از: مولانا ڈاکٹر محمد عبدالحلیم چشتی
استاذ مشرف قسم التخصص فی علوم الحدیث
جامعہ علوم اسلامیہ بنوری ٹاؤن کراچی
مولانا سید مناظر احسن گیلانی(۱) (۱۸۹۲=۱۹۵۶) نے ”تدوین قرآن“ کے موضوع کے روایتی ذخیرے پر جو شکوک و شبہات پیدا ہوتے ہیں ان کو دور کرنے کے لئے اردو زبان میں ایک مبسوط و ضخیم کتاب لکھی تھی جو ان کے کم و بیش تیس چالیس برس کے مطالعہ و غور و فکر کا حاصل تھا، چنانچہ موصوف کا بیان ہے:
”تقریباً تیس چالیس سال کے مسلسل فکر و تأمل، تلاش و جستجو کے آخری تحقیقی نتائج اس کتاب میں درج ہیں۔ جن لوگوں نے قرآن کے جمع و ترتیب کی متعلقہ روایتوں کا مطالعہ کیا ہے وہ سمجھ سکتے ہیں کہ کتنے فاحش اغلاط اور پیچ در پیچ ہمالیائی مغالطوں کے پہاڑوں کو کتنی آسانی کے ساتھ اُڑادیا گیا ہے۔ شکوک و شبہات کے سارے بادل پھاڑدئیے گئے ہیں اور ناجائز نفع اٹھانے والوں کے لئے کوئی گنجائش باقی نہیں چھوڑی گئی ہے۔“(۲)
کتاب چونکہ مبسوط و ضخیم تھی ان کے شاگردِ رشید و رفیق مولوی غلام ربانی (ایم۔اے عثمانیہ) نے اسے پڑھا اور اس کا خلاصہ تیار کیا مولانا کو دکھایا، انہیں پسند آیا، چنانچہ مولانا گیلانی نے جو اس پر پیش لفظ لکھاہے اس میں موصوف کی اس کامیاب کوشش کو سراہا ہے، اور ان کے استنباطِ نتائج، اسلوبِ اداء اور دل نشین تعبیر کی تعریف کی ہے اور اپنی ضخیم تالیف کا اسے ”جوہری خلاصہ“ قرار دیا اور پھر اپنی اصل تالیف کی اشاعت سے ہاتھ اٹھالیا، چنانچہ خود فرماتے ہیں:
”حق تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ خاکسار کے رفیق محترم مولوی غلام ربانی ایم اے (عثمانیہ) نے اس فقیر سراپا تقصیر کی جگر کاویوں اور دماغ سوزیوں کے ان نتائج کو بڑے پاکیزہ اسلوب اور دل نشین تعبیر میں اس کتاب کے اندرجمع کردیا ہے۔ اگرچہ فقیر نے خود بھی اس عنوان پر مستقل کتاب لکھی ہے، لیکن جہاں تک میرا خیال ہے میری کتاب کے اس ”جوہری خلاصہ“ کے شائع ہوجانے کے بعد اب اصل کتاب کی اشاعت کی چنداں ضرورت باقی نہیں رہی ہے، کیونکہ اس ضخیم و مبسوط کتاب کے اکثر جوہری حقائق، اصولی مشتملات اس مختصر کتاب میں محفوظ ہوگئے ہیں، حق تعالیٰ مولوی غلام ربانی کی اس محنت کا صلہ دین اور دنیا میں عطا کرے۔“(۳)
موصوف کے مذکورہ بیان سے ہمارے اس خیال کی مزید تائید ہوتی ہے کہ مولانا مناظر احسن گیلانی اپنی تصانیف میں اِدھر سے اُدھر نکل جاتے ہیں اور عنوان و موضوع کے پابند نہیں رہتے ہیں، ان کے علم کی وسعت و پنہائی اور قلم کی جولانی موضوع و عنوان کی پابندی کو گوارا نہیں کرتی۔
مولانا مناظر احسن گیلانی نے ”تدوین قرآن، ص:۳۹“ پر حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ (المتوفی ۴۳ھ) کے متعلق حاشیہ میں موٴرّخ اسلام علامہ شمس الدین ذہبی (المتوفی ۷۴۸ھ) کی کتاب ”تذکرة الحفاظ“ کے حوالہ سے یہ نقل کیا ہے:
”اسی سے اندازہ کیجئے کہ عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ، جو علماء بنی اسرائیل میں سے تھے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دست مبارک پر بیعت کی سعادت ان کو حاصل ہوئی توانھوں نے عرض کیا کہ ”قرآن“ کے ساتھ ”تورات“ کی تلاوت بھی جاری رکھوں! آپ نے فرمایا ”اقرأ ہذا لیلةً و ہذا لیلةً“ (یعنی ایک رات قرآن پڑھا کرو اور ایک رات تورات) (تذکرة الحفاظ، ج:۱، ص:۲۶)
طبقات ابن سعد میں بھی ابوالجلد الجونی کے تذکرے میں لکھا ہے کہ سات دن میں قرآن اور چھ دن میں تورات ختم کرنے کا عام دستور اپنے لئے انھوں نے مقرر کیا تھا اور ختم کے دن لوگوں کو جمع کرتے تھے کہ اس دن رحمت نازل ہوتی ہے۔ (ابن سعد، ج:۱/۷، ص:۱۶۱)
اور واقعہ بھی یہی ہے کہ قرآن کی صحیح راہ نمائی میں اس قسم کی کتابوں کے پڑھنے سے جہاں تک میرا ذاتی تجربہ ہے خود قرآن کے سمجھنے میں بھی مدد ملتی ہے۔(۴)
تدوین حدیث میں بھی مولانا گیلانی نے ان دو واقعات کو نقل کرکے اس خیال کا اظہار فرمایاہے اور اپنی اس تحقیق پر اصرار فرمایاہے۔(۵)
اور مولانا مناظر احسن گیلانی کے شاگرد غلام ربانی نے ذیلی سرخی ”قرآن گزشہ آسمانی کتابوں کاآخری ایڈیشن ہے“ کے تحت جو عبارت لکھی ہے:
”بقول حضرت الاستاذ ایک ہی کتاب کو چندآدمی اگر کتب خانہ سے نکالیں تو چند لانے والوں کی وجہ سے کیا وہی ایک کتاب بھی چند ہوجائے گی۔ یقینا کسی مصنف کی کتاب کے چند اڈیشن کو دیکھکر یہ فیصلہ کتنا غلط فیصلہ ہوگاکہ مصنف کی یہ ایک کتاب نہیں بلکہ چند کتابیں بن گئیں۔ واقعہ یہ ہے کہ قرآن تمام آسمانی کتابوں کے ساتھ اپنی اسی نسبت کا مدعی ہے یعنی پچھلی ساری آسمانی کتابوں کا اپنے آپ کو وہ آخری اور مکمل ترین ایڈیشن قرار دیتا ہے اور قوموں کے پاس اس کتاب کے جو پرانے مشتبہ اورمشکوک یا ناقص وغیر مکمل نسخے رہ گئے ہیں ان کے متعلق اس کا صرف یہ مطالبہ ہے کہ اس جدید ترین اور کامل ایڈیشن سے مقابلہ کرکے قومیں اپنی موروثی کتابوں کی تصحیح کرلیں، یہی اور صرف یہی ایک مطالبہ قرآن نے دنیاکی قوموں کے سامنے پیش کیاہے، ظاہر ہے اس مطالبہ کا مطلب کسی حیثیت اور کسی لحاظ سے بھی یہ نہیں ہے کہ دنیا کی قوموں کے پاس آسمانی دین اورمذہب اپنے آباؤ اجداد سے جو پہنچا ہے اس دین سے اور اس دین کا انتساب جن بزرگوں کی طرف ہے ان بزرگوں سے بے تعلق ہوکر قرآن کو بالکلیہ ایک جدید دین اور دھرم کی کتاب کی حیثیت سے مانا جائے یقینا نہ قرآن ہی کا یہ مطالبہ ہے اور نہ قرآن کے ماننے والوں کی طرف سے یہ دعوت دنیا کے سامنے کبھی پیش ہوئی۔“(۶)
یہ متن و حاشیہ دونوں محل نظر ہے۔
اس لئے کہ رسالت مآب … سے پہلے جتنے نبی و رسل بھیجے گئے اور کتابیں اتاری گئی ہیں ان کی کتابیں اور شریعت بھی ایک محدود زمانے تک قابل عمل تھی اس لئے یکے بعد دیگرے کتابیں بھی اتاری جاتی رہیں اور نبی اور رسول بھی بھیجے جاتے رہے اور سابقہ کتابیں منسوخ ہوتی رہیں، تاآنکہ رسول اللہ … کو آخری نبی اورآخری کتاب دے کر بھیجا گیا اور دین و شریعت کی تکمیل کردی گئی۔ قرآن نے کہاہے:
”أَلْیَوْمَ أَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلاَمَ دِیْنًا“(۷)
ترجمہ: ”(اور) آج ہم نے تمہارے لئے تمہارا دین کامل کردیا اور اپنی نعمتیں تم پر پوری کردی اور تمہارے لئے اسلام کو دین پسند کیا۔“(۸)
لہٰذا سابقہ شریعتیں اور کتاب سب قابل اعتبار نہیں رہیں اس لئے کہ ان کی حفاظت ان اقوام کی ذمہ داری تھی۔ قرآن نے کہا:
اِنَّا أَنْزَلْنَا التَّوْرٰةَ فِیْہَا ہُدًی وَّنُوْرٌ․ یَحْکُمُ بِہَا النَّبِیُّوْنَ الَّذِیْنَ أَسْلَمُوْا لِلَّذِیْنَ ہَادُوْا وَالرَّبّٰنِیُّوْنَ وَالْأَحْبَارُ بِمَا اسْتُحْفِظُوْا مِنْ کِتٰبِ اللّٰہِ وَکَانُوْا عَلَیْہِ شُہَدَاءَ فَلاَ تَخْشَوُ النَّاسَ وَاخْشَوْنِ وَلاَتَشْتَرُوْا بِأٰیٰتِیْ ثَمَنًا قَلِیْلاً وَمَنْ لَّمْ یَحْکُمْ بِمَآ أَنْزَلَ اللّٰہُ فَأُولٰئِکَ ہُمُ الْکٰفِرُوْنَ․“(۹)
ترجمہ: ”بیشک ہم ہی نے تورات نازل فرمائی جس میں ہدایت اور روشنی ہے۔ اسی کے مطابق انبیاء جو (خدا کے) فرمانبردار تھے یہودیوں کو حکم دیتے رہے ہیں اور مشائخ اور علماء بھی کیونکہ وہ کتابِ خدا کے نگہبان مقرر کئے گئے تھے اوراس پر گواہ تھے (یعنی حکم الٰہی کی یقین رکھتے تھے) تو تم لوگوں سے مت ڈرنا اور مجھی سے ڈرتے رہنا اور میری آیتوں کے بدلے تھوڑی سی قیمت نہ لینا اور جو خدا کے نازل فرمائے ہوئے احکام کے مطابق حکم نہ دے توایسے ہی لوگ کافر ہیں۔“(۱۰)
سابقہ امتوں نے ان میں لفظی تحریف بھی کی اور معنی بھی بدلے، نہ وہ اپنی اصل زبان میں اور نہ اصل صورت میں محفوظ رہ سکیں، وہ سب ایک زمانے کے لئے اتاری گئی تھیں، قرآن آسمانی کتابوں میں آخری کتاب ہے جوآخری نبی حضرت محمد … پر اتاری گئی تھی آخری نبی تھے ان کی نبوت دائمی اوران کا معجزئہ قرآن بھی دائمی ہے اس کتاب کی موجودگی میں نہ کسی کتاب مروجہ و متداول آسمانی کتاب کی تلاوت کی اجازت ہے نہ اس پر عمل کرنا جائز ہے نہ اس کے پڑھنے پر اجر و ثواب ملے گا نہ برکات ہوسکتی ہے تاہم تقابلی مطالعہ کی اجازت ہے۔
مولانا مناظر احسن گیلانی نے جس روایت سے جواز کی گنجائش نکالی ہے وہ بھی درست نہیں، حافظ شمس الدین ذہبی (المتوفی ۷۴۸ھ) کی اصل عبارت یہ ہے:
”ابراہیم بن أبی یحیی أنا معاذ بن عبدالرحمن عن یوسف بن عبداللّٰہ بن سلام عن أبیہ أنہ جاء الی النبی صلی اللہ علیہ وسلم فقال: انی قرأت القرآن والتوراة فقال: اقرأ ہذا لیلة وہذا لیلة․ فہذا ان صح ففیہ الرخصة فی تکریر التوراة وتدبرہا․“(۱۱)
ترجمہ: ”ابراہیم بن ابی یحییٰ کا بیان ہے کہ ہم سے معاذ بن عبدالرحمن نے بیان کیا، انھوں نے یوسف بن عبداللہ بن سلام سے، انھوں نے اپنے والد عبداللہ بن سلام سے نقل کیا ہے کہ وہ رسالت مآب … کے پاس آئے اور عرض کیا: کہ میں نے قرآن اور تورات دونوں پڑھی ہے، تو آپ … نے فرمایا: کہ ایک رات قرآن پڑھا کرو اورایک رات تورات۔
علامہ ذہبی فرماتے ہیں: کہ اگر یہ روایت درست ہے تو اس میں تورات کو باری باری پڑھنے اوراس میں غور و فکر کی گنجائش نکل سکتی ہے۔“
نیز علامہ شمس الدین ذہبی ”سیر أعلام النبلاء“ میں مذکورہ روایت نقل کرنے کے بعد تحریر فرماتے ہیں:
”اسنادہ ضعیف فان صح، ففیہ رخصة فی التکرار علی التوراة التی لم تبدل، فأما الیوم فلا رخصة فی ذلک الجواز التبدیل علی جمیع نسخ التوراة الموجودة، ونحن نعظّم التوراة التی أنزلہا اللّٰہ علی موسیٰ علیہ السلام، ونوٴمن بہا، فأما ہذہ الصحف التی بأیدی ہوٴلاء الضّلال فما ندری ماہی أصلاً نقف، فلا نعاملہا بتعظیم ولاباہانة؛ بل نقول: آمنا باللّٰہ وملائکتہ وکتبہ ورسولہ ویکفینا فی ذلک الایمان المجمل․ وللّٰہ الحمد․“(۱۲)
ترجمہ: ”اس روایت کی سند ضعیف ہے اگر صحیح بھی مان لی جائے تواس سے وہ تورات مراد ہوگی جس میں تبدیلی و تحریف نہ ہوئی ہو، اورآج کل کی تورات تواس میں یہ رخصت نہیں ہے: کیونکہ موجودہ تورات کے تمام نسخوں میں تحریف کا امکان ہے، ہاں ہم اُس تورات کی تعظیم کرتے ہیں جو حضرت موسیٰ علیہ السلام پر اتاری گئی ہے اوراسی پر ایمان لاتے ہیں اورآج کل جو صحیفے ان گمراہ لوگوں کے پاس ہیں ہمیں معلوم نہیں کہ یہ اصل ہے یا نہیں اسی میں ہم توقف کرتے ہیں، نہ اس کی تعظیم کرتے ہیں اور نہ توہین، بلکہ ہم تویہ کہیں گے کہ ہم اللہ اوراللہ کے فرشتوں اور کتابوں اور رسول پر ایمان لاتے ہیں،اوراس بارے میں ہمارے لئے ایمان مجمل ہی کافی ہے، سب تعریفیں اللہ کے لئے ہیں۔“
نیز علامہ حافظ ذہبی نے ”سیر أعلام النبلاء“ (۱۳)میں حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کے حالات میں اس امر پر مزید روشنی ڈالی ہے، وہ ہدیہ ناظرین ہے:
”ولایشرع لأحد بعد نزول القرآن أن یقرأ التوراة ولا أن یحفظہا لکونہا مبدلة محرّفة منسوخة العمل، قد اختلط فیہا الحق بالباطل، فلیجتنب․ فأما النظر فیہاللاعتبار وللرد علی الیہود، فلا بأس بذلک للرجل العالم قلیلاً، والاعراض أولیٰ․ فأما ماروی من أن النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم أذن لعبد اللّٰہ أن یقوم بالقرآن لیلة وبالتوراة لیلة فکذب موضوع قبّح اللّٰہ من افتراہ و قیل: بل عبداللّٰہ ہنا ہو ابن سلام وقیل: اذنہ فی القیام بہا أی یکرر علی الماضی لا أن یقرأ بہا فی تہجدہ․“
ترجمہ: ”قرآن مجید کے نازل ہونے کے بعد نہ کسی کے لئے تورات کا پڑھنا جائز ہے اور نہ اس کو حفظ کرنا کیونکہ اس میں ردوبدل اور تحریف ہوئی ہے اوراس پر عمل منسوخ ہے اس میں حق و باطل خلط ملط ہے لہٰذا اس سے بچا جائے۔ ہاں تورات کا مطالعہ کرنا اس لئے تاکہ اس کے ذریعہ یہود کے ساتھ بحث و مناظرہ اوران پر ردکرنا آسان ہوتو عالم کے لئے اس میں تھوڑی بہت گنجائش ہے اور بہتر یہ ہے کہ صرفِ نظر کرے۔ اور وہ روایت جس میں آپ … نے حضرت عبداللہ کو ایک رات قرآن پڑھنے اورایک رات تورات پڑھنے کی اجازت دی ہے تو وہ موضوع اور جھوٹ ہے۔ اللہ بُرا کرے جس نے اس کو گھڑا ہے۔ بعض کے نزدیک اس سے مراد عبداللہ بن سلام ہے اور بعض فرماتے ہیں کہ حضور … کی اجازت غور و فکر (تقابلی مطالعہ) کرنے کی ہے نہ کہ تہجد میں اس کی تلاوت کرنے کی۔“
نیز علامہ حافظ نورالدین ہیثمی (المتوفی ۸۰۷ھ) ”مجمع الزوائد“ میں مذکورہ روایت یوں نقل کرتے ہیں:
”عن عبد اللّٰہ بن سلام قال: قلت: یا رسول اللّٰہ قد قرأت القرآن والتوارة والانجیل․ قال: اقرأ بہذا لیلة وہذا لیلة․“
ترجمہ: ”حضرت عبداللہ بن سلام فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ … سے عرض کیا کہ میں نے قرآن اور تورات اورانجیل پڑھی ہیں۔ آپ نے فرمایا: کہ ایک رات قرآن پڑھا کرواور ایک رات تورات و انجیل۔“
اس کے بعد تحریر فرماتے ہیں:
”رواہ الطبرانی فی الکبیر وفیہ من لم أعرفہ عتاب بن ابراہیم وغیرہ․“(۱۴)
ترجمہ: ”اس روایت کو طبرانی نے معجم کبیر میں نقل کیاہے اوراس میں عتاب بن ابراہیم وغیرہ راویوں کو میں نہیں جانتا۔ (یعنی مجہول ہیں)
مذکورہ بالا روایت متصل سند کے ساتھ علامہ حافظ ابونعیم اصفہانی (المتوفی ۴۳۰ھ) نے کتاب ”ذکر اخبار اصبہان“(۱۵) میں اپنی حسب ذیل سند سے نقل کی ہے:
”حدثنا أبی ثنا محمد بن أحمد بن یزید ثنا أحمد بن محمد بن الحسین، حدثنی جدّی الحسین بن حفص ثنا ابراہیم بن محمد بن أبی یحیٰی المدنی ثنا معاذ بن عبدالرحمن عن یوسف بن عبداللّٰہ بن سلام عن أبیہ أنہ جاء الی النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم فقال: انی قرأت القرآن والتورٰہ فقال: اقرأ بہذہ لیلة وبہذا لیلة․“
ترجمہ: ”ابو نعیم کا بیان ہے کہ ہم سے میرے والد عبداللہ بن احمد نے بیان کیا وہ فرماتے ہیں کہ ہم سے محمد بن احمد بن یزید نے بیان کیاان سے احمد بن محمد بن الحسین نے، وہ فرماتے ہیں کہ مجھ سے میرے دادا حسین بن حفص نے بیان کیا، ان سے معاذ بن عبدالرحمن نے، انھوں نے یوسف بن عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہما سے، انھوں نے اپنے والد عبداللہ بن سلام سے ․․․ الخ
علامہ ابن عساکر نے بھی اس واقعہ کو ”تاریخ دمشق“ میں ابو نعیم کی سند سے ذکر کیا ہے۔(۱۵)
(۱) اس سے ثابت ہوتا ہے کہ حافظ ذہبی کو اس روایت کی صحت میں ہی شک ہے۔
(۲) پھر اس کا راوی ”ابراہیم بن ابی یحییٰ“ معتبر اور ثقہ نہیں، جھوٹااور کذاب ہے۔(۱۶)
(۳) نیز اُس صحیح حدیث کے خلاف ہے جس میں رسول اللہ … نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ہاتھ میں تورات دیکھ کر ناراضگی کا اظہار فرمایا تھا۔ وہ روایت یہ ہے:
”وعن جابر أن عمر بن الخطاب رضی اللّٰہ عنہما، أتی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم بنسخة من التوراة، فقال: یارسول اللّٰہ! ہذہ نسخة من التوراة، فسکت فجعل یقرأ ووجہ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یتغیر فقال ابوبکر: ثکلتک الثواکل! ما تری ما بوجہ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم؟ فنظر عمر الی وجہ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فقال: أعوذ باللّٰہ من غضب اللّٰہ وغضب رسولہ رضینا باللّٰہ ربا وبالاسلام دینا وبمحمد نبیا․ فقال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: والذی نفس محمد بیدہ لو بدا لکم موسیٰ فاتبعتموہ وترکتمونی لضللتم عن سواء السبیل، ولو کان حیا وأدرک نبوتی لاتبعنی․“(۱۷)
ترجمہ: ”حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ تورات کا ایک نسخہ لیکر آئے اور حضور … سے عرض کیا کہ یارسول اللہ! یہ تورات کا نسخہ ہے۔ حضور … خاموش رہے، پھر حضرت عمر رضی اللہ نہ نے اس کو پڑھنا شروع کیا اور (غصہ کی وجہ سے) رسول اللہ … کا چہرہ متغیر ہورہا تھا، حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اے عمر تمہارا ناس ہو! حضور … کے چہرہ پر غصہ کے آثار تمہیں دکھائی نہیں دیتے! حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضور … کے چہرہ کی طرف دیکھا اور کہا: میں اللہ اور اس کے رسول کے غصہ سے اللہ کی پناہ چاہتا ہوں۔ ہم اللہ کو رب ماننے پر اور اسلام کو دین تسلیم کرنے پر اور محمد … کو نبی ماننے پر راضی و خوش ہیں۔ رسول اللہ … نے فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے اگر حضرت موسیٰ علیہ السلام تشریف لائے اور تم ان کی اتباع کرو اور مجھے چھوڑ دو تو تم سیدھی راہ سے بھٹک جاؤگے، اور اگر حضرت موسیٰ علیہ السلام زندہ ہوتے اور میری نبوت کا زمانہ پاتے تو میری اتباع کرتے۔“
مذکورہ بالا حدیث سے یہ حقیقت روشن ہوجاتی ہے کہ (تقابی مطالعہ کے علاوہ) ان کتابوں کا پڑھنا درست ہی نہیں اسلئے کہ یہ سب اب منسوخ ہیں، اس لئے کہ ناسخ کی موجودگی میں منسوخ کی کوئی حیثیت ہی نہیں رہتی۔
مناظر احسن گیلانی حضرت عمر کے مذکورہ قصہ کے بارے میں تدوین حدیث میں فرماتے ہیں:
”باقی طبرانی وغیرہ کے حوالہ سے حضرت عمر کے متعلق جو یہ روایت منسوب کی گئی ہے کہ وہ تورات کا ایک مجموعہ آنحضرت … کے سامنے لائے اور عرض کرنے لگے کہ بنی زریق میں مجھے اپنے ایک بھائی سے یہ مجموعہ ملاہے، کہتے ہیں کہ اس حال کو دیکھ کر آنحضرت … کا چہرہ غضبناک ہوگیا، حضرت عمر کو جب اس کا احساس ہوا تو معافی مانگنے لگے۔ آنحضرت … نے فرمایا: ”کہ اس وقت موسیٰ علیہ السلام بھی زندہ رہتے تو بجز میری پیروی کے ان کے لئے بھی کوئی گنجائش نہ ہوتی۔“
جمع الفوائد میں اس روایت کو نقل کرکے لکھا ہے کہ اس کی سند میں ”ابو عامر قاسم بن محمد الاسدی“ ایک شخص ہے دراصل یہ مجہول راوی ہے اس لئے روایت خود بھی مشتبہ ہے نیز یہ ممکن ہے کہ اس یہودی کو بھائی قرار دینے پر عتاب کیاگیا ہو، نیز اور بھی اسباب اس کے ہوسکتے ہیں۔ بہرحال یہ جانتے ہوئے کہ تورات کا نسخہ بہت کچھ محرف ہوچکا ہے پھر قرآن پڑھنے والے کو اسی محرف تورات کی تلاوت کی جو اجازت دی گئی تواس کی وجہ ظاہر ہے کہ محرف تورات کا مصحح تو اس کے پاس موجود ہی تھا یعنی قرآن اور قرآن کو مصحح بناکر جو بھی تورات پڑھے گا کوئی وجہ نہیں ہوسکتی کہ گمراہی میں مبتلاہو بلکہ کچھ فائدہ ہی حاصل کرے گا۔“ (تدوین حدیث، ص:۲۴۹، اردو ایڈیشن، مکتبہ اسحاقیہ کراچی)
تو مولانا گیلانی کا یہ کہنا کہ ”اس کی سند میں ”ابوعامر قاسم بن محمد الاسدی“ ایک شخص ہے دراصل یہ مجہول راوی ہے اس لئے روایت خود بھی مشتبہ ہے“ یہ حقیقت پر مبنی ہے لیکن مولانا نے اس پہلو پر غور نہیں فرمایا کہ حدیث کے اور بھی طرق ہوسکتے ہیں۔
چنانچہ طبرانی کی سند میں مجہول راوی ہے لیکن دارمی کی روایت جو ہم نے نقل کی ہے اس میں کوئی راوی مجہول نہیں۔ دارمی کی سند ملاحظہ ہو:
”أخبرنا محمد بن العلاء، ثنا ابن نمیر عن مجالد، عن عامر، عن جابر، أن عمر بن الخطاب ․․․ الخ“
فتح المنان شرح دارمی میں اس سند کے بارے میں لکھتے ہیں:
”واسناد الأثر علی شرط الصحیح غیر مجالد وقد أخرج لہ مسلم فی المتابعات والشواہد فالحدیث صحیح لغیرہ، ومما یدل علی قوة اسنادہ صنیع الامام البخاری رحمہ اللّٰہ، حیث بوّب لہ فی الاعتصام من الصحیح․ فقال: باب قول النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم: لاتسألوا أہل الکتاب عن شیء․“
قال الحافظ: ہذہ الترجمة لفظ حدیث أخرجہ أحمد والبزار من حدیث جابر․․․ وذکرہ ثم قال: ورجالہ موثقون الا أن مجالد صغیف، واستعملہ فی الترجمة لورود ما یشہد بصحتہ من الحدیث الصحیح․
ترجمہ: ”اس حدیث کی سند صحیح کے درجے کی ہے مجالد کے علاوہ (اس کے تمام راوی صحیحین کے ہیں) امام مسلم نے مجالد کی حدیث متابعات اور شواہد میں ذکر کی ہے اس بناء پر یہ حدیث صحیح لغیرہ ہے، امام بخاری نے صحیح بخاری میں کتاب الاعتصام میں جو باب باندھا ہے ”باب قول النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم لاتسألوا أہل الکتاب عن شیء“ امام بخاری کے اس طرزِ بیان سے بھی اس حدیث کی سند کو تقویت ملتی ہے، چنانچہ حافظ ابن حجر اس باب کے تحت شرح کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ”یہ اس حدیث کا ٹکڑا ہے جس کو بزار اور امام احمد نے روایت کیا ہے“ اور حضرت جابر کی پوری حدیث ذکر کرنے کے بعد تحریر فرماتے ہیں ”کہ اس سند کے راوی تمام ثقہ ہیں سوائے مجالد کے کہ وہ ضعیف ہے، اور امام بخاری نے ترجمة الباب میں اس وجہ سے لائے ہیں کہ اس حدیث کے اور شواہد بھی ہیں جس کی وجہ سے یہ حدیث صحیح کے درجے کو پہنچ گئی ہے۔“
اس کے بعد صاحب فتح المنان نے مسند احمد، مسند بزار، مصنف بن ابی شیبہ، جامع بیان العلم والفضل، مسند ابی یعلی موصلی، مصنف عبدالرزاق، فضائل القرآن لابن الفریس، شعب الایمان، جامع لاخلاق الراوی وآداب السامع سے اس تائید میں تین احادیث بطور شواہد نقل کی ہے۔ (تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو: فتح المنان، ج:۳، ص: ۱۹۱ تا ۱۹۴)
مذکورہ بالا دونوں حدیثیں خبر آحاد ہیں، دونوں میں تعارض ہے پہلی حدیث سند کے اعتبار سے متکلم فیہ ہے جس کے راوی پر جرح ہے۔ اور دوسری سند اور متن کے اعتبار سے درست ہے اس لئے وہی قابل ترجیح اور قابل عمل ہے۔
مولانا گیلانی نے توریت کی تلاوت کی تائید میں ایک حسب ذیل واقعہ یہ نقل کیا ہے جو ہدایہ ناظرین ہے:
”قال: أخبرنا سلیمان بن حرب قال: حدثنا حماد بن زید عن میمونة بنت أبی الجلد قالت: کان أبی یقرأ القرآن فی کل سبعة أیام ویختم التوراة فی ستة یقروٴہا نظراً فاذا کان یوم یختمہا حشد لذلک ناس، وکان یقول: کان یقال: تنزل عند ختمہا الرحمة“(۱۸)
ترجمہ: ”سلیمان بن حرب بیان کرتے ہیں کہ ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا، انھوں نے میمونہ بنت ابی الجلد سے نقل کیا ہے وہ فرماتی ہیں کہ میرے والد ابوالجلد سات دن میں قرآن ختم کرتے اور چھ دن میں تورات کو دیکھ کر ختم کرتے، جب ختم والادن ہوتا تو کچھ لوگ ختم کے لئے جمع ہوجاتے، اور ابوالجلد فرماتے تھے کہ کہا جاتا تھا کہ ختم کے دوران رحمت اُترتی تھی۔“
(۱) تو یہ کسی صحابی اورفقیہ کا عمل نہیں۔
(۲) اور یہ ان کا انفرادی عمل ہے۔
(۳) اس میں چند عام آدمی آجاتے تھے اس میں کسی بڑے عالم اور فقیہ کی شرکت ثابت نہیں۔
(۴) یہ ان کی اپنی رائے اور اپنا خیال ہے۔
(۵) نہ اس کا کوئی چرچا تھا۔
مولانا گیلانی نے اپنے جس تجربہ کا ذکر کیا ہے کہ ”اس قسم کی کتابوں کے پڑھنے سے جہاں تک میرا ذاتی تجربہ ہے خود قرآن کے سمجھنے میں بھی مدد ملتی ہے۔“ (۱۹) تو یہ تقابلی مطالعہ کی بات ہے اسکا کوئی منکر نہیں ورنہ یہ کہ اسکی تلاوت کی جائے اوراس سے رحمت اترتی ہے اسکا کوئی قائل نہیں۔
یہ تدوین قرآن کا ”جوہری خلاصہ“ مولانا گیلانی کی تصنیف نہیں اس لئے اس میں مولانا کی زبان کا لطف نہیں ہے۔
مولانا گیلانی کی بعض دوسری آراء بھی ہیں جس سے محققین کو اتفاق نہیں۔ جیسے کہ تدوین الحدیث ص:۱۹۱ بزبان عربی از ڈاکٹر مولانا عبدالرزاق اسکندر صاحب، تخریج ومراجعت ڈاکٹربشّار عوّاد معروف۔
”تدوین قرآن“ کا یہ ”جوہری خلاصہ“ جو پاکستان کراچی میں آج سے ۱۹ سال قبل شائع ہوا تھا مولوی محمد امین بن صابر حسین (اللہ انہیں خوش رکھے) اسے از سرِ نو شائع کررہے ہیں۔ ان کی یہ سعی لائق تحسین اور قابل مبارک باد ہے۔ اُمید ہے کہ طلبہ اور اہلِ ذوق اس سے فائدہ اٹھائیں گے۔
حواشی:
(۱) مولانا کے حالات اور ان کے کمالات اور تالیفات کے متعلق ”ہزارسال پہلے“ کے مقدمے میں ہم لکھ چکے ہیں۔
(۲) تدوین قرآن، ص:۳۴۔
(۳) تدوین قرآن،ص:۳۴۔
(۴) تدوین قرآن، ص:۳۹-۴۰۔
(۵) ملاحظہ ہوتدوین حدیث ،ص: ۲۴۸-۲۴۹، اردو ایڈیشن، ص:۲۱۱، عربی ایڈیشن۔
(۶) تدوین قرآن، ص:۳۹۔
(۷) سورہ مائدہ:۳۔
(۸) ترجمہ فتح محمد جالندھری۔
(۹) سورة مائدہ:۴۴۔
(۱۰) ترجمہ فتح محمد جالندھری۔
(۱۱) تذکرة الحفاظ،ج:۱، ص:۲۷۔
(۱۲) سیر أعلام النبلاء، ج:۲، ص: ۴۱۹، طبع موسسة الرسالة طبع سوم ۱۴۰۵ھ۔
(۱۳) سیر أعلام النبلاء، ج:۲، ص:۸۶-۸۷، طبع موسسة الرسالة طبع سوم ۱۴۰۵ھ۔
(۱۴) مجمع الزوائد، ۲/۲۷۰۔
(۱۵) ج:۱، ص:۸۴، مطبوعہ بریل لیڈن ۱۹۳۱/۔
(۱۶) ملاحظہ ہو: تہذیب تاریخ دمشق الکبیر، ج:۷، ص:۴۵۰، طبع داراحیاء التراث العربی طبع سوم ۱۴۰۷ھ۔
(۱۷) مزید ملاحظہ فرمائیں: تقریب التہذیب، ج:۱، ص:۵۷ مع تعلیق محقق خلیل مامون شیخا طبع دارالمعرفة بیروت لبنان، طبع ۱۴۲۲ھ۔
(۱۸) رواہ الدارمی، مشکوٰبشرح المرقات لملاعلی القاری، ج:۱، ص:۴۳۹، طبع حقانیہ ملتان، فتح المنان شرح کتاب الدارمی، ج:۳، ص: ۱۹۱، طبع دارالبشائر بیروت طبع اول ۱۴۱۹ھ۔
(۱۹) طبقات ابن سعد، ج:۷، ص: ۲۲۲، طبع دارالفکر بیروت۔
______________________________
ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ11، جلد: 90 ،شوال المکرم1427 ہجری مطابق نومبر2006ء