از: اشتیاق احمد ، مدرس دارالعلوم دیوبند
یہ دنیا ہمیشگی کی دنیا کا ایک نمونہ ہے، حقیقی زندگی تو آخرت ہی کی ہے، اس دنیا میں آنا ہی واپس جانے کی تمہید ہے، دنیا اور آخرت کے درمیان موت ایک آڑ، ایک دیوار یا ایک پل ہے، موت کے ذریعہ ہی آخرت کی دائمی نعمت سے سرفرازی ہوتی ہے؛ اس لیے موت من جملہ نعمتوں میں سے ایک نعمت ہے، اسی کے ذریعہ اللہ کا عاشق اپنے معشوق سے ملتا ہے، اور دیدار سے مشرف ہوتا ہے، انسان چاہے کتنا ہی بڑا ہو موت سے دوچار ضرور ہوگا، کسی کے مرنے کے بعداس کے دوست، احباب اور متعلقین کو صدمہ ہونا بھی انسانیت کا تقاضا ہے، جس سے جتنا تعلق ہوتا ہے اس کی جدائی اتنا ہی ستاتی ہے، آدمی جتنا بڑا ہوتا ہے، اس کے افادے کا دائرہ بھی اتنا ہی وسیع ہوتا ہے۔ وفات کے بعد غم واندوہ سے دوچار ہونے والے بھی اسی قدر کثیر ہوتے ہیں، اور محبت کی قیمت بھی جدائی کے وقت محسوس ہوتی ہے۔
یکم محرم الحرام ۱۴۳۲ھ بروز چہار شنبہ دارالعلوم دیوبند کے مہتمم حضرت مولانا مرغوب الرحمن صاحب رحمة اللہ علیہ کی وفات حسرت آیات سے بھی ایک دو نہیں ہزاروں، لاکھوں افراد رنج وغم اور تکلیف وکسک سے دوچار ہوئے۔ مرحوم کی وفات صرف دارالعلوم دیوبند کے طلبہ، اساتذہ، کارکنان اور انتظامیہ ہی کے لیے حادثہ نہیں ہے؛ بلکہ پورے ایشیا اور امتِ مسلمہ کے لیے یہ ایک بڑا حادثہ ہے، مرحوم اپنے صلاح وتقویٰ، اذکار واوراد، دعا و انابت، تدبر و تفکر، دیانت وامانت، تحمل وبردباری، فروتنی وتواضع، بے نفسی وعزلت نشینی، ہم دردی وغم خواری، قدر دانی وخوردہ نوازی وغیرہ جیسی بلند و بالا صفات میں اپنے ہم عصروں میں ممتاز مقام کے حامل تھے، حضرت مولانا غلام رسول خاموش (کارگذار مہتمم) اور ان سے پہلے حضرت الاستاذ مولانا نصیر احمد خاں صاحب شیخ الحدیث رحمہما اللہ کے بعد حضرت مہتمم صاحب کی وفات سے دارالعلوم دیوبند عجیب سونا سونا سا لگ رہا ہے، جیسے کہ روحانیت وللہیت کے تین اہم ستون یک لخت گرگئے، جن پر دارالعلوم دیوبند کی روحانی وعرفانی عمارت ٹھہری ہوئی تھی، دارالعلوم کے پورے ماحول میں ایک سناٹا سا چھاگیا، سچ ہے کہ: انسانیت کی تاریخ میں ایسے دن بھی آتے ہیں کہ: کیا کہیں؟ کس سے کہیں کچھ سمجھ میں نہیں آتا۔ یہ وقت دارالعلوم دیوبند کے لیے بڑا نازک ہے، اللہ تعالیٰ اس روحانی وعرفانی ادارہ کی حفاظت فرمائیں۔ ’’مردے از غیب نماید وکارے بکند‘‘
حضرت مہتمم صاحب رحمة اللہ علیہ کو اللہ تعالیٰ نے بڑی لمبی عمر عنایت فرمائی، آپ کی زندگی ہجری لحاظ سے پوری ایک صدی پر محیط ہے، آپ کی ولادت ۱۳۳۲ھ میں غالباً صفر کے مہینے میں ہوئی،اور پوری زندگی صلاح وتقویٰ کے ساتھ گذری،اور یہ بڑی خوش قسمتی کی بات ہے۔ حضرت ابوبکرہ رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ سے کسی نے دریافت کیا کہ: یا رسول اللہ سب سے اچھا آدمی کون ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ نے ارشاد فرمایا: مَنْ طَالَ عُمرہ وحَسُنَ عَمَلُہ.. اچھا آدمی وہ ہے جس کی عمر لمبی ہو اور اعمال اچھے ہوں، حضرت مہتمم صاحب رحمة اللہ علیہ اس کے مصداق ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے سوسال کی عمر عطا فرمائی اور پوری زندگی حسن عمل کا نمونہ بنی رہی، حضرت مہتمم صاحب دارالعلوم میں مسجد قدیم کے جنوب میں دفتر محاسبی کے بازو والے کمرہ میں رہتے تھے، جب تک طاقت رہی مسجد میں اوپر کی منزل میں جماعت کے ساتھ ہی نماز پڑھتے رہے، ایک جمعہ کو دیکھا کہ حضرت مہتمم صاحب اپنے کمرہ سے نکلے تو مسجد کے اوپر کے حصے میں کافی لوگ آگئے تھے، پھر بھی اگر آگے بڑھتے تو اندر آسکتے تھے،مگر دیکھا کہ اوپر راستہ ہی میں مصلیٰ بچھا کر سنت پڑھنے لگے، میں نے بعض احباب کو دکھایا کہ: یہ دیکھو مہتمم صاحب رحمة اللہ علیہ کی تواضع؟ سب کے سب انگشت بدنداں رہ گئے!
میری معین مدرسی کے زمانے میں میرا کمرہ:۲۶ (مسجد قدیم) جو ٹھیک ان کے کمرے کے سامنے اوپر ہی شمال کی جانب تھا، برابر دیکھتا تھا نماز کے بعد سارے طلبہ مسجد سے نکل جاتے تھے، حضرت مہتمم صاحب رحمة اللہ علیہ تنہا نوافل و اذکار میں مشغول رہتے، پھر بڑی دیر تک دعاء کرتے، پھر آہستہ اٹھ کر دھیرے دھیرے سیڑھی کے راستے اپنے حجرے میں تشریف لے جاتے، ان کی ساری نمازیں باجماعت ہوتیں، اور روزانہ ’’دارالاہتمام‘‘ میں اپنی نشست پر بیٹھنے سے پہلے نماز پڑھتے تھے، شاید وہ نماز اشراق ہوگی۔ سنا ہے کہ حضرت مہتمم صاحب دارالعلوم کے باضابطہ مہتمم ہونے سے پہلے اپنے وطن میں جس مسجد میں پابندی سے نماز پڑھتے تھے اس میں پچیس سال تک باضابطہ تنخواہ دار امام رکھنے کی ضرورت پیش نہ آئی، نہایت ہی پابندی سے نماز وامامت کی ذمہ داری بلاکسی معاوضہ کے ادا کرتے رہے، ہمارے لیے یہ چیز قابل اقتدا نمونہ ہے۔ شاید ان کی اسی نیکی اور انابت الی اللہ کی برکت تھی کہ ان کے تیس سالہ زمانہ اہتمام میں کبھی کوئی بڑا فتنہ پیدا نہ ہوا جس سے ایک دن بھی تعلیم متاثر ہوئی ہو، دارالعلوم کا اپنے مشن پر بلاکسی رکاوٹ کے جاری وساری رہنا اور ایک دن بھی تعلیم متاثر نہ ہونا کسی کرامت سے کم نہیں، سب کو ساتھ لے کر چلنا بھی اُن کا خاص امتیاز تھا، طلبہ،اساتذہ اور ملازمین پر بڑی شفقت فرماتے تھے، طلبہ کی شکایات بہت غور سے سنتے تھے،اور اسے حل بھی فرماتے تھے، ابتدائے مدتِ اہتمام میں طلبہ کے کمرے بھی چلے جاتے تھے، طلبہ اِس تواضع سے بہت متاثر تھے، مطبخ جاکر روٹی، شوربا وغیرہ کو چیک کرتے، ہر طالب علم ’’دارالاہتمام‘‘ جاکر اپنی درخواست پیش کرسکتا تھا، کسی آدمی کے لیے بھی کسی وقت رکاوٹ نہ تھی، میں نے بھی ایک مرتبہ وظیفہٴ پارچہ وپاپوش نہ دیے جانے کی شکایت کی تو فوراً ہی مہتمم صاحب رحمة اللہ علیہ نے محاسبی سے رپورٹ طلب کی تو وظیفہ باٹنے والے منشی اشرف صاحب بہت پریشان ہوگئے، بعد میں مجھے افسوس ہوا کہ ایسا نہیں کرنا چاہیے! غرض یہ کہ حضرت مہتمم صاحب بڑے ہمدرد اور متواضع تھے، ان کے گھر جب بھی کوئی مہمان آتا، تو مہمانوں کے سامنے ساری چیزیں خود سے لاکر پیش کرتے، منع کرنے کے باوجود نہ مانتے، سفر میں بھی ساتھیوں کی ضیافت خود سے کرتے،چائے لا لاکر پلاتے، پلیٹ فارم پر اتر کر کھانے کی چیزیں خریدتے اور ساتھیوں کوکھلاتے، ساتھ میں چھوٹے اور کم عمر رفقا کے ساتھ بھی یہی طرز اختیار کرتے۔
تواضع کا ایک واقعہ
حضرت الاستاذ مولانا ریاست علی صاحب بجنوری دامت برکاتہم نے سنایا:
ایک بار حج کے سفر پر جارہے تھے، جھانسی ریلوے اسٹیشن پر اتر کر چائے کے برتن میں چائے لے کر آئے، یہ سوچ کر کہ ابھی چائے پی کر واپس کردیں گے،اتنے میں ٹرین چل پڑی، اب مہتمم صاحب بہت پریشان ہوئے، اترکر برتن چائے والے کو دینا ناممکن ہوگیا؛ بالآخر اس برتن کو حفاظت سے رکھا اور پورے سفرِ حج میں اس کی نگہ داشت رکھی، جہاں جاتے ساتھ لے کر جاتے، جب واپسی ہوئی تو جھانسی اسٹیشن پر اتر کر چائے والے کو تلاش رہے تھے، گھوم گھوم کر پوچھ رہے تھے کہ یہ برتن کس کا ہے؟ بڑی محنت کے بعد معلوم ہوا کہ فلاں صاحب کا ہے؛ چنانچہ برتن اس کے حوالے کیا اور معذرت کی، اس کے بعد حضرت کو سکون ہوا کہ الحمدللہ! چلو امانت ادا ہوگئی؟
دیانت داری کا ایک واقعہ
حضرت الاستاذ زید مجدہ نے ایک دوسرا واقعہ تعزیتی اجلاس ہی میں سنایا کہ: ابوالحسن نامی ایک آدمی نے حضرت مہتمم صاحب سے ایک باغ کے خریدنے کی بات چیت کی، جب بات مکمل ہوگئی تو اس نے بیعانہ کے طورپر پانچ ہزار روپے دیے، اور کافی عرصہ گذرگیا اس نے قیمت ادا نہ کی اور نہ ہی باغ کو اپنے قبضہ میں لیا، جب باغ میں پھل آگئے اور پھل کو فروخت کیاگیا تو اس کی قیمت حضرت مہتمم صاحب رحمة اللہ علیہ نے اس کے حوالے کردی، اس نے بارہا انکار کیا اور کہا کہ حضرت ابھی تو میں نے قیمت نہیں دی ہے اور نہ ہی قبضہ کیا ہے، میں اس کا مستحق نہیں ہوں، لیکن حضرت مہتمم صاحب رحمة اللہ علیہ نے اصرار کے ساتھ ساری قیمت ابوالحسن صاحب کو دے دی، اس وقت پھل کی قیمت کم وبیش پچیس ہزار روپے تھی۔
سادگی کا ایک واقعہ
حضرت مہتمم صاحب رحمة اللہ علیہ بڑے سادہ تھے، حضرت مولانا بدرالدین اجمل قاسمی زیدمجدہ نے آب دیدہ ہوکر ایک واقعہ سنایا کہ: میں نے کئی بار بھائی انوارالرحمن (فرزند ارجمند حضرت مہتمم صاحب رحمة اللہ علیہ) کو لے کر ان کے کمرے گیا اور عرض کیا کہ حضرت! لوگ دور دور سے آتے ہیں اور آپ سے ملاقات کرتے ہیں، ہم آپ کے کمرے کو جوں کا توں رکھتے ہوئے، کچھ لیپ پوت کر ٹھیک کیے دیتے ہیں؛ تاکہ اچھا دکھنے لگے، اور کمرہ مہتمم دارالعلوم کا معلوم ہو، مگر حضرت نے میری بات کی طرف بہت زیادہ توجہ نہ فرمائی، دوسری تیسری باتیں کرنے لگے، اور ہم لوگوں کو بچوں والی ٹوفی کھلاکر رخصت کردیا۔
سخاوت اور کفایت شعاری
حضرت مہتمم صاحب رحمة اللہ علیہ بڑے زمین دار اور سخی تھے، ہر سال اساتذہ، ملازمین اور معززینِ شہر کی دعوت کرتے، آم کا موسم آتے ہی مہتمم صاحب کی دعوت کا انتظار ہونے لگتا تھا، گذشتہ سال بھی اچھی خاصی دعوت ہوئی، کئی سو افرادپیٹ بھر بھر کر آم کھاتے تھے، اپنے گھر پر بھی نہایت پرتکلف دعوت کرتے تھے، ان کی مہمان نوازی بڑی مشہور تھی؛ لیکن دارالعلوم کے مال میں نہایت کفایت شعاری سے کام لیتے تھے، بلب اور پنکھا بھی خود سے بند کرتے، دارالافتاء اور دوسرے دفاتر کا بلب اگر اتفاق سے جلتا رہ جاتا تو چپراسی کو بلاکر پوچھتے، امت کی امانت میں کفایت شعاری اور احتیاط کا یہ عالم تھا کہ ان کا عمل بخل کی غمازی کرنے لگتاتھا، تیس سالہ مدتِ اہتمام میں کوئی آدمی ایک مثال نہیں پیش کرسکتا، جس سے یہ استدلال کیاجاسکے کہ حضرت مہتمم صاحب رحمة اللہ علیہ نے ضرورت سے زیادہ کہیں بھی خرچ کیا ہے۔
بے تکلف مگر بارعب
حضرت مہتمم صاحب ساتھ والوں کے ساتھ بے تکلف رہتے تھے، لیکن (بہ قول حضرت الاستاذ مفتی سعید احمد صاحب پالن پوری زیدمجدہ) درمیان میں پردہ ہوتا تھا، قریب سے قریب آدمی بھی حضرت کی گہرائی تک نہیں پہنچ سکتا تھا، دارالعلوم کے انتظامی امور کو بڑی ہی باریک بینی سے انجام دیتے تھے، ہر ہر جزء پر نہایت ہی گہری نگاہ ہوتی تھی، جس کی وجہ سے سامنے والے بے تکلف ہونے کے باوجود مرعوب رہتے تھے، بیدارمغزی اور حاضر دماغی بھی بہت تھی، حافظہ بالکل صحیح وسالم تھا۔
صائب الرائے
آپ بہت زیادہ بولتے نہ تھے، جو کچھ بھی بولتے وہ بہت ہی نپا تُلا ہوتا تھا، آپ کی رائے کی پختگی کے سب لوگ قائل تھے، ’’شوریٰ‘‘ میں بھی آپ کی رائے کو بڑی اہمیت دی جاتی تھی، یہی وجہ ہے کہ حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب رحمة اللہ علیہ کے بعد اکابر واساطین اہل علم وفضل اراکین شوریٰ نے ۱۴۰۱ھ میں بحیثیت ’’مددگار مہتمم‘‘ آپ کو منتخب فرمایا اور ۱۴۰۲ھ میں ’’بحیثیت مہتمم‘‘ آپ کا انتخاب عمل میں آیا، جب کہ اس سے بیس سال قبل ۱۳۸۲ھ میں آپ کو مجلس شوریٰ کا باضابطہ رکن بنایا گیا تھا۔
حضرت مہتمم صاحب اور دارالعلوم
حضرت مہتمم صاحب رحمة اللہ علیہ کی ابتدائی تعلیم اپنے وطن میں ہوئی، ابتدا سے متوسطات تک کی کتابیں مدرسہ رحیمیہ بجنور میں پڑھیں، ۱۳۴۹ھ میں دارالعلوم دیوبند تشریف لائے اور ’’ہدایہ‘‘ کی جماعت میں داخلہ لیا، اس وقت آپ کی عمر شریف سترہ سال کی تھی، پھر جلالین، مشکوٰة اور دورہٴ حدیث شریف کی جملہ کتابیں پڑھ کر ۱۳۵۲ھ میں سند فضیلت حاصل کی، فراغت کے بعد گھر کی ذمہ داریوں کو سنبھالا، چوں کہ بڑے زمین دار تھے، گھر میں کوئی دیکھ بھال کرنے والانہ تھا، اسی کے ساتھ متعدد مدرسوں کی سرپرستی اور دیکھ ریکھ بھی کرتے رہے۔ شوریٰ کی رکنیت کے بعد دارالعلوم سے ایک گونا رغبت بڑھی اور جب مہتمم ہوگئے تو آپ کا جی گھر میں نہیں لگتا تھا، ضعف اور پیری کے باوجود یہاں آکر سکون سے رہتے، زیادہ وقت خلوت میں گذارتے، سناہے کہ اخیر میں وفات سے دوچار دن پہلے تک دارالعلوم آنے کے لیے اصرار کررہے تھے، ان کو دارالعلوم سے عشق تھا، ان کے زمانہ میں دارالعلوم نے ہر لحاظ سے ترقی کی ہے، یہ بھی قابل ذکر اُسوہ ہے کہ ان کے زمانہٴ اہتمام میں بنی ہوئی کسی عمارت پر ان کے نام کاکتبہ نہیں لگایاجاسکا، وہ ساری خدمات اللہ کے لیے کرتے تھے اللہ تعالیٰ ان کو اپنے شایانِ شان بدلہ عطا فرمائیں!
خوش قسمتی
حضرت مولانا محمد سلمان صاحب بجنوری استاذ دارالعلوم دیوبند نے سنایاکہ: چند فضلائے دارالعلوم دیوبند نے طے کیا کہ ہم لوگ جنازہ میں شریک نہیں ہوسکتے؛ اس لیے عین نمازِ جنازہ کے وقت حضرت مہتمم صاحب رحمة اللہ علیہ کے لیے طواف اور دعا کا اہتمام کریں گے؛ چنانچہ ان لوگوں نے عین نمازِ جنازہ کے وقت فون کیا کہ وہ لوگ ملتزم سے لگ کر حضرت کے لیے دعاء کررہے ہیں۔ یہ بڑی خوش قسمتی کی بات ہے، اللہ تعالیٰ ان کو کروٹ کروٹ جنت نصیب فرمائیں! (آمین)
٭٭٭
—————————————–
ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ 1-2 ، جلد: 95 ، صفر، ربیع الاول 1432 ہجری مطابق جنوری، فروری 2011ء