حرفِ آغاز

حبیب الرحمن اعظمی

مسلمان، مسجد، مدرسہ زبان و لغت کے اعتبار سے الگ الگ تین الفاظ ہیں؛ لیکن تہذیبی ومعاشرتی لحاظ سے ان میں چولی دامن کا ساتھ ہے جنھیں مختلف خانوں میں تقسیم نہیں کیا جاسکتا ہے؛ کیونکہ مسجد ومدرسہ کے بغیر قوم مسلم کا تصور بے معنی ہے، کیا اس تاریخی حقیقت سے کوئی منصف مزاج انکار کرسکتا ہے کہ مسلمان سرزمین عرب سے نکل کر ارض مسکونہ کے جس خطہ میں وارد ہوئے اسی مسجد ومدرسہ کی علمی و ثقافتی سرگرمیوں کے ذریعہ وہاں کا زمین و آسمان بدل دیا، مصر، الجزائر، طرابلس، مراکش، قیروان وغیرہ کے افریقی وحشیوں کو فضل و کمال کی معراج پر پہنچا دیا، ارض اندلس کو تہذیب و تمدن کی وہ تابناکی عطا کی جس سے ظلمت کدئہ مغرب بھی روشن ہوگیا، شیراز، بغداد، کوفہ و بصرہ کے مدرسوں اور علمی مراکز کی وسیع تر خدمات مہذب و متمدن دنیا کے لیے آج تک چراغِ راہ کا کام دے رہی ہیں۔ خود ہمارے ملک ہندوستان کا حال بھی اس سے مختلف نہیں ہے، مسلم دور حکومت میں مدرسے ہی حکومت کو نظام ہائے سلطنت کو بروے کار لانے کیلئے رجال فراہم کیاکرتے تھے، خاص طورپر عدلیہ ، انتظامیہ وغیرہ شعبوں کی ذمہ داریاں مدارس کے فضلاء ہی پوری کرتے تھے،ایبک کے عہد سے بہادر شاہ ظفر تک کے طویل عرصہ میں ملک میں پھیلے مدرسوں نے زندگی کے ہر شعبہ کو سنوارنے اور ملک کو تہذیب سے آراستہ و پیراستہ کرنے میں اہم کردار ادا کیاہے، جس کی تفصیل قرون وسطیٰ کی تاریخی کتابوں اور صوفیاء کے ملفوظات وغیرہ میں دیکھی جاسکتی ہیں۔

۱۸۵۷ء میں تحریک آزادی کے ناکام ہوجانے کے بعد جب برطانوی سامراج نے ملک پر اپنا تسلط مستحکم و مضبوط کرلیاتو اس نے اپنے خاص سیاسی اغراض کے تحت یہاں قدیم زمانے سے جاری تمام سارے نظاموں کو یکسر بدل دیا اور ایشیائی طرز حکومت کی بجائے ملک کے ماحول اور مزاج کے برخلاف یورپی نظام رائج کردیا تو ان مدارس کی ہمہ گیر افادیت برقرار نہ رہی اور بڑی حد تک ان کی خدمات کا دائرہ کچھ خاص شعبوں میں محدود ہوگیا، سامراجی حکومت جسے صحیح طور پر معلوم تھاکہ ہندوستانیوں میں حریت کی روح بیدار کرنے اور ۱۸۵۷ء کی انقلابی تحریک میں مدرسوں سے وابستہ علماء کا قائدانہ رول رہاہے اسلامی مدرسوں کی جانب سے متفکر تھی اور چاہتی تھی کہ مدارس کے نظام تعلیم و تربیت میں ایسی تبدیلی کردی جائے کہ حب الوطنی حریت فکر اور مذہب سے وابستگی کا جذبہ ان کے اندر سے ختم ہوجائے، اپنے اس نظریہ کی تکمیل کے لیے اس نے اپنی جیسی کوششیں بھی کیں مگر کھل کر مدرسوں کی مخالفت اور ملک و قوم کے لیے انھیں نقصان دہ یا خطرناک اور جدید اصطلاح میں دہشت گرد بتانے کی غلطی سے اپنے آپ کو ہمیشہ بچاتی ہی نہیں رہی بلکہ موقع بموقع اسلامی درسگاہوں کی علمی، ثقافتی اور معاشرتی و سماجی خدمات کا صاف لفظوں میں اعتراف بھی کرتی تھی، سامراجی حکومت کے خاتمہ اور قومی ملکی حکومت کے قیام کے بعد اسلامی مدارس کی ضرورت و اہمیت کا اظہار ان کی انسانیت نواز تعلیمات اور حب الوطنی نیز آزادیٴ ملک کے سلسلے میں ان کی وسیع تر خدمات کی ستائش روشن خیال صحافی اور موٴرخ ہی نہیں حکومت کے اہل کار، انصاف پسند ممبران اسمبلی و پارلیمنٹ اور وزراء اعظم و صدر جمہوریہ تک کرتے رہے ہیں۔

مگر آج کے آزاد بھارت میں جو دستوری جمہوریت اور سیکولرزم کا پابند ہے، آئین و قانون کی رو سے جہاں ہر مذہبی و لسانی اکائیوں کو اپنے مذہبی و تعلیمی ادارے قائم اور انھیں بغیر کسی اور کی مداخلت کے چلانے کا مکمل حق حاصل ہے، ایک خاص فکر و ذہن اور سیاسی نقطئہ نظر کے تحت مسلمانوں کے تعلیمی مدرسوں کو سرزمین ہند سے ختم کردینے یا کم از کم ان کی تہذیبی وثقافتی حیثیت کو پامال کردینے کی حکومت گیر پیمانے پر مہم چلائی جارہی ہے اور مغربی سیاست کے ماہر ”میکاوٴلی“ کی اس تھیوری کے مطابق کہ ”اپنے دشمن کو مارنے سے پہلے ضروری ہے کہ اسے خوب بدنام کیا جائے“ اعلیٰ انسانی قدروں کو فروغ دینے والے ان مدرسوں کو قومی مجرم بنانے کی ناروا سازشیں رچی جارہی ہیں اور وہ عناصر دہشت گردی جن کا شیوہ اور خونریزی و سفاکی جن کا پیشہ ہے جن کی بربریت اور جارحیت سے ارض وطن کا چپہ چپہ خون آلود ہے، امن و آشتی کے ان گہواروں کو دہشت گردی کا اڈہ بتاتے ہیں۔ کانگریس پارٹی کی زیرقیادت موجودہ حکومت چونکہ اپنے آپ کو سیکولر کہلاتی ہے اور ایک زمانہ میں واقعی اس کا یہ کردار قابل ستائش رہا ۔ بہرحال زبانی حد تک ہی سہی اپنے آپ کو اس نے اس سے وابستہ کررکھا ہے اس لئے وہ کھل کر ان مدارس پر یہ الزام نہیں عائد کرتی البتہ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے کہ چاہے دوسروں کے دباؤ میں سہی وہ مدارس کے دینی ومذہبی کردار سے انہیں محروم کردینے کے لئے مستقل تدبیریں کرتی رہی ہے۔ ملک کی سیکولر سمجھی جانے والی دیگر سیاسی پارٹیوں کی بے سمتی اور بے اثری کو جانتے سمجھتے ہوئے اس بارے میں بروقت ان سے کسی موٴثر اقدام کی توقع گویا شراب سے پیاس بجھانا ہے۔ اس لیے اس اہم ترین مسئلہ میں بس اللہ کا نام لے کر مسلمانوں ہی کو پیش قدمی کرنی ہوگی ۔ آگے ہمارے قافلے میں جو بھی شریک ہو، گرم جوشی سے اس کا استقبال کرنا چاہیے۔ ہماری دینی شناخت اور مذہبی تشخص کا مدار بڑی حد تک اسلامی مدارس و معابد پر ہی ہے اس بناء پر وطن عزیز میں مدارس دینیہ اور معابد اسلامیہ کا وجود و بقا ہر مسلمان کی لازمی مذہبی ضرورت ہے؛ لہٰذا ہماری حیات ملی کا تقاضا ہے کہ ہم مسلکی، جماعتی، طبقاتی وغیرہ حد بندیوں سے نکل کر اپنے دستوری حق کے تحفظ کے لیے از سر نو اپنی صفوں کو ترتیب دیں اور جمہوری و قانونی قدروں کا پاس و لحاظ رکھتے ہوئے مخلصانہ جدوجہد کریں کیونکہ باہمی اتحاد اور سنجیدہ کوششوں کے بغیر اس اہم ترین کام کو انجام نہیں دیا جاسکتا۔ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس سلسلہ کے اولین مرحلہ میں ۱۹۵۵ء کی آل انڈیا دینی تعلیمی کنونشن منعقدہ بمبئی کی طرز پر ملک کی راجدھانی ”دلی“ میں آل انڈیا تحفظ مدارس و معابد کنونشن کی جائے جس میں ہر مسلک اور طبقہ کے عمائدین پوری دلچسپی کے ساتھ شریک ہوں اور اسی موقع پر آئندہ کا لائحہ عمل اور طریق کار متفقہ طور پر طے کرلیا جائے، ملک کے مرکزی مدارس سے وابستہ علماء، اور مسلم تنظیموں نیز سیکولر سیاسی پارٹیوں سے مربوط رہنمایان ملت سے بطور خاص یہ توقع کی جاسکتی ہے کہ اس قسم کے متحدہ اجلاس کے انعقاد میں وہ اپنے تمام تر اثر و رسوخ کو کام میں لائیں گے۔

اپنے آئینی حقوق کے تحفظ کے لیے اگر بروقت سنجیدہ کوشش نہیں کی گئی تو ملت کے شیرازہ کو انتشار سے بچانا شاید بس سے باہر ہوجائے، اس لیے ہوا کے رخ کو محسوس کرنا چاہیے اور طوفان آنے سے پہلے اس سے حفاظت کا بندوبست کرلینا ضروری ہے ہوش مند قوموں کا یہی طریقہ کار رہا ہے۔

***

ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ 7 ، جلد: 94 ، رجب- شعبان 1431 ہجری مطابق جولائی 2010 ء

Related Posts