از: ڈاکٹر اجمل فاروقی، ۱۵- گاندھی روڈ، دہرہ دون
”انڈیا چمک رہا ہے“ ہماری 9.2% G. D. P. کے حساب سے ترقی کررہی ہے۔ ہماری بچت 28% ہوگئی ہے، ۱۵- ارب ڈالر کا بیرونی سرمایہ ہمارے یہاں ایک سال میں لگایا گیا ہے۔ لوگ ہوٹلوں میں کھانا کھارہے ہیں۔ ہوائی جہازوں میں سفر کرنے والوں کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ کاروں، A. C. کی بکری بڑھ رہی ہے۔ اندرونِ ملک و بیرون ملک ہندوستانی سیاحوں کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ شاپنگ ہال کھل رہے ہیں۔ اگلے ۴۵ سالوں میں امید ہے کہ ہماری اقتصادیات امریکی اقتصادیات کے برابر ہوجائے گی۔
اوریہ بھی ہمارے یہاں ہی ہورہا ہے
۱- نٹھاری میں جو شرمناک اور بربریت انگیز حرکت سامنے آئی ہے وہ نوئیڈا کے لئے نئی نہیں ہے۔ ۳۰/جولائی ۲۰۰۶/ کو ایک ٹی․ وی چینل نے اسی نوئیڈا کے سرکاری اسپتال کے ڈاکٹر اجے اگروال، کروکشیتر کے ڈاکٹر سریش بھولا اور بریلی کے ڈاکٹر اروند اگروال کے خلاف اسٹنگ آپریشن کیا۔ خبر کے مطابق یہ لوگ کروکشیتر کے ایک پراپیویٹ اسپتال میں بچوں کے ہاتھ پاؤں کاٹ کر انہیں بھیک مانگنے کے لائق بناتے تھے۔ ڈاکٹر اگروال پیسہ لے کر بھکاری بنانے کا کام کافی عرصہ سے کررہے تھے۔ (امراجالا ۳۰/۷/۲۰۰۶/)
۲- پنجاب کے پٹیالہ ضلع کے پٹران قصبہ کے صاحب نرسنگ ہوم کے پیچھے ایک کنویں سے اسقاط شدہ جنین کی بڑی تعداد میں دستیابی ہوئی ہے۔ پچھلے تین ماہ میں ۳۵-۳۰ ضائع شدہ جنین وہاں پولیس کو مل چکے ہیں۔نرسنگ ہوم کے مالک ڈاکٹر پریتم سنگھ اور اس کی بیوی ”امرجیت کور“ کو گرفتار کرلیاگیا ہے۔ آگے تفتیش جاری ہے۔ (11/8/06 Toi)
۳- ملک میں فروخت ہونے والی 20% دوائیں نقلی ہوتی ہیں۔ نقلی دواؤں کاکاروبار چار ہزار کروڑ تک پہنچ گیا ہے اس کے کاروبار میں ایک سال میں ایک ہزار کروڑ کی ترقی ہوئی ہے۔ یہ اطلاع انڈین چیمبرس آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے تازہ جائزہ میں بتائی گئی ہے۔ جائزہ میں بتایاگیا ہے کہ 60% نقلی دوائیں ایسی ہوتی ہیں جن میں دواء بالکل ہی نہیں ہوتی 19% غلط اجزاء سے بنتی ہیں اور 16%میں ٹیلکم پاؤڈر جیسے نقصان دہ مواد شامل ہوتے ہیں۔ جبکہ اس جرم پر نگاہ رکھنے کے لئے گاؤں سے لیکر دہلی تک لاکھوں لوگوں کا سرکاری کوالیفائڈ انسپکٹروں اور ڈاکٹروں کا عملہ متعین ہے۔ (ہندوستان ایکسپریس ۱۱/۱/۲۰۰۷/)
۴- سنامی کی ہلاکت خیزیوں نے بھی انسانی ضمیر کو جگانے میں کامیابی حاصل نہیں کی چنئی کے شمال میں ارناوور گاؤں میں وہاں کے ماہی گیروں نے پیٹ پالنے کیلئے اپنے جسم کے قیمتی اعضا ء کی فروخت کا سہارا لیا کیونکہ ان کی آبادیوں کو سمندر نے نگل لیا تھا اور ان کے پاس ماہی گیری کیلئے کچھ بچا نہیں تھا۔ چنئی پولیس کے سربراہ نے بتایا کہ اب تک ۱۰۰ کے لگ بھگ معاملات سامنے آئے ہیں جن میں زیادہ تر خواتین ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ انھوں نے ڈاکٹروں کے ساتھ مل کر یہ کام کیا۔ زیادہ تر نے اپنے گردے Rs 40000 – Rs 60000 میں فروخت کئے جبکہ ان سے وعدہ ایک لاکھ سے زیادہ کا کیاگیا تھا۔ (ٹائمس آف انڈیا ۱۷/۱/۲۰۰۷/)
مذکورہ بالا دونوں رخ ہماری تصویر کے ہی ہیں۔ ایسا کیوں ہورہا ہے؟ کیا اس چمک اور کالکھ میں کوئی رشتہ ہے؟ ایک ہی سماج کی بیک وقت دو متضاد تصویریں بھیانک، انسانیت کش، انسانیت سوز تصویریں کیوں ابھررہی ہیں۔ ایک ہی سماج میں ایک ہی طرح کے لوگ بڑے لوگ، اعلیٰ تعلیم یافتہ، ڈاکٹر، وکیل، سرمایہ دار، مذہبی رہنما، سرکاری عملہ کے اعلیٰ افسران۔ لگتا ہے گلوبلائزیشن، مادہ پرستی اور خدابیزاری کے نتیجہ میں انسان ہونے کی سطح سے نیچے اتر آئے ہیں۔ دولت کی فراوانی ہمیں لگاتار نشہ میں بدمست کررہی ہے۔ اور ہر نودولتیا اپنے آپ کو مختارِ کل سمجھ رہا ہے، قانون سے اوپر سمجھ رہا ہے اور بے خوف ہے۔اس کی تصدیق اُن لاتعداد واقعات سے ہوتی ہے جب انتہائی قیمتی گاڑیوں میں بیٹھ دھنا سیٹھوں کے بالغ نابالغ بچے، فٹ پاتھ پر سوتے بدقسمت محروموں کو روندتے چلے جاتے ہیں یا سڑک پر چلتی دوشیزاؤں کو اٹھاکر گاڑیوں میں ڈال کر شہروں کی سڑکوں پر ان کی عزتوں اور عصمتوں سے کھلواڑ کرکے کاروں سے دھکا دے دیتے ہیں۔ جیسے کہ آج کے ۲۰۰ سال پہلے کے جاگیرداروں اور نوابوں کے لئے مشہور تھا وہ آج ترقی یافتہ ۲۱ ویں صدی میں پڑھے لکھے، ماڈرن، روشن خیال لوگ کررہے ہیں۔ اکیلی راجدھانی دہلی میں سال نو کی ہڑدنگ بازیوں کے موقع پر ۲۰۰ لوگوں کی گرفتاری گہرے ہوتے اندھیرے کا پتہ دیتی ہے اور یہاں پر یہ سوال اٹھتا ہے کہ کیا ہم واقعی ترقی کررہے ہیں؟ کیا یہی خوشحالی ہے جس کا خواب ہم آنے والی نسلوں اور محروموں کو دکھاتے ہیں؟ کیا ہم واقعی مہذب ہورہے ہیں؟ جو کچھ ہورہا ہے اس کے اسباب و ذرائع پر بار بار بحث کی ضرورت ہے تاکہ ہم ہمارا سماج ہماری سرکار اور اس کے چلانے والے اپنے رویہ، خیالات اور ترجیحات پر نظر ثانی کریں۔ مگر آگے بڑھنے سے پہلے ایک تصویر کے ایک اور اہم رخ کی طرف بھی دھیان دلانا چاہتا ہوں جو فی الحال بحث کا موضوع نہیں ہے مگر بحث سے بہت زیادہ متعلق ہے وہ یہ کہ صرف معاشی اور اقتصادی لحاظ سے بھی یہ تیز رفتار ترقی کی پٹری ہر ایک پر مہربان نہیں ہے۔ یہ بھی ہندوستان کے خوشحال اور اعلیٰ متوسط طبقہ پر ہی مہربان ہے۔ باقی کو تو صرف جھوٹن Tichledown effct ہی مل رہا ہے۔ آج بھی ہندوستان کی آبادی کا 5% تقریباً خالی پیٹ سوتا ہے وہ Rs 19/= روزانہ پر زندگی گذارتا ہے اس سے بھی بڑی تعداد Rs 45/= سے کم کے زمرہ میں آتی ہے۔ کروڑوں بیمار، معذور بغیر علاج کے مرجاتے ہیں۔ لاکھوں حاملہ عورتیں دوران وضع حمل بغیر علاج کے مرجاتی ہیں۔ صرف ایک مہینہ میں ہندوستان کے ایک چھوٹے علاقہ میں دو کسان یومیہ (ماہانہ) ۶۲ کے حساب سے خودکشی کی۔ سال ۲۰۰۶/ میں ․․․․ میں خودکشی کرنے والوں کی تعداد 1050 تھی ، لاکھوں بچے اسکولوں کے بجائے سڑکوں، ڈھابوں، گھروں اور ریلوے اسٹیشنوں کا رخ کرتے ہیں تاکہ پیٹ کی آگ بجھاسکیں۔ اس چکاچوند کی مار میں کروڑوں بیٹیاں جہیز کی بڑھتی مانگ کو پورا نہ کرسکنے اور اتنی لمبی، گوری اور Stylish نہ ہوسکنے کی وجہ سے گھروں میں گھٹ رہی ہیں جتنی لمبی، گوری، Stylish ہندی، انگریزی کے اخباروں، T.V اور میگزینوں کے صفحات اور اسکرین پر دکھائی جاتی ہیں۔ ان محروم، بھوکے، مجبور انسانوں کے جذبات، خواہشات اور امنگوں کے بھڑکانے کے تمام لوازمات موجود ہیں مگر ان کی تسکین کا کوئی سامان نہیں اور ہے تو وہ متمول طبقہ کی جھوٹن اوراترن کے سوا کچھ بھی نہیں۔
ایک تصویر اور بھی ہے جو اس چمک کو دھندلاکرتی ہے وہ ہے اس ترقی کی قیمت جو ہم بین الاقوامی سیاست میں ادا کررہے ہیں کہ وہ طاقتیں جو اس وقت دنیا کے نظام پر حاوی ہیں وہ ناراض نہ ہوجائیں اور ہم پالے میں صحیح طرف کھڑے ہوں یعنی مضبوط مقابل کے حمایتی کے طور پر تاکہ ہمیں بھی انعام ملے۔ چاہے وہ بیرونی سرمایہ کاری کا ٹکڑا ہو، بیرونی ٹھیکوں کا ٹکڑا ہو، ٹکنالوجی کی مدد کا ہو یا اپنی مارکیٹ کھولنے کا ٹکڑا ہو۔ ہم لگاتار اپنی خود داری، انا اور غیر جانبداری کا سودا کررہے ہیں۔ ظاہر بات ہے کہ خودداری، عزت نفس اور اخلاقی برتری مفت میں نہیں ملتی اس کی بھی قیمت ہوتی ہے جو ہمارے حکمراں اعلیٰ ذات طبقہ کے مفاد میں نہیں ہے وہ حقیقت پسندی کے نام پر اسے خام خیالی، احمقوں کی جنت اور خوابوں کی دنیا بتاتا ہے کہ تعمیرچمک دمک (شاپنگ مال، پانچ ستارہ ہوٹل، سیاحوں سے بھرے عریاں مناظر والے ساحل سمندر) کے خالی پیٹ اخلاقیات اور گاندھی گیری کا نعرہ دینے میں مزہ کیا ہے؟
اب تھوڑا تفصیل سے اِس بحث کی طرف چلتے ہیں جو نفس مضمون سے سیدھا تعلق رکھتی ہے وہ یہ کہ ہمارے سماج میں خوشحالی، خوشی، عزت اور کامیابی کا معیار کیا ہے؟ ان معیارات کا موجد اور مبلغ کون ہے؟ کیا یہ معیارات انسانیت کی حقیقی ترقی، کامیابی اور خوشحالی کے ضامن ہیں؟ ان معیارات کے حصول کی قیمت انسانیت کیا ادا کررہی ہے یہ بھی دیکھا جانا ضروری ہے ۔ ہم جانتے ہیں کہ موجودہ گلا کاٹ تہذیب کی فکری بنیاد یوروپ نے عیسائیت کے جبر کے ردعمل کے طور پر رکھی اور یہ کہا کہ دنیا میں اصل چیز مادّہ اور عقل ہے۔ عقل کے بہترین استعمال سے مادّہ کو استعمال کرکے زیادہ ہے زیادہ ترقی اور موج مستی حاصل کرنا ہی انسانیت کا مقصد ہے۔ اور جو بھی بات ماورائے مادّہ ہے یا غیرمحسوس اور غیبی ہے وہ جھوٹ اور بکواس ہے وہ انسانوں کو بہکانے اورانہیں ٹلانے کا ڈھکوسلہ ہے۔ اسی فکر نے پورے مغرب میں پچھلے ۳۰۰ سالوں میں پرورش پائی اوراس کے نتیجہ میں مادی کامیابیاں حاصل کیں اور اِسی مغرب نے ان مادّی کامیابیوں کے بل بوتے پر مشرق کو غلام بنایا، ذہنی غلامی بھی اورجسمانی غلامی بھی۔ اور جیسا کہ یہ فطری قانون ہے کہ غالب اور طاقتور کی بات، عقیدہ، تہذیب سب کچھ غالب ہوتی ہے سو جسمانی آزادی حاصل کرنے کے بعد بھی غلام قوموں کی ذہنی غلامی نہیں گئی کیوں کہ تب تک ظالم آقاؤں نے اپنی تعلیم اور تہذیب کے نظام کے ذریعہ ایک پوری نسل کو جو حکمراں اور غالب تھی اپنے قبضہ میں کرلیا۔ جس طبقہ کی سوچ اپنے آقاؤں سے بھی زیادہ گہری ہوئی اور محدود و خودغرضانہ تھی۔ اور کم وبیش یہی طبقہ آج تمام ترقی پذیر ممالک میں حکمراں اور غالب ہے۔ جو تہذیب یہ بتاتی ہے کہ یہ دنیا ہی سب کچھ ہے یہاں جو برت لیا، حاصل کرلیا، بھگت لیا وہ ہی تمہارا ہے اور کل کیا ہے کسی نے دیکھا ہے؟ تو لازماً ایسا ماحول پورے سماج میں بنتا ہے جو بچہ بچپن سے پیدا ہوتا ہے اس کے کان میں ہوش سنبھالنے کے بعد یہی آواز پڑتی ہے کہ خوب پڑھو خوب پیسہ کماؤ تو موج کروگے آرام سے رہوگے وہ آنکھ کھولتے ہی دیکھتا ہے کہ ہر طرف مادّہ کی چمک ہے۔ ممّی صبح تیارہوکر آپاکو سمجھاکر بن ٹھن کر باہر چلی گئیں پاپا کو تو جانا ہی تھا واپسی میں ممّی خوبصورت کھلونا یا قیمتی چاکلیٹ لے آئیں اور پاپا بھی لے آئے اس طرح صبح سے شام تک کی قربت، ممتا اور محبت کے عوض چند مادّی چیزیں اس کی جھولی میں ڈال دی جاتی ہیں۔ اگر دولت مند ہے توایسا ہے اوراگر غریب ہے تو بھی ماں کی ممتا سے محروم اور بدلہ میں پیٹ بھر کھانا بھی نہیں ملتا، ٹافی، چاکلیٹ اور قیمتی کھلونے تو دور کی باتیں ہیں۔ عمر کے بڑھنے کے ساتھ اسکول، کالج، معاشرہ، اخبار اور اسکول کے نصاب، ٹیچروں کی زندگیاں ان کی تہذیب اُن کی مخلصانہ مادہ پرستانہ ترجیحات اور تشویق کی روزانہ خوراکیں ہماری نئی نسل کو جو کچھ بنارہی ہیں وہی تصویریں ہیں جو ہم نٹھاری نوئیڈا B.M.W. کیس، جسیکالال قتل کیس، شوانی بھٹناگر قتل کیس، گردوں کی خریدوفروخت قابل ڈاکٹروں کے ذریعہ اور اعلیٰ طبقہ کی خواتین کے ذریعہ جسم فروشی اورجسم کی عریاں نمائش کے بدلے دولت حاصل کرنے کی شکل میں ظاہر ہورہی ہے۔ یہ دراصل پورے معاشرے کی پلائی گئی اُس گھُٹی کا مجموعی اثر ہے جو پیدا ہونے سے بلوغت تک کثیر مقدار میں معاشرہ کا ہر ادارہ یا حصہ پلاتا ہے۔ جس میں خاص طور سے میڈیا اور نظامِ تعلیم و تفریح بہت اہم رول ادا کررہے ہیں۔جونئی نسل اورپوری نوع انسانی کو انسانی ساخت اور فطرت میں پوشیدہ شیطانی خواہشوں اور ترغیبات کو دن رات اکسارہی ہیں اور پھیلارہی ہیں۔ اللہ رب العالمین نے جس کا دعویٰ کیا ہے کہ ”کیا وہی نہیں جانے گا جس نے پیدا کیا؟ (الملک)“ ہمیں اپنی ہدایت میں بتادیا ہے کہ ”لوگوں کے لئے مرغوباتِ نفس – عورتیں، اولاد، سونے چاندی کے ڈھیر، چیدہ گھوڑے، جانور اور زرعی زمینیں – بڑی خوش آئند بنادی گئی ہیں مگر یہ سب دنیا کی چند روزہ زندگی کے سامان ہیں حقیقت میں جو بہتر ٹھکانا ہے وہ اللہ کے پاس ہے (آل عمران:۱۴) اس حقیقت کو اللہ رب العالمین نے مختلف انداز سے بار بار ذہن نشین کرایا ہے کہ دنیا کی زندگی کے بظاہر عیش و آرام انسانوں کو مرغوب اور محبوب بنادئیے گئے ہیں اور انسانوں میں اللہ نے شیطانی اور رحمانی دونوں صفات بھی رکھ دی ہیں۔ اور ان کی طرف رہنمائی کے لیے کتاب و رسول کا نظام پیدا کیا۔ اب انسانوں کا اصل امتحان یہ ہے کہ وہ اپنے اندر کون سی صفات اور کون سی راہ کا انتخاب کرتے ہیں۔ اللہ نے ارشاد فرمایا: ”ہم نے انسان کو ایک مخلوط نطفے سے پیدا کیا تاکہ اس کا امتحان لیں اس غرض کے لیے ہم نے اسے سننے اور دیکھنے والا بنایا ہم نے اسے راستہ دکھادیا خواہ شکر کرنے والا بنے یا کفر کرنے والا۔ (الدہر:۲)
شیطان انسانوں سے جھوٹے وعدہ کرتاہے انہیں جھوٹی امیدیں دلاتا ہے۔ شیطان کے محبوب ترین ہتھکنڈوں کے بارے میں اللہ نے اپنے بندوں کو خبردار کیا ”اے لوگو جو ایمان لائے ہو شیطان کے نقش قدم پر نہ چلو۔ اس کی پیروی کوئی کرے گا تو وہ اسے فحش اور بدی کا ہی حکم دے گا۔“ (النور:۲۱) ”اے لوگو جو ایمان لائے ہو یہ شراب، جوا، آستانے، پانسے یہ سب گندے شیطانی کام ہیں ان سے پرہیز کرو امید ہے کہ تمہیں کامیابی نصیب ہوگی۔ شیطان تو یہ چاہتا ہے کہ شراب اور جوئے کے ذریعہ تمہارے درمیان عداوت اور دشمنی ڈال دے اور تمہیں خدا کی یاد اور نماز سے روک دے پھر کیا تم اِن چیزوں سے باز رہوگے؟ (المائدہ:۹۱)
جب یہ تعلیمی نظام یہ ذرائع ابلاغ یہ معاشرہ اس کی تہذیب، ادب سب کچھ انسان کو دن رات زیادہ سے زیادہ صارف Consumer بنانے پر آمادہ ہے۔ اس معاشرہ میں اسی کی قیمت ہے جو زیادہ قوت خرید رکھتا ہے اوراس کا اظہار کرسکتا ہے۔ اس معاشرہ میں دن رات گلا کاٹ مقابلہ پیدا کیا جارہا ہے کہ ”اس کی قمیص میری قمیص سے اُجلی کیوں“ توانسان کو سکون کیسے ملے گا؟ دنیا میں عیش و آرام کے جتنے مظاہر ہیں اچھا لباس، اچھا گھر، سواری، خورد و نوش، سالانہ تفریحی سفر یہی کل کائنات ہے زندگی کا مقصد یہی ہے۔ انہیں کے حصول میں آج انسان گود سے گورتک پریشان ہے۔ اور سکون کسی کو نہیں ہے۔ آج خوشحالی اور ترقی کا پیمانہ کیاہے؟ معاشرہ میں بجلی کی کھپت فی کس کتنی ہے؟ پٹرول کی فی کس کھپت کتنی ہے، پانی کی فی کس کھپت کتنی ہے؟ تیل گھی کی پروٹین کی وغیرہ وغیرہ کھپت کتنی ہے؟
اس لئے آج معاشرہ ہر چیز کو مادّہ سے تولتا ہے کوئی بھی کام کرنے میں یا نہ کرنے میں کیا مادی فائدہ یا نقصان ہوگا یہ محرک ہمارے ہر کام کے پیچھے ہوتا ہے۔ بوڑھے ماں، باپ ، رشتہ دار، ساس سسر کی خدمت کیوں کی جائے؟ جائیداد توملنی ہی ہے۔ معذور، مجبور، غریب پر دولت کیوں لگائی جائے؟ لندن سے خبر ہے کہ وہاں نگہداشت بزرگاں اب ایک انڈسٹری بن گئی ہے اور اس انڈسرٹی کے بڑے حصہ کو بنگلور میں منتقل کردیاگیا ہے ۔ کیونکہ یہاں کم خرچ پر زیادہ خدمات مل جاتی ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کے اہل خانہ زندہ ہیں مگر ان کے پاس وقت نہیں ہے کہ وہ ان کے لئے وقت فارغ کرسکیں۔ اس تہذیب نے ہم کو یہی بتایا ہے کہ زندگی موج مستی کا نام ہے جس طرح حاصل کرسکتے ہو کرو۔ اور موج مستی کے لیے پیسہ چاہیے وسائل چاہئیں اور وہ صرف جائز ذرائع سے نہیں حاصل ہوسکتے۔ اس لئے سماج میں بدعنوانی، رشوت خوری، لوٹ مار، جھوٹ ، فریب، اغوا اور نہ جانے کیا کیا فروغ پاتا ہے۔ اوراس دریا میں ہر ایک غوطہ لگانے کو مجبور ہوتا ہے کیونکہ سماج میں نکوّ بننے کا دباؤ اتنا زبردست ہوتا ہے کہ اسے سماج کی اکثریت برداشت نہ کرکے اسی ریلہ میں بہہ کر شیطانی ایجنڈہ کاشکار ہوجاتی ہے۔ آج کل خاص طور سے T.V. نے جس طرح انسانی فطرت میں پوشیدہ شیطانیت کو ابھارنے کا سیاہ کارنامہ انجام دیا ہے اسے ہر کس و ناکس محسوس کررہا ہے۔ خاص طور سے اشتہاروں اور سیریل نے انسانوں کو ارذل ترین مخلوق بنانے اور اشیاء وسیکس کا غلام بنانے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی ہے شاید یہی وجہ ہے کہ جہاں ۶۰ سالوں میں صاف پانی، بیت الخلاء، اسکول، ہسپتال اور سواری کی سہولت نہیں پہنچی ہیں وہاں شیطان کے ایجنٹوں نے جنسی اور مادّی بھوک بڑھانے کے لئے T.V. صرف ۱۵/ سالوں میں پہاڑ، میدان، جنگل، گاؤں، جھگی جھونپڑی ہر جگہ پہنچا دئیے۔ اوراس طرح انسانوں کی دوڑ دھوپ، ترجیحات، پسند ناپسند،اچھا برا،مقصد زندگی سب کو اپنے مطابق ڈھال دیا ہے۔ اور انسان بیچارہ بری طرح پس رہا ہے۔ وہ اپنے ضمیر کو کچل رہا ہے وہ اپنی فطرت سے بغاوت کررہا ہے وہ انسان کے اعلیٰ مقام سے گرکر حیوانوں کی طرح اپنی خواہشات کو دوسروں کی قسمت پر پورا کررہا ہے۔ اور کہہ رہا ہے کہ انسانیت ترقی کررہی ہے، خوشحالی آرہی ہے۔ حالانکہ پورا انسانی معاشرہ اس کی قیمت ادا کررہا ہے۔ کہیں بھی سکون چین و اطمینان نہیں ہے۔ جو ممالک سب سے زیادہ امیر ہیں ”خوش “ رہنے کے عالمی سروے میں اُن کا مقام بہت نیچے ہے۔ کم دولت مند ممالک کے لوگ زیادہ خوش ہیں۔ پھر ہمیں یہ بھی سوچنا ہوگا کہ ہماری یہ موج مستیاں کب تک کے لیے ہیں؟ کیا ہم ہمیشہ جوان رہیں گے؟ اگر رہیں گے تو بھی کیا ہمیشہ زندہ رہیں گے؟ اِن سب سوالات کے جوابات نفی میں ہیں دولت، جوانی ، بنگلہ، کار، عیش عیاشی سب وقتی ہیں موت سب کا خاتمہ کردے گی پھر عارضی وقتی موج مستی کے لیے اور وہ بھی جو پورے انسانی معاشرہ کو نہیں مل سکتی بلکہ اکثریت کی قیمت پر معمولی اقلیت ہی موج مستی کو حاصل کرسکتی ہے توانسانیت کیوں نہ اپنے لئے اعلیٰ اور لامتناہی کامیابی کے حصول کو اپنا مقصد زندگی بنائے۔ تاکہ دنیا میں سبھی انسان پرامن پرسکون زندگی گذارسکیں۔ وہ زندگی جو ظلم، حرص، حوس، لالچ، حسد سے پاک ہو۔ جس میں اپنے جیسے دوسرے انسانوں کے لیے بھی احترام اورانصاف موجود ہو۔ اللہ رب العالمین نے اس کے حصول کے لیے انسانوں کو دعوت دی ہے ”خوب جان لو یہ دنیا کی زندگی اس کے سوا کچھ نہیں کہ ایک کھیل اور دل لگی ہے۔ اور ظاہری ٹیپ ٹاپ اور تمہارا ایک دوسرے پر فخر جتانا اور مال و اولاد میں ایک دوسرے سے بڑھ جانے کی کوشش کرنا ہے۔ اس کی مثال ایسی ہے جیسے ایک بارش ہوگئی تواس سے پیدا ہونے والی نباتات دیکھ کر کاشت کار خوش ہوگئے پھر وہی کھیتی پک جاتی ہے اور تم دیکھتے ہو کہ وہ زرد ہوگئی پھر وہ بھس بن کر رہ جاتی ہے۔ اس کے برعکس آخرت وہ جگہ ہے جہاں سخت عذاب ہے اور اللہ کی مغفرت اور خوشنودی ہے۔ دنیا کی زندگی ایک دھوکہ کے سوا کچھ نہیں۔ دوڑواور ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرو اپنے رب کی مغفرت اور اس جنت کی طرف جس کی وسعت آسمان و زمین جیسی ہے۔ جوکہ مہیا کی گئی ہے ان لوگوں کے لئے جو اللہ اوراس کے رسولوں پر ایمان لائے ہوں۔ (الحدید: ۲۱-۲۰) کیونکہ دنیا کی زندگی اور یہاں کے وسائل محدود ہیں اور انسان کی آرزوئیں اور خواہشیں لامحدود ہیں ان کو پورا کرنے کے لیے ایسا جہاں درکار ہے جہاں زمان، مکان اور وسائل بھی لامحدود ہوں۔ وہ جہانِ آخرت ہی جس کو زیادہ سے زیادہ حاصل کرنے کا شوق اللہ نے یوں دلایا ہے ”جو لوگ دوسروں پر بازی لے جانا چاہتے ہیں وہ اس چیز کو حاصل کرنے میں بازی لے جانے کی کوشش کریں۔“ (المطففین:۲۶)
______________________________
ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ6، جلد: 91 ، جمادی الاولی 1428 ہجری مطابق جون2007ء