از: مولانا ضیاء الدین قاسمی ندوی خیرآبادی
’’علوم وفنون کا بیش بہا خزانہ ہم تک یونہی نہیں پہنچا، ان کو جمع کرنے میں ہمارے اسلاف نے بے پناہ صبر، استقامت، جانکاہی اور دلسوزی کاثبوت دیا ہے؛ راہ طلب کی صعوبتوں، مشقتوں کو جھیلا اور طلبِ علم میں خاندان ووطن کو ترک کیا، برسوں در، در کی خاک چھانتے رہے اور سرمایۂ علم وفن جمع کرتے رہے۔ آج کے طلبۂ عزیز اور عام و خاص مسلمانوں کے لیے ان نفوسِ قدسیہ کی داستانِ دلنواز باعث فخروناز اور عزم وحوصلہ کو جواں کرنے کاسبب ہوگی۔ مستند مصادر ومراجع میں بکھرے واقعات کو تلاش کرکے ہم نے یہ علمی گلدستہ تیار کیاہے،جس کو نذر قارئین کررہے ہیں۔‘‘ (ضیاء الدین قاسمی ندوی)
حافظ حدیث ابوعبداللہ محمد بن مندہؒ کے علمی اسفار (ولادت ۳۱۰ھ، وفات ۳۹۵ھ)
حافظِ حدیث شیخ ابوعبداللہ محمد بن مندہؒ محدثین کبار اور ثقہ رواۃ میں سے ہیں، تفسیر وحدیث، فقہ وتاریخ اور علومِ اسماء الرجال کے ماہرین میں شمار کیے جاتے ہیں، ان کی جلالت شان اور رفعت مکان کا اعتراف علومِ تفسیر وحدیث کے شیوخ وحفاظ نے کیا ہے، علمی طبقہ میں حافظ ابن مندہ کے نام سے مشہور ومعروف ہیں اور دنیا کی سیاحت، علوم وفنون کی تحصیل میں مسلسل سرگرداں رہنے کی وجہ سے ’’جوالۃ الارض‘‘ کہلاتے ہیں۔ کثرت تصانیف وتالیفات میں اپنا امتیازی مقام رکھتے ہیں اور احادیث کی کتابت کرکے محفوظ رکھنے میں، نمایاں حیثیت کے حامل ہیں، ہزاروں صفحات خود اپنے ہاتھوں سے لکھے، جن شیوخ کی خدمت میں سماعت حدیث کے لیے حاضر ہوتے ان کی مرویات کو قلم بند کرلیتے تھے، خود ان کا کہنا ہے کہ میں نے اپنے شیوخ کی روایات کو سن کر پانچ ہزار صن تحریر کیے (صن، صاد کے زیر اور زبر کے ساتھ ایک صن کاغذ کے دس بڑے اجزا پر مشتمل ہوتا ہے) جب اپنے طویل تر علمی اسفار سے واپس آئے تو ان کے ساتھ کتابوں کا چالیس بنڈل تھا، حافظ ابن مندہ کا کہنا ہے کہ میں نے مشرق ومغرب کا دو مرتبہ چکر لگایا۔
حافظ ابن مندہؒ نے اپنے وقت کے تمام شہرئہ آفاق ائمۂ کبار اور محدثین ومجتہدین سے شرف ملاقات حاصل کیا اور ان کے بحار علوم وفنون سے جرعہ کشی کی، طلب کی راہ میں نکلے تو ہر قسم کی تکالیف کا صبر واستقامت کے ساتھ سامنا کیا، بھوک وپیاس اور صعوبت ومشقت برداشت کی ؛ مگر تحصیلِ علم کا ایک سودا سر میں سمایا تھا، نہ رات کو رات جانا نہ دن کو دن، بس جنون علم تھا، جو بادیہ پیمائی پر برانگیختہ کرتا تھا، جس علاقہ یا ملک میں کسی شیخ کا چشمۂ فیض جاری ہوتا، وہاں سیراب ہونے کے لیے پہنچ جاتے تھے، محققین نے ان کے اساتذہ وشیوخ کی تعداد ایک ہزار سات سو سے متجاوز بتائی ہے۔
غور کیجیے یہ اس زمانہ کی بات ہے، جب آمدورفت کے وسائل محدود تھے، جنگل وبیاباں کی بھرمار تھی، ایک شہر سے دوسرے شہر کا سفر جان جوکھم میں ڈالنا تھا، پھر آج کی طرح مدارس وجامعات کا جال بھی نہیں بچھاتھا، محدثین وعلماء کرام عام طور پر اپنے شہروں اور قصبات کی مساجد یا اپنی قیام گاہ میں درس دیتے تھے، قیام وطعام کا کوئی بندوبست نہیں ہوتا تھا؛ مگر طالبین وشائقین کا ہجوم پروانہ وار علوم وفنون کی ان شمعوں پر ٹوٹتا تھا، سیکڑوں نہیں ہزاروں کی تعداد میں طلبہ حاضرِ درس ہوتے تھے، اُنھیں میں ابن مندہ جیسے غریب الوطن طلبہ بھی شامل ہوتے تھے، جو اپنے قیام وطعام کا انتظام خود کرتے تھے۔
ذرا حافظ ابن مندہؒ کی جانفشانی کا تصور کیجیے، درس کے ان حلقوں میں پہنچنا، درس سننا، یاد کرنا اور لکھنا پھر ان سب کو لے کر دوسرے لمبے سفر پر روانہ ہوجانا، دوسرے شیخ کے حلقۂ درس میں شریک ہونا اور وہاں پر بھی انھیں معمولات کا اعادہ کرنا، قیام وطعام کا نظم کرنا، کتنے سخت مراحل طے کرتے تھے، تحصیل علوم کی اس لگن کی مثال ہمارے اسلاف کے سوا کون پیش کرسکتا، ابن مندہ کے شیوخ واساتذہ کی کثیر تعداد ان کے عزم وحوصلہ اور شوق طلب کی گواہی دیتی ہے کہ وہ آسمانِ علم وفن کے درخشاں ستاروں اور بحرِتفسیر وحدیث کے شناوروں کی قدرووقعت پہچانتے تھے، ان کے جواہر پاروں سے اپنے دامن مراد کو بھرلینا چاہتے تھے، ورنہ علوم اسلامیہ کا گرانقدر ذخیرہ ہم تک نہ پہنچ پاتا۔
حافظ ابن مندہؒ نے اپنا پہلا علمی سفر بیس سال کی عمر میں ۳۳۰ھ میں کیا تھا، نیشیاپور پہلی منزل تھی، کئی سال تک علمائے نیشاپور کے حلقاتِ درس میں شرکت کرتے رہے، جب ہرممکن طور علمی تشنگی بجھائی تو ۳۶۱ھ میںبخارا روانہ ہوئے، وہ علماء ومحدثین کا مرکز بنا تھا، وہاں خوب خوب سیراب ہوئے اس کے بعد دوسرے شہروں کا سفر شروع کیا۔ در،در کی خاک چھانتے ہوئے ۳۷۵ھ میں گھر واپس ہوئے۔ ۶۵ سال کا سِن تھا، جب گئے تھے تو جوان رعنا تھے، واپس آئے تو بوڑھے تھے، پینتالیس سال کا عرصہ کم نہیں ہوتا جو غریب الوطنی میں بسر ہوا، تقریباً نصف صدی تک کمال علم پیدا کرتے رہے، تبھی تو یگانۂ روزگار بنے۔
طلب کی راہ میں گر بیخودی نہیںہوتی
قسم خدا کی ، خدا آگہی نہیں ہوتی
ان کے صاحبزادے شیخ ابوزکریا بن حافظ ابن مندہ کہتے ہیں کہ میں اپنے چچا عبداللہ کے ساتھ نیشاپور جارہا تھا، جب بیرمجہ نامی ایک جگہ پر پہنچے تو چچا نے کہا: میں اپنے والد کے ہمراہ خراسان سے لوٹ رہا تھا، جب اس مقام پر پہنچے ، تو ہم نے اچانک چالیس بڑے بڑے گٹھر رکھے دیکھے، گمان ہوا کہ کپڑوں کے پارسل ہیں پھر جب قریب پہنچے تو خیمہ میں ایک شیخ کو دیکھا، جانتے ہو وہ کون تھے؟ وہ تمہارے والد حافظ ابن مندہ تھے، قافلہ والوں میں سے کسی نے گٹھروں کے بارے میں استفسار کیا تو فرمایا ان میں وہ متاعِ خاص ہے، جس سے اس زمانہ کے لوگوں کو بہت کم رغبت ہے، یہ احادیثِ رسول کے مجموعے ہیں، شیخ ابوزکریا کہتے ہیں کہ اس کے بعد چچا جان شیخ عبداللہ نے کہا کہ جب میں واپس خراسان سے وطن آرہا تھا تو میرے پاس بھی بیس بڑے گٹھر تھے تمہارے والد کی پیروی میں، میں نے بھی بیرمجہ میں قیام کیا تھا۔ (بحوالہ تذکرۃ الحفاظ للذہبی ج۳)
امام ابن نجّار بغدادیؒ کے علمی اسفار (ولادت ۵۷۸ھ، وفات ۶۴۳ھ)
علوم نبویہ کی تحصیل اور فنِ حدیث کی تکمیل میں غریب الوطنی اختیار کرنے اور کثرت اسفار کی مثال قائم کرنے والوں میں محدث زمانہ، مورخ اسلام، رئیس القراء، حافظ حدیث نجب الدین ابوعبداللہ محمد بن محمود ابن نجار بغدادی رحمۃ اللہ علیہ سرفہرست ہیں، محدثین کے حلقوں اور قراء کے زمرہ میں ابن نجار بغدادی کا پایہ بہت بلند ہے، علمائے کرام میں امام ابن نجار بغدادیؒ کے نام سے مشہور ہیں۔ ستائیس سال تک راہِ طلب میں سرگرداں رہے اور ’’طوّاف الارض‘‘ کہلائے، عمرِ عزیز کا دسواں سال تھا کہ حدیث نبوی کی سماعت شروع کی، پندرہ سال کی عمر میں شاہراہ علم کے راہ رو بن چکے تھے،ائمہ احادیث اور فقہائے عصر کے علمی مراکز ان کے پڑائو تھے، ان کی علمی سیاحت کا دائرہ بہت وسیع ہے اپنے عہد وزمانہ کے ماہرین علم وفن اور ائمہ حدیث وفقہ سے کسبِ فیض کی دُھن، ہمہ دم ان کو متحرک وسرگرمِ سفر رکھتی تھی، سماعتِ حدیث کے ساتھ ساتھ کتابت کا بھی معمول تھا، اپنے وقت کے تمام مروجہ علوم وفنون میں رسوخ رکھتے تھے۔
امام یحییٰ بن بوش، محدث عبدالمنعم بن کلیب اور علامہ ابن الجوزی جیسے یکتائے زمانہ، ائمہ ومحدثین کے منہل علم سے جی بھرکر سیراب ہوئے اور مختلف شہروں کے علماء وشیوخ سے ملاقات کرکے ان سے کسب علم کرتے تھے، اصفہان کا سفر کیا، تو شیخ عین الشمس ثقفیہ سے استفادہ کیا، وہاں سے رختِ سفر باندھا، تو نیشاپور پہنچے اور شیخ الاسلام موبد کی خدمت میں رہ کر تحصیلِ حدیث کرتے رہے، جب وہاں سے روانہ ہوئے ، تو ہرات منزل تھی، جہاں امام ابوروح کا دریائے علم وفن رواں تھا، اس سے اپنی تشنگی بجھائی، پھر علماء وفقہائے مصر وشام کی بارگاہ علم میںحاضر ہوئے اور برسوں فیض اٹھاتے رہے، اسی کے ساتھ تفسیر وحدیث اور فقہ وتاریخ کا علمی ذخیرہ جمع کرتے رہے، کتابت کا معمول تھا ہی، فن قرأت میں بھی درجہ کمال کو پہنچے، بلادِ اسلامیہ کا کوئی معروف شہر نہیں بچا، جہاں کہ امام ابن نجار کے قدم نہ پڑے ہوں اور وہاں کے علماء وقراء اور فقہاء سے فیض نہ اٹھایا ہو۔
ان کے نابغۂ روزگار شاگرد رشید ابن السباعیؒ کا کہنا ہے کہ میرے شیخ امام ابن نجار بغدادیؒ کے شیوخ واساتذہ کی تعداد تین ہزار ہے اور یہ سب پورے بلادِ اسلامیہ میں لولوء ومرجان کے مثل بکھرے ضوفشانی کررہے تھے، جس کی زندگی کے ستائیس قیمتی ماہ وسال راہِ طلب میں گذرے ہوں وہ اپنے سرمایۂ علم کو محفوظ رکھنے کی کتنی فکر کرے گا، ہم خود اندازہ لگاسکتے ہیں۔ امام ابن نجار بغدادی نے بھی اپنے پیش رو ائمہ کی طرح تحصیل علم میںہرقسم کے شدائد ومصائب اور مشکلات کا خندہ پیشانی سے سامنا کیا، کوہِ بیاباں کی خاک چھانی، عشقِ رسول ﷺ میں سرشار، سماعت حدیث کے لیے جان کاہی ان کا شیوہ تھا، پھر ان کو ضبط تحریر میں لانا تاکہ رسول اللہ ﷺ کی علمی ودینی میراث ان کی امت تک پہنچاسکیں، امام ابن نجار بغدادی تصنیف وتالیف میں مصروف رہے، وہ کثیر التصانیف عالم وفاضل امام ہیں، ان کی تالیفات: تفسیر وحدیث تاریخ وفقہ اور سیر وانساب ہر موضوع پر ہیں، ان میں سے چند مشہور معروف تصنیفات یہ ہیں: (۱) کتاب کنزالامام فی السنن والاحکام (۲) النساب المحدثین الی الآباء والبلدان (۳) کتاب العوامی (۴) الکمال فی الرجال (۵) مناقب الامام الشافعی وغیرہ۔ (تفصیل کے لیے دیکھئے: تذکرۃ الحفاظ للذہبی ج۴، وفیات الاعیان لابن خلقان، صفحات من صبر العلماء لابی عبدالفتاح ابی غدہؒ)
شیخ ابوالحسن القطان قزوینیؒ کے علمی اسفار(ولادت ۳۱۰ھ، وفات ۳۹۵ھ)
محدثین کرام کی فرخ انجام صفت میں ہمہ گیر شہرت وعزت کے حامل شیخ ابوالحسن القطان قزوینی کا نام بھی شامل ہے، آپ افریقہ کے مشہور شہر قزوین میں پیدا ہوئے اور اپنے صلاح وتقویٰ، دیانت و امانت، نحو وصرف اور لغت کے علاوہ علوم وتفسیر وحدیث میں ملکہ ومہارت کے سبب محدثِ قزوین کہلاتے ہیں۔ علماء کرام اور محدثین عظام ان کا نام ادب واحترام سے لیتے ہیں، محدث قطان نے سنن ابن ماجہ کی سماعت براہ راست امام ابن ماجہؒ سے کی ہے اور بلاواسطہ ان سے حدیث رسول ﷺ کی روایت بھی کی ہے، جب کہ خود امام قطان سے روایت کرنے والے تلامذہ کی تعداد ہزاروں میں ہے، اُنھیں تلامذہ میں ایک روشن نام امام ابوالحسن احمد الفارسی القزوینی کا ہے۔
امام قزوینی بھی وادی علم کے سیاح ہیں، ان کی زندگی کے قیمتی لمحات محدثین عصر اور ائمہ زمانہ کی جوتیاں سیدھی کرنے اور ان کے بحار علوم وفنون سے جرعہ کشی کرنے میں گذرے، قزوین، بغداد، کوفہ، صنعاء یمن، رے، ہمدان، حلوان اور مکہ مکرمہ کے طویل تر پُرمشقت علمی اسفار کیے، شہر بہ شہر، کوچہ درکوچہ گھومتے رہے، محدث جلیل امام ابوحاتم الرازیؒ سے سماعت کی اور تین سال ان کی تربیت میں رہے، اللہ تعالیٰ نے کمال کی قوت حفظ عطا فرمائی تھی، ان کے محبوب شاگرد شیخ ابوالحسن احمد الفارسی فرماتے ہیں کہ:
میں نے خود اپنے شیخ کو فرماتے ہوئے سنا ہے، جب کہ وہ بہت بوڑھے اور کمزور ہوچکے تھے کہ: انھوں نے اپنے علمی اسفار کے زمانہ میں ایک لاکھ حدیثیں یاد کرلی تھیں، پھر فرمایا کہ اب حافظہ اتنا کمزور ہوگیا ہے کہ ایک حدیث یاد کرنا مشکل ہے، فرمایا کہ آج میری بینائی زائل ہوگئی ہے، شاید یہ میری ماں کی کثرت گریہ کی سزا ہے، میں اپنے علمی اسفار کے باعث والدہ کی خدمت میں زیادہ وقت نہیں دے پارہا تھا، جب کہ والدہ کی خواہش رہتی تھی کہ میںان کے پاس رہا کروں، مجھے افسوس ہوتا ہے کہ ان کی خدمت کا حق ادا نہ کرسکا، یہ کوتاہی علومِ حدیث کی طلب کے شوق وجنون کے باعث ہوئی۔ (الأمالی)
محدث قطان قزوینیؒ صلاح وتقویٰ کے پیکر تھے، ایک تو مسلسل اسفار جس میں فرض روزہ بھی ترک کرنے اور بعد میں قیام کی حالت میں قضا کرنے کی شریعت نے اجازت دی ہے، مگر وہ مسلسل تیس سال تک روزہ رکھتے رہے، صرف نمک روٹی سے افطار کرتے تھے، زہد اور قناعت کے نمونہ تھے، صبر واستقامت کے ساتھ ہر قسم کی تکالیف کا پامردی سے مقابلہ کرتے تھے اور اپنے شوق کی تکمیل کرتے تھے (بحوالہ معجم الاولیاء از یاقوت حموی ج۱۱، تذکرۃ الحفاظ ج۳، الامالی)
آج جب کہ ہر طرف مدارس اسلامیہ کا جال بچھا ہوا ہے، کتب دراسیہ کے علاوہ ہر فن کی کتابیں میسر ہیں، قیام وطعام کا مفت نظم ہے، کون مرد مجاہد ہے جو احادیثِ رسول ﷺ کو حفظ کرنے کا شوق رکھتا ہے، کہنے کو تو شیخ الحدیث و شیخ الجامعہ کے منصب پر فائز ہزاروں علماء کرام پائے جاتے ہیں، مگر شاید وباید ہی کسی کو ایک ہزار حدیث یاد ہوگی پھر اس پر راویوں کے حالات کی پوری تفصیل بھی ازبر ہو!
وہ نوادرات زمانہ گذر گئے جس کے وجود سے امتِ مسلمہ باعزت وباوقار تھی، وہ یکتائے روزگار اسلاف اب صفحاتِ تاریخ کی زینت ہیں، ہم کو یہ بھی توفیق نہیںہوتی کہ ان کی سوانح حیات سے ہی دل کو گرمائیں۔
قَدْ خَلَتْ تلک السنونُ وأھلُھا
فـکَاَنَّھــا وکاَنَّـھــم أحــلامُ
وہ ماہ وسال اور اس کے باکمال لوگ گذرگئے، اب ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ عہدِ زریں اور اسلاف ایک خواب تھے۔
٭ ٭ ٭
——————————————–
دارالعلوم ، شماره 5، جلد: 95 جمادی الثانیہ 1432 ہجری مطابق مئی 2011 ء