از: (مولانا) حذیفہ وستانوی ، استاذ جامعہ اسلامیہ اشاعت العلوم، اکل کوا
دور نبوی علی صاحبہا الف الف تحیة و سلاماً جو وجہ ارض کا سب سے مسعود ترین دور او رعہد گذرا ہے، اس لیے کہ اسی دور میں خاتم الانبیاء و المرسلین سید ولد آدم محمد عربی صلى الله عليه وسلم زمین پر موجود تھے، اُم الکتب قرآن کریم کا نزول بھی اسی دور میں ہوا، لہٰذا اس دور کو یہ حق بنتا ہے کہ سید الادوار، سید العہود کہا جائے، اس دور کو یہ شرف حاصل ہے کہ اسلام جیسا آسمانی مذہب اور دین اسی دور میں مکمل اور تام ہوا، اور قیامت تک پیش آنے والے تمام مسائل کے حل کے خطوط و نشانات دے کر گیا، ہم اس پر اللہ کی جتنی بھی تعریف کریں کم ہے، اللہ ہمیں اسلام کی قدردانی کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین!
جہاں دورِ حاضر میں بہت سے نئے مسائل پیش آئے اور آرہے ہیں وہیں ایک مسئلہ ”دارالاسلام اور دارالکفر“ کی تعیین کا بھی ہے، اس لیے کے بہت سے احکام کا تعین اس تعین پر موقوف ہے۔ کیوں کہ اب حالات عجیب طرح کے ہوگئے ہیں، حکومتیں ایک طرف ”آزادی“ ”مساوات“ ”جمہوریت“ کے گیت گاتے نہیں تھکتیں اور دوسری جانب ہر طرف مسلمانوں اور اسلام کے ساتھ امتیازی برتاوٴ کیا جارہا ہے، اور اس باب میں غیر تو غیر، مسلمان حکمرانوں کا بھی یہی حال ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان حالات میں ”دار الاسلام اور دار الکفر“ کا تطابق کیسے ہو؟ تو آئیے! ہم اس مضمون میں اس کو جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔
دار کی تعریف:
دار اس ملک کو کہتے ہیں، جو تین چیزوں کو شامل ہو:
(۱) اِقلیم (Country):
یعنی محدود جغرافیائی مقام۔
(۲) سکان (Population):
یعنی اس علاقہ کے آباد لوگ۔
(۳) سلطنت(Kingdom):
وہ قیادت جو اس منطقہ میں قائم ہو، امام ابن العابدین تحریر فرماتے ہیں: المراد بالدار الاقلیم المختص بقہر ملک اسلام وکفر۔ عمار بن عامر، اس کی شرح میں تحریر فرماتے ہیں: یظہر من التعریف انہ شرط فی الدار. الاقلیم والسکان و السلطة. (الہجرة إِلی بلاد غیر المسلمین: ص ۷۹)
دار کی تقسیم:
نفاذ قوانین کے اعتبار سے حکومت کی دو قسمیں ہیں: (۱) دار الاسلام (۲) دار الکفر
پھر دارالاسلام کی بھی دو قسمیں ہیں: (۱) دار الاسلام حقیقی (۲) دار الاسلام حکمی
دار الاسلام حقیقی کی تعریف:
اس ملک کو کہتے ہیں جہاں دستوری طور پر اسلامی قوانین اور اسلامی احکام نافذ ہوں، اور اس ملک کے قائدین وحکام مسلمان ہوں۔ امام ابن القیم الجوزی رحمة الله عليه فرماتے ہیں: دارالاسلام ہی التی نزلہا المسلمون وجرت علیہا احکام الاسلام. (احکام اہل الذمہ:ج۲،ص ۷۲۸) اور امام ابو یوسف رحمة الله عليه فرماتے ہیں: تعبر الدار دارالاسلام بظہور احکام الاسلام فیہا وان کان جل اہلھا من الکفار. (المبسوط:ج۱۰، ص ۱۴۴)
دار الاسلام حکمی:
اس ملک کو کہتے ہیں جہاں مسلمانوں کو، اپنے بعض شعائر پر عمل کی اجازت ہو، مثلاً :نماز، اذان، جمعہ وغیرہ، اگرچہ وہاں عالمی وضعی (خود ساختہ یعنی انسان کے بنائے ہوئے نہ کہ اللہ کے نازل کردہ) قانون نافذ ہو، البتہ وہاں کے قائدین اورحکومتی کارندے مسلمان ہوں۔ اس وقت تمام اسلامی ممالک اسی حکم میں ہیں، کوئی ملک حقیقی دار الاسلام کا مصداق ومجاز نہیں ہے۔ ابن العابدین تحریر فرماتے ہیں: لو اجریت احکام المسلمین فی بلد واحکام اھل الشرک فلاتکون دار حرب ما دامت تحت سلطة ولاتنا. (شامی:ج۴،ص۱۷۵) ان دارالفسق ہی دار الاسلام. ( نیل الاوطار:ج۸، ص ۲۷)
اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے، کہ جب اسلامی قوانین کا نفاذ، ان ممالک میں نہیں ہے، تو پھر ان ممالک کو دار الاسلام کیوں کہا جاتا ہے؟ تو اس کا یہ جواب دیا جاتاہے کہ اس میں حرج لازم آتا ہے، کیوں کہ اگر باوجود کثرت و اغلبیت مسلمین کے، اس کو”دارالکفر“ کہا جائے، تو یہ خرابی لازم آئے گی،کہ دشمن آسانی سے اسلامی ممالک پر قابض ہو جائے گا، کیوں کہ”دارالکفر“ ہونے کی وجہ سے ،مسلمانوں کے لیے اگر کوئی باطل طاقت حملہ آور ہو، تو دفاع لازم نہ ہوگا، اور یوں ایک ایک کرکے، تمام اسلامی ریاستیں دشمنوں کے ہاتھ چلی جائے گی۔ ہاں البتہ اس کو ”دارالاسلام الفاسقہ“ کہا جائے، تو کوئی حرج نہیں،یا صرف ”دارالفسق“ کہا جائے، لواعتبرنا ہذہ الدیار من دارالکفر او الحرب فہذا یعنی ان المسلمین علی کثرتہم سیغدون من غیر اوطان ولا دیار وفی ہذا تمکین لاعداء اللہ منا اضافة الی ا نہ لایجب علی المسلمین الدفاع عنہا فی حال الاعتداء علیہا من الکفار. (فقہ الاقلیات:ص۹۷)
دارالکفر کی بھی دو قسمیں ہیں:
(۱) دارالکفر حقیقی ۔ (۲) دارالکفر حکمی۔
داراالکفر حقیقی:
اس ملک کو کہا جاتا ہے، جہاں پر زمام حکومت غیرمسلموں کے ہاتھ میں ہو، اور وہاں کا دستورِ اساسی بھی انہیں کا ہو، اور مسلمانوں کو شعائر اسلام بجالانے کا قطعاً حق نہ ہو، بل کہ حکومت مسلمانوں کو ہلاک کرنے اورنقصان پہنچانے کے درپے ہو، مثلاً :رشیا جو ۱۹۹۲ء سے پہلے اسلام اور مسلمانوں کا کٹر دشمن رہا ، اور اس وقت اسر ائیل ۔
دارالکفر حقیقةً: وہی التی قصدہا الفقہاء فی تعریفہم لدار الکفر وہی التی تظہر فیہا احکام الکفر و یحکمہا الکفار و انعدمت فیہا مظاہر الدین تمامًا بحیث لم یعد لہا وجود متمیز و لا یوجد فیہا مسلمون یوٴدون واجبا تہم الدینیة. (تقسیم العالم:ص۲۵)
دارالکفر حکمی: اس مملکت کو کہا جاتا ہے، جہاں حکومت تو غیرمسلموں کی ہو، دستور بھی ان کا ہو، مگر مسلمانوں کو اپنے شعائر کے بجا لانے کی اجازت ہو، مثلاً :بعض یوروپی ممالک، بعض ایشیائی ممالک ، بعض افریقی ممالک ، جہاں مذکورہ صورت حال ہو، اس کو دارالاسلام اور دارالعہد بھی کہا جاتا ہے۔ والعلة فی الذہاب الی الحبثة ان ہناک ملکا لا یظلم عندہ احد و کان العدل فی ذاتہ وسامًا لذالک الملک و سماہا المسلمون دار امن و ان لم تکن دار ایمان. (تفسیر الشعراوی: ۴/۲۵۸)
دارکی ایک تقسیم وجود امن اور عدم امن کے اعتبار سے بھی ہے، جس کو یوں بھی کہہ سکتے ہیں، حالت جنگ اور حالت امن کے اعتبار سے بھی دو قسمیں ہیں:
(۱) دارالحرب:
جہاں حکومت مسلمانوں کے ساتھ برسرِپیکار ہو، ان کے مال ان کے املاک ، اور ان کی جان کو ختم کرنے یا نقصان پہنچانے کے درپے ہو، اور وہاں اسلامی دعوت کو ممنوع قرار دیا گیا ہو، اس کوملک کو ”دارالحرب“ کہا جائے گا، اور اس کو ”دارالکفر، دارالشرک، دارالمخالفین“ بھی کہا جاسکتا ہے ۔
(۲) دارالامن والعہد:
جہاں حکومت تو اسلام اور مسلمانوں کی دشمن ہو، مگر وہ مسلمانوں کے ساتھ امن کا معاہدہ کر چکی ہو، تو پھر اسے ”دارالامن یا دارالکفر الآمنہ یا دارالعہد یا دار الکفر المعہودة“ کہا جائیگا۔
بعض حضرات ”دار حیاد“ بھی ایک قسم قرار دیتے ہیں، ”دار حیاد“ اس ملک کو کہتے ہیں، جومسلمانوں کے ساتھ مصالحت کرے، کہ نہ وہ ان سے قتال کریں گے ۔ نہ مسلمانوں کے خلاف کسی کا تعاون کریں گے۔ ابوزہرہ رضی اللہ عنہ اور وہبہ زحیلی نے یہ قسم الگ شمار کی ہے۔ (العلاقات الدولیة فی الاسلام: ص۸۴ ، آثار الحرب :ص۱۹۷)
یہ تھا مختصراً دار کا بیان، اخیر میں ہم اللہ سے دست بدعا ہے کہ ہم مسلمانوں کو کوئی دارالاسلام عطا فرمائے، یا قیام خلافت کی کوئی سبیل اللہ رب العزت ہمارے نکالے۔ آمین یارب العالمین!
یہاں ایک وضاحت کردینا مناسب ہوگا کہ دارالاسلام اور دارالکفر قرآن و حدیث میں صراحتاً مذکور نہیں، لہٰذا ”دار“ کی یہ تقسیم توقیفی نہیں، یعنی منصوص نہیں ہے، بل کہ مجتہد فیہ، لہٰذا اس میں اختلاف کی گنجائش ہے، جیسے فقہاء متقدمین تقسیم ثنائی کے قائل تھے، اور ان میں بھی امام شافعی رحمة الله عليه ثلاثی کے قائل تھے، یعنی ان کے یہاں دار کی تین قسمیں ہیں: (۱) دارالاسلام (۲) دارالکفر، اور (۳)العہد یا دارالہدنة یا دارالصلح، جیسا کہ امام نووی رحمة الله عليه نے روضة الطالبین ج:۵، ص۴۳۲۔ پر ذکر کیا ہے، جیسے جیسے زمانہ کے احوال بدلتے گئے، اس کی تقسیم میں بھی اضافہ یا ردّ وبدل ہوتا گیا، مثلاً :امام ابن تیمیہ نے ایک اور قسم ”دارالفسق“ کو ذکر کیا ہے ، جیسا کہ ان کی کتاب مجموع الفتاوی ج: ۱۸ص: ۲۸۲۔پر اس کا ذکر ملتا ہے، دورِ حاضر میں حالات کے بدلنے سے فقہاء نے ”دارحیاد“ کی اصطلاح وضع کی ،جیسا کہ ابوزہرہ رضي الله تعالى عنه اور علامہ وہبہ زحیلی کے حوالے سے اوپر ذکر کیا گیا۔ غرضیکہ ”دار“ کے منصوص نہ ہونے کی وجہ سے ابھی اس میں اجتہاد و مزید تقسیم کی گنجائش ہے، مگر اس کا یہ مطلب بھی نہیں، کہ ہر کوئی تقسیم کے لیے قلم ٹوڑنا شروع کردے، جو لوگ علومِ شرعیہ، قرآن، حدیث، فقہ، اصول فقہ اور قواعد فقہ وغیرہ پر کڑی اور گہری نظر رکھتے ہوں، وہی یہ فریضہ انجام دے سکتے ہیں۔
اب اختتام پر ایک تنبیہ بھی ضروری ہے، کہ بعض لوگوں نے دارکی اس تقسیم کو سرے سے تسلیم کرنے سے انکار کر دیا ہے، یہ بھی درست نہیں، اُن کا کہنا یہ ہے کہ یہ فقہاء کی اصطلاحات ہیں، اس کی کوئی اصل نہیں، تب تو مسائل کھڑے ہو جائیں گے، اس لیے کہ واجب، فرض، سنت ، مستحب، مکروہ، مباح وغیرہ بھی ہمارے فقہاء کرام ہی کی وضع کردہ اصطلاحات ہیں،اس کا مطلب تم اس کی تردید کروگے؟ فقہاء نے دراصل جو اصطلاحات وضع کیں، وہ ان کے اپنے فائدے کے لیے تو نہ تھیں، وہ امت کو سمجھانے کے لیے اور مسائل میں فرق مراتب کے لیے تھیں، تاکہ امت کو سہولت ہو جائے، کہ کونسا عمل کس حد تک مطلوب و مقصود ہے، لہٰذا ہمارے ان فقہاء کا ہمیں احسان مند ہونا چاہیے، جنہوں نے ہمیں شریعت کی روٹی پکی پکائی کھلا دے۔
اللہ ہمارے ان تمام فقہاء کی قبروں کو نور سے بھر دے، اور ہمیں ان کے خون پیسنے سے تیار کردہ، فقہ کی قدردانی کی توفیق عطا فرمادے۔ آمین یارب العالمین!
________________________
ماہنامہ دارالعلوم ، شماره 10-11 ، جلد : 92 ذيقعده 1429 ھ مطابق اكتوبر – نومبر 2008ء