از: محمد مجتبیٰ قاسمی ، رفیق مکتبہ المفتی محمد ظفیرالدین المفتاحی ، پورہ نوڈیہا، دربھنگہ (بہار)
جمعہ کی عظمت حدیثِ پاک کی روشنی میں
جمعہ کے دن کو اللہ پاک نے معزز ومکرم بنایا ہے اس کی عظمت دوسرے دنوں سے بالاتر اور بہتر ہے قرآن وحدیث میں اس کے فضائل ومناقب بہت تفصیل سے بیان کیے گئے ہیں۔ اس کی شام پرنور، رات باعظمت، صبح بارونق اور دن بابرکت ہے اس کے لیل ونہار اپنے دامن میں ڈھیر سارے خیرات و برکات رکھتے ہیں، اس میں بہت سارے خوش نصیب کے لیے جنت کے فیصلے کیے جاتے ہیں تو بہت سے درد کے ماروں کو جہنم سے چھٹکارے کا پروانہ ملتا ہے، اس میں ایک گھڑی ایسی بھی آتی ہے کہ اس میں بندہ جو جائز مقصد مانگ لے معطی پروردگار عطاء کردیتاہے، اس دن کی کی ہوئی عبادت اور دنوں کی بہ نسبت زیادہ ثواب رکھتی ہے، اس میں درود پاک کی قیمت کئی گنا بڑھ جاتی ہے، اس کی عظمت نبی صلى الله عليه وسلم کی پاک زبان مبارک اس طرح بیان کرتی ہے۔ نحن الآخرون السابقون یوم القیامة بیدانہم اوتو الکتاب من قبلنا ثم ہذا یومہم الذی فرض علیہم فاختلفوا فیہ فہدانا اللّٰہ لہ (فالناس لنا فیہ تبع) الیہود غدا والنصاریٰ بعد غد․ ترجمہ: ہم بعد میں آنے والے اور قیامت میں سبقت کرنے والے ہیں البتہ کہ اہل کتاب کو ہم سے پہلے کتاب دی گئی پھر یہ ان لوگوں کا جمعہ کا دن ہے جو ان پر فرض کیاگیا (عبادت خاص کے لیے) لیکن ان لوگوں نے اس میں اختلاف کیا تو اللہ تعالیٰ نے اس کی طرف ہماری رہنمائی کی (لہٰذا وہ لوگ ہمارے پیچھے ہوں گے) یہود کل اور نصاریٰ کل کے بعد(۱) اور صاحب فتح البیان فی مقاصد القرآن اس طرح اس کے احترام کو بیان کرتے ہیں: ان افضل اللیالی لیلة المولد ثم لیلة القدر ثم لیلة الاسراء فعرفة فالجمعة فنصف شعبان فالعید وافضل الایام یوم عرفة ثم یوم نصف شعبان ثم یوم الجمعة واللیل افضل من النہار․ ترجمہ: راتوں میں افضل ترین آقا صلى الله عليه وسلم کی ولادت کی رات ہے پھر لیلة القدر پھر معراج کی رات اس کے بعد عرفہ، جمعہ، شعبان کی پندرہویں شب اور عید کی رات ہے اور دنوں میں بہتر عرفہ کا دن ہے پھر پندرہویں شعبان پھر جمعہ کا دن البتہ اس کی رات اس کے دن سے بہتر ہے۔(۲)
جب جمعرات کی شام سورج غروب ہوتا ہے تو اس وقت اس کی بڑائی ظاہر ہونے لگتی ہے، صاحبِ دل اور اہل تقویٰ اس رات کو عبادت میں گذارتے ہیں، اس کی عظمت کے مظاہر نماز فجر میں بھی دیکھنے کو ملتے ہیں کہ اس میں خاص سورة کی تلاوت مسنون قرار دی گئی ہے، اس میں سورة کہف اور دخان کی تلاوت آئندہ ہفتہ تک کے لیے باعثِ نجاح وفلاح ہے،اس میں آنے کے لیے غسل،اچھے کپڑے، خوشبو اور تیل لگانے کی ترغیب دی گئی ہے اور عصر کی نماز کے بعد اپنی جگہ بیٹھے ہوئے درود پڑھنے کو نجات اخروی کا ذریعہ اور دعاء کی قبولیت کا وقت بتایا گیاہے۔
جمعہ کے عدم اہتمام پر تنبیہ
جمعہ کی نماز چونکہ ہفتہ کے اجتماع کا دن ہے چند محلے والوں بلکہ دور دراز کے لوگوں کے ملن کا ایک بہتر موقع اور سب کے ساتھ مل کر اللہ تعالیٰ کی کبریائی اوراس کی عظمت کے اعتراف کا اچھا وقت ہے، چنانچہ نبی پاک صلى الله عليه وسلم نے اس کے اہتمام کرنے پر بہت زور دیا اوراس کی خلاف ورزی کرنے والوں کو سخت دھمکی دی ہے جسے حضرت جابررضى الله تعالى عنه نقل فرماتے ہیں کہ رسول صلى الله عليه وسلم نے خطبے میں فرمایا: ان اللّٰہ افترض علیکم الجمعة فی مقامی ہذا فی یومی ہذا فی شہری ہذا فی عامی ہذا الی یوم القیامة فمن ترکہا استخفافا بہا اوجہودًا بہا فلا جمع اللّٰہ شملہ ولا بارک لہ فی امرہ الا ولا صلوٰة لہ ولا زکوٰة لہ ولا حج لہ ولا صوم لہ ولا برلہ حتی یتوب فمن تاب تاب اللّٰہ علیہ․ ترجمہ: بیشک اللہ تعالیٰ نے تم لوگوں پر میری اس جگہ میرے اس دن میرے اس مہینے میرے اس سال میں قیامت تک کے لیے جمعہ کو فرض کردیا ہے لہٰذا جس نے اس کا استخفاف یا انکار کرتے ہوئے اسے چھوڑ دیا تو اللہ تعالیٰ اس کے متفرق کاموں کو جمع نہیں کرے گا۔ (کام نہیں بنائے گا) اس کے کام میں برکت نہیں ہوگی، سنو! اس کی نماز، زکوٰة، حج، روزہ اور کسی بھی نیکی کا اعتبار نہیں ہوگا یہاں تک کہ وہ توبہ کرلے پھر جوتوبہ کرلے گا تو اس پر اللہ پاک متوجہ ہوجائے گا،(۳) انہیں سے یہی بات دوسرے لفظوں میں اس طرح منقول ہے۔ عن رسول صلی اللّٰہ علیہ وسلم انہ قال من کان یومن باللّٰہ والیوم الآخر فعلیہ الجمعة الا مسافرًا او مملوکا او صبیًا او امراَةً او مریضاً فمن استغنٰی عنہا بلہو او تجارة استغنی اللّٰہ عنہ واللّٰہ غنی حمید․ ترجمہ: رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا کہ جو اللہ اوریوم آخرت پر ایمان رکھتا ہے تو اس پر جمعہ لازم ہے الا یہ کہ مسافر یا غلام یا بچہ یاعورت یا مریض ہو لہٰذا جس نے اس سے کھیل کود یا تجارت کی وجہ سے بے پرواہی کی تو اللہ کو اس سے کوئی مطلب نہیں ہے اور اللہ بے نیاز اور لائق تعریف ہے۔(۴)
نمازِ جمعہ اور دوسری نمازوں میں فرق
نمازِ جمعہ پنج گانہ نمازوں سے الگ طریقے پر ادا کی جاتی ہے اس میں دو خطبے ہوتے ہیں جس میں خطیب اپنی ذات اور لوگوں کو خشیثِ الٰہی کی تلقین کرتا ہے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے فرائض انجام دیتا ہے۔
خطبہ: خطبہ موعظت ونصیحت کو کہتے ہیں جس میں حمد وثنا، ترغیب و ترہیب ہوتی ہے یہ خطبہ ایسی پاک بات اور موٴثر ذریعہ ہے کہ اس سے بڑے بڑے کام آسانی سے حل ہوجاتے ہیں، اسے دنیاوی معاملہ میں بھی اہمیت حاصل ہے اور دینی امور میں بھی قدر ومنزلت رکھتا ہے، یہ ایک ایسا ہتھیار ہے جس سے بڑا بڑا معرکہ سر ہوجاتا ہے، جتنے انبیاء تشریف لائے سبھوں نے احکامِ خداکو خطابت کی مدد سے لوگوں تک پہنچایا، چنانچہ حضرت موسیٰ علیہ الصلاة والسلام نے اپنی لکنت کے ختم ہونے کی دعاء کی، نوح علیہ السلام نے کہا کہ ہم نے انہیں دن و رات اعلانیہ اور خفیہ ہر طرح دعوت دی ودیگرانبیاء نے بھی اپنا مشن موعظت ونصیحت سے آگے بڑھایا اللہ تعالیٰ نے خود اسے اپنانے کا حکم دیا اور فرمایا فذکر ان نفعت الذکریٰ تو آپ نصیحت کیا کیجئے اگرنصیحت کرنا مفید ہوتا ہو(۵) وذکر فان الذکری تنفع المومنین اور سمجھاتے رہیے کیونکہ سمجھانا ایمان والوں کو نفع دے گا۔(۶)
خطبہ کے لیے جلدی کرنا
قرآن پاک میں ہے اذا نودی للصلوٰة من یوم الجمعة فاسعوا الی ذکر اللّٰہ جب جمعہ کے روزنماز کے لیے اذان کہی جایا کرے تو تم اللہ کی یاد کی طرف چل پڑا کرو(۷) یہاں ذکر اللہ سے مراد خطبہ ہے یعنی جیسے ہی اذان ہو خطبہ سننے کے لیے چل پڑو، نماز سے متعلق جوتیاریاں ہوسکتی ہوں انہیں کرنے لگو، شریعت نے دوٹوک فرمان جاری کردیا ہے کہ اذانِ جمعہ کے بعد جمعہ کی تیاری کی مشغولیات کے علاوہ تمام کام مکروہ ہے۔
خطبہ کا وجوب
کتب فقہ اور تفسیر میں یہ عبارت لکھی ہے۔ والخطبة عند جمہور العلماء شرط فی انعقاد الجمعة․ خطبہ جمہور علماء کے نزدیک جمعہ کے انعقاد کے لیے ضروری اور شرط ہے(۸) اور یہی بات حضرت ابن عمررضى الله تعالى عنه اور عائشہ صدیقہ رضى الله تعالى عنها سے مروی ہے جو اس کی مزید وضاحت کرتی ہے۔ انما قصرت الجمعة لاجل الخطبة ولابن الوقت سبب لوجود الظہر والوقت متی جعل سببا لوجوب صلاة کان سببا لوجوبہا فی کل یوم کسائر اوقات الصلٰوة ثم اذا وجد سبب القصر تقصر کما تقصر بعذر السفر․ ترجمہ: نماز جمعہ کی وجہ سے کم کردی گئی ہے اور اس لیے کہ وقت ظہر کے وجود کا سبب ہے لہٰذا جب نماز جمعہ کے وجوب کے لیے وقت کو سبب قرار دیاگیا تو وہ نماز کے پورے اوقات کی طرح ہر دن اس کے وجوب کا سبب ہوگیا پھر جب قصر کا سبب پایا گیا تو نماز کم کردی گئی سفر کی نماز کی طرح جو سفر کے عذر کی وجہ سے کم کردی گئی ہو۔(۹)
انہیں دونوں نفوسِ قدسیہ سے ایک دوسری روایت تھوڑی سی تبدیلی کے ساتھ مروی ہے۔ انما قصرت الصلوٰة لاجل الخطبة اخبران شطر الصلوٰة سقط لاجل الخطبة وشطر الصلوٰة کان فرضا فلا یسقط الا لتحصیل ما ہو فرض․ ترجمہ: خطبہ کی وجہ سے نماز کم کردی گئی۔ خبردی گئی ہے کہ نماز کا آدھا خطبہ کے پیش نظر ساقط کردیاگیا اور آدھی نماز فرض ہے لہٰذا فرض کو حاصل کرنے کے لیے ہی وہ ساقط ہے۔(۱۰)
خطبہ کی اہمیت
خطبہ میں حمدوثنا اور امرونہی کا ذکر ہوتا ہے جو سراپا ذکر اللہ ہے جس کی روشنی میں بندے اپنی صلاحِ حال کرتے ہیں اور اس کی وجہ سے ان کے اندر خیرات و برکات حاصل کرنے کا حوصلہ پیدا ہوتا ہے اوراسے سن کر اپنے اندر مضبوطی اور قوت محسوس کرتے ہیں اوراحکام خداوندی بجالانے کے لیے کمربستہ ہوجاتے ہیں اتنی عظیم بات کی اہمیت نبی پاک صلى الله عليه وسلم اس طرح بیان فرماتے ہیں جسے حضرت ابوہریرہ رضى الله تعالى عنه نے روایت کیاہے۔ قال النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم اذا کان یوم الجمعة وقفت الملائکة علی باب المسجد یکتبون الاول فالاول ومثل المہجر کمثل الذی یہدیٰ بدنة ثم کالذی یہدی بقرة ثم کبشا ثم دجاجة ثم بیضة فاذا خرج الامام طووا صحفہم ویستمعون الذکر․ رسول صلى الله عليه وسلم نے فرمایا جب جمعہ کا دن آتا ہے تو فرشتے مسجد کے دروازے پر کھڑے ہوجاتے ہیں اور پہلے اس کے بعد اور اس کے بعد آنے والوں کا نام لکھتے رہتے ہیں اور سب سے پہلے مسجد پہنچنے والے کی مثال ایسے آدمی کی طرح ہے جس نے اونٹ کی قربانی کی پھر گائے پھر مینڈھا پھر مرغی پھر انڈا (ان سب کا ثواب حاصل کیا) لیکن جب امام اپنے حجرے سے نکل کر منبر پر تشریف لے آتے ہیں تو یہ اپنے رجسٹر بند کرلیتے ہیں اور پوری توجہ سے خطبہ سننے لگتے ہیں۔(۱۱)
نمازسے قبل خطبے کا پس منظر
نماز جمعہ کا خطبہ عیدین کے خطبہ کی طرح تھا جو نماز دوگانہ ادا کرلینے کے بعد دیا جاتا تھا ایک دن نماز کے بعد آپ صلى الله عليه وسلم حسب معمول خطبہ فرمارہے تھے کہ اچانک ایک قافلہ آگیا اور اس نے اپنے آمد کی اطلاع نقارہ بجاکر دی جسے اکثر صحابہ کرام سن کر اجتہادی سہو کی وجہ سے آپ کو اسی حالت میں چھوڑ کر چلے گئے، تو اللہ تعالیٰ نے سخت ڈانٹ پلائی اوراس سے بچنے کی دائمی شکل نماز سے پہلے خطبہ شروع کرکے عطاء کیا۔ (ماخوذ از کشاف وغیرہ)
خطبہ کی عظمت
ان باتوں سے اس کی عظمت کا پتہ لگتا ہے کہ موقع کی مناسبت سے یہ کتنا عظیم ہے، شریعت نے اس کے مرتبے کو کس قدر بلند وبالا کیا ہے کہ مسلمانوں کے ہر اجتماع میں اس کی حیثیت مستحب، سنت اور واجب کی شکل میں ظاہر ہوتی ہے۔
جب اس کی کئی صورتیں ہیں تو اس کی باریکی بیان کرنا از حد ضروری تھا جسے نبی پاک صلى الله عليه وسلم اور صحابہ کرام رضوا ن الله تعالى عليهم اجمعين نے کھول کھول کر اپنے قول وفعل سے واضح کردیا اب ہماری ذمہ داری ہے کہ اس پر من وعن عمل کریں اس سے بال برابر بھی انحراف کرکے عتاب کے شکار نہ ہوں وہ بیان شدہ باتیں راقم اپنی معلومات کے اعتبار سے پیش کرتا ہے جسے اپنانا سنن ہدیٰ کو اپنانا ہے اوراس کے خلاف زیغ وضلال ہے۔
خطبہ کی مقدار حدیث کی روشنی میں
حدیث قولی: نبی کریم صلى الله عليه وسلم کا ارشاد حضرت ابووائل حضرت عمار رضى الله تعالى عنه کے حوالہ سے نقل کرتے ہیں۔ خطبنا عمار فاوجز وابلغ فلما نزل قلنا یا ابا الیقظان لقد بلغت واوجزت فلو کنت تنفست فقال انی سمعت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یقول ان طول صلوٰة الرجل وقصر خطبتہ مئنة من فقہ فاطیلو الصلوٰة واقصروا الخطبة وان من البیان لسحرًا(۱۲) ترجمہ: (حضرت ابووائل کہتے ہیں کہ) حضرت عماررضى الله تعالى عنه نے ہمارے سامنے خطبہ دیا جو مختصر اور جامع تھا، لہٰذا جب وہ اترے تو ہم نے عرض کیا حضرت (ابوالیقظان آپ کی کنیت ہے) آپ نے مختصر لیکن جامع خطبہ دیا (کاش ہمیشہ آپ زندہ رہتے) تو انھوں نے جواب دیا کہ میں نے نبی پاک صلى الله عليه وسلم کو یہ فرماتے سنا ہے کہ آدمی کی عقلمندی کی علامت یہ ہے کہ اس کی نماز سے اس کا خطبہ مختصر ہو لہٰذا نماز لمبی اور خطبہ مختصر کرو اور تقریر تو جادو ہے، اس حدیث پاک سے اشارے اور حکم دونوں ملتے ہیں کہ لوگوں کو خطبہ مختصر دینا چاہیے اور ابوداؤد شریف میں حضرت عماررضى الله تعالى عنه سے ہی مروی ہے امرنا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم باقصار الخطب ہمیں آقا صلى الله عليه وسلم نے خطبوں کے مختصر کرنے کا حکم دیا ہے(۱۳) اس حدیث پاک میں لفظ امر آیاہے اور یہ خطبہ کے مختصر ہونے کے لیے عبارة النص(۱۴) ہے ایسے لفظ سے حکم کے بعد اب کسی کو اس کے خلاف کرنے کا کوئی اختیار نہیں ہے، صاحب بذل المجہود نے اس حدیث کے بظاہر معارض ایک حدیث کا ذکر کیا ہے اوراس کے تطبیق کو تحریر فرمایاہے۔(۱۵) (تعارض) مسلم شریف میں ایک حدیث ہے جس میں نبی پاک صلى الله عليه وسلم کے فجر کے نماز سے ظہر اور اس کے بعد عصر تک خطبہ دینے کی صراحت ہے جو اس حدیث اور حکم حدیث کے معارض ہے، جواب : یہ اس کے معارض اور خلاف نہیں ہے کیونکہ وہ ایک مصلحت کے پیش نظر رہا ہوگا، دوسری بات یہ ہے کہ جمعہ کے خطبہ کا وجود وقت کے ہونے کے بعد ہی ممکن ہے اس سے پہلے اس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا ہے جبکہ معارض حدیث میں علی الصباح سے خطبہ کا ذکر آیا ہے۔
حدیث فعلی: عن جابر بن سمرة قال کان النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم یخطب قائماً ثم یجلس ثم یقوم ویقرأ آیات ویذکر اللّٰہ عزوجل وکانت خطبة قصدا وصلاتہ قصدًا․ حضرت جابر بن سمرہ رضى الله تعالى عنه نے روایت کیاہے کہ رسول صلى الله عليه وسلم کھڑے ہوکر خطبہ دیتے تھے پھر بیٹھ جاتے تھے پھر کھڑے ہوتے اور چند آیتیں پڑھتے اور اللہ عزوجل کاذکر کرتے اور آپ کا خطبہ اور آپ کی نماز مختصر ہوتی(۱۶) حضرت جابررضى الله تعالى عنه کی روایت امام ترمذی رحمة الله عليه نے بھی نقل کیا۔ قال کنت اصلی مع النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم فکانت صلوٰتہ قصدا وخطبتہ قصدا․ انھوں نے کہا کہ میں نبی كريم صلى الله عليه وسلم کے ساتھ نماز پڑھتا تھا تو آپ کی نماز اور خطبہ مختصر ہوتا(۱۷) خطبتہ پر حاشیہ ہے۔ لا ینافی اقصریة الخطبة بالنسبة الی الصلوٰة یہ بات نماز کی بہ نسبت خطبہ کے کم ہونے کے منافی نہیں ہے اور قصد پرحاشیہ ان الفاظ میں ہے۔ المقصد من الامور المعتدل الذی لایمیل الی احد طرفی الافراط والتفریط قصدًا ایسے امور معتدلہ میں سے ہے جو افراط و تفریط میں سے کسی کی طرف مائل نہ ہو، اس حدیث میں ایک خاص بات ہے جس کی وضاحت بہتر رہے گی حدیث میں کنت اصلی ہے ”صرفی قاعدہ“ جب لفظ کان فعل مضارع پر داخل ہوتا ہے تو وہ فعل استمراری اور دائمی ہوجاتا ہے۔ لہٰذا یہ بھی فعل ہمیشہ ہونے والا ہے اس لیے کبھی کبھی ہونے والا فعل اس کا معارض نہ ہوگا۔
ابوداؤد کے مراسیل میں ہے جس کو امام زہری رحمة الله عليه سے روایت کیا ہے۔ الحمد اللّٰہ نحمدہ ونستعینہ ونستغفرہ نعوذ بہ من شرور انفسنا من یہد اللّٰہ فلا مضل لہ ومن یظلل فلا ہادی لہ نشہد ان لا الٰہ الا اللّٰہ وان محمدا عبدہ ورسولہ ارسلہ بالحق بشیرًا ونذیرًا بین یدی الساعة من یطع اللّٰہ ورسولہ فقد رشد ومن یعصہما فقد غویٰ نسأل اللّٰہ ربنا ان یجعلنا ممن یطیعہ ویطیع رسولہ ویتبع رضوانہ ویجتنب سخطہ(۱۸) زہری رحمة الله عليه سے یہ بھی مروی ہے کہ آپ صلى الله عليه وسلم جب بھی خطبہ دیتے تھے تو کہتے تھے۔ کل ما ہو آت قریب ولا بعد لما ہو آت لا یعجل اللّٰہ لعجلة احد ولا یخف لامر الناس ماشاء اللّٰہ الناس یرید اللّٰہ امرا ویرید الناس امرا ما شاء اللّٰہ کان ولو کرہ الناس ولا مبعد لما قرب اللّٰہ ولا مقرب لما بعد اللّٰہ لایکون بشی الا باذن اللّٰہ عزوجل مذکورہ روایت مکمل خطبہ ہے جسے نبی پاک صلى الله عليه وسلم دیا کرتے تھے ایک اور خطبہ حضرت جابررضى الله تعالى عنه نقل کرتے ہیں۔ کان النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم یوم الجمعة یخطبہ فیقول بعد ان یحمد اللّٰہ ویصلی علی انبیائہ ”ایہا الناس ان لکم معالم فانتہو الی معالمکم وان لکم نہایة فانتہوا الی نہایتکم ان العبد الموٴمن بین مخافتین بین اجل قد مضی لایدری ما اللّٰہ قاض فیہ وبین اجل قد بقی لا یدری ما اللّٰہ صانع فیہ فلیاخذ العبد من نفسہ لنفسہ ومن دیناہ لآخرتہ ومن الشبیبة قبل الکبر ومن الحیاة قبل الممات والذی نفسی بیدہ ما بعد الموت من مستعتب ما بعد الدنیا من دار الا الجنة او النار اقول قولی ہذا واستغفر اللّٰہ لی ولکم وقد تقدم ما خطبہ بہ علیہ الصلوٰة والسلام اول جمعة عند قدومہ المدینة․ یعنی مدینہ منورہ تشریف لانے کے بعد نبی پاک صلى الله عليه وسلم نے سب سے پہلے یہی خطبہ دیا(۱۹) آپ صلى الله عليه وسلم ہجرت کرکے ابھی ابھی تشریف لائے ہیں تقاضہ تو یہ تھا کہ خوب لمبا چوڑا خطبہ دیتے لیکن خطبہ نہایت مختصر مگر جامع دیا اور دین و دنیا کی بھلائی کی بات اور مغفرت کی دعاء کی امام ابوداؤد رحمة الله عليه نے حضرت جابر بن سمرہ سوائی رضى الله تعالى عنه کی روایت کردہ حدیث پاک نقل کیا ہے کہ انھوں نے فرمایا کہ کان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم لایطیل الموعظة یوم الجمعة انما ہن کلمات یسیرات․(۲۰) رسول اللہ صلى الله عليه وسلم جمعہ کے دن بہت لمبا خطبہ نہیں دیتے تھے بلکہ وہ چند کلمات ہوتے ۔
آپ کا تعلیم کردہ خطبہ
جس طرح آپ صلى الله عليه وسلم نے اپنی زبان مبارک سے لوگوں کے روبروخطبہ دیا ہے اسی طرح اس کی تعلیم بھی وقتاً فوقتاً دی ہے تاکہ اس سے امت فائدہ اٹھائے اور اپنی حاجت دینی پوری کرسکے چنانچہ حضرت عبداللہ رضى الله تعالى عنه فرماتے ہیں کہ ہمیں رسول صلى الله عليه وسلم نے خطبہ برائے حاجت ان الفاظ میں سکھایا۔
الحمد اللّٰہ نستعینہ ونستغفرہ ونعوذ باللّٰہ من شرور انفسنا ومن سیئات اعمالنا من یہدہ اللّٰہ فلا مضل لہ ومن یضللہ فلا ہادی لہ واشہد ان لا الہ الا اللّٰہ واشہد ان محمدًا عبدہ ورسولہ ثم یقرأ ثلٰث آیات یا ایہا الذی آمنوا اتقوا اللّٰہ حق تقاتہ ولاتموتن الا وانتم مسلومنo یا ایہا الناس اتقوا ربکم الذی خلقکم من نفس واحد وخلق منہا زوجہا وبث منہا رجالاً کثیراً ونسائا واتقوا اللّٰہ الذی تسائلون بہ والارحامط ان اللّٰہ کان علیکم رقیباo یا ایہا الذین آمنوا اتقوا اللّٰہ وقولو قولاً سدیداً(۲۱) اس پر حاشیہ یہ ہے کہ یہ خطبہ تمام حاجت روائی کے لیے عام ہے لہٰذا اپنے ضروری کاموں میں اسے پڑھ کر مدد طلب کرنی چاہیے۔
مختصر خطبہ اجماع صحابہ سے بھی مروی
خطبہ کا مختصر ہونا جس طرح قول رسول فعل نبی اور تعلیم نبوی سے ثابت ہے اسی طرح اجماعِ صحابہ کرام رضوان الله تعالى عليهم اجمعين بھی اس کے لیے مضبوط مستدل ہے، اس اجماع نے ایک اہم اشکال کو رفع کیا ہے کہ آپ صلى الله عليه وسلم تو جوامع الکل تھے لہٰذا اپنی مکمل بات چند کلمات میں کہہ لیتے تھے آپ کے بعد دوسرے حضرات میں یہ صفت نہیں پائی جاتی ہے اس لیے یہ لمبی بات کرکے اپنی بات دوسروں تک پہنچانے کے مجاز ہیں اجماع کی روایت حضرت عثمان غنی رضى الله تعالى عنه کے حوالے سے صاحب بدائع الصنائع نے نقل کی ہے۔ روی عن عثمان رضى الله تعالى عنه انہ لما استخلف خطب فی اول جمعة فلما قال الحمد اللّٰہ ارتج علیہ فقال انتم الی امام فعال احوج منکم الی امام قوال وان ابابکر و عمر کانا یعدان لہذا لمکان مقالا وستاتیکم الخطب من بعد واستغفر اللّٰہ لی ولکم ونزل وصلٰی بہم الجمعة کان ذٰلک بمحضر من المہاجرین الانصار وصلوا خلفہ وما انکروا علیہ صنیعہ مع انہم کانوا موصوفین بالامر بالمعروف والنہی عن المنکر فکان ہذا اجماعا من الصحابة․ ترجمہ: حضرت عثمان غنی رضى الله تعالى عنه سے مروی ہے کہ جب آپ خلیفہ بنائے گئے تو پہلے جمعہ میں خطبہ دیا تو جب الحمدللہ کہا تو رک گئے پھر فرمایا تم لوگ فعال امام کے زیادہ محتاج ہو بہ نسبت بہت زیادہ بولنے والے امام کے اورحضرات شیخین (صدیق اکبررضى الله تعالى عنه و فاروق اعظم رضى الله تعالى عنه) اس جگہ کے لیے چند باتیں تیار کررکھے تھے اور عنقریب تمہارے روبرو اس کے بعد خطبے آئیں گے اور میں اپنے لیے اور تم لوگوں کے لیے استغفار کرتا ہوں اور انھوں نے صحابہ کرام رضوان الله تعالى عليهم اجمعين کو جمعہ کی نماز پڑھائی یہ تمام باتیں مہاجرین وانصار کی موجودگی میں پیش آئیں اور تمام حضرات نے ان کی اقتداء میں نماز ادا کی کسی نے بھی ان کے یہ کرنے پرنکیر نہیں کیا باوجودیکہ وہ حضرات امر بالمعروف اور نہی عند المنکرکی صفت سے متصف تھے، لہٰذا یہ صحابہ کا اجماع ہے۔(۲۲) اس واقعہ سے دو باتیں سمجھ میں آئیں: (۱) تینوں خلفاء نے مختصر خطبہ دیا (۲) صحابہ کرام کی موجودگی میں حضرت عثمان غنی رضى الله تعالى عنه کے مختصر خطبہ دینے کو صحابہ کرام نے درست سمجھا اور کچھ نکیر نہیں کیا۔
چھوٹا خطبہ اقوال ائمہ کی روشنی میں
قال ابوحنیفہ رحمة الله عليه ان اقتصر الخطیب علی مقدار یسمٰی ذکر اللّٰہ کقولہ الحمد اللّٰہ سبحان اللّٰہ جاز(۲۳) امام ابوحنیفہ رحمة الله عليه نے فرمایاکہ اگر خطیب نے اتنی مقدار پر اکتفاء کیا جس کو اللہ کا ذکر کہا جائے مثلاً الحمد اللّٰہ، سبحان اللّٰہ تو جائز ہے۔ فذہب ابوحنیفة الی ان رکن الخطبة تحمیدة او تہلیلة او تسبیحة لان المامور بہ فی قولہ تعالٰی (فسعوا الی ذکر اللّٰہ) مطلق الذکر الشامل للقلیل والکثیر والماثور عنہ لایکون بیانا لعدم الاجمال فی لفظ الذکر․ تو ابوحنیفہ رحمة الله عليه اس بات کے قائل ہیں کہ خطبہ کا رکن الحمد اللّٰہ یا لا الٰہ الا اللّٰہ یا سبحان اللّٰہ ہے اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کے قول فاسعوا الی ذکر اللّٰہ․ میں حکم مطلق ذکر ہے جو قلیل و کثیر کو شامل ہے اور ان سے منقول ہے کہ وہ بیان نہیں ہے لفظ ذکر میں اجمال نہ ہونے کی وجہ سے وقال الصاحبان: لابد من ذکر طویل یسمٰی خطبة․ اور صاحبین رحمهما الله نے فرمایا کہ اتنے طویل ذکر کا ہونا ضروری ہے کہ اسے خطبہ کہاجاسکے۔
اما المالکیة فیرون ان رکنہا ہو اقل ما یسمٰی خطبة عند العرب ولو سجعتین، نحو: اتقوا اللّٰہ فیما امر وانتہو عما عنہ نہی وزجر فان سبح او ہلل او کبر لم یجزہ․ بہرحال مالکیہ تو وہ حضرات اس بات کے قائل ہیں کہ اس کا رکن یہ ہے کہ کم سے کم اتنی مقدار میں خطبہ ہو جسے اہل عرب کے نزدیک خطبہ کہا جاسکے اگرچہ دو مقفیٰ عبارت ہو جیسے اللہ تعالیٰ سے ان باتوں میں ڈرو جس کا حکم دیا ہے اور اللہ کی منع کی ہوئی اور زجر و توبیخ کی ہوئی چیزوں سے باز رہو لہٰذا اگر سبحان اللّٰہ یا لا الٰہ الا اللّٰہ یا اللّٰہ اکبر کہا تو جائز نہیں ہوگا۔
وجزم ابن العربی ان اقلہا حمدا للّٰہ والصلاة علی نبیہ وتحذیر و تبشیر ویقرأ شیئاً من القرآن ابن عربی نے کہا ہے کہ خطبہ کی کم سے کم مقدار اللہ کی تعریف نبى صلى الله عليه وسلم پر درود، ڈرانا اور خوشخبری دینا ہے اور قرآن پاک میں سے کچھ پڑھنا ہے۔
وذہب الشافعیة الی ان لہا خمسة ارکان وہی: (أ) حمد اللّٰہ ویتعین لفظ (اللّٰہ) ولفظ (الحمد) (ب) الصلاة علی النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم ویتعین صیغة صلاة وذکر النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم باسمہ او بصفتہ فلا یکفی صلی اللّٰہ علیہ وسلم (ج) الوصیة بالتقوی ولا یتعین لفظہا (د) الدعاء للمومنین فی الخطبة الثانیة (ھ) قرأة آیة مفہمة ولو فی احداہما․ فلا یکفی بنحو (ثم نظر) لعدم استقلالہا بالافہام ولا بمنسوخ التلاوة ویسن جعلہا فی الخطبة الاولٰی واستدلوا علی ہذہ الارکان بفعل النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم․
ترجمہ: شوافع خطبہ کے لیے پانچ رکن مانتے ہیں:(۱) اللہ کی تعریف اس کے لیے لفظ اللہ اور لفظ الحمدمتعین ہے (۲) رسول صلى الله عليه وسلم پر درود کے صیغے اورنبی صلى الله عليه وسلم کا ذکر ان کے نام یا ان کی صفت کے ذریعہ متعین ہوگا۔لہٰذا صلى الله عليه وسلم کافی نہیں ہوگا (۳) اللہ سے ڈرنے اور تقویٰ اختیار کرنے کی وصیت جس کے لیے کوئی خاص لفظ ضروری نہیں(۴) دوسرے خطبہ میں مومنین کے لیے دعاء (۵) بامفہوم ایک آیت کا پڑھنا اگرچہ دونوں خطبوں میں سے ایک میں ہو لہٰذا ثم نظر جیسی آیت کافی نہیں ہوگی اس کے مستقل بالمفہوم نہ ہونے کی وجہ سے اورنہ منسوخ التلاوت کافی ہوگا۔ اور اس کو خطبہ اولیٰ میں مسنون قرار دیاگیا ہے اور ان حضرات نے ان ارکان پرنبی صلى الله عليه وسلم کے فعل سے استدلال کیا ہے۔
اما ارکانہا عند الحنابلة فاربعة وہی: (أ) حمد اللّٰہ تعالٰی بلفظ الحمد (ب) الصلاة علی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم بصیغة الصلاة (ج) الموعظة وہی القصد من الخطبة فلا یجوز الا خلال بہا (د) قرأة آیة کاملة․
ترجمہ: بہرحال حنابلہ کے نزدیک خطبہ کے ارکان چار ہیں: (۱) لفظ الحمد سے اللہ تعالیٰ کی تعریف (۲) درود کے لفظ سے نبی پاک صلى الله عليه وسلم پر درود (۳) نصیحت اور یہی خطبہ کا مقصد ہے لہٰذا اس کے چھوڑ دینے کی وجہ سے جائز نہ ہوگا (۴) مکمل آیت کی تلاوت۔
وزاد بعضہم رکنین آخرین: (أ) الموالاة بین الخطبتین وبینہما وبین الصلٰوة فلا یفصل بین اجزاء الخطبتین ولا بیناحداہما وبین الاخری ولا بین الخطبتین وبین الصلاة (ب) الجہر بحیث یسمع العدد المعتبر للجمعة حیث لا مانع․
ترجمہ: بعض حضرات نے دوسرے دو رکن کا اضافہ کیا ہے۔ پہلا دونوں خطبوں کے درمیان موالاة(۲۴) اوران دونوں کے درمیان اور نماز کے درمیان بھی لگاتار عمل ہو لہٰذا دونوں خطبوں کے اجزاء اور ان دونوں میں سے ایک اور دوسرے کے اور دونوں خطبوں اور نماز کے درمیان کوئی فصل نہ ہو(۲۵) (دوسرا) اتنی بلند آواز سے ہوکہ اتنے لوگ سن لیں جو جمعہ کے لیے معتبر ہیں اس طور پر کہ کوئی مانع نہ ہو۔(۲۶)
اتنی باتیں سامنے آجانے کے بعد اب بہت طول طویل خطبہ دینا خلاف سنت ہوگا جس کا ترک بہت ضروری ہے اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمادیا ہے کہ ہمارے پیارے حبیب تمہیں جو دیں اسے لے لو اورجس سے منع کردیں اس سے رک جاؤ چنانچہ فرمایا: ما آتٰکم الرسول فخذوہ وما نہٰکم عنہ فانتہوا، نص میں کسی بات کا ذکر کرنا اور دوسری باتوں کو نہ لانا گویا اس سے نہی ہی ہے۔ جسے صحابہ کرام کے اجماع نے ثابت کردیا کہ انتم الی امام فعال احوج منکم الی امام قوال․ اس لیے ہرخطیب کو لازمی طور پر ان فرامین کا خیال رکھنا چاہیے تاکہ نبی پاک صلى الله عليه وسلم کے روبرو ہوتے ہوئے خوشنودی اور رضامندی حاصل ہو۔
* * *
حواشی:
(۱) بخاری شریف جلداوّل (صفحہ۱۲۰)۔ (۲) صفحہ ۱۳۸، ج۱۴ مکتبہ احتیاء التراث الاسلامی قطر۔ (۳) روح المعانی ص ۱۰۰ جز ۲۸ مکتبہ احیاء التراث العربی بیروت لبنان۔ (۴) بدائع الصنائع جلد۱، ص۳۸۳۔ (۵،۶،۷) بیان القرآن۔ (۸) تفسیر ابن عطیہ ص ۴۴۸ ج۱۴ مکتبہ امیر الدولہ قطر الطبعة الاولیٰ ۱۴۱۱ھ = ۱۹۹۱/۔ (۹) بدائع الصنائع ج۱، ص۳۸۰ مکتبہ دارالفکر الطبعة الاولیٰ۔ (۱۰) بدائع الصنائع ج۱، ص۳۸۸، ۳۸۹۔ (۱۱) بخاری شریف ج۱، ص۱۲۷۔ (۱۲) مسلم شریف ج۱، ص۲۸۶، مکتبہ ملت دیوبند۔ (۱۳) ابوداؤد شریف ج۱، ص۱۵۸، مکتبہ ملت دیوبند۔ (۱۴) وہ قرآن وحدیث کی بات جو کسی خاص حکم کے لیے آئی ہو۔ (۱۵) یہ ایک کتاب ہے۔ (۱۶،۱۷) نسائی شریف جلد۱، ص۱۵۹، ابن ماجہ ص ۷۷، مکتبہ فیصل دیوبند۔ ترمذی شریف ج۱، ص۱۱۴، فیصل دیوبند۔ (۱۸) اخرجہ ابوداؤد، مراسیل ص ۱۹۴۰۸، بیہقی ج۲، ص۲۱۵، باب کیف یستحب ان تکون الخطبة، بحوالہ الجامع الاحکام القرآن ص ۱۰۵،۱۰۶ ج۹، جز ۱۸ مکتبہ دارالفکر۔ (۱۹) بحوالہ بالا۔ (۲۰) ابوداؤد شریف ج۱، ص۱۵۸، مکتبہ ملت دیوبند۔ (۲۱) نسائی شریف ج۱، ص۱۵۸، مکتبہ فیصل دیوبند۔ (۲۲) بدائع الصنائع ج۱، ص۳۸۹، مکتبہ دارالفکر الطبعة الاولیٰ، کشاف ج۴، ص۵۳۵، مکتبہ منشورات البلاغة، الجامع لاحکام القرآن القرطبی ج۹، جز۱۸، ص۱۰۵، مکتبہ دارالفکر۔ (۲۳) کشاف۔ (۲۴) کسی کام کا لگاتار ہونا۔ (۲۵) جدائیگی۔ (۲۶) الموسوعة الفقہیہ، از ص ۱۷۷ تا ۱۷۸، ج۱۹، الطبعة الثانیة ۱۴۱۰ھ = ۱۹۹۰/ وزارة اوقاف کویت۔
——————–
ماهنامه دارالعلوم ، شماره 04 ، جلد: 93 ربيع الثانى 1430 ھ مطابق اپریل 2009ء