از: فاروق اعظم عاجز کھگڑیاوی، دارالعلوم دیوبند،احاطہٴ مطبخ کمرہ: ۱۱
یوں تو ملک کی قسمت کا ستارہ اسی دن گردش میں آگیاتھا جب کہ ہندوستان کے دو ٹکڑے ہوئے اور اسکا ایک اہم عضو اسکے جسم سے الگ ہوگیا، کہا جاتا ہے کہ پاکستان کا قیام عظیم مصالح کے پیش نظر تھا؛ لیکن جس نظریہ کے تحت اس پودے کو لگایا گیاتھا سچی بات یہ ہے کہ وہ بارآور نہیں ہوا۔
مگدھی زبان کا مثل مشہور ہے کہ ”سانپ تو مرگیا لیکن اپنا پوا چھوڑ گیا“ اس پر عمل کرتے ہوئے سفید فام انگریز نے جاتے جاتے اس موقع سے بھی فائدہ اٹھایااور اپنے بعد فرقہ پرست ذہنیت کے بہت سے اپنے چیلوں اورحاشیہ برداروں کو چھوڑگیا، انگریزوں کے خونی چنگل سے ملک آزاد کیاہوا مسلمانوں کے جان و مال کے لالے پڑنے لگے اور فرقہ پرست عناصر کے ہاتھوں ان کی نسل کشی اور کشت و خون اسلامیانِ ہند کا مقدر بن گئے، تقسیم ہند اور تشکیل پاک کے نام پر گویا مسلمانوں کو اپنی جانوں کی بلی دینا پڑی، جو پاکستان چلے گئے چلے گئے اورجو ہندوستان میں رہ گئے وہ جارحیت پسند ذہنیت کے لیے دھرتی کے بوجھ محسوس ہونے لگے، انھیں ہر طرح سے پیسنے کی ناروا کوششیں کی گئیں اور ملکی سطح پر سانپ کے چھوٹے چھوٹے بچے ہی نہیں بلکہ ان کی پرورش کرنے والے بڑے بڑے زہریلے ناگ(۱) بھی پھنکارنے لگے اور اپنے زہر سے ہندوستان کی ”گنگاجمنی“ فضا کو مسموم کرنے لگے، جگہ جگہ مسلم کش فسادات کے شعلے بھڑکنے لگے، مسلمانوں سے جینے کا حق چھینا جارہا تھا، ان کے خون سے ہولی کھیلی جارہی تھی، ان کی عورتوں کی عصمتوں کو سرِ بازار تار تار کیا جارہا تھا، ان کے معصوموں کی لاشوں کو کھلونا بناکر فٹ بال کی طرح روندا جارہا تھا، عبادت گاہوں کو اصطبل اور قرآن مقدس کو راکھ میں تبدیل کرکے سرعام ان کی بے حرمتی کی جارہی تھی، ان کی جائداد پر ناجائز تسلط جمایا جارہا تھا، ان کے صنعتی کارخانوں کو تہس نہس کرکے مسلمانوں کی معاشی قوت کو کمزور سے کمزور ترکیا جارہاتھا، ان کی آبادیوں کو تہہ و بالا کیاگیا، نان شبینہ تک سے مسلمانوں کومحروم کرنے کی ملک گیر پلاننگ کے خاکے تیار کیے جارہے تھے اور ستم بالائے ستم یہ کہ پولیس ان شرارت پسند عناصر کا قدم قدم پر پیٹھ تھپتھپاتی ہوئی نظر آرہی تھی اور ستم ظریفیوں کی حد یہیں پر ختم نہیں ہوجاتی بلکہ ،،الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے“ والے اصول پر مضبوطی کے ساتھ یہ لوگ عمل پیرا تھے اور بے گناہ بلکہ ستم رسیدہ ایسے مسلمان کہ ابھی ان کے خشک حلقوم تک پانی بھی نہیں پہنچا تھا، ابھی ان کے بہتے خون کے آنسو بھی خشک نہیں ہوپائے تھے، بدن سے خون کا فوراہ بھی بند نہیں ہوا تھا، جسم کی ٹوٹی ہڈیاں ابھی جھول ہی رہی تھیں کہ ان کو بجائے اس کے کہ ان کی تسلی کا سامان مہیا کیاجاتا، ان کی مزاج پرسی کی جاتی، ان کے آنسو پوچھے جاتے، ان کی پیاس بجھائی جاتی الٹے اسی ٹوٹی کلائی میں پٹی کی جگہ ہتھکڑی لگاکر ہسپتال نہیں جیل خانوں میں بھینس بکری کی طرح ٹھونس دیاگیا اور حقِ انصاف کو بھی سلب کرنے کی ناپاک کوششیں کی گئیں۔
یہ وہ زمانہ تھا جب کہ حضرت مولانا سید اسعد مدنی اپنے عہد شباب سے گزررہے تھے، چوں کہ قدرت نے آپ کو ایک عظیم مجاہد کے گھر پیدا کیا تھا، آپ نے قرآن و حدیث کی زمزمہ سنجیوں سے پرخانوادے میں نشوونماپائی تھی، مولانا مرحوم جہاں ایک مرد مجاہد، بے باک اور حق گو باپ کے بیٹے تھے وہیں ملت کا درد، اس کی حالت زار پر کڑھن، اس پر پڑنے والے برے وقت میں پوری ثبات قدمی اور بیدار مغزی کے ساتھ اس کے سدّباب کی مناسب تدابیر اور اپنی قوت عمل سے ان خاکوں میں روغن بھرنے کی سعیِ جمیل بھی آپ کو اپنے عالمگیر باپ ہی سے وراثت میں ملی تھی، چند دنوں مدرسی کے بعد مولانا نے اپنے والد بزرگوار کے مشن اصلی کو آگے بڑھانے کا پختہ عزم کرلیا، چناں چہ ۱۹۵۶/ میں صدرجمعیة دیوبند، ۶۲/ میں صدر جمعیة علماء اترپردیش، ۶۳/ میں ناظم عمومی جمعیة علماء ہند اور ۷۳/ میں مولانا سید فخرالدین احمد کی وفات کے بعد متفقہ طور پر آپ کو مرکزی صدارت کے لیے منتخب کرلیاگیا۔ چناں چہ آپ اس وقت سے تادم واپسیں تقریباً ۳۳ سال تک جمعیة کے متحدہ پلیٹ فارم سے ملک و قوم کے تحفظ و استحکام اوراس کی تعمیر و ترقی میں جٹے رہے اور کسی قسم کی ناخوشگوار حالات کے سامنے سپرانداز ہونے کے بجائے پورے ہوش مگر جوش کے ساتھ نبردآزما رہے، ”آئین جواں مرد حق گوئی وبے باکی“ کا کھل کر مظاہرہ کیا اور ”اللہ کے شیروں کو آتی نہیں روباہی“ کو عملی جامہ پہناکر یہ اعلان کردیا:
”باطل سے دبنے والے آے آسماں نہیں ہم سو بار کرچکا ہے تو امتحاں ہمارا“
آپ اسم بامسمّیٰ تھے اور اسعد کے ساتھ آپ اسد بھی تھے اور اخیر دم تک لوگوں نے آپ کے اندر اس امتیازی وصف کا مشاہدہ کیا۔ چناں چہ فدائے ملت نے اپنی عملی زندگی کے روز اول ہی سے ایسی ایسی حیرت انگیز ملی خدمات انجام دیں کہ بڑوں کے حلقے سے بھی رشک کی صدائے باز گشت سنائی دینے لگی اور مجاہد ملت مولانا حفظ الرحمن جیسے جری وبے باک قائد کہ جس کی ایک گرج سے ایوان حکومت دہل دہل اٹھتا تھا، کے سانحہٴ ارتحال کے بعد ملت میں جو یاس و ناامیدی چھاگئی تھی اورایک خلا محسوس کیاجارہا تھا اللہ نے حضرت کے وجود بامسعود سے اس خلا کو پرکردیا، مجاہد ملت کے بعد جمعیة کی نظامت کی باگ ڈور آپ کے سپرد ہوئی اور آپ باضابطہ طور پر اسٹیج پر آئے؛ لیکن ابھی چند مہینے ہی گزرے تھے، ۶۴/ کی آمد آمد تھی، رمضان بھی قریب تھا، مولانا رمضان گزارنے کی غرض سے گیا (بہار) کے لیے پابرکاب تھے کہ اچانک معلوم ہوا کہ کلکتہ سمیت مغربی بنگال کا ایک بڑا حصہ فرقہ وارانہ فسادات کا شکار ہوچکا ہے اور مسلمان گاجرومولی کی طرح کاٹے جارہے ہیں اور جائداد یں لوٹی جارہی ہیں، ابھی خونی ڈراموں کااسٹیج لگاہی تھا کہ اسی طوفانِ بلاخیز میں مولانا مظلوموں کی حمایت کے لیے ابراہیمی جرأت کے ساتھ کود پڑے اور ان کی تسلی کا سامان فراہم کرنے میں ہمہ تن جٹ گئے پورے دن رمضان کا روزہ رکھ کر زخمیوں کی مرہم پٹی، بھوکوں کو کھانا کھلانا اور بے گھروں کو ٹھکانہ دینے میں گلی کوچے کی خاک چھانی اور صحابہ جیسی شب زندہ دار جماعت کا وہ عملی نمونہ پیش کیا کہ جو حضرات دن کے غازی اور رات کے نمازی تھے۔ اس واقعہ کی شہادت مولانا محمد میاں صاحب کی تحریر سے یوں ہوتی ہے کہ ”مولانا سید اسعد صاحب نے کلکتہ پہنچ کر شہر کے تباہ سترہ محلوں کا دورہ شروع کیا توان کو دیہات کے حالات کا بھی علم ہوا، اب ایک نئی تڑپ پیدا ہوئی اور باوجودیکہ خطرات ہر طرف سے منھ پھیلائے تھے مگر مجاہد ملت کی یاد تازہ کرنے والے جواں ہمت مولانا اسعد صاحب ناظم عمومی جمعیة علماء ہند نے ان بے بسوں اور بے کسوں تک پہنچنا ضروری سمجھا․․․ رمضان شریف کے مبارک رات دن اس میں صرف ہوئے“ (گلہائے عقیدت) اس فساد میں جمعیة نے باز آبادکاری اور ریلیف پر تقریباً سات لاکھ کی خطیر رقم خرچ کی۔
ابھی کلکتہ فسادات کی آگ بجھنے نہیں پائی تھی کہ ۱۹/ مارچ ۶۴/ کی شام کو مسلمانان جمشیدپور پر آگ و خون کی بارش شروع ہوگئی اور مسلمانوں کی جان ومال، عزت و آبرو کی ایسی پامالی کی گئی کہ سراپا ظلم ”ہٹلر“ کی روح بھی شرماگئی، جمشید پور، راوڑکیلا، اور چائے باساواطراف کے تقریباً ۱۴۳۲ بے گناہوں کو شہید کیاگیا اور لاکھوں کی املاک تباہ کرے مسلم آبادی کی کمر توڑدی گئی، حضرت فدائے ملت نے جب یہ خبر سنی تو بے چین ہواٹھے، اور اپنے دردمند دل کے ساتھ پورے علاقے کے گاؤں گاؤں کا تفصیلی دورہ کیا، ریلیف اور باز آبادکاری کے لیے زبردست جدوجہد اور دوڑ دھوپ کی اورجگہ جگہ کیمپ قائم کرکے زخموں سے چور جلے کٹے مسلمانوں کی مسیحائی کی اور کسی بھی امکانی تدبیر سے آپ نہیں چوکے۔
انھیں دلدوز مناظر کا نقشہ مولانا اسرارالحق صاحب یوں کھینچتے ہیں کہ ”چھٹی دہائی میں خوفناک فرقہ وارانہ فسادات ہوئے، راوڑکیلا، بھلائی، کلکتہ، رانچی وغیرہ میں رونما ہونے والے فسادات کی تباہی کے واقعات کا تصور کرکے آج بھی رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں․․․․ کلکتہ فساد میں متاثرہ علاقوں کے دوسرے پر ان پر جان لیوا حملے ہوئے؛ لیکن ان کے عزم میں کوئی کمی نہیں آئی“، ملت کے تئیں آپ کے سوز دروں کو مولانا قاسمی یوں پیش کرتے ہیں ”فسادات اور قدرتی آفات کے متاثرین کی بربادی کی خبرملتے ہی وہ بے چین ہوجاتے تھے، ان کے چہرے پر کرب کے آثار صاف دکھائی پڑتے اورکئی بار ان کی آنکھوں سے آنسو چھلک پڑتے؛ لیکن ان کے آنسوؤں کے پیچھے عزم ہوتا تھا“ بلاشبہ آپ مجاہد ملت کے بعدایسے واحد رہنما تھے جنھوں نے آگ و خون میں کود کر مظلوموں کے آنسو پوچھے اور اپنی بے پناہ جرأت و بلند ہمتی کی روشن تاریخ رقم کی۔
انھیں نسل کشی کے سیلِ رواں کے سدباب کی اہم کڑی نومبر ۶۴/ میں ”وگیان بھون“ میں ”قومی جمہوری کنونشن“ کا انعقاد ہے جس میں اس وقت کے وزیر اعظم ”لال بہادر شاستری“ نے دیگر سرکردہ لیڈران سمیت شرکت کی اور سبھوں نے اس پھیلتے زہریلے فتنے کی تریاقی کا عزم مصمم کیا، جس کا لازمی نتیجہ اس طرح ظاہر ہوا کہ فسادات کی لہر ایک حد تک سرد پڑگئی اور مسلمانوں کو جینے کا حوصلہ ملا۔ (الجمعیة نمبر ص:۴۵۴)
کچھ دنوں بعد ۶۷/ میں پھر بنارس اور رانچی کی سرزمین مسلمانوں کے خون سے رنگین ہوئی، ۶۹/ میں ایک سنیما میں دو جوانوں کے جھگڑے کا بہانا بناکر پولیس کی سرپرستی میں مئو اعظم گڑھ میں خونی ڈرامے کھیلے گئے، اوراسی سال ستمبر میں احمد آباد کی خوشگوار فضا کو لالہ زار کیاگیا، ملک میں ایک بار پھر مسلم کش فساد کی آگ بھڑک اٹھی اور فتنہ پروروں نے اسلامیانِ ہند کے وجود کو ملک سے سرے سے ختم کرنے کا تہیہ کرلیا تھا۔
اس وقت ملک کے امن کا کس طرح جنازہ نکالاجارہا تھا اورحالات کیسے ناگفتہ بہ تھے اس کی حقیقی تصویر صاحبِ ”تاریخ جمعیت“ کی تحریر میں یوں دیکھی جاسکتی ہے کہ ”۶۹/ میں ہندوستان کے فرقہ پرستوں نے ایک بار پھر اپنی شرمناک سرگرمیاں تیز کردی ہیں، جمعیة کے دفتر میں جب بھی فون کی گھنٹی بج اٹھتی ہے تو دل دھڑکنے لگتا ہے اور ریسیور اٹھاتے ہوئے ڈر سا لگتا ہے کہ ہونہ ہو فساد کی خبر ہے“۔
مولانا مرحوم نے اسی طوفانی حالات میں احمدآباد کا تفصیلی دورہ کیا، اقلیت کے کشت و خون کے انسداد کے لیے مناسب تدبیریں کیں اور اپنے سوز بھرے دل کے ساتھ نومبر میں پارلیامنٹ کے ایوان میں ایسا تاریخی خطاب کیا کہ جس کا لفظ لفظ درد، کڑھن اور تڑپ سے عبارت ہے، اخیر میں جو ایک شعر کہا۔
بترس از آہِ مظلوماں کہ ہنگام دعا کردن
اجابت از درحق بہر استقبال می آید
اس نے ارکان حکومت کو لرزہ براندام کردیا۔
امتحاں ابھی اور بھی ہیں
بیسویں صدی کی ساتویں دہائی شروع ہوچکی تھی کہ پھر مسلمانوں پر قتل و غارت گری کی آندھی چل پڑی، ان کی معاشیات کو تباہ و برباد کرکے انھیں کھوکھلا بنانے کے لیے جلگاؤں اور بھیمڑی (جو پاورلوم صنعت کا بڑا مرکز رہا ہے) کو تہہ و بالا کرنے کی مکمل کوششیں کی گئیں تاکہ ایک ایک مسلمان نانِ شبینہ تک سے محروم ہوجائے، مولانا اس خبر کو پاکر تڑپ تڑپ اٹھے اور پوری پامردی سے فرقہ واریت کے اس دہکتے شعلے میں بے خوف کود پڑے، تڑپتی لاشوں کو اٹھایا، ان کی مرہم پٹی کی، آنسو پوچھے اور ہرطرح سے ان کی بازیابی اور سابقہ حالات پر لانے کی انتھک کوشش کی اور شرپسندوں سے سختی سے نمٹنے کے لیے ایوان حکومت میں صدائیں بلند کیں۔
ابھی یہ مردمجاہد ایک عظیم معرکہ سَر کرکے چین کے دوسانس بھی نہ لے سکا تھا کہ اسی سال ”ہزاری باغ“ میں ایک مری پڑی گائے کا بہانہ بناکر پولیس کی نگرانی میں خون خرابہ کا جو ننگا ناچ ناچا گیا کہ آسمان بھی تڑپ اٹھا اور زمین بھی دہل گئی۔ مولانا مرحوم نے پوری ثبات قدمی کے ساتھ وہی کچھ کیا جو ایک دردمند باپ اپنی اولاد کے لیے کرتا ہے۔ چناں چہ ۷۰/ میں مولانا نے ناظم عمومی کی حیثیت سے پارلیامنٹ کے معزز ایوان میں مسلم اقلیت کی مسلسل نسل کشی پر کرخت لہجے میں ارباب حل و عقد کو متنبہ کیااوریوں گویا ہوئے: ”ابھی تازہ واقعہ چائے باسہ کا ہے، جہاں اگر فرقہ پرستوں اور پولیس کی سازش نہ ہوتی تواقلیت طبقہ کے پچیس افراد کے بے دردی سے موت کے گھاٹ نہ پہنچایا جاتا․․․ پولیس نے حالات سے چشم پوشی کی ہے“ اخیر میں صدر جمہوریہ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: ”اگر ذمہ دارانِ حکومت نے اپنی ذمہ داری کو اب بھی نہیں پہچانا تو ملک کو نراج اور تباہی سے نہیں بچایا جاسکتا“؛ لیکن ابھی اورابھی اس مرد دلیر کی سرفروشانہ داستان کا مطالعہ کرتے جائیے اور سردھنتے جائیے!!!
۱۹۷۲/ کے نصف اخیر کا زمانہ چل رہا تھا کہ ایک بار پھر مسلم کش فسادات سے سرزمین ہندلہو لہان ہوگئی اور گویا اس ملک کے سینے پر اسلام دشمنی کا کوہِ آتش فشاں پھوٹ پڑا تھا۔
چناں چہ جون ۱۹۷۲/ میں علی گڑھ، بنارس اور فیروز آباد میں اقلیت پر انسانیت سوز مظالم ڈھائے گئے، جان، مال، جائداد اور کارخانے ہرایک کو نشانہ بنایا گیااور مسلمانوں کے خونِ جگر کو نچوڑ کر خونی معرکہ کو مزید بھڑکایا گیا، ایسے ہی اسی سال عثمان آباد (مہاراشٹر) دادری، اعظم گڑھ، گجرات، بہار اور کرناٹک میں بڑے بڑے فرقہ وارانہ فسادات ہوئے اور ہر طرح سے مسلمانوں کو تباہی و بربادی کے دہکتے تنور میں جھونکا گیا، اسی زمانہ کی تصویر کشی مولانا اسیرادروی صاحب یوں کرتے ہیں کہ ”جمعیة علماء ہند کی مجلس عاملہ کاکوئی اجلاس ایسا نہیں جس میں نسل کشی کی اس انسانیت سوز مہم پر نوحہ خوانی اورماتم سرائی نہ کی گئی ہو، مجلس عاملہ کا رجسٹر کارروائی آزادی کے بعد سے ہونے والے ان فسادات کی انسائیکلوپیڈیا ہے“۔
مولانا مرحوم نے ملک کے ناگفتہ بہ حالات کے پیش نظر ایک بار پھر پارلیامنٹ میں حیدری رعب کے ساتھ ذمہ دارانِ حکومت پر سخت نکتہ چینی کی اور پولیس کی درندگی کا پردہ فاش کرتے ہوئے اس کی سخت مذمت کی اور فرمایاکہ: ”اس سال انیس بڑے فسادات ہوئے ہیں جن میں بنارس، بنگلور اور دربھنگہ سرفہرست ہیں، اور خون کا آنسو پیتے ہوئے مزید یوں گویاہوئے کہ : جن کو لوٹا جائے، مارا جائے ان کو ہسپتال کے بجائے جیل خانہ لے جایا جاتا ہے، جن کے ہاتھوں کی ہڈیاں ٹوٹی ہوئی ہیں انھیں کے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں بھی ڈالی جاتی ہیں، میری نگاہیں خود اس واقعہ کی گواہ ہیں۔
حضرت فدائے ملت اپنے بے مثال باپ کی عظیم روایات کے سچے امین اورحقیقی وارث تھے۔ بقول مولانا انظر شاہ کشمیری صاحب: ”(انھوں نے) اپنے نامور باپ کی ہرگوشہ میں جانشینی کی اورکافی حد تک اس کا حق ادا کیا“ چناں چہ ۱۹۷۳/ کا زمانہ تھا،مولانا سید فخرالدین احمد مسند صدارت کو الوداع کہہ کر مالک حقیقی سے جاملے تھے، آپ کی بالغ نظری اور دورسی کے پیش نظر صدارت کا بارگراں آپ کے کاندھے پر رکھا گیا، اس وقت ارض وطن بڑے پرآشوب دور سے گزررہی تھی، جہاں ایک طرف اسلام دشمن عناصر مسلمانوں کے آئینی حقوق پر حملہ آور ہورہے تھے اوران کی پرسنل لاء میں مداخلت کی ناپاک کوشش کررہے تھے وہیں مسلم کش فسادات پھر راہ لینے لگے تھے اوراسکا شرارہ روز بروز تیز سے تیز ترہی ہوتاجارہا تھا، چناں چہ اسی سال گجرات کے مسلمان فساد کی زد میں آئے اور ۱۹۷۴/ میں منظم سازش کے تحت میرٹھ، الٰہ آباد میں قیامت برپاہوئی، پونہ، جھنڈواڑہ (مدھیہ پردیش)، پورسد (گجرات)، رانچی (بہار)، شرپسندوں کی ہوسناکی کے شکارہوئے، اسی طرح آگرہ، کھرگون (مدھیہ پردیش)، بمبئی کو بھی نشانہ بنایاگیا، ۱۹۷۵/ میں یہ سلسلہ آگے بڑھتے ہوئے پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا، ہندوستان پر لاقانونیت کا منحوس سایہ دراز سے دراز تر ہوتا چلاگیا اور قانون بازیچہٴ اطفال بن کر رہ گیا تھا۔ چناں چہ ۱۹۷۷/ میں بنارس میں ایک بار پھر قتل وغارت گری مچائی گئی، جنوری ۱۹۷۸/ میں بہار کا ضلع بہار شریف پوری طرح جھلسایا گیا اوراسی سال مارچ میں سنبھل مرادآباد کی تاریخ میں وہ دن آیا جس کی پیشانی تباہیوں اور بربادیوں سے آلودہ ہوئی، اسی طرح مارچ ۱۹۷۹/ میں فولاد کے شہر جمشیدپور میں دوبارہ کشت و خون اور تباہی کا جو سیلاب آیا اس نے مسلمانوں کے خرمن کو خاکستر کرکے رکھ دیا، جولائی میں ضلع پورنیہ کے گاؤں کے گاؤں کو زیر و زبر کردیاگیا، زمانہ گزرتا گیا ملک کے مختلف خطوں میں چھوٹے بڑے حوادث گردش کرتے رہے، پھر ۱۹۸۹/ میں بھاگلپور کی زمین پر سفاکیت کا وہ ننگا ناچ ناچا گیا کہ جس سے درندے بھی شرماگئے،اور جارحیت پسند ہندو لٹیروں نے ظلم و ستم اور قتل و خون کا وہ منظر پیش کیا کہ چشم فلک بھی اشک بار ہوگئے اور وہاں کی خوشگوار فضا دیکھتے ہی دیکھتے سراپا ماتم بن گئی۔
اس کے بعد سب سے بڑا خونی ڈرامہ فروری ۲۰۰۲/ میں گجرات کی سرزمین پر اسٹیج دیاگیا اور مسلمانوں کی عزت، اس کے تڑپتے لاشے اوراس کے سرخ خون سے پروگرام کو زینت بخشا گیا، ان کی آہ و بکا پر قہقہے لگائے گئے، انھیں بے گھر کیاگیا اور پوری مسلم آبادی کی اینٹ سے اینٹ بجادی گئی؛ لیکن سرمایہٴ ملت کے اس نگہبان ”مولانا سیداسعد مدنی“ کو ان قیامت خیزیوں اور طوفانوں کے ریلے سے ٹکرانا پڑا، جان کو جوکھم میں ڈال کر جلے کٹے مسلمانوں کی مکمل مسیحائی کی، یہ فساد ہندوستان کے چہرے کا وہ بدنما داغ ہے جو مٹائے نہیں مٹ سکتا اور یہ تاریخ ہند کا بدترین المیہ ہے مولانا نے مسلمانوں کو دلاسہ دیا، ان کے غموں کو ہلکا کرنے کی جان توڑ کوشش کی، اپنی پیرانہ سالی، ضعف و نقاہت کے باوجود عالم اسلام کا بار بار دورہ کیا، ریلیف جمع کرکے ان کی باز آبادکاری کا وہ عظیم کارنامہ انجام دیا جسے عموماً تاریخ اسلامی اورخصوصاً گجرات کی لہولہان دھرتی کبھی فراموش نہیں کرسکتی۔
چناں چہ آپ کی زیر صدارت جمعیة نے عبوری راحت، طبی سہولیات، یتیموں اور بیواؤں کی کفالت، تعمیرومرمت مساجد ومکانات اور فراہمی روزگار وغیرہ عنوانات سے جمعیة کی اکتوبر ۲۰۰۲/ تک کی رپورٹ کے مطابق ۱۲/کروڑ ۱۶ لاکھ روپے کا صرفہ ہوچکا ہے۔ اور ”راشٹریہ سہارا یکم مارچ ۲۰۰۶/ کے مطابق ”گجرات کے سیکڑوں ماخوذ افراد کی ضمانتیں، گودھرا کے اسیروں اور بیس نگر کے افراد کی قانونی چارہ جوئی اور دیگر امور کی انجام دہی، اس کے علاوہ مختلف کالونیوں کی مسجدوں اور اسکولوں پر مشتمل ڈھائی ہزار سے زائد مکانوں میں فساد کے متاثرہ اجڑے افراد کو بسانے کا کام کیاجاچکا ہے، نیز ۵۱ گاؤں کے ڈھائی ہزار سے زائد برباد جلائے گئے مکانات کی تعمیر و تجدید کی گئی، کل ملاکر اکیاون سو مکانوں میں ۲۵۰ گاؤں کے افراد آباد ہوچکے ہیں۔
اس مختصر خونی داستان سے حضرت مولانا مرحوم کی غیرمعمولی جرأت وہمت، عزم و استقلال، دوررسی، قوت ارادی، اور تحفظ دین واسلام کی خاطر سب کچھ قربان کرنے کا جذبہٴ خالص، کا پتہ چلتا ہے، روئے زمین پر بہت کم ایسی مثال ملتی ہے کہ جس کی مدح و ستائش کے ترانے اپنوں کے علاوہ مخالفوں کی زبانوں پر بھی ہوں، ․․․ کہنا چاہیے کہ درحقیقت یہ سب کچھ اپنے نامور والد کے روحانی فیض کا کرشمہ اور ان کے بتائے ہوئے الہامی اصول کا مرہون منت تھا جیساکہ ایک موقع پر خود فدائے ملت نے فرمایا تھا: ”میرے والد ماجد شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی نے ہمیں ایمان ویقین اور تحصیل واشاعت دین کے ساتھ وطن عزیز سے عشق، آزادی سے محبت اور انسانوں کی خدمت کی جو راہ دکھائی تھی میری کوشش یہی ہے کہ جب تک زندہ رہوں ان عنوانات پر زندگی کی داستان ترتیب دیتا رہوں“ (گلہائے عقیدت،ص:۲۲) اوراخیر تک آپ اس اصول پر آہنی دیوار کی طرح قائم رہے اورپوری دیانت داری کے ساتھ ملک و قوم کی بے لوث خدمت کرتے رہے اور خدمت کرتے کرتے ۷/محرم الحرام ۱۴۲۷ھ پیر کے دن شام چھ بجے جان جان آفریں کے سپرد کردی۔ انا للّٰہ وانا الیہ راجعون․
ہوا تھی گو تند وتیز لیکن چراغ اپنا جلا رہا تھا
وہ مرد درویش جسکو حق نے دیے تھے انداز خسروانہ
______________________________
ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ2، جلد: 91 ، محرم 1428 ہجری مطابق فروری2007ء