از: مفتی شکیل منصور القاسمی ، شیخ الحدیث مجمع عین المعارف، کیرالہ
نام سے انسان کی صرف شناخت ہی نہیں ہوتی ہے، بلکہ اس سے ”ذی نام“ کے رخ، رجحان،، وجدان، ذہن، فکر، مزاج اور طبیعت کی غمازی اور عکاسی بھی ہوتی ہے۔ عربی کا مشہور مقولہ ہے ”کل اناء یترشح بما فیہ“ (جس برتن میں جو چیز ہوتی ہے اس سے وہی چیز ٹپکتی ہے) نام اور شخصیت کے مابین وہی ہم آہنگی، گہرا تعلق اور دائمی وابستگی ہے جو جسم اور روح کے درمیان پائی جاتی ہے۔ ”اگر ایک طرف نام سے ذات کی غمازی ہوتی ہے تو دوسری جانب شخصیت اور ظاہری شکل وصورت سے بھی نام کا اندازہ لگ جاتا ہے۔ (جیساکہ ہم نیچے تحریر کریں گے) اورحقیقت یہ ہے کہ جس طرح جسم کے اچھے اور برے اعمال و حرکات سے روحِ انسانی میں ”ملکیت یا بہیمیت“ پیدا ہوتی ہے ٹھیک اسی طرح نام کے حسن و عمدگی سے روح میں لطافت و بالیدگی پیدا ہوتی ہے۔ انسانی افکار واعمال کی تعمیر ہوتی ہے اور جذبہٴ عمل کو تقویت ملتی ہے۔ اورنام کے قبح سے روح میں کثافت، انسانی اعمال میں آلودگی اور پراگندگی پیداہوتی ہے۔
نام کا اثر کام پر
حق سبحانہ وتعالیٰ نے ”عبدالعزّی“ کی کنیت ”ابولہب“ رکھی، عاقبت، انجام اور آخرت کے لحاظ سے یہ نام (کنیت) کتنی مسلّمہ حقیقت کی ترجمانی کررہا ہے!۔ ادھر رسول اللہ … نے ”ابوالحکم بن ہشام“ کی کنیت ”ابوجہل“ رکھی، تو اس کی شخصیت پہ یہ کنیت کتنی فِٹ ہوئی، اور اس کے افکار واعمال پر اس لفظ کے کتنے گہرے اور ان مٹ نقوش چھائے رہے! اور اہل علم کے علم میں یقینا یہ ہوگا کہ حق وباطل کی سب سے پہلی فیصلہ کن لڑائی ”غزوئہ بدر“ میں مشرکینِ عرب کو نہتے مسلمانوں سے جو شرمناک اور بدترین شکست ہوئی، اس کی منجملہ وجوہ کے ایک اہم اور حقیقی وجہ یہ بھی تھی کہ اُن کی طرف سے جو سب سے پہلے مقابلہ کے لیے میدانِ کارزار میں اترے، ان میں ”ولید“ شیبہ“ اور ”عتبہ“ نامی تین آدمی تھے۔ ولید کے معنی میں کس قدر ضعف و عجز کا پہلو ہے؟ (پیدائش کے وقت بیحد ناتواں اور کمزور بچہ کو کہتے ہیں) اور ”شیبہ“ تو بڑھاپے کی اس حد کو کہتے ہی ہیں جب انسان کے تمام اعضاء ڈھیلے پڑجائیں اور قویٰ معطل ہوجائیں! اور ”عتبہ“ میں جو عتاب وعذاب اور قہر وغضبِ خداوندی کا ”جہانِ معانی“ نہاں ہے، وہ ”جہاں“ میں کسی سے قابل بیان نہیں! غور کیجیے! جن ”برتنوں“ سے ضعف و کمزوری، عجز وناتوانی اور قہر عتاب ”جھلکتے“ ہوں؟ کیا ان سے قوت وجوانمردی، دلیری وبہادری اور فتح ونصرت ”چھلک“ سکتے ہیں؟؟
ادھر مسلمانوں کی طرف سے جو حضرات ان کے مقابلہ کے لیے آئے تھے ان میں ایک نام ”علی“ کا تھا،جو سراپا ”علو“ سے عبارت تھا، دوسرا نام ”عبیدہ“ کا تھا، جن سے ”عبدیت وبندگی“ ٹپکتی تھی (اللہ کے نزدیک یہ سب سے پیاری صفت ہے، اسی لیے جونام ”عبد“ سے شروع ہو وہ اللہ کے یہاں بہت پسندیدہ شمار ہوتا ہے) اور تیسرا نام ”حمزہ“ کا تھا جو اپنے ”جلو“ میں شیر کی صلابت رکھے ہوئے تھا، تو علی کے ”علو“، عبیدہ کی ”عبودیت“ اور حمزہ کی ”قوت صلابت“ نے ان کی شخصیتوں کو ایسا متأثر کیا اور نام کی عمدگی سے ان کے کام پہ ایسا اثر مرتب ہوا کہ بے سروسامانی کے عالم میں ایک مسلح اور ہتھیار بند فوج کو صرف چند گھنٹوں میں مولی گاجر کی طرح صاف کردیا۔
تاریخِ اسلام کے اس تابناک واقعہ سے صاف ظاہر ہے کہ ”نام“ سے ”کام“ کتنا متأثر ہوتاہے۔ اس لیے ہم دیکھتے ہیں کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم، انسان، حیوان، شہر، آبادی اور مکان غرض کہ ہر چیز میں اچھے ناموں کو پسند فرماتے تھے(۱) اور برے ناموں کو سن کر آپ کے دل پر تکدر کی چوٹ لگتی تھی، اور ان تمام چیزوں کے پیچھے یہی غرض مقصود ہوتی تھی کہ اچھے نام پر اچھے نتائج مرتب ہوں گے، اور برے ناموں پر بُرے۔ چنانچہ روایتوں میںآ یا ہے کہ:
(۱) رسول اللہ صلى الله عليه وسلم اپنی دودھاری اونٹنی کے دودھ نکالنے کے لیے چند لوگوں کو بلایا، ایک ”مرّہ“ (کرواہٹ) نامی آدمی اس کے لیے کھڑاہوا، لیکن چوں کہ اس کے نام سے کسی ’شیریں“ نتیجہ کا حصول مشکل تھا، اس لیے آپ نے نام سے نتیجہ کااستنباط فرماتے ہوئے اس کو بٹھادیا، دوسرا شخص کھڑاہوا،اس کا نام بھی حرب (جنگ وجدال) تھا، اس نام سے بھی کسی مثبت نتیجہ کی امید فضول تھی، اس لیے آپ نے اس کو بھی کہا بیٹھ جاؤ۔ تیسرا شخص کھڑاہوا،جس کا نام تھا ’یعیش“ (زندگی) چوں کہ اس نام سے زندگی اورحیات جیسے امید افزاء معانی سمجھ میں آرہے تھے، اس لیے آپ نے اس کو دوہنے کی اجازت دی۔(۲)
(۲) ایک غزوہ سے واپسی پر آپ دو پہاڑوں کے درمیان سے گذررہے تھے۔ آپ نے دونوں پہاڑوں کے نام دریافت کیے پتہ چلا کہ ایک کا نام ”فاضح“ اور دوسرے کا نام ”مخز“ (ذلیل و رسوا کرنے والا) ہے۔ چوں کہ ان دونوں ہم معنی ناموں سے نامسعود نتیجہ کی عکاسی ہورہی تھی، اس لیے آپ صلى الله عليه وسلم نے وہ راستہ فوراً بدل دیا۔(۳)
(۳) صلح حدیبیہ کے موقع پر آپ صلى الله عليه وسلم کی خدمت میں سہیل بن عمرو آئے۔ آپ صلى الله عليه وسلم نے محض ان کے نام سے استدلال کرتے ہوئے یہ نتیجہ اخذ فرمایا کہ ”ان شاء اللہ مشرکین مکہ کے ساتھ جاری ہماری مصالحتی کوشش بھی ”سہل“ رہے گی اور حقیقت میں ایسا ہی ہوا“(زاد المعاد۲/۴) نام سے کام اور انجام کس قدر متأثر ہوتا ہے؟ اس کی مزید وضاحت کے لیے موطا امام مالک رحمة الله عليه کی یہ روایت انتہائی ”چشم کشا“ اور ”بصیرت افروز“ ہے ۔ حضرت عمر رضى الله تعالى عنه نے ایک شخص کا نام پوچھا، اس نے کہا: جمرة (چنگاری) باپ کا نام پوچھا، تو کہا: شہاب (بھڑکتی ہوئی آگ) کہا کس قبیلہ سے تعلق رکھتے ہو؟ تو کہا ”حُرقة“ (جلن ، سوزش) سے، کہا گھر کہاں ہے؟ تو کہا: حرة النار (آتشیں محلہ) پھر پوچھا کہ تمہاری رہائش کہاں ہے؟ کہا: ذات لطی (آگ سے دہکتی ہوئی جگہ) جب اس شخص کے تمام ہی ناموں میں ”آتشیں مادہ“ ہی کارفرما تھا، تو حضرت عمر رضى الله تعالى عنه نے اس سے یہ نتیجہ اخذ کرتے ہوئے فرمایا: کہ تمہارا گھر ”آتش زنی“ سے نہیں بچ سکتا ہے“۔ چنانچہ نام کا اثر ظاہر ہوا،اور وہ شخص جب گھر لوٹا تو دیکھا کہ واقعتا اس کا گھر جل چکا تھا۔(۴)
شخصیت سے بھی نام کی ترجمانی ہوتی ہے
اوپر کی تفصیلات سے تو یہ واضح ہوگیا کہ نام سے ذی نام کی شناخت ہوتی ہے، لیکن دونوں کے درمیان اتنا مستحکم رشتہ ہے کہ ذات وشخصیت سے بھی نام کا پتہ چل جاتا ہے۔ چنانچہ ایاس بن معاویہ کے بارے میں یہ مشہور ہے کہ وہ محض شکل وصورت اور عادات واطوار دیکھ کر یہ بتادیتے تھے کہ اس شخص کا نام کیا ہے؟ اور حیرت یہ کہ اس میں کبھی غلطی بھی نہیں ہوتی تھی۔(۵)
الغرض شخصیت سازی، اور اخلاق واعمال کی تعمیر میں ”نام“ اہم اور بنیادی رول ادا کرتا ہے اس لیے معلم اعظم صلى الله عليه وسلم اورامت کو اسرار حیات سمجھانے والے نبی صلى الله عليه وسلم نے اچھے اور پسندیدہ نام رکھنے کی تعلیم فرمائی اور ہمیں اس طرح ”راز حیات“ سمجھا گئے ”تم قیامت میں اپنے اور باپوں کے نام سے پکارے جاؤگے اس لیے تم اپنا نام اچھا رکھا کرو“(۶) یعنی نگاہِ نبوت میں یہ طبعی حقیقت جلوہ گر تھی کہ نام کا اثر کام پر ضروری ہے، تو جب نام اچھا ہوگا توامتی کے اعمال بھی اچھے ہوں گے اور جب اعمال اور کام سنور جائیں گے تو روزِ قیامت اچھے اوصاف والقاب سے انہیں پکارا جائے گا۔ تحسین اسماء کے سلسلہ میں آپ صلى الله عليه وسلم کی یہ تعلیم محض سرسری نوعیت کی نہیں تھی، اور نہ ہی صرف وعظ وتلقین کی رسمی حدوں تک محدود تھی! بلکہ آپ نے امت کو اپنے متعدد عملی نمونے بھی دئیے ہیں۔ چنانچہ آپ نے اپنے بہتیرے صحابہ و صحابیات کے نامناسب نام از خود بدلے ہیں۔ مثلاً حضرت عاصیہ کا نام بدل کر آپ نے جمیلہ رکھا(۷)۔ اور حضرت برّہ کا نام بدل کر جویریہ رکھا(۸)، حضر اصرم کا نام بدل کر زرعہ، ابوالحکم کا نام بدلکر ابوشریح رکھا۔ اسی طرح آپ نے حضرت عاص، عزیز، عقلہ، شیطان، غراب، حکم، حباب اور شہاب وغیرہ کے نام بھی تبدیل فرمائے تھے۔(۱۰)
پیغمبروں کے نام رکھنا؟
اگر انبیاء کرام بنی آدم کے سردار ہیں، ان کے اخلاق سب سے اعلیٰ وافضل ہیں، ان کے اعمال سب سے پاکیزہ، معتبر اور مقبول ہیں تواس میں کسی شک وشبہ کی گنجائش نہیں ہے کہ ان کے نام بھی افضل و برتر ہوتے ہیں۔ چنانچہ نبی کریم صلى الله عليه وسلم نے جہاں اپنے ارشاد ”تسموا باسماء الأنبیاء“(۱۱) (ابوداؤد حدیث نمبر ۴۹۵۰، تم پیغمبروں کے نام پہ اپنا نام رکھو) کے ذریعہ اس کی تعلیم و ترغیب دی ہے تو دوسری طرف اپنے جگرگوشہ اور سب سے چھوٹے فرزند کا نام ”ابراہیم“ رکھ کر امت کے لیے اس مسئلہ کی شرعی نقطئہ نظر بھی اپنے عمل سے واضح فرمادی(۱۲)۔ اسی لیے مشہور اور جلیل القدر تابعی حضرت سعید بن مسیب کی رائے تویہ ہے کہ پیغمبروں کے نام پہ نام رکھنا سب سے پسندیدہ نام ہے(۱۳)۔ ہر چند کہ جمہور علماء ان سے متفق نہیں ہیں اور ان کی رائے یہی ہے کہ سب سے پسندیدہ نام عبداللہ اور عبدالرحمن ہے(۱۴)۔ تاہم علماء امت کا اجماعی مسئلہ ہے کہ پیغمبروں کے نام رکھنا نہ صرف جائز بلکہ ”عملِ رسول“ کی وجہ سے افضل اور بہتر بھی ہے، جیساکہ حدیث مذکور میں بصراحت اس کی ترغیب دی گئی ہے۔ سعید بن مسیب رضى الله تعالى عنه کے اس تفرد کی وجہ میرے خیال سے شاید یہ ہے کہ رسول اللہ نے ان کے دادا ”حزن“ (سخت و سنگلاخ زمین) کا نام بدل کر ”سہل“ (نرم و ہموار زمین) رکھا تھا، لیکن انھوں نے اس تبدیلی کو قبول نہیں فرمایا۔ اس لیے وہ کہتے ہیں کہ میرے پورے خاندان کے لوگوں میں ہمیشہ دادا کے اس نام کا اثر (قساوت قلبی) باقی رہا(۱۵)۔ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کے اس قولی وعملی ترغیب و تحریک کا اثر یہ ہوا کہ علامہ نووی رحمة الله عليه کے بقول صحابہ کرام کی ایک معتدبہ جماعت کا نام پیغمبروں والا تھا(۱۶)، اور مایہ ناز محقق علامہ ابن القیم الجوزیہ رحمة الله عليه نے معتبر تاریخی حوالہ سے نقل کیا ہے کہ حضرت طلحہ رضى الله تعالى عنه کے دس لڑکے تھے، دسوں کا نام نبیوں والا تھا، اور سب سے بڑے لڑکے کا نام ”محمد“، رسول اللہ نے خود رکھا تھا۔(۱۷)
محمد نام رکھنا
جب نبیوں کے نام سب سے افضل واعلیٰ ہیں تو سید الانبیاء والمرسلین کا نام کتنا اشرف و برتر اور پھر ان کے نام پرنام رکھنا کس درجہ شرف وسعادت کی بات ہوگی؟ چنانچہ حضرت جابر رضى الله تعالى عنه کی حدیث بخاری ومسلم میں منقول ہے کہ ”ایک انصاری صحابی کے گھر میں لڑکا تولد ہوا، گھروالوں نے ”محمد“ نام رکھنا چاہا، لیکن اس سلسلہ میں مزید تحقیق کے لیے معلم اعظم صلى الله عليه وسلم کے پاس پہنچے اور اپنا ارادہ ظاہر فرمایا، آپ صلى الله عليه وسلم نے ان کے ارادہ کی تحسین فرمائی اور کہا: میرا نام رکھو، لیکن اس کے ساتھ میرے حین حیات میری کنیت (ابوالقاسم) کو بھی جمع نہ کرو کہ اس سے آواز وپکار کے وقت اشتباہ پیداہوتا ہے“(۱۸)۔ اس حدیث کی تشریح کرتے ہوئے تمام ہی محدثین متفق ہیں کہ ”محمد“ نام رکھنا نہ صرف جائز بلکہ افضل اور بہتر ہے۔(۱۹)
رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کے اسماء گرامی کی تعداد
رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کے نام بیشمار ہیں، بعض علماء ۶۰، بعض نے ۹۹، بعض نے ۲۰۰، بعض نے ۳۰۰، بعض نے ۵۰۰، اور بعض نے ایک ہزار تعداد بتائی ہے، بہت سے محققین نے اس موضوع پر مستقل کتابیں تصنیف فرمائی ہیں۔ علامہ جلال الدین سیوطی رحمة الله عليه نے ”البہجة السنیة“ نامی مبسوط و مفصل کتاب تحریر فرمائی ہے۔ اس کتاب میں انھوں نے رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کے ۵۰۰ اسماء گرامی شمار کرائے ہیں جبکہ قاضی ابوبکر بن العربی نے ترمذی کی شرح میں بعض صوفیاء کے حوالہ سے ایک ہزار ”نام گرامی“ نقل کیے ہیں، لیکن ان تمام ناموں میں ”محمد“ اور ”احمد“ سب سے زیادہ مشہور ہیں۔ محمد تو قرآن کریم میں کئی جگہ آیا ہے، اور ”احمد“ کا انجیل اور دیگر آسمانی کتابوں میں ذکر آیا ہے، قرآن کریم میں بھی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے حوالہ سے ”سورة الصف آیت:۶ میں یہ لفظ مذکور ہوا ہے۔(۲۰)
محمد اور احمد کے معنی!
محمد کے معنی ہیں: جس کی زیادہ تعریف کی جائے اور زیادہ تعریف اچھی خصلتوں کی زیادتی ہی کی وجہ سے ہوتی ہے، تو ہم یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ ”محمد“ کے معنی ہیں: جس کی اچھی خصلتیں زیادہ ہوں۔ اور ”احمد“ کے معنی ہیں: جو اپنے رب کی تعریف زیادہ کرے۔ قاضی عیاض رحمة الله عليه فرماتے ہیں رسول اللہ صلى الله عليه وسلم احمد پہلے ہیں اور ”محمد“ بعد میں۔ اس لیے کہ ولادت باسعادت کے فوراً بعد سے ہی سجدے کی شکل میں آپ صلى الله عليه وسلم اپنے رب کی حمد شروع کردئیے تھے جبکہ لوگوں نے آپ صلى الله عليه وسلم کی تعریف بعد میں کی ہے، تو آپ احمد پہلے ہوئے اور محمد بعد میں۔ نیز آسمانی کتابوں میں آپ صلى الله عليه وسلم کی بشارت بنامِ احمد پہلے آئی ہے اور ”محمد“ نام کا تذکرہ قرآن پاک میں بعد میں ہوا ہے۔ اسی طرح آخرت میں بھی آپ صلى الله عليه وسلم کے ہاتھ میں حمد کا جھنڈا ہوگا اور آپ بحالت سجدہ اپنے رب کی بہت زیادہ تعریف کریں گے، پھر آپ صلى الله عليه وسلم کو شفاعت عظمیٰ کی اجازت ملے گی،اور آپ صلى الله عليه وسلم تمام مسلمانوں کی شفاعت فرمائیں گے، جس کے بعد لوگ آپ کی بہت زیادہ مدح و تعریف کریں گے، تو یہاں بھی آپ احمد پہلے ہوں گے اور محمد بعد میں۔(۲۱)
اسم محمد کی عظمت
قاضی عیاض رحمة الله عليه نے لکھا ہے کہ نام ”محمد“ کو اللہ تعالیٰ نے ازل سے ”اچھوتا“ بناکر رکھا، پوری تاریخ انسانیت میں اس نام سے کوئی شخص موسوم نہیں ہوسکا، البتہ جب ”بعثت محمد“ کا وقت قریب ہوگیا، اور راہبوں اورکاہنوں نے جب ”محمد“ نامی نبی آخر الزماں کی بعثت کی خوشخبری سنانا شروع کردی، تو عرب کے بہت سے لوگوں نے اپنے بیٹوں کا نام ”محمد“ رکھنا شروع کردیا، تاکہ نبوت سے سرفراز ہوسکے۔ اس امید پر محمد نام رکھے جانے والوں کی تعداد قاضی نے چھ بتائی ہے اور علامہ سہیلی رحمة الله عليه نے تین۔ جبکہ حافظ ابن حجر عسقلانی رحمة الله عليه کی تحقیق کے بموجب ایسے لوگ پندرہ ہیں۔ یہاں مختصر سے مضمون میں ان ناموں کی تفصیلی فہرست ذکر کرنے کی گنجائش نہیں ہے۔ حافظ بدرالدین عینی نے عمدة القاری میں، اور حافظ ابن حجر عسقلانی نے فتح الباری میں جو کچھ لکھا ہے، وہ مسافرانِ علم وتحقیق کے لیے کافی ہے(۲۲) مجھے یہاں صرف یہ بتانا مقصود ہے کہ نام گرامی ”محمد“ کتنا عظیم ترین ہے کہ زمانہٴ جاہلیت میں بھی لوگوں کی اتنی بڑی تعداد اس نام سے موسوم ہوئی۔ بہرحال خواہ محمد نام ہو یا احمد۔ آپ صلى الله عليه وسلم کے دونوں ناموں پر نام رکھنا باعث شرف وفضیلت ہے۔ محمد بن اسماعیل امیر صنعانی رحمة الله عليه نے اپنی مشہور تالیف ”سبل السلام“ شرح بلوغ المرام میں مسند حارث بن اسامہ کی ایک مرفوع حدیث نقل کی ہے ”جس شخص کے تین لڑکے ہوں اور ان میں سے ایک کا نام بھی محمد نہ رکھے تو اس نے جہالت کا کام کیا“(۲۳) امام مالک رحمة الله عليه فرماتے ہیں ،میں نے مدینہ منورہ کے لوگوں کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ ”جس گھر میں بھی محمدنامی شخص ہوگا اس کو رزق خیر سے نوازا جائے گا۔“
امام العصر علامہ انور شاہ کشمیری رحمة الله عليه نے ”عرف الشذی“ میں معجم الطبرانی کی حدیث نقل کی ہے ”جو اپنے بیٹے کا نام محمد رکھے، میں قیامت میں اس کی شفاعت کروں گا“(۲۴)
جن صحابہ کا نام محمد، آپ نے خود رکھے
محمد نام رکھنے کے سلسلہ میں آپ نے صرف زبانی ارشاد و ترغیب پر بس نہیں فرمایا، بلکہ متعدد صحابہ کرام کے لڑکوں کے نام ”محمد“ آپ نے خود رکھے ہیں۔ چنانچہ مہاجرین میں سب سے پہلے آپ صلى الله عليه وسلم نے اپنے چچازاد بھائی جعفر طیار کے فرزند کا نام محمد۔ اور عام مسلمانوں میں سب سے پہلے حاطب کے لڑکے کا نام محمد رکھا۔ اس کے علاوہ متعدد صحابہ کرام کے لڑکوں کے نام محمد آپ صلى الله عليه وسلم نے خود رکھے ہیں۔ جن میں محمد بن ابی بکر، محمد بن سعد بن ابی وقاص، محمد بن المنذر، محمد بن طلحہ، محمد بن عمرو بن حزم، محمد بن ضمرہ، محمد بن خطاب، محمد بن خلیفہ، محمد بن الجدبن قیس انصاری کے نام خصوصیت کے ساتھ قابل ذکر ہیں(۲۵)۔ مشہور مورخ اسلام علامہ ابن سعد نے اپنے طبقات میں لکھاہے کہ حضرت علی کی صلبی اولاد میں ۱۴ لڑکے اور ۱۹ لڑکیاں تھیں، چودہ میں سے تین لڑکوں کا نام آپ رضى الله تعالى عنه نے محمد رکھا، خولة بنت جعفر کے بطن سے پیدا ہونے والے لڑکے کا نام محمد الاکبر رکھاجو ابن الحنفیہ سے بھی مشہور ہوئے۔ امامہ بنت ابی العاص کے بطن سے پیدا ہونے والے لڑکے کا نام محمد الاوسط رکھا، اور اپنی ایک باندی (ام ولد) سے پیدا ہونے والے لڑکے کا نام محمد الاصغر رکھا۔(۲۶)
رسول اللہ، خلفاء راشدین اور عشرة مبشرہ کی اس سنت سے عام صحابہٴ کرام میں محمد نام رکھنے کی ایسی عملی تحریک ملی کہ امام بخاری رحمة الله عليه وسلم کی ”التاریخ الکبیر“ اور حافظ کے ”الاصابہ“ کے اعداد وشمار کے مطابق محمد نامی حضرات صحابہ کی تعداد ۶۰ سے بھی متجاوز ہے۔(۲۷) اور حیرت ہوتی ہے کہ سب سے پسندیدہ نام عبداللہ اور عبدالرحمن ہے! لیکن محمد نام رکھنے کا شوق حضرات صحابہ، تابعین اور تبع تابعین میں اتنا شدید تر ہوچکا تھا کہ محمد نامی صحابہ، تابعین، تبع تابعین (جن سے کسی نہ کسی واسطہ سے حدیث رسول مروی ہے) کی تعداد امام ذہبی رحمة الله عليه کے حساب و شمار کے مطابق ۱۲۶۶ کے قریب پہنچتی ہے(۲۸)، کسی بھی اور نام کے محدثین صحابہ و تابعین وغیرہم کی تعداد اس درجہ نہیں ہے، بلکہ عبداللہ (جس کی صریح فضیلت حدیثوں میں آتی ہے) کے نام کے محدثین صحابہ و تابعین کی تعداد میرے ناقص تتبع کے مطابق ۵۳۳ ہے(۲۹)، اسی طرح احمد نامی محدثین کی تعداد بھی ۳۹۷ کے قریب ہے(۳۰)۔
فنِ حدیث و اسماء الرجال سے اشتغال رکھنے والے حضرات اہلِ علم بخوبی جانتے ہیں کہ ”المحمدون“ نامی باب کے تحت رواةِ حدیث اس کثرت کے ساتھ ذکر کیے جاتے ہیں کہ جب تک دادا کا نام معلوم نہ ہو کسی محمد نامی راوی کی تحقیق و تلاش دشوار ترین کام ہے۔ صحابہ، تابعین، تبع تابعین، علماء، محدثین اور ائمہ ومشائخ کا اس کثرت و تواتر کے ساتھ ”محمد“ یا ”احمد“ نام رکھنا ہی اس کی افضلیت کی بیّن اور واضح دلیل ہے! پھر اس کے بعد اگر کوئی یہ کہے کہ ”صحابہ کے دور میں اس نام کا رواج کمیاب تھا“ تو شاید یہ کہنے والے کی جہالت، کم علمی اور مصادرِ شریعت سے ناواقفیت کی دلیل ہوگی۔ ہاں! بعض روایتوں میںآ یا ہے کہ حضرت عمرنے اپنے دور خلافت میں محمد نام رکھنے سے لوگوں کو منع فرمادیا تھا، ممکن ہے بعض ”سطحی علم“ اور ”یرقانی نظر“ رکھنے والے کو اسی طرح کی روایت سے حقیقت مسئلہ کے فہم میں مغالطہ ہوا ہو! لیکن جو علم و تحقیق کے خوگر ہیں وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ جس روایت میں حضرت عمر رضى الله تعالى عنه کی یہ ممانعت آئی ہے وہیں حضرت عمر رضى الله تعالى عنه کا اس سے رجوع بھی ثابت ہے! مسند احمد اور طبرانی کی روایت میں ہے کہ ”حضرت عمر کے سامنے محمد بن زید بن خطاب کو ایک آدمی نازیبا کلمات سے پکار رہا تھا، حضرت عمر کو ”نام محمد“ کے ساتھ یہ گستاخی بہت ناگوار گذری چنانچہ انھوں نے بلاکر کہا: تمہاری وجہ سے رسول اللہ کے نام کی ہتک ہوتی ہے جو میرے لیے ناقابلِ برداشت ہے، آج کے بعد تم کبھی اس نام سے پکارے نہیں جاسکتے ہو! اور ان کا نام عبدالرحمن رکھ دیا“(۳۱)۔ پھر اس کے بعد ہی مدینہ منورہ میں یہ حکم صادر فرمادیا کہ جن کے لڑکے کا نام محمد ہو وہ ان کا نام بدل دیں! لیکن پھر آگے کیا ہوا؟ نہ تو محمد بن زید بن الخطاب نے اپنا نام تبدیل کیا بلکہ امیرالمومنین سے صاف کہا ”رسول اللہ نے میرا نام محمد رکھا ہے! آپ کے کہنے سے کیسے بدلوں؟ تو حضرت عمر نے کہا: ”قوموا فلا سبیل لی الیکم“ (اگر واقعہ یہ ہے تو میں اس سلسلہ میں کچھ نہیں کرسکتا ہوں)۔ ادھر مدینہ کے محمد نامی لوگوں نے بھی کہا ”ہمیں رسول اللہ نے ان ناموں کی اجازت دی ہے پھر آپ کی یہ شدت کیسی؟؟ چنانچہ حضرت عمر نے ان لوگوں کو بھی ان کے حال پر چھوڑ دیا“(۳۲) اس حدیث سے جہاں یہ پتہ چلتا ہے کہ حضرت عمر رضى الله تعالى عنه نے اپنے اس حکم سے رجوع فرمالیا وہیں اس سے اس کا بھی پتہ چلتا ہے کہ حضرت عمر کی مذکورہ ممانعت کی غرض اسم گرامی کی عظمت و تقدس کا لحاظ کرنا تھا، نہ کہ محمد نام رکھنے کو وہ ناجائز سمجھتے تھے۔
مرکب نام رکھنا؟
اس ذیل میں یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ حضرات صحابہ وتابعین کے نام محمد یا احمد وغیرہ مفرد ہوتے تھے جیسے محمد بن ابی بکر، محمد بن طلحہ وغیرہ۔ جبکہ موجودہ دور میں عجمی ممالک میں اکثر یہ نام مرکب رکھا جاتا ہے جیسے محمد شمشیر اور شکیل احمد وغیرہ۔ تو واضح رہے کہ محمد نام رکھنے کے مذکورہ فضائل میں مفرد یا مرکب کی کہیں تفریق نہیں ملتی ہے۔ جس طرح ”محمد“ مفرد نام رکھنا افضل ہے اسی طرح اگر اس نام کو کسی دوسرے نام کے ساتھ ملاکر رکھا جائے تو اس سے بھی یہ شرف وسعادت حاصل ہوسکتی ہے بالخصوص جبکہ یہ ثابت ہوکہ مرکب نام میں اصل نام ”محمد“ یا ”احمد“ ہی ہوتا ہے دوسرے جزء کا اضافہ ضمناً وتبعاً کسی خاص پس منظر کے تحت کیاجاتا ہے مثلاً بعض لوگ دوسرے ہم نام لگوں سے تمیز کے لیے کرتے ہیں جیسے حضرت علی نے اکبر اوسط اور اصغر کا اضافہ کیا تھا، بعض لوگ اول ثانی، ثالث وغیرہ کا اضافہ کرتے ہیں، اسی طرح بعض لوگوں کا قصد تاریخ و ایام کی طرف اشارہ کرنا ہوتا ہے۔
حافظ ابن القیم جوزی لکھتے ہیں کہ ”جس طرح ایک آدمی کے لیے نام، لقب اور کنیت رکھنا جائز اور ثابت ہے، اسی طرح ایک آدمی کا متعدد نام رکھنا بھی جائز ہے“(۳۳) متعدد نام جس طرح علیحدہ علیحدہ رکھاجاسکتا ہے، اسی طرح مختلف ناموں کو ایک ساتھ جمع کرکے ”مرکب نام“ بھی بنایا جاسکتا ہے۔ جیسے ”محمد اسعد“ یا ”سعید احمد“ دونوں کے احکام برابر ہیں۔
الغرض نام کے ساتھ ”محمد“ یا ”احمد“ کا اضافہ کرنا شرعاً جائز ہی نہیں بہتر اور باعث شرف بھی ہے لیکن اس مقدس نام کی عزت و تکریم بھی ساتھ میں ضروری ہے۔ ہر لحاظ سے اس کی عظمت و تقدس کا خیال ازحد ضروری ہے۔
* * *
حواشی:
(۱) تحفة المودود (باحکام المولود صفحہ ۱۴۴، طبع مکتبہ الباز، مکة المکرمہ۔ (۲) زاد المعاد ۲/۴، موطا امام مالک ۲/۷۴۱، الادب المفرد حدیث نمبر ۸۳۵۔ (۳) زاد المعاد ۲/۵، سیرت ابن ہشام ۲/۲۵۳۔ (۴) موطا مالک ۲/۷۴۱-۷۴۲۔ مصنف عبدالرزاق ، حدیث نمبر ۱۹۸۶۴۔ (۵) زاد المعاد ۲/۴۔ (۶) ابوداؤد، حدیث نمبر ۴۹۴۸، صحیح ابن حبان حدیث نمبر ۵۷۸۸، فتح الباری ۶۱۹۵، کتاب الادب ۔ (۷) مسلم حدیث نمبر ۲۱۲۹۔ (۸) مسلم: ۲۱۴۰۔ (۹) بخاری حدیث نمبر ۶۱۹۳۔ (۱۰) ابوداؤد، حدیث نمبر ۱۴۹۵۲، ترمذی حدیث نمبر ۲۸۳۸، الادب المفرد حدیث نمبر ۸۴۳، تحفة المودود ص۵۔ (۱۱) ابوداؤد حدیث نمبر ۴۹۵۰، بخاری حدیث نمبر ۳۵۳۹۔ (۱۲) بخاری حدیث نمبر ۳۵۳۹، مسلم حدیث نمبر ۲۱۳۵۔ (۱۳) فتح الباری حدیث نمبر ۶۱۹۹، تحفة المودود صفحہ ۱۵۵۔ (۱۴) تحفة المودود صفحہ ۱۵۵۔ (۱۵) بخاری حدیث نمبر ۶۱۹۳، زاد المعاد ۲/۴-۵۔ (۱۶) نووی علی صحیح مسلم حدیث نمبر ۲۱۳۵۔ (۱۷) تحفة المودود صفحہ ۱۵۵، فتح الباری حدیث نمبر ۶۲۰۰، بخاری مع الفتح حدیث نمبر ۶۱۸۷۔ (۱۸) بخاری مع فتح الباری حدیث نمبر ۶۱۸۷، عمدة القاری، حدیث نمبر ۶۱۸۷، نووی حدیث نمبر ۲۱۳۵۔ (۱۹) زاد المعاد ۲/۲، نووی ۲۱۳۵، عینی حدیث نمبر ۶۱۸۷۔ (۲۰) عمدة القاری حدیث نمبر ۳۵۳۲، فتح الباری حدیث نمبر ۳۵۳۲، اوجز المسالک حدیث نمبر ۳۰۹۱۔ (۲۱) اوجزالمسالک حدیث نمبر ۳۰۹۱، فتح الباری حدیث نمبر ۳۵۳۲، زاد المعاد ۱/۳۳۔ (۲۲) فتح الباری حدیث نمبر ۳۵۳۲، عمدة القاری حدیث نمبر ۳۵۳۲، اوجزالمسالک ۳۰۹۱۔ (۲۳) سبل السلام شرح بلوغ المرام للحافظ ابن حجررحمة الله عليه۔ (۲۴) عرف الشذی شرح ترمذی ۲/۱۱ مطبوعہ: دیوبند، باب اسماء النبی۔ (۲۵) الاصابة فی تمییز الصحابة جلد ۵ صفحہ ۷۳ تا ۸۰، التجرید ۲/۵۰ تا ۶۰، اسد الغابة ۴/۲۹۲۔ (۲۶) طبقات ابن سعد، علی المرتضی، مولفہ رضا کحالہ۔ (۲۷) الاصابة ۵/۷۰-۹۳، التاریخ الکبیر۱/۱-۲۶۶۔ (۲۸) میزان الاعتدال ۶/۳۲۔ (۲۹)میزان الاعتدال ۴/۵۶۔ (۳۰) میزان الاعتدال ۱/۲۰۹-۳۱۴۔ (۳۱) نووی علی صحیح مسلم، حدیث نمبر ۲۱۳۲، الاصابة فی تمییز الصحابة ۵/۸۰، فتح الباری حدیث ۶۱۸۷۔ (۳۲) فتح الباری حدیث نمبر ۶۱۸۹، نووی ۲۱۳۲۔(۳۳) تحفة المودود صفحہ ۱۷۶۔
————————
ماهنامه دارالعلوم ، شماره 04 ، جلد: 93 ربيع الثانى 1430 ھ مطابق اپریل 2009ء