وکی لیکس آزادیِ اظہار رائے اور اہانتِ رسول  صلی اللہ علیہ وسلم

از: ڈاکٹر اجمل فاروقی

ملکی اور بین الاقوامی سطح کے دو سنسنی خیز انکشافات نے اس دورِ منافقت کے رئیس المنافقین کی آزادیِ جمہوریت کے بلند بانگ دعووں کی پول کھول دی ہے۔ جولیان اسانج کی وکی لیکس کے ذریعہ لاکھوں انکشافات نے جہاں منافقوں کے سردار کو سرِبازار رسوا کیا ہے، وہیں دنیا بھر کے نام نہاد واظہار رائے کی آزادی کے علمبرداروں اور مسلم دانش فروشوں کو بھی ننگا کردیا ہے، جن کا یہ کہنا ہے کہ اگر دنیا میں نبی آخرالزماں حضرت محمد  صلی اللہ علیہ وسلم کی اہانت کے لیے طرح طرح کی سازشیں اور طریقے اختیار کیے جاتے ہیں تومسلم دنیا کو اس پر ردِّعمل نہیں کرنا چاہیے، انھیں اس طرزِعمل پر درگزر سے کام لے کر علمی انداز میں مقابلہ کرنا چاہیے۔ مسلمانوں کوآزادی کا سبق پڑھانے والے بیرونی آقا اور ان کے ڈالروں کے غلام مقامی دانشوران کہتے ہیں کہ حضور  صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اتنی کمزور تھوڑی ہے کہ ان کی پگڑی میں بم دکھادینے سے، ان کا کارٹون بار بار بنانے سے اور انھیں بار بار نشر کرنے سے آپ کی ذاتِ گرامی پر حرف آجائے گا؛ مگر یہ منطق اب وکی لیکس کے معاملہ میں مغربی منافقین کے ذریعہ نہیں اپنائی جارہی ہے اور نہ ان کے بے غیرت ایمان فروش مقامی حصہ دار واویلا مچارہے ہیں۔ مغرب نے خود یہ کیا کہ جولین اسانج کے ذریعہ کیے گئے بھانڈا پھوڑ کا حقائق کے ذریعہ مقابلہ کرنے کے بجائے میڈیا کے گلاگھوٹنے اور جولین اسانج اور اس کے معاونین کے خلاف زبردست ہمہ جہت ظلم اور سازشوں کے طریقے اپنانے شروع کردیے ہیں۔ سب سے پہلے اس کے خلاف زنا کا مقدمہ درج کراکے اس کے خلاف انٹرپول کا وارنٹ حاصل کرلیا۔ مغرب میں ایک خاص بات یہ ہے خصوصاً امریکہ میں کہ اگر کوئی مشہورآدمی حق بات کہہ دے یا مسلمان ہوجائے تو فوراً اس کے خلاف کوئی دس پندرہ سال پرانا زنا کا کیس درج ہوجاتا ہے۔ مائیکل جیکسن اور مائیک ٹائیسن کے ساتھ ہی ہوا اور اب اسانج کے ساتھ بھی یہی کیاگیا۔ وکی لیکس سے پہلے ان محترمہ کو چھ سال تک یاد ہی نہیں رہا کہ ان کی آبروریزی ہوئی ہے؟ اب اچانک ایسا یادآیا کہ انٹرپول سے وارنٹ جاری ہوگئے۔ حماس رہنما کے دوبئی کے ہوٹل میں شہید کرنے والے ۱۸/سے زیادہ ملزمین آج تک مغربی ممالک میں انٹرپول کے وارنٹ کے باوجود آزاد ہیں اوراسانج کو مفرور ہونا پڑا۔ وکی لیکس کی سائٹ کو اسی دن ہیک (غیرقانونی طور پر بند) کردیاگیا۔ اس کے معاون کو جیل میں رکھا گیا اور امریکی اہلکار کو زیرسماعت رکھا گیا ہے، جہاں جرم ثابت ہونے پراسے ۵۲/سال کی سزا ہوسکتی ہے۔ اس کا مقابلہ شعائرِاسلام کی اہانت کرنے والے ابوغریب اور بگرام ہوائے اڈے امریکی/ مغربی اہل کاروں کے رویہ سے یہ موازنہ کریں تو معلوم ہوگا کہ کس طرح کے دو پیمانے آزادی اور جمہوریت کے معاملہ میں بھی اپنائے جاتے ہیں۔ امریکی حکومت کی بے عزتی کرنے یا اس کی سیکوریٹی کو نام نہاد خطرہ پیدا کرنے پر ۵۲ سال تک کی سزا اور دنیا بھر کی غیرقانونی سازشیں اور بندشیں اور رسولِ آخرالزماں  صلی اللہ علیہ وسلم کی اہانت اور قرآن پاک کی بے حرمتی پر الٹا مسلمانوں کو وعظ ونصیحت اور صبر نما دیوّسی کی تلقین جب کہ ان کا تعلق دنیا کے ۱۲۰ کروڑ مسلمانوں کے جذبات سے ہے۔ اس کے علاوہ وکی لیکس کی معلومات کومیڈیا کے ذریعہ ایسا رخ دیا جاتا ہے جس سے مسلمان ممالک میں آپس میں تعلقات خراب ہوں یا اندرون ملک خانہ جنگی برپا ہو، بھی قابلِ غور کمینہ حرکت ہے جو ہمارا میڈیا بھی کررہا ہے اور بین الاقوامی (صہیونی) میڈیا بھی کررہا ہے۔

                دوسرا بھانڈا پھوڑا ہمارے ملک کے جی ٹو اسپیکٹرم نام کے لائسنس کی نیلامی سے متعلق ہے جس میں سرکاری احتسابی ادارہ کے مطابق سرکار کو ۴۰/ارب ڈالر کا نقصان ہوا ہے۔ اس غداری کے عمل میں کمران افسران، میڈیا، عدلیہ سبھی ناقابلِ تردید ثبوت کی بنیاد پر ملوث ہیں۔ اس عمل غداری میں ملک کے دو سب سے بڑے تجارتی گھرانوں ٹاٹا اور امبانی کے ساتھ میڈیا کے مغل اپنی نیک نامی کے پرچم گاڑنے والے گھڑیال اور انتہائی اعلیٰ سطح کے آئی․ اے․ ایس․ افسران شامل ہیں۔ ٹاٹا اور امبانی کے دھندوں کو مشورہ دینے والی اور ان کے کاروبار کے لیے حکومت میں کام کرنے والی کمپنی وبشنوی کی مالکہ نیرا رادیا کے فون حکومت ٹیپ کررہی تھی جو کہ چھ ماہ تک ٹیپ کیے گئے تھے۔ ان سے پتہ چلا کہ ان سرمایہ داروں کی سفارش میں بڑے بڑے ڈھونگی اور نام نہاد کھوجی پترکار پربھوچاؤلہ، ویرسنگھوی، شنکرائیرز گنپتی سبرامنیم، سنجے نرائن نے مختلف اوقات میں مختلف کمپنی مالکان، سرکار، اورنیرا رادیا کی کمپنی کے درمیان رابطہ یعنی دلالی کا کام کیا ہے۔ بہرحال بڑے بڑے ڈھونگی پکڑے گئے مگر ہمارے سماج میں ایک اخبار والا کہتا ہے کہ میں نے ہائی کورٹ کے جج کو ۹/کروڑ میں خریدا ہے۔ جب عدلیہ بھی آستھایا مایا کا شکار ہوتو ایسے سماج میں کون کس سے کہاں شکایت کرے؟ یہاں ٹاٹا اور ان کے حامی Privacy رازداری کے آڑ لے کر سپریم کورٹ جارہے ہیں؛ مگر اسلام اور مسلمانوں کے خلاف سچ جھوٹ پھیلانے کے لیے میڈیا بالکل بے قید رہتا ہے۔ کیا ہماری کوئی Privacy نہیں ہے؟

***

—————————————————

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ 10-11 ‏، جلد: 96 ‏، ذی الحجہ 1433 ہجری‏، محرم 1434 ہجری مطابق اکتوبر – نومبر 2012ء

Related Posts