مصر – کرومر (۱۸۸۲ء) سے کیمرون (۲۰۱۱ء) تک

از: ڈاکٹر ایم اجمل فاروقی

۱۵؍گاندھی روڈ، دہرہ دون

                عرب ممالک میں آئی تبدیلی کی حالیہ لہر کے دوران برطانوی وزیراعظم ڈیوڈکیمرون کے قاہرہ بیان نے کہ ’’میں اخوان المسلمین سے بات چیت نہیں کروں گا، ہم انھیں دیگر انقلابی قوتوں کا لیڈرنہیں تسلیم کرسکتے۔‘‘ کوئی اتفاقی بیان نہیں تھا؛ بلکہ یہ ان کی آبائی اسلام دشمنی کے اظہار کا تسلسل ہے۔ اگر ہم مصر کے پچھلے ۱۵۰ سال کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو مصر پر فرانسیسی حملہ ۱۷۹۹ء کے بعد سے جو دور شروع ہوا ہے وہ ۱۸۸۲ء میں براہ راست برطانوی قبضہ سے اپنے عروج کو پہنچا تھا، جو بات آج ۲۰۱۱ء میں کیمرون نے کہی اسی طرح کا رویہ اس کے پیشرولارڈکرومر نے اپنایاتھا، لارڈ کرومرخدیو مصر کی موجودگی کے باوجود مصر کاحقیقی حکمراں تھا، آج سے تقریباً ۱۰۰ سال پہلے اس نے جو ہتھکنڈے اپنائے اور جو جو ہتھکنڈے مغرب ومشرق کے اسلام دشمن آج اپنارہے ہیں، اس میں حیرت انگیز مماثلت ہے؛ بلکہ اگر آپ تاریخوں اور سالوں کا اندراج نہ کریں تو آپ کو معلوم بھی نہیں ہوگا کہ یہ بیسویں صدی کے شروع کی بات ہے یا اکیسویں صدی کے شروع کی!

                ۷؍مارچ ۲۰۱۱ء میں برطانیہ کے اخبار میں ’’اخوان کاڈر‘‘ جس طرح دکھایا گیا ہے، اس کا تقابل ۲۲؍مارچ ۱۹۵۲ء کے مشہور برطانوی اخبار States man of nation سے کریں:

’’وفدپارٹی خواہ خراب اور کمزور ہی کیوں نہ ہو؛ لیکن اخوان المسلمون وفد پارٹی سے کہیں خطرناک ہے، جہاں وفدپارٹی اپنی اصلیت کے اعتبار سے ایک مغربی جمہوریت پسند پارٹی ہے، وہاں اخوان المسلمین مذہبی جنون کی بناء پر مغرب سے ہر قسم کے اشتراکِ عمل سے متنفر ہے، وفد پارٹی جس قدر کمزور ہوگی اخوان المسلمین اسی قدر مضبوط ہوگی، یونیورسٹیوں میں اخوان پہلے سے ہی چھائے ہوئے ہیںاور بہت سے دیہاتوں کو وہ نوجوان اسکول ماسٹروں کے ذریعہ اپنے قابو میں کیے ہوئے ہیں اور انھوں نے کمیونسٹوں کے شانہ بہ شانہ اپنی علیحدہ ٹریڈ یونین بھی قائم کررکھی ہیں، اگر ہم نے وفد پارٹی کو کمزور کرنے کے شاہی منصوبہ سے چشم پوشی کی تو اس سے امن وامان کے قیام میں کوئی فائدہ نہ ہوگا؛ بلکہ ہم آنے والے انقلاب کی باگیں ان مذہبی جنونیوں کے ہاتھوں میں منتقل کردیں گے، جن کی تحریک کی بنیاد ہی مغرب سے نفرت پر ہے۔‘‘

                عرب ممالک میں انقلابات کی آمد کی دستک کے ساتھ ہی ’’اخوان المسلمین‘‘ کا ہوّا کھڑا کرنے والی بین الاقوامی ٹولی وہی ہے، جو آج سے سو سال قبل مختلف حیلہ بہانوں سے عرب کو اپنا غلام بناکر انھیں ’’مہذب‘‘ اور ’’ترقی یافتہ‘‘ بنانے کی مہم سرکرچکی ہے، صرف ایکٹر بدل گئے ہیں؛ مگر کیرکٹر وہی ہیں۔ مصر اور دیگر عرب ممالک میں اس وقت جس طرح مصری قوم پرستی، عرب قوم پرستی، مشرقیت (آباء پرستی) اور عالمگیریت کی آڑ میں اسلامی، فکری، ملی رشتہ کو پارہ پارہ کیاگیا، تقریباً وہی سازشیں اور ایکٹر آج پھر عرب دنیا میں تلاش کرسامنے لائے جارہے ہیں، وہ سارے نام نہاد، وطن پرست، قوم پرست، موڈرن لبرل اور سائنسی فکر کادعویٰ کرنے والے عناصر موجودہ انقلابی تحریک کے سرخیل بنائے جارہے ہیں، جو جبروانتشار کے ۱۰۰-۶۰ سالوں کے عرصہ میں آرام سے ڈکٹیٹروں کے ہم پیالہ اور ہم نوالہ یا کم از کم خاموش تماشائی بنے رہے اور قومی لوٹ مار میں بھی شریک رہے ہیں۔ مصر کی تاریخ پر نظر ڈالتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ ۱۸۸۳ء میںاعرابی پاشا کی بغاوت کی ناکامی کے بعد انگریزوں کا مصر پر مکمل قبضہ اور مضبوط ہوگیا اور انھوں نے آئندہ کبھی بھی اس قسم کی بغاوت کے امکانات کو پہلے سے ہی روکنے کے لیے مصر میں فکری انتشار کو ہوادی، ایک گروہ محبِ وطن ومحبِ اسلام تھا، جس کے قائد مصطفیٰ کامل تھے۔ دوسرا گروہ اسلامی رشتہ پر زندگی کی تعمیر کے خلاف مصر وطنیت کا علمبردار تھا، اس وطنیت کا مطلب تھا ’’سب سے پہلے اور سب سے آخر میں مصر اور صرف مصر‘‘ دوسروں سے ہمیں کوئی مطلب نہیں۔ ترکی میں کیا ہوا اور ہندوستان میں کیا ہورہا ہے؟ مصر وطنیت کے عقیدہ کو پختہ کرنے کے لیے وہ مصر کی ماقبل اسلام کی فرعونی تہذیب کو کرید کرید کر لارہا تھا، وہ دورِ فراعنہ سے اپنی تاریخ کے قلابے ملاتا تھا۔ اس گروہ میں سعد زغلوں، قاسم امین شامل تھے، یہ ترکوں کو ظالم اور برطانیہ کو عادل ثابت کرتے تھے، اس گروہ کو انگریز ایجنٹ لارڈ کرومر کی مکمل سرپرستی ورہنمائی حاصل تھی، انگریز ایک طرف عربوں کو ترکوں سے جدا کررہا تھا، تو دوسری طرف عربوں کو عربوں سے بیزار کررہا تھا، ’’المقطم‘‘ اخبار اس گروہ کا نمائندہ تھا، وہ صاف صاف لکھ رہا تھا ’’انگریز مصر میں قیام کی مشقت اس لیے برداشت کررہے ہیں کہ وہ مصریوں کو نظامِ ظلم سے نجات دلانا چاہتے ہیں اور انھیں عدل وانصاف کی بہار سے بہرہ اندوز کرنا چاہتے ہیں، مصر کو افلاس سے نکالنے اور مصر میں متوازن اقتصادی نظام قائم کرنے کا سہرا انگریزوں کے سرہے۔‘‘ اسی جماعت کا نام ’’الحزب الوطنی الحرّ‘‘ رکھ کر مصطفی کامل کی الحزب الوطنی مصری وطنیت کے تیسرے گروہ ’’حزبُ الامۃ‘‘ پاشائوں اور جاگیرداروں کی جماعت تھی، انگریزوں سے ڈرتی بھی تھی اور مرعوب بھی تھی، ان کا نظریہ، فکرونظر کی کھلی آزادی، یوروپ سے تعاون اور زندگی کے تمام میدانوں میں یوروپ کی اندھی تقلید تھا۔ یہ گروہ اقتصادی، سیاسی، ثقافتی ہرلحاظ سے مصر کو مغرب کے رنگ میں رنگ دینے کی دعوت پیش کررہاتھا، لارڈکرومر اس گروہ کو جس کی قیادت لطفی سید کررہے تھے ’’حزب شیخ عبدہ‘‘ کہا کرتا تھا۔ مصری زعماء کا ایک گروہ ایسا بھی تھا جو سیاسی تحریکوں میں حصہ لینے اور خصوصاً انگریزوں کو باہر نکالنے کی بات کو اہمیت نہ دیتا تھا۔ اس گروہ کو کرومر، مصلحین Reformersکہہ کر پکارتا تھا اور بھرپور حمایت کرتا تھا، یہ گروہ کہتا تھا کہ انگریزوں کے استعمار کا سبب ہمارا جماعتی بگاڑ ہے؛ لہٰذا اگر ہم معاشرتی خرابیوں کو درست کرلیں تو بیرونی تسلط سے خود بخود نجات مل جائے گی، ان مجددین و مصلحین میں بھی دو گروہ تھے؛ ایک گروہ مغربی تہذیب کو جوں کاتوں اختیار کرلینے کا مدعی تھا، دوسرا گروہ اسلامی اور مشرقی روایات کو بھی اختیار کرنے پر زور دیتا تھا۔ ایک فریق، فن وادب کے اصول یوروپ سے لینے لگا، پہلے گروہ کے علمبرداروں میں کچھ مسلمان جنھوں نے مشنری Missionary اسکولوں میں تعلیم پائی تھی کہ علاوہ زیادہ تر شامی اور لبنانی عیسائی تھے اور یہ برٹش اور فرانسیسی حلقوں میں بٹے ہوئے تھے، اس زمانہ میں فکری یلغار بھی جاری رہی، عرب قومیت کے تصور اور اسلام کے سیاسی تصور کو مسخ کرنے کے لیے مختلف اوقات میں بڑی بڑی تصانیف سامنے آئیں، جن میں سلاسہ موسیٰ کی کتاب  ’’الیوم والغد‘‘ (آج اور کل) عبدالرزاق کی کتاب  ’’الإسلام وأصول الحکم‘‘، عبدالغنی ترکی کی ’’خلافت اور اقتدارِ امت‘‘ طٰہٰ حسن کی کتاب ’’مصر کے مستقبل کی تعلیمی راہ‘‘، ’’مستقبل في الثقافۃ المصریۃ‘‘ کے علاوہ قاسم امین کی ’’تحریرالمرأۃ‘‘ (عورتوں کی آزادی) اور دوسری کتاب  ’’المرأۃ الجدیدۃ‘‘ (جدید عورت) طٰہٰ حسن فرانسیسی ادب اور ثقافت اور یونانی فکر سے بہت مرعوب تھے، ان کے مطابق مصری دماغ ہمیشہ سے بحیرئہ روم کے علاقہ کی فکر سے متاثر ہوتا رہا ہے، اسے مغربی تہذیب اپنانی چاہیے۔

                مندرجہ بالا کتب میں کسی میں خلافت کی ضرورت کا انکار اوراسے غیر اسلامی اور غیرضروری بتایا، کسی میں رسول علیہ السلام کو صرف پہنچانے والا بتایا، حکومت کرنے والا نہیں؛ کسی میں تعلیمی نظام کی بنیاد مغربی فکر پر رکھنے کی سفارش کی گئی، کسی میں پردہ کو غیرفرض بتایا اور کسی میں عورت کو ہر قید سے آزادی اور معاشرے کی روایات وآداب کے خلاف بغاوت پر ابھار کر دل کھول کر مغرب کی تقلید کی دعوت دی۔  ’’الیوم والغد‘‘  میں سلاسہ موسیٰ نے صاف صاف لکھا: ’’ہمیں ایشیا سے قطعِ تعلق کرکے یوروپ سے وابستہ ہوجانا چاہیے، میرا مسلک یہی ہے، میں زندگی بھر خفیہ بھی اور اعلانیہ بھی اس کے لیے سرگرم رہوں گا، میں مشرق کا کافر اور مغرب کا مومن ہوں۔‘‘

                اس تحریک نے چار محاذ: عورت، لباس، تعلیم، ادب وزبان کھول رکھے تھے۔ تہذیبی لحاظ سے مغربی بے حیائی، جام ومینا، زنا وقمار کے ساتھ فرعونی تہذیب کو جھاڑپونچھ کر چوراہوں، تعلیم گاہوں، سرکاری عمارتوں پر، ریلوے پلیٹ فارموں، ڈاک ٹکٹوں پر بوالہول اور فراعنہ کی تصاویر کے ذریعہ فروغ دیاگیا، اس کے ساتھ عورت کے میدان میں اسی تحریک کو غیرمعمولی کامیابی حاصل ہوئی۔ مسئلہ بے حجابی تک نہیں عریانی تک پہنچادیاگیا۔ سیاسی میدان میں بھی خواتین کو شامل کرلیاگیا، جن میں صفیہ زغلول، ہدی شعراوی خاص طور پر مشہور ہوئیں؛ انھوںنے آزادیِ نسواں کے نام پر مصری خواتین کو حددرجہ بے غیرت بنادیا۔ تعلیم کے میدان میں کرومر نے خاص طور پر قاہرہ میں یونیورسٹی قائم کرنے میں روڑے اٹکائے؛ مگر ہاں! ازہر کی جدیدکاری میں خصوصی دلچسپی لی۔ ازہر میں جدید علوم کے ساتھ عربی اور قرآنی علوم کو پسِ پشت ڈال کر جاہلی ادب اور جاہلی شعراء کو ترجیح دی گئی، ازہر کے ادارتی اور دینی تعلیم کے فارغین پر سرکاری ملازمتوں کے دروازے بند کردیے گئے۔

                اس کے ساتھ ہی ان مغربی طاقتوں نے جو آج اسلامی تحریکوں خصوصاً ’’اخوان‘‘ پر تشدد کا الزام لگاکر اسے تشدد پسند جماعت بتارہے ہیں، ان سامراجی طاقتوں نے ہی درحقیقت ان تحریکوں کو تاریخ کے خوفناک ترین ظلم، تشدد، تعذیب کا نشانہ بنایا۔ اخوان اور حکومت مخالف طاقتوں کو ان نام نہاد سیکولرسٹوں انقلابیوں اور سوشلسٹوں نے بے مثال ریاستی تشدد کا نشانہ بنایا اور حقوقِ انسانی کے ان ظالم نام لیوائوں نے جن کا کعبہ کبھی لندن اور پیرس تھا اور کبھی ماسکو (ناصر اور سادات کے دور میں) یا اخیر میں واشنگٹن سب نے تسلسل کے ساتھ اسلام کے نام لیوائوں پر جھوٹے الزام لگاکر قید وبند، جنسی تعذیب، پھانسیاں اور ملک بدری ہر طرح کے ظالمانہ طریقے پورے پچھلے ۸۰ سالوں سے جاری رکھے۔ ناصر کے زمانہ میں اس کے وزراء اعلیٰ صبری اور شکراوی جمعہ تعذیب وتشدد کے تعذیب کا یہ طریقہ رواج دیا تھا کہ جو اخوان کہنا نہ مانے، اس کے گھر کی خواتین کو جیل یا تفتیشی مرکز بلاکر ان پر پولیس کے کتے چھوڑدئیے جائیں۔ مشہور مصری عالمہ زینب الغزالی نے اس طریقہ کا تفصیل سے ذکر کیا ہے،  جس کا انھیں خود بھی نشانہ بنایاگیا تھا، اس کے علاوہ الٹا لٹکانا، کئی کئی دن کھڑا رکھنا، بے تحاشہ مارپیٹ، لگاتار جگاکر رکھنا، تنگ وتاریک مقامات پر رکھنا، برف کی سلیوں پر لٹانا، پانی کے اندر ڈبونا، ماتھے پر لگاتار پانی ٹپکانا جیسے شیطانی حربے شامل تھے۔ پی۔ ایس۔ آئی۔ کی قاہرہ سے ۱۰؍مارچ ۲۰۱۱ء کی خبر کے مطابق قاہرہ میں مظاہرین نے ’’دوزخ سیف ہائوس‘‘ نامی ایک بدنام زمانہ ٹارچر کا مرکز دریافت کرکے اس سے ۱۴ خواتین اور ۲۵ مرد قیدیوں کو آزاد کرایا ہے، یہ تمام افراد گذشتہ گئی سالوں سے اس عقوبت خانہ میں تشدد کا نشانہ بنے ہوئے تھے۔

                چھڑائے گئے افراد ذہنی طور پر مفلوج ہوچکے ہیں، گذشتہ ایک ہفتہ میں حسنی مبارک کے دور کے خاتمہ کے بعد سے ’’تحریکِ انقلاب ۲۵؍جنوری‘‘ کے نام سے موسوم گروپ نے ملک بھر میں چھاپہ مارکر بڑی تعداد میں مظلوم بے گناہ مرد اور خواتین کو رہا کرایاہے۔ مصری جوڈیشنل کلب کے سابق صدر اور معروف وکیل ڈاکٹر زکریا عبدالعزیز نے مصری ٹی۔ وی۔ پر گفتگو کرتے ہوئے بتایاکہ: انھوں نے قاہرہ کے دفتر داخلہ کے مرکز کے تہہ خانہ میں ’’لاظوغلی‘‘ نامی ٹارچر مرکز سے قیدیوں کو رہا کرایا؛ جب کہ نومنتخب وزیر داخلہ جنرل منصور العیسوی اس کی موجودگی سے انکار کررہے تھے۔ برطرف وزیر داخلہ میجرجنرل حبیب العادل نے اقرار کیا کہ حسنی مبارک کو تمام قیدخانوں کی سرگرمیوں اور تفصیلات کا علم تھا۔ سابق وزیراعظم صفوت الشریف کو بھی علم تھا۔ جن کا نام ’’دوزخ قید خانے‘‘ رکھا گیا تھا۔ ان کا ذکر انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے محمد الدرینی نے اپنی کتاب میں بھی کیا ہے اور آپ بیتی بتائی ہے کہ انھیں کس کس طرح ۴۰ روز تک ان تعذیب خانوں میںٹارچر کیاگیا۔ (حالات وطن دہرہ دون ۱۰؍ مارچ ۲۰۱۱ء)

                یہ تو برفانی تودہ کا صرف سرا ہے، ورنہ جو کچھ مغرب کے شیطانوں نے اپنے کارندوں کے ذریعہ پچھلی صدی میں تمام عرب اسلامی ممالک میں شیطانی ظلم وتشدد کرایا ہے، اس کی ہلکی سی مثالیں ابوغریب، بگرام ایئربیس، گوانتاناموبے کے علاوہ متعدد یوروپی اور عرب ممالک میں آج بھی جاری تشدد اور تعذیب سے ملتا ہے۔ کل مظلومین کی اہل خانہ خواتین کو بے آبرو کرکے مظلومین کو توڑا جاتا تھا اور آج قرآن پاک کے اوراق پھاڑ کر ان اوراق کو پاخانوں میں مظلوموں کے سامنے فلش کرکے توڑا جارہا ہے اور یہ تمام تفصیلات ’’غیرت لابی‘‘ یا ’’سازش لابی‘‘ کے ذہنوں کی اختراع نہیں ہیں۔ یہ عدالتوں میں دیے گئے حلفیہ بیانات اور عدالتوں میں ثابت ہوچکی رودادیں ہیں۔ وکی لیکس نے ان کے سچ ہونے پر مہر لگادی ہے۔ اس کے علاوہ افغانستان اور پاکستان، عراق وغیرہ میں پکڑے گئے قیدیوں سے راز اگلوانے کے لیے انھیں آج تک یہ انسانی حقوق کے مافیا دنیا بھر میں موجود ٹارچرمراکز میں بھیج رہے ہیں۔ یوروپ میں بھی خصوصاً عرب ممالک کو اس میں مہارت حاصل ہے۔

                اسلامی تحریکوں کو بدنام کرنے کے لیے خودساختہ تحریکیں قائم کرکے، ان سے سویلین آبادی، سیاحتی مراکز کو نشانہ بنوایاگیا۔ موساد کے سابق افسر آسٹوسکی کی کتاب ’’موساد کا فریب‘‘ میں اس نے مصر کے بارے میں بتایا ہے کہ موساد افغانستان سے صحرائے سینا کے راستہ مصری تنظیموں کے ہتھیار سپلائی کرتا تھا اور بدلہ میں وہ مصر میں یوروپی نشانوں کی نشاندہی کرکے ان پر حملہ کراتا تھا، کیا یہ سب آیسہ بی بی، سلمان تاثیر، شہزاد بھٹی پر آنسو بہانے والوں کو معلوم نہیں تھا؟ دنیا بھر کی سول سوسائٹی نے آج تک ان مظالم کے خلاف کتنے احتجاج کیے، جو آج وہ اخوان پر تشدد کی حمایت کا الزام لگارہے ہیں؟ سوشلسٹ اور ’’عظیم‘‘ سیکولرسٹ جمال عبدالناصر نے پابندیوں کے دوران اخوان کے ۶۰-۲۰ ہزارکارکنوں کو بغیرمقدمہ چلائے، سالہاسال ٹارچر مراکز  میں رکھا ۱۹۶۵ء کی پکڑدھکڑ میں ۲۰ہزار مردوں کے ساتھ ۸۰۰ خواتین کو بھی قید رکھ کر شرمناک طریقہ سے ٹارچرکیا۔

                خود ناصر نے اس بات کو ماسکومیں تسلیم کیاتھا کہ ان ہزاروں لوگوں میں سے صرف ۱۵۰۰ پر مقدمہ چلائے گئے، باقی سب بغیر مقدمہ کے جیلوں اور حراستی تعذیبی مراکز میں رکھے گئے۔

تھوڑا ذکر معاشی لوٹ کا ہوجائے

                عرب ممالک کی معاشی لوٹ کا فائدہ چاہے وہ نہر سوئیز کی آمدنی کا ٹھیکہ ہو، یا وہاں کے تعمیری ٹھیکے ہوں، یا پٹرول کی کھدائی اور ریفائنری کی صنعت ہو یا ہتھیاروں کی اربوں کھربوں کی سپلائی ہو، یہ سب کہاں گئیں؟ وہ مغربی لٹیرے جو آج بگلا بھگت بن کر قذافی پر بمباری کی باتیں کررہے ہیں اور حسنی مبارک، بن علی اور قذافی کی بیویوں کے ہزاروں لاکھوں کلوگرام سونے کے ذخیروں کی باتیں کررہے ہیں اور جمہوریت اور عوام کے حمایتی بن رہے ہیں، ان کے اربوں کھربوں ڈالر آج امریکہ، لندن، فرانس، سوئزرلینڈ میں ہی کیوں ہیں؟کل بھی وہ غریب عرب عوام کی لوٹ میں شریک تھے اور ان ظالم غلام ڈکٹیٹروں کے توسط سے اربوں ڈالر اپنے یہاں لاکر اپنی معیشت چمکارہے تھے اورآج ان کے اربوں ڈالر ضبط کرکے ایک اور ڈاکہ ڈال رہے ہیں، یہ اربوں ڈالر ان ممالک کو واپس کیوں نہیں کیے جارہے ہیں؟ آج اپنے آپ کو سول سوسائٹی، حقوقِ انسانی اور جمہوریت کے ٹھیکیدار بتانے والے مغربی شیطان اور منافقین کل تک سالوں سے خود جمہوریت کے قاتلوں کے حمایتی اور پشت پناہ تھے اور ان کے خلاف جدوجہد کرنے والوں کو ہرممکنہ شیطانی، ظالمانہ طریقہ سے کچلوارہے تھے اور آج ہوابدلتی دیکھ کر سادہ لوح عوام کو بہکانے کے لیے جمہوریت کے چمپئن بن کر بیانات داغ رہے ہیں اور تشدد اور تعذیب کے دوران ساحل پر بیٹھ کر نظارہ کرنے والوں کو دوبارہ اقتدار سوپنے کی تیاری بھی اندر ہی اندر چلارہے ہیں، یہ ہے ان خبیثوں کا اصل چہرہ!

                یہ بھی دیکھے جاننے اور غور کرنے کی ضرورت ہے کہ ظلم وتشدد کے ان سوسالوں میں تحریک اپنے آپ کو کیسے زندہ رکھ پائی؟ کس طرح اس نے اپنی سرگرمیوں کو مختلف رخ دے کر زندہ رکھا؟ کس طرح وہ انتہائی خبیث ومکار وسفاک دشمنوں کی چالوں کے باوجود زندہ رہی اور آج بھی انسانیت کے دشمنوں کے قلب میں کانٹے کی طرح کھٹک رہی ہے، سوال یہ ہے کہ اگر جمہوریت انسانوں کی مرضی کانام ہے تو کیمرون مصری آبادی کی اکثریت کی رائے (اگر وہ اسلام اور اخوان کے حق میں ہے) کو غیراہم بنانے والاکون ہوتا ہے؟ یہی گناہ ان منافقین نے آج سے ۲۱ سال پہلے الجزائر میں اسلامک سالوشن فرنٹ کی فتح کے امکان کے وقت کیا تھا، جس کے نتیجہ میں وہاں اب تک ڈیڑھ لاکھ لوگ مارے جاچکے ہیں اور لاکھوں ہمیشہ کے لیے برباد کردیے گئے ہیں۔ دنیا بھر کے ظالموں کے لیے، چاہے وہ مشرق کے ہوں یا مغرب کے عرب کے حالات سے اور وہاں کے ظالم حکمرانوں کے ذلت آمیز انجام سے سبق لے کر ظلم اور تشدد کا راستہ چھوڑ کر عدل وانصاف کی روش اپنانی چاہیے ورنہ مظلوم کا خون کل ان کے گریبان تک بھی پہنچ کررہے گا، جیساکہ آج وہ مبارک، بن علی کورسوا کررہاہے اور ان کے آقا منہ موڑکر شیطان کی طرح اجنبی بن گئے ہیں۔

٭           ٭           ٭

———————————————-

دارالعلوم ، شماره 5، جلد: 95 جمادی الثانیہ 1432 ہجری مطابق مئی 2011 ء

Related Posts