از: محمد عظیم قاسمی فیض آبادی
مغرب کی تقلید کے اشتیاق نے ہمارے معاشرے میں جن برائیوں اور جس طرح کے رسم ورواج کو جنم دیا اس میں سے بعض رسومات ایسی ہیں جو بے شمار گناہوں پر مشتمل ہیں ان میں سے ایک رسم ”اپریل فل“ کی ہے، جو جھوٹ دھوکہ، فریب دغا، اور ایذاء رسانی کے علاوہ بہت سے ناجائز اور گناہ کبیرہ پر مشتمل ہے۔ مغربیت کی تقلید کی رومیں بے سوچے سمجھے بہہ جانے کا شوق جن لوگوں کو دامن گیر ہے انھوں نے اس مسموم اور گندی رسم کو بڑے شوق سے قبول کیا۔ اس رسم کے پیش نظر پہلی اپریل کو جھوٹ بول کر لوگوں کو دھوکہ دینا، بے وقوف بنانا خوبی اور بڑا کمال تصور کیا جاتا ہے جتنی چالاکی مہارت اور جتنی صفائی کے ساتھ جھوٹ بول کر دوسرے کو جتنا بڑا دھوکہ و فریب دے لے اتناہی باکمال اور اپریل فل سے لطف اندوز ہونے والا شمار کیا جاتا ہے۔ اور بدمزاقی کی حد یہ کہ اس گناہ بلکہ مجموعہ گناہ کو مذاق سے تعبیر کیا جاتا ہے، جو خود ایک گناہ ہے اور جو نہ جانے کتنے انسانوں کے لیے ہلاکت کا سبب اور مالی نقصان کا باعث بنتا ہے۔
اگر انسان سنجیدگی سے غور کرے تو اس سے اجتناب اور اس کے ترک کردینے کے لیے اس اس مذاق کا صرف ایک جز یعنی ”کذب“ کی شناعت و قباحت ہی کافی ہے جس کے بارے میں خود فرمان نبوی ہے ”الصِّدْقُ یُنْجِیْ وَالْکِذْبُ یُہْلِکْ“ کہ سچ بولنا فوز وفلاح کا باعث جس میں انسان کی کامیابی سربلندی و سرفرازی مضمر ہے اور اس کے بالمقابل جھوٹ انسان کی ہلاکت اور دنیا وآخرت کی رسوائی کا باعث ہے۔ ایک موقع پر سرکار دوعالم صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا: ”اَلصِّدْقُ طَمَانِیَةٌ وَالْکِذْبُ رِیْبَةٌ“ کہ سچ اطمینان کا باعث جبکہ جھوٹ بے اطمینانی وبے قراری کا موجب ہے ۔ اس حقیقت سے بھی کوئی شخص ناآشنا نہیں ہے کہ راست باز انسان ہمیشہ قابل اعتماد ہوتا ہے، جبکہ جھوٹ کا سہارا لینے والا خلجان وخلش کا شکار ہوتا ہے۔ مسند احمد کی ایک روایت میں ہے ”اَلْکِذْبُ یَنْقُصُ الرِّزْقَ“ کہ جھوٹ بولنا رزق کو کم کردینا ہے۔ ظاہر ہے کہ جھوٹے آدمی سے انسان معاملات وغیرہ کرنے میں اجتناب کرتا ہے جو انسان کے رزق کا سبب اور ذریعہ معاش ہے۔ مزید جھوٹ بولنے کی وجہ سے ہر وقت بے اطمینانی رہتی ہے جو چہرے کی ایمانی رونق کو بھی ختم کردیتا ہے اسی لیے بیہقی کی ایک حدیث میں ”اَلْکِذْبُ لَیَسَوِّدُ الْوَجْہ“ کہاگیا ہے کہ جھوٹ چہرے کو بے رونق کردیتا ہے، کیونکہ جھوٹے کے چہرے پر ہوائیاں اڑتی ہیں اور ایک جھوٹ کو مدلل کرنے کے لیے سو جھوٹ کا سہارا لینا پڑتا ہے، مزید جس سے جھوٹ بولا اس کا سامنا کرنے سے حیاء و شرمندگی کی وجہ سے جھوٹ بولنے والے کا چہرہ بھی بے رونق ہوجاتا ہے حضور صلى الله عليه وسلم کا ارشاد ہے کہ جب کوئی انسان جھوٹ بولتا ہے تو اس کے منہ سے ایسی بدبو آتی ہے کہ فرشتہ اس کی بدبو سے ایک میل دور بھاگتا ہے یہ تو ایک برائی اور گناہ ہے نبی کریم صلى الله عليه وسلم نے بطور مثال جس کا تذکرہ فرمایا ورنہ تو ہرگناہ و جرم کے ارتکاب سے ایسی بدبو پھیلتی ہے کہ خدا کی پاکیزہ اور مقدس مخلوق یعنی فرشتے اس کی بدبو اور تعفن سے میلوں دور بھاگتے اور نفرت کرتے ہیں اسی وجہ سے حدیث پاک کے اندر جھوٹوں کو ملعون قرار دیاگیا ہے۔
غور کیجئے کہ ایک گناہ کی نحوست اور اسکا ثمرہ و نتیجہ یہ ہے تو اس گناہ کا کیا حال ہوگا جو بیک وقت جھوٹ دھوکہ فریب اور ایذاء مسلم کا مجموعہ ہو اور اس کا ارتکاب کرنے والا کتنا بڑا مردود وملعون ٹھہرے گا، سرکار دوعالم صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا ہے کہ ”وہ شخص ملعون ہے جو کسی مومن کو ستائے اور مکروفریب سے اس کو مصیبت وتکلیف میں مبتلا کرے“۔
امام مالک رحمة اللہ علیہ نے فرمایا کہ چار طرح کے لوگوں سے علم حاصل نہ کرو ان میں سے ایک جھوٹ بولنے والا بھی ہے۔ جھوٹ بولنا منافق کی علامت قرار دیاگیا ہے، اور جھوٹ بولنے والا ہمیشہ ہمیش کے لیے ناقابل اعتماد اور غیر معتبر ہوجاتا ہے پھر اس کی صحیح وسچی بات بھی جھوٹ کے زمرے میں شمار کی جانے لگتی ہے۔ دینی تو دینی دنیوی امور بھی اس کی رائے اور اس کی باتیں بے توجہی کا شکارہوتی ہیں۔اس کے علاوہ اس رسم کی انجام پذیری بعض اوقات جانی ومالی نقصان اور ذہنی الجھن میں بری طرح مبتلا کردیتی ہے اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ”مذاق“ کا ایک جھوٹ کس کس طرح کی اور کتنی برائیوں کو جنم دیتا ہے اور اس رسم کے کسی بھی پہلو سے کسی بھی طرح کا کوئی خیر تلاش نہیں کیا جاسکتا۔
رہی یہ بات کہ اس رسم کی ایجاد اور ابتداء کیسے اور کہاں سے ہوئی؟ اس سلسلے میں موٴرخین کے بیانات مختلف ہیں۔ حضرت مولانا تقی عثمانی صاحب نے لکھاہے کہ بعض مصنّفین کے بیان کے مطابق فرانس میں سترہویں صدی سے پہلے سال کا آغاز جنوری کے بجائے اپریل سے ہوا کرتا تھا اس مہینے کو رومی لوگ اپنی وینس (Venus)کی طرف منسوب کرکے مقدس سمجھا کرتے تھے۔ اس لیے سال کی پہلی تاریخ اور بت پرستانہ تقدس کے ساتھ وابستہ ہونے کی وجہ سے اس دن خوشی و مسرت کا اظہارکیا کرتے تھے اور ہنسی مذاق بھی ان کی مسرت کا ایک حصہ تھا جو آہستہ آہستہ ترقی کرکے اپریل فل کی شکل اختیار کرگیا۔ اس رسم کی ایجاد کے تعلق سے ایک بات یہ بھی بیان کی گئی ہے کہ اس مسرت و خوشی کے دن لوگ ایک دوسرے کو تحفے و تحائف دیا کرتے تھے ایک مرتبہ کسی نے تحفہ کے نام پرمذاق کیا بعد میں دوسروں نے اس کو رسم کی شکل میں رواج دیا۔
ایک وجہ یہ بھی بیان کی جاتی ہے کہ دراصل یہودیوں اور عیسائیوں کے نزدیک یکم اپریل کو رومیوں اور یہودیوں کی طرف سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو استہزاء و مذاق کا مختلف انداز وشکل سے نشانہ بنایا جاتا، اس لیے اپریل فل کی رسم انہیں شرمناک واقع کو یادگار کے طورپر منانے کے لیے اپریل فل کی رسم منائی جاتی ہے۔
غرض اس رسم کی ایجاد چاہے کسی دیوی کی طرف منسوب ہو یا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا استہزاء و مذاق اس کی بنیاد ہو یا پھر توہم پرستی یا کسی گستاخانہ نظریے یا واقعے سے جڑا ہوا ہو، یہ بات یقین کے درجے میں کہی جاسکتی ہے کہ یہ عیسائیوں اور یہودیوں کی ایجاد ہے جسے ہماری مشرقی تہذیب نے مغربیت کی تقلید میں بلاسوچے سمجھے اس کو اپنایا اگرچہ ہمارے مسلم معاشرے میں الحمدللہ اس کا چلن ورواج بہت عام نہیں، لیکن ہر سال دوچار واقعات کے ظہور سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ اقوال رسول صلى الله عليه وسلم کے آئینے میں، محبت رسول صلى الله عليه وسلم کا دم بھرنے والوں کو خود غور کرنے کی ضرورت ہے کہ ”اپریل فل“ کی رسم ایک ”مذاق“ ہے جسے اپنایا جائے یا گناہ و جرم ہے جسے ترک کردیا جائے۔
* * *
——————–
ماہنامہ دارالعلوم ، شماره 04 ، جلد: 93 ربيع الثانى 1430 ھ مطابق اپریل 2009ء