شیخ الحدیث حضرت مولانا نصیراحمد خاں صاحب کے سانحہٴ ارتحال کے بعد دارالعلوم میں تعزیتی اجلاس اور تدفین

رپور تاژ :

از: مولانا اشتیاق احمد ، مدرس دارالعلوم دیوبند

۴/فروری ۲۰۱۰ء کی صبح صادق عجیب غم واندوہ لے کر طلوع ہوئی، پنجشنبہ (جمعرات) کی رات دو بج کر دس منٹ پر صبح کاذب سے پہلے ہی علم وعمل کا جامع ایک ایسا ستارہ غروب ہوگیا، جس کی ضیا پاش تابانی پر آفتابِ نیم روز بھی رشک وغبطہ کے ترانے گارہا تھا، اس ستارے کا غروب شام غم سے بھی زیادہ غمگین ثابت ہوا، صبح روشنی اور امید لے کر طلوع ہوتی ہے مگر یہ صبح عجیب انداز سے طلوع ہوئی، اس میں روشنی کے بجائے تاریکی اور امید کے بجائے حسرت ویاس کے گھنے بادل چھائے ہوئے تھے، ”بغدادِ ہند“ دیوبند میں ان گنت لوگ ایک دوسرے کو فون کررہے تھے کہ دارالعلوم دیوبند کے (سابق) شیخ الحدیث حضرت مولانا نصیراحمد خاں صاحب (رحمة اللہ علیہ) اب اس دنیا میں نہیں رہے۔ انھوں نے اس عظیم دانش گاہ میں پینسٹھ (۶۵) سال کے قریب کامیاب مدرسی کی؛ بارہ سال تک قائم مقام ”صدر مدرس“ اور سترہ سال تک ”صدر مدرس“ رہے، اور کافی عرصہ تک ”نائب مہتمم“ رہے تینتیس(۳۳) سال تک بخاری شریف کا درس دیا، جن کے شاگردوں کی تعداد حضرت مدنی رحمة الله عليه کے شاگردوں سے زیادہ ہوگئی، ابتدا سے انتہا تک کی ساری اہم کتابیں پڑھائیں، علوم شرعیہ کے ساتھ علوم عقلیہ میں آپ کا ثانی نہیں، علم ہیئت میں امامت کا درجہ حاصل تھا اس لیے رسالہ فتحیہ پر حاشیہ تحریر کیا۔ دارالعلوم دیوبند میں ایک دو اساتذہ کو چھوڑ کر ابتدائی درجہ کے مدرسین سے لے کر شیخ الحدیث تک سب آپ کے شاگرد ہیں۔ فجر کی نماز سے پہلے ہی بہت سے لوگوں کو اطلاع مل گئی، دن ہوتے ہی دنیا بھر کے علماء طلباء اور متعلقین کو یہ کرب ناک خبر پہنچ گئی، فون کی نحوست کہیے یا برکت؛ غرض پوری دنیا غموں کی تاریکی میں آگئی، اُدَبا کسی خبر کو بہت جلد پھیلنے کی تعبیر کے لیے ”جنگل کی آگ“ کا استعارہ لیتے ہیں؛ مگر راقم الحروف کے نزدیک یہ تعبیر بھی آج کی جدید ٹکنالوجی کے زمانہ میں اپنی وسعت گھٹاچکی ہے؛ غرض یہ کہ طلبہ اور علماء کی ایک بھیڑ حضرت شیخ اول رحمة اللہ علیہ کے مکان کی طرف روانہ ہوگئی، مجمع اتنا زیادہ ہوگیا کہ ”لال مسجد“ سے ”قاضی مسجد“ تک کا راستہ مسدود ہوگیا، فجر کے پہلے سے نو بجے کے قریب تک ایسی ہی بھیڑ رہی۔

آٹھ بجے کے بعد ”مسجد قدیم“ کی مائیک سے اعلان ہوا کہ سارے اساتذہ اور طلبہ دارالعلوم دیوبند دارالحدیث میں جمع ہوجائیں، چنانچہ چار ہزار کے قریب افراد جمع ہوگئے، پورا مجمع تعزیت کا مستحق، کون کس کو تسلّی دے؟ ہر طرف غم زدہ چہرے ہر جانب پُرنم آنکھیں، پورا ماحول اُداس، درودیوار ماتم کناں؛ بڑے بڑے اکابر اساتذہ کی زبان خاموش؛ لیکن آنکھوں سے آنسو جاری تھے، ہر ایک بے قابو وانّا بک یا أستاذُ لمحزونون کی تصویر بناہوا تھا، اسی حالت میں بہت سے لوگوں نے تلاوتِ قرآن کیا، بہت سوں نے تسبیح پڑھی اور بہت سے حضرات نے ”کلمہ طیبہ“ کا ورد کیا، اس طرح آدھ پون گھنٹہ گذرا، اس کے بعد ہر غم زدہ کو تسلّی دینے اور خود پہلے صبر حاصل کرنے کے لیے حضرت شیخ رحمة الله عليه کے شاگرد رشید حضرت مولانا قمرالدین صاحب دامت برکاتہم تشریف لائے اور خطبہ مسنونہ کے بعد ارشاد فرمایا کہ حضرت الاستاذ مولانا نصیر احمد خاں صاحب رحمة اللہ علیہ اس دنیائے فانی سے دنیائے جاودانی میں منتقل ہوگئے، وہ اپنے محبوبِ حقیقی سے جاملے اِنا للّٰہ وانا الیہ راجعون، حضرت رحمة اللہ علیہ یگانہٴ روزگار تھے، علوم عقلیہ کے ساتھ علوم نقلیہ میں بڑی وسعت گاہ رکھتے تھے، اسی کے ساتھ آپ علم وعمل کے جامع پیکر تھے، آپ میں اخلاقِ کمال مکمل طور پر موجودتھے، یقینا آپ مغفور وماجور ہیں، آپ سے کسی کی ذات کو کوئی تکلیف نہیں پہنچی پھر حدیث شریف سنائی کہ: سرکارِ دوعالم صلى الله عليه وسلم کے سامنے ایک جنازہ آیا لوگوں نے اس کی تعریف و توصیف کی توآپ صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا: ”وجَبَتْ“ (واجب ہوگئی) پھر دوسرا جنازہ آیا تو لوگوں نے اس کی مذمت کی تو سرکار صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا: ”وجَبَتْ“ (واجب ہوگئی) – اس پر صحابہٴ کرام رضوان الله تعالى عليهم اجمعين نے عرض کیا، یا رسول اللہ صلى الله عليه وسلم! دونوں صورتوں میں آپ صلى الله عليه وسلم نے ایک ہی جملہ ارشاد فرمایا، دونوں کا مطلب کیا ہے؟ اس پر رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا کہ پہلے کے لئے جنت واجب ہوگئی (جس کی لوگوں نے تعریف کی) اور دوسرے کے لیے جہنم واجب ہوگیا (جس کی لوگوں نے مذمت کی) – معلوم ہوا کہ جس کے اخلاق اچھے ہوں، لوگوں کے ساتھ برتاؤ بہتر ہو تو وہ اللہ کے یہاں محبوب ہے اور جس کے اخلاق اچھے نہ ہوں وہ اللہ کے یہاں بھی مبغوض ہے، حضرت علیہ الرحمہ کے بارے میں سب لوگ متفق ہیں کہ آپ سے کسی کو ادنیٰ سی تکلیف بھی نہیں پہنچی؛ اس لیے آپ ضرور جنتی ہیں، پھر ایک مصرع پڑھا    ع        زبانِ خلق کو نقارئہ خدا سمجھو

آگے اپنا بیان جاری رکھتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ حضرت الاستاذ علیہ الرحمہ کے حسن خلق صلاح وتقویٰ اور برکت وروحانیت کو دیکھ کر میں نے سوچا کہ آپ کو استاذ بنالوں چنانچہ فارغ ہونے کے بعد ”فنون“ میں”حسامی“ میں نے حضرت سے پڑھی ہے، اس وقت ”حسامی“ دورئہ حدیث کے بعد تکمیل فنون میں پڑھائی جاتی تھی، حضرت الاستاذ کی صفتِ تواضع بہت نمایاں صفت تھی – حضرت مولانا قمرالدین صاحب نے اس کے بعد اپنی مجلس میں ارشاد فرمایا کہ ایک بار بازار سے میں سبزیاں لارہاتھا حضرت الاستاذ رحمة الله عليه نے دیکھا اور نہایت متواضع انداز میں ارشاد فرمایا کہ ”لائیے میں گھر پہنچادوں“ – حضرت مولانا نے اپنی تقریر میں ارشاد فرمایا کہ: حضرت الاستاذ رحمة الله عليه بڑے سلیم الطبع تھے،اور یہ سب سے بڑی صفت تھی، طبیعت نہایت معتدل تھی، ہمیشہ ایسا موقف اختیار فرماتے تھے جس میں کسی کو کوئی اذیت وتکلیف نہ ہو۔

حضرت الاستاذ مولانا قمرالدین صاحب زیدمجدہ کے بعد حضرت الاستاذ مولاناریاست علی صاحب بجنوری مدظلہ پرنم آنکھوں کے ساتھ کرسی پر بیٹھے اور ارشاد فرمایا: سرکارِ دوعالم صلى الله عليه وسلم سے صحابہٴ کرام رضوان الله تعالى عليهم اجمعين نے سوال کیا، یا رسول اللہ صلى الله عليه وسلم سب سے بہتر کون شخص ہے؟ اس پر دربار نبوی سے جواب ملا: ”مَنْ طَالَ عُمرہ وحَسُنَ عَمَلُہ“ جس کی عمر لمبی ہو اور عمل نیک ہو، اس حدیث کے صحیح مصداق حضرت الاستاذ رحمة اللہ علیہ ہیں، آپ کی عمر لمبی ہوئی اور اللہ تعالیٰ نے نیک اعمال بہت زیادہ کرنے کی توفیق عطا فرمائی، حضرت رحمة الله عليه نے (کم وبیش) پینسٹھ(۶۵) سال دارالعلوم دیوبند کی خدمت کی، مجھے بھی ”شرح جامی“ پڑھنے کا شرف حضرت سے حاصل ہوا ہے، حضرت الاستاذ رحمة الله عليه میں سلامتی طبع بہت زیادہ تھی، (جیساکہ حضرت مولانا قمرالدین صاحب نے ابھی فرمایا) حضرت کا موقف نہایت ہی معتدل ہوتا تھا،اور اس پر حددرجہ اطمینان بھی رہتاتھا، میں نے کبھی تذبذب نہیں دیکھا، دارالعلوم کے گذشتہ اختلاف کے موقع سے حضرت رحمة الله عليه اگرچہ انتظام سے منسلک تھے لیکن نہایت ہی شرحِ صدر کے ساتھ ہمارے ساتھ رہے، اللہ تعالیٰ ان کی بال بال مغفرت فرمائیں، اور ان کے شایانِ شان جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائیں (آمین)

اخیر میں حضرت الاستاذ مولانا عبدالحق صاحب اعظمی مدظلہ شیخ الحدیث دارالعلوم دیوبند تشریف لائے اور بڑے ہی پُردرد لہجے میں، جگر مرادآبادی کا یہ شعر پڑھا۔

جان کر من جملہٴ خاصانِ مے خانہ مجھے

مدتوں رویا کریں گے جام وپیمانہ مجھے

پورے مجمع پر ایک غم کا سماں بندھ گیا، پھر حدیث شریف پڑھی اذا ماتَ الانسانُ اِنْقَطَعَ عَمَلُہ الاَّ مِنْ ثَلاث (الحدیث) جب انسان وفات پاجاتا ہے تو اس کے عمل کا سلسلہ ختم ہوجاتا ہے، مگر تین چیزوں کا ثواب ملتا رہتا ہے۔ ایک صدقہٴ جاریہ، دوسرے وہ علم جس سے لوگ فائدہ اٹھاتے رہتے ہیں، تیسرے نیک اولاد جو دعا کرتی رہے، ان تینوں کا ثواب اللہ تعالیٰ اس بندے کو مرنے کے بعد بھی دیتے رہتے ہیں، حضرت مولانا نصیراحمد خاں صاحب رحمة اللہ علیہ کی اولاد صرف وہی نہیں ہیں جو ان کی صلب سے پیدا ہوئی ہیں، سارے شاگردان ان کی روحانی اولاد ہیں، ان کے سینوں میں ان کا ودیعت کیا ہوا علم ہے، اس سے بعد والے فائدہ اٹھاتے رہیں گے۔ سب کے نیک عمل میں حضرت رحمة اللہ علیہ کو بھی ثواب ملے گا۔ سب تعزیت کے مستحق ہیں، سب کو اللہ تعالیٰ صبر جمیل عطا فرمائے اور حضرت کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق بخشے (آمین) حضرت شیخ نے اپنے بیان کے دوران یہ بھی ارشاد فرمایاکہ: علماء نے اخلاق کی تعریف: مُراعاةُ الخَلْقِ مع رضاءِ الحق سے کی ہے، یعنی حسن اخلاق یہ ہے کہ آدمی اللہ تعالیٰ کی رضامندی تلاشنے کے ساتھ مخلوق کی رعایت کرے، حضرت مولانا نصیراحمد خاں صاحب رحمة اللہ علیہ میں یہی اخلاق موجود تھے، ہر ہر آدمی کی رعایت کرتے تھے، اور ہروقت اللہ کی رضامندی پیش نظر رہتی تھی، جب بھی بخاری شریف کے ختم کے لیے میں گذارش کرتا تو ہمیشہ یہی ارشاد فرماتے کہ: اس سال تو آپ ہی کو ختم کرانی ہے“ میں فون پر یا ملاقات کرکے اصرار کرتا تو قبول فرمالیتے؛ چنانچہ ہمیشہ بخاری شریف کے آخری درس کے لیے آتے تھے اور ہر ایک کے لیے دعاء کرتے تھے، کوئی آپ کی دعاء میں نہیں چھوٹتا، دارالعلوم اور دارالحدیث کی دیواروں اور اینٹوں میں حضرت علیہ الرحمہ کی آواز گونج رہی ہے، اللہ تعالیٰ کروٹ کروٹ رحمت نصیب فرمائیں اور دارالعلوم کو ان کا بدل عطا فرمائیں! حضرت شیخ مدظلہ العالی کی پُردرد وپُرسوز دعا پر مجلس اپنے اختتام کو پہنچی، اخیر میں مولانا مجیب اللہ صاحب مدظلہ ناظم تعلیمات دارالعلوم دیوبند نے پرنم آنکھوں اور بھرائی ہوئی آواز میں ایک دن کی تعطیل کا اعلان فرمایا اور ساتھ ہی طلبہ سے مخاطب ہوکر ارشاد فرمایاکہ: آپ اپنے اپنے کمروں میں حضرت الاستاذ رحمة الله عليه کے لیے ایصالِ ثواب کیجئے۔

ظہر کی نماز سے پہلے ہی جنازہ احاطہٴ مولسری میں لایاگیا، مجمع کو کنٹرول کرنے کے لیے مولسری پیڑ سے مائیک باندھ دی گئی تھی، بار بار مختلف ہدایات کے ذریعہ انسانی سروں کے سمندر کو قابو میں رکھاگیا، احاطہٴ مولسری، صدرگیٹ، سڑک تک، دفترتعلیمات، دارالاقامہ، اہتمام،مسجد قدیم کے راستے سب کے سب کھچاکھچ بھرے تھے، کہیں تل رکھنے کی جگہ نہیں تھی، ڈھائی بجے حضرت الاستاذ قاری محمد عثمان صاحب مدظلہ نے نماز جنازہ پڑھائی، صدرگیٹ سے جنازہ ”مزارقاسمی“ لایاگیا، مجھ جیسے کم ہمت لوگ ”مدنی گیٹ“ سے آگے قبرستان کی طرف آگئے تاکہ تابوت کو ہاتھ لگانے کا شرف حاصل ہوجائے گا؛ لیکن قبرستان تک اس کا موقع نہیں مل سکا، حضرت الاستاذ مولانا قمرالدین صاحب زیدمجدہ اور حضرت مولانا نور عالم صاحب خلیل امینی زیدمجدہ کے ساتھ ”شیخ الہند ہال“ کے باہر بیٹھے رہے، ساڑھے تین بجے مٹی دینے کی نوبت آئی۔ سب لوگ اُداس چہرے کے ساتھ واپس ہورہے تھے، ہردل سے علامہ اقبال کی دعاء آسمان کی طرف اٹھ رہی تھی۔

آسماں تیری لحد پہ شبنم افشانی کرے

سبزئہ نورُستہ اس گھر کی نگہبانی کرے

ولادت: ۲۱/ربیع الاوّل ۱۳۳۷ھ مطابق ۲۳/دسمبر ۱۹۱۸ء کو ہوئی تھی، اس طرح عیسوی کے لحاظ سے ۹۲ سال اورہجری کے لحاظ سے ۹۵ سال کے قریب عمر پائی۔ اللہ تعالیٰ اسی طرح کے خیر کے ساتھ ہمیں بھی طویل عمر عطا فرمائیں! (آمین)

***

ماهنامه دارالعلوم ، شماره 3 ، جلد: 94 ربيع الاول – ربيع الثانى 1431 هـ مطابق مارچ 2010 ء

Related Posts