ہندوتوا – دیتے ہیں دھوکا یہ بازی گر کھلا

                  از:  غلام رسول دیشمکھ، انجمن روڈ، بھساول

ہندوتوا کیاہے۔ کیا یہ کوئی نظریہ ہے یا فلسفہ۔ یہ کوئی نظام زندگی ہے یا دستور العمل؟ بلکہ یہ صرف ایک ”نعرہ“ ہے۔ یہ نعرہ سنگھ پریوار کا عطا کیاہوا ہے۔ جس طرح اُس ملک میں انگریزوں کی پالیسی تھی لڑاؤ اور حکومت کرو Divide and Rule اس طرح سنگھ پریوار کی حکمت عملی یہ ہے کہ نفرت کا ماحول تیار کرو۔ لوگوں کو جذبات میں لاکر اشتعال دلاؤ تاکہ ان سے سیاسی اور سماجی فائدے حاصل کیے جائیں۔ چوں کہ سنگھ پریوار کا سماج محدود اور مختصر ہے اس لیے عوام کو جذبات میں لاکر نفرت کا ماحول پیداکرکے اکثریت سے اپنے مقاصد حاصل کرنا یہ ان کی ہمیشہ حکمت عملی رہی ہے۔ اس طرح مسلمان ان کے لیے نقطہ اتحاد کی حیثیت رکھتے ہیں۔ دراصل ”ہندو“ یہ لفظ فارسی زبان کا ہے۔ ایرانی، عربی، ترکی اور افغانی وغیرہ بیرونی لوگ بھارتیوں کو ”ہندو“ کہتے تھے۔ لغت میں ہندو اس لفظ کا مطلب ہے غلام، انپڑھ، جاہل، چور، لٹیرا وغیرہ۔ حکومت مہاراشٹر نے جو اُردو مراٹھی لغت شائع کی ہے اس میں بھی اس لفظ کا یہی مطلب ہے۔ (صفحہ ۴۷۶)

ہندو یہ لفظ قوم کے ساتھ مذہب سے بھی اس طرح وابستہ ہوگیا ہے جیسے وہ اس نام سے وجود میں آیا ہو۔ حالاں کہ یہاں کے مذہب کا نام سنسکرت یا مقامی کسی زبان میں ہونا چاہئے تھا؟ دراصل لفظ ہندو اس قدر مستعمل ہوگیا ہے کہ اس نے اپنی اصلیت کو بھلادیا ہے۔ اب اس کے استعمال کے بغیرکوئی چارہ کار نہیں ہے۔

      کیا مندرجہ بالا باتیں ان لوگوں کے علم میں ہیں یا نہیں جو ”ہندوتوا“ کا نعرہ لگاتی ہیں؟ یا وہ اس بات کو نظر انداز کرنے میں ہی بہتری محسوس کرتی ہیں تاکہ آسانی سے نفرت کا ماحول پیدا کرکے اور عوام کو مشتعل کرکے اپنے حق میں کرلیا جائے۔

ایک سوال جو جواب طلب ہے کہ یہ لوگ کونسا ہندوتوا چاہتے ہیں؟ جب کہ یہ لفظ بیرونی لوگوں کا عطا کردہ بیرونی زبان میں اپنے اندر ایک مخصوص مفہوم رکھتا ہے۔

* ڈاکٹر امبیڈکر ایک ممتاز مفکر، مصلح، قانون داں ذہین اور علمی شخصیت کے مالک تھے۔ وہ ایک اچھوت اور پس ماندہ پچھڑی ہوئی قوم میں پیدا ہوئے۔ جس کو اعلیٰ ذات کے ہندوؤں نے ہزاروں سال سے ذلت اور جانوروں سے زیادہ کہیں بدتر زندگی گزارنے پر مجبور کررکھا تھا۔ ان افراد کو ذلت اور جہالت سے نکال کر ان کو انسانی اور دستوری حق دلوانا ڈاکٹر امبیڈکر کا عظیم کارنامہ ہے۔

ڈاکٹر صاحب نے اس اچھوت اورپسماندہ طبقہ کو بیدار کرکے منظم کیا، ان کو اپنے حقوق حاصل کرنے، اس کے لیے لڑنے اور آگے بڑھ کر چھین لینے کی تعلیم دی۔ یہ کام موصوف نے فرد واحد کی حیثیت سے انجام دیا ہے جس کی مثال بھارت کی تاریخ میں نہیں ملتی۔

ڈاکٹر امبیڈکر صاحب کی کوششوں اور کاوشوں کا مرکز اور محور اچھوت اور دلت طبقہ تھا ان کے لیے وہ مسیحا اور مصلح بن کر ان کی فلاح و بہبود کے لیے نمایاں اور مثالی کارنامہ انجام دیا۔ اس کام کے لیے موصوف نے ہرطرح کا ایثار کیا اور قربانیاں دیں وہ بہت نڈراور بے باک تھے۔

ڈاکٹر صاحب نے اچھوت اور دلت قوم میں نئی روح پھونکنے کے لیے بدھ مذہب کا سہارا لیا جو موصوف کا طے شدہ پروگرام تھا۔ گاندھی جی سے دوران گفتگو انھوں نے کہا تھا کہ ”ہمارا اختلاف اپنی جگہ مگر جو بھی قدم اٹھانا ہوگا، اس بات کی پوری کوشش کی جائے گی کہ ملک کو کم سے کم نقصان پہنچے، اسی لیے وہ بدھ مذہب اختیار کرکے اس ملک کے مفاد کی حفاظت کررہے ہیں۔“ (ڈاکٹر امبیڈکر حیات اورکارنامے از شاہ غازی الدین ،ص:۳۶۱)

۱۴/اکتوبر ۱۹۵۶/ کو ڈاکٹر صاحب اور ان کے ساتھ لاکھوں افراد نے بدھ مذہب اختیار کیا جو ایک تاریخی حقیقت ہے۔ اس وقت چند اشلوک Stanza پڑھے تھے۔اور بس۔ ان لاکھوں افراد کو جنھوں نے بدھ مذہب اختیار کیا تھا اپنی عملی زندگی میں تبدیلی کی کوئی ضرورت نہ تھی اور نہ محسوس کی گئی۔ اس واقعہ کا ملک میں کوئی رد عمل بھی نہیں ہوا۔ اگر بدھ مذہب کی بجائے صرف چند لوگ اسلام قبول کرتے تو ملک میں ایک تہلکہ مچ جاتا۔

خاکسار نے ہندو دانشوروں اور رہنماؤں سے ڈاکٹر صاحب اور ان کے ساتھ لاکھوں افراد کے بدھ مذہب کے اختیار کرنے پر تبادلہ خیال کیا تو ان سب کی رائے یکساں تھی کہ بدھ مذہب یہ ہندو مذہب کا ایک پنتھ فرقہ School of Thoghts ہے اور صرف بدھ ہی نہیں بلکہ جین مت، سکھ مت، بدھ مت یہ سب ہندو مذہب ہی کی شاخیں (فرقے) ہیں۔ ایک صاحب نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ جس طرح آپ کے یہاں شیعہ، سنی وغیرہ فرقے ہیں۔

یہ لوگ بدھ مذہب کے علاوہ اور کوئی مذہب کو اپناتے تو وہ تمام مراعات سے بے دخل ہوجاتے جو ہندو رہتے ہوئے اچھوتوں اور دلتوں کو ملنے والی تھیں۔

۱۹۵۰/ میں صدر جمہوریہ ڈاکٹر راجندر پرساد نے ایک حکم جاری کرکے یہ تمام مراعات Reservation صرف ہندو دلتوں کے لیے کردیں۔ وجہ یہ بتائی گئی کہ چوں کہ غیرہندو دلتوں کے یہاں چھوا چھوت کا مسئلہ نہیں ہے۔ اس لیے وہ ان رعایات کے حقدار بھی نہیں ہیں۔

اس ملک میں ہندو 85% فی صد کی بات کہی جاتی ہے تو ان میں یہی چاروں مت جو ہندو مذہب کے پنتھ یا School of Thoughts ہیں شامل رہتے ہیں ورنہ اگر ان فرقوں کو (مذاہب) الگ کرلیا جائے تو پھر ہندوؤں کی تعداد بہت کم رہ جائے گی۔

جب ہندو مسلم سوال آتا ہے چاہے وہ فسادات کی شکل میں ہو یا کسی اور شکل میں… تو یہ سب ہندوؤں کی صف میں نظر آتے ہیں۔

ڈاکٹر صاحب نے وقت ضرورت کسی اور مذہب کا نام لیا بھی ہو یا ہندومذہب کی مخالفت کی ہو تو یہ صرف Pressure Politics ہوتا تھا۔ ویسے وہ برہمنوں اور اونچی ذات والوں کے دشمن ضرور رہے ہیں۔ لیکن اپنایا ہے انہیں کے مذہب کو!

ڈاکٹر صاحب دستور ساز کمیٹی کے صدر تھے۔ اس دستور کے مرتب کرتے وقت موصوف نے اچھوتوں اور دلتوں کے لیے تمام مراعات Reservations کو دستوری اور قانونی حیثیت دے دی تھی۔ یہ بھی ان کا بہت بڑا مثالی کارنامہ ہے۔ جو اس قوم کو اوپر اٹھانے میں معاون ثابت ہورہا ہے۔ یہی اسباب ہیں کہ آج یہ سماج اپنے آپ کو سب سے مہذب سمجھنے لگا ہے۔

ملت اسلامیہ کی حیثیت داعی گروہ کی ہے۔ لیکن بھارت میں آنے والے حکمراں چند کو چھوڑ کر عام طور پر حکومت کرنے اور اقتدار کے تحفظ میں مصروف رہے ۔ محمد بن قاسم جیسا مصلح آپسی رنجش میں شہید کردیاگیا جب کہ محمود غزنوی نے اس ملک پر سترہ (۱۷) حملے کیے اور چلا گیا۔ اس کے بار بار کے حملے میں روپیہ اور جانیں بھی ضائع ہوئیں اور عوام کا تاثر یہ بنا کہ یہ لوگ صرف جنگجو اور لٹیرے ہیں۔ دیگر حکمرانوں میں اپنے فرض منصبی کا شعور تھا اور نہ ہی جذبہ۔ اس کے باوجود مسلمانوں کا یہاں کی تاریخ پر گہرا اثر پڑا۔ بت پرستی اور توہم پرستی کے ماحول میں توحید کی روشنی پھیلی۔ بزرگوں، عالموں اور صوفیوں کی کوششوں سے عوام اسلام قبول کرتے چلے گئے۔

ذات پات، چھوت چھات کا رواج کم ہوا۔ بیواؤں کی شادیاں ہونے لگیں اور ستی کی رسم میں بڑی حد تک کمی آگئی۔ شراب اور جوا بھی بند ہوگیا تھا۔ عورتوں کا وراثت میں حصہ بھی شامل کیاگیا۔ برہمنوں کے علاوہ تمام لوگوں کو علم حاصل کرنے کی اجازت تھی۔ آج کی طرح اس وقت عوامی معاشرہ میں انتہا پسندی، نفرت، فسادات کا ماحول نہیں تھا جب کہ حکمراں اقتدار کے لیے آپس میں لڑتے رہتے تھے۔

مندرجہ بالا خوبیوں کے ساتھ ساتھ یہاں نئے آنے والوں اور خاندانی مسلمانوں کو تربیت کا کوئی انتظام نہیں تھا۔ نتیجتاً بہت سے غیر ضروری رسم و رواج کی اصلاح نہ ہوسکی اورہر نیا آنے والا اپنے ساتھ ذات پات، رسم و رواج وغیرہ جو بہت کچھ غلط سلط آگیا تھا اس کی اصلاح کا کوئی انتظام نہیں تھا۔

یہاں تاج محل، لال قلعہ وغیرہ عمارتوں کی تعمیرہوئی لیکن مدارس، کالج اور یونیورسٹیاں قائم کرنے کی کوشش نہیں کی گئی۔ ورنہ یہ قوم غلام نہ ہوتی، انگریزوں نے ملک پر قبضہ ہوتے ہی مشنری اسکول اور مشنری نظام قائم کیا اوریہاں کی مقامی زبانوں میں لٹریچر کی اشاعت کی۔ عوام میں پھیلایا اور تبلیغ کا کام جاری رکھا۔ جب کہ مسلم حکمرانوں کے عہد میں اس طرح کے کام نہیں کیے جاسکے تھے۔

اس وقت تحریک اسلامی ہند نے وطن عزیز کی تمام زبانوں میں اسلامی لٹریچر کو منتقل کیا ہے۔ جس میں قرآن مجید بھی شامل ہے۔ آج اس وقت کے نفرت کے ماحول میں اس کو عام کرنے، عوام تک پہنچ کر روابط بڑھانے کی شدید ضرورت ہے۔ دوسروں کی شکایات کرنے یا ان سے امیدیں وابستہ کرنے کی بجائے اپنے آپ کو بیدار کرکے منظم ہونے، شعوری طور دین کا علم حاصل کرنے، اس پر عمل کرکے مثالی معاشرہ بنانے کی سعی و جہد جاری رہنا چاہئے۔ کوشش یہ ہونی چاہئے کہ دین اسلام بھارت واسیوں کی ضرورت بن جائے۔ داعی گروہ کی حیثیت ہمارے کرنے کا یہی کام ہے۔ اس سے اللہ کی رضا اور فلاح آخرت حاصل ہوگی۔ اللہ سے دُعا ہے کہ وہ ہم سے اس راہ میں بیش از بیش کام کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ان کوششوں کو بارآور کرے، آمین۔

***

__________________

ماہنامہ دارالعلوم ، شماره 10-11 ، جلد : 92 ذيقعده 1429 ھ مطابق اكتوبر – نومبر 2008ء

Related Posts