از: مفتی محمود زبیر قاسمی حیدرآباد
دارالعلوم دیوبند میں واقع اخلاص کے تاج محل مسجد رشید میں سب کے ساتھ نماز کی غرض سے چلاجارہا تھا، طالب علمی کا دور، اپنے میں مگن، احساس ہوا کہ پیچھے چلنے والے اب کوئی رہے نہیں، کچھ تجسس میں پلٹ کر دیکھا تو معلوم ہوا کہ واقعتا کوئی بھی پیچھے نہیں ہے، ہر چلنے والاراستہ چھوڑے بازو ٹھیرا ہوا ہے، نظر کچھ بلند ہوئی تو دیکھا کہ سفید ریش، سفید لباس میں ملبوس، ہاتھ میں عصا، نگاہیں نیچی، نحیف اور لاغر، کسی حد تک آگے کی جانب جھکے ہوئے، بارعب چہرہ، قدم خود بہ خود رکنے لگے اور دل چاہا کہ اس نورانی چہرہ کو کچھ قریب سے دیکھوں، دیوبند کی سرزمین پر یہ میرا پہلا دیدار تھا اس مرد درویش کا جس کی خوبیاں ہر موافق ومخالف کی زبان زد تھیں، جسے دنیا دین کے ایکبے لوث، خاموش مزاج خادم، بہترین مدبر اور مہتمم دارالعلوم دیوبند کی حیثیت سے جانتی تھی، آج ۸/دسمبر ۲۰۱۰ء مطابق یکم محرم الحرام ۱۴۳۲ھ بروز چہار شنبہ صبح گیارہ بجے کے قریب یہ افسوسناک خبر ملی کہ یہ مرد درویش بہترین مدبر ومنتظم آدھا گھنٹہ قبل دار فانی سے کوچ کرگیا، اللہ نے بلانے کے لیے انتخاب کیا بھی تو ماہ محرم کا جو فضیلتوں، برکتوں اور رحمتوں کا خزینہ ہے، اور دن کا انتخاب کیا بھی تو چہار شنبہ کا جس میں شروع کیاجانے والا ہر کام کامیابی اور سعادتمندی کی سوغات اپنے دامن میں سمیٹ لاتا ہے، فال نیک ہے کہ ہونے والا سفر آخرت بھی سرخروئی اور کامرانی سے عبارت ہوگا، بلند سے بلند مرتبوں اور اعلیٰ سے اعلیٰ درجات تک رسائی ہوگی۔
عالم اسلام کے اس ممتاز عالم دین، امیرالہند ومہتمم دارالعلوم دیوبند حضرت مولانا مرغوب الرحمن صاحب رحمة اللہ علیہ نے ۱۹۱۴ء میں آ نکھیں کھولیں، یہ دور ہندوستان کی غلامی کا دور تھا، ایک ایسا وقت تھا جس میں ہندوستانی مسلمان اورعلما انگریزوں کے ظلم وستم کا پہلا ہدف تھے، ہر طرف ایک نئے انقلاب کی آوازیں اٹھ رہی تھیں، ملک کے ممتاز علما پر مصائب وآلام کے پہاڑ توڑے جارہے تھے، ادھر عالم اسلام کی آخری اتحادی شکل خلافت عثمانیہ کے زوال کی کاوشیں بھی جاری تھیں؛ مگر اس نومولود کے والدین نے اپنے لخت جگر کے لیے انتخاب کیاتو اسی پرخطر راہ کا؛ مولویت کا، اوراس کو بھی مدرسہ کے حوالہ کیاگیا، تعلیم کی منزلیں طے کرتا یہ نونہال مرکز انقلاب دارالعلوم دیوبند کی دہلیز تک آپہنچا، شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی رحمة اللہ علیہ کی تلمیذی نصیب میں آئی، اساطین علم وفضل کی خوشہ چینی کرتا تقویٰ، تواضع، تدبراور حلم وبردباری کا یہ حسین وجمیل پیکر ۱۹۳۲ء میں علوم دینیہ کے نصاب کی تکمیل سے فارغ ہوا۔
فراغت کے بعد بھی مادر علمی سے تعلق برابر رہا، اپنے آبائی موضع بجنور میں خدمت دین اور اشاعت اسلام کی کاوشوں میں مگن ہوگئے، اکابر کی نظر انتخاب نے اس ہیرہ کو پہچان لیا تھا، دارالعلوم سے باضابطہ رابطہ کی بنیاد پڑی اور ۱۹۶۲ء میں دارالعلوم کی شوریٰ کے جو ملک کے قدآور، علمی، دینی اور دعوتی میدان کی نمایاں شخصیات پر مشتمل ہوا کرتی ہے رکن نامزد کئے گئے، ورع وتقویٰ میں طاق، حرام ومشتبہ اشیا سے دور، جب کبھی دارالعلوم کی دعوت پر مجلس شوریٰ میں شرکت کے لیے تشریف لاتے، جو سال بھر میں ایک آدھ بار منعقد ہوتی رہی ہوگی، تو کھانا مدرسہ کے بجائے اپنے رشتہ دار مولانا گل محمد رحمة اللہ علیہ کے یہاں تناول فرماتے، کام مدرسہ کا ہو، بلایا مدرسہ کے لیے جارہا ہو، کھانے میں کوئی شرعی حرج نہیں، اور ادارہ دارالعلوم دیوبند جیسا جہاں آمد اور مصارف کا پورا خیال رکھا جاتا ہے، کوئی آمد اس کے مدسے ہٹ کر خرچ نہ ہو؛ مگر پھر بھی اپنے کھانے کا خود اہتمام، ملک کے قابل قدر، دانشور، اصحاب نسبت اور جبال علم پر مشتمل دارالعلوم کی شوریٰ نے ۱۹۸۱ء میں حضرت مہتمم صاحب رحمة اللہ علیہ کو معاون مہتمم منتخب کیا، دارالعلوم کے حالات سے واقفیت رکھنے والے جانتے ہیں کہ یہ دور کس درجہ نازک تھا، دارالعلوم نے اپنے قیام کے بعد سے اس وقت تک کبھی اس قدر نازک حالات کا سامنا نہ کیا ہو، ہر طرف افراتفری اور انتشار کا ماحول، ہر شخص اپنی رائے پر قائم؛ طلبا، اساتذہ، انتظامیہ ہر کوئی اختلاف رائے کا شکار، ایسے نازک دور میں آپ رحمة اللہ علیہ کا انتخاب بجائے خود مقبولیت کی دلیل ہے، حضرت مہتمم صاحب رحمة اللہ علیہ نے اپنے اس انتخاب کی لاج بھی رکھی، مختلف آزمائشوں اورمسائل کے شکار دارالعلوم کو بحرانی کیفیت سے نکلانے میں حضرت مہتمم صاحب رحمة اللہ علیہ کی فراست، معاملہ فہمی، تدبر اور اعلیٰ حوصلگی کا بڑا دخل تھا، دارالعلوم کی نشأة ثانیہ اور اس کو مسائل سے نکالنے میں حضرت مہتمم صاحب رحمة اللہ علیہ کی خدمات قدر کے ہاتھوں تاریخ کا حصہ بنیں گی، حضرت مہتمم صاحب رحمة اللہ علیہ انتہائی متواضع، خوردنواز، اپنی ذمہ داریوں کا بھرپور ادراک رکھنے والے اور ملت اسلامیہ کے تئیں حساس دل کے مالک تھے۔
ذمہ داریاں بڑھتی ہی گئیں، نوبت اپنا کام کاج چھوڑ، مستقل دارالعلوم کے لیے وقت دینے کی آئی، چشم فلک منتظر ہے کہ دیکھیں اس پیکر اخلاص وتقویٰ کا عمل اب کیا ہوگا؟ کبھی اجلاس شوریٰ میں شرکت کے لیے آکر اپنا کھانا خود کھانے والے، اب دارالعلوم کے لیے مستقل ہوکر کیا طریقہ اختیار کرتے ہیں؛ مگر یہ کیا کہ حق الخدمت (تنخواہ) لینے سے انکار کردیا، اور جب نوبت آئی دارالعلوم دیوبند کے احاطہ میں رہنے کی تو شاید مال سے بے اعتنائی، تقویٰ اور پرہیزگاری کی تاریخ قلمبند کرنے والے مورخ بھی حیراں وششدر چودھویں صدی کے اس متقی کا واقعہ لکھ رہے ہوں، کہ خود اپنے ہی پیسہ سے دارالعلوم کے احاطہ میں کمرہ بنوایا اور پھر کرایہ کے پیسہ بھی ہر ماہ دارالعلوم میں جمع کیے جارہے ہیں، آج کے اس دور میں جبکہ ہر طرف غبن، دھوکہ دہی، مالیہ میں خرد برد کے وقعات گشت کررہے ہیں کیا یہ کرامت سے کم ہے؟ باورچی خود اپنا ہوتا، پکوان ذاتی پیسوں سے ہوتا، خادم کا تکفل بھی خود ہی فرماتے، مہمانوں کے اخراجات خود برداشت کرتے، رات دن طلبائے دارالعلوم کی راحت رسانی کی فکر، اس کی ترقی اور ہر فتنہ سے اس کی حفاظت کی کاوش؛ مگر ادارہ کا ایک روپیہ بھی روا نہیں، خود ہی جمع کروارہے ہیں، بے لوث خدمت دین!۔ اولئک آبائی فجئنی بمثلھم .
حضرت رحمة اللہ علیہ بیدار مغز، متیقظ اور دوراندیش نگاہ کے حامل، بارعب اور ہر دل عزیز شخصیت کے مالک تھے؛ لیکن دیگر اکابر کے مقابلہ آپ کے اسفار بہت کم ہوتے، بہت کم کسی جگہ آنا جانا ہوتا، دیوبند میں قیام کے دوران اپنے آبائی وطن بجنور تشریف لے جاتے، اور کچھ دن قیام کے بعد پھر دارالعلوم تشریف لے آتے، یہ خوش نصیبی ہے شہر حیدرآباد فرخندہ بنیاد کی کہ حضرت مہتمم صاحب رحمة اللہ علیہ نے جنوبی ہند کی ممتاز دینی درسگاہ دارالعلوم رحمانیہ کی دعوت پر یہاں قدم رنجائی فرمائی، بڑی خوشی اور مسرت کا سماں تھا،اس موقع سے شہر کی تاریخی مکہ مسجد میں جلسہ کا اہتمام بھی کیاگیا۔
ہم نے دور طالب علمی میں بارہا ہمسروں، بڑوں اور بہت سوں سے سنا کہ دارالعلوم جب کبھی مالی بحران کا شکار ہوا اس کسان نے اپنی زمین بیچ کر اس ادارہ کے انتظامات کی تکمیل کی، خیال ہوا کہ پیسے آنے کے بعد پابجائی کرلی ہو، سوچ ہماری تھی نا! مگر حیرانی ہوئی کہ اس خرچ کیے ہوئے کی طرف غلطی سے بھی نگاہ نہ اٹھی، ان سب کے باوجود احسان کا شائبہ تک نہیں، بلا کی تواضح اور فروتنی، خدا کو اپنے بندے کی شاید یہ ادائیں پسند آئی ہوں، پھر دارالعلوم نے بھی ان کے دور میں وہ ترقی کی کہ دنیا حیران رہ جاتی ہے، تعمیرات ایسی کہ دیکھتے دیکھتے آنکھیں تھک جائیں، پھرتے پھرتے قدم جواب دیدیں، ہر شعبہ مستقل کردیاگیا، تعلیمی سطح پر بھی غیرمعمولی اصلاحات دیکھنے کو ملیں، ہزاروں طلبہ ہر سال اس کے دامن تربیت سے فیضیاب ہورہے ہیں، دوسری طرف عالمی سطح پر دشمنان اسلام کی دینی مدارس کے خلاف یورشیں، ان مستشرقین کے لیے تو مادر علمی دارالعلوم دیوبند ان تمام کی اساس اور بنیاد تھی، ہر صبح ایک نئی شرارت کے ساتھ نمودار ہوتی، اس کے کردار کو مسخ کرنے اور اس کے اعتبار کو مجروح کرنے کی کوششیں کی گئیں، الکٹرانک میڈیا اور پرنٹ میڈیا جنہیں یقینا بیرونی سہارا بھی تھا، اس کو کبھی دہشت گردی کا اڈا بتانے اورکبھی ملک مخالف سرگرمیوں کا ذمہ دار بتانے کی کوشش کرتے، عالم اسلام میں سب سے زیادہ قابل اعتماد اس کے دارالافتاء کو بھی نئی ٹیکنکوں کے سہارے ویڈیوز کی کانٹ چھانٹ کرکے مجروح کرنے کی کوشش کی گئی، اور آج تک بھی ہر چند دن بعد میڈیااس کے ریکارڈ میں سے کوئی ایک فتوی نکال کر ایسے انداز میں پیش کرتا ہے جیسے اس کو آج ہی حاصل کیاگیا ہو، اور فتاویٰ بھی معاملات سے متعلق! مفتیان اور ارباب افتا جانتے ہیں کہ ان میں حالات کے اعتبار سے احکامات بھی بدلتے رہتے ہیں؛ مگر انہیں سمجھائے کون اور سمجھنا چاہے کون؟ حالات کے زیروزبر ہونے اورموج درموج آنے والے مسائل کو یہ مرد خدا بحسن وخوبی انگیز کرجاتا، اور دارالعلوم پر آنے والی ہر آنچ کا پامردی، بردباری اور فہم وتدبر کے ساتھ مقابلہ کرتا۔
مگر آج یہ عظیم اڈمنسٹریٹر، اکابر کی یادگار، تقوی اور پرہیزگاری کا مجسم پیکر ہمیشہ کے لیے دارفانی سے کوچ کرگیا، شدید علالت کی وجہ سے اپنے آبائی مقام بجنور ہی میں قیام پذیر تھے، پسماندگان میں ایک لڑکا اور ایک لڑکی ہے، ان کے فرزند مولانا انوارالرحمن صاحب کے مطابق کچھ دن سے مستقل بخار بھی تھا، وفات کے بعد نماز جنازہ ان کے آبائی وطن بجنور میں مدرسہ شاہی مرادآباد کے مفتی حضرت مولانامفتی شبیر احمد قاسمی صاحب نے ادافرمائی، بعد ازاں جنازہ دیوبند لایاگیا، اور احاطہ مولسری میں نماز جنازہ کی ادائیگی کے بعد رات دیر گئے مزار قاسمی میں آپ کی تدفین عمل میں آئی، حضرت مہتمم صاحب رحمة اللہ علیہ کی وفات کی خبر جیسے ہی عام ہوئی بالخصوص علما اور مدارس اسلامیہ سے وابستہ افراد میں رنج وغم کی لہردوڑ گئی، ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے ان کے پیروں تلے سے زمین کھینچ لی گئی ہو، کارگزار مہتمم حضرت مولانا غلام رسول خاموش رحمة اللہ علیہ کی وفات کے بعد دارالعلوم اور دیوبند سے وابستہ افراد کے لیے یہ بہت بڑا حادثہ ہے، حضرت مہتمم صاحب رحمة اللہ علیہ دارالعلوم اور دیگر کئی اداروں کے لیے ایک مضبوط ستون کی حیثیت رکھتے تھے، حضرت مہتمم صاحب رحمة اللہ علیہ کی بار بار معذرت اوراپنی پیرانہ سالی کے عذر کے بعد دارالعلوم کی مجلس شوریٰ نے حضرت مولانا غلام رسول خاموش رحمة اللہ علیہ کو کارگزار مہتمم نامزد کیاتھا؛ مگر عجیب اتفاق کہ ان کی وفات ۸/اکتوبر ۲۰۱۰ء کو ہوئی، اور دارالعلوم ابھی سنبھل کر کچھ فیصلہ کرتا کہ اس کے دوماہ بعد حضرت مہتمم صاحب بھی سپرد خاک کردیے گئے، دارالعلوم سے وابستہ حلقوں میں بے چینی کی کیفیت ہے، ایک غیریقینی صورتحال کا سامنا ہے، ہر شخص دھڑکتے دل کے ساتھ دعا گو ہے کہ اللہ رب العزت ملت کی امانت، اکابرکی یادگار، ملت اسلامیہ کے نقیب، تحریک آزادیٴ ہند کے مرکز انقلاب دارالعلوم دیوبند کی ہرفتنہ اور آزمائش سے حفاظت فرمائے۔(آمین)
٭٭٭
———————————————-
ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ 1-2 ، جلد: 95 ، صفر، ربیع الاول 1432 ہجری مطابق جنوری، فروری 2011ء