حرفِ آغاز
حبیب الرحمن اعظمی
کوئی باخبر انصاف پسند اس سچائی کااعتراف کئے بغیر نہیں رہ سکتا کہ اسلام اپنے ابتدائے قیام سے یہود ونصاریٰ کی چیرہ دستیوں کاشکار ہوتا رہا ہے اور ان دونوں نے کبھی بھی سیرچشمی کے ساتھ مسلمانوں کے حق زندگی کو گوارا نہیں کیا ہے۔ انھوں نے اپنی اسی معاندانہ خصلت کی بناء پر جبر و تشدد اور دہشت گردیوں کے ذریعہ مسلمانوں سے ان کے زندہ رہنے کا حق چھیننا چاہا اور اپنی وحشیانہ خونریزیوں سے ان کے نام ونشان کو کارگاہ حیات سے مٹادینے کی کوششیں کیں، کبھی داعیٴ اسلام محسن انسانیت اور پیغمبر اعظم کی پاکیزہ و مثالی زندگی کو تنقیص و توہین کا نشانہ بنایا، تو کبھی تحقیق اور ریسرچ کے پرفریب عنوان سے اسلام کے اصل سرچشموں یعنی کتاب الٰہی کی حقانیت اور حدیث نبوی (علی صاحبہا الف الف تحیہ) کی صداقت پر تشکیک و انکار کے تیر و نشتر چلائے، کبھی اسلامی تاریخ کا حلیہ بگاڑنے کی مہم برپا کی گئی توکبھی اسلام کی ہدایت آفریں تعلیمات کی تضحیک و تشنیع کاغیرمہذب منصوبہ بروئے کار لایاگیا غرضیکہ اسلام اور اس کا کلمہ پرھنے والوں کے دائرئہ اثر و نفوذ کو تنگ سے تنگ تر بنادینے ہی کے لئے نہیں بلکہ ان کے زندہ رہنے کے حق پر شب خون مارنے کے لئے کسی بھی تدبیر، حیلہ، مکر، فریب، سازشیں افترا پردازی، اور دہشت گردی سے گریز نہیں کیاگیا، جس کا سلسلہ تاہنوز جاری ہے، اوراسلام دشمنی کی اس جاری مہم کی زمام قیادت آجکل امریکہ کے صدربش کے ہاتھوں میں ہے جنھیں اسرائیل، یورپ اور اقوام متحدہ کی بھرپور حمایت حاصل ہے۔ بش کے متعلق اس بارے میں دو رائے نہیں ہوسکتی کہ وہ اسلام ومسلم دشمنی میں اپنے پیش روؤں سے بہت آگے ہیں۔
چنانچہ اسی اسلام دشمنی کے زیر اثر افغانستان میں طالبان حکومت پر امریکہ اوراس کے اتحادیوں نے القاعدہ کاجھوٹا بہانہ بناکر حملہ کردیا جس میں ہزاروں بے گناہ بوڑھے، بچے، عورتیں اور عام شہری بارود کے دہکتے شعلوں کی نذر کردئیے گئے،اور بے تحاشا زہریلے گولے برساکر پورے ملک کو کھنڈر بنادیاگیا اب خدا ہی جانے کب تک وہاں کے باشندے دوسروں کے دست نگر رہیں گے، اور یہ غیور ملک کب تک کس مپرسی کی ذلت میں مبتلا رہے گا۔
افغانستان کی اس عمومی تباہی کی حسرت خیز غمناک یادیں ابھی بڑی حدتک تازہ تھیں کہ امریکہ اور اس کے حمایتیوں نے عالم اسلام کے ایک اور باوقار اور بچند وجوہ لائق شمار ملک عراق پر دھاوا بول دیا اوراس ناحق حملہ کو جائز بتانے کے لئے ایک ایسے جھوٹ کا سہارالیاگیا جس کے جھوٹ ہونے کا اعتراف خود ان جھوٹوں کو بھی ہے۔ بہرحال دیکھتے دیکھتے اسلامی آثار کی حامل عراق کی مقدس سرزمین عراقیوں کے خونِ ناحق سے رنگین بنادی گئی اور نہ صرف یہ کہ وہاں کی ۲۳ سالہ جائز حکومت کا تختہ پلٹ دیاگیا بلکہ کھاتے پیتے عراق کو نان شبینہ کا محتاج بنادیاگیا اور اس کے صدیوں سے محفوظ اسلامی نوادرات کو لوٹ کھسوٹ کر تباہ و برباد کردیاگیا۔ اور برسوں گذرجانے کے بعد بھی وہاں امن قائم نہیں ہوسکا ہے۔
افغانستان اور عراق کو تہس نہس کرنے کے بعد اب ان اسلام دشمنوں کی نظریں ایران و شام پر لگی ہوئی ہیں۔ اور ان پر حملہ کے لئے بہانے تراشے جارہے ہیں اس صورتِ حال کے پیش نظر نہیں کہا جاسکتا کہ مصراور سعودیہ عربیہ ان کی دہشت گردیوں کی گرفت سے کب تک محفوظ رہ سکیں گے۔
ایک طرف مسلم ممالک کی تاراجی اور مسلمانوں کی خون ریزی کا یہ وحشیانہ سلسلہ جاری ہے تو دوسری طرف مسلمانوں کے عقیدہ اور انھیں فکری طور پر انتشار و ہیجان میں مبتلا کرنے کی غرض سے قرآن حکیم کی آیات میں چھیڑ چھاڑ کرکے نعوذ باللہ قرآن کا جدید ایڈیشن شائع کراکر مسلم آبادیوں میں پھیلایا جارہا ہے۔ انکار حدیث کی قدیم فرسودہ مہم کو از سر نو زندہ کیاجارہا ہے، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت کو مجروح کرنے کی غرض سے ویڈیوفلمیں تیار کرائی جارہی ہیں، اسلامی تعلیمات و احکام کا مذاق اڑانے کے لئے عورتوں سے نماز کی امامت کرائی جارہی ہے۔ اسی کے ساتھ مستشرقین و مستغربین کی ایک فوج ہے جس پر سالانہ اربوں ڈالر خرچ کیاجاتا ہے۔ یہ لوگ مسلمانوں کے دل و دماغ سے اسلامی تعلیمات کی وقعت و اہمیت کو ختم کرنے اور انہیں دین و مذہب سے بیزار کرنے کے لئے علم و تحقیق کے نام سے اسلامی احکام و عقاید میں شکوک و شبہات پیدا کرتے رہتے ہیں، یہ لوگ اپنے پرفریب دعوؤں کے ذریعہ عالم اسلام کو یہ باور کرانے کی سعی کرتے ہیں کہ اسلام کی چودہ سوسالہ قدیم تعلیمات عصر حاضر کی تہذیب و تمدن کا ساتھ دینے سے قاصر ہے لہٰذا وقت کے تقاضا کے مطابق اسلام کی تشکیل جدید، اور قرآن و سنت نیز فقہ اسلامی کی از سر نو تفسیر و تشریح کی جانی چاہئے، یورپ و امریکہ کی تیار کردہ یہ فوج دین اسلام کی اصل صورت اوراسکے خوب تر قالب کو مسخ کرنے کیلئے اجتہاد مطلق کانعرہ بلندکرتی ہے، اس کے نزدیک اس اجتہاد مطلق کا حق ہر اس شخص کو حاصل ہے جو کسی بھی زبان میں قرآنِ حکیم اور حدیث رسول کے تراجم پڑھ لینے کی اہلیت رکھتا ہے۔
یہ مستشرقین اوران کے تربیت یافتہ مستغربین تفسیر، حدیث، فقہ، کلام، تصوف، سیرت، تاریخ وغیرہا اسلامی علوم و فنون میں سلف صالحین، فقہائے مجتہدین، اکابر محدثین اور علمائے دین کی ابتک کی گرانقدر خدمات اور بے مثال علمی و دینی کارناموں کو اپنے خود ساختہ اصولوں بلکہ واضح لفظوں میں دجل و فریب کے تحت تنقید و تنقیص کا نشانہ بناتے رہتے ہیں اور اپنے اس غیر معقول رویہ سے اسلامی دنیاکو یہ تاثر دینے کی کوشش کرتے ہیں کہ ان کے علماء کی یہ علمی کاوشیں بحث وتحقیق کے معیار پر پوری نہیں اترتیں اس لئے یہ کسی درجہ میں بھی لائق اعتناء نہیں ہیں اپنے اس پرفریب حربہ کے ذریعہ وہ سلف صالحین و علمائے دین سے امت مسلمہ کے رشتہ کو کاٹ دینا چاہتے ہیں، کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ اس رشتہ کے ٹوٹ جانے کے بعد ان کے دینی رخ اور سمت سفر کو سہولت کے ساتھ بدلا جاسکتا ہے۔ ان کی اس تلبیسی مہم کو الیکٹرانک میڈیا کی ہمہ گیر شرکت حاصل ہے جس کی وجہ سے اسکے مسموم اثرات سے دنیا کا کوئی خطہ محفوظ نہیں ہے۔
ان تفصیلات اور بین الاقوامی حالات و واقعات سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اسلام اور قوم مسلم کو ہر چہار جانب سے نرغے میں لینے کا عمل منظم طور پر پوری قوت سے جاری ہے۔ ظاہر ہے یہ جارحانہ یورش حکومتی پیمانہ پر ہورہی ہے تواس کا مقابلہ بھی حکومت کے پیمانہ پر ہی کیاجاسکتا ہے، لیکن مسلم ممالک اور ان کی حکومتوں کا اس وقت جو حال ہے وہ سب پر عیاں ہے ان ملکوں میں سے ایک اچھی خاصی تعداد کو قدرت نے اپنی فیاضیوں سے اس قدر نوازا تھا کہ وہ آسانی کے ساتھ اسلام کے دفاع کی طاقت و قوت فراہم کرسکتے تھے، مگر افسوس کہ انھوں نے عیش کوشیوں اور خرمستیوں میں اپنا سب کچھ گنوادیا اور اب صورت حال یہ ہے کہ وہ خود اپنی بقا و تحفظ کیلئے غیروں کا سہارا ڈھونڈھتے ہیں۔ اسلئے بجا طور پر یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ عصرحاضر میں اسلام اوراس کے علم بردار ایک ایسے سنگین بحران میں مبتلا ہیں جو اپنی مثال آپ ہے۔
ایسے ہمہ گیر بحرانی حالات میں بظاہر یہی ایک راہ نجات ہے کہ عام مسلمانوں کے ایمان و عقیدہ کی حفاظت کے لئے خود اہل ایمان اپنے اپنے طور پر کوشش کریں، بطور خاص علمائے دین عامة المسلمین سے اپنے روابط بڑھائیں، مسلم بستیوں میں جاجاکر انہیں ایمان و اسلام کی عظمت و حرمت سے آشنا بنائیں، اپنے کردار و عمل اور وعظ وتذکیر سے ان کے اندر دین کی سچی لگن پیدا کردیں اور انہیں اسلام کا ایسا گرویدہ بنادیں کہ سخت سے سخت حالات میں بھی ان کے پائے استقلال میں لغزش نہ آنے پائے۔ اگر مسلمان واقعی معنوں میں مسلمان بن جائے تو انشاء اللہ غارتگرانِ اسلام کی ساری سازشیں ناکام ہوجائیں گی۔ ملک و دولت تو ایک آنی جانی چیز ہے ہمارا اصل سرمایہ تو ایمان واسلام ہے ۔ شاید علامہ اقبال نے ایسے ہی موقع کے لئے یہ شعر کہا تھا۔#
اگر ملک جاتا ہے ہاتھوں سے جائے
تو فرمانِ حق سے نہ کر بیوفائی
ہمیں ہماری طاقت و قوت کے مطابق مکلف بنایا گیاہے اور بحالت موجودہ بلاشبہ ہمارے اندر اس کی قدرت ہے کہ ہم مسلمانوں کے ایمان کی حفاظت کی جدوجہد کریں اسلئے حالات کا شکوہ اوراس پرآنسو بہانے کے بجائے ہمیں اپنی استطاعت کے مطابق جدوجہد کرنی چاہئے، اگر پوری استقامت کے ساتھ ہم نے اپنی جدوجہد جاری رکھی اور عام مسلمانوں کے اندراسلام و ایمان کی سچی وابستگی پیدا کردی تو ربّ کائنات آگے کی راہیں خودکھولدیں گے۔ ہادیٴ عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے عمل سے کام کی ترتیب یہی بتائی ہے مکہ کی تیرہ سالہ سنت نبوی علی صاحبہا الف الف تحیہ ہمارے لئے نمونہٴ عمل ہے۔
______________________________
ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ1، جلد: 90 ،ذی الحجہ1426 ہجری مطابق جنوری2006ء