از:مولانا ڈاکٹر اکرام اللہ جان قاسمی‏، ڈائریکٹر مرکز تحقیق اسلامی، پشاور صدر

 

مدرسہ کا مفہوم اوراس کی ابتدائی شکل

مدرسہ اگر اس معنی میں لیا جائے جس کی اپنی مستقل عمارت ہو، اساتذہ اور طلبہ ہوں اور ایک خاص تعلیمی نظام اور منصوبہ بندی کے تحت علوم و فنون کی تدریس ہوتی ہو، تواس طرح کے مدرسہ کا وجود اسلام کے ابتدائی ادوار میں نہیں تھا اور مسجد ہی تمام مذہبی، علمی اور سیاسی سرگرمیوں کا مرکز اور محور تھی۔ زمانہ گذرنے کے ساتھ ساتھ حصول علم کے طور طریقے بدلنے لگے۔ علم کے حلقے بڑھ گئے، درس و تدریس اور تکرار کا شور پیدا ہوا اور بحث و مناظروں کی صدائے بازگشت گونجنے لگی، چنانچہ ان چیزوں نے مساجد سے مدارس کو الگ کردیا، کیونکہ مساجد میں ادا کی جانے والی عبادات کے لئے سکون و اطمینان کی فضا ضروری تھی۔(۱)

مذکورہ بالا تعریف کے مطابق مدرسہ کا وجود اسلام میں سب سے پہلے اہل نیشاپور (ایران) کے ہاں عمل میں آیا جہاں نیشاپور کے علماء نے ”مدرسہ بیہقیہ“ کی بنیاد رکھی تھی۔ نیشاپور میں اس کے علاوہ ایک مدرسہ سلطان محمود عزنوی نے، ایک اس کے بھائی نصر بن سبکتگین نے مدرسہ سعیدیہ کے نام سے قائم کیا تھا اور چوتھا مدرسہ امام ابن فورک (متوفی ۴۰۶ھ) کا وجود میں آیا تھا۔(۲)

یہ پانچویں صدی ہجری/ گیارہویں صدی عیسوی کی ابتدا تھی۔ اس زمانے میں ایک طرف کتب خانے منظم شکل میں سامنے آنا شروع ہوگئے تھے تو دوسری طرف مدارس تنظیمی و تعلیمی ڈھانچے سمیت وجود میں آگئے تھے گویا مدارس کا ایک جال پھیل گیا تھا جن میں سے بعض مشہور مدارس مندرجہ ذیل ہیں۔

(۱)     مدرسہ نظامیہ، بغداد

اس مدرسہ کی نسبت اس کے بانی نظام الملک طوسی کی طرف ہے جو سلجوقی دور کا وزیراعظم تھا۔ یہ مدرسہ ۴۵۹ھ/۱۰۶۶/ میں قائم ہوا۔ شاہی سرپرستی میں چلنے والا یہ مدرسہ طلبہ اور اساتذہ کیلئے ہر قسم کی سہولیات سے آراستہ تھا۔ امام عزالی اور امام ابواسحاق شیرازی اس مدرسہ کے اساتذہ تھے۔ مجد الدین فیروزآبادی اس مدرسہ کے فیض یافتہ تھے۔(۳)

(۲)     مدرسہ سلطان محمود غزنوی

سلطان محمود غزنوی ہندوستان میں فتوحات کے دوران متھرا شہر کی خوبصورت جامع مسجد سے متاثر ہوا تو حکم دیا کہ غزنی میں ایک عالی شان مسجد بنوائی جائے۔ چنانچہ ایک کثیر رقم خرچ کرکے ایک نادرئہ روزگار مسجد تیار کی گئی جسے عروس الفلک (آسمانی دلہن) کا نام دیاگیا۔ اسی مسجد میں علوم نقلیہ و عقلیہ کی تدریس کے لئے ایک بہترین دارالعلوم تعمیر کرایا۔ یہاں پر کامل ترین علماء و فضلاء ایشیاء بھر کے طلبہ کو درس دیا کرتے تھے۔ یہ کالج ایشیاء بھر میں اپنی نظیر آپ تھا۔(۴)

(۳)    جامعہ قرطبہ

یورپ کے ملک اندلس (اسپین) میں جو مسلمانوں کے زیرنگین تھا قرطبہ اور غرناطہ علم و فن اور ارباب کمال کے بڑے مرکز بن گئے تھے۔ قرطبہ کی مشہور عالَم ”جامع مسجد قرطبہ“ میں خلیفہ الحکم ثانی نے جامعہ قرطبہ کے نام سے ایک بڑی یونیورسٹی قائم کی تھی۔ جہاں پر مفت تعلیم کا انتظام تھا، یہاں پر مشرق و مغرب کے جلیل القدر اساتذہ تدریس کی خدمت پر مامور تھے اس یونیورسٹی کی عظمت کا اندازہ اس کے کتب خانہ سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے، جس میں چار لاکھ نادر کتابیں موجود تھیں اور اس کی صرف فہرست چوالیس جلدوں پر مشتمل تھی۔(۵)

(۴)    مدرسہ امام ابوحنیفہ

یہ مدرسہ خلافت اسلامیہ کے دارالخلافہ بغداد میں علماء نے عوام کے تعاون سے ۱۰۶۶/ میں مدرسہ نظامیہ سے پہلے قائم کیاتھا۔ اس مدرسہ کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ یہ دارالخلافہ بغداد میں سب سے پہلا مدرسہ ہے۔ اگرچہ بعض موٴرخین مدرسہ نظامیہ کو تاریخ اسلام کا پہلا مدرسہ قرار دیتے ہیں، مگر یہ درست نہیں ہے۔ اس بارے میں علامہ عبدالصبوح قاسمی نے اپنے تحقیقی مقالہ میں سیرحاصل بحث کی ہے۔ وہ پشاور یونیورسٹی کے جرنل میں رقم طراز ہیں:

"Some have contended that Nizamiyah college was the first college in the history of Islam, but this is not correct. Besides the Dar al-Ilm of Al-Rashid and Al-Mamun,a number of Madrasahs existed in different parts of the Islamic empire. Nishapur was another centre of Islamic studies and a number of other colleges were founded before the establishment of Nizamiyah college.(6)

(۵)    جامعہ ازہر (مصر)

فاطمی امراء نے ۳۵۸ھ میں مصر فتح کیا تو قاہرہ کو اپنا مذہبی مرکز بناکر یہاں ۳۵۹ھ/ ۹۷۰/ میں جامعہ مسجد ازہر کی بنیاد رکھی۔ پہلے فاطمی خلیفہ العزیز باللہ نے اس میں ایک شاہی مدرسہ کھولا۔ جہاں پر منقولات اور معقولات کی تدریس کا اہتمام کیا جاتا تھا۔ بہت جلد یہاں پر اطراف و اکناف کے طلبہ جمع ہوگئے۔ جن کی تعلیم، کھانے پینے، رہائش اور دیگر سہولتوں کا مفت انتظام تھا۔ فاطمی امراء شیعہ تھے اور انھوں نے اس مدرسہ کو زیادہ تر سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کیا۔ لہٰذا جب صلاح الدین ایوبی نے مصر فتح کیا تو یہاں پر شافعی مذہب کے مطابق تعلیمات کو رواج دیا۔ یہ مدرسہ آج تک جامعہ ازہر کے نام سے قائم ہے اور یہ عالم اسلام کی سب سے بڑی اور قدیم یونیورسٹی کے طور پر جانی جاتی ہے۔(۷)

مذکورہ مدارس کی پیروی میں بعد میں بہت سارے مدارس کا قیام عمل میں آیا۔ چنانچہ نورالدین محمود بن زنگی نے دمشق اور حلب میں اور پھر صلاح الدین ایوبی اوراس کے خاندان نے مصر، دمشق اور یروشلم میں بڑی تعداد میں مدارس قائم کئے جن کی تفصیل المقریزی کی کتاب ”الخطط“ اور نُعیمی کی کتاب ”الدارس فی تاریخ المدارس“ میں دیکھی جاسکتی ہے۔

ان مدارس کے پیدا کردہ چند مشہور علماء کرام

ابتدائی دور کے ان مدارس نے چوٹی کے علماء کرام پیدا کئے جن کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ ان کے علم و عمل کا ڈنکا ہزار سال گذرنے کے باوجود آج بھی بج رہا ہے۔ ان میں سے چند ایک کا ذکر اجمالی طور پر ذیل میں کیا جاتا ہے۔

(۱)     امام غزالی

امام محمد بن محمد الغزالی ۴۵۰ھ/۱۰۸۵/ میں پیدا ہوئے۔ آپ نے امام الحرمین ابوالمعالی عبدالملک الجوینی کے پاس مدرسہ نظامیہ بغداد میں پڑھا۔ فراغت کے بعداسی مدرسہ میں استاذ مقرر ہوئے اور ترقی کرتے کرتے صدر نشین کے درجہ تک پہنچ گئے۔ آپ نے فلسفہٴ یونان کا مطالعہ کیا جس کے نظریات اسلام سے متصادم تھے اور اس کی رد میں اپنی مشہور کتاب ”تہافة الفلاسفہ“ لکھی۔ آپ کی تالیفات میں سے احیاء علوم الدین، یاقوت التاویل (تفسیر قرآن چالیس جلدوں میں) اور مقاصد الفلاسفہ مشہور ہیں۔ ۵۰۵ھ/۱۱۱۱/ میں وفات پائی ہے۔

(۲)     ابن سینا

ابوعلی حسین بن عبداللہ بن سینا ۳۷۰ھ/۹۸۰/ کو بخارا میں پیدا ہوئے۔ حفظ قرآن اور دینی علوم کے علاوہ ریاضی، منطق اور طبعیات کے علاوہ طب و ادب میں کمال حاصل کیا۔ مختلف شاہی درباروں سے منسلک رہے اور شاہی کتب خانے استعمال کئے۔ سوسے زیادہ کتابیں لکھی ہیں جن میں ”الشفاء“ اور ”القانون“ صدیوں تک یورپ کے طبی کالجوں میں پڑھائی جاتی رہی ہیں۔ ۴۲۸ھ/۱۰۳۷/ کو ہمدان میں وفات پائی ہے۔

(۳)    البیرونی

ابوریحان محمد بن احمد البیرونی خوارزم میں ۳۶۲ھ/۹۷۳/ کو پیدا ہوئے۔ علوم وفنون میں کمال حاصل کیا۔ عربی، فارسی، سنسکرت، ترکی، عبرانی اور یونانی زبانوں کے ماہر تھے۔ ہیئت، طبعیات، جغرافیہ اور ریاضی میں عالمی سطح کے محقق تھے۔ آپ کی تصانیف کی تعداد ۱۱۳ بتائی جاتی ہے۔ جن میں سے کتاب الہند اور الآثار الباقیہ مشہور ہیں۔ شاہی درباروں سے منسلک رہے۔ سلطان محمود غزنوی نے آپ کو اپنے دربار میں بلند مقام دیاتھا۔ ۴۴۰ھ/۱۰۳۵/ کو وفات پائی ہے۔

(۴)    امام بیہقی

امام ابوبکر احمد بن حسین بیہقی (۳۸۴ھ تا ۴۵۸ھ) نے نیشاپور کے مدرسہ میں الحاکم ابوعبداللہ محمد بن عبداللہ نیشاپوری کے سامنے زانوئے تلمذ تہ کئے۔ آپ بلند پایہ مفسر، محدث، فقیہ اور علم اصول کے ماہر تھے۔ آپ کی تالیفات ایک ہزار جلدوں پر مشتمل ہیں۔ جن میں المبسوط فی فروع الشافعیہ، کتاب الکبیر اور دلائل النبوّہ مشہور ہیں۔

(۵)    ابن عبدالبرّ اندلسی

یوسف بن عبداللہ بن عبدالبر ۳۶۸ھ/۹۷۸/ کو بمقام قرطبہ، اندلس (اسپین) پیدا ہوئے۔ تمام علوم خصوصاً علم حدیث میں بلند مقام حاصل کیا۔ آپ کی تصانیف کی ایک لمبی فہرست ہے۔ یہ تصانیف سینکڑوں جلدوں پر مشتمل ہیں جن میں التمہید (ستّرجلدوں میں) الاستیعاب، جامع بیان العلم وفضلہ اور الانتقاء مشہور ہیں۔ ۴۶۳ھ میں وفات پائی۔

ان مدارس کے اقسام

یہ مدارس تین طرح کے تھے۔ ایک بادشاہوں اور امراء کے قائم کردہ مدارس۔ دوسرے مخیرعلماء کرام کے قائم کردہ مدارس اور تیسرے عوام کے تعاون سے چلنے والے مدارس۔ ان تینوں قسموں کی قدرے تفصیل دی جاتی ہے۔

(۱)     بادشاہوں اورامراء کے قائم کردہ مدارس

یہ وہ مدارس تھے جو بادشاہوں یا ان کے وزیروں اور عام مالدار لوگوں نے قائم کئے تھے اور یہ لوگ ان مدارس کے تمام اخراجات کی کفالت کرتے تھے۔ نظام الملک طوسی کا ذکر پہلے گذرچکا یہ خود بھی عالم فاضل شخص تھا اور علماء و فضلاء کا حد درجہ قدر دان تھا۔ ان کی مجلس علماء اور صوفیاء سے بھری رہتی تھی اور اپنے اموال ان پر بے دریغ خرچ کرتا تھا۔ السبکی کے مطابق نظام الملک نے عراق اور خراسان کے ہر شہر میں ایک ایک مدرسہ قائم کیاتھا۔(۸)

ابن اثیر نے مدرسہ نظامیہ بغداد کے بارے میں لکھا ہے کہ یہاں پر مدرسین کیلئے تنخواہوں کے علاوہ طلبہ کیلئے خورد و نوش و رہائش اور وظائف کا مفت انتظام تھا۔ ابن الجوزی نے لکھا ہے کہ بغداد میں مدرسہ نظامیہ کے قائم کرنے کے بعد نظام الملک نے نیشاپور، بلخ، ہرات، اور بصرہ میں نظامیہ مدارس قائم کئے۔ ان میں طلبہ اور اساتذہ کی رہائش، خوراک اور دیگر ضروریات کو پورا کرنے کا معقول انتظام تھا۔ طلبہ کے لئے کتابیں، کاپیاں اور تدریسی سامان مہیا کیا جاتا تھا۔ مصارف پورے کرنے کیلئے نظام الملک نے مختلف شہروں میں ان مدارس کیلئے اوقاف قائم کردئیے تھے۔ جہاں سے اساتذہ کو مشاہرے اور طلبہ کو وظائف ملتے تھے۔(۹)

قزوینی نے مزید لکھا ہے کہ ایک بار سلجوقی بادشاہ الپ ارسلان نے نیشاپور کا دورہ کیا۔ وزیراعظم نظام الملک بھی ساتھ تھا۔ وہاں کے علماء نے جمع ہوکر بے کسی اور ذرائع معاش کے فقدان کی شکایت کی۔ نظام الملک کو موقع ملا۔ اور ان کیلئے ایک مدرسہ بنانے کی اجازت چاہی۔ بادشاہ نے نہ صرف اجازت دی بلکہ سرکاری آمدنی کا دس فیصد حصہ بھی اس کیلئے وقف کیا۔(۱۰)

تاریخ الاسلام کے موٴلف حسن ابراہیم حسن نے جامعہ ازہر کے بارے میں لکھا ہے کہ فاطمی خلیفہ العزیز باللہ نے جب یہ مدرسہ کھولا تو یہاں پر درس و تدریس کیلئے تمام سہولتوں کا انتظام کیا جس کی وجہ سے اطراف و اکناف کے طلبہ بہت جلد یہاں جمع ہونا شروع ہوگئے۔ ان کیلئے کھانے پینے، رہائش اور دیگر سہولتوں کا مفت انتظام تھا۔(۱۱)

(۲)     مخیر علماء کے مدارس

مدارس کی ایک قسم وہ تھی جو صاحب استطاعت علماء کرام نے قائم کی تھی۔ یہ علماء کرام نہ صرف ان مدارس میں درس و تدریس کا فریضہ انجام دیتے بلکہ اپنی بساط کے مطابق اپنا مال بھی ان کے طلبہ پر خرچ کرتے تھے۔ امام ابن فورک (متوفی ۴۰۶ھ/۱۰۱۵/) شافعیہ کے امام تھے۔ انھوں نے نیشاپور میں ایک مدرسہ قائم کیاتھا۔ امام الحرمین ابوالمعالی عبدالملک الجوینی (متوفی ۴۳۸ھ/۱۰۴۶/) نے اسی مدرسہ سے فراغت حاصل کی تھی۔ امام عبدالعزیز بن احمد الحلوائی البخاری (متوفی ۴۴۸ھ) بخاریٰ میں احناف کے بڑے امام تھے۔ انھوں نے ایک مدرسہ قائم کیاتھا۔ حلوہ بیچ کر اس کی کمائی طلبہ پر خرچ کرتے تھے ۔ اس زمانہ میں علماء کرام نہ صرف اپنے ہاتھوں کی کمائی سے گذر اوقات کرتے تھے اور درس و تدریس بلا معاوضہ کرتے تھے بلکہ اپنے اموال طلبہ پر خرچ کرتے تھے۔ شمس الائمہ محمد بن احمد السرخسی (متوفی ۴۸۳ھ) اس مدرسہ کے فیض یافتہ تھے اور اپنے استاذ کی وفات کے بعد ان کی جگہ پر علماء کے اتفاق سے مسند نشین ہوگئے تھے۔ بغداد میں سرکاری سرپرستی میں چلنے والے مدرسے ”مدرسہ نظامیہ“ کے قیام سے قبل مدرسہ امام ابوحنیفہ کی بنیاد پڑچکی تھی۔ یہ مدرسہ بھی چند علماء کے اشتراک عمل سے وجود میں آیا تھا۔ اس کی تعمیر اور قیام کی ذمہ داری ابوسعد المستوفی نے سال ۴۵۹ھ میں لی تھی اور مدرسہ کی تدریس کا اہتمام استاذ ابوطاہر الیاس بن ناصر دیلمی (متوفی ۴۶۱ھ) کے سپرد تھی جو بغداد کی ایک عالم و فاضل شخصیت تھی۔ مدارس کی یہ مثالیں نمونہ کے طور پر ہیں ، ورنہ علماء کے اپنے اخراجات سے قائم کردہ مدارس تمام اسلامی دنیا میں قائم تھے۔ (۱۲)

(۳) عوام کے قائم کردہ مدارس

مدارس کی تیسری قسم وہ تھی جو کہ مسلمانوں نے اپنے اپنے علاقوں میں اپنے بچوں کی دینی تعلیم و تربیت کے لئے عوامی چندوں کے ذریعہ مدارس قائم کئے تھے۔ ان چندوں سے مدرسین کی تنخواہیں، طلبہ کیلئے خورد و نوش کا انتظام، تعمیری ضروریات اور دیگر نظم و نسق کے اخراجات پورے کئے جاتے تھے۔ مدرسہ بیہقیہ کا ذکر پہلے ہوچکا۔ یہ عوامی مدرسہ تھا اور اس کے اخراجات عوامی چندوں سے پورے کئے جاتے تھے۔ اس طرح کے مدارس بھی عالم اسلام میں جگہ جگہ پھیلے ہوئے تھے۔

اس دور کے مدارس کے ذرائع آمد و خرچ

گذشتہ سطور میں مدارس کی تین قسمیں بیان کی گئی ہیں۔ ایک قسم ان مدارس کی تھی جو بادشاہوں، وزیروں یا امراء نے قائم کی تھی۔ ظاہر ہے ان مدارس کے بانیان چونکہ مال و دولت سے مالامال تھے اسلئے اپنے قائم کردہ مدارس پر دل کھول کر خرچ بھی کیا کرتے تھے۔ بادشاہ اور وزیر قسم کے لوگ عموماً دنیاداری اور بے جا اسراف کے کاموں میں مال خرچ کرتے ہیں۔ اپنی ذاتی خواہشات اور خورد و نوش وغیرہ پر بے دریغ دولت لٹاتے ہیں اس لئے ان کی خواہش ہوتی ہے کہ کچھ نہ کچھ نیکی کے کام میں بھی پیسہ خرچ ہو۔ اس نیک خواہش کی تسکین کے لئے کبھی وہ مساجد اورمدارس تعمیر کرتے ہیں۔ چنانچہ تاریخ اسلام میں بھی بعض بادشاہ اور وزراء جو علم و فن کے قدردان تھے انھوں نے علمی کاموں پر بے دریغ پیسہ خرچ کیا۔ اس کی زندہ مثال عباسی خلیفہ مامون الرشید کے بیت الحکمت کی ہے۔ جو دنیا کی سطح پر ایک عظیم الشان لائبریری ہونے کے علاوہ مختلف علوم و فنون کے ترجمہ، تحقیق، تدوین اور تجربہ گاہ کی حیثیت سے مشہور تھی۔ اس قسم کے اداروں کے حسابات کا طریق کار نہایت منضبط ہوا کرتا تھا۔ اور یہ ادارے مالی لحاظ سے خود کفیل ہوا کرتے تھے۔

مدارس کی دوسری قسم وہ تھی جو علماء کرام کی سرپرستی میں قائم تھی۔ تاریخ اسلام کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ پہلے وقتوں میں علماء کرام نے اپنے ہاتھوں سے کمایا ہے اور نہ صرف اپنا معاشی بوجھ خود سنبھالا ہے بلکہ تعلیم و تدریس کی خلوص دل سے خدمت کی ہے۔ چنانچہ تاریخ اسلام میں قفّال (تالافروش) رزّار (چاول فروش) حدّاد (لوہار) حلوائی (حلوہ فروش) قدوری (ہانڈی فروش) وغیرہ القاب علماء کے ناموں کے ساتھ ملتے ہیں۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس قسم کے پیشے علماء اپناکر نہ صرف اپنا معاشی مسئلہ حل کرتے بلکہ ساتھ ساتھ مدارس اور مکاتب بھی اپنے اخراجات سے چلاتے تھے۔

مدارس کے اخراجات برداشت کرنے میں عوام الناس کا بھی ہمیشہ سے بڑا حصہ رہا ہے بلکہ موجودہ دور میں تو تقریباً انہی کے اخراجات سے مدارس چلتے ہیں۔ یہ لوگ آخرت کے ثواب اور علم و دین کی تبلیغ کی نیت سے مدارس کے ساتھ تعاون کرتے ہیں اور یہ تعاون اس قدر خلوص اور والہانہ انداز پر مشتمل ہوتا ہے کہ انہوں نے اپنی عطیات کا حساب کتاب بھی کبھی مدارس و مساجد والوں سے نہیں مانگا ہے۔

اس دور کے مدارس میں مروّجہ علوم و فنون

ہمارے اس زمانے میں نصاب تعلیم کسی بھی تعلیمی ادارے کیلئے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ زمانہٴ قدیم میں مدارس کیلئے کوئی مقررہ نصاب تعلیم نہ تھا۔ اس زمانے میں کتاب پڑھنے کے بجائے فن پڑھایا جاتا تھا۔ اور اسلئے ہر فن کے ماہر عالم کے پاس اس علم کے تشنگان کی بھیڑ لگ جاتی تھی۔ تاریخ کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ ابتدائی مدارس کا کوئی مرتب نصاب تعلیم نہیں تھا بلکہ اگر ہم یہ جاننا چاہیں کہ اس زمانے کے علوم و فنون کیا تھے اور کس درجہ کے تھے تواس کے لئے ہمیں اس زمانے کے علماء و فضلاء پر نظر دوڑانی پڑے گی۔ چنانچہ اس طرح جائزہ لینے کے بعد یہ حقیقت ہمارے سامنے کھل جاتی ہے کہ اس زمانہ میں مسلمانوں میں نہ صرف دینی علوم کی تعلیم اعلیٰ پیمانہ پر موجود تھی بلکہ دنیاوی علوم اور زمانہ کے تقاضا کے مطابق تمام فنون کی بھی تعلیم دی جاتی تھی اوراس سلسلے میں مسلمان دنیا کے تمام متمدن اور مہذب اقوام سے بہت آگے تھے۔ آئیے اس زمانے میں مروجہ علوم و فنون کا اندازہ اس زمانے کی علمی شخصیات کے ذکر سے مختصراً لگاتے ہیں۔

ابن الہیثم (۹۶۵/ تا ۱۰۴۳/) کا تعلق مدارس کے اس ابتدائی دور سے تھا۔ ماہر فلکیات اور ریاضی دان تھا۔ روشنی اور علم بصریات کا ماہر تھا۔ اس نے جامع ازہر کے ایک گوشہ میں بیٹھ کر روشنی پر ایک کتاب ”کتاب المناظر“ لکھی۔ اس نے سایوں، سورج گرہن اور چاند گرہن پر کتاب لکھی۔ اس نے سب سے پہلے روشنی کی ماہیت دریافت کی، اور روشنی کو توانائی قرار دیا۔ اسے ”بصریات کا امام“ کہا جاتا ہے۔

ابن النفیس (۱۲۱۳/ تا ۱۲۸۸/) دمشق میں پیدا ہوا۔ نورالدین زنگی کی بنائی ہوئی طبی درسگاہ (Medical College) سے علم حاصل کیا۔ طب کے علاوہ فقہ، ادب اور دینی علوم کا ماہر تھا۔ اسے قاہرہ میں نصری ہسپتال کا سربراہ بنایاگیا۔ انسانی جسم میں خون کی گردش کی دریافت اس کا کارنامہ ہے۔ اس نے خون کی شریانوں اور دل سے متعلق کئی مفید معلومات فراہم کیں اور آنکھوں کی تکالیف کی تحقیق کی۔ اس نے جالینوس اور بوعلی سینا کی کتب پر تحقیقی اور تنقیدی کام کیا۔ اس کی کتب ”الشامل فی الطب“ اور ”مجاز القانون“ سے آٹھ صدیوں سے علماء و حکماء فائدہ اٹھارہے ہیں۔

ابن رشد (۱۱۲۶/ تا ۱۱۹۸/) قرطبہ میں پیدا ہوئے۔ دینی علوم میں مہارت کی وجہ سے قرطبہ کے قاضی القضاة مقرر ہوئے۔ علم طب میں نام اور شہرت پیدا کی۔ مراکش کے بادشاہ ابویعقوب یوسف نے اسے اپنی خدمت کیلئے بلایا۔ ابن رشد کی کتابوں کی تعداد ۷۵ بتائی جاتی ہے۔ اس کی کتاب ”الکلیات فی الطب“ نے بہت شہرت پائی کیونکہ یہ دنیا میں سب سے پہلی کتاب ہے جو طب میں چھپ گئی اوراس میں چیچک کے بارے میں معلومات ہیں۔ اس نے ارسطو اور افلاطون کی کتابوں کی شرحین لکھیں۔

ابوریحان البیرونی (۹۸۳/ تا ۱۰۴۸/) ہیئت، ریاضی اور تاریخ و تمدن کا عالمی طور پر تسلیم شدہ عالم و فاضل ہے۔ سلطان محمود غزنوی کی قائم کردہ رصدگاہ میں کام کیا۔ اسے ”علم کے دریا“ کا خطاب ملا۔ کتاب الہند، الآثار الباقیہ اور القانون المسعودی اس کی زندہ جاوید تالیفات ہیں۔

شیخ الرئیس بوعلی سینا (۹۸۰/ تا ۱۰۳۸/) اپنے عہد کا سب سے عظیم طبیب، فلسفی، ماہر فلکیات اور ریاضی دان تھا۔ اس نے ہمدان میں رصدگاہیں بنائیں۔ اس کی کتابیں الشفاء اور القانون بہت مشہور ہیں۔

ماہر علم کیمیاء اور بلند پایہ طبیب جابر بن حیان (۷۲۲/ تا ۸۱۵/) کو برمکی خاندان کی سرپرستی حاصل تھی۔ اس نے یونانی زبان سے علوم و فنون کی کتابوں کا عربی میں ترجمہ کیا۔ اس نے تین معدنی تیزابوں کو دریافت کیا۔ شورے کے تیزاب کو پھٹکری، کسیس اور قلمی شورے سے تیار کیا۔ کیمسٹری کے موضوع پر اس نے بائیس کے قریب کتابیں لکھی ہیں۔ کتاب المیزان اس کی مشہور کتاب ہے۔

اسی طرح ابوالقاسم الزہراوی تاریخ اسلام میں علم جراحی (سرجری) کے ماہر، عمر الخیام فلکیات اور علم ہیئت کے ماہر، الفارابی یونانی فلسفے کے ماہر اور الفرغانی ماہر علم ہندسہ کے طورپر مشہور ہیں۔ جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس دور میں مسلمانوں کے مدارس میں کس قسم کی تعلیم دی جاتی تھی۔ مختصراً کہا جاسکتا ہے کہ اس دور کا نصاب تعلیم دین و دنیا اور مذہب و سائنس دونوں کو جامع تھا۔

$ $ $

حوالہ جات

(۱)         حسن ابراہیم حسن: تاریخ الاسلام، طبع مصر ۴/۴۲۱— احمد شلبی: تاریخ تعلیم و تربیت اسلامیہ، طبع لاہور، ص: ۱۰۲۔

(۲)        المقریزی: کتاب الخطط، طبع بیروت: ۲/۳۶۳۔

(۳)        القزوینی: آثار البلاد و اخبار العباد، ص: ۴۱۳ —- ابن اثیر: الکامل فی التاریخ: ۱۰/۷۷۔

(۴)        محمود الرحمن ندوی: دولت غزنویہ، ص: ۱۲۸۱ —- محمد عبدالرحمن خان: تاریخ اسلام پر ایک نظر، ص: ۲۶۵۔

(۵)        اخبار الاندلس (س۔ پ سکاٹ کی کتاب ”ہسٹری آف مورش ایمپائر ان یورپ“ کا اردو ترجمہ، ص: ۶۵۶ و بعد۔

(۶)        A. S. Qasmi: Libraries in the early Islamic World, U.O.P. Journal, Jan 1958, pp3

(۷)        زاہد علی: تاریخ فاطمین مصر، طبع کراچی: ۱/۱۶۲ —- حسن ابراہیم حسن: تاریخ الدولة الفاطمیہ، طبع قاہرہ، ص: ۳۲۹ و بعد

(۸)        السبکی، عبدالوہاب، تاج الدین: طبقات الشافعیہ، طبع قاہرہ: ۳/۱۳۷۔

(۹)         ابن الجوزی: المنتظم فی تاریخ الملوک والامم: ۸/۲۱۵۔

(۱۰)       القزوینی: آثار البلاد واخبار العباد، ص: ۴۱۳۔

(۱۱)        حسن ابراہیم حسن: تاریخ الاسلام، طبع مصر ۴/۴۲۲۔

(۱۲)       ابن الجوزی: المنتظم فی تاریخ الامم : ۸/۲۴۵۔

______________________________

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ4، جلد: 89 ‏،صفر‏، ربیع الاول 1426ہجری مطابق اپریل 2005ء

Related Posts