از: فاروق اعظم عاجز قاسمی ، شعبہ انگریزی، دارالعلوم دیوبند
نحیف الجثہ، بلند قامت، کشادہ جبیں، سفید بشرہ، نورانی ڈاڑھی، آنکھوں پر موٹا چشمہ، سفید کرتا، سفید پاجامہ، سرپر دوپلی روایتی ٹوپی، ہاتھ میں عصائے پیری، کالی جوتی پہنے ہوئے سرنیچے کرکے صدر دروازے سے ہوکر احاطہٴ مولسری کی طرف اس شان و شوکت کے ساتھ آرہے ہیں کہ سیکڑوں پروانے آپ پر نچھاورہیں۔ یہ ہیں ہم سب کے دل وجان سے عزیز استاذ محترم، بلکہ استاذ الاساتذہ، بہت سے زندہ کرداروں کے عنوان، نمونہٴ اسلاف، معلّم، مصلح، مخلص، شیخ الحدیث حضرت مولانا نصیراحمد خاں صاحب۔
حضرت شیخ علم وعمل کاپیکر اور اخلاق و کردار کا مجسمہ ہیں، اپنے ہزاروں شاگردوں میں بدرکامل، صلاح و تقویٰ میں نمایاں، عادات و اطوار میں منفرد اور بے شمار اوصاف وکمالات اپنے اندر سموئے ہوئے ہیں۔
انگریزی فوج کے اعلیٰ منصب پر فائز، علما نواز اور مولانا خلیل احمد امبہٹوی رحمة الله عليه کے مرید جناب عبدالشکور صاحب کے گھر ۱۳۳۵ھ میں حضرت نے آنکھیں کھولیں۔ حضرت کے والد ماجد کے دینی جذبہ کا یہ عالم تھا کہ حضرت شیخ الہند رحمة الله عليه کے ”ترک موالات“ کے اعلان کے بعد وہ انگریزی ملازمت کو خیرباد کہہ کر کاشتکاری میں لگ گئے۔ حضرت شیخ کا آبائی وطن قصبہ ”بسی“ ضلع بلند شہر (یوپی) ہے؛ لیکن موجودہ رہائش دیوبند میں ہے۔
والدہ بھی انتہائی پارسا اور عبادت گزار تھیں، بچیوں کو دینی تعلیم سے آراستہ کرنا اور اخلاقی تربیت کی فکر ان کے شب و روز کا مشغلہ تھا، تلاوت قرآن سے شغف کا یہ حال تھا کہ حافظہ نہ ہونے کے باوجود بچیوں کو غلطیوں پر بے ساختہ ٹوکتیں۔
حضرت شیخ کے بڑے بھائی مولانا بشیراحمد خاں صاحب رحمة الله عليه چوں کہ مدرسہ منبع العلوم گلاؤٹھی میں مدرس تھے اس لیے ان کی تعلیم کا آغاز یہیں سے ہوا۔ حفظ قرآن اس کے بعد عربی وفارسی کی ابتدائی کتابوں کے ساتھ ساتھ بخاری تک کی مکمل تعلیم اپنے بڑے بھائی سے اسی گہوارئہ علم میں حاصل کی۔درمیان میں کچھ خانگی الجھنوں کی وجہ سے ایک مرتبہ حضرت شیخ کا تعلیمی سلسلہ موقوف ہوگیا؛ لیکن حضرت شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی رحمة الله عليه کی نظرِ عنایت اور دعاؤں کے خاص اثر سے رکاوٹ ختم ہوئی اور تعلیمی مرحلہ پایہٴ تکمیل کو پہنچا۔
۱۳۶۲ھ میں جب مولانا بشیراحمد خاں صاحب بحیثیت مدرس دارالعلوم دیوبند تشریف لائے تو حضرت شیخ بھی برادر محترم کے ہمراہ آئے اور مولانا حسین احمد مدنی رحمة الله عليه، مولانا اعزاز علی رحمة الله عليه، مولانا بشیراحمد خاں رحمة الله عليه اور مولانا عبدالحق رحمة الله عليه اکوڑہ خٹک (پاکستان) کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کرکے ۱۳۶۳ھ میں از سر نو دورئہ حدیث شریف سے فراغت حاصل کی اور ۱۳۶۵ھ تک حضرت نے تفسیر و قرأت، فقہ و اصول فقہ، منطق و فلسفہ اور طب وحکمت جیسے مختلف علوم وفنون کی کتابیں پڑھیں اور ان میں تخصص پیدا کیا۔ فن قرأت میں تو ایسی مہارت پیدا کی کہ فراغت کے بعد ہی ملتان کے ایک بڑے مدرسہ میں صدرالقراء کی حیثیت سے ان کا انتخاب ہوگیا؛ لیکن اہل خانہ کی عدم رضامندی کی بنا پر وہاں نہیں جاسکے؛ بلکہ یہ کہنا زیادہ درست ہوگا کہ دارالعلوم دیوبند میں خدمت مقدر تھی۔
چوں کہ حضرت مدنی رحمة الله عليه کی خاص توجہ حضرت شیخ پرمرکوز تھی اس لیے انھیں کی کوشش سے ۱۳۶۵ھ میں دارالعلوم دیوبند میں آپ کا بحیثیت مدرس تقرر ہوا۔ میزان سے اس سلسلے کا آغاز ہوا اور تدریس کے مختلف مراحل طے کرتے ہوئے وہ متوسط درجہ سے علیا اولیٰ پھر علیا ثانیہ کے استاذ مقرر ہوئے، اس دوران درس نظامی کے ہر فن کی چھوٹی بڑی کتابیں پڑھائیں، صرف ونحو ہو یا ادب و لغت یا پھر تفسیر وفقہ۔
۱۳۹۱ھ سے درس حدیث کا آغاز ہوا اور ۱۳۹۷ھ تک حدیث کی معروف معتبر کتابیں: موطا امام مالک، طحاوی، ترمذی اور مسلم وغیرہ آپ کے زیردرس رہیں۔ ۱۳۹۷ھ میں خدائے عزوجل نے حضرت شیخ کو اصح الکتب بعد کتاب اللہ بخاری شریف پڑھانے کی صورت میں شیخ الحدیث کا بلند مقام عطا کیا اور یہ سنہرا سلسلہ انتہائی خوش اسلوبی کے ساتھ ایک سال پہلے تک جاری رہا، اپنی پیرانہ سالی اور ضعف ونقاہت کی بنا پر صفر ۱۴۲۹ھ کو دارالعلوم دیوبند سے سبک دوش ہوئے۔
ویسے تو حضرت شیخ نے اپنے تدریسی دور میں مختلف علوم وفنون کی کتابیں پڑھائیں اور پڑھانے؛ بلکہ درس کی مقبولیت میں صلاحیت و استعداد کی کس قدر ضرورت ہوتی اور اس کا کیا رول رہتا ہے، اہل نظر جانتے ہیں۔ فن میں ان کی حذاقت ہی کی بات ہے کہ دیگر درسگاہوں کے مقابلے میں آپ کی درسگاہ طالبانِ علوم سے بھری رہتی۔
حضرت کو معقول ومنقول دونوں میں کامل دسترس حاصل ہے۔ مولانا نورعالم خلیل امینی لکھتے ہیں: ”(وہ) معقول ومنقول دونوں میں کامل دستگاہ رکھتے ہیں؛ بلکہ دارالعلوم میں علوم عقلیہ کے ماہرین کی اس وقت آخری کڑی ہیں۔“ (وہ کوہ کن کی بات … ص۳۳۶)
صرف ونحو، ادب و بلاغت اور تفسیر وحدیث کے ساتھ ساتھ علم ہیئت بھی حضرت شیخ کی دلچسپی کا خاص موضوع رہا ہے، اس فن کی ”التصریح“ نامی کتاب مستقل آپ کے زیرِ درس رہتی، اس فن میں حضرت کو بڑا کمال حاصل تھا پیچیدہ سے پیچیدہ مسئلہ کو طلبہ کے ذہن میں اتار دیتے اور طلبہ بھی بڑے ذوق وشوق کا مظاہرہ کرتے اور بڑی تعداد میں شریک درس ہوتے۔
دارالعلوم کے تدریسی عہد میں درس و تدریس کے علاوہ کئی اہم ذمہ داریاں بھی حضرت کے سپرد رہیں۔ حضرت شیخ کی علمی استعداد اور انتظامی صلاحیت کے پیش نظر ۱۳۹۱ھ میں اہتمام کی نیابت سپرد ہوئی، ۱۳۹۷ھ میں شیخ الحدیث کے عظیم منصب پر فائز ہوئے۔ ۱۴۰۰ھ میں قائم مقام صدر مدرس منتخب ہوئے اور ۱۴۱۲ھ میں تدریس کی صدارت تفویض ہوئی۔ اس طرح سے دارالعلوم دیوبند میں حضرت شیخ کی ۶۵/ سالہ علمی خدمات کا سنہرا دور پوری طرح سامنے آجاتا ہے۔ ۱۶/سال تک مسند صدارت پر رونق افروز رہے اور ۳۲/ سال تک بخاری شریف کا مقدس درس دیا۔ ایک مرتبہ حضرت نے خود فرمایا کہ ”میں تو اللہ کا شکر ادا کرتاہوں کہ اس نے ۶۵/ سال دارالعلوم دیوبند میں خدمت کاموقع دیا، ۳۲ سال بخاری پڑھائی، بھائی! دعاکرو کہ بس ایمان پر خاتمہ ہو۔“
حضرت شیخ حسنِ صورت وحسنِ سیرت کے ساتھ ساتھ حسن صوت بھی رکھتے ہیں۔ کلام انتہائی عام فہم اور سادہ ہونے کے ساتھ فصاحت وبلاغت سے بھرپور ہوتا، گفتگو انتہائی صاف ستھری، واضح اور نکھری ہوئی ہوتی، خوش آوازی میں بھی دور دور تک ان کا کوئی ثانی نظر نہیں آتا، انداز نہایت شیریں، مثبت، متین اور سنجیدہ ہوتا، لہجہ عالمانہ اور رفتار گفتگو معتدل کہ نہ تو کسی پر بار گزرے اور نہ الجھن محسوس ہو اورنہ ہی کسی کی زبان پر سمجھ میں نہ آنے کا شکوہ؛ بلکہ جوں جوں درس شباب پر آتا طالبان علوم کی اضطرابی کیفیت میں اضافہ اور تشنگی مزید بڑھتی چلی جاتی، بلندیٴ آواز کا یہ عالم کہ بلا مبالغہ بغیرمائک کے بآسانی پوری دارالحدیث ان کی صدائے بازگشت سے گونج اٹھتی؛ بلکہ آج بھی جب کہ وہ اپنی زندگی کی ۹۵ ویں بہار میں ہیں اور چلنے پھرنے سے معذور ہیں، آواز میں وہی بلندی، وہی کرختگی، وہی شفافیت اور وہی دلکشی باقی ہے۔
حضرت شیخ کے طریقہٴ درس کو تین حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے: سال کے ابتدائی ایام میں حدیث پر تفصیلی گفتگو کرتے، کلام انتہائی جامع مانع ہوتا، امام بخاری حدیث کے تحت جو بات قائم کرتے ہیں اس کو انتہائی پیچیدہ سمجھا جاتا ہے۔ حضرت شیخ بڑی خوش اسلوبی کے ساتھ امام بخاری کے مقصد کو بھی سمجھاتے چلے جاتے، اس سلسلے میں بخاری کا اسلوب کیاہے؟ اس کی بھی وضاحت فرماتے اور مکمل ہنرمندی کے ساتھ حدیث، اس کا مفہوم، اس سے ملنے والا پیغام، اس پر عمل کرنے کی تاکید اور اس پر ملنے والے ثمرات کو تشنہ کامان علوم کے ذہن ودماغ میں پیوست کردیتے۔ تقریباً دومہینے کے بعد کلام مختصر کردیتے انداز وہی رہتا؛ لیکن ششماہی بعد سے کلام کا سلسلہ انتہائی مختصر ہوجاتا اور حدیث خوانی ہوتی۔
حضرت شیخ کی ہمت کہیے یا حدیث پاک کی برکت کہ دوران درس حضرت بسا اوقات تین تین چار چار گھنٹے درس دیتے رہتے لیکن نہ ہلنا ہے نہ جھکنا اور نہ ہی کسی قسم کا تکیہ؛ بس پالتی مار کر پورے جاہ وجلال کے ساتھ مسند حدیث پر جلوہ افروز، پشت بالکل سیدھی ہے اور داہنا ہاتھ کتاب پر، از اوّل تا آخر ایک ہی نشست ہوتی۔ بیچ بیچ میں ”بھئی امام بخاری فرماتے ہیں“، عبارت خواہ کو ”پڑھیے“ ”وغیرہ وغیرہ“ اور اختلافی روایات کے وقت ”عند البعض“ کے بار بار دہرانے کا انوکھا انداز اپنے اندر بڑی دلآویزی رکھتا اور حضرت شیخ کی یہ ادا ہم شاگردان کے دلوں کو موہ لیتی اور ہم جھوم جھوم اٹھتے۔
ایک طرف جہاں خواص نے باضابطہ طور پر ان سے حدیث و تفسیر کے علوم سے اپنی پیاس بجھائی تو دوسری طرف حضرت نے عوام کو بھی اپنے فیوض سے محروم نہیں رکھا، چناں چہ تمل ناڈو کے ”کوئمبٹور“ علاقے کی اول ”تاگہ“ محلہ کی مسجد پھر ٹیپوسلطان مسجد میں تقریباً چالیس سال تک تفسیری خدمات انجام دیں جس سے بہت سے بے راہوں کو راہ اور منزل کا پتہ ملا اور دینداری کی فضا قائم ہوئی۔ خرابیٴ صحت اور ضعف کی وجہ سے چند سال قبل یہ سلسلہ منقطع ہوا۔
تصنیف و تالیف بھی ایک مستقل چیز ہے، ہر کسی کا یہ مقدر بن جائے ضروری نہیں، لہٰذا: حضرت شیخ کی کوئی تصنیف تو نہیں ہے؛ لیکن حضرت والا کے دامنِ فیض سے فیضیاب ہونے والے صرف حدیث کے کم وبیش پچیس ہزار شاگرد ہیں، ان میں سے بے شمار ایسے ہیں جنھوں نے علمی،اصلاحی، تحقیقی اور تصنیفی میدان میں کارہائے نمایاں انجام دیے اور دے رہے ہیں، موجودہ اساتذئہ دارالعلوم بھی تقریباً ان کے شاگرد ہیں۔ اس طرح سے قومی اور بین الاقوامی سطح پر بے شمار مدارس اور دینی اداروں میں حضرت کا فیض جاری و ساری ہے۔
چوں کہ حضرت شیخ کو فن ہیئت سے بڑی دلچسپی رہی ہے؛ اس لیے اس حوالہ سے بھی ان کے بہت سے شاگرد ہیں۔ ابھی چند سالوں پہلے حضرت کے ایک خاص شاگرد مولانا ثمیرالدین قاسمی (مقیم حال لندن) نے طلوع و غروب کے متعلق ایک عمدہ کتاب تصنیف کی ہے۔ جس سے دنیا بھر کے طلوع و غروب کے اوقات کی تعیین ہوتی ہے اور ساتھ ہی رویت ہلال کے چند قابل ذکر مسائل کا بھی احاطہ کیاگیا ہے۔ یہ اہل تحقیق و جستجو کے لیے خاصے کی چیز اور نادر تحفہ ہے۔
حضرت شیخ کے کل دس اولاد ہوئیں۔ تین اللہ کو پیارے ہوچکے اور سات بفضل اللہ بقیدحیات ہیں۔ ماشاء اللہ اولاد کی اولاد سے گھر ہرابھرا ہے، ان میں سے کئی برسرِ روزگار ہیں اور بعض زیر تعلیم اور اپنے دادا محترم کی خدمت کرکے خوب خوب آخرت کما رہے ہیں۔
حضرت شیخ کو اپنے استاذ وشیخ حضرت مدنی رحمة الله عليه سے کس قدر دلی لگاؤ اور سچی عقیدت ہے اس کا صحیح اندازہ حضرت کا کوئی شاگرد ہی کرسکتا ہے۔ دارالحدیث کے درودیوار اس منظر کے گواہ ہیں کہ جب بھی وہ حضرت مدنی رحمة الله عليه کا تذکرہ کرتے تو آب دیدہ ہوہوجاتے بلکہ کبھی کبھی بولتے بولتے زبان بند ہوجاتی۔ اس تعلق خاطر کی بنا پر مولانا نصیر احمد خاں صاحب کا اصلاحی تعلق بھی حضرت مدنی ہی سے رہا اور انھیں سے بیعت بھی تھے۔ ان کی وفات کے بعد حضرت حکیم الاسلام قاری محمد طیب قاسمی رحمة الله عليه سے اصلاحی تعلق قائم کیا، یہاں تک کہ بیعت کے ساتھ ساتھ خلعتِ خلافت سے بھی نوازے گئے؛ لیکن خود کبھی کسی کو انھوں نے بیعت نہیں کیا اور ہمیشہ بے نفسی اور گمنامی والی زندگی کو ترجیح دی اور خود فرماتے کہ: ”بھئی میرا مزاج نہیں، یہ تو بڑے حضرات کی چیزیں ہیں۔“
علم وعمل کے ساتھ ساتھ خدا نے حضرت کو بہت سی خصوصیات سے نوازا ہے۔ ان کی رفتار و گفتار سے سنت کے عملی نمونہ کا اظہار ہوتا ہے، صلاح و تقویٰ کے ساتھ نرم مزاجی، خوش اخلاقی اور تواضع ان کا طرئہ امتیاز ہے، ہر کسی سے خندہ پیشانی سے ملتے ہیں اور اپنے عزیزوں اور شاگردوں سے بطور خاص محبت و شفقت کامعاملہ فرماتے ہیں؛ یہی وہ خوبیاں ہیں جو حضرت کو مقبولیت و محبوبیت کا اعلیٰ مقام عطا کرتی ہیں۔
معروف ادیب مولانا نورعالم خلیل امینی صاحب رقم طراز ہیں: ”تواضع، حلم وبردباری، نرم خوئی، خوش اخلاقی، صلاح وتقویٰ وغیرہ صفات کی وجہ سے آپ طلبہ، اساتذہ، ملازمین اور تمام متعلقین دارالعلوم میں محبوب شخصیت کے مالک ہیں“۔ (وہ کوہ کن کی بات ، ص۳۳۶)
ان کی تواضع کی مثال اس سے بڑھ کر اور کیا ہوسکتی ہے کہ ان سے کبھی کوئی چوک یا غلطی ہوجاتی ہے اور اس پر ان کو واقفیت بھی ہوجاتی ہے تو برملا حضرت اپنی غلطیوں کا اعتراف کرتے ہیں؛ بلکہ بعض مرتبہ کبھی کسی بات پر اپنے کسی شاگرد کو ڈانٹ دیتے تو دوسرے وقت میں بلاتأمل معذرت خواہی بھی کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ اسی کے ساتھ ساتھ ان کا دل اہل علم کی عظمتوں سے بھی لبریز دکھائی دیتا ہے۔ اساتذہ کو بھی برابر اپنی عقیدت ومحبت کا خراج پیش کرتے اور بلک اٹھتے۔ اسی طرح جب بھی دعا کا کوئی موقع آتا تو ”آپاجی“ (والدہ حضرت مولانا ارشد مدنی صاحب الحمدللہ ابھی بقید حیات ہیں) کی صحت وعافیت کے لیے ضرور دعا کرتے۔
بھیڑ بھاڑ اور جلسہ جلوس میں بہت کم شریک ہوتے۔ گوشہ نشینی اور گمنامی ان کا امتیاز رہا ہے۔ رات سویرے سونا اور سویرے بیدار ہونا ان کے مستقل معمول میں داخل ہے۔ پچاسوں سال سے تہجد کا سلسلہ اور جہری ذکر کا معمول ہے، روزانہ بعد نماز فجر ایک پارہ تلاوتِ قرآن، اس کے بعد ناشتہ کرکے تدریسی مشغلہ، دوپہر کھانے کے بعد قیلولہ، بعد عصر اپنی بیٹھک میں لوگوں سے ملاقات اور وعظ و نصیحت، صحت کے زمانے تک یہ معمولات زندگی کا اہم حصہ بنے رہے اور ایک حد تک اس کی پابندی بھی؛ لیکن جب حضرت کی صحت گرگئی اور ضعف و نقاہت بڑھتی چلی گئی تو اب اوّل وقت میں بیدار ہوکر اشارے سے نماز فجر ادا کرتے ہیں، اس کے بعد تلاوت،اکثر اوقات آرام فرماتے ہیں؛ لیکن ذکر الٰہی سے زبان ہر دم تروتازہ رہتی ہے، روزانہ بعد نماز ظہر بخاری شریف کے دو صفحات کی تلاوت کا معمول تاہنوز جاری ہے۔
صحت وعافیت کے ساتھ ساتھ اللہ حضرت شیخ کے سایہ کو مزید دراز کرے! (آمین)
***
_______________________________________
ماہنامہ دارالعلوم ، شماره 9-10 ، جلد: 93 رمضان-شوال 1430 ھ مطابق ستمبر-اكتوبر 2009ء