از: مولانا اختر امام عادل قاسمی مہتمم جامعہ ربانی منوروا شریف
ڈاکٹرمحمدحمیداللہ اسلامی تاریخ کی ایک ناقابل فراموش شخصیت کا نام ہے، شہرت وعظمت کی انتہاؤں تک پہنچنے کے باوجود اعلیٰ اسلامی اقدار کے حامل، علم وفن کی گہرائیوں کے ساتھ بلندی ذات سے متصف، تعمیر عہد کے ساتھ تعمیر شخصیت کا شاندار نمونہ، جدید ترین دنیا میں بودوباش رکھنے کے باوجود اپنی جڑوں سے پوری طرح وابستہ، غفلت وسرمستی کے تمام تر امکانات کے باوجود عرفان ذات سے بے خبر نہیں، وہ بجا طور پر اس دور میں بیاباں کی شب تاریک میں قندیل رہبانی کی تمثیل تھے، فرحمہم اللہ۔
انھوں نے جس ماحول میں آنکھیں کھولیں، تعلیم وتربیت کے جو مواقع ان کو ہاتھ آئے، خدمت وسرگرمی کا جو میدان ان کو ملا، ساری دنیا میں انھیں جانے کا جس طرح موقعہ ملا اور روئے زمین کی طنابیں ان کے لیے سمیٹ دی گئیں، جدیدیت کی دنیا میں صحرانوردی کی اور عمر کا بڑا حصہ مادیت کے سمندروں کی سیاحی میں گذرا، ان سب کے باوجود اپنی ذات کے لیے انھوں نے جو روش اختیار کی، اور رنگ ونور سے آباد دنیا میں جس طرح انھوں نے تنہازندگی گذاری، وہ متقدمین صوفیاء اور اہل اللہ کی یاد تازہ کرتی ہے۔
حصولیابیاں:
* ڈاکٹر صاحب مرحوم ایک انتہائی روحانی اور صوفی گھرانے میں پیدا ہوئے، جہاں جدیدیت کی کوئی گنجائش نہیں تھی، اہل مغرب سے اس قدر بعد تھا کہ ان کی طرف سے آئی ہوئی ہر چیز سے نفرت کی جاتی تھی، انگریزی تعلیم زہرہلاہل مانی جاتی تھی، اسکولوں اور کالجوں کو اسلامی تہذیب کا مدفن تصور کیا جاتا تھا؛ چنانچہ خاندانی روایات کے مطابق ڈاکٹر صاحب کو جامعہ نظامیہ میں داخل کیاگیا، جہاں ۱۹۲۴/ میں امتیازی نمبرات سے انھوں نے کامل کا امتحان پاس کیا۔
* اسی دوران گھروالوں کی نگاہ سے بچ کر میٹرک کی تیاری کی اوراس کے امتحان میں شریک ہوئے، اللہ کی شان نتیجہ شاندار آیا، والد مرحوم کو مقامی اخبارات کے ذریعہ اس کی اطلاع ملی، ڈاکٹر صاحب کو اپنے گھریلو ماحول کی بنا پر سخت مزاحمت کا اندیشہ تھا، والد صاحب کچھ سخت گیر واقع ہوئے تھے؛ لیکن غالباً بیٹے کی شاندار کامیابی کا اثر تھا یا اور کوئی بات، وہ بالکل ناراض نہیں ہوئے؛ بلکہ انھوں نے بیٹے کے حوصلے کی ستائش کی۔
* اس سے ڈاکٹر صاحب کی ہمت کھلی اور جامعہ نظامیہ سے فراغت کے بعد اسی سال جامعہ عثمانیہ میں داخل ہوگئے، وہاں سے بی اے، ایل ایل بی اورایم اے کے امتحانات فرسٹ کلاس سے پاس کیے۔
* پھر قانون بین الممالک پر ڈی فل کی ڈگری حاصل کی۔
* اس کے بعد فرانس کی مشہور سوربون یونیورسٹی سے ڈی لٹ کیا۔
* ۱۹۳۳ء میں جرمن کی بون یونیورسٹی سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی اور پھر وہیں اردو اور عربی کے لیکچرر مقرر ہوئے۔
* ۱۹۳۸ء میں عثمانیہ یونیورسٹی میں شعبہٴ دینیات کے استاذ بنائے گئے۔
* ۱۹۴۶ء میں اقوام متحدہ میں ریاست حیدرآباد کے نمائندہ مقرر ہوئے۔
* ۱۹۴۸ء میں حیدرآباد پر پولیس ایکشن کے بعد پیرس میں جلاوطنی کی زندگی اختیار کی، وہ سقوط حیدرآباد کو بہت بڑا قومی سانحہ قرار دیتے تھے؛ چنانچہ انھوں نے ریاست حیدرآباد کے تحفظ اور عالمی برادری میں اس کی نمائندگی کی غرض سے ”حیدرآباد لیبریشن سوسائٹی“ کی بنیاد رکھی۔
* ۱۹۵۰ء میں انھیں پاکستان کا پہلا مسودئہ قانون بنانے کی دعوت دی گئی۔
* ۱۹۸۵ء میں ان کو پاکستان کا اعلیٰ ترین سویلین ایوارڈ ہلال امتیاز سے نوازا گیا جو پچیس ہزار (25000/=) امریکی ڈالر کے گرانقدر عطیہ پر مشتمل تھا۔
* بعض ذرائع (انٹرنیٹ) کے مطابق ان کو شاہ فیصل ایوارڈ کے لیے بھی نامزد کیاگیا تھا؛ لیکن انھوں نے اس کو قبول کرنے سے انکار کردیا۔
* انھوں نے فرانسیسی، جرمن، انگریزی، عربی، ترکی، فارسی اور اردو سات زبانوں میں ایک سو (۱۰۰) سے زائد کتابیں اور ایک ہزار(۱۰۰۰) سے زیادہ مقالات ومضامین لکھے۔
* قرآن کریم کا فرانسیسی اور انگریزی زبانوں میں ترجمہ کیا، جو کسی یورپی زبان میں سب سے زیادہ چھپنے والے تراجم میں ہے، ملینوں کی تعداد میں ان کافرنچ ترجمہ قرآن شائع ہوا۔
* ان کی کتاب ”تعارف اسلام“ (Introduction of Islam) دنیا کی انتہائی مقبول کتابوں میں ہے۔
* انھوں نے دنیا کے بہت سے ملکوں کا سفر کیا، دنیا کی بڑی بڑی یونیورسٹیوں نے ان کو محاضرات اور لیکچرز کی دعوت دی۔
* حکومتوں نے ان کو مہمان بنایا۔
* دنیا کے خوبصورت ترین شہر پیرس میں اقامت اختیار کی۔
* سیکڑوں لوگوں کو ان کی تعلیمات اور حسنِ اخلاق سے ایمان کی نعمت ملی․․․ وغیرہ، فَرَحِمَھُمُ اللہُ رَحْمَةً وَاسِعَةً․
فقر وبے نیازی کی جھلکیاں:
یہ وہ امتیازات ہیں جن میں سے اگر کوئی ایک یا چند کسی شخص کو حاصل ہوجائیں، تو اس کا دماغ ساتویں آسمان پرپہنچ جائے اوراس کا ہضم کرنا اس کے لیے دشوار ہوجائے؛ لیکن یہاں یہ حال کہ:
* سمندر پی کے بھی خاموش ہیں اور سات طبق آستین میں لیے بیٹھے ہیں اورکوئی نمائش نہیں۔
* بلاکی سادگی، عجز وانکسار سے سرخمیدہ، ایثار و فنا کا مجسمہ، ہر ایک کے لیے چشم وابرو بچھائے ہوئے، کچھ نہ ہونے کا احساس ہروقت حاوی۔
* وسائل وامکانات کی فراوانی کے باوجود بے سروسامانی، پیرس جیسے حسین اور جدید ترین شہر میں ایک پرانی عمارت کے چھوٹے سے اپارٹمنٹ میں تنہا زندگی گذاری، جس میں کتابوں کے علاوہ نہ کوئی رفیق اور نہ رفیقہٴ حیات۔
* ان کا فرانسیسی ترجمہ قرآن لاکھوں کی تعداد میں چھپا، اس کے چھاپنے والے کیا سے کیا بن گئے؛ مگر رائلٹی کے نام پر ایک فرینک بھی آپ نے قبول نہیں کیا۔
* ۱۹۸۷ء میں حکومت پاکستان کی طرف سے ہلال امتیاز کا ایوارڈ پیش کیاگیا؛ مگر وہ پوری رقم وہیں بیٹھے بیٹھے اسلامک ریسرچ انسٹی ٹیوٹ اسلام آباد کو عطیہ فرمادی۔
* ان کی وفات پر ترکی کے ایک صاحب قلم نے اپنے تعزیتی مضمون میں لکھا جو مجھے انٹرنیٹ پر ملا۔
”کہ ۱۹۸۳ء میں مجھے پیرس جانے کا اتفاق ہوا، میرا قیام ایک ہوٹل میں تھا، ڈاکٹر صاحب کا پتہ میرے پاس تھا، میں معلوم کرکے وہاں پہنچ گیا، ۱۸۰ سیڑھیاں عبور کرنے کے بعد ایک پرانی عمارت کی چوتھی منزل پر ایک چھوٹے سے اپارٹمنٹ کے گیٹ پر پہنچا، وہ اپارٹمنٹ میں اکیلے رہتے تھے، دروازہ پر دست دی، اندر سے کوئی جواب نہیں آ یا، تھوڑے انتظار کے بعد دوبارہ دستک دی؛ لیکن خاموشی چھائی رہی، میں دروازے پر ایک تعارفی پرچی لکھ کر چھوڑ آیا، پھر لمبے سیرو تفریح کے بعد واپس اپنے ہوٹل پہنچا تو دروازے پر ایک نوٹ منسلک دیکھا، یہ ڈاکٹرحمید اللہ صاحب کا نوٹ تھا انھوں نے لکھا تھا:
”میں معافی چاہتا ہوں، آپ نے یاد کیا، اور میرے گھر آئے، میں اپنے اپارٹمنٹ میں موجود تھا؛ لیکن میری سماعت اچھی نہیں ہے؛ اس لیے آپ کی آواز نہ سن سکا، براہ کرم میری معذرت قبول فرمائیں۔“
یعنی ایک نووارد اجنبی سے جس سے کبھی کی شناشائی نہیں، معذرت کرنے کے لیے ڈاکٹر صاحب خود ان کے ہوٹل گئے، تواضع وانکسار اور دوسروں کی عزت نفس کی رعایت کی شاندار مثال۔
مضمون نگار لکھتا ہے کہ ان کی تواضع وخاکساری، اور بلند اسلامی اخلاق دیکھ کر میں حیرت زدہ رہ گیا، میں پرچی دیکھتے ہی الٹے قدموں ڈاکٹر صاحب کے پاس واپس پہنچا، ملاقات پر ان کے اسلامی افکار وخیالات اور علوم وحقائق کے بحر بیکراں کی موجوں کا سامنا کیا تو لگا کہ اپنی زندگی کے تمام لمحات نچوڑ کر ان کے قدموں میں رکھ دوں، اس مینارئہ نور کے سایے سے اٹھاتو ساری دنیا اندھیری معلوم ہوتی تھی(www.dr.h.com)
روحانیت کا عملی نمونہ:
اگر روحانیت روح کی بالیدگی، تصوف صفائے قلب اور تقویٰ کانٹوں بھری دنیا میں دامن بچاکر گذرجانے کا نام ہے تو ڈاکٹر صاحب کی شخصیت اس کی بہترین مثال تھی، ان کی پوری زندگی اپنے تمام معاملات میں اسی محور کے گرد گردش کرتی نظر آتی ہے، ان کی شخصیت خود روحانی بالیدگی کی علامت اور صوفیانہ کمالات کی معراج تھی، ان کی روحانیت کے ثبوت کے لیے نہ کسی خاندانی پس منظر کی ضرورت ہے اور نہ شجرئہ طریق کی، ایسا عالم ربانی جو صدیوں میں کبھی خال خال ہی پیدا ہوتا ہے، جس کی پوری زندگی شریعت کے مکمل حصار میں بند ہو، جس کی ساری توانائیاں قرآن وحدیث اور قانون اسلامی کی گتھیاں سلجھانے اور بین الاقوامی علمی معیار پر ان کی نمائندگی کرتے ہوئے صرف ہوئی ہوں، جس نے اپنی تمام صلاحیتوں کا اپنی ذات کے نہیں؛ بلکہ دین اسلام کے لیے خرچ کیں، جس کے پاس اپنے لیے کچھ بھی نہیں تھا، جو غم کل جہان رکھتا تھا؛ لیکن اس کا غم بانٹنے والا کوئی نہ تھا، جس نے اپنے لیے ایک تنکا جمع نہیں کیا؛ لیکن قوم وملت کو علم وفن کی دولت جاوداں دے گیا، جس نے آسمانی ستاروں کی گذرگاہیں دریافت نہیں کیں؛ لیکن علم وفن کے سیاروں پہ کمندیں ڈالیں، جس کے بن موسے ایمان کی خوشبو پھوٹتی تھی،اور جس کا سراپا اسلامی اخلاق کا آئینہ دار تھا، اس کے لیے نہ شجرئہ طریق پوچھنے کی ضرورت ہے اور نہ یہ معلوم کرنے کی کہ ان کا سلسلہٴ بیعت کہاں تک پہنچتا ہے؟
تقویٰ کی حقیقت:
روایات میں آتا ہے کہ حضرت عمر بن الخطاب نے حضرت ابی بن کعب سے دریافت کیا کہ تقویٰ کیا ہے؟ حضرت ابی بن کعب نے فرمایا:
أمَا سَلَکْتَ طَرِیْقاً ذَا شَوْکٍ؟ قَالَ بَلیٰ قَالَ: فَمَا عَمِلْتَ؟ قَالَ شَمَّرْتُ وَاجْتَھَدْتُ، قَالَ فَذٰلِکَ التَّقْویٰ، (اوردہ ابن رجب فی شرحہ للأربعین للنووی حدیث نمبر ۱۸، الزہد الکبیر للبیھقی ص۳۶۷، تفسیر البغوی ۱/۶۰ ط طیبة، تفسیر ابن کثیر ۱/۴۱، بلوغ الارب بتقریب کتاب الشعب ۱/۴۶۷)
ترجمہ: امیرالمومنین! کیا خاردار راستے سے کبھی آپ گذرے؟ حضرت عمر نے ارشاد فرمایا کیوں نہیں، حضرت ابی نے پوچھا، پھر آپ نے کیا کیا؟ حضرت عمر نے فرمایا دامن سمیٹ کر پوری احتیاط سے نکلا، حضرت ابی نے کہا بس یہی تقویٰ ہے۔ (بعض روایات میں سائل ومسئول کے نام مختلف ہیں)
ڈاکٹر صاحب نے جدید ترین دنیا میں رہتے ہوئے جیسی موٴمنانہ اور صابرانہ زندگی گذاری، مادیت جدیدہ کی موجوں سے اپنے دامن کو بچایا، حرص وہویٰ کے صحرا میں قناعت و دیانت پر استقامت رکھی، اور نئی تہذیب کے بیابان میں پرانے چراغ جلائے، اور پھر اس چراغ سے کتنے چراغ روشن ہوئے، دلوں اور دماغوں کی بھٹیاں گرم ہوئیں، کتنوں کو علم وہنر کی گہرائی ملی اور بہت سی قدیم اسلامی دستاویزات منظرعام پر آئیں، وغیرہ۔ ایک سچے موٴمن کو اس سے بڑھ کر اور کس چیز کی ضرورت ہے؟ اوراس سے مشکل تقویٰ اور کیا ہوسکتا ہے؟
خاندانی پس منظر:
ڈاکٹر صاحب کا خاندانی پس منظر بھی اس ضمن میں بہت مثالی ہے، وہ مشائخ اور علماء کے خاندان سے تعلق رکھتے ہیں، ان کے والد ماجد مفتی ابومحمد خلیل اللہ مدراس کے ممتاز عالم دین اور بزرگ تھے، وہ مدراس سے حیدرآباد منتقل ہوگئے تھے، یہاں نظام کے عہد حکومت میں ان کو ریونیوڈپارٹمنٹ کا ڈائرکٹر مقرر کیاگیا، انھوں نے حیدرآباد میں پہلا غیرسودی مالیاتی ادارہ قائم کیا، وہ اسلامی افکار کے مشہو راسکالر تھے، غیردینی نظام سے ان کو سخت نفرت تھی، اس دور میں انگریزی تمدن کی جو وبا پھیل رہی تھی اس سے وہ بہت بیزار تھے اوراس کو پوری ملت اسلامیہ کے لیے سنگین خطرہ تصور کرتے تھے، سن وفات ۱۳۶۳ھ مطابق ۱۹۴۳/ ہے۔
دادا مولوی غوث محمد شرف الملک (۱۲۳۸ھ مطابق ۱۸۲۲/) عربی زبان وادب اور اسلامیات کے بڑے عالم ومصنف تھے، عربی، فارسی اور اردو تینوں زبانوں میں ۳۰ سے زیادہ کتابیں انھوں نے تصنیف کیں، ان کا اہم ترین کام تفسیر قرآن ”نثر المرجان فی رسم نظم القرآن“ سات جلدوں میں ہے۔
نانا مرحوم قاری محمد صبغة اللہ (۱۲۸۰ھ مطابق ۱۸۶۳/) بھی بڑے عالم ومصنف تھے، قرآن کی ایک تفسیر لکھی، مدراس کے حکمراں غلام غوث خاں (۱۲۷۲ھ مطابق ۱۸۵۵/) کے عہد حکومت میں چیف جسٹس کے عہدہ پر فائز رہے۔
جد اعلیٰ حضرت شیخ مہائمی:
یہ سلسلة الذہب مشہور صوفی بزرگ شیخ مخدوم صوفی ابوالحسن علی بن احمد بن ابراہیم بن اسماعیل المہائمی الدکنی الہندی الحنفی (۷۷۶-۸۳۵ھ مطابق ۱۳۷۴-۱۴۳۲/) تک پہنچتا ہے، (امام ابوحنیفہ کی تدوین قانون اسلامی، موٴلفہ ڈاکٹر محمد حمیداللہ، مقدمہ کتاب از حضرت مولانا محمد رضوان القاسمی بانی وناظم دارالعلوم سبیل السلام حیدرآباد ص۷ ط دارالعلوم سبیل السلام حیدرآباد ۲۰۰۴/) جن کا مزار مبارک ماہم (ممبئی) میں بحرمحیط کے قریب صدیوں سے مرجع عام وخاص ہے، ان کا تعلق جنوبی ہند کے نوائت خاندان سے تھا، طبری کے بقول نوائت عرب کے قبیلہٴ قریش کی ایک شاخ ہے جو حجاج بن یوسف کے ظلم و تشدد سے عاجز آکر مدینہ منورہ سے ہندوستان منتقل ہوگئی تھی، اور بحرہند کے ساحل پر آباد ہوئی، اس طرح شیخ گویا قرشی النسل ہیں (ابجدالعلوم للقنوجی ۳/۲۱۹ دارالکتب العلمیہ بیروت ۱۹۷۸/، نزہة الخواطر ۳/۱۰۵، معجم المطبوعات ۱۷۱۷، فہرست الکتبخانہ ۲/۸۱، الاعلام للزرکلی ۴/۷۵۲، ۷/۱۹۳)
شیخ اپنے وقت کے بڑے محقق عالم تھے، ان کو مختلف علوم وفنون پر قدرت تھی، کئی اہم کتابیں ان کی طرف منسوب ہیں، جن سے ان کے تبحرعلمی کا اندازہ ہوتا ہے، مثلاً تبصیر الرحمن وتیسیر المنان ببعض ما یشیر الیٰ اعجاز القرآن مطبوعہ دو جلدوں میں (بعض کتابوں میں اس تفسیر کا تذکرہ تفسیر رحمانی کے نام سے کیاگیا ہے) زَوَارِفُ اللَّطائِفِ فی شرح عوارف المعارف، مخطوطہ جلد اول، اراء ةُ الدقائق فی شرح مرآةِ الحقائق ط الرسالة، شرح النصوص لصدر الدین القونوی، أدلةُ التوحید، خصوصُ النعم فی شرح فُصوصِ الحکم لابن العربی (ابجدالعلوم للقنوجی ۳/۲۱۹ ط دارالکتب العلمیہ بیروت ۱۹۷۸/، ہدیة العارفین ۲/۳۱۰ نسخہ الشاملة، معجم المولفین ۷/۹ نسخہ الشاملہ)
شیخ مہائمی فلسفہٴ ابن عربی سے متأثر:
شیخ مخدوم مہائمی حضرت محی الدین ابن العربی (ولادت ۵۶۰ھ بہ مقام مرسیہ اندلس- وفات۲۸/ربیع الثانی ۶۳۸ھ) کے فلسفہٴ تصوف سے بہت متأثر؛ بلکہ اس کے بڑے وکیل تھے، اسی لیے حضرت ابن العربی کی مشہور اور معرکة الآراء کتاب فصوص الحکم کی باقاعدہ شرح لکھی۔
ڈاکٹر صاحب کے انکار وحدة الوجود کا تجزیہ:
* مجھے بڑی حیرت ہے کہ ڈاکٹر صاحب نے اپنی مشہور کتاب ”خطبات بھاولپور“ میں معذرت خواہانہ انداز میں نظریہٴ وحدة الوجود کو قبول کرنے سے انکار کیا ہے، ڈاکٹر صاحب فرماتے ہیں:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں سلوک اور تصوف کی حقیقت بس یہی تھی بعد کے زمانے میں تصور میں دوسرے تصورات بھی شامل ہونے لگے، وحدة الوجود اور وحدة الشہود کے مسائل پر بحثیں ہونے لگیں، ان چیزوں کو نبوی تصوف سے کوئی تعلق اس بنا پر نہیں ہے کہ یہ بحثیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں نہیں پائی جاتیں؛ بلکہ بعد کے لوگوں کی پیدا کردہ ہیں، اسلامی تصوف وہی ہے جس کی تفسیر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس معجزانہ جملے کے ذریعے فرمائی کہ اللہ کی عبادت یعنی اللہ کے احکام کی تعمیل اس طرح کرو گویا اللہ حاضر وناظر ہے، ہمارے اعمال اور ہمارے خیالات، ہر چیز کو دیکھ رہا ہے اگرچہ ہم اسے نہیں دیکھ سکتے۔ (خطبات بھاولپور ص ۱۸۳-۱۸۴ط حافظی بک ڈپو دیوبند)
مگر کسی چیز کا انکار محض اس بنا پر درست نہیں ہوسکتا کہ عہد نبوت میں اس مسئلہ پر کوئی بحث نہیں ہوئی، یا یہ کہ یہ اصطلاح اس زمانے میں موجود نہیں تھی، اس لیے کہ علوم قرآن وحدیث، فقہ اسلامی اور عبادات ومعاملات کی بہت سی بحثیں اور اصطلاحات عہد نبوت میں موجود نہیں تھیں اور بعد کے فقہاء ومجتہدین کے یہاں زیر بحث آئیں، مدارج احکام کی بہت سی قسمیں بعد کے مجتہدین نے قیاس واجتہاد کے ذریعہ مقرر کیں، لیکن ان کی شرعی حیثیت کو چیلنج نہیں کیاگیا، پس کسی نام یا اصطلاح کا بعد از عہد نبوت ہونا برا نہیں ہے، برا یہ ہے کہ اس کی اصل عہد نبوت میں موجو د نہ ہو، مسائل واصطلاحات کی نئی نئی شکلیں پیدا ہوتی رہیں گی،اور ہر علم وفن کے مجتہدین اپنے اپنے دور میں نئی صورتوں اور طریقوں کے بارے میں حکم شرعی کا تعین کرتے رہیں گے۔
تصوف وروحانیت بھی دیگر علوم وفنون کی طرح ایک اہم ترین علم ہے اور اس کی ضرورت بھی مسلمانوں کو اسی طرح ہے جس طرح کہ علم القرآن، علم الحدیث اور علم الفقہ کی ہے، اور دیگر تمام اسلامی علوم کی طرح اس کا سرچشمہ بھی قرآن وحدیث اور آثار سلف ہی ہیں، یہی وجہ ہے کہ دیگر علوم کی طرح علم تصوف کے مجتہدین نے بھی کام کیا اور ہر دور کے تقاضوں کے مطابق مرتبہٴ احسان کے حصول، ذوق عبادت کی آبیاری، تزکیہ اور علاج باطن کے نئے نئے طریقے وضع کیے، جن میں سے ہر ایک کی اصل قرآن وحدیث میں موجود ہے، ان میں سے کسی کو محض اس لیے چیلنج نہیں کیا جاسکتا کہ یہ اصطلاح نئی ہے۔
مثلاً حدیث میں احسان کی تعریف یہ کی گئی کہ:
أنْ تَعْبُدَ اللہَ کَأنَّکَ تَرَاہُ فانْ لَمْ تَکُنْ تَرَاہُ فانَّہ یَرَاکَ (صحیح البخاری ج۱ ص۲۷ حدیث نمبر ۵۰ ط دار ابن کثیر الیمامہ بیروت)
ترجمہ: اللہ پاک کی عبادت اس طرح کرو گویا اسے دیکھ رہے ہو، لیکن اگر اسے نہیں دیکھ سکتے تو وہ تمھیں دیکھ رہا ہے۔
اب صوفیاء نے اس حدیث پر محنت کی، اور انسان اپنی عبادات؛ بلکہ جملہ معاملات میں رب العالمین کو اپنی نگاہوں کے سامنے کس طرح مستحضر رکھ سکتا ہے؟ اور خدا کی ہر آن موجودگی کا تصور کیسے قائم ہوسکتا ہے؟ اس کے مختلف طریقے بتائے، اگر ایسا نہ کیا جاتا تو صاحب شریعت کی منشا پوری نہ ہوتی، نماز روزہ اور جملہ عبادات ومعاملات محض رسم بن کر رہ جاتے، اور خوف خدا، احساس جواب دہی اور خشوع وخضوع کے بے روح الفاظ صرف کتابوں کی زینت بن کر رہ جاتے، ریاضت ومحنت کے یہ جملہ صوفیانہ طریقے دراصل اسی منزل کے حصول کا ذریعہ ہیں جس کا نام احسان ہے، ان میں عجمی تصورات کا کوئی دخل نہیں ہے۔
وحدة الوجود ہو یا وحدة الشہود اسی مرتبہ احسان کا آخری مقام ہے، جس میں موٴمن کے قلب و نگاہ پر خدا کی موجودگی کا احساس اس درجہ غالب ہوجاتا ہے کہ ہر شے میں اسے اللہ ہی اللہ نظر آتا ہے، دنیا کی دوسری تمام چیزیں اس کی نگاہ سے مستور ہوجاتی ہیں، یہاں تک کہ کبھی خود اس کا اپنا وجود بھی مشاہدہٴ الٰہی کے انوار میں گم ہوجاتا ہے، ان دونوں مقامات کی بنیاد ہی حدیث احسان کے پہلے جزو ”کأنَّکَ تَرَاہ“ پر ہے، حدیث احسان کے دوسرے جزو (فانْ لَمْ تَکُنْ تَرَاہ) میں اس سے فروتر درجہ کی نشان دہی کی گئی ہے، جو عام مومنوں کا مقام ہے۔
میں نے ڈاکٹر صاحب کے انکار وحدة الوجود پر اظہار حیرت اس لیے کیا کہ جس حدیث کو انھوں نے وجہ انکار بنایا ہے وہ دراصل اس کے لیے وجہ ثبوت ہے۔
* باقی ڈاکٹر صاحب تصوف واحسان کے شہسواروں میں تھے، یہ ان کی خاندانی نعمت تھی اس سے انھیں انکار کیوں کر ہوسکتا تھا، وہ تصور کی اصطلاح سے بھی اتفاق رکھتے ہیں،اور اسلاف نے جو اعمال واشغال تجویز کیے ہیں ان سے بھی ان کو اختلاف نہیں ہے، ہمارے پاس تصوف پر ان کا تیار کردہ کوئی بڑا ذخیرہ نہیں ہے،اور نہ ان کی صوفیانہ زندگی کے بارے میں زیادہ معلومات ہیں، خطبات بھاولپور میں جو کچھ انھوں نے اظہار خیال فرمایا ہے، اس کی روشنی میں وہ مجھے ایک عالم ربانی اور دیدہ ور صوفی محسوس ہوتے ہیں، وہ عصر حاضر کے ان خشک نگار محققین میں نہیں تھے جن کا دماغ فکر وفن کی بلندیوں پر ہوتا ہے؛ لیکن قلب وروح میں کوئی بانکپن نہیں ہوتی،اور سوز وگداز سے بالکلیہ محروم ہوتے ہیں، ڈاکٹر صاحب دلِ دردمند اور فکرِ ارجمند دونوں کے حامل تھے، ان کے یہاں فکر وفن کی بلندی بھی تھی،اور درد دل کی گرمی اور گہرائی بھی، ان کی ذات علم وتقویٰ کا سنگم تھی، وہ مطالعہٴ کتاب اور مطالعہٴ ذات دونوں کی لذتوں سے آشنا تھے، وہ روحانیت کا مجسمہ اور تصوف کی معنویت کا عملی نمونہ تھے۔
تصوف کے بارے میں ان کے ذہنی رخ کو سمجھنے کے لیے خطبات بھاولپور سے چند اقتباسات پیش کرتا ہوں:
حقیقت احسان:
* احسان کی حقیقت کیا ہے؟ فرماتے ہیں:
”احسان کے لفظی معنی کسی چیز کو حسن عطا کرنا، خوبصورت بنادینا ہے، زندگی کا کوئی کام ہو، اسے سنوارنا اور خوبصورت طریقے سے انجام دینا یہی احسان ہے، جب ہم اس لفظ کو مذہبی اصطلاح کے طورپر استعمال کرتے ہیں، تو اس کا مفہوم یہ ہوتا ہے کہ احکام الٰہی کو سچے دل سے قبول کرنا،اور عبادت میں خلوص پیدا کرنا، ہمارے اسلاف نے اس اخلاص فی العمل کو ”سلوک“ اور ”طریقت“ کا نام دیا ہے، سلوک اور طریقت دونوں کے معنی ہیں راستہ چلنا اور اس سے مراد ہے اللہ کی طرف جانے کا راستہ، بعد میں اسی مفہوم کے لیے تصوف کا لفظ استعمال ہونے لگا“۔ (خطبات ص۱۸۲)
ضرورت احسان:
* تصوف کی اہمیت وافادیت کیا ہے؟ اور موٴمن کی عملی زندگی پر اس کے کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں؟ ڈاکٹر صاحب کا نقطئہ نظر سنیے:
بالفاظ دیگر حضور خداوندی کا تصور انسان اپنے اندر اس طرح لائے کہ اسے اللہ اپنے سامنے محسوس ہو، گویا اللہ اس کے ظاہر و باطن کو دیکھ رہا ہے، اگر ہم اپنے اندر حضور خداوندی کے تصور کو اتنا ترقی دے لیں کہ یہ تصور ہماری پوری شعوری زندگی پر حاوی ہوجائے، تو ظاہر ہے کہ ہمارے لیے یہ قطعاً ناممکن ہوگا کہ اللہ کے احکام کی خلاف ورزی اور اس سے انحراف کریں، آقا سامنے موجود اور نگرانی کررہا ہوتو کون سا غلام یا نوکر آقا کے احکام کی خلاف ورزی کی جرأت کرے گا (خطبات ص۱۸۲-۱۸۳)
صوفیانہ اعمال واشغال:
صوفیانہ اعمال واشغال، تسبیح و تہلیل اور اوراد و وظائف کے بارے میں بھی ڈاکٹر صاحب بہت واضح خیالات رکھتے ہیں، فرماتے ہیں:
”ہم اپنی اصلاح نفس اوراپنی روحانی قوتوں کو ترقی دینے کے لیے مختلف تدبیریں اختیار کرسکتے ہیں، مثلاً نفلی روزے رکھنا، تسبیح پڑھنا، نفل نمازیں پڑھنا وغیرہ وغیرہ ان کا ذکر حدیثوں میں بھی آتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے سب لوگوں کو ایک ہی طریقہ نہیں سکھلایا یعنی نوافل کے سلسلے میں کسی کو کچھ اور کسی کو کچھ بتایا، اس کی وجہ یہ تھی کہ ہر شخص کی صلاحیتیں مختلف ہوتی ہیں، اس ضمن میں یہ عرض کردوں کہ سعودی عرب کے علماء تسبیح پڑھنے کو بدعت قرار دیتے ہیں؛ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں یہ چیز نہیں تھی، ایک حبشی طالب علم جس نے فرانس میں تعلیم پائی تھی اورآج کل جدہ یونیورٹی میں ملازم ہے، اس نے مجھ سے پوچھا کہ کیا تسبیح پڑھنا جائز ہے؟ میں نے اس بارے میں کبھی تحقیق نہیں کی تھی؛ لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے کا ایک واقعہ یاد آیا، حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دعا مجھے دوہزار مرتبہ روزانہ سونے سے پہلے پڑھنے کی تاکید فرمائی، دو ہزار ایک ایسا ہندسہ ہے جس کا انگلیوں پر شمار کرنا مشکل ہے، حضرت ابوہریرہ ذہین آدمی تھے، انھوں نے ایک ڈوری لی اوراس میں دوہزارگرہیں ڈال دیں، اس کے ذریعے وہ تسبیح پڑھا کرتے تھے، اب چاہے اس تسبیح میں گرہیں ہوں یا اس کے اندر منکے ہوں یا کوئی اور چیز ہو، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا، یہ واقعہ میں نے اس حبشی طالب علم کو بھیجا، میں سمجھتا ہوں کہ وہ مطمئن ہوگیا، اس کے بعد مجھے ایک اور حدیث ملی جو صحیح بخاری میں ہے، وہ یہ کہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک عورت کے پاس سے گذرے، جس نے اپنے سامنے کنکریوں کا ایک ڈھیر رکھ لیا تھا، وہ دُرود پڑھا کرتی تھی، ایک کنکری اٹھاتی اور دُرود پڑھ کر بازو ڈال دیتی،اس کے بعد دوسری کنکری اٹھاتی، کنکریوں کا یہ ڈھیر گویا اس کی تسبیح تھی، یہ ایک غیر ترقی یافتہ طریقہ ہے؛ لیکن مقصود یہی ہے کہ ہم اپنے انجام شدہ کام کی صحیح مقدار بھول نہ جائیں اوراس ذریعے سے معلوم ہوتا رہے کہ کتنا کام ہوچکا ہے اور کتنا کام باقی ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کو جن چیزوں کی تاکید کرتے تھے ان میں نفل روزے بھی تھے اور نمازیں بھی، دُرود اور وظائف بھی، اور مختلف موقعوں پر پڑھنے کی مختلف دعائیں بھی، ہر صحابی اپنی صلاحیت اور قابلیت کے مطابق مختلف طریقے اختیار کرتا تھا۔ (خطباب ص۱۸۳)
علامہ ابن رجب حنبلی نے اپنی کتاب ”جامع العلوم والحکم“ میں عہدِ صحابہ اور عہد تابعین کے بعض ذاکرین وشاغلین کا ذکر کیا ہے جو تسبیح و تہلیل سے خاص شغف رکھتے تھے، اور اوراد کی گنتی کے لیے انگلیوں کے علاوہ تسبیح یا اور دوسرے ذریعہ کا استعمال کرتے تھے، مثلاً:
* حضرت ابوہریرہ کے پاس ایک دھاگہ تھا جس میں دو ہزار گرہیں تھیں اس پر وہ ہر روز سونے سے پہلے دو ہزار (۲۰۰۰) کا وظیفہ پورا فرماتے تھے۔ (الحلیة لابی نعیم ج۱ ص۳۸۳)
* حضرت خالد بن معدان روزانہ قرآن کے علاوہ ایک ہزار تسبیح پڑھتے تھے، وفات کے بعد نہلانے کے لیے ان کو تخت پر لٹایا گیا تو دیکھا گیا کہ ان کی انگلیاں ہل رہی ہیں گویا وہ تسبیح پڑھ رہے ہوں (الحلیة لابی نعیم ج۵ ص ۲۱۰)
* حضرت عمیر بن ہانی روزانہ ایک لاکھ تسبیحات پڑھتے تھے (الحلیة لابی نعیم ج۵ ص۱۵۷، شعب الایمان للبیہقی ص ۷۱۹)
* عبدالعزیز بن ابی رواد کہتے ہیں کہ ہمارے یہاں مکہ میں ایک عورت تھی جو روزانہ بارہ ہزار (۱۲۰۰۰) تسبیحات کا ورد کرتی تھی، مرنے کے بعد جب قبر کے پاس پہنچی تو اچانک مردوں کے ہاتھ سے اچک کر قبر میں پہنچ گئی۔ (شعب الایمان للبیہقی ص۷۲۰)
جامع العلوم کے محقق ڈاکٹر ماہریاسین الفحل نے فیض القدیر کے حوالے سے بعض عارفین کا قول نقل کیا ہے کہ:
* وَمِنْ عَلامَاتِ صِحَّةِ الْقَلْبِ أنْ لاَ یَغْتَرَّ عَنْ ذِکْرِ رَبِّہ وَلاَ یَسْأَمَ مِنْ خِدْمَتہ ولا یَأنِسَ بِغَیْرہ (فیض القدیر ج۱ ص۷-۲)
ترجمہ: قلب کے صحتمند ہونے کی علامت یہ ہے کہ اپنے رب کی یاد سے غافل نہ ہو،اور اس کی خدمت سے نہ تھکے،اور غیر سے دل نہ لگائے۔ (جامع العلوم والحکم لابی الفرج عبدالرحمن بن احمد بن رجب الحنبلی ج۱ ص۴۴۶ ط دار المعرفة بیروت ۱۴۰۸ھ)
رہا یہ کہ ڈاکٹر صاحب کا شجرئہ طریق کس سلسلے سے جڑا ہوا ہے، تو اس بارے میں مجھے کوئی واقفیت نہیں، ممکن ہے اپنے خاندانی مشائخ میں سے کسی سے منسلک ہوئے ہوں یا حضرت مولانا گیلانی سے سلسلہٴ تلمذ کی بنیاد پر خیال یہ جاتا ہے کہ انھیں سے یا ان کے پیر طریق سے رابطہ قائم کیا ہو، بہرحال ان کی زندگی میں عالمانہ اور صوفیانہ دونوں رنگ بہت نمایاں تھے، اللہ پاک ان کی مغفرت فرمائے اور ان کے درجات بلند فرمائے، آمین۔
***
————————————————–
ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ 10-11 ، جلد: 96 ، ذی الحجہ 1433 ہجری، محرم 1434 ہجری مطابق اکتوبر – نومبر 2012ء