حرفِ آغاز
حبیب الرحمن اعظمی
ملک کی آزادی میں مسلمانوں اور خاص طورپر علماء کا کیا کردار رہاہے اور انھوں نے ہندوستان کو انگریزوں کی غلامی سے نجات دلانے میں کتنی عظیم قربانیاں دی ہیں، شاید آج کے ہندوستان میں اس قصہٴ پارینہ کا تذکرہ بے معنی ہے، آج کے ماحول میں غالباً یہ یاد دلانا بھی بے سود ہے کہ اٹھارہویں صدی میں علماء ہی کی قیادت میں یہاں کے مسلمانوں نے آزادی کی جدوجہد کا پرچم بلند کیا تھا، مسند ہند شاہ ولی اللہ محدث دہلوی اس تحریک کے سرخیل تھے، جنھوں نے اپنے ضمیر کی آواز پر ”فکُّ کل نظام“ کا انقلاب آفریں نعرہ بلند کیاتھا، پھر جب انگریزوں نے اپنی مسلسل سازشوں کے ذریعہ حکومت دہلی پر اپنا تسلط مضبوط و مستحکم کرلیا تو شاہ ولی اللہ کے فرزند جلیل سراج الہند شاہ عبدالعزیز دہلوی نے اپنے فتویٰ جہاد کے ذریعہ پورے ملک کے مسلمانوں میں حریت و آزادی کے حصول کے لئے جہدوعمل کی ایک ایسی روح پھونک دی جسے سامراجی طاقت اپنی تمام تر فتنہ سامانیوں کے باوجود مضمحل نہیں کرسکی، آزادی ہند کی تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ سامراجی طاقت کے ساتھ مجاہدین کی نبردآزمائی کا یہ سلسلہ نصف صدی تک جاری رہا۔ حتیٰ کہ انگریزوں کے ملک پر مکمل تسلط قائم کرلینے کے بعد بھی ان مجاہدین نے ہمت نہیں ہاری اور کسی نہ کسی حد تک وطن عزیز کی آزادی کے لئے اپنی سرفروشانہ جدوجہد کا سلسلہ جاری رکھا ۱۸۶۳/ کا انبالہ سازش کیس، ۱۸۶۵/ اور ۱۸۷۱/ کا عظیم آباد سازش کیس، ۱۸۷۲/ میں مالدہ اور راج محل کا مقدمہ بغاوت ، حضرت شیخ الہند کی ریشمی رومال تحریک اور جلیانوالہ باغ کا خونیں واقعہ وغیرہ اسی سلسلہ کی کڑیاں ہیں، جن میں نہ جانے کتنے علماء تختہٴ دار پر لٹکادئیے گئے اور کتنوں کو جزیرئہ انڈمان اور جزیرہ مالٹا میں جلاوطنی کی اذیت برداشت کرنی پڑی۔
تازہ خواہ داشتن گر داغہائے سینہ را گاہے گاہے باز خواں ایں قصہٴ پارینہ را
یہ صورت حال کس قدر افسوسناک اور تکلیف دہ ہے کہ جن مسلمانوں نے ملک عزیز کے لئے نہ صرف بے لوث قربانیاں دیں بلکہ دوسروں کے اندر بھی اس کا جذبہ پیدا کردیا، جو وطن عزیز کی آزادی کے لئے خود بھی تڑپے اور دوسروں کو بھی تڑپایا، قید وبند، طوق وسلاسل کی سختیاں خود بھی جھیلیں اور دوسروں کو بھی اس کے برداشت کرنے کا حوصلہ دیا، اور اس وقت تک چین سے نہیں بیٹھے جب تک ملک عزیز سامراج کے پنجہٴ استبداد سے چھٹکارا نہیں پاگیا۔
آج انھیں مسلمانوں کے ساتھ ایسا برتاؤ کیا جارہا ہے کہ گویا یہ مسلمان اس ملک میں کوئی اجنبی قوم ہیں جو کہیں سے آکر یہاں بس گئی ہے، یا زمین سے اچانک نکل آئی ہے اور اپنے قول وعمل سے یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ مسلمان بھارت کی دھرتی پر ایک بوجھ ہیں، جنھیں سیاسی مقاصد کے لئے باقی تو رکھا جائے لیکن تعلیمی، معاشی، سماجی اور سیاسی طور پر انھیں اس طرح بے حال کردیا جائے کہ وہ برسراقتدار طبقہ کے رحم وکرم پر جینے کے لئے مجبور ہوجائیں، اور انھیں مستقل طور پر مرعوب و خوف زدہ بنائے رکھنے کے لئے شکوک وشبہات کے گھیرے میں رکھا جائے تاکہ وہ اپنی شناخت اور پہچان کو باقی اور قائم رکھنے کی کوشش کے بجائے کسی نہ کسی سیاسی پارٹی کا دم چھلا بنے رہنے ہی میں عافیت محسوس کریں، چنانچہ ایک طویل عرصہ تک مسلمانوں کو ان کے ناکردہ گناہ ملک کے بٹوارے کا مجرم ٹھہرایا جاتا رہا، پھر انھیں پاکستان کا ایجنٹ بتاکر ان سے مطالبہ کیاگیا کہ پاکستان یا قبرستان میں سے کسی ایک مقام کو پسند کرلو تمہارے لئے اس کے علاوہ کوئی اور مقام نہیں، انھیں فرقہ وارانہ فسادات کی آگ میں جھونک دیاگیا جس میں وہ برسہابرس تک جلتے رہے، ابھی یہ سلسلہ ختم نہیں ہوا تھا کہ پوری قوم مسلم کو قومی مجرم ٹھہرانے اور انسانی معاشرہ سے الگ تھلگ کردینے کے لئے ان پر دہشت گردی کا الزام تھوپ دیاگیا، اب ہندوستان میں جہاں کہیں بھی دہشت گردی کا کوئی واقعہ پیش آتا ہے، بغیر کسی ثبوت و شہادت کے اس کا الزام مسلمانوں کے سرجڑدیا جاتا ہے۔ یہ دہشت گردی، کسی کی طرف سے کیوں نہ ہو آنکھ بند کرکے اس کا مجرم مسلمانوں کو ٹھہرادیاجاتا ہے۔ چنانچہ یہ دہشت گردانہ حملے چاہے ملک کی پارلیمنٹ پر ہوں یا عدالت اور کچہریوں میں، بنگلور کے انسٹی ٹیوٹ آف سائنس پر ہوں یا اکثردھام مندر پر، اجودھیا کے متنازعہ مندر پر ہو یا اجمیر کی درگاہ پر، بمبئی کی لوکل ٹرینوں میں ہوں یا مالیگاؤں کے قبرستان میں حیدرآباد کی مکہ مسجد میں ہوں یا دہلی کے شاپنک مال انسل پلازہ پر ہر جگہ مجرم مسلمان ہی ہوتے ہیں، اور دہشت گردی کے واقعات کے وقوع پذیر ہونے کے صرف چند گھنٹوں بلکہ بعض اوقات چند منٹوں ہی میں بغیر کسی تفتیش و تحقیق کے مسلمانوں سے جوڑ دئیے جاتے ہیں اور مسلم نوجوانوں کی گرفتاریاں شروع ہوجاتی ہیں، جبکہ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ دہشت گردی میں ملوث کئے گئے بہت سے لوگوں کو عدالت نے قانون و انصاف کی نظر میں بے گناہ پاکر رہا کردیا ہے مثلاً عبدالرحمن گیلانی کو پارلیمنٹ پر حملہ کے الزام سے عدالت عالیہ تک نے بری کردیا ہے۔ گھاٹ کوپر ممبئی بم بلاسٹ کے تمام ملزمین کو جن پر مکوکا کے تحت مقدمہ قائم کیاگیا تھا ممبئی ہائی کورٹ نے بری کردیا، کوئمبٹور بم بلاسٹ میں ملوث کئی ملزمان کو تامل ناڈو ہائی کورٹ نے باعزت بری کردیا، آرایس ایس ہیڈکواٹر پر حملہ کے الزام میں ملوث سیمی کے افراد کو عدالت نے بے قصور پایا، غرضیکہ متعدد مقامات پر عدالتوں نے بہت سے مبینہ دہشت گردوں کو قانون کی رو سے بے قصور پاکر باعزت رہا کردیا لیکن اپنی بے گناہی کی سزا میں جیل کی اذیتوں کو برداشت کرنے اور اپنی زندگی کے کئی اہم سال رائگاں کردینے کے بعدانھیں یہ راحت نصیب ہوئی، اس کے برخلاف بعض مقامات جیسے مہاراشٹر میں ناندیڑ، اورنگ آباد، جالنہ اور تامل ناڈو میں تیناکسی میں آرایس اور دیگر فسطائی تنظیموں کے افراد کو رنگے ہاتھوں دہشت گردانہ کاررائیوں میں گرفتار کیاگیا، ان کے گھروں میں بم بنانے کی فیکٹریاں تک ملیں، مسلمانوں کے لباس، داڑھیاں اور مساجد کے نقشے برآمد ہوئے لیکن ان کا تعلق دہشت گردی سے جوڑنا تو کجا ان کے خلاف ضروری مناسب کارروائی بھی نہیں کی گئی، علاوہ ازیں ملک میں آج کل ہر طرح کی دہشت گردی پائی جارہی ہے ماؤوادی اور نکسلی دہشت گردی کو خود وزیر اعظم ملک کا سب سے بڑا خطرہ قرار دے چکے ہیں لیکن اسے ہندو دہشت گردی نہیں کہا جاتا ہے۔ اسی طرح شمال مشرق کی ریاستوں میں موجود دہشت گرد تنظیموں کا تعلق عیسائیت سے نہیں جوڑا جاتا جبکہ اوپر مذکور مبینہ دہشت گرد واقعات کو اسلامی دہشت گردی کانہ صرف نام دیا جارہا ہے بلکہ مختلف ذرائع ابلاغ سے اس کی مسلسل تشہیر بھی کی جارہی ہے، یہ سب محض اس لئے کیاجارہا ہے تاکہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ملک میں نفرت کا ماحول برپا کرکے اکثریت کی نگاہ میں انھیں اچھوت بناکر رکھ دیا جائے اور اسلام جو اس وقت دنیا کا سب سے زیادہ قبول کیا جانے والا مذہب ہے، اس کے بارے میں عام لوگوں کے دل و دماغ میں وسوسے اور اندیشے پیدا کردئیے جائیں ۔
اور المیہ تو یہ ہے کہ مسلمانوں کے خلاف پہلے یہ گھناونی حرکتیں ملک کی فسطائی تنظیمیں کرتی تھیں اور اب خود حکومت کے اہل کار اس میں ملوث ہوگئے ہیں جس سے صورت حال بہت زیادہ سنگین ہوگئی ہے۔
حالات کی یہ سنگینی تشویشناک ضرور ہے لیکن مایوس کن نہیں ہے آج بھی ملک میں ایک طبقہ ایسا موجود ہے جو مسلمانوں کے خلاف اس کھلی نفرت انگیز مہم کی ہر مصلحت اور اندیشوں سے اوپر اٹھ کر برسرعام مخالفت کررہا ہے اور یورپ و امریکہ سے برآمد کی گئی اس لعنت کو ملک سے باہر نکال پھینکنے کی کوششوں میں مصروف ہے۔ اس لئے سیاسی بازی گروں کی جانب دیکھنے کی بجائے، اس طبقہ کے ساتھ مل کر منصوبہ بند طریقے پر فسطائی طاقتوں اور سیاسی طالع آزماؤں کی جانب سے برپا کی گئی اس دہشت گردی کا ہمت و جرأت کے ساتھ مقابلہ کرنا چاہئے۔ دارالعلوم دیوبند اور اس سے متعلق علماء نے اس مہم کا آغاز کردیا ہے ضرورت ہے کہ اسے آگے بڑھایا جائے۔ انشاء اللہ بادل چھٹیں گے اور اَمن و آشتی کا سورج اپنی پوری ضیاپاشیوں کے ساتھ پھر سے طلوع ہوگا، ”وما ذلک علی اللّٰہ بعزیز“۔
جوانوں یہ صدائیں آرہی ہیں آبشاروں سے
چٹانیں چور ہوجائیں جو ہو عزم سفر پیدا
_____________________________
ماہنامہ دارالعلوم ، شماره : 6 ، جلد : 92 جمادی الثانی 1429ھ مطابق جون 2008ء