از: مولانا کمال اختر قاسمی‏، رکن ادارہ تحقیق و تصنیف اسلامی، علی گڑھ

اسلام نام ہے زندگی گزارنے کے اس طریقہ کاجو آخری رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے بھی انبیاء کرام علیہم السلام کا تھا،اور بعد میں آنے والی تمام انسانیت کا رہے گا،اسی طریقہ کی تبلیغ و اشاعت کے لیے دنیا میں نبیوں کا طویل سلسلہ قائم کیا گیا:

شَرَعَ لَکُمْ مِنَ الدِّیْنِ مَا وَصّٰی بِہ نُوْحًا وَّالَّذِیْ أوْحَیْنَا الَیْکَ وَمَا وَصَّیْنَا بِہ ابْرَاھِیْمَ وَمُوْسٰی وَعِیْسیٰ أنْ أقِیْمُوْا الدِّیْنَ وَلاَ تَتَفَرَّقُوْا فِیْہ․

ترجمہ: اللہ تعالی نے تمہارے لیے وہی دین مقرر کیا جس کا حکم نوح کو دیا گیا،اور جس کی وحی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کی گئی،اور جس کا حکم موسی اور عیسی کو دیا کہ دین کو قائم کرو اور اس میں اختلاف برپا مت کرو۔(شوری:۱۳)

ایسا دین جو ہمیشہ سے سارے انبیائے کرام کا ہے اور جو اللہ کے نزدیک پسندیدہ ہے،اسی کا نام اسلام ہے:

اِنَّ الدِّیْنَ عِنْدَ اللہِ الْاسْلَام (آل عمران:۱۹)

ترجمہ: اللہ کے نزدیک دین صرف اسلام ہے۔

ایسے عمومی دین میں زور زبر دستی کی گنجائش نہیں، ہر پسند اور کامیاب طریقہ کے انتخاب میں لوگوں کو اختیار دیا جاتا ہے؛ تاکہ اندازہ ہو کہ کون صحیح راستہ اختیار کرتا ہے اور کون غلط۔

قُلِ الْحَقُّ مِنْ رَبِّکُمْ فَمَنْ شَاءَ فَلْیُوْمِنْ وَمَنْ شَاءَ فَلْیَکْفُرْ، انَّا اَعْتَدْنَا لِلظَّالِمِیْنَ نَارًا․(الکہف:۲۹)

ترجمہ: اے نبی آپ کہہ دیجیے یہ حق تمہارے رب کی طرف سے ہے،اب جس کا جی چا ہے مان لے جس کا جی چاہے انکار کر دے،ہم نے ظالموں کے لیے آگ تیار کر رکھی ہے۔

مذہبی تعصب اور اسلام

اسلام اپنے افکارونظریات کو بہ زور طاقت مسلط کرنے اور اپنے مذہب و تہذیب میں دوسروں کوضم کرنے کی کوشش کرنے سے منع کرتا ہے،ارشاد خداوندی ہے :

لاَ اکْرَاہَ فِی الدِّیْنِ قَدْ تَبَیَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَيِّ فَمَنْ یَّکْفُرْ بِالطَّاغُوْتِ وَیُوٴْمِنْ بِاللہِ فَقَدِ اسْتَمْسَکَ بِالْعُرْوَةِ الْوُثْقَیٰ لاَانْفِصَامَ لَھَا(البقرہ:۲۵۶)

ترجمہ: دین کے معاملہ میں کوئی زبردستی نہیں ہے،سرکشی کے معاملہ میں ہدایت واضح ہو چکی ہے، جو معبودانِ باطل کا منکر اور اللہ پر ایمان رکھتا ہو،اس نے مضبوط سہارا تھام لیا،جو کبھی ٹوٹنے والا نہیں۔

دیگر مذہبی شعائر کو برا بھلا کہنے سے بھی منع کیا گیا ہے؛

وَلاَ تَسُبُّو الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللہِ فَیَسُبُّوا اللہَ عَدْوًا بِغَیْرِ عِلْم(انعام:۱۰۸)

ترجمہ:اللہ کے علاوہ جن معبود کو یہ لوگ پکارتے ہیں،انھیں گالیاں مت دو،کہیں ایسا نہ ہو کہ جہالت کی بنیاد پر اللہ کو گالیاں دینے لگیں۔

ہر انسان کو خواہ وہ کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتا ہواپنی اپنی عبادت گاہوں سے والہانہ عقیدت ہوتی ہے،ان کے مسمار کر دینے سے ان فسادیوں کے تئیں اس کے دل میں نفرت و عداوت کا شعلہ بھڑکتا رہتا ہے، جب بھی اسے موقع ملتا ہے اس کے جذبات مشتعل ہوجاتے ہیں اور وہ تشددو فساد پر ا ترآتا ہے،جس سے پورا شہر اور ملک دہشت و فساد کا شکار ہوجاتا ہے۔

خلیفہٴ اول حضرت ابو بکر صدیق نے کفار کے مذہبی معاملات کے تعلق سے جو معاہدہ لکھا، اس کے الفاظ اس طرح ہیں:

لاَیُھْدَمُ لَھُمْ بِیْعَةٌ وَلاَ کَنِیْسَةٌ وَلاَ قَصْرٌ مِنْ قُصُوْرِھِمْ الَّتِي کَانُوْا یَتَحَصَّنُوْنَ اذَا نَزَلَ بِھِمْ عَدُوٌّ لَھُمْ وَلَا یُمْنَعُوْنَ مِنْ ضَرْبِ النَّوَاقِیْسِ وَلاَ مِنْ اخْرَاجِ الصُّلْبَانِ فِیْ عِیْدِھِمْ.

ان کے چرچ اور کنیسے منہدم نہیں کیے جائیں گے،اور نہ کوئی ایسی عمارت گرائی جائے گی جس میں وہ ضرورت کے وقت دشمنوں کے حملہ میں قلعہ بند ہو تے ہیں،ناقوس اور گھنٹیاں بجانے کی ممانعت نہیں ہوگی،اور نہ تہواروں کے موقعوں پر صلیب نکالنے سے روکے جائیں گے، (کتاب الخراج لابی یوسف،ص:۱۷۲)

حضرت عمر نے غیر مسلموں کے حقوق کی حفاظت کے لیے جو معاہدہ تحریر فرمایا، اس کے بعض اجزا اس طرح ہیں:

”یہ امان ہے جو اللہ کے غلام امیر المومنین عمرنے اہلِ ایلیا کو دی،یہ امان جان و مال، گرجا، صلیب،تندرست و بیمار اوران کے تمام اہلِ مذہب کے لیے ہے،نہ ان کے گرجا میں سکونت اختیار کی جائے گی،نہ وہ ڈھائے جائیں گے،نہ ان کے احاطے کو نقصان پہنچایا جائے گا، نہ ان کے صلیبوں اور ان کے مال میں کمی کی جائے گی،مذہب کے بارے میں ان پر کوئی جبر نہیں کیا جائے گا،نہ ان میں سے کسی کو نقصان پہنچایا جائے گا۔“(الفاروق،ج:۲،ص:۱۳۷)

حضرت عثمان نے ان تمام معاہدوں کو اسی طرح باقی رکھا جس طرح عہدِ رسالت،حضرت ابو بکراور حضرت عمر کے عہد میں تھے۔

ایک مرتبہ غیر مسلموں کی شکایت پر آپ نے اپنے گورنرولید بن عتبہ کوایک تادیبی خط لکھا جس کا مضمون یہ تھا:

”عراق میں مقیم نجران کے باشندوں کے سردار نے آکر میرے پاس شکایت کی ہے اور مجھے وہ شرط دکھائی ہے جو عمر نے ان کے ساتھ طے کی تھی، میں نے ان کے جزیہ میں سے تیس جوڑوں کی تخفیف کر دی ہے،انھیں میں نے اللہ جَلَّ شَانُہ کی راہ میں بخش دیا ہے،اور وہ ساری زمین دے دی جو عمر نے انھیں یمنی زمین کے عوض صدقہ کی تھی،اب تم ان کے ساتھ بھلائی کرو؛ کیوں کہ یہ ایسے لوگ ہیں جنھیں ذمہ حاصل ہے،عمر نے ان کے لیے جو صحیفہ تیار کیا تھا، اسے غور سے دیکھ لو،اور اس میں جو کچھ درج ہے وہ پورا کرو“!( کتاب الخراج، اردو ترجمہ::۲۷۶)

کچھ غیر مسلموں نے حضرت علی سے ان کے گورنر عمرو بن مسلمہ کی سخت مزاجی کی شکایت کی تو حضرت علی نے گورنر کو لکھا :

”مجھے معلوم ہوا ہے کہ تمہارے علاقہ کے غیر مسلموں کو تمہاری سخت مزاجی کی شکایت ہے،اس میں کوئی بھلائی نہیں ہے،نرمی اور سختی دونوں سے کام لو؛لیکن سختی ظلم کی حد تک نہ پہنچ جائے․․․․ان کے خون سے اپنا دامن محفوظ رکھو“!

اسلام تمام انسانوں کے مذہبی معاملات کو تسلیم کرنے کے ساتھ ساتھ ان کی صحیح رہنمائی اور خدائی نظام کی دعوت دینے کا حکم بھی دیتا ہے؛ تا کہ انسان کو دنیا میں امن و سکون حاصل ہونے کے ساتھ ساتھ آخرت میں بھی پر سکون زندگی نصیب ہو۔

 دشمنوں کے ساتھ عفو ودر گزر کا معاملہ

                 دنیا کے ذخیرہٴ اخلاق میں مذہبی رواداری کے تعلق سے یہ بات نادر الوجود ہے کہ اسلام کے علاوہ کسی اور مذہب نے دشمنوں، بطور خاص مذہب و عقیدہ کی بنیاد پر جانی دشمنوں کے ساتھ عفو و درگزرکے برتاؤ کو لازمی قرار دیا ہو، اسلامی تعلیما ت میں اس طرح کے ہزاروں عملی ثبوت تاریخ کے صفحات پہ جلی قلم سے ثبت ہیں۔

قرآن مجید میں ارشاد ہے:

اِدْفَعْ بِالتِي ھِيَ أحْسَنُ فَاذَ الَّذِيْ بَیْنَکَ وَبَیْنَہ عَدَاوَةٌ کَأَنَّہ وَلِيٌّ حَمِیْم․(حمٓ السجدہ:۳۴)

ترجمہ: تم بدی کو اس نیکی سے دفع کرو جو بہترین ہو، تم دیکھو گے تمہارے ساتھ جس کی عداوت پڑی ہوئی تھی، وہ جگری دوست بن گیاہے۔

آخری رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی ان تعلیمات کا مطالعہ کیجیے جو صحیح ترین سندوں کے ساتھ ہم تک پہونچی ہیں،اندازہ ہو گا کہ دشمنوں کے ساتھ عفوو درگزر ،ہمدردی و غمخواری،اور حسن سلوک کی جو مثالیں پیش کی ہیں، معلوم دنیا کی تاریخ میں کہیں نظر نہیں آتیں،نمونہ کے لیے چند واقعات اختصار کے ساتھ پیش کیے جا رہے ہیں:

اللہ کے رسول… نے اپنے سخت ترین دشمنوں کے ساتھ بھی کبھی انتقام کا معاملہ نہیں کیا۔

اہلِ مکہ نے اللہ کے آخری رسول صلی اللہ علیہ وسلمکے ساتھ جو ظلم اور زیادتیاں کی ہیں،وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہیں متعدد مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر قاتلانہ حملہ کیا گیا،ایک مرتبہ تمام قبائل کے افراد آپ… کو قتل کرنے کے لیے گھر میں گھس آئے،بالآخر آپ کو اپنے محبوب شہراور خانہ کعبہ کو الوداع کہنا پڑا؛لیکن ۹سال بعد جب اسی شہر مکہ پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا قبضہ ہو گیا،اور سامنے وہی ظالم و جابر اب بھی موجود تھے جنہوں نے اسی شہر میں آپ… کو پورے خاندان سمیت شعب ابی طالب کی گھاٹیوں میں محصور کر کے مکمل بائیکاٹ کیا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت میں پوری توانائی صرف کر دی تھی،جب آپ… اسی شہر مکہ میں فاتحانہ داخل ہوئے،لوگ یہ سمجھ رہے تھے کہ محمد پرانے مظالم کا بدلہ لیں گے؛لیکن ہادئیِ برحق نے ان کے توقع کے خلاف یہ اعلان کردیا:

لاَ تَثْرِیْبَ عَلَیْکُمُ الْیَوْمَ یَغْفِرُ اللہُ لَکُمْ؛ اِذْھَبُوْا فَأنْتُمُ الطُّلَقَاءُ․

ترجمہ:آج تم پر کوئی الزام نہیں،اللہ تمہاری غلطی کو معاف کرے گا،جاؤ تم سب آزادہو۔ (ابن ہشام،ج:۲ص:۲۷۳)

وحشی  جورسول اللہ کے عزیز ترین چچا کا قاتل،ہند زوجہٴ ابو سفیان جس نے حضرت حمزہ کا سینہ چاک کر کے دل و جگرکوچبایا تھا، سب کو معاف کردیا۔(بخاری، کتاب المغازی،باب قتل حمزہ،بخاری کتاب الفضائل،ذکر ھند)

حضرت عکرمہ جو اسلام کے شدید ترین دشمن ابو جہل کے بیٹے ہیں،اسلام لانے سے قبل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دشمنی رکھنے میں ابو جہل سے کم نہ تھے؛لیکن جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو اللہ کے رسول… نے گرم جوشی سے ان کا استقبال کیا۔ (موطا امام مالک ،کتاب النکاح،باب نکاح المشرک)

 اور دوسری روایت میں وارد ہے کہ ان کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک پہ یہ کلمات جاری تھے:

مَرْحَبًا بِالرَّاکِبِ الْمُھَاجِرِ․ اے ہجرت کرنے والے سوار خوش آمدید۔(مشکوٰة کتاب الادب،باب المصافحة والمعانقہ،بحوالہ ترمذی)

عمروبن وہب جس کو صفوان بن امیہ نے رسول اللہ… کے قتل پرمامور کیا تھا،فتح مکہ کے روز ڈر کے مارے جدہ بھاگ گئے ،صفوان بن امیہ ہی کے کہنے پر،ان کو واپس بلا کر معافیِ عام میں شامل کیاگیا۔( سیرت ابن ہشام،ج:۲ص:۲۷۶)

ہباربن الاسود جس نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی حضرت زینب کو جب وہ حاملہ تھیں،جان بوجھ کر دشمنی کی وجہ سے اونٹ سے گرا یا،جس سے ان کو سخت اذیت پہنچی اور حمل ضائع ہو گیا، فتح مکہ کے روز جب ہبار قبضہ میں آئے تو ان کو بھی معاف کر دیا گیا۔ (اصابہ،ذکر ھبار بن الاسود،ج:۶ص:۲۷۹)

ابو سفیان جو دشمنانِ اسلام کے سردار تھے،فتحِ مکہ کے روز ان کو صرف معاف ہی نہیں کیا گیا؛ بلکہ یہ اعلان کردیاگیا کہ جو کوئی ابو سفیان کے گھر میں داخل ہو جائے اس کا قصور بھی معاف ہو جائے گا۔ (بخاری ومسلم،فتح مکة)

رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد اشعث بن قیس مرتدین کے ساتھ ہوگئے تھے، وہ جب گرفتار کر کے حضرت ابو بکرصدیق کے سامنے حاضر کیے گئے، تو اشعث نے توبہ کر لی،حضرت ابوبکرصدیق نے ان کو معاف کر دیا۔(خلفائے راشدین ص:۵۷،یعقوبی ج:۲، ص۱۴۹)

اسلام اور انسانی برادری

اسلام نے بلا تفریق مذہب وملت انسانی برادری کا وہ نقشہ کھینچا ہے، جس پر سچائی سے عمل کرلیا جائے تو یہ شر وفساد ،ظلم و جبر اور بے پناہ انارکی سے بھری ہوئی دنیاجنت نشان بن جائے،محض انسانیت کی بنیاد پر تعلق و محبت کی جو مثال اسلام نے قائم کی ہے د نیا کی کسی تعلیم،کسی مذہب اور کسی مفکر کی وہاں تک رسائی نہ ہو سکی۔آخری رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے :

ایک دوسرے سے بغض نہ رکھو، حسد نہ کرو،ایک دوسرے سے منہ نہ پھیرو،سب مل کر خدا کے بندے اور آپس میں بھائی بھائی بن جاؤ،اور ایک روایت میں ہے کہ ایک دوسرے کو دھوکہ نہ دو۔(بخاری کتاب الادب)

ایک دوسری جگہ ارشاد ہے:

جورحم نہیں کرتا اس پر رحم نہیں کیا جاتا۔(ایضاً)

تم زمین والوں پہ رحم کرو تم پر آسمان والا رحم کریگا۔(حاکم مستدرک ،کتاب البر والصلة)

اسلام کی دی ہوئی رافت ورحمت کی تعلیم میں انسان کے ساتھ جانوروں اور کیڑوں مکوڑوں کو بھی شامل کیا گیا ہے، اللہ کے رسول کا ارشاد ہے:

جو انسان کوئی درخت لگائے گا اس میں سے جو انسان یا پرندہ بھی کھائے گا،اس کا ثواب اس لگانے والے کو ملے گا۔(بخاری،کتاب الادب ،باب رحمةالناس والبھائم )

ایک مرتبہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ایسے شخص کا جس نے ایک جانور کے ساتھ حسن سلوک کیا تھا،تذکرہ کرتے ہوئے بیان کیا کہ اس کے اس کام پر بھی ثواب ملا،صحابہ نے پوچھا کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کیاجانوروں کے ساتھ بھی حسنِ سلوک کرنے میں ثواب ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہر اس چیز کے ساتھ نیک سلوک کرنے میں ثواب ہے جس میں زندگی کی تری (ترجگر) ہے۔ (بخاری،کتاب الادب ،باب رحمةالناس والبھائم)

ایک غیر مسلم بوڑھے شخص کو حضرت عمر نے بھیک مانگتے ہوئے دیکھا ،آپ نے اس کے بازو پر ہاتھ رکھ کر پوچھا تم بھیک کیوں مانگتے ہو؟اس نے جواب دیا ٹیکس ادا کرنے کے لیے اور اپنی ضرورت پوری کرنے کے لیے،حضرت عمر اس کو اپنے گھر لے گئے ،کچھ دیا اور خزانہ کے انچارج کے پاس یہ لکھ کر بھیجا کہ اس کی اور اس جیسے لوگوں کی دیکھ بھال کیا کرو،خدا کی قسم یہ انصاف نہیں ہے کہ اس کی جوانی کی کمائی ہم لوگ کھائیں اور بوڑھے ہونے پر اس کی مدد چھوڑ دیں،قران میں فقراء ومساکین کے لیے صدقہ کی اجازت ہے،فقراء تو وہی ہیں جو مسلمان ہیں،اور یہ لوگ غیر مسلم مساکین ہیں،ان سے جزیہ نہ لیا جائے،اور مسلمانوں کے بیت المال سے ایسے لوگوں کے لیے وظیفہ جاری کر دیا جائے۔(کتاب الخراج)

***

—————————————-

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ 9 – 10 ‏، جلد: 97 ‏، ذیقعدہ – ذی الحجہ 1434 ہجری مطابق ستمبر – اکتوبر 2013ء

Related Posts