عقل کا استعمال ابھی تک سر پہ اپنے بوجھ وہ ڈھویا کہاں ہوں میں

از:جناب عزیز بلگامی 

ہم دیکھتے ہیں کہ گزشتہ چند صدیوں سے دنیائے انسانیت سائنس اور ٹکنالوجی کی بے پناہ ترقیوں کے ثمرات سے خوب استفادہ کررہی ہے۔ ان ترقیوں کے درمیان دنیا نے یہ منظر بھی دیکھا کہ دنیا کی بعض قومیں اُبھررہی ہیں اور بعض دوسری قوموں کی سیادت و قیادت اور عظمت و رفعت کا سورج ڈوب رہا ہے۔ زیادہ وقت نہیں گذرا جب دنیا کے اسٹیج پر کچھ تہذیبیں ابھریں اور کچھ کا زوال شروع ہوا۔ تحقیقی نظر رکھنے والے ایک انصاف پسند اور ایک آزاد انسان کے ذہن میں یہ سوالات ابھرتے رہتے ہیں کہ آخر دنیا کا خالق اور مالک کن وجوہات کی بنا پر کسی قوم کو اٹھاتا ہے اور کسی قوم کو پیوندِ خاک کردیتا ہے! ظاہر ہے کہ اس کا کوئی کام مصلحت سے خالی نہیں ہوسکتا۔ اس دست بستہ راز کی عقدہ کشائی اُس وقت ہوتی ہے، جب کوئی صاحب فکر انسان قرآن حکیم کی اکیسویں سورة الانبیاء کی دسویں آیت پر رک کر سوچنے لگتا ہے:

”انسانو! بیشک ہم نے نازل کی ہے تمہاری طرف ایک ایسی کتاب، جس میں تمہارا تذکرہ موجود ہے، کیا اب بھی تم عقل کا استعمال نہیں کروگے؟“

آیت کا آخری حصہ پڑھ کر ایک صاحب فکر انسان دفعتاً چونک جاتا ہے کہ عقل کے استعمال پر خالق کائنات نے کس قدر زور دیا ہے۔! دنیا کی کسی اور کتاب میں عقل کے استعمال کی ایسی کسی ترغیب کی نظیر نہیں ملتی۔ کبھی کبھی میں خود بھی سوچتا رہ جاتا ہوں کہ آخر کیا بات ہے کہ جس کتاب پر میں ایمان رکھتا ہوں، انسانی عقل کو دعوت دینے والی یہ اور ایسی تمام آیتوں کی تلاوت کرتا ہوں، ان سے اب تک کیسے لاپرواہ رہا۔! کہیں ایسا تو نہیں کہ جس طرح کا برتاؤ میں نے اس کتاب مقدس کے ساتھ اب تک روا رکھا، شاید اُسی کے یہ نتائج ہوں کہ آج تک میں نے عقل کا استعمال کیا، نہ دنیا کو کچھ دینے کے قابل بنا۔ عصر حاضر کے تیز رفتار گھومتے پہیہ میں میری کوئی وقعت نظر نہیں آتی۔! اجتماعی زندگی میں کوئی مجھ سے کسی Policy Making کے سلسلے میں پوچھتا تک نہیں کہ کسی معاملے میں تمہاری تجویز کیا ہے اور تم کس رائے کے حامل ہو۔! کبھی کبھی تو یہ احساس کچوکے لگانے لگتا ہے کہ کہیں مجھے اس زمین کا بوجھ تو تصور نہیں کیا جارہا ہے۔! بڑا کرب ہوتاہے یہ سوچ کر کہ میری حیثیت اس دنیا میں ایک عضوے ناکارہ کی سی ہوکر رہ گئی ہے کہ جسے ساری دنیا مل کر کاٹ دینا چاہتی ہے تاکہ یہ دنیا میرے وجود سے خالی ہوجائے۔

حیرت انگیز مگر خوشگوار سوال ایک اور بھی ابھر کر سامنے آتا ہے اور وہ یہ کہ مجھے مٹائے جانے کے سارے جتن کامیابی سے ہمکنار کیوں نہیں ہورہے ہیں؟ یہ سوال ایسا ہے کہ یہ مجھے غور وفکر یا دوسرے الفاظ میں عقل کے استعمال پر آمادہ کرتا ہے کہ اب تو کم از کم مجھے اپنی عقل کو زحمت دینی ہوگی۔ یوں لگتا ہے جیسے کوئی وجہ ایسی ضرور ہے جس کی بنیاد پر روئے زمین سے ابھی تک ہم نہیں مٹائے جاسکے ہیں اوریہ کہ اب تک ہمارا وجود باقی ہے۔ قدرت کے اصول کبھی تبدیل نہیں ہوتے۔ ولن تجد لسنة اللّٰہ تبدیلا۔

عقل کے استعمال پر غور وفکر کا سلسلہ چلا تو تیرویں سورة الرعد کی ستراویں آیت کا مضمون یاد آیا جسے بطور یاد دہانی یہاں ہم درج کرتے ہیں: ”نازل کیا اللہ نے آسمان کی بلندیوں سے بارش، سو بہہ نکلے ندی نالے اپنی اپنی مقدار میں اور اٹھالایا بہاؤ جھاگ یا کچرا پھولاہوا اور معدنیات سے زیورات اور قیمتی کار آمد اشیاء بنانے کیلئے جب آگ میں تپایا جائے تو اُس میں بھی اسی طرح جھاگ ابھرتا ہے۔ اس طرح بیان کرتا ہے اللہ حق اور باطل کو۔ تو جو جھاگ یا کچرا ہوتا ہے وہ چلاجاتا ہے سوکھ کر اور جو نفع بخش ہوتا ہے انسانوں کے لئے، ٹھہراؤ دیتا ہے، establish کرتا ہے اسے زمین میں، اس طرح بیان کرتا ہے اللہ مثالیں۔“

بڑی آسانی سے سمجھ میں آنے والی یہ بات ہے کہ اللہ دنیا میں ان لوگوں کو ہی دوام اور بقا عطا کرتا ہے جو انسانیت کے لئے نفع بخش ہوں۔ تھوڑی سی ذہنی مشقت کے بعد یہ حقیقت کھل جاتی ہے کہ دنیا کو دینے کے لیے گوکہ میرے پاس بظاہر کچھ نہیں رہ گیا ہے، مگر ایک چیز بہرحال ایسی ہے جو صرف میرے ہی پاس ہے اور دنیا کی قومیں اپنی تمام تر ترقیوں کے علی الرغم اس گرانقدر نعمت سے محروم ہیں اور وہ ہے کتاب اللہ اور وحی الٰہی کی نعمت جو آیاتِ قرآن مجید کی شکل میں آج بھی پوری حفاظت کے ساتھ زندہ و تابندہ، ہماری تحویل میں ہیں۔ شاید ہم صفحہ ہستی سے اسی لیے نہیں مٹ رہے ہیں کہ اتفاقاً ایک امانت ایسی ہے جو ہمارے پاس رہ گئی ہے جسے دنیا کے اُن انسانوں تک ہمیں پہنچانا ہے جو اس سے محروم رہ گئے ہیں۔

پہاڑوں نے جسے ڈھونے سے معذوری جتائی تھی

ابھی تک سرپہ اپنے بوجھ وہ ڈھویا کہاں ہوں میں              (عزیز بلگامی)

لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ جو نعمت ہمارے پاس موجود ہے، اُس کے فہم وادراک کے لیے عقل ہی کی ضرورت تھی، جسے شاید ہم نے استعمال نہیں کیا۔ یہی مجرمانہ کوتاہی تھی جو دنیا کی موجودہ بے راہ روی کی ذمہ دار بن گئی۔ اب تو کم از کم ہمیں عقل کے موجودہ تعطل کو توڑنا چاہیے، تاکہ ہم اُس منطقی نتیجے پر پہنچ سکیں جہاں کتاب اللہ ہمیں پہنچانا چاہتی ہے۔ زیر نظر مضمون اسی مقصد کے لیے لکھا گیا ہے کہ ہم اپنی عقل کے استعمال کی اہمیت کو پہچانیں، کہ فی الواقع ہمیں اپنی عقل کو کیسے، کس کے لیے اور کیوں استعمال کرنا ہے۔ خصوصاً آیات قرآنی کے مطالعے کے دوران عقل کا استعمال ناگزیر ہے۔ مذکورہ آیت شریفہ میں رب تعالیٰ نے انسانوں سے فرمایا کہ ہم نے ایسی کتاب نازل کی، جس میں تمہارا تذکرہ موجود ہے۔ پھر انسانوں کو دعوت دی کہ وہ اپنی عقل اور ذہانت کا استعمال کریں۔

یہ کہنا کہ اس کتابِ برحق میں تمہارا تذکرہ موجود ہے، دراصل اشارہ ہے اس حقیقت کی طرف کہ جس دور میں بھی کتاب نازل کی گئی اُس کا موضوع صرف ”انسان“ اور ”اس کی ہدایت“ رہا ہے۔ رب تعالیٰ کی مخاطبت بھی ایک انسان ہی سے رہی ہے اور اسی کے ذکر سے مالکِ کائنات نے اپنی اس کتاب کو معمور فرمایا۔ رب کائنات کا انسانوں سے یہ کہنا کہ میری کتاب میں تمہارا تذکرہ موجود ہے، ایک ایسا بیان ہے کہ انسانوں کو چونک جانا چاہئے۔ اس لئے کہ اپنے تذکرے کی طرف متوجہ ہونا انسانی فطرت کا خاصہ ہے۔ فرض کیجیے کہ کوئی دوڑتے ہوئے آئے اور ہمیں یہ اطلاع دے کہ آج کے اخبار میں آپ کے بارے میں کوئی خبر شائع ہوئی ہے یا پھر خود اخبار کا مدیر یہ اطلاع دے کہ ہمارے اخبار میں آپ کا تذکرہ موجود ہے تو ہم تصور کی آنکھ سے اپنی اُس کیفیت کو دیکھ سکتے ہیں جو اس خبر کے ردّ عمل میں ہم پر طاری ہوسکتی ہے۔ ہم بے چین ہو اُٹھیں گے کہ دیکھیں، آخر ہمارے بارے میں کیا لکھا گیا ہے! اب یہی بات کتابِ ہدایت میں ہو تو نہ جانے کیوں اسی نوعیت کی بے چینی ہم میں پیدا نہیں ہوتی کہ معلوم کریں کہ ہمارے خالق نے اپنی کتاب میں ہمارا کیا تذکرہ فرمایا ہے۔

اگر ایسی بے چینی کسی انسان میں پیدا ہوتی تو وہ دیکھتا کہ اُس کی اپنی زندگی کی حقیقت کیا ہے، کس مقصد حیات کو اُسے اپنانا ہے اور اُس کے اپنے انجام کے بارے میں کیا خبر ہے جو پیشگی طور پر اُسے دی جارہی ہے۔ پھر اس کے معاً بعد یہ سوال کہ جب تمہارا ذکر اس میں موجود ہے تو پھر تم عقل کا استعمال کیوں نہیں کرتے؟ اگر نعمتِ عقل کا تم استعمال کرتے تو تم دیکھتے کہ قرآن شریف کی نورانی روشنی تمہاری شخصیت کے ایک ایک پہلو کو منور کرتی جارہی ہے۔ تم پر یہ عقدہ کھلتا کہ تم اس زمین کے مستقل باشندے نہیں ہو، بلکہ تم کہیں سے آئے ہو اور ایک دن اس مقامِ عارضی سے، جسے تم کرہٴ ارض کہتے ہو، چھوڑ کر نقل مکانی کرنی ہے۔ تمہارا یہ کوچ یکے بعد دیگرے اور فرداً فرداً ہوگا۔ گویا تم میں سے ہر انسان اپنی پیدائش کے ساتھ اپنی واپسی کا ٹکٹ Return Ticket اپنے ساتھ لایا ہے، جس میں اس کی واپسی کی تاریخ، روانگی کا وقت اور مقام درج ہے۔ قطع نظر اس سے کہ وہ نہیں جانتا کہ کب، کہاں اور کس وقت وہ یہاں سے کوچ کرے گا، گویا اُس کے اندراجات پر ایک پٹی چپکی ہوئی ہے، جسے وقت آنے پر اسکریچ کردیا جائے گا۔ اس حقیقت کو کتاب اللہ کی دسویں سورة کی چھپنویں آیت میں رب تعالیٰ نے بیان فرمایا ہے: ”وہی رب ہے جو زندگی دیتا ہے اور وہی موت بھی دیتا ہے اور اُسی کی طرف تمہیں لوٹ کر جانا ہے۔“

اس آیت میں بھی انسان ہی موضوعِ تذکرہ ہے۔ زمین پر ہر انسان کو یہ آزادیٴ اختیار حاصل ہے کہ اُس کا من چاہے تو وہ قدرت کے قانون کی پابندی کرے اور نہ چاہے تو من چاہی زندگی گذارے، لیکن اُس پر یہ حقیقت واضح رہنی چاہیے کہ بہرحال ایک مقررہ مدت کے بعد اسے لازماً اپنے مالک کی بارگاہ میں جواب دہی کرنی ہے۔ وفاشعاری اُس سے یہ مطالبہ کرتی ہے کہ اس آزادیٴ اختیار کا بے جا استعمال نہ ہو۔ قانون اور قاعدے کے تحت زندگی گزرنی چاہیے۔ اس لیے کہ تسلیم و رضا کا تقاضہ یہی ہے کہ جس نے زندگی دی، اُسی کے قانون کا اتباع انسان کا فریضہ بن جائے اور اسی کا یہ استحقاق بھی ہو کہ موت کی راہ سے وہ اپنی مخلوق کو جس لمحہ واپس طلب کرنا چاہے، کرے۔

عقل سے جب بھی پوچھا جائے گا کہ کس کا قانون زمین پر جاری وساری ہوتو یہی جواب ملے گا کہ جس نے اس دنیا کو پیدا کیا، بس اُسی ہستی کا قانون چلنا چاہیے۔ عقل خود یہ دلیل فراہم کرے گی کہ چونکہ کائنات کی ساری قوتیں اُسی کے نظام اور اُسی کے احکام کی بجا آواری میں مصروف ہیں جو ساری کائنات کے جملہ اسباب و متاع کا مالک ہے۔ جس کے قبضہ قدرت میں سارے انسانوں کی جان ہے۔ جو مالک ہے حیات کا بھی اور موت کا بھی۔ پھر یہی عقل اس ضرورت کا احساس دلائے گی کہ خالق کے قانون کو دیکھا جائے، اسے پڑھا جائے اور سمجھا جائے، اس پر غور و فکر کیا جائے اور اس پر عمل کی راہیں تلاش کی جائیں۔ رہی بات عملی مظاہرہ کے لیے کسی نمونہ کی تو آخری رسول صلى الله علیہ وسلم کا اسوہٴ حسنہ اور مثالی کردار ہمارے سامنے ہے۔ تینتیسویں سورة کی اکیسویں آیت میں رب تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ”بیشک تمہارے لئے زندگی کے ہر پہلو میں اللہ کے رسول صلى الله علیہ وسلم میں ایک مثالی کردار اور اسوہٴ حسنہ موجود ہے۔“ نیز اڑسٹھویں سورة کی چوتھی آیت میں آپ صلى الله علیہ وسلم کے تعلق سے ارشاد فرمایاگیا: ”بلاشبہ آپ صلى الله علیہ وسلم اخلاق کے عظیم معیار پر (متمکن) ہیں۔“

آنحضرت صلى الله علیہ وسلم کے اسوہٴ حسنہ، اُن کا کردار وگفتار، ان کی نشست و برخاست، ان کی خاموشی وگفتگو، اُن کی ذات وصفات، اُن کی معاشی وکاروباری زندگی، اُن کی ذاتی و اجتماعی زندگی، غرض کہ اُن کی شخصیت کے ہر پہلو کا معروضی مطالعہ Objective Study کی جائے تو یہ معلوم کرنے میں دیر نہیں لگے گی کہ اخلاق وعمل، کردار و گفتار کے کسی بھی معیار پر آپ صلى الله علیہ وسلم کی ذاتِ اقدس ایک مینارہٴ نور کی طرح ہے۔ ایک ایسی بلند قامت شخصیت کے جسے چشم فلک نے کرہٴ ارض پر کبھی نہیں دیکھا۔ بیک وقت آپ صلى الله علیہ وسلم کی ذاتِ اقدس ایک بہترین مقرر، ایک عظیم فلسفی و قانون ساز، ایک بلند حوصلہ فوجی کمانڈر، ایک بہترین منتظم، ایک مشفق والد، ایک مثالی شوہر، ایک عظیم عوامی رہنما، ایک عظیم سیاسی منتظم وغیرہ کا مجموعہ نظر آتی ہے۔ دل و دماغ کو فتح کرنے والی ایک ایسی شخصیت جو عقل کے دروازوں کو مسلسل وا کرتی چلی جاتی ہے۔ خیالاتِ خام اور فرسودگیوں کی قاطع بن کر اُبھرتی دکھائی دیتی ہے، انسانیت کو توہمات پر مبنی نظریات سے نجات دلاتی نظر آتی ہے۔ جس نے تصویروں اور بتوں کے آگے سر جھکانے کی رسم کو بیخ وبن سے اُکھاڑدے اُس کا لازمی تقاضہ یہی تھا کہ وہ بالآخر دنیا کی اکثریت کے دل و دماغ پر حکومت کرے۔ ایک سدا بہار ایمانی سلطنت کے بانی کی طرح۔ انسانوں کی معلوم تاریخ ایسی مثال پیش کرنے سے قاصر نظر آتی ہے۔

کردار کی ان ساری جہتوں میں ایک قدر مشترک یہ نظر آتی ہے کہ یہ ایک پیکرِ رحمت کا کردار ہے، جس کی رحمت انسانوں پر چھائی ہوئی ہے۔ اس مرحلے پر ہمیں جائزہ لے کر دیکھنا چاہیے کہ اپنے نبی صلى الله علیہ وسلم کی طرح، جن کی اتباع کا ہم دعویٰ کرتے نہیں تھکتے، کیا ہم بھی ساری انسانیت کے لئے رحمت بنے ہوئے ہیں؟ یا دنیا ہمارے وجود کو ایک زحمت سمجھنے لگی ہے؟ اکیسویں سورة کی ایک سو ساتویں آیت میں رب تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ: ”ہم نے آپ کو سارے جہانوں کے لیے رحمت بناکر بھیجا ہے۔“ اسی طرح اخلاق کے اعلیٰ معیار کو قائم کرنے والے رول ماڈل کی پیروی اور اسوہٴ حسنہ کی اتباع کرنے کے لئے۔ اللہ تعالیٰ نے تیسری سورة کی ایک سو بتیسویں آیت میں یہ حکم ارشاد فرمایا کہ: ”اور اطاعت کرو اللہ کی اور اس کے رسول صلى الله علیہ وسلم کی، تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔“ یہ ہماری خوش بختی ہے کہ ہمارے پاس رب العالمین کی کتاب اور رسول اکرم صلى الله علیہ وسلم کے اسوہٴ حسنہ کی شکل میں منبع ہائے ہدایت موجود ہیں۔ ایک طرف زندگی گزارنے کا ایک پورا پیکیج ہے تو دوسری طرف اس کا Practical Application بھی موجود ہے۔ اگر ہم اپنی زندگی کے ہر پہلو پر ہدایت کے اس پیکیج کو منطبق کریں گے توبلاشبہ ہماری عقل و شعور کے لیے ہر زمانے میں فکر ونظر کے نئے نئے اسباق ملتے چلے جائیں گے۔

آج ساری دنیا انگشت بدنداں ہے کہ حدود اربع کے اعتبار سے ایک وسیع و عریض ملک یعنی ارض العرب، جہاں کی شرح خواندگی تقریباً نہیں کے برابر تھی، کیوں کر محض تیئس سال کے عرصے میں سوفیصد ہوجاتی ہے! غور کیا جائے تویہ نبوی طریقہٴ کار ہمارے سامنے آتا ہے کہ پہلے تو آپ صلى الله علیہ وسلم نے ہر انسان کو مساوی درجہ عطا فرمایا، پھر کسب علم کو نہ صرف عوامی حیثیت بخشی بلکہ ساتھ ساتھ اسے ایک دینی فریضہ بھی بنایا پھر اس پر مستزاد یہ کہ ہر انسان کو آپ صلى الله علیہ وسلم نے عقل کے استعمال کی دعوت دی۔ یہی سبب تھا کہ انسانیت کے جوہر چمک اٹھے اس لیے کہ آپ صلى الله علیہ وسلم کی نظر میں یہ کام اس قدر اہم تھا کہ آپ صلى الله علیہ وسلم نے اُسے اپنی ترجیحات میں سب سے اوپر رکھا۔

ہم دیکھتے ہیں کہ ہر انسان اپنی ذات میں اللہ کا ایک منفرد شاہکار ہے۔ اتنا منفرد کہ اس سانچے میں ابھی تک کوئی مخلوقِ خداوندی ڈھلی ہی نہیں اور نہ قیامت تک کسی کے ڈھلنے کا امکان ہے۔ پھر انسانوں میں بھی ان کے چہروں کی بناوٹ الگ، رنگ و روپ الگ، زبان اور اُن کی نسل الگ، اخلاق و آداب Etiquettes اور قدوکاٹھ اور استطاعت وصلاحیت الگ ، حتیٰ کہ انگلیوں کے نشان کے اعتبار سے بھی انسان ایک دوسرے سے الگ خلق کیے گئے ہیں۔ رب کی صناعی کی داد دیجیے کہ جسے جس سانچے میں چاہا ڈھال دیا، مگر کسی دوسرے کی تخلیق کے لیے اُسی سانچے یا پیمانے کی اُسے ضرورت ہی نہ رہی۔ بالکل اسی طرح ہر انسان کے لیے رب تعالیٰ نے مخصوص جوہر بھی متعین فرمائے۔ تاکہ اس کی شخصیت کو نکھرنے اور اس کے کردار کو سنورنے کا موقع ملے۔ اسے مساویانہ عزت و عظمت سے نوازا جائے۔ اس کی عزت نفس اور اس کے احساسِ حریت کو وہ رتبہ دیا جائے جس کا وہ حقدار ہے اور اس کی ذہنی صلاحیتوں کو اس کے اپنے تجربات کی روشنی میں پھلنے پھولنے کا موقع میسر آئے۔

رسول کریم صلى الله علیہ وسلم کے اسورہٴ حسنہ میں ہم یہ بھی پائیں گے کہ آپ صلى الله علیہ وسلم نے اپنے ہر رفیق کو اپنی ذات اقدس سے فیض اٹھانے کے بھرپور مواقع عنایت فرمائے، بلکہ بحران کے حالات میں بھی آپ صلى الله علیہ وسلم نے اس طرزِ عمل کو ترک نہیں کیا۔ مثلاً، جنگِ احزاب کے موقع پر جب حضرت سلمان فارسی رضی الله تعالى عنه نے اپنے تجربہ اور اپنی سوچ کی بنیاد پر جب کوئی مشورہ دینا چاہا تو آپ صلى الله علیہ وسلم نے اُسے بحران کے حالات کے درمیان قبول فرماکر فارس کے ایک غیر مقامی نیک نفس کو وہ شرف بخشا اور وہ عزت افزائی فرمائی کہ تاریخ مساویانہ سلوک کے ایسے گرانقدر واقعات سے اکثر خالی ہی نظر آتی ہے۔ اسی طرح حضرت بلال رضی اللہ عنہ جیسے ہزاروں صحابہ کرام رضوان الله تعالى علیہم اجمعین کو، اُس وقت کے معاشرے میں عزت وعظمت کا کوئی موقع میسر آنا، تاریخ کا ایک نادرِ روزگار واقعہ ہے۔ کیونکہ اُس وقت کے جاہلیت زدہ معاشرے میں ایسے انقلابِ فکر و نظر کا کوئی امکان تک موجود نہیں تھا۔ تاہم حضرتِ بلال رضی الله تعالى عنه کو عظمت و جلالت کا وہ مقام میسر آتا ہے کہ وہ قیامت تک شرفِ صحابیت کے ایک مسلّم مقام پر فائز ہونے کے ساتھ ساتھ اہل ایمان کے نورِ نظر بن جاتے ہیں۔

لفظ عقل جسے ہم عقل عام Common Sense یا انسانی ذہانت بھی کہہ سکتے ہیں، خود قرآن شریف کا لفظ ہے۔ یہ لفظ جو کتاب اللہ میں تقریباً اُنتالیس مرتبہ استعمال ہوا ہے اور رب العالمین نے تواتر کے ساتھ تمام انسانیت کو اپنی کتاب میں عقل کے استعمال کی دعوت بھی دی ہے۔ سچی بات تو یہ ہے کہ رب تعالیٰ کو اپنے وہ بندے مطلق پسند نہیں جو عقل کے استعمال سے گریز کرتے ہیں۔ اسی لئے رب تعالیٰ نے پچیسویں سورة کی چوالیسویں آیت میں نہایت سختی کے ساتھ فرمایا: ”کیا تم سمجھتے ہو کہ ان کی اکثریت، سماعت کا یا عقل کا استعمال کرتی ہے؟ نہیں، بلکہ یہ تو محض جانور ہیں، یا ان سے بھی زیادہ بدتر۔“

کلام اللہ میں بار بار جو الفاظ آتے ہیں لعلکم تعقلون، افلا تعقلون، لقوم یعقلون، فہم لا یعقلون، اکثرہم لا یعقلون، ان الفاظ پر مشتمل آیتیں انسانی عقل کو بھی اور انسانی ذہانت Intellect کو بھی دعوت دیتی ہیں، تاکہ ہم میں سوچ کا عمل جاری و ساری ہوجائے۔ کامن سنس کے استعمال کی ہماری عادت بنے۔ اس طرح ہم انسانی عقل کی قدر و قیمت کے ساتھ اس کے استعمال کا سلیقہ بھی سیکھ لیں۔ انسانی سوچ کا یہ عمل دراصل اس کی ساری ترقیات کا ضامن ہے۔ دنیوی ترقی کا دارومدار بھی اسی پر ہے اور اپنی ہمیشہ کی زندگی کی ترقی کے رازہائے دست بستہ بھی اسی فکر و عمل کے ذریعے کھلنے شروع ہوں گے۔ شرط یہ ہے کہ عقل کو کتاب اللہ اوراسوة الرسول صلى الله علیہ وسلم کی روشنی میں استعمال کیا جائے، چاہے معاملاتِ دنیا ہوں کہ معاملاتِ دینی۔

کتاب اللہ میں ہے کہ بار بار کی یاددہانی کے بعد بھی جو انسانی ذہن، سوچنے، سمجھنے اور تجربہ و تجزیہ کرنے اور اپنی ذہانت اور عقل عام کو استعمال کرنے سے گریز کرتے ہیں تو ان کے حق میں رب تعالیٰ کی بڑی سخت وعیدیں ہمیں قرآن مجید میں ملتی ہیں مثلاً آٹھویں سورة کی بائیسویں آیت میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: ”بیشک اللہ کے نزدیک بدترین مخلوق وہ لوگ ہیں، جو گونگے ہیں، بہرے ہیں، جو عقل کا استعمال نہیں کرتے۔“ ایسے ہی سخت الفاظ مگر دوسرے انداز میں سورہٴ یونس کی سونمبر کی آیت کے آخر میں فرمائے کہ: ”اور اللہ گندگی میں پڑے رہنے دیتا ہے ان لوگوں کو جو عقل کا استعمال نہیں کرتے۔“

دیگرمخلوقات سے انسانوں کا امتیاز محض عقل کے استعمال کی بدولت ہے، اوراس وجہ سے ہے کہ انسان کو اس کے خالق نے ذہانت کا مالک بنایا ہے۔ کتاب اللہ میں بکثرت مقامات پر اس پر بڑا زوردیا گیا ہے۔ ظاہر ہے انسان کے اوصاف یا اس کی کمیوں، اس کی نفسیات و کوائف سے اس کے پیدا کرنے والے سے زیادہ بہتر طور پر کون واقف ہوسکتا ہے! وہ نہ صرف انسان کی کمزوریوں کو جانتا ہے؛ بلکہ اس کے بہکنے اوراپنی راہ کھوٹی کرنے کے اسباب و علل اور Situation اور مواقع سے بھی وہ خوب واقف ہے۔ انسان کی ہوس ولالچ، تمنا وطمع، حرص و آرزو کو بھی اس کا رب خوب جانتا ہے۔ انسان کے من موجی چنچل دل کو بھی وہ خوب جانتا ہے۔ وہ یہ بھی جانتا ہے کہ وہ پیش بندیاں کیا ہیں جن سے طمع و حرص کے دروازے بند کیے جاسکتے ہیں اوراس کی شخصیت میں نکھار اوراس کے کردار میں مضبوطی آسکتی ہے۔ اس کی حیات میں سدھار اوراس کی زندگی سے آشنا ہوسکتی ہے۔ یہ اور ایسی ساری چیزوں کا احاطہ ہمارے مالک نے اپنی کتاب میں بڑے احسن طریقے سے کررکھا ہے۔

رب تعالیٰ نے الکتاب سے استفادہ کے لئے جن دو شرطوں کو مقدم کیا ہے، اُن میں سے ایک تو یہ ہے کہ انسان اپنے رب کی سب سے بڑی نعمت یعنی اُسے بخشی گئی عقل یا ذہانت یا عقل عام کو استعمال میں لائے اور دوسرے یہ کہ رسول اکرم صلى الله علیہ وسلم کے پیش کردہ نظام اور اُن کے اخلاق و کردار کی پیروی اور ان کے اُسوہٴ حسنہ کی اتباع کرے۔ کتابِ ہدایت کا کمال یہ ہے کہ ایک ایک انسان کی فرداً فرداً تربیت کرتی ہے، تاکہ ایسے افراد پر مشتمل ایک ایسا گروہ تیار ہوجائے جو اپنی ذمہ داری کے احساس سے مزین ہو، اپنے فرائض سے اُسے واقفیت ہوجائے۔ اس میں دوسروں کے حقوق ادا کرنے کا سلیقہ آئے۔ اس لئے کہ کلام اللہ میں انسان کو بتادیا گیا ہے کہ کیا کیا کرنا ہے اور کیا کیا نہیں کرنا ہے۔ تسلسل کے ساتھ ذاتی تلاوت میں، نمازوں میں، خطبات میں، تراویح میں، عیدین میں، غرض کہ ہر لحظہ اور ہر مقام پر اس کے کانوں سے یہ یاد دہانی گذرتی ہی رہے۔ تاکہ ہر فرد اپنی ذات کی حد تک اپنی گمراہیوں کودفع بھی کرتا رہے اور اپنے سدھار کے سامان بھی وہ خود ہی کرتا رہے۔ اس لئے کہ انسان اپنا محتسب آپ ہے۔ وہ خود کو اچھی طرح پہچانتا ہے۔ سورہ القیامہ میں چودہ اور پندرہ نمبر کی آیت میں فرمایاگیا: ”انسان کو اپنے آپ پر پوری بصیرت حاصل ہے۔ یہ بات دیگر ہے کہ وہ عذر، تاویلات اور بہانے پیش کرتا رہتا ہے۔“

کوئی بیرونی قوت یا قانون کا کوئی شکنجہ انسان کو سدھارنے میں کبھی مکمل طور پر کامیاب نہیں ہوا۔ ایک ہی طریقہ ایسا ہے جس کے سبب اس میں کامیابی کا فیصد بڑھ سکتا ہے اور وہ ہے، انسان کا خود اپنی جانب سے اپنی ذات کا احتساب! اگر وہ خود چاہے تو اس کی اصلاح ممکن ہے۔ یہی ہے جسے کتاب اللہ میں ”تقویٰ“ کا نام دیاگیا ہے۔ اس کا عملی نمونہ بھی کتاب اللہ نے پیش کیا ہے۔ روزہ جیسی عبادت کو فرض کرتے ہوئے سورة البقرة میں فرمایا: ”روزے کے عمل سے تم میں تقویٰ کا سلیقہ آئے گا۔“ روزہ ایک ایسی عبادت ہے جو انسان خود ہی اپنے نفس اور اپنی خواہشات پر خود ہی پابندی لگاکر ہی پورا کرسکتا ہے۔ ایک انسان کو روزہ پورا کروانے پر دنیا کی کوئی طاقت، کوئی قانون اور کوئی پولیس قادر نہیں ہوسکتی۔

تقویٰ، احتساب اور اپنی ذات کے تجزیہ کا عمل، ایک عمل مسلسل ہے۔ احتساب کے مراحل کا آغاز اگر زندگی میں جاری نہیں ہوا ہے تو انہیں جاری کرنا ہوگا۔ از خود اپنی ذات پر پیش بندیاں و پابندیاں لگانی ہوں گی۔ اس طرح بصیرت اور عقل جیسی قدرتی نعمتوں کے استعمال کی ترغیب و تاکید کتاب اللہ میں ہمیں بار بار ملتی ہے اور ان کے صحیح استعمال کے سلسلے میں کی جانے والی لاپرواہی پر رب تعالیٰ کی ناراضی بھی ہمارے سامنے ہے۔ اپنی شخصیت کے نکھار کے لئے، اپنی ذات کی تعمیر کے لئے ایک نسخہ، ذہانت کی شکل میں سارے انسانوں کو دیاگیا ہے۔ ہر شخص اپنی عقل کی صلاحیت کا، عقل عام کا اور ذہانت کا بھرپور استعمال کرے۔ عقل کے استعمال کے ساتھ اللہ کی کتاب اور نبی کریم صلى الله علیہ وسلم کا اسوہٴ حسنہ اور کردار سامنے ہوتو نہ صرف ہماری یہ دنیا کردار کے حسن وجمال سے آراستہ ہوجائے گی بلکہ دنیا کے ساتھ ساتھ، ہماری آخرت بھی سنورجائے گی۔

_______________________

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ 5‏، جلد: 92 ‏، جمادی الاولی 1429 ہجری مطابق مئی 2008ء

Related Posts