از: مفتی تنظیم عالم قاسمی‏، استاذِ حدیث دارالعلوم سبیل السلام حیدرآباد

اسلام ابدی اور عالمگیر مذہب ہے، اس نے قیامت تک پیش آنے والے تمام مسائل کا صحیح حل پیش کیا ہے۔ حالات جیسے بھی ہوں، اسلام کے ضابطہٴ حیات اور اسوہٴ  رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں ماننے اور ڈھونڈنے والوں کے لیے مکمل رہنمائی موجود ہے، یہ اس دین کا اعزاز اور رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ختمِ نبوت کی واضح دلیل ہے۔ امیر ہو یا غریب، مرد ہو یا عورت، بچہ ہو یا بوڑھا، خوشی ہو یا غم زندگی کا کوئی بھی حصہ ہو، سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور حیاتِ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم میں ضرور وہ نقوش ملیں گے، جن کو اختیار کرکے ایک انسان کامیاب اور قابلِ رشک زندگی گزار سکتا ہے، یہی وجہ ہے کہ قرآنِ کریم نے تمام مسائل ومشکلات میں رسولِ رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک اور بافیض زندگی کو ہی تمام مسلمانوں کے لیے بہتر اسوہ اور نمونہ قرار دیا ہے۔ ارشاد باری ہے:

                ﴿لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِيْ رَسُوْلِ اللہِ اُسْوَةٌ حَسْنَةٌ ﴾ (الأحزاب:۲۱)

                ترجمہ:” در حقیقت تم لو گو ں کے لیے اللہ کے رسول میں ایک بہترین نمو نہ ہے “

 لیکن یہ ان لوگوں کے لیے ہے جن کا اللہ کی ذات پر کامل یقین اور اعتماد ہو، اگر اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت، صحیحِ طلب اور جستجو نہ ہو تو قرآن کی طرح ہزاروں کتابیں بھی انسان کو راہِ حق پر گامزن نہیں کرسکتیں،قرنِ اول کے مسلمانوں کے عروج وترقی اور حیر ت ناک کامیابی کا راز ان کا ایمان ویقین اور سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مکمل پیروی ہے، جن کی حکومت مشرق ومغرب اور شمال وجنوب میں پھیلی ہوئی تھی، مسلمان حاکم تھے اور غیر مسلم محکوم اور غلام، علامہ اقبال نے اس درد ناک واقعہ کو بیان کرتے ہوئے کہا :

وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہوکر

اور تم خوار ہوئے تارکِ قرآن ہوکر

آج پوری دنیا کی غیر مسلم طاقتیں اسلام کے روشن چراغ کو بجھانے کی منظم کوششیں کر رہی ہیں، یہودی، عیسائی اور کفر کی تمام جماعتیں اس مقصد کے لیے متحد ہوچکی ہیں کہ دنیا میں نہ کوئی مسلمان رہے اور نہ مسلمانوں کا تذکرہ، ٹھیک یہی صورتِ حال آج سے چودہ سوچونتیس سال پہلے مدینہ منورہ میں رسولِ اکرم اکے ساتھ پیش آئی تھی، قریش اور مشرکینِ مکہ کے علاوہ بنو قریظہ، بنونضیر، بنوغطفان، بنو مرہ، بنو کنانہ، بنو اسد، بنو سلیم، بنو سعد، قبیلہٴ اسلم، اشجع، فزارہ، اہلِ تہامہ اور عرب کے بعض دیگر قبائل نے مل کر شوال ۵ھ میں متحدہ کوشش کی تھی کہ نبوتِ محمدی کی شمع بجھ جائے، اسلام کی اٹھتی ہوئی طاقت نیست ونابود ہوجائے، دنیا سے توحید کے پرستار مٹ جائیں اور رسالت کا چرچہ باقی نہ رہے، اس زمانہ کے تمام غیر مسلموں نے ایک ساتھ منظم سازشیں کیں اور اس کے لیے متعدد حربے استعمال کیے؛ مگر رسول اللہ ا اور صحابہٴ کرام نے اپنی دانشمندی، دور بینی، ایمانی قوت، انتھک محنت اور جدوجہد کے ذریعہ یہ ثابت کردکھایا کہ

نورِ خدا ہے کفر کی حرکت پہ خندہ زن

پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا

آ ج عا لمِ اسلام یہو دی اور عیسا ئی طا قتوں کے نر غے میں ہے ‘ الحا د و دہریت کی مسموم ہوا ئیں ہر طرف چل رہی ہیں،اسلام کی مخا لفت میں ایک طو فان برپا ہے ۔مو جو دہ عا لمی حا لات میں مسلمانوں کے لیے ضروری ہے کہ با طل سا زشوں کو نا کام بنا نے کے لیے غزوہٴ احزاب وخندق کے اسوہ کو اختیار کریں، رسولِ اکرم ا نے کفرکی بھاری جمعیت کو شکست دینے کے لیے جو راہ اختیار کی یقینا وہی راہ آج بھی راہِ نجات ہے۔ کتبِ سیر کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے موقع کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے، ایسی احتیاطی تدابیر اختیار کیں، جو بڑے بڑے دانشمندوں کے تصور وخیال سے بالا تر ہیں، اس وقت کے مشرکین اور بعد کے موٴرخین اور فوجی جنرلوں نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ پیغمبرِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے اس موقع پر جو تدابیراختیا ر کیں، ان سے بہتر اور کوئی تدبیر نہیں ہوسکتی، مسلمانوں کے لیے اس واقعہ میں بڑی عبرت پوشیدہ ہے۔

 تا ریخِ اسلام سے وا قف ہر شخص جا نتا ہے کہ غز وہٴ احزاب میں کفار کی مختلف جماعتیں متحد ہو کر مسلمانوں کو ختم کردینے کا معاہدہ کرکے مدینہ پر چڑھ آئی تھیں۔ قرآنِ کریم نے ان متحدہ طاقتوں کی سا ز شوں کا نقشہ اس طرح کھینچاہے :

                ﴿إِذْ جَاؤُوکُم مِّن فَوْقِکُمْ وَمِنْ أَسْفَلَ مِنکُمْ وَإِذْ زَاغَتْ الْأَبْصَارُ وَبَلَغَتِ الْقُلُوبُ الْحَنَاجِرَ وَتَظُنُّونَ بِاللہِ الظُّنُونَا﴾(الأحزاب:۱۰)

ترجمہ:”جب دشمن اوپر سے اور نیچے سے تم پر چڑھ آ ئے، جب خوف کے مارے آنکھیں پتھرا گئیں ‘ کلیجے منہ کو آ گئے اور تم لو گ اللہ کے با رے میں طرح طرح کے گمان کر نے لگے“

اس غزوہ کا سبب سیرت نگاروں نے یہ بیان کیا ہے کہ شرارت کی وجہ سے جب نبی کریم ا نے بنو نضیر کو جلا وطن کردیا اور یہ لوگ مدینہ سے نکل کر خیبر میں قیام پذیر ہوئے تو انھوں نے ایک نہایت عظیم الشان سازش شروع کی، ان کے رؤسا میں سے حُی بن اخطب، سلام بن ابی الحقیق کنانہ بن ربیع وغیرہ ۵ھ میں مکہ مکرمہ گئے اور قریش کو مسلمانوں کے استیصال کے لیے جنگ پر آمادہ کیا، دونوں کے آپسی معاہدہ کے بعد بنو نضیر کے مذکورہ افراد عرب کے ایک بڑے اور جنگ جو قبیلہ بنو غطفان کے پاس پہنچے اور ان کو خیبر کے نخلستانوں کی نصف پیداوار کی طمع دے کر ہم خیال بنالیا۔ غطفان کے تمام قبائل بھی ساتھ ہوگئے، اس طرح ابو سفیان کم وبیش دس ہزار آدمیوں کی بھاری جمعیت اور وسائل کی فروانی کے ساتھ شوال ۵ ہجری میں مدینہ کی طرف روانہ ہوا۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دشمنوں کی نقل وحرکت کا علم ہوا تو حسبِ معمول آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہٴ کرام سے مشورہ فرمایا، حضرت سلمان فارسی نے عرض کیا! ہم اہلِ فارس کا دستور یہ ہے کہ ایسے موقع پر خندق کھود کر دشمن سے خود کو محفوظ کرلیتے ہیں اور اس کو مجبور بنا دیتے ہیں۔ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مشورہ کو قبول فرما کر خندق کھودنے کا حکم دے دیا، مدینہ میں تین جانب سے مکانات اور نخلستان کا سلسلہ تھا جو شہر پناہ کا کام دیتا تھا۔ صرف شامی رخ کھلا ہوا تھا، اس طرف آپ انے خود حدود قائم کیے، داغ بیل ڈال کر دس دس آدمیوں پر دس دس گززمین تقسیم کی گئی، خندق کی کل لمبائی تقریباً ساڑھے تین میل تھی، چوڑائی اتنی تھی کہ ایک تیز رفتار گھوڑا عبور نہ کرسکے اور گہرائی ایک اندازہ کے مطابق پانچ گز تھی۔ اس وقت مسلمان فوج کی تعداد کل تین ہزار تھی اور کل چھتیس گھوڑے تھے، معاملہ بہت سنگین تھا۔ سنگلاخ زمین تھی، موسم سرد تھا، کھانے پینے کے سامان مہیا نہیں تھے، صحابہٴ کرام رضی اللہ عنہم نے انتہائی صبر اور استقامت کا ثبوت دیا۔ ان کی زبان پر یہ اشعار جاری تھے۔

نَحْنُ الَّذِیْنَ بَایَعُوْا مُحَمَّدَا

عَلَی الْجِھَادِ مَابَقِیْنَا أبَدَا

ترجمہ:”ہم وہ لوگ ہیں جنہوں نے زندگی بھر کے لیے محمد صلی اللہ علی وسلم کے ہاتھ پر جہاد کی بیعت کرلی ہے“۔

وَاللہِ لَوْلَا اللہُ مَا اھْتَدَیْنَا

وَلَا تَصَدَّقْنَا وَلَا صَلَّیْنَا

”خدا کی قسم! اگر خدا کی ہدایت رہنمائی نہ کرتی تو ہم کو نہ ہدایت نصیب ہوتی اور نہ ہی صدقہ ونماز“

 حضرت ابوبکر صدیقص، حضرت فاروق صاور دوسرے اکابرصحابہ خندق کھودنے میں برابر کے شریک تھے۔ اپنے دامن میں مٹی اٹھا کر باہر پھینکتے، جس سے گردوغبار نے جسم کو چھپا لیا تھا، صحابہٴ کرام کے نہ چاہتے ہوئے بھی رسول اللہ ا نے ان کی دلجوئی اور امت کی تعلیم کے لیے اس سخت ترین محنت ومشقت میں برابر کا حصہ لیا۔ بھوک سے آپ ا کے شکم مبارک پر دو پتھر بندھے ہوئے تھے۔ اتفاق سے حضرت سلمان فارسی ا کے حصہ میں پتھر کی بڑی چٹان نکل آئی جس کا توڑنا عام لوگوں کے بس کی بات نہ تھی، آپ کو اس کا علم ہوا تو کدال اپنے دست مبارک میں لے کر یکے بعد دیگرے تین ضرب لگائی، تیسری مرتبہ یہ چٹان ریزہ ریزہ ہوگئی۔ آپ انے فرمایا کہ پتھر پر کدال مارنے سے جو روشنی نکلی اس میں یمن اور کسریٰ کے شہروں کے محلات دکھلائے گئے اور حضرت جبرئیل ں نے ان شہروں کے فتح ہونے کی بشارت دی ہے، اس طرح چند روز میں خندق تیار ہوگئی، مسلمان خندق کھود کر فارغ ہوئے تھے کہ ابوسفیان دس ہزار لشکر لے کر اُحد کے قریب پہنچ گیا، رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بھی تین ہزار مسلمانوں کے ہمراہ مقابلہ کے لیے کوہ سلع کے قریب جاکر ٹھہرے اور تمام بچوں اور عورتوں کو مدینہ کے ایک قلعہ میں محفوظ کردیا اور مسلمانوں کے درمیان خندق حائل تھی، جب ابو سفیان کو خندق کا علم ہوا تو بے اختیار بول اٹھا۔

”وَاللہِ انَّ ھَذِہ لَمَکِیْدَةٌ مَا کَانَتِ الْعَرَبُ تَکِیْدُھَا“

”اللہ کی قسم! یہ ایک زبردست تدبیر ہے جسے عرب نہ جانتے تھے“

چند دنوں بعد بنونضیر کے سردار حُی بن اخطب نے بنو قریظہ کو اپنی چالبازی سے اپنے ساتھ شامل کرلیا؛ جب کہ مسلمانوں کے ساتھ ان کا معاہدہ ہوچکا تھا، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کی بدعہدی کا علم ہوا تو واقعہ کی تصدیق کے لیے سعد بن معاذص اور سعد بن عبادہ ص کو بصورت وفد بھیجا اور یہ تاکید کی کہ اگر عہد شکنی کا واقعہ غلط ثابت ہو تو سب صحابہ کے سامنے کھل کر بیان کردینا اور صحیح ثابت ہو تو آکر گول مول بات کہنا، جب تحقیق وگفتگو کے بعد عہد شکنی کی تصدیق ہوئی تو وفد نے مبہم الفاظ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اطلاع دی، اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے صرف اتنا کلمہ نکلا ”حَسْبُنَا اللہُ وَنِعْمَ الْوَکِیْلُ“․

تاہم معاملہ بہت سخت تھا، سامنے سے کفار اور دیگر قبائل کی بھاری فوجیں تھیں اور پیچھے سے بنو قریظہ کا خوف، اس پر منافقین کی سرگرمیاں اور تیز ہوگئیں اور انھوں نے اہل ایمان کے حوصلے پست کرنے کے لیے طرح طرح سے نفسیاتی حملے شروع کیے، اس طرح صورت حال بھیانک ہوچکی تھی۔ شدید آزمائش کا وقت تھا، تقریباً ایک مہینہ گزر گیا نہ کھل کر فیصلہ کن جنگ ہوتی اور نہ کسی وقت بے فکری، شب وروز صحابہٴ کرام بھوکے پیاسے خندق کی نگرانی کرتے تھے، اگرچہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بنفسِ نفیس اس محنت ومشقت میں شریک تھے مگر صحابہٴ کرام کے اضطراب وبے چینی کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو شدید احساس تھا؛ اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن ارادہ کیا کہ بنو غطفان کو مدینہ طیبہ کا ایک تہائی پھل دے کر ان کو میدان سے واپس کردیا جائے، مشورہ کے طور پر قبیلہٴ اوس و خزرج کے دو بزرگ سعد بن معاذ اور سعد بن عبادہ سے اس کا ذکر کیا، تو دونوں نے عرض کیا کہ یارسول اللہ! صلی اللہ علیہ وسلم اگر یہ حکم الٰہی ہے تو قبول ہے ورنہ ہمیں ان سے مصالحت کی کوئی حاجت نہیں ہے۔ ہم ان کو تلوار کے سوا کچھ نہیں دیں گے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی اولو العزمی اور غیرت ایمانی کو دیکھ کر اپنا ارادہ ترک فرمایا؛ کیونکہ یہ اللہ کا حکم نہیں بلکہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک جنگی تدبیر تھی، ایک روز مقابل کفار نے تیر اندازی اور پتھراؤ کے ذریعہ اجتماعی طور پر اتنی شدت سے حملہ کیا کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہٴ کرام کی چار نمازیں قضاء ہوگئیں، اسی دن عرب کے چند مشہور بہادر خندق عبور کرکے مسلمانوں کی طرف آگئے تھے جن میں عمرو بن عبدود اور نوفل بن عبداللہ وغیرہ شامل تھے، حضرت علی مقابلہ میں نکلے اور عمرو بن عبدود کو جہنم رسید کیا، نوفل بھاگتے ہوئے خندق میں گرا ،اسے بھی حضرت علی نے مار ڈالا، کفار نے نوفل کی لاش پیسہ سے طلب کی؛ لیکن رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے مفت دے دی ، مستورات جس قلعہ میں تھیں، وہاں تک ایک یہودی موقع کی تلاش میں پہنچ گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پھوپھی حضرت صفیہ کی نگاہ پڑی، تو خیمہ کی ایک لکڑی سے اس زور سے اس کے سر پر ضرب لگائی کہ موقع پر ہی ہلاک ہوگیا۔ محاصرہ جس قدر طول ہوتا جاتا تھا اسلام دشمن فوجوں کی ہمت گھٹتی جارہی تھی، اسی درمیان غیبی مدد کے طور پر قبیلہٴ غطفان میں سے ایک شخص نعیم بن مسعود نے اسلام قبول کرلیا، پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلمکے مشورہ سے انھوں نے ایسی تدبیر کی کہ قریش اور بنو قریظہ میں پھوٹ پڑ گئی اور بنو قریظہ قریش کی امداد سے دست کش ہوگیا۔ اس طرح افواج کفار کی طاقت کمزور پڑ گئی، دوسری مصیبت یہ آئی کہ اللہ تعالیٰ نے ایک سخت اور سرد ہواان پر مسلط کردی جس نے ان کے خیمے اکھاڑ پھینکے، ہنڈیاں چولہوں سے الٹ دی، غبار اُڑ اُڑ کر آنکھوں میں بھرنے لگا، جس سے کفار کا تمام لشکر سراسیمہ ہوگیا۔اس غیبی مدد کا ذکر قر آنِ کریم نے اس طرح بیان کیا ہے:

﴿إِذْ جَاء تْکُمْ جُنُودٌ فَأَرْسَلْنَا عَلَیْھِمْ رِیْحاً وَجُنُوداً لَّمْ تَرَوْھَا وَکَانَ اللہُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِیْراً ﴾ (الاحزاب:۹)

ترجمہ:”جب لشکر تم پر چڑھ آ ئے تو ہم نے ان پر ایک سخت آند ھی بھیج دی اور ایسی فو جیں روانہ کیں جو تم کو نظر نہ آتی تھیں اور اللہ وہ سب کچھ دیکھ رہا تھا جو تم لو گ اس وقت کر رہے تھے۔“

 حضرت حذیفہ صجن کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کفار کے لشکر کا پتہ لگانے بھیجا تھا، ان کا بیان ہے کہ آندھی اور طوفان کے بعد ابوسفیان نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ اب یہ ٹھہرنے کا مقام نہیں ہے، ہمارے جانور ہلاک ہوگئے، چلنا پھرنا، اٹھنا،بیٹھنا مشکل ہوگیاہے، بنوقریظہ نے بھی ہمار ا ساتھ چھوڑ دیا؛ اس لیے اب گھر واپس چلو! یہ کہہ کر ابوسفیان اونٹ پر سوار ہوا اور چل دیا ،دیگر تمام فوجیں بھی واپس ہوگئیں، اس طرح مسلمانوں کو طویل مشقت کے بعد فتح حاصل ہوئی۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو جب کفار کے جانے کی اطلاع ملی تو فرمایا:

”ألآنَ نَغْزُوْھُمْ وَلاَ یَغْزُوْنَنَا نَحْنُ نَسِیْرُ الَیْھِمْ“

”اب ہم ان پر حملہ آور ہوں گے، وہ ہم پر چڑھائی نہیں کرسکیں گے ہم ہی ان پر حملہ کے لیے چلیں گے۔“

چنانچہ بعد میں ایسا ہی ہوا یعنی کفر میں اتنی طاقت نہیں رہی کہ وہ مسلمانوں پر حملہ کے لیے اقدام کرسکے۔ اس کے بعد رسولِ اکرم ا صحابہٴ کرا م کے ساتھ حمدوثنا بیان کرتے ہوئے مدینہ واپس ہوگئے۔

غزوہ ٴ خندق کاپیغام

یہاں قابلِ غور پہلو یہ ہے کہ اس غزوہ سے اسلامی ممالک اور مسلمانوں کو موجودہ حالات میں کیا روشنی ملتی ہے، آج اہلِ ایمان کس طرح اسلام مخالف طاقتوں کا مقابلہ کریں۔ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دانشمندانہ قدم اور حضراتِ صحابہ کے اخلاص واستقامت سے ہمیں کیا سبق ملتا ہے اور کس طرح؟ ترتیب وار یہ دفعات ذیل میں ذکر کیے جاتے ہیں۔

 دشمنوں کی نقل وحرکت کا علم

ابوسفیان کی نگرانی میں جب دس یا بارہ ہزار فوج مدینہ کی سَمت روانہ ہوئی تو فوراً رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کا علم ہوگیا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ نبیِ اکرم ا مدینہ طیبہ میں بے خبر بیٹھے ہوئے نہ تھے؛ بلکہ آپ اکے خبر رساں اور تحریک اسلامی کے ہمدرد اور متاثرین جو تمام قبائل میں موجود تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دشمنوں کی نقل وحرکت سے برابر مطلع کرتے رہتے تھے، جس سے مدینہ طیبہ میں قائم اسلامی ریاست کا تحفظ آسان ہوگیا تھا، آج بھی مسلمانوں کو چاہیے کہ دشمنوں کی نقل وحرکت اور اسلام دشمن تنظیموں کی خفیہ سازشوں سے باخبر رہیں،حالات سے واقفیت دفاع اور اس کے انتظام و انصرام کی راہوں کو ہموار کرتی ہے اوربروقت اضطراب وپریشانی کے خوفناک نتائج سامنے نہیں آتے، بسا اوقات رسول اللہ ا حقائق اور حالات کی اطلاع کے لیے جاسوس بھی بھیجا کرتے تھے، جیسا کہ غزوہ ٴخندق میں حضرت حذیفہ کو یہ ذمہ داری سپرد کی گئی تھی۔

 طریقہٴ جنگ اور اسلام

                خندق کھودنا فارس کا طریقہ تھا عرب اس سے واقف نہ تھے، رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سلمان فارسی کے مشورہ سے خندق کھودنے کی جنگی تدبیر اختیار کی، جس سے یہ نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ کفار کے طریقہٴ جنگ کو اختیار کرنا درست ہے، اسلام میں جنگ کا کوئی خاص طریقہ متعین نہیں ہے کہ اس کے علاوہ ناجائز یا حرام ہو؛ بلکہ یہ فوجی جنرل اور اسلامی رضاکاروں کی صوابدید پر موقوف ہے، وہ دفاع کا جو طریقہ بہتر اور مفید سمجھیں اسے اختیار کرسکتے ہیں، موقع کی نزاکت اور حالات کے اعتبار سے طریقہٴ جنگ میں تغیر وتبدل ہوسکتا ہے، اگر کسی جگہ لٹریچر یا اخبارات کے ذریعہ اسلام پر اعتراضات کیے جائیں، رسالتِ نبوی کے تقدس کو پامال کیا جائے تو مسلمانوں کے لیے ایسے وقت تلوار اور گولہ بارود کی جنگ لڑنا ناکامی کا باعث ہوگا۔ ان حالات میں تحریر و تقریر کے ذریعہ ان کے اعتراضات کا جواب دینا، ان کے ذہنوں کو صاف کرنا اور غیر اسلامی مذاہب میں پائے جانے والی کمزوریوں کی نشاندہی کرنا دفاع کا سب سے بہتر طریقہ ثابت ہوگا، اسی طرح اگر الکٹرانک میڈیا کے ذریعہ اسلام کے خلاف آواز اٹھائی جائے تو جہاں تک ممکن ہوسکے مسلم قائدین اور باشعور افراد کی ذمہ داری ہے کہ اسلامک ٹی وی چیانل، انٹر نیٹ اور دوسرے برقی طریقوں سے اس کا جواب دیں، غرض تقریر وتحریر، صحافت وخطابت، درس وتدریس، احتجاج وجلوس اور اس طرح وہ تمام کام دائرہ ٴجنگ میں شامل ہیں، جن سے دشمنوں کو اپنے مقاصد میں ناکام بنایا جاسکے، طریقہٴ جنگ وجدال پر کسی کی اجارہ داری نہیں ہے، اسلام دشمن طاقتوں کو برباد کرنے کی جو تدبیریں بہتر اور موقع کی نزاکت کے موافق ہو ں انہیں ضرور اختیار کرنا چاہیے، روایتوں سے ثابت ہے کہ غزوئہ طائف میںآ پ انے منجنیق کا استعمال کیا تھا جو کفار کا ایجاد کردہ طریقہٴ جنگ ہے، اس سے مزید اس کی تقویت ہوتی ہے۔

استقامت اور صبر

                غزوئہ خندق میں صحابہٴ کرام نے انتہائی صبرو استقامت سے کام لیا۔ بھوکے پیاسے، آلات ووسائل کی کمی اور موسم کے ناموافق ہونے کے باوجود مسلسل ایک مہینہ تک جنگ پر اڑے رہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کوجب خندق کھودنے کا حکم دیا تو پیٹ پر پتھر باندھ کر کھدائی کا کام انھوں نے اس طرح انجام دیا جیسے کہ جنات کی کوئی فوج زمین کا تخت الٹ دے، صرف چھ روز میں اتنی بڑی خندق تیار ہوگئی، ایمانی جذبات میں آکر کبھی ترانہ گاتے اور کبھی اپنے مشن کی کامیابی کے لیے خدا سے دعا کرتے، حالات بد سے بدتر ہوگئے؛ مگر ایک صحابی نے بھی اپنا قدم پیچھے نہیں ہٹایا، اس سے آج کے مسلم رضاکاروں کو سبق ملتا ہے کہ حالات جیسے بھی ہوں، جنگی محاذ سے قدم نہیں ہٹانا چاہیے۔ صبرواستقامت کامیابی کی کلید ہے، اس کے فوت ہونے سے منزل پانے کی امید نہیں کی جاسکتی۔

باحیثیت افراد کی کام میں شرکت

                حضرت ابوبکرا، حضرت عمراہی نہیں؛بلکہ خود شہنشاہِ کائنات، رسول اکرم ا خندق کھودنے میں شریک تھے، دس آدمیوں کی ٹولی کے ایک رکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی تھے، دیگر صحابہٴ کرام کی طرح آپ ا مٹی باہر پھینکتے، جس سے جسم مبارک گرد آلود ہوگیاتھا، جب کھدائی کا کام شروع ہواتو رسولِ اکر م صلی اللہ علیہ وسلم موقع پر پہنچ گئے اور اخیر تک جمے رہے۔ اس سے یہ بات اخذ ہوتی ہے کہ جماعت کے سربراہ اور باحیثیت لوگوں کے کام میں شریک رہنے سے کارکنوں کو حوصلہ ملتا ہے، کام میں قوت اور تازگی محسوس ہوتی ہے، یہی وجہ ہے کہ مسلم سپاہیوں نے پسینہ بہاتے ہوئے متواتر فاقوں کے ساتھ خندق کھودنے میں ڈٹ کر کام کیا۔ بعض صحابہ نے جب بھوک اورپیٹ پر پتھر باندھنے کا تذکرہ کیا تو حضور ا نے اپنا کپڑا اٹھا کر دکھایا، یہاں تو دو پتھر باندھنے کی نوبت آگئی ہے۔ اس سے ان کو راحت ملی اور بھوک کا احساس جاتا رہا، ایثار وقربانی کی یہ حقیقت جب ہی قائم رہتی ہے، جب کہ ساری جماعت اس میں حصہ دار ہو ؛ لیکن اگر کچھ لوگ اپنے آپ کو بالا تر رکھ کرایثار وقربانی کی ذمہ داری دوسروں کے سر ڈالنا چاہیں تو ساری جماعت سے یہ خوبی جاتی رہتی ہے، موجودہ عالمی حالات میں دینی سیاسی اور سماجی قائدین کو اس پرخاص نظر رکھنی چاہیے؛ تاکہ بات میں وزن پیدا ہو اور عام انسانوں کو تنہائی کا احساس نہ ہونے پائے۔

دشمنوں کو کمزور کرنے کی تدبیریں

                سپہ سالارِ اعظم رسولِ اکرم ا نے بنی غطفان کے ساتھ مدینہ کی تہائی پیداوار پر مصالحت کی جو راہ نکالی تھی اس سے یہ حکمت مستفاد ہوتی ہے کہ تحریک اسلامی کو شدید مخالفتوں سے بچا کرنکالنے اور شمنوں کا زور گھٹانے کے لیے اگر کبھی قدم پیچھے ہٹانا پڑے یا جھکاؤ اختیار کرنا پڑ ے تویہ ناممکن اور ممنوع چیز نہیں ہے۔ فوجی قیادت کے بہتر اوصاف میں یہ شامل ہے کہ کشمکش حالات میں کسی بھی طرح دشمنوں کی صف اتحاد میں دراڑ پیدا کردی جائے، ظاہر ہے کہ جب کسی مشن میں شریک افراد میں سے بعض قدم پیچھے ہٹالیں اور تعاون وتناصر سے دست کش ہوجائیں تو اجتماعی قوت متاثر ہوگی اور باقی لوگوں کی ہمتیں ٹوٹ جائیں گی۔ یہی حکمت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ کے دوران راہِ فرار اختیا ر کرنے والے مجاہد کے بارے میں سخت وعید بیان فرمائی ہے؛ تاکہ اسے دیکھ کر دوسرے سپاہیوں کے ثبات میں کوئی تزلزل پیدا نہ ہو، موجودہ حالات میں غزوہٴ احزاب کے اس اُسوہ پر بطور خاص عمل کرنے کی ضرورت ہے۔ جہاں تک ممکن ہوسکے کوشش کی جائے کہ غیرمسلم تنظیمیں متحد نہ ہوسکیں، جب بھی اسلام پریلغار کیے جانے میں ذہنی ہم آہنگی کا احساس ہو، مسلم قائدین اہلِ قلم اور اصحابِ نظر کوئی ایسی بات پیدا کردیں کہ مخالفین خانہ جنگی کے شکار ہوجائیں، آپس میں افتراق وانتشار پیدا ہوجائے، اس سے جنگ اور مخالفت اگر ختم نہیں ہوگی تو کم سے کم دشمنوں کا زور کافی حد تک کم ہوجائے گا۔

جنگی تدبیریں اسلام کی نظر میں

                نعیم بن مسعود نے دوران جنگ مسلمان ہونے کے بعد رسولِ اکرم ا سے عرض کیا کہ میرے مسلمان ہونے کا کسی کو علم نہیں ہے، اگر اجازت دیں تو میں بعض تدبیروں کے ذریعہ دشمنوں کی جمعیت میں پھوٹ ڈال دوں، ممکن ہے یہ ان کی ناکامی کا ذریعہ بن جائے، رسولِ اکرم ا نے ”اَلحَرْبُ خُدْعَةٌ “ (لڑائی تو اصل میں حیلہ اور تدبیر ہی کا نام ہے) کا کلیہ بیان فرما کر اجازت دی۔ پھر نعیم بن مسعود نے بنو قریظہ اور دوسرے قبائل کے درمیان پائے جانے والے اتحاد کو توڑنے میں اہم رول ادا کیا۔ اس سے یہ نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ اخلاقی حدود کے دائرہ میں رہتے ہوئے جنگ کے دوران ایسی تدبیریں اور چالیں اختیار کی جاسکتی ہیں، جن سے دشمنوں کو شکست ہو یا اسلامی دفعات کو وہ ماننے پر مجبور ہوجائیں ؛ بلکہ بعض صورتوں میں یہ تبدبیریں اشد ضروری ہوجاتی ہیں۔ ایسے موقعوں پر اگر سادگی سے بیٹھے تماشہ دیکھتے رہیں تو ہلاکت اور نقصانِ عظیم کا خطرہ ہے۔ خیبر سے بنو نضیر کے سردار حُی ٴبن اخطب نے ابوسفیان کی مدد کے لیے جب غلہ بھیجا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے روک لیا جس سے مسلمانوں کو کافی قوت ملی او ر دشمن کمزور ہوگئے، یہ بھی جنگی تدبیر تھی ؛ اس لیے کہ بھوکے پیاسے میدان جنگ میں ثابت قدم رہنا مشکل ہے یہ اور اس طرح کی مختلف تدابیر موجودہ عالمی حالات میں اختیار کی جائیں تو ممکن ہے کہ ذہنی طور پر دشمنانِ اسلام پست ہوجائیں اور ان کی قوت وطاقت کمزور پڑ جائے۔

آگے بڑھنے کا حوصلہ

                ابوسفیان نے جب گہری خندق کھودی ہوئی دیکھی تو حیرت سے کہنے لگا خدا کی قسم! یہ ایک ایسی تدبیر ہے جیسی تدبیر کرنا، ابھی تک عرب نہ جانتے تھے۔ گویا اس زمانہ کے مسلمان تدبیر اور طریقِ عمل میں اتنا زیادہ آگے تھے کہ ان کے مخالفین ان کی تدبیروں کو دیکھ کر پکاراٹھتے تھے، ہم تو ابھی تک ایسی تدبیروں سے واقف نہ تھے، آگے بڑھنے کا یہی حوصلہ تھا جس نے انھیں چمکایا، بڑھایا اور وقت کا امام بنایا۔ آج سستی، غفلت اور لاپرواہی نے ہمارے حوصلوں پر ایسی دبیز چادر ڈال دی ہے کہ ہم دوسروں کے غلام ہوگئے اور ہم نے اس پر قناعت بھی کرلی۔

جنگی کاموں میں نظم وضبط

                یوں تو زندگی کے ہر موڑ پر نظم وضبط کی ضرورت ہے؛ مگر جنگی کاموں میں اس کی اہمیت اور بڑھ جاتی ہے، پلاننگ اور نظم وضبط کے بغیر نہ کام میں تیزی پیدا ہوتی ہے اور نہ ہی اس کا نتیجہ مسرت انگیز ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اولین معرکہ ہی سے جنگی نظم کی تربیت دی تھی، غزوہ ٴ خندق میں کھدائی کا کام انتہائی نظم وضبط کے ساتھ کیا گیا تھا۔ پھر اس کی نگرانی کے لیے اور محاذ پر قابو رکھنے کے لیے جابجا چوکیاں قائم کی گئیں اور پہرے کی باریاں مقرر تھیں۔ اس کے علاوہ مسلم سپاہیوں کے درمیان باہمی شناخت کے لیے خفیہ کوڈ مقرر تھے۔ بنو قریظہ کی غداری کی اطلاع وفد نے ”عضل وقارة“ کہہ کر اشارہ میں دی؛ تاکہ عام مسلمان اضطراب کے شکار نہ ہوں، اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اگر مسلم قائدین اور مذہبی رہنماؤں کو دشمنوں کے بارے میں کوئی ایسی بات معلوم ہو، جس سے لوگوں کی ہمتیں پست ہوتی ہیں تو اس کا اِفشا نہیں کرنا چاہیے ، آج مسلمانوں میں نظم وضبط اور ڈسپلین کی حد درجہ کمی محسوس کی جارہی ہے، احتجاج وجلوس یا مظاہرے کا کوئی بھی طریقہ ہو، اس میں مسلمانوں کی اجتماعی قوت نہیں ہوتی ہے، خدمت دین سے زیادہ اپنے ادارہ کی شناخت کرانے کا جذبہ کار فرما ہوتا ہے۔ نتیجتاً ہمارے مظاہرے اور جلوس کا کوئی خاص فائدہ حاصل نہیں ہوتا ہے۔

اسلام میں مشورہ کی اہمیت

                جب رسولِ اکرم ا کو دشمنوں کی نقل وحرکت کا علم ہوا تو آپ انے صحابہٴ کرام ثسے مشورہ کیا کہ ان حالات میں ہمیں کیا کرنا چاہیے۔ ا س سے شورائی نظام کی اہمیت معلوم ہوتی ہے، اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مشورہ کی تاکید کی تھی؛ اس لیے اس موقع پر صحابہٴ کرام سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم مشورہ کیا کرتے تھے۔ میدانِ جنگ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بطور خود فیصلہ کا بڑا قدم نہیں اٹھایا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مسلم قائدین اورذمہ دار حضرات کو اپنی رائے سے کوئی کام نہیں کرنا چاہیے، اس میں اجتماعی قوت کے ساتھ اتحاد وہم آہنگی کی راہ ہموار ہوتی ہے۔

فرقہ وارانہ باتوں سے اجتناب

حضرت سلمان فارسی چونکہ دوسروں سے دس گُنا زیادہ کام کر تے تھے اور وہ انصا رمیں شامل تھے اور نہ مہا جرین میں، ان کے متعلق انصار و مہا جرین میں ایک مسابقت کی فضا پیدا ہوگئی، انصار اور مہاجرین میں سے ہر ایک ان کو اپنے گروہ میں شامل کرنا چاہتے تھے۔ اس کشمکش کا فیصلہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فر ما یا سَلْمَانُ مِنَّا أھْلَ الْبَیْت یعنی سلمان ہما رے اہلِ بیت کی ٹو لیوں میں ہیں، گو یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہدایت دی کہ دورانِ جنگ اس طرح کی فرقہ وارانہ باتوں میں پڑ کر اجتماعی قوت میں شکن پیدا نہیں کرنی چاہیے، آج مسلمان مختلف ٹکڑیوں میں بٹے ہوئے ہیں، خاندانی، مسلکی، علاقائی، لسانی ادارتی اور نہ جانے کیسی کیسی باتوں میں الجھ کر مسلمانوں نے اپنی اجتماعی قوت کھو دی ہے۔ اسلام دشمن تمام تنظیمیں اسلام کو مٹانے میں متحد ہیں؛ مگر امتِ مسلمہ میں اتحاد کا تصور بھی ناممکن معلوم ہورہا ہے۔ ظاہر ہے کہ متفرق جماعتوں اور ٹولیوں میں وہ قوت نہیں پائی جاسکتی جو اتحاد میں ہوتی ہے۔ ہر ادارہ اور تنظیم کو دوسرے کے لیے رفیق بننا چاہیے نہ کہ فریق، خاص طور پر موجودہ حالات میں اس کی سخت ضرورت ہے۔

اللہ پر یقین اور اعتماد

جب رسولِ اکرم ا کو بنو قریظہ کی غداری کی اطلاع دی گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا حسبنا اللہ ونعم الوکیل:اللہ ہمارے لیے کافی ہے اور وہ بہترین کارساز ہے۔ اس جملہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کو سبق دیا کہ تمام مصائب ومشکلات اللہ کی طرف سے آتے ہیں، لہٰذا فتح وشکست میں اللہ پر یقین واعتماد کرنا چاہیے، ایٹم بم، میزائیل، گولہ بارود اور تلوار وبندوق پر اعتماد جاہلانہ مذہب ہے، یہ ساری چیزیں اپنا اثرپہنچانے میں اللہ کی محتاج ہیں؛ مگر اللہ تعالیٰ کو کسی کی حاجت نہیں، وہ وسائل کی کمی کے باوجود بھاری جمعیت پر غالب کرسکتا ہے ، جیسا کہ جنگ بدر کی واضح مثال موجود ہے۔

جنگ کی تیاری اور اسلام

                جب ابوسفیان اور دیگر قبائل میدانِ کارزار سے واپس ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اب ہم ان پر حملہ آور ہوں گے اور وہ ہم پر حملہ آور نہ ہوسکیں گے“۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام میں اقدامی جہاد درست ہے۔یعنی حالات اگر اسلام کے مخالف ہوجائیں مسلمانوں کے لیے جینا مشکل ہوجائے تو اپنی جان ومال اور دین ومذہب کے تحفظ کے لیے ضرورتاً جنگ کی ابتداکی جاسکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآنِ کریم نے مسلمانوں کو ہمیشہ جنگ کے لیے تیار رہنے کا حکم دیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

                ﴿وَأَعِدُّواْ لَھُم مَّا اسْتَطَعْتُم مِّن قُوَّةٍ وَمِن رِّبَاطِ الْخَیْلِ تُرْھِبُونَ بِہِ عَدْوَّ اللہِ وَعَدُوَّکُمْ﴾ ( الانفال: ۶۰)

”اور ان سے مقابلہ کے لیے جس قدر بھی تم سے ہوسکے سامان مہیا رکھو، قوت سے اور پلے ہوئے گھوڑوں سے، جس کے ذریعہ سے تم اپنا رعب رکھتے ہو، اللہ کے دشمنوں اور اپنے دشمنوں پر“

                 موجودہ عالمی حالات میں مسلمانوں کو جسمانی اور مادی دونوں اعتبار سے دشمنان اسلام کے حملوں کا جواب دینے کے لیے تیار رہنے کی ضرورت ہے۔ نہ جانے کس وقت غیر مسلم مسلمانوں کی جان ومان اور عزت وآبرو پر حملہ کردیں۔

جنگ میں خواتین کا کردار

                اگرچہ اطمینان قلب کے لیے تمام خواتین اور بچوں کو قلعوں میں محفوظ کردیا گیا تھا؛ تاہم وہاں رہتے ہوئے بھی خواتین نے اونچے کردار کا ثبوت دیا۔ خواتین کے ایک کیمپ کے گرد ایک یہود ی کو چکر لگاتا ہوا دیکھاگیا۔ حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا (حضورا کی پھوپھی) نے لکڑی سے اسے ہلاک کردیا۔ جس کے بعد کسی دشمن نے ادھر آنے کی ہمت نہ کی، ایک خاتون رفیدہ کچھ دوائیں اور مرہم پٹی کا سامان لے کر محاذ پر پہنچیں اور انھوں نے زخمیوں کی خدمت کی، حضرت سعد بن معاذصکی والدہ نے بیٹے سے کہا: بیٹالپک کے جاؤ تم نے تو دیر کردی۔ (محسنِ انسانیت صفحہ: ۴۸۴) غزوئہ خندق کے علاوہ جنگ اُحد اور دوسری جنگوں میں خواتین نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ اس سے یہ نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ مردوں کے ساتھ بہ قدر ضرورت عورتوں کو بھی جنگی تدابیر میں حصہ لینا چاہیے اور انہیں بھی اس کے لیے ہر وقت تیار رہنا چاہیے۔

غیر مسلموں کے ساتھ حسنِ سلوک

                حالات جیسے بھی ہوں غیر مسلموں کے ساتھ حسنِ اخلاق باقی رکھنا چاہیے۔ باشعور اور اہلِ فہم کے قلوب پر اس کا بہتر اثر ہوتا ہے۔ غزوہٴ خندق میں حضرت علی نے جب نوفل بن عبداللہ کو قتل کیا تو مشرکین نے دس ہزار درہم رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کیے کہ اس کی لاش ہمارے حوالہ کردی جائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لا ش مفت لے جاؤ مجھے اس مال کی ضرورت نہیں۔یقینا اس سے دشمنوں کے دلوں پر اچھا اثر پڑا ہوگا۔ یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حکمت عملی تھی‘ عین اس وقت جب کہ صحابہٴ کرام کو مال کی سخت ضرورت ہے، دشمنوں کی ٹولیاں اسلام کی بنیاد اکھاڑ پھینکنے پر مصر ہیں؛ مگر آپ نے ان بھیانک اور پر خطرحالات میں بھی اخلاق اور احسان کا سلسلہ جا ری رکھا۔ ایک مر تبہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم صحا بہٴ کرام کے سا تھ بیٹھے ہوئے تھے‘ ایک یہودی کا جنازہ گزرا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم دیکھ کر کھڑے ہوگئے۔ صحابہٴ کرام نے سوال کیا: یا رسول اللہ! صلی اللہ علیہ وسلم یہ تو یہودی غیر مسلم کا جنازہ ہے، اس کے احترام کی کیا ضرورت ہے؟ آپ نے فرمایا  اِنَّ فِیْہِ لَنَفْسًا آخر وہ بھی تو انسان تھا۔ ( مشکوٰة: ۱۴۷) یہ اور اس طرح کی سیکڑوں مثالیں ہیں کہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے غیر مسلموں کے ساتھ رواداری برقرار رکھی اور تعلقات کبھی منقطع نہیں کیے۔ اس سے یہ نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ مسلمانوں کو غیر مسلموں کے ساتھ ہمیشہ اچھا برتاؤ رکھنا چاہیے، ممکن ہے وہ مسلمانوں کے حسنِ اخلاق سے متاثر ہوکر اسلام کے قریب ہوجائیں، شکوک وشبہات سے دل پاک ہوجائے؛ اس لیے کہ آپسی ملاقات سے بہت سی غلط فہمیاں خود بخود ور ہوجاتی ہیں۔ اسلام کے پھیلنے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حسنِ اخلاق کا بڑا دخل ہے، اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم غیر مسلموں کے ساتھ رواداری کا برتاؤ نہ کرتے تو بیچ میں نفرت کی دیوار حائل ہوجاتی اور اسلام کی تعلیمات انھیں سمجھنے کا موقع نہ ملتا۔ دورِ حاضر کے مشہور محقق ڈاکٹر محمد حمید اللہ حیدرآبادی نے خطباتِ بھاولپور صفحہ279 تا 281 میں اس موضوع پر لطیف بحث کی ہے۔ ہندوستان کے موجودہ حالات میں بطورِ خاص اس کے مطالعہ اور سیرت نبوی کے اس پہلو پر نگاہ رکھنے کی ضرورت ہے۔

سیرتِ نبوی تمام مرض کا علاج

                غزوہٴ خندق سے ملنے والے یہ چند نقوش اور پیغام ہیں، جن کی روشنی میں موجودہ عالمی حالات کے مسائل ومشکلات حل کیے جاسکتے ہیں۔ ہمیں یقین کرنا چاہیے کہ حالات کا کوئی بھی رخ ہو۔ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت پر عمل ہی تمام مرض کا علاج اور امن وسکون کا ذریعہ ہے۔ آج کے موجودہ حالات میں عالمِ اسلام جن پریشانیوں سے دور چارہے، ان سے نجات پانے کے لیے ایک ہی دروازہ ہے اور وہ ہے سیرتِ نبوی، اگر ایمان مستحکم ہوجائے اور ہم نبوتِ محمدی کے سچے غلام ہوجائیں تو کائنات کی تمام چیزیں ہماری عظمت پر سجدہ ریز ہوسکتی ہیں:

کی محمد سے وفا تونے ہم تیرے ہیں

یہ جہاں چیز ہے، کیا لوح وقلم تیرے ہیں

——————————————-

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ 9 – 10 ‏، جلد: 97 ‏، ذیقعدہ – ذی الحجہ 1434 ہجری مطابق ستمبر – اکتوبر 2013ء

Related Posts