از:محمد شمیم اختر قاسمی، شعبہٴ سنی دینیات، اے․ ایم․ یو علی گڑھ
نور نبوت کی کرنیں غار حرا کے منبع نور سے پھوٹیں تو اس کا عکس سب سے پہلے مکہ کے معاشرہ پر پڑا، کیوں کہ خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم مکہ کے ایک مشہور اور معروف قبیلہ سے تعلق رکھتے تھے۔ اس طرح اس نئے مذہب کا علم مکہ کے سرداروں اور لوگوں کو سب سے پہلے ہوا۔ مکہ میں اس وقت دو قسم کے اشخاص تھے۔ ایک وہ جو واضح طورپر کافر تھے اور دین اسلام کے کٹر مخالف۔ دوسرا طبقہ ضعیف مسلمانوں کا تھا جو کٹر مسلمان تھے۔ (خیال رہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت پر عورتوں میں سب سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے لبیک کہا۔ مردوں میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور بچوں میں سب سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا زاد بھائی حضرت علی ابن ابی طالب مشرف بہ اسلام ہوئے۔ پھر قبول اسلام کا سلسلہ آگے بڑھتا ہے) مکہ میں یہودی اور عیسائی آبادی نہ تھی، بلکہ دین ابراہیمی کی بگڑی ہوئی شکل اور بت پرستی تھی۔ اس کے برعکس مدینہ کا معاشرہ کئی اعتبار سے مکہ سے مختلف تھا۔ پہلا فرق یہ تھا کہ مکہ کی زندگی میں منافق طبقہ موجود نہیں تھا۔ کھل کر لوگ مسلمان تھے یا کھل کر کافر تھے۔ جب کہ مدینہ میں ایک بڑا طبقہ منافقوں کا پیدا ہوگیا تھا۔ یہ طبقہ مالدار، موثر اور باوقار تھا۔ اس نے اسلام کو اندر سے نقصان پہنچانے کے بڑے بڑے پلان بنائے، حتیٰ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کا پلان بھی بنایا، مگر چوں کہ اللہ تبارک و تعالیٰ آپ کی حیات پاک کا خود محافظ تھا اس لئے کوئی شخص آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل پر قادر نہیں ہوسکتا تھا: ارشاد ربانی ہے: ”واللہ یعصمک من الناس“ (النحل)
اس حفاظت کی ضمانت کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی جان کی حفاظت کے لیے پہرہ داروں کو منع کردیا اور کہہ دیا کہ جاؤ اللہ تعالیٰ نے میری حفاظت کی ضمانت دے دی ہے۔
منافقین مدینہ میں سب سے پہلا اور اہم نام عبداللہ بن ابی ابن سلول کا ہے۔ اوس اور خزرج بنی قیل کے اولاد تھے اوریمنی تھے۔ یمنی اور مضری قبائل میں باہم سخت جنگ وجدال تھا، مگر حکمت خداوندی دیکھئے کہ اپنے پاسبان پائے یمنی قبائل سے۔ یہی وجہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں اور خلفائے راشدین کے زمانے میں یمنی اور مضری تنازعات نہیں ابھرے۔ انصار مدینہ یمنی تھے اور رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم مضری تھے۔ یہ دو عناصر اسلامی تاریخ کے مطالعہ کے لیے اشد ضروری ہیں۔ ان ہی تنازعات نے نبی امیہ کے آخر میں اس حکومت کی دھجیاں اڑادیں۔ اندلس میں مسلمانوں کو جو شکست ہوئی اور حکومت کے پرخچے اڑے اس میں بھی یمنی اور مضری قبائل کے اختلاف نے اہم رول ادا کیا، لیکن حکمت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم نے اور بصیرت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم نے یمنیوں سے استمداد کے ذریعہ دونوں کے اختلاف کا خاتمہ کردیا۔ یہاں تک کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمادیا کہ ایمان تو یمن والوں کا ہے، ان کے دل نرم ہوتے ہیں اور ان کی طبیعتیں حق کے لیے کھلی ہوئی ہیں:
الایمان یمان والحکمة یمانیة انہم ارقہم قلوباً والینہم عریقة ․
ان اختلافات کے دب جانے کے بعد ہم کو اس حکمت نبوی کی عظمت محسوس ہوتی ہے کہ ایک طرف آپ نے صدیوں سے جاری کشمکش کو یمنیوں اور مضریوں کے درمیان سے ختم کردیا، دوسری طرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اوس و خزرج کے درمیان صدیوں سے برپا قبائلی جنگ کی آگ کو بھی دبا کر رکھ دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ بعاث کے شعلوں کو ہمیشہ کے لیے بجھا دیا۔ جنگ بعاث وہ آخری جنگ ہے جو اوس و خزرج کے درمیان ہوئی، جس میں سینکڑوں آدمی قتل ہوئے، اس جنگ کا ایندھن قبائلی عصبیت تھی۔
ایک بار اوس اور خزرج قبائل کے افراد مل جل کر باہم ایک چوپال میں بیٹھے محبت کی باتیں کررہے تھے کہ ادھر سے ایک یہودی جد بن شماس گزرا، اس نے دیکھا کہ اسلام نے کس طرح سے اوس و خزرج کے درمیان اختلافات کو دور کرکے محبت و خلوص کے رنگ میں رنگ دیا ہے۔ اس بوڑھے یہودی کو حسد ہوا اور اس نے ایک نوجوان یہودی کو وہ نظمیں یاد کرائیں جو بعاث کے جنگ کے بارے میں اوس کے شاعروں اور خزرج کے شاعروں نے کہی تھیں۔ نظم یاد کرانے کے بعد اس نے اس نوجوان کو حکم دیا کہ تم جاؤ اور جاکر اوس و خزرج کے مجمع میں بیٹھ کر انہیں یہ نظم سناؤ۔ اس نے جب ان متاثرانہ نظموں کو سنایا تو اوس و خزرج کے اندر قبائلی جذبات بھڑک اٹھے اور دونوں بولے کہ پھر دو دوہاتھ ہوجائے۔ یہاں تک کہ اسلحہ لیکر دونوں جنگ کے لیے میدان میں پہنچ گئے۔ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اس واقعہ کی خبر ہوئی تو آپ سرعت کے ساتھ میدان جنگ میں پہنچے۔ فریقین کو روکا اور فرمایا کہ:
”میں تمہارے درمیان زندہ موجود ہوں اور تم جاہلیت کی جنگ کرنے جارہے ہو۔“
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نصیحت پر فریقین نے سمجھ لیا کہ یہ شیطانی نرغہ اور یہودیوں کی سازش تھی۔ چنانچہ ان دونوں قبائل نے توبہ کی، ایک دوسرے کے گلے ملے اور محبت کے ساتھ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی قیادت میں واپس آئے۔
اس واقعہ سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ مدینہ کے معاشرہ میں قبائلی عصبیت کی اور نفرت کی کیسی کیسی چنگاریاں پوشیدہ تھیں۔ ان میں سے ہر چنگاری شجر اسلام کو جڑ سے اکھاڑنے اور خاکستر کرنے کے لیے کافی تھی، لیکن حکمت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی ژرف نگاہی نے سارے عناصر کو دبارکھا تھا۔ ورنہ یہودیت اور نفاق دو بڑے زہر ناک عناصر تھے۔
عبداللہ بن ابی ابن سلول اپنی دادی کے نام سے معرو ف تھا۔ اس کی دادی کا نام سلول تھا، وہ ابن سلول کہلاتا تھا۔ جنگ بعاث کے بعد اس نے زیادہ اہمیت اختیار کرلی تھی۔ اور اوس و خزرج دونوں نے متفقہ طور پر طے کرلیا تھا کہ عبداللہ بن ابی کو مدینہ کا بادشاہ بنادیا جائے گا۔ اس کو تاج پہنانے کی ساری تیاریاں بھی کرلی گئی تھیں، اس درمیان میں نبوت کی شعاعیں مدینہ میں پڑیں، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں نے مدینہ کی طرف ہجرت کی۔ اس وجہ سے صورت حال بدل گئی۔
عبداللہ بن ابی ابن سلول نہایت متمول تھا، بہت خوبصورت اور دل کش شخصیت کا مالک تھا۔ مدینہ میں اس کا طوطی بولتا تھا، وہ قبیلہ خزرج کا سردار تھا، یاد رہے کہ خزرج بڑا قبیلہ تھا اور اوس اس کے مقابلہ میں چھوٹا۔ یہی وجہ ہے کہ اوس نے اپنے افراد کی قلت کے باعث دو یہودی قبائل سے دوستی کررکھی تھی، بن نضیر اور بنی قریظہ سے۔ جب کہ خزرج نے معاہدہ کررکھا تھا بنی قینقاع سے جو نسبتاً چھوٹا قبیلہ تھا۔ اس پس منظر میں تعجب ہوتا ہے کہ انھوں نے اندر سے کوئی بڑی بغاوت کیوں نہیں کی اور اسلام کو پھیلنے دیا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی قیادت کو بظاہر تسلیم کرلیا۔ مگر خدا کا کرنا کہ خود اس کا بیٹا عبداللہ بن عبداللہ بن ابی بن سلول مخلص مسلمان ہوگیا اور ان کی بیٹی جمیلہ بھی مسلمان ہوگئی تھیں۔ اس کے داماد حنظلہ بن عامر راہب شہید ہوئے اور غسیل ملائکہ کہلائے۔
بہرحال اس نے اپنی تاج پوشی کی تقریب کا انتظار کیا، مگرجب بدر کے موقعہ پر ۲ھء میں اسلام کی کھلی فتح ہوئی اور سارے سرداران مکہ قتل کردئیے گئے تو یہود مدینہ بھی ڈر گئے۔ اس وقت خوف کی وجہ سے اور مسلمانوں کی طاقت بڑھ جانے کی وجہ سے ابن سلول مسلمان ہوگیا،لیکن اس کا اسلام ظاہری تھا، اندر سے کافر تھا۔ نہ صرف یہ کہ منافق تھا بلکہ منافقوں کا سردار بن گیا۔ تین سو منافقین مرد اور ستر عورتیں منافقات ان کی قیادت میں تھیں۔ یہ لوگ مسلمانوں کے اندر اپنا اثر رکھتے تھے اور مسلمان کہلاتے تھے، روزہ نماز کرتے تھے مگر ظاہر میں۔ اندر اندر اسلام کے خلاف سازش میں مشغول تھے، کوئی موقع سازش کا اور مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کا اپنے ہاتھ سے جانے نہیں دیتے تھے۔ اس لیے ان سے نپٹنا آسان نہ تھا۔ یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ژرف نگاہی، تحمل و بردباری اور اعلیٰ اخلاق کا کرشمہ تھا کہ اس طبقہ کے ساتھ نہایت فاضلانہ اخلاق کا مظاہرہ کیا اور منافقوں کے نہایت رزائل اخلاق کو برداشت کیا۔
جنگوں میں منافقین نہیں جاتے تھے اور جاتے تھے تو فتنہ پھیلایا کرتے تھے۔ عبداللہ بن سلول بھی عام طور سے غزوات میں شریک نہیں ہوتے تھے۔ ان کی مدینہ میں عظمت اور قبیلہ خزرج میں اہمیت بہت زیادہ تھی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بھی ان کی عزت کرتے تھے۔ خزرجی صحابہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا کرتے تھے کہ : یا رسول صلی اللہ علیہ وسلم اس پررحم کیجئے۔ اس لیے کہ یہ تصور رکھتے ہیں کہ مدینہ میں آپ کی آمد سے ان کی بادشاہت چلی گئی۔ اس لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم بھی ان کی دل دہی کیا کرتے تھے۔ ورنہ اندیشہ تھا کہ ان کے قتل اور سخت سزا سے اسلام کا اتحاد ختم ہوجائے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کو کبھی کوئی سزا نہیں دی گئی۔ ایک دوسری بات یہ کہ اتنے بڑے سردار کے خلاف گواہی نہ مل سکی۔
غزوئہ بنی المصطلق میں عبداللہ بن ابی ابن سلول شریک تھے۔ پانی کے لیے ایک جہنی صحابی اور مہاجر صحابی میں جھگڑا ہوا، جہنیوں نے انصار کو مدد کے لیے پکارا۔ مہاجر نے مہاجرین کو آواز دی۔ اس موقع پر ابن سلول نے انصار کو مخاطب کرکے کہا کہ یہ تم سب کا بڑا کارنامہ ہے، تم ان مہاجرین کو اپنے گھر لے آئے، اپنا آدھا مال دے دیا اور ان پر پیسہ خرچ کررہے ہو، میں کہتا ہوں کہ تم ان کی مدد کرنا چھوڑ دو تو یہ سب کہیں اور بھاگ جائیں گے، مدینہ چل کر میں دیکھوں گا کہ عزت والے ذلت والے کو نکال دیں گے۔ اس وقت ایک نوجوان صحابی ارقم بن ارقم موجود تھے، انھوں نے جاکر پورے واقعہ کی اطلاع حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو دے دی۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے خاموشی اختیار کی، مگر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی غیرت ایمانی کو جنبش ہوئی، انھوں نے فرمایا: یا رسول اللہ حکم دیجئے کہ میں اس کی گردن قلم کردوں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے عمر لوگ کہیں گے کہ محمد اپنے ساتھیوں کو قتل کرتے ہیں۔
اس واقعہ کی شدت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ جب ایک صحابی نے کہا کہ ابن سلول کو قتل کردینا چاہیے تو دوسرے صحابی جو خزرج کے تھے اور ابن سلول کے ہم قبیلہ تھے بگڑگئے اور بولے کہ تم ابن سلول کو قتل نہیں کرسکتے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے معاملہ کو ٹھیک کیا۔ جب ابن سلول کو معلوم ہوا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو پورے واقعہ کی اطلاع ہوگئی ہے تو وہ سرعت سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پہنچا اور قسم کھاکر کہا کہ میں نے کچھ نہیں کہا ہے۔ اس واقعہ کے کچھ دیر بعد سورہ المنافقون نازل ہوئی، جس سے ابن سلول کی جھوٹی قسم واضح ہوئی اور حضرت ارقم بن ارقم کی رپورٹ صحیح ثابت ہوئی۔ حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ارقم کو بلاکر سورہ منافقون سنادی۔ اب خدشہ یہ تھا کہ خزرج اور مہاجرین میں اختلاف نہ شروع ہوجائے، اس لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے سفر کا حکم دے دیا، حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت سفر نہیں کرتے تھے اور پھر پورے دن اورپوری رات سفر کرتے رہے، جب تھک گئے تو صحابہ کرام کو پڑاؤ ڈالنے کا حکم دیا، سارے لوگ سوگئے۔ کسی نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ آپ تو اس وقت سفر نہیں کیا کرتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیا تم نے ابن سلول کی بات نہیں سنی۔ مطلب یہ تھا کہ فتنہ کو روکنے کے لیے یہ کام کیاگیا تھا۔
اسی سفر میں حدیث افق کا واقعہ پیش آیا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کسی ضرورت بشری کے تحت لشکرگاہ سے باہر گئی ہوئی تھیں، جس کاعلم کسی کو نہ ہوا۔ جب وہ واپس لوٹنے لگیں تو ان کی نظر اپنے گلے کے ہار پر پڑی جو ٹوٹ کر گرجانے کی وجہ سے نظر نہ آیا۔ وہ ان کو تلاش کرنے میں لگ گئیں اور دیر ہوگئی، ادھر قافلہ اپنی جگہ سے کوچ کرگیا تھا۔ نہ وہاں کوئی آدمی ہے نہ آدم زاد۔ مجبور ہوکر ایک درخت کے نیچے بیٹھ گئیں یہاں تک کہ ان کو نیند آگئی۔ حضرت بلال بن امیہ جو قافلہ کے بعد میں آنے والوں میں سے تھے، انھوں نے حضرت عائشہ کو دیکھا کہ سورہی ہیں تو فرمایا: انا للّٰہ و انا الیہ راجعون اس آواز سے حضرت عائشہ کی آنکھ کھل گئی۔ حضرت بلال بن امیہ نے اپنے اونٹ کو بٹھادیا۔ حضرت عائشہ اس پر بیٹھ گئیں، حضرت بلال اونٹ کی مہار پکڑکر آگے چلتے رہے یہاں تک کہ منزل کو آپہنچے۔ ابن سلول نے اس واقعہ کا فائدہ اٹھایا اورحضرت عائشہ پر اتہام لگایا جس میں بعض مخلص مسلمان بھی اپنی سادہ لوحی کی بناپر منافقین کے ہمنوا ہوگئے۔ ان میں حضرت حسان بن ثابت انصاری، حضرت حمنہ بنت جحش اور حضرت اُماسہ بنت مسطحہ بھی شریک تھے۔ صحیح صورت حال کی وضاحت پر قرآن کی سورہ ”سورہ نور“ نازل ہوئی اور اسے اتہام قرار دیا گیا۔ چنانچہ مذکورہ تینوں حضرات کو اسّی اسّی کوڑے لگائے گئے۔ مگر عبداللہ بن ابی بن سلول سے کوئی باز پرس نہ کی گئی اور نہ انہیں کوئی سزا دی گئی۔ ادھر حضرت عائشہ کو جب معلوم ہوا کہ اللہ نے میری برأت کے لیے پوری سورہ نازل فرمادی ہے تو وہ بہت خوش ہوئیں اور اللہ تبارک و تعالیٰ کا شکر ادا کیا۔
ابن سلول کی مدینہ میں اہمیت کا اندازہ اس سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ ان کے لیے مسجد نبوی میں منبر کے قریب ایک ممتاز جگہ بنادی گئی تھی۔ اس ممتاز جگہ سے وہ لوگوں کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت اور فرمانبرداری کی دعوت دیا کرتا تھا۔ لیکن غزوئہ احد کا موقع آیا اور اس منافق کے مشورے کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے تسلیم نہیں کیا، اس لیے کہ صحابہ کی اکثریت چاہتی تھی کہ شہر مدینہ سے نکل کر جنگ کی جائے۔ اس لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے باہر نکلنے کافیصلہ کرلیا، حالانکہ خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی رائے مدینہ میں رہ کر دفاع کرنے کی تھی۔ بہر حال حضور صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کی نماز پڑھ کر تیار ہوکر نکلے اورمدینہ کے باہر رات گزاری۔ ابن سلول منافق بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ نکلا، اس کے ساتھ ان کے تین سو متبعین بھی تیار ہوکر جنگ کے لیے برآمد ہوئے۔ جب صبح ہوئی اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم احد کے میدان کے لیے چلے جہاں کفار پہلے سے موجود تھے تواس عین موقع پر ابن سلول نے خود بھی اور اس کے متبعین نے مسلمانوں سے علیحدگی اختیار کی اور لوٹ کر مدینہ چلے آئے۔ ابن سلول نے کہا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے ہماری مخالفت کی اور لونڈوں کا کہنا مان لیا، اگر ہم کو معلوم ہوتا کہ یہ واقعی جنگ ہے تو ہم ضرور شریک ہوتے۔
منافقین بلکہ عبداللہ بن ابی ابن سلول کے اس رویہ سے کئی سوالات پیدا ہوسکتے ہیں ان میں سے ایک یہ بھی ہوسکتا ہے کہ جب ابن سلول باہر نکل کر جنگ کرنے کا مخالف تھا تو پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مسلح ہوکر گھر سے کیوں نکلا اور پھر ساتھ رات بھی گزاری؟ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ کام ایک سازش کے مطابق کیاگیا تھا، مقصد یہ تھا کہ عین جنگ کے موقع پر ایک تہائی تعداد کو دشمن کے سامنے سے نکال لیا جائے تاکہ ایک طرف مسلمانوں کی ہمتیں ٹوٹ جائیں اور کفار کی ہمتیں بڑھ جائیں۔ اس کے تین سو آدمی مدینہ لوٹ آئے۔
ایسے سخت منافق کے بیٹے عبداللہ بن عبداللہ بن ابی بن سلول نہایت سچے پکے اور کٹر مسلمان تھے۔ انھوں نے جب سنا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ابن سلول کو قتل کرنا چاہتے ہیں تو وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور بولے یا رسول اللہ میں اپنے باپ کا نہایت فرماں دار ہوں لیکن اگر کسی نے میرے والد کو قتل کیا تو ہوسکتا ہے کہ پدری عصبیت کے تحت میں اس کے قاتل کو قتل کردوں اور ایک مسلمان کو قتل کرکے میں جہنم میں جاؤں۔ لہٰذا آپ حکم دیجئے میں اپنے والد ابن سلول کا سر کاٹ کر آپ کی خدمت میں پیش کردوں۔ مجھے اس میں کوئی تذبذب نہیں ہوگا۔ اس پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب تک تمہارے والد میرے ساتھ ہیں میں ان کے ساتھ حسن سلوک کروں گا چنانچہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے تاعمر اس منافق کے سردار کے ساتھ اعلیٰ اخلاق کا مظاہرہ کیا۔ اس کو اپنی قمیص بھی دی، اس کی نماز جنازہ پڑھائی اوراس کے لیے دعائے مغفرت کی۔
منافقین نے عجیب عجیب تبصرے کرنے کو اپنا شعار بنارکھا تھا، جس سے ان کا تشکک ظاہر ہوتا ہے، مثلاً غزوئہ خندق میں ایک منافق نے کہا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم توکہتے ہیں کہ ہم قیصر و کسریٰ کو فتح کرلیں گے مگر آج شدت حصار سے یہ حال ہے کہ قضائے حاجت کے لیے بھی باہر نکلنا مشکل ہے۔ واقعی کفار نے سخت حصار کررکھا تھا، مگر یہ اس منافق کے ایمان کی کمزوری تھی، بعد میں یہ تمام پیشین گوئیاں صحیح ثابت ہوئیں۔
ایک منافق نے غزوئہ تبوک کے موقع پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت پر تشکیک کرتے ہوئے کہا کہ ان کے پاس خبریں آسمان سے آتی ہیں مگر ان کو یہ پتہ نہیں کہ ان کا اونٹ کہاں چلا گیا ہے۔ جب یہ بات حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم ہوئی تو آپ نے فرمایا کہ بے شک مجھے نہیں معلوم کہ میرا اونٹ کہاں چلا گیا ہے، لیکن ابھی اللہ تعالیٰ نے مجھے اطلاع دی کہ وہ اونٹ فلاں جگہ ہے۔ پھر ایک صحابی کو حکم دیا کہ جاکر اس اونٹ کو فلاں جھاڑی سے پکڑ لائیں۔
اسی طرح جد بن قیس نے جو بڑا منافق تھا، ایک کھاڑی تنگنائی میں رات کی تاریکی میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دھکیل دینا چاہا، مگر پوری سازش کا علم حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو ہوگیا، یہ منافقین پہچان بھی لیے گئے۔ ان سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بازپرس کی مگر کسی منافق کو سزا نہیں دی۔ اقدام قتل کی اس مجرمانہ سازش پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی نوٹس نہیں لیا اور نہ انہیں کیفر کردار تک پہنچایا، سوائے کلمہ خیر کہنے کے۔ بیشک حضرت عائشہ نے صحیح فرمایا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اخلاق قرآن تھا۔
دنیا کے بڑے سے بڑے تاریخ کے ہیروز کی زندگی کا مطالعہ کیجئے یہ عظمت اور یہ کھلی ہوئی کتاب زندگی کہیں دیکھنے کو نہیں ملے گی۔ منافقین کی تعداد تین سو تھی، منافقات کی تعداد ستر تھی، مگر کسی کو کوئی سزا نہیں دی گئی۔ آج بڑے جباروں کا حال دیکھئے کس طرح وہ مخالفین کے پرخچے اڑا دیتے ہیں۔ کم از کم امریکہ کی مثال ہمارے پیش نظر رہنی چاہیے کہ وہ کس طرح بے قصوروں کو اپنی غضب کا نشانہ بنارہا ہے اور انہیں بری طرح کچل رہا ہے۔ مگر رحمت مجسم کی محبت و حسن اخلاق کا یہ عالم کہ پوری عمر منافقوں کی ریشہ دوانیوں کو برداشت کیا۔ سازش کرنے والوں سے بردباری برتی اور کسی کو سزا نہیں دی، بلکہ جس نے معافی چاہی اس کو معاف کردیا۔
ذرا غور فرمائیے کہ اسی غزوئہ تبوک کے سفر کے دوران منافقین نے ایک نفاق کا اڈہ بنایا تھا جسے مسجد کا نام دیاگیا تھا۔ قرآن نے اس کا نام مسجد ضرار رکھا۔ یہ مسجد منافقوں نے اور ابوعامر فاسق نے مل کر بنائی تھی اور چاہتے تھے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اس میں جاکر نماز پڑھ لیں۔ قرآن کریم نے ان کابھانڈا پھوڑدیا، ان کی سازش کو طشت از بام کردیا، اور ان کی بدنفسی اور منافقانہ پلان کو واضح کردیا:
والَّذِیْنَ اتَّخَذُوا مَسْجِدًا ضِرارًا وَّ کُفْرًا وَّ تَفْرِیْقًام بَیْنَ الموٴمِنِیْنَ وارصادًا لِّمَنْ حَارَبَ اللّٰہ وَرَسُولَہ مِنْ قَبْل ط وَلِیَحْلِفُنَّ اِن اردنا اِلاَّ الْحُسْنٰی ط وَاللّٰہُ یَشْہَدُ اِنَّہُمْ لَکٰذِبُوْن ط (التوبہ: ۱۰۷)
”اور جنھوں نے بنائی ہے ایک مسجد ضد پر اورکفر پر اور پھوٹ ڈالنے کے ارادہ سے مسلمانوں میں اور گھات لگانے کو اس شخص کی جو لڑرہا ہے اللہ سے اور اس کے رسول سے پہلے سے اور وہ قسمیں کھائیں گے کہ ہم نے بھلائی ہی چاہی تھی اور اللہ گواہ ہے کہ وہ جھوٹے ہیں۔“
علامہ شبیر احمد عثمانی ترجمہ شیخ الہند کے حاشیہ پر اس پورے واقعہ کی نزاکت اور اس مسجد کے قیام کا مقصد اور اس کے ذریعہ مسلمانوں کے درمیان نفاق ڈالنے کی جدوجہد وغیرہ پر روشنی ڈالتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں کہ:
”واقعہ یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مکہ سے ہجرت کرآئے تو اول مدینہ سے باہر ”بنی عمرو بن عوف“ کے محلہ میں فروکش ہوئے۔ پھر چند روز بعد شہر مدینہ میں تشریف لے گئے اور مسجد نبوی تعمیر کی، اس محلہ میں جہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم پیشتر نماز پڑھتے تھے، وہاں کے لوگوں نے مسجد تیار کرلی جو مسجد قبا کے نام سے مشہور ہے۔ حضرت صلی اللہ علیہ وسلم اکثر ہفتہ کے روز وہاں جاکر دو رکعت نماز پڑھتے اور بڑی فضیلت اس کی بیان فرماتے تھے، بعض منافقین نے چاہا کہ پہلوں کی ضد پر اسی کے قریب ایک اور مکان مسجد کے نام سے تعمیر کریں۔ اپنی جماعت سے جدا ٹھہرائیں اور بعض سادہ دل مسلمانوں کو مسجد قبا سے ہٹاکر ادھر لے آئیں۔ فی الحقیقت اس ناپاک تجویز کا محرک اصلی ایک شخص ابوعامر راہب خزرجی تھا، ہجرت سے پہلے اس شخص نے نصرانی بن کر راہبانہ زندگی اختیار کرلی تھی۔ مدینہ اور آس پاس کے لوگ خصوصاً قبیلہ خزرج اس کے زہد و درویشی کے معتقد تھے اور بڑی تعظیم کرتے تھے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے قدوم میمنت لزوم سے جب مدینہ میں ایمان و عرفان کا آفتاب چمکا تو اس طرح کے درویشوں کا بھرم کھلنے لگا۔ بھلا نور آفتاب کے سامنے چراغ مردہ کو کون پوچھتا۔ ابوعامر یہ دیکھ کر چراغ پا ہوگیا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو اسلام کی دعوت دی اور فرمایا کہ میں ٹھیٹ ملت ابراہیمی لے کر آیا ہوں۔ کہنے لگا میں پہلے سے اس پر قائم ہوں، لیکن تم نے اپنی طرف سے ملت ابراہیمی میں اس کے خلاف چیزیں داخل کردی ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت زور سے اس کی تردید فرمائی۔ آخر اسکی زبان سے نکلا کہ جو ہم میں سے جھوٹا ہو خدا اس کو وطن سے دور یکہ میں تنہا غربت و بیکسی کی موت مارے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”آمین“ خدا ایسا ہی کرے۔ جنگ بدر کے بعد جب اسلام کی جڑیں مضبوط ہوگئیں اور مسلمانوں کا عروج و فروغ حاسدوں کی نگاہوں کو خیرہ کرنے لگا، ابوعامر کو تاب نہ رہی۔ بھاگ کر مکہ پہنچا، تاکہ کفار مکہ کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلہ میں چڑھاکر لائے۔ چنانچہ معرکہ احد میں قریش کے ساتھ خود آیا۔ مبارزہ شروع ہونے سے پہلے آگے بڑھ کر انصار مدینہ کو جو عہد جاہلیت میں اس کے بڑے معتقد تھے خطاب کرکے اپنی طرف مائل کرنا چاہا۔ احمق یہ نہ سمجھا کہ پیغمبرانہ تصرف کے سامنے اب وہ پرانا جادو کہاں چل سکتا ہے۔ آخر انصار نے جو اسے پہلے راہب کہہ کر پکارتے تھے جواب دیا کہ او فاسق دشمن خدا ! تیری آنکھ خدا کبھی ٹھنڈی نہ کرے۔ کیا رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلے میں ہم تمہارا ساتھ دیں گے؟ انصار کا مایوس کن جواب سن کر کچھ حواس درست ہوئے اور خبط میں آکر کہنے لگا اے محمد! آئندہ جو قوم بھی تیرے مقابلہ کے لیے اٹھے گی میں برابر اس کے ساتھ رہوں گا۔ چنانچہ جنگ حنین تک ہر معرکہ میں کفار کے ساتھ ہوکر مسلمانوں سے لڑتا رہا۔ احد میں اسی کی شرارت سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو چشم رخم پہنچا۔ دونوں سفروں کے درمیان اس نے پوشیدہ طور پر کچھ گڑھے کھدوادئیے تھے۔ وہیں چہرئہ مبارک کے زخمی ہونے اور دندان مبارک کے شہید ہونے کا واقعہ پیش آیا۔ حنین کے بعد جب ابوعامر نے محسوس کرلیا کہ عرب کی کوئی طاقت اسلام کو کچلنے میں کامیاب نہیں ہوسکتی تو بھاگ کر ملک شام پہنچا اور منافقین مدینہ کو خط لکھا کہ میں قیصر روم سے مل کر ایک لشکر جرار محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلہ میں لانے والا ہوں جو چشم زدن میں ان کے سارے منصوبے خاک میں ملادے گا، اور مسلمانوں کو بالکل پامال کرکے چھوڑے گا۔ (العیاذ باللہ) تم فی الحال ایک عمارت مسجد کے نام سے بنالو جہاں نماز کے بہانے سے جمع ہوکر اسلام کے خلاف ہر قسم کے سازشی مشورے کیے جاسکیں اور قاصد تم کو وہیں میرے خطوط وغیرہ پہنچادیا کرے اور میں بذات خود آؤں تو ایک موزوں جگہ ٹھہرنے اور ملنے کی ہو۔ یہ خبیث مقاصد تھے جن کے لیے مسجد ضرار تیار ہوئی اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے روبرو بہانہ یہ کیا کہ یا رسول اللہ ! خدا کی قسم ہماری نیت بری نہیں بلکہ بارش اور سردی وغیرہ میں یا مخصوص بیماروں، فاقوں اور ارباب حوائج کو مسجد قبا تک جانا دشوار ہوتا ہے۔ اس لیے یہ مسجد بنائی گئی ہے۔ تاکہ نمازیوں کو سہولت ہو اور مسجد قبا میں تنگیٴ مکان کی شکایت نہ رہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ایک مرتبہ وہاں چل کر نماز پڑھ لیں تو ہمارے لیے موجب برکت اور سعادت ہو۔ یہ اس لیے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا طرز عمل دیکھ کر بعض سادہ دل مسلمان حسن ظن کی بنا پر ان کے جال میں پھنس جائیں۔ آپ اس وقت تبوک جانے کے لیے پابہ رکاب تھے۔ فرمایا کہ اللہ نے چاہا تو ایسا ہوسکے گا۔ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم تبوک سے واپس ہوکر بالکل مدینہ کے قریب پہنچ گئے تب جبرئیل امین یہ آیات لے کر آئے جن میں منافقین کی ناپاک اغراض کو مطلع کرکے مسجد ضرار کا پول کھول دیاگیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مالک ابن خشم اور معن ابن عدی کو حکم دیا کہ اس مکان کو (جس کا نام ازراہ خداع و فریب مسجد رکھا تھا) گراکر پیوند زمین بنادو۔ انھوں نے فوراً حکم کی تعمیل کی اور جلاکر خاک سیاہ کردیا۔ اس طرح منافقین اور ابوعامر کے سب ارمان دل کے دل میں رہ گئے۔اور ابوعامر اپنی دعاء اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی آمین کے موافق قنشرین (ملک شام) میں تنہا سخت بے کسی کی موت مرگیا۔“
یہ تمام مباحث ثابت کرتے ہیں کہ منافقین نے کس طرح اسلامی معاشرہ میں رہ کر اسلام کی بیخ کنی کی بھرپور کوشش کی۔ بنی قینقاع کے محاصرہ کے دوران انھوں نے ان کی مدد کی اور ابن سلول نے ان کو سزا نہیں دینے دی۔ بنی نضیر سے ابن سلول نے کہلا بھیجا کہ ڈٹے رہو ہم مدد کو آتے ہیں۔ ان منافقین کا ساز باز جیسا کہ عرض کیاگیا کہ مکہ والوں سے بھی بڑا گہرا تھا۔ ایک بار مکہ والوں نے ابن سلول کو لکھا کہ ان مسلمانوں سے جنگ کرو ورنہ ہم تم پر حملہ کردیں گے جب اس خط کا حال حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابن سلول سے کہا کہ دیکھو ہوش سے کام لو، یہ جنگ جو تم لڑنا چاہتے ہو وہ خود اپنے عزیزوں، قریبوں، بھائیوں، بیٹوں اور قریبی اقربا کو قتل کرنے پر ختم ہوگی۔ اس لیے کہ ہر خاندان میں مسلمان موجود ہیں اور کافر بھی موجود ہیں۔ کوئی شخص اپنے بیٹے کو قتل کرے گا اور کوئی اپنے باپ کو قتل کرے گا۔ اس لیے جنگ کرنے سے پہلے خوب سوچ لو کہ کیا کرنے جارہے ہو۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بات حق تھی جو منافقین کے دلوں میں گھر کرگئی۔ لہٰذا ان سب نے اس محاذ کو بالکل ہی چھوڑ دیا۔ اس لیے کہ خود اس کا بیٹا، اس کا داماد، اس کی بیٹی سب پکے مسلمان تھے۔
اس پوری تفصیل سے یقینا اس نتیجہ پر پہنچا جاسکتا ہے کہ جو شخص بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اعلیٰ کردار، انتہائی تحمل و بردباری، حسن اخلاق اور مکارم اخلاق کا مطالعہ کرے گا وہ محسوس کرے گاکہ یہ صفات خلق قرآن میں سے تھے۔ اور یہ عظیم کردار آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے منافقین کے ساتھ برت کر ثابت کردیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اس لیے بھیجے گئے تھے تاکہ اخلاق کے اعلیٰ معیار کو مکمل کردیں۔ اسی فاضلانہ اخلاق کے سلسلے میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بعثت لاتمم مکارم الاخلاق ․
اس اخلاق فاضلانہ سے ہم مسلمانوں کو بھی سبق اور عبرت حاصل کرنی چاہیے کہ اللہ نے ہمیں خیر امت بناکر بھیجا ہے، کیا ہم بہترین امت کا مظاہرہ اپنے ملک، اپنے معاشرہ اور اپنے سماج میں کررہے ہیں۔ ہر جگہ اور ہر طرف انتشار و اکراہ پھیلا ہوا ہے، خود مسلمان آپس میں نہ متحد ہیں اور نہ اپنے فرائض کی انجام دہی کررہے ہیں۔ اس لیے آج مسلمانوں کا یہ حال ہے کہ دنیا کی ساری قوم ان پر چڑھنے کے لیے تیار ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم خیر امت کا فریضہ انجام دیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق فاضلانہ کو اپنی زندگی میں نافذ کریں اور واعتصموا بحبل للّٰہ جمیعًا ولا تفرقوا پرکاربند ہوجائیں۔
______________________________
ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ4، جلد: 89 ،صفر، ربیع الاول 1426ہجری مطابق اپریل 2005ء