شیخ الادب والفقہ حضرت مولانا اعزاز علی صاحب امروہی برد اللہ مضجعہ(۲)

میرے قابل احترام اساتذئہ کرام

از: مولانا مفتی فضیل الرحمن ہلال عثمانی

اس سے پہلے استاذ محترم شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد صاحب مدنی نوراللہ مرقدہ کا ذکر آچکا ہے اور جیسا کہ لکھا تھا کہ ان سے درسِ نظامی کے آخری سال دورئہ حدیث کی کتاب بخاری شریف پڑھنے کی سعادت حاصل ہوئی۔

میری عربی تعلیم کی ابتدا حضرت مولانا اعزاز علی صاحب سے ہوئی۔ گویا حضرت مولانا اعزاز علی صاحب داستانِ حرم کا آغاز اور مولانا مدنی اس کی انتہا کہئے۔ اس لئے مولانا مدنی کے ذکر کے بعد حضرت الاستاذ مولانا اعزاز علی صاحب کے تعلق سے زمانہٴ طالب علمی کے کچھ تجربات اور مشاہدات تحریر میں لائے جارہے ہیں کہ یہ حضرت الاستاذ سے قلبی تعلق کا تقاضا بھی ہے اور آنے والی نسلوں کے لئے اس میں کچھ لائق فکر گوشے بھی انشاء اللہ سامنے آئیں گے۔

دارالعلوم دیوبند کے شعبہٴ فارسی و ریاضی سے فارغ ہونے کے بعد جب عربی تعلیم کا مرحلہ آیا تو حضرت والد صاحب مجھے مولانا اعزاز علی صاحب کے پاس لے گئے اور عربی تعلیم کے لئے مجھے ان کے سپرد کردیا۔

مجھے اب تک یاد ہے کہ مولانا چونکہ ناظم تعلیمات بھی تھے، اس وقت ان کا دفتر اہتمام کے دفتر سے بالکل متصل وہاں تھا جہاں عرصے تک ماہنامہ دارالعلوم کا دفتر رہا ہے۔ ایک بڑا سا ڈیسک مولانا کے سامنے رکھا ہوا تھا اور دونوں طرف بڑی بڑی تپائیاں فائلوں سے اور کاغذات سے بھری ہوئی تھیں۔ پہلی بار مجھے وہیں بلایاگیا تھا، میں عربی کی پہلی کتاب میزان الصرف لے کر دفتر تعلیمات کے کمرے میں داخل ہوا، ایک باوقار اور بارُعب چہرہ میرے سامنے تھا، میں سلام کرکے ادب کے ساتھ شیخ الادب کے سامنے بیٹھ گیا، مولانا نے ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ جواب دیا۔

پھر فرمایا کتاب لائے ہیں․․․؟

میں نے عرض کیا․․․ جی ہاں!

میں نے کتاب سامنے رکھی․․․ مولانا اشتیاق احمد صاحب کے اردو حاشیے والی بہت عمدہ چھپی ہوئی میزان الصرف تھی۔

حضرت نے کتاب دیکھ کر فرمایا․․․ مولوی صاحب! اور انگلی سے اشارہ کرتے ہوئے فرمایا یہ اردو حاشیے والی ہے، کل سے آپ دوسری کتاب لے کر آئیں۔

اصل میں حضرت اردو حاشیہ اور اردو شروحات سے طلبہ کو سختی کے ساتھ منع کرتے تھے کہ ان سے استعداد پیدا نہیں ہوتی، اس لئے حضرت نے مجھے اردو حاشیے والی میزان لانے سے منع فرمادیا۔ اگلے روز میں دوسری کتاب لے کر آیا جس میں حاشیہ فارسی تھا۔

بعد میں میرے ساتھ مولانا خورشید عالم صاحب اور حسیب صدیقی صاحب بھی شامل ہوگئے اور ہم تینوں کی ایک چھوٹی سی جماعت بن گئی۔ ہمیں پڑھانے کی جگہ اور وقت کئی مرتبہ بدلتے رہتے تھے، کبھی حضرت دارالحدیث میں پڑھاتے تھے، کبھی کسی اور درسگاہ میں اور کبھی اپنے کمرے میں جو احاطہٴ مسجد میں مسجد کے صدر دروازے کے پاس تھا اور اس کی کھڑکیاں باہر سڑک پر کھلتی تھیں یہ بڑا وسیع اور ہوادار کمرہ تھا اور حضرت کی قیامگاہ یہی کمرہ تھا۔

کبھی کبھی ہمارے ساتھ سبق میں ایک بنگالی طالب علم بھی شامل ہوجاتے تھے، یا دپڑتا ہے ان کا نام ابوالقاسم تھا، ان کی زبان بنگالی تھی، اردو پر پوری طرح قادر نہ تھے اس لئے بڑی دلچسپ باتیں ہوا کرتی تھیں․․․ غائب کے صیغے میں ”ھُو“ ضمیر سے ان کو بڑی دلچسپی تھی، جب بھی یہ صیغہ آتا تھا وہ اس میں ھُو ضمیر کا ذکر کرتے اور شیخ الادب جھلاکر فرماتے ہاں بھئی ہاں! اس میں ھُو ضمیر چھپی ہے․․․ ایک دن پھٹے ہوئے صفحہ میں سے دوسرے صفحہ پر ھو ضمیر لکھی ہوئی مل گئی اور ابوالقاسم زور سے چلائے حضرت ھو کی ضمیر یہاں چھپی ہے۔

ایک شعر بھی انھوں نے کہہ رکھا تھا جو ان کے خاص لہجے کی وجہ سے بڑی مشکل سے ہماری سمجھ میں آسکا۔ شعر ہمیں اب بھی یاد ہے، بڑے مزے کا شعر تھا۔

میں نے تمہیں بند کیا کنول کی پنکھڑیوں میں

اس نئے بندھن سے تم کبھی چھٹ نہ سکو گے

وہ ”چھٹ“ کو ”سٹ“ پڑھتے تھے، بڑی مشکل سے شعر سمجھ میں آیا، پھر تو ایک کھلونا مل گیا۔

*حضرت شیخ الادب صاحب انتہائی مصروف انسان تھے رات کے چند گھنٹے سونے کے علاوہ ان کا کوئی وقت خالی نہیں تھا۔ اکثر بڑی بڑی کتابیں پڑھاتے تھے جن میں دورئہ حدیث کی کتاب ترمذی بھی ہوتی تھی۔

ان کی مصروفیت کا عالم یہ تھا کہ مسجد کے اپنے کمرے سے نکل کر نماز کی پہلی صف میں شامل ہونے کے لئے جاتے جاتے بھی وہ پڑھاتے جاتے تھے، بعض طلبہ کو یہی وقت دے رکھا تھا کہ جب کمرے سے نکل کر نماز کے لئے چلوں تو اس وقت پڑھ لیا کرو۔

اس بے پناہ مصروفیت کے باوجود وہ ہمیں بالکل ابتدائی کتاب پڑھانے کے لئے کیسے راضی ہوئے، صرف اس مُروّت میں کہ وہ ہمارے دادا مفتی عزیز الرحمن صاحب کے شاگرد تھے۔

پڑھاتے بہت محنت اور توجہ سے اور پڑھانے کا طریقہ بھی بڑا دل نشین ہوتا تھا۔ صرف و نحو کے ہر قاعدے کا مثالوں میں اجرا کراتے تھے، پڑھاتے وقت ہاتھ کی حرکت اور اشاروں سے بھی کام لیتے تھے مثلاً ایک مرتبہ انھوں نے ہمیں پڑھایا کہ: جَاءَ الْبَرْدُ وَالْجُبَّاتِ․ آیا جاڑا مع لحافوں کے۔ اس کو پڑھاتے وقت دونوں ہاتھوں سے ایسا اشارہ کیا جیسے کسی چیز کو سمیٹتے ہیں، ان کے ہاتھ کی یہ حرکت اور ان کا معصومانہ انداز آج بھی جیسے نگاہوں میں گھومتا ہے۔

* ان کو اس بات پر کوئی جھجھک نہیں ہوتی تھی کہ دورئہ حدیث کے کسی سبق کے بعد دارالحدیث میں ہی وہ ہمیں عربی کی ابتدائی کتابیں پڑھانے لگتے تھے اور دورئہ حدیث کے طلبہ بھی حیرت کے ساتھ دیکھتے تھے کہ ابھی ترمذی پڑھارہے تھے اور اب میزان پڑھا رہے ہیں۔

* طرزِ تعلیم کے ساتھ ساتھ حضرت شیخ الادب صاحب ذہنی تربیت کے بھی ماہر تھے۔ ایک مرتبہ انھوں نے میری کسی کتاب کا، یاد پڑتا ہے شایدکافیہ تھی، امتحان لیا، مجھ سے کوئی سوال کیا، میں نے اس کا جواب دیا جو بعد میں معلوم ہوا کہ جواب غلط تھا۔ انھوں نے کئی بار الٹا الٹا کرمجھ سے پوچھا کہ مولوی صاحب جو آپ کہہ رہے ہیں، آپ کو یقین ہے کہ آپ وہ صحیح کہہ رہے ہیں․․․؟ میں ہر مرتبہ پورے اعتماد کے ساتھ یہی کہتا رہا کہ جو میں کہہ رہا ہوں بالکل صحیح ہے۔ حضرت نے مجھے پورے نمبر دیے اور بعد میں بتایا کہ آپ کا جواب غلط تھا، صحیح جواب یہ ہے۔ مگر یہ آپ کے خود اعتمادی کے نمبر ہیں۔ طالب علم کو اپنی بات پرپورا اعتماد ہونا چاہئے۔

* حضرت شیخ الادب صاحب نو عمر بچوں سے کبھی جسمانی خدمت نہیں لیتے تھے، چند بڑے طلبہ تھے جو سر میں تیل کی مالش کرتے تھے۔ ہم نے کئی مرتبہ پیر دبانے کی کوشش کی، سختی کے ساتھ روک دیا بلکہ نصیحت کی کہ لڑکوں سے کبھی جسمانی خدمت مت لینا۔ شاید اسی نصیحت کا اثر تھا کہ ہم نے عرصے تک دارالعلوم کے درجہ فارسی میں کم عمر طلبہ کو پڑھایا مگر ان سے جسمانی خدمت نہیں لی۔

* حضرت شیخ الادب صاحب کی بڑی اخلاقی خصوصیات تھیں جس کی مثالیں بہت کم ملتی ہیں۔ ہمیشہ سلام میں پہل کیا کرتے تھے، چھوٹے بڑے ہر ایک کو خود پہلے سلام کرتے تھے اور اس معاملے میں اتنے تیز تھے کہ کوشش کے باوجود ہم پہل کرنے میں ناکام رہتے تھے۔

طلبہ کے ساتھ بڑی محبت اور ہمدردی رکھتے تھے۔کوئی طالب علم بیمار ہوجائے اور شیخ الادب صاحب کو پتہ لگ جائے تو اس کے کمرے میں مزاج پرسی کے لئے پہنچ جاتے تھے اور اگر دیکھتے تھے کہ ضرورت مند ہے تو چپکے سے اس طرح مدد کرتے تھے کہ اس کی خودداری کو ٹھیس نہ لگے، پورے دارالعلوم کی فضاؤں میں ان کے اخلاق کا ایک خاص اثر تھا۔

فرمایا کرتے تھے کہ میں پڑھنے کے زمانے میں زیادہ ذہین نہیں تھا،مگر میں نے ذہانت کی کمی کو محنت سے پورا کیا اور ایک کتاب کو کئی کئی بار پڑھا۔ جیسی محنت تعلیم میں خود کرتے تھے چاہتے تھے کہ دوسرے بھی ایسی ہی محنت کریں۔

* جب ہم نے حضرت شیخ الادب صاحب سے پڑھنا شروع کیا تو ہماری عمر بہت کم تھی۔ نوعمری کی وجہ سے غیرمناسب باتیں بھی ہوجاتی تھیں۔ ایک مرتبہ پتنگ لوٹنے کے چکر میں حضرت کے کمرے کے سامنے سے گذرے جس کی کھڑکی مہمان خانے کے سامنے سڑک پر کھلتی تھی، حضرت نے ہمیں دیکھ لیا۔

اگلے دن دو تین ہلکے ہلکے چپت لگائے اور ساتھ ساتھ کہتے جاتے تھے اپنے مخصوص انداز اور لب ولہجے میں کہ ”مولی صاحب،مولی صاحب“ یہ حضرت کا خاص تکیہ کلام تھا ”آپ پتنگ لوٹتے ہیں؟ ہم آپ کے دادا صاحب کی نسبت سے ہیں۔ ہمارے بزرگوں میں نسبتوں کا لحاظ پاس اور اس کی رعایت ہمیشہ ایک روایت کے طورپر رہی ہے۔ استاذوں کی عزت، یہاں تک کہ استاذ زادوں کی قدر اور ان کی منزلت کا خیال ہمارے اکابر کا ایک خاص مزاج ہے۔

* حضرت شیخ الادب صاحب بہت ٹھوس استعداد رکھتے تھے، ان میں علمی بصیرت اور گہرائی تھی اس کے ساتھ یہ بھی حیرت کی بات نہیں ہے کہ ہمارے اکثر اکابر کی طرح ان میں شعر وادب کا اچھا خاصا پاکیزہ ذوق تھا۔اور شعر وسخن میں بھی انھوں نے اپنے استاذ محترم شیخ الہند مولانا محمودحسن عثمانی دیوبندی سے اصلاح لی ہے۔ ان کے چند اشعار بطور نمونہ ذیل میں درج ہیں:

مانا کہ تاکنا میرا فسق وفجور تھا                                         زلفوں کا دامن تم کو بچھانا ضرور تھا

کس نے کہا کہ وادیٴ غربت میں تھے جدا                        دل سے بہت قریب تھا گو جسم دور تھا

اس دل میں حسرتوں کے سوا کچھ نہیں رہا                        جو دل کہ تم کو دیکھ کے وقفِ سرور تھا

ہلچل زمیں پہ مچ گئی افلاک ہل گئے                یا رب کسی کی آہ تھی یا نفخِ صور تھا

تیری نشیلی آنکھ نے بے خود بنادیا                   اعزاز ورنہ صاحبِ عقل وشعور تھا

غزل کے کچھ اشعار جن میں قدیم روایات کی پاس داری کے ساتھ جدت کا رنگ بھی پایا جاتا ہے، لکھتے ہیں:

کچھ ہوش ہے اے ساقی فرزانہ کسی کا                             لبریز ہوا جاتا ہے پیمانہ کسی کا

ہم آپ سے جاتے رہے سنتے ہوئے جس کو     افسوس تھا الٰہی کہ وہ افسانہ کسی کا

اعزاز# تیرا حال سنادے کوئی اس کو                            دیکھتے ہیں حوصلہ ایسا نہ کسی کا

اردو کے علاوہ عربی و فارسی میں بھی آپ نے اشعار کہے ہیں۔

* مولانا کے بہت سے مضامین ماہنامہ ”القاسم“ اور ”الرشید“ میں چھپتے رہے ہیں۔ آپ نے دیوانِ حماسہ پر عربی میں حاشیہ لکھا، دیوانِ متنبی کا عربی حاشیہ بھی آپ کے قلم سے ہے اس کے علاوہ نفحة العرب جو عربی ادب کی کتاب ہے اور مدارس کے نصاب تعلیم میں شامل ہے آپ نے مرتب فرمائی۔

* نظم وضبط کے اور اوقات کے آپ بہت پابند تھے۔ انتہائی مجبوری کے علاوہ کبھی سبق ناغہ نہیں کرتے تھے۔ جس دن آپ کی اہلیہ کا انتقال ہوا، تو ہم ساتھیوں نے سوچا کہ آج تو چھٹی رہے گی جنازے کے ساتھ ہم قبرستان گئے اور تدفین کے بعد کچھ ہم نے کھیلنے ویلنے کے پروگرام بنالیے۔ مگر کہاں جناب ایک گھنٹہ کے بعد ہی چپراسی پیغام لے کر آیا کہ حضرت بلارہے ہیں، آکر سبق پڑھ لو۔ ناسمجھی کا زمانہ تھا، ہماری کم فہمی دیکھئے کہ سوچتے رہ گئے کہ بڑے میاں کو آج بھی چین نہیں ہے، مگر سبق تو پڑھنا ہی پڑا․․․ چہرے پر سوگواری ضرور تھی مگر علم کا یہ شیدائی اپنے غم کو بھول کر دوسروں کو علم کی دولت بانٹنے میں لگا ہوا تھا۔

* اُسی زمانے کی بات ہے حضرت کے پاس کہیں سے کسی بڑی ملازمت کی پیش کش آئی جس میں تنخواہ بھی ایک ہزار روپے تھی اور دارالعلوم کی تنخواہ غالباً پچاس ساٹھ روپے رہی ہوگی۔ معقول تنخواہ کے علاوہ دوسری رعایتوں کی بھی پیش کش تھی، مگر اس بے نیاز ہستی نے جس کے سامنے علم کی دولت تھی نہ کہ دنیا کے مال ودولت۔ جواب میں لکھا:

”آپ کا شکریہ کہ آپ نے مجھے اس قابل سمجھا۔ مگر اب تو یہ دل چاہتا ہے کہ اسی چٹائی پر بیٹھا رہوں۔“

چٹائی پر بیٹھ کر اس شخص نے وہ خدمت کی، ہزاروں ہزار طلبہ کو پڑھایا، اخلاق سے مزین کیا کہ بڑی بڑی تنخواہ والے اس خاک نشین پر رشک کرتے رہیں گے۔

***

آپ کا آبائی وطن امروہہ ضلع مراد آباد ہے۔ آپ کا تعلق کمبوہ برادری سے تھا۔ مجھے ایک مرتبہ حضرت نے اپنے بڑے بھائی کے پاس میرٹھ کسی کام کے لئے بھیجا تھا، بڑے مہذب اور ذی علم تھے۔ رہن سہن سے اندازہ ہوا کہ پس ماندہ لوگ نہ تھے۔ ولادت کی تاریخ یکم محرم الحرام ۱۳۰۱ھ مطابق ۱۸۸۲/، جمعہ کا مبارک دن، صبح صادق کے قریب بدایوں میں پیدا ہوئے۔ یہاں آپ کے والد ملازمت کے سلسلے میں رہائش پذیر تھے۔

کچھ عرصے کے بعد آپ کے والد بدایوں سے شاہ جہاں پور آگئے جہاں آپ نے میاں قطب الدین صاحب سے قرآن پاک کے بیس سپارے ناظرہ پڑھے، اس کے بعد حضرت قاری شرف الدین صاحب سے قرآن پاک حفظ کیا۔

اردو، فارسی کی ابتدائی تعلیم آپ نے اپنے والد محترم سے حاصل کی۔ پھر مولانا مقصود علی صاحب سے فارسی کی کچھ کتابیں اور میزان سے لے کر شرح جامی تک کی کتابیں پڑھیں۔

اس کے بعد شاہ جہاں پور کے مدرسہ عین العلم میں داخل ہوکر مولانا شبیر احمد مرادآبادی، مولانا عبدالحق قابلی اور مولانا کفایت اللہ دہلوی سے تعلیم حاصل کی۔

اس کے بعد مولانا کفایت اللہ صاحب کے مشورے سے دارالعلوم دیوبند میں داخل ہوئے، ہدایہ اوّلین، میرقطبی اور دوسری بعض کتابیں پڑھ کر اگلے سال اپنی ہمشیرہ سے ملاقات کے لئے میرٹھ تشریف لے گئے اور مولانا عاشق الٰہی میرٹھی کے اصرار پر میرٹھ ہی میں چار سال تک تعلیم حاصل کرتے رہے۔

اس کے بعد پھر دارالعلوم دیوبند میں داخل ہوئے اور ہدایہ آخرین، بیضاوی، بخاری، مسلم، ابوداؤد، ترمذی وغیرہ کتابیں حضرت شیخ الہند مولانا محمودحسن کے یہاں پڑھیں۔

فنون کی بعض کتابیں مولانا رسول خاں ہزاروی سے جب کہ ادب کی کتابیں حضرت مولانا سید معزالدین صاحب سے پڑھیں۔ فتویٰ نویسی کا فن حضرت مولانا عزیزالرحمن عثمانی سے سیکھا۔

۱۳۲۰ھ میں دارالعلوم دیوبند سند فراغت حاصل کی۔ فراغت کے بعد تقریباً ۵۴ سال درس وتدریس سے متعلق رہے۔ مدرسہ نعمانیہ بھاگلپور میں سات سال،مدرسہ افضل المدارس شاہ جہاں پور میں تین سال مدرس رہے۔

۱۳۳۰ھ میں پچیس روپے مشاہرے پر دارالعلوم دیوبند میں مدرس مقرر ہوئے اور تادمِ آخر ۱۳۷۴ھ تک دارالعلوم دیوبند میں درس دیتے رہے۔

* روحانی تزکیہ وتربیت کیلئے حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی کے دست مبارک پر بیعت کی اور اجازت وخلافت حضرت شیخ العرب والعجم مولانا سید حسین احمد مدنی کی طرف سے عطا ہوئی۔

* کئی درسی کتابوں کے حاشیے آپ نے تحریر فرمائے جن میں ”حماسہ“ اور ”متنبی“ کا ذکر اوپر آچکا ہے اس کے علاوہ فارسی میں نورالایضاح کا حاشیہ لکھا، حاشیہ کنزالدقائق تحریر فرمایا، مفیدالطالبین اور تلخیص المفتاح پر بھی آپ نے حاشیے لکھے۔

* شیخ الادب صاحب ایک انتہائی پختہ استعداد کے مدرس، ممتاز عالم دین، علوم وفنون میں یکتائے روزگار اور باخدا شخصیت۔ آپ کو اللہ نے بے شمار امتیازی صفات عطا کی تھی، زندگی بھر تشنگان علم وعرفان میں وراثت نبوی تقسیم فرماتے رہے․․․ مولانا سید انظرشاہ صاحب مسعودی آپ کی سوانح حیات ”تذکرة الاعزاز“ کے نام سے لکھی تھی، وہ نایاب ہوچکی ہے۔

* آپ کے اس ارشاد پر اس تحریر کو ختم کرتے ہوئے حسرت و یاس کے ساتھ اس وقت کو یادکرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے یہ سعادت نصیب کی تھی کہ میں نے آپ کے سامنے زانوئے تلمذ طے کیے، آپ کی شاگردی نصیب ہوئی۔ کاش میں اس وقت سے پورا فائدہ اٹھاپاتا اور ایسے باکمال استاذ کی قدر کرتا۔ آپ نے وقت کے بارے میں ایک بات ارشاد فرمائی کہ:

”جو زمانہ گذرچکا وہ ختم ہوچکا اس کو یاد کرنا عبث ہے اور آئندہ زمانے کی طرف امید کرنا بس امید ہی ہے، تمہارے اختیار میں تو وہی تھوڑا وقت ہے جو اس وقت تم پر گذررہا ہے۔“

* حضرت الاستاذ بڑی شفقت فرمایا کرتے تھے۔ مجھے اب تک ایک منظر یاد ہے، تقسیم انعامات کا جلسہ ہورہا تھا، حضرت ہر ایک طالب علم کا نام لے کر اس کے حاصل کردہ نمبر پڑھ کر سنارہے تھے، میرا نام آیا، قدوری کا سال تھا اور اس سال میں نے تمام کتابوں میں اچھے نمبر لیے تھے جس کی وجہ سے مجھے خصوصی انعام ملنا تھا۔ حضرت نمبر پڑھتے جاتے تھے، چہرہ خوشی سے دمک رہا تھا میری طرف مسکراکر دیکھتے تھے جیسے اپنے شاگرد پر فخر کررہے ہوں۔مگر!

دیکھئے قسمت کی خوبی ٹوٹی کہاں کمند

ایک چھوٹا سا رسالہ منطق کا ”اِیساغوجی“ اس کا امتحان مولانا معراج الحق صاحب کے پاس تھا اور میں اتفاقاً اس امتحان میں غیر حاضر رہ گیا۔ میں نے اس چھوٹے سے رسالے کو کوئی خاص اہمیت نہ دی، مگر وہی چھوٹا سا رسالہ میرے گلے کی ہڈی بن گیا اور میرا خصوصی انعام ملتے ملتے رہ گیا۔

* حضرت شیخ الادب صاحب کا وصال ۱۳۷۴ھ میں ہوا۔ موت اپنی جگہ برحق ہے، وہ اپنے وقت پر آکر رہتی ہے۔ لیکن یہ حساس انسان ایک ایسا صدمہ اپنے ساتھ لے کر گئے جس نے ان کو موت کے دروازے تک پہنچادیا۔

ہوا کہ کسی صاحب نے اپنا پی – ایچ- ڈی کا مقالہ مولانا کے پاس تصحیح کے لئے بھیجا۔ ایک صاحب جو مولانا کے بہت قریب تھے انھوں نے اس کو چپکے سے اڑالیا۔ ان صاحب کی برسوں کی وہ کاوش تھی، مولانا کو اس کا بڑا صدمہ تھا کہ وہ شخص مولانا کو خائن سمجھے گا۔ اسی صدمے میں بیمار ہوگئے، بار بار زبان سے یہی الفاظ نکلتے تھے ”مولوی صاحب وہ کیا کہے گا، مولوی بے ایمان نکلا“ آخر یہ صدمہ حضرت کے لئے جان لیوا ثابت ہوا۔

وہ دنیا سے تشریف لے گئے جس پر شقاوت کی مہر لگنی تھی لگ گئی، لیکن ایسے انسان صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں۔ ہمارے دینی مدرسوں نے ایسی بہت سی شخصیات ملت کو دی ہیں مگر اب ان کا اوسط بہت کم ہوتا جارہا ہے۔ ہم اپنے ان اکابر کو یاد کرکے صرف ان کے ساتھ عقیدت کا اظہار ہی نہیں کرتے بلکہ اِس تمنا کا اظہار کرتے ہیں کہ اُن جیسے ہی نہ سہی مگر ان سے ملتے جلتے ان کے نقش قدم پر چلنے والے، ان کے طریقوں کو اپنانے والے، ان کی زندگی کو رہنما بنانے والے لوگوں کی ہمیں پہلے سے زیادہ ضرورت ہے۔ وما ذٰلک علی اللّٰہ بعزیز․

قبرستان قاسمی میں مولانا کا مدفن جیسے پکار پکار کر کہہ رہا ہے کہ ایک ہی اعزاز علی کیوں․․․؟ اور کیوں نہیں․․․؟۔

***

ماہنامہ  دارالعلوم ، شماره 5 ، جلد: 94 ، جمادی الاول – جمادی الثانی 1431ہجری مطابق مئی 2010 ء

Related Posts