حضرت مولانامفتی مہدی حسن شاہ جہاں پوری رحمة الله عليه صدر مفتی دارالافتاء دارالعلوم ديوبند (۷)

میرے قابل احترام اساتذئہ کرام

از: مولانا مفتی فضیل الرحمن ہلال عثمانی

دارالعلوم دیوبند تمام مدارسِ اسلامیہ کا سرتاج اوراُمّ المدارس سمجھا جاتا رہا ہے۔ اور بجا طور پر وہ اس کا مستحق رہا ہے۔ دارالعلوم دیوبند کے دارالافتاء کا نقطئہ آغاز فقیہ النفس ابوحنیفہٴ وقت حضرت مولانا مفتی عزیز الرحمن عثمانی دیوبندی رحمة الله عليه تھے۔ جب دارالافتاء قائم ہونے لگا تو اس دور کے سب سے بڑے فقیہ، قطبِ عالم حضرت مولانا رشید احمد صاحب گنگوہی رحمة الله عليه جو دارالعلوم دیوبند کے سرپرست بھی تھے۔ ان کی نگاہِ انتخاب نے اس گوہرِ نایاب کو تاڑلیا اور سمجھ لیا کہ یہ ہیرا دارالافتاء دارالعلوم کے عظیم الشان عہدے کے لائق ہے۔

دینی منصبوں میں مفتی کا منصب سب سے اہم اور سب سے نازک منصب سمجھا گیا ہے۔ اس کے لئے جن اوصاف اور خصوصیات کی ضرورت ہے وہ بہت کم علماء میں ہوتی ہیں۔

۱۳۱۰ھ میں دارالعلوم دیوبند میں دارالافتاء کا آغاز ہوا۔ اور قصر افتاء کی خشت اول حضرت مفتی عزیز الرحمن عثمانی صاحب رحمة الله عليه منتخب ہوئے۔ ۱۳۱۰ھ سے لے کر ۱۳۴۶ھ (۱۹۲۸/) تک ۳۶سال ان کے قلم سے جو فتوے جاری ہوئے ان کا اندازہ کم وبیش تین لاکھ لگایا گیا ہے، جن میں ۳۷۵۶۱ کا باقاعدہ ریکارڈ موجود ہے …. یہ ہے دارالعلوم دیوبند کے دارالافتاء کا نقطئہ آغاز۔

*

یہ ۱۳۷۶ھ کی بات ہے، میں دارالعلوم دیوبند میں دورئہ حدیث سے فارغ ہوا اور ابھی رمضان کی تعطیلات چل رہی تھیں کہ حضرت والد صاحب قاری جلیل الرحمن عثمانی رحمة اللہ علیہ مجھے اپنے ساتھ لے کر دارالافتاء گئے۔ دارالافتاء دارالعلوم میں رمضان کی چھٹیاں نہیں ہوا کرتی تھیں اور اب بھی نہیں ہوتی ہیں۔ سالانہ چھٹیاں صرف تعلیم کے شعبوں کی ہوتی ہیں۔ بہرحال رمضان کا مہینہ تھا، میں والد صاحب کے ساتھ حاضر ہوا، اُس وقت حضرت مولانا سید مفتی مہدی حسن صاحب دارالافتاء کے صدر مفتی تھے۔

دارالافتاء قدیم مسجد کے اوپر کی منزل پر بنا ہوا ہے۔ بڑے کشادہ کمرے ہیں۔ پہلے کمرے میں حضرت مفتی صاحب کی نشست تھی۔ ان کی رہائش بھی اسی کمرے میں تھی۔

دوسرے کمرے میں قاضی مسعود احمد دیوبندی، مفتی محمد جمیل صاحب امروہوی اور مفتی احمد علی سعید بجنوری، یہ لوگ بیٹھا کرتے تھے۔ پرانے محررین میں محلہ دیوان کے قاری اخلاق احمد اور ایک اور صاحب جو قریب کے گاؤں کے تھے، وہ تھے۔

والد صاحب نے فتاویٰ کی مشق کے لئے مجھے مفتی مہدی حسن صاحب کی شاگردی میں دیدیا۔ رمضان کے زمانے میں تقریباً نودس بجے سے لے کر ظہر تک میں وہیں رہتا تھا اور شام کو عصر کے بعد پھر حاضر ہوجاتا تھا۔ مفتی صاحب کو کھانا پکانے کا اور افطاری بنانے کا بڑا شوق تھا۔ اِملی کی چٹنی بنانے کا طریقہ انھوں نے ہمیں سکھایا۔ گویا فتاویٰ کی مشق کے ساتھ کھانے پکانے کی مشق بھی ہوتی تھی اور بقولِ حالی:

ہے مشق سخن جاری چکی کی مشقت بھی

ایک طرفہ تماشا ہے حالی کی طبیعت بھی

مفتی صاحب بڑے بزلہ سنج پُرمذاق اور ذہین انسان تھے۔ علم ان کا بڑا مضبوط اور گہرا تھا فقہ پر پوری بصیرت کی نظر رکھتے تھے۔ مزاج میں تھوڑی تندی ضرور تھی، لیکن ان کی لیاقت میں کوئی شبہ نہ تھا۔

مفتی احمد علی سعید صاحب سے ان کی ہمیشہ نوک جھونک رہتی تھی۔ مفتی احمد علی سعید صاحب دارالعلوم دیوبند کے نائب مہتمم مولانا مبارک علی بجنوری کے صاحبزادے تھے۔ اور مولانا مبارک علی صاحب ہمارے دادا مرحوم مفتی عزیزالرحمن صاحب رحمة الله عليه کے خلفاء میں سے تھے۔ اس لئے مفتی احمد علی سعید صاحب بھی میرے ساتھ بہت شفقت کا معاملہ فرماتے تھے۔اور اس پرانے تعلق کا بڑا لحاظ رکھتے تھے۔ مجموعی طور پر دارالافتاء کا ماحول بڑا خوشگوار تھا، اس لئے وہاں پڑھنے پڑھانے میں دل لگتا تھا۔

دارالافتاء کا تیسرا کمرہ لائبریری اور مطالعے کے لئے تھا۔

مفتی صاحب کی طرف سے میری ذمہ داری یہ تھی کہ آنے والی ڈاک کو چھانٹ کر ہر موضوع کے فتوے الگ الگ کروں۔ اور ان کو مفتی صاحب کی خدمت میں پیش کروں۔ اور ان کے حکم کے مطابق متعلقہ مفتی صاحبان کو وہ فتوے دوں۔ ہر فتوے کو پڑھنا میرے لئے ضروری تھا۔ کچھ فتوے مفتی صاحب الگ کرلیتے تھے کہ ان کے جواب الگ کاغذ پر لکھ کر لاؤ۔ پھر ان کی تصحیح کرتے تھے اور لکھنے کا طریقہ بتاتے تھے۔

اسی زمانے میں ایک بڑا دلچسپ واقعہ ہوا۔ وہ یہ کہ اُس زمانے میں جماعت اِسلامی اور مولانا ابوالاعلیٰ مودودی رحمة الله عليه کی مخالفت بڑے زور پر تھی۔ ہمارے یہاں سے فتوے ان کے خلاف جاتے تھے۔ لوگ ان کو اشتہارات کی صورت میں چھاپ لیتے تھے، کوئی مسجد کا امام جماعتِ اسلامی سے متعلق ہوتا تھا تو اس کو مسجد سے نکال دیتے تھے۔ غرض پورے ملک میں ایک شورش برپاتھی۔

اُسی زمانے میں ردّ مودودیت کا ایک شعبہ دارالعلوم میں قائم ہوا جس کے لئے مولانا مفتی ظفیرالدین صاحب پورانوڈی ہاوی کو بہار سے بلایا گیا۔ بعد میں ان کو ترتیب فتاویٰ کی خدمت سپرد ہوئی۔

مجھے اعتراف ہے کہ جماعتِ اسلامی اور ابوالاعلیٰ مودودی صاحب کی کتابوں سے میں بالکل ناواقف تھا۔ اور جب ان کے خلاف فتوے پڑھتا تھا تو مجھے خیال ہوتا تھا کہ ان کی اصل کتابیں دیکھی جائیں اور حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمة الله عليه کے طریقے کے مطابق کتابوں کے مصنف اور جماعت اسلامی کے امیر مولانا ابوالاعلیٰ مودودی صاحب اگر وہ حیات ہیں تو ان سے ان کی مراد معلوم کی جائے۔

میں نے اپنے ان تاثرات کااظہار ایک روز حضرت الاستاذ مولانا مفتی سید مہدی حسن صاحب سے کیا تو انھوں نے مجھے کوئی تسلی بخش جواب نہیں دیا۔ اور یہ فرمایا کہ جو کتابیں ان کے خلاف لکھی گئی ہیں ان کو پڑھو۔

دارالافتاء کے لئے مجلس شوریٰ کے ممبران کی ایک کمیٹی بنی ہوئی تھی، جو دارالافتاء کے کاموں کی نگرانی کرتی تھی۔ اس کمیٹی کے ایک رُکن امیر شریعت بہار مولانا منت اللہ رحمانی مرحوم بھی تھے۔ اتفاق سے اُنہیں دنوں میں مجلس شوریٰ کا اجلاس ہورہا تھا، میرے تائے ابا مفتی عتیق الرحمن صاحب بھی شوریٰ کے ممبر تھے۔ میں ان سے ملنے گیا اور ساتھ میں مولانا منت اللہ صاحب سے بھی ملنا ہوگیا۔ تو میں نے فتووں کی اس صورت حال کے بارے میں ان سے عرض کیا۔ مولانا نے میری بات کو بڑی توجہ سے سنا اور یہ ان میں بڑی خوبی تھی کہ وہ چھوٹوں کی بات پر بھی پورا دھیان دیتے تھے چنانچہ بعد میں جب میں پرسنل لاء بورڈ کا ممبربنا تو مولانا کی یہ خوبی باربار ابھر کر سامنے آتی رہی کہ بات اگر ان کے خلاف بھی ہو اور کہنے والا کتنا بھی کم رتبے کا ہو، وہ اس کی بات پر پوری توجہ فرماتے تھے۔ بہرحال مولانا نے فرمایا کہ دارالافتاء کمیٹی کی میٹنگ ہونے والی ہے اور میں یہ مسئلہ اس میں رکھوں گا۔ چنانچہ مولانا نے وعدہ کے مطابق کمیٹی کی میٹنگ میں یہ مسئلہ اٹھایا اور یہ طے ہوا کہ ابوالاعلیٰ مودودی صاحب کو ایک سوال نامہ بھیجا جائے جس سے ان کے افکار کی وضاحت ہوسکے۔ وہ سوال نامہ تیار ہوا، مگر غالباً مفتی مہدی حسن صاحب اس کے لئے تیار نہیں ہوئے کہ یہ سوال نامہ دارالافتاء دارالعلوم دیوبند کی طرف سے بھیجا جائے۔ اس لئے یہ سوال نامہ امارات شرعیہ بہار کی طرف سے بھیجاگیا۔ وہ سوال نامہ اور اس کے جوابات مولانا ابوالاعلیٰ کی کتاب ”رسائل ومسائل“ کی چوتھی جلد میں چھپے ہوئے ہیں۔

*

انہیں دنوں میں حضرت مفتی صاحب کے ارشاد پر میں نے ”مَسَحْ علٰی الرَّقْبَة“ (گردن پر مسح) کے موضوع پر ایک تحقیقی مقالہ مرتب کیا جس کی تصحیح خود حضرت مفتی صاحب نے فرمائی۔ یاد پڑتا ہے کہ اس کا کچھ حصہ ماہنامہ تجلی دیوبند میں شائع ہوا تھا۔ لیکن اس کا مسوّدہ بعد میں کہیں گم ہوگیا اور تلاش کرنے پر بھی مل نہ سکا۔مگر اس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ مفتی صاحب کا مزاج علمی اور تحقیقی تھا۔ اور طلبہ کی تربیت بھی وہ اسی انداز میں کرتے تھے۔

*

مفتی صاحب کا وطن شاہ جہاں پور (یوپی) تھا۔ ان کی ولادت جمادی الثانی ۱۳۰۱ھ میں ہوئی۔ انھوں نے ابتدائی تعلیم اپنے وطن کے قدیم دینی مدرسہ، مدرسہ عین العلم میں حاصل کی۔ ہندوستان کے مشہور عالم اور مفتی حضرت مولانا مفتی کفایت اللہ صاحب دہلوی رحمة الله عليه پہلے شاہ جہاں پور میں رہتے تھے۔ مفتی مہدی حسن صاحب نے ان سے عربی کی ابتدائی کتابیں پڑھیں۔ اور پھر کچھ عرصہ مدرسہ امینیہ دہلی میں تعلیم حاصل کی۔

۱۳۲۸ھ میں آپ مدرسہ امینیہ سے فارغ ہوئے۔ دارالعلوم دیوبند میں ۱۳۲۸ھ میں دستاربندی کا جلسہ ہوا تھا۔ مفتی کفایت اللہ صاحب کے مشورے سے اس جلسے میں مفتی مہدی حسن صاحب کی بھی دستاربندی ہوئی۔

مفتی مہدی حسن صاحب کی ایک خصوصیت یہ بھی تھی کہ ان کو حضرت شیخ الہند مولانا محمودالحسن رحمة الله عليه، حضرت مولانا انورشاہ صاحب کشمیری رحمة الله عليه، حضرت مولانا خلیل احمد صاحب سہارنپوری رحمة الله عليه اور حضرت شاہ عبدالغنی دہلوی مہاجر مکی رحمة الله عليه جیسے اکابر سے سندِ حدیث حاصل ہوئی۔

مفتی صاحب نے اپنی زندگی کا بڑا حصہ راندیر ضلع سورت میں گذارا۔ ۱۳۳۰ھ میں مدرسہ اشرفیہ راندیر ضلع سورت، گجرات میں صدر مدرس کے طورپر آپ کا تقرر ہوا۔ اور وہا ںآ پ افتاء کے فرائض بھی انجام دیتے تھے۔ مفتی صاحب کی حدیث اور اسماء الرجال پر اچھی نظر تھی۔ زندگی کے ابتدائی دور میں آپ کے غیرمقلدین کے ساتھ علمی مذاکرے بھی رہے۔ اس لئے مختلف فیہ مسائل پر آپ کو گہری بصیرت تھی۔

۱۳۶۷ھ میں دارالعلوم دیوبند کے شعبہٴ افتاء میں صدر مفتی کے منصب پر فائز ہوئے۔ اور ۱۳۸۷ھ تک تقریباً بیس سال تک اس عہدے پر فائز رہے۔

جیساکہ میں نے عرض کیا کہ ۱۳۷۶ھ میں مجھے ان کی شاگردی کا شرف حاصل ہوا۔ اسی سال میں دارالعلوم دیوبند نے دارالافتاء میں فتاویٰ دارالعلوم کی ترتیب کا ایک شعبہ قائم کیا۔ جس کی ذمہ داری مولانا مفتی ظفیرالدین صاحب کے سپرد کی گئی۔ مولانا اکرم صاحب ان کے معاون تھے، وہ پاکستان چلے گئے تو ان کی جگہ پر میرا تقرر ہوگیا۔

ایک روز کی بات ہے کہ میں گردن جھکائے ہوئے اپنے کام میں مشغول تھا،میرے برابر میں مفتی جمیل صاحب کی نشست تھی، اچانک انھوں نے ایک پرچی میرے آگے رکھ دی جس میں یہ شعر لکھا ہوا تھا۔

زفضلِ الٰہی بر آمد ہلال

عزیزش بدارد جلیل الجلال

میں نے پرچی دیکھی تو مفتی صاحب نے نہایت شفقت ومحبت سے فرمایا کہ تمہیں گردن جھکائے کام میں لگا دیکھ کر مجھے تمہارے دادا مرحوم یاد آگئے۔ اور بے اختیار یہ شعر موزوں ہوگیا۔

مفتی صاحب کو شعرگوئی کا بڑا اچھا ملکہ تھا۔ اس شعر میں انھوں نے پردادا مرحوم مولانا فضل الرحمن، دادا مرحوم مفتی عزیز الرحمن، والد صاحب قاری جلیل الرحمن اور اس ناچیز کا نام، سب کے ناموں کو جمع کردیا۔ اُس زمانے میں یہ بزرگانہ شفقتیں اور اپنے چھوٹوں کی حوصلہ افزائی ہمارے اکابر کا خاص مزاج رہا ہے۔

*

بات مفتی مہدی حسن صاحب کی چل رہی تھی کہ وہ کس طرح علمی اور تحقیقی مزاج اپنے شاگردوں میں پیدا کرنے کی کوشش کرتے تھے۔ اُس زمانے میں ایک بڑے مزے کا واقعہ پیش آگیا جیساکہ میں نے عرض کیا کہ مفتی صاحب کو پکوان بنانے کا بڑا شوق تھا، وہ پکاتے بھی تھے اور کھلاکر خوش بھی ہوتے تھے۔ ان کا اصرار یہ رہتا تھا کہ رمضان میں افطاری میرے ساتھ کرو۔ دسترخوان پر بہت سے طلبہ اور علماء جمع ہوتے تھے اور خاصی پُرلطف مجلس ہوتی تھی۔

ایک روز ڈاک میں مجھے ایک منی آرڈر کوپن ملا، جس میں لکھا تھا کہ ہم افطاری کے لئے اتنے روپے بھیج رہے ہیں۔ یہ معلوم ہونے کے بعد کہ مفتی صاحب یہ افطاری صدقے کی مد سے کراتے ہیں، میں افطاری کرنے سے کترانے لگا۔ اور موقع پر اِدھراُدھر ہوجاتا تھا۔کیوں کہ تعلیم کے پورے زمانے میں والد صاحب نے کبھی ہمیں دارالعلوم سے کسی قسم کی کوئی امداد نہیں دلوائی تھی۔ اور تنگ دستی کے باوجود بھی کبھی یہ گوارا نہیں کیا کہ اپنے بچوں کو زکوٰة، صدقات سے فائدہ پہنچائیں۔ اس لئے مزاج اسی انداز کا بنا رہا۔ ایک روز مفتی صاحب نے بہت زیادہ پکڑکی اور پوچھا کہ تم میرے ساتھ افطار کیوں نہیں کرتے؟ تو مجبوراً میں نے کہہ دیا کہ شاید یہ افطاری صدقے کی مد سے ہوتی ہے، اس لئے میں شریک ہونا نہیں چاہتا۔ اس پر مفتی صاحب نے یہ یقین دلایا کہ یہ افطاری صدقے کی مد سے نہیں ہوتی، میرے اپنے ذاتی پیسے کی ہوتی ہے۔ اور جو افطاری کے لئے صدقے کے پیسے آتے ہیں وہ میں مستحق طلبہ کو دیدیتا ہوں۔

انھوں نے اس بار پر مسرت کا اظہار کیا کہ تمہارے مزاج میں یہ احتیاط ہے۔ اور اس دن سے ان کی شفقت کچھ اور زیادہ ہوگئی۔ اللہ تعالیٰ ان پر اپنی رحمتیں نازل فرمائے۔استاذ کی شفقت ماں باپ کی محبت سے بھی زیادہ قیمتی ہوتی ہے۔ یہ میری سعادت تھی کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے ایسے ایسے شفیق استاذ عطا فرمائے۔

جیساکہ میں نے عرض کیا کہ مفتی صاحب کا مزاج علمی اور تحقیقی تھا۔ انھوں نے شرح کتابُ الحُجّةْ لِاَہْلِ المَدِینَةْ پر بڑی قیمتی تالیقات لکھی ہیں۔ معانی الآثار کی شرح قَلاَئِدُ الْاَزْہَارْ ان کی بڑی علمی اور تحقیقی کتاب ہے۔ اَلسَّیْفُ الْمُجَلَّہْ عَلٰی المُحَلَّہْ یہ عربی زبان میں ابن حزم ظاہری کے بعض حدیثی مسائل کے تبصرے پر نقد ہے۔ جو چار جلدوں میں ہے۔ حقیقت یزید اس کے علاوہ قطع الوتین یہ بھی حضرت مفتی صاحب کی تصانیف میں سے ہیں۔افسوس ہے مفتی صاحب کی بہت سی کتابیں اس وقت دستیاب نہیں ہیں۔

عرصے تک بیمار رہنے کی وجہ سے آپ اپنے وطن منتقل ہوگئے تھے۔ آخر ۲۸/ ربیع الثانی ۱۳۹۶ھ میں وقتِ موعود آپہنچا اور آپ اس جہانِ فانی کو چھوڑ کر مالکِ حقیقی کے حضور میں حاضر ہوگئے اُس وقت آپ کے ایک صاحبزادے مولانا محمد میاں صاحب اکثر تشریف لایا کرتے تھے۔معلوم نہیں وہ بقید حیات ہیں یا نہیں؟۔ حضرت مفتی صاحب کے بیس سالہ فتاویٰ کا نایاب ذخیرہ دارالعلوم دیوبند میں موجود ہے کاش یہ فتاویٰ مرتب ہوکر شائع ہوجائیں تو ایک بڑا علمی کام ہوجائے گا۔ جو ملت کے لئے بڑا مفید ہوگا۔

مفتی مہدی حسن صاحب کے وصال کے بعد حضرت مولانا مفتی محمود حسن صاحب گنگوہی اور مولانا مفتی نظام الدین صاحب اعظمی، یہ دونوں ہی حضرات میرے سامنے ہی دارالافتاء میں تشریف لائے اور دارالافتاء کی وہ پرانی شان اور عظمت ان کے دم سے قائم رہی۔

کچھ عرصے بعد میں دارالافتاء سے درجہٴ فارسی میں منتقل ہوگیا اور میرے چھوٹے بھائی مفتی کفیل الرحمن نشاط عثمانی ایک زمانے تک نائب مفتی کے طور پر دارالافتاء میں خدمت انجام دیتے رہے۔

زمانہ کب ایک جگہ رُکتا ہے۔ انقلابات آتے رہتے ہیں۔ دارالافتاء کا سارا عملہ بدل چکا ہے۔ مفتی حضرات سب نئے ہیں اور وہ دارالافتاء جہاں برسوں شب وروز گذارے تھے اجنبی سا ہوگیا ہے۔ کبھی اُدھر کو گذرنا ہوتا ہے تو سب پرانی یادیں ٹیس بن کر ابھرنے لگتی ہیں۔

زمانہ ہوگیا گذرا تھا کوئی بزمِ انجم سے

غبارِ راہ روشن ہے بہ شکلِ کہکشاں اب تک

* * *

ماهنامه دارالعلوم ، شماره 8 ، جلد: 94 شعبان – رمضان 1431 ھ مطابق اگست 2010 ء

Related Posts