ہے) سے ہماری وابستگی ، تعلق اور اعتماد کو کمزور کرنے کی کوشش ہورہی ہے ، اس نازک موقع پر ہونا تو یہ تھا کہ ہم اس قسم کے معمولی موضوعات کو بالکل نہ چھیڑتے ؛ چوں کہ اس کی وجہ سے امت میں اتحاد کے بجائے اختلاف پیدا ہوگا ، فاصلے سمیٹنے کے بجائے بڑھیں گے ، دل جڑنے کے بجائے ٹوٹیں گے ، اغیار تو چاہتے ہی یہی ہیں کہ کسی طرح ہمارایہ اتحاد ٹوٹے او روہ اچانک ہمارے یہ آپسی شقاق اور بکھراوٴ سے فائدہ اٹھا کر چومکھی حملہ بول دیں؛ بلکہ ہماری غفلت ونادانی اور حالات کی نزاکت ودشواری کے عدمِ احساس نے یہ صورتِ حال اس وقت پیداکردی ہے اور دشمن ہماری صفوں میں نفاق اور شقاق پیدا کر کے کسی حد تک اپنے ناپاک اور خطرناک عزائم میں کامیاب بھی ہوچکا ہے ۔

اس وقت ہمارا طریقہٴ کار یہ ہو کہ امت کو ان غیر اہم مباحث میں الجھانے کے بجائے امت کی توانائیوں اور ان کے وقت کے قیمتی سرمایہ کو ان کے حق میں ٹھوس اور تعمیر ی کاموں میں لگائیں ، امت کی توجہ کو دینی حالت کی اصلاح ، اعمال کی طرف دعوت ، معاشرت ومعاملات کی درستگی اور غیر مسلموں میں پیغامِ حق وصداقت کو عام کرنے کی طرف مبذول کریں، اللہ تعالیٰ ہمیں توفیقِ ارزانی عطا کرے! (آمین)

***

————————————–

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ 12 ‏، جلد: 97 ‏، صفر 1435 ہجری مطابق دسمبر 2013ء

Related Posts