محدِّثِ جلیل حضرت مولانا مفتی سعیداحمد پالنپوری نوراللہ مرقدہ

شیخ الحدیث دارالعلوم دیوبند کا ایک یادگار حکیمانہ خطاب

جمع و ترتیب:مفتی محمد خالد حسین نیموی قاسمی

 سابق صدرالمدرسین دارالعلوم الاسلامیہ، پٹنہ

            (پس منظر: محدث جلیل حضرت مولانا مفتی سعیداحمد پالن پوری علیہ الرحمہ مورخہ ۷ ا/ذی الحجہ۱۴۲۱ھ کوقدیم دینی وملی تنظیم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ تشریف لائے۔ وہاں آپ نے سابق صدر مسلم پرسنل لا بورڈ حضرت مولانا قاضی مجاہدالاسلام قاسمی نوراللہ مرقدہ کی عیادت فرمائی اور ذمہ داران امارت شرعیہ کی خواہش پر آپ نے بعد نماز عشاء المعہدالعالی ہال میں افتاء وقضاء کے طلبہ اور دارالعلوم الاسلامیہ کے طلبہ سے انتہائی بصیرت افروز خطاب فرمایا۔

            اجلاس کی صدارت دارالعلوم دیو بند کے معزز رکن شوری امیر شریعت حضرت مولانا سید نظام الدین جنرل سیکرٹری آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے کی اور نظامت کے فرائض بندہ خالد نیموی قاسمی نے انجام دیے۔

            اس جامع دینی خطاب کو بندہ نے محفوظ کر لیا تھا۔ترتیب جدید کے بعد افادئہ عام کے لیے شائع کیا جارہا ہے۔)

            ”الحمد للّٰہ رب العالمین والصلاة والسلام علی سیدنا محمد النبی الامین وعلی آلہ وصحبہ اجمعین!

            انسان اشرف المخلوقات ہے، اس کی اشرفیت و افضلیت کی دلیل یہ ہے کہ اس نے اس بارِ امانت کو اٹھالیا ہے؛ جس کا تذکرہ اس آیت کریمہ میں ہے :

            إِنَّا عَرَضْنَا الْأَمَانَةَ عَلَی السَّمَٰوَٰتِ وَالْأَرْضِ وَالْجِبَالِ فَأَبَیْنَ أَن یَحْمِلْنَہَا وَأَشْفَقْنَ مِنْہَا وَحَمَلَہَا الإِنسَٰنُ إِنَّہُ کَانَ ظَلُومًا جَہُولًا․

            یعنی بے شک ہم نے اپنی امانت آسمانوں اور زمین اور پہاڑوں پر پیش کی، تو انھوں نے اسے اٹھانے سے انکار کردیا اور اس سے ڈر گئے اور انسان نے اسے اٹھا لیا، وہ بے شک بڑا ہی ظالم، نادان تھا۔( الاحزاب :۷۲)

            اس آیت کریمہ کی تشریح وتفسیر کی آپ جیسے اہل علم کے سامنے چنداں حاجت نہیں۔ اس کے چند ٹکڑے اشارتاً ذکر کرتا ہوں، جس سے ساری آیت خود بخود سمجھ میں آجائے گی۔ امانت کیا ہے؟:

             مذکورہ آیت میں ایک محوری لفظ ہے ”امانت“ ”انا عرضنا الامانة“ میں امانت کے معنی تقریباً وہی ہیں جو اردو میں ہیں ، اردو میں امانت کہتے ہیں حفاظت کی ذمہ داری کو، کسی بھی چیز کی حفاظت کی ذمہ داری کو امانت کہتے ہیں۔ آپ حضرات انگریزی پڑھتے ہیں؛ اس لیے انگریزی لفظ استعمال کروں کہ رسپونسی بلیٹی(Responsibility) امانت کی انگریزی تفسیر ہے۔

             مشہور حدیث ہے ، لا ایمان لمن لا أمانة لہ۔ جس شخص میں امانت نہیں ہے۔ اس میں ایمان نہیں ہے۔ اس حدیث شریف میں امانت کا لفظ اسی معنی میں آیا ہے۔ ایک شخص ہے، ہم نے اس سے ایک بات کہی۔ اس سے یہ کہا کہ بھائی صاحب! یہ بات کسی سے مت کہنا۔ اب یہ بات اس کے پاس امانت ہے۔ یعنی اس کی حفاظت کی ذمہ داری اس پر ہے ، اب اگر وہ اس بات کو آگے بڑھاتا ہے، کسی دوسرے سے کہتا ہے؛ تو یہ امانت میں خیانت ہے ، ایک آدمی کے پاس آپ نے پیسہ رکھا، زر رکھا ، سونارکھا ، چاندی رکھی، یا کوئی اور قیمتی چیز رکھی کہ میرا گھر محفوظ نہیں ہے؛ اس لیے اسے آپ رکھ لیں، میں سفر پرجارہا ہوں؛ اسے آپ رکھ لیں ، یہ امانت ہے۔ یعنی اس چیز کی حفاظت کی ذمہ داری اس شخص پر ہے۔ یہ میں نے چند چیزیں ذکر کیں؛ تاکہ آپ لفظ امانت کا مفہوم سمجھ سکیں کہ امانت کیا چیز ہے؟

            کوئی چیز ہوتی ہے اس کی حفاظت کی ذمہ داری کا نام امانت ہے۔ وہ چیز کیا ہے ؟ وہ آپ حضرات سمجھتے ہیں۔

             اللہ جل شانہ نے پہلے انسان ابو البشر حضرت آدم علیہ السلام سے لے کرنبی پاک علیہ الصلوٰة والسلام تک انبیاء کرام کے ذریعے آسمانوں سے جو ہدایت بھیجی آسمانوں سے جو دین بھیجا ہے، یہی وہ عظیم شئے ہے؛ جس کی حفاظت کرنے کا نام امانت ہے، ظاہر ہے کہ یہ کوئی محسوس چیز تو ہے نہیں کہ مثلا یہ گھڑی رکھی ہے، اسے بکسے میں بند کر دیا۔ محفوظ جگہ رکھ دیا یا مثلاً چابی ہے؛ تو اسے جیب میں رکھ لیا تاکہ گھڑی اور چابی کی حفاظت ہو جائے، یہ تو اس طرح کی چیز نہیں ہے۔ اللہ نے جو دین بھیجا ہے وہ اپنی جگہ پر حقیقت ہے، وہ ایک ایسی چیز ہے جس کی حفاظت کی شکل یہ نہیں کہ اسے تالے میں بند کر کے جیب میں اس کی چابی رکھ لی جائے؛ بلکہ اس کی شکل کوئی اور ہے۔ یہ ایک لفظ، لفظ ِامانت کی شرح ہے۔

عرض ”امانت“ کا مفہوم

             دوسرا لفظ ہے ”عرضنا“ یعنی پیش کیا ہم نے۔ پیش کرنا کیا ہے؟ کبھی مجلس میں تھالی لے کر کوئی ملازم آتا ہے؛ اس تھالی میں سونف ہے، چھالی ہے ، لونگ، الائچی وغیرہ ہے اور سب کے سامنے گھماتا گھماتا لے چلتا ہے، جس کی خواہش ہے، اسے لے گا اور جسے خواہش نہیں وہ چب چاپ بیٹھا ر ہے گا اور تھالی آگے بڑھ جائے گی۔

            حضرت شاہ ولی اللہ صاحب محدث دہلوی قدس سرہ نے حجة اللہ البالغہ میں حضرت قاضی بیضاوی اور امام غزالی کے حوالے سے یہ بات لکھی ہے کہ پیش کرنے کا مطلب ”مخلوقات کی استعدادوں کے ساتھ موازنہ کرنا ہے“کہ اس امانت کو اٹھانے کی استعداد و صلاحیت کس میں ہے؟یہ جو موازنہ کیا گیا ہے اس کا خلاصہ پیش کرنا ہے۔ ایسا کوئی محسوس نہیں ہے کہ اس امانت کو رکھ کر سارے مخلوق کے سامنے لے گئے ہوں، ایسا نہیں ہے۔ یہاں مفہوم معنوی طور پر پیش کرنا ہے اور وہ ہے استعدادوں کے ساتھ موازنہ کرنا۔

 تحمل امانت سے انکار

            تیسرا لفظ ہے ۔”فابین ان یحملنہا“ آسمانوں اور زمین نے اور پہاڑوں نے انکار کر دیا اس امانت کو اٹھانے سے۔ مراد یہ تین ہی مخلوقات نہیں ہیں ، یہ تو انسانوں کے سامنے جو بڑی بڑی مخلوقات ہیں، ان کا تذکرہ ہے۔ ”علی السموات والارض والجبال“ فرمایا آپ غور کیجئے! آپ اوپر نگاہ اٹھائیے! کہ آسمان سے بڑی طاقتور دیر پا کوئی مخلوق نہیں ہے ، پیروں کی طرف دیکھیے! تو زمین سے زیادہ مضبوط اور دیر پا کوئی دوسری مخلوق نہیں ہے اور بیچ میں آسمان کے نیچے فلک بوس پہاڑ کھڑے ہوئے ہیں۔ معلوم نہیں کب سے کھڑے ہیں۔ جب سے زمین پیدا ہوئی کھڑے ہیں اور اپنی جگہ سے ٹس سے مس نہیں ہورہے ہیں؛ لہٰذا ان تین مخلوقات کی استعدادوں کے ساتھ موازنہ کرنے کا مطلب ہے تمام مخلوقات کے ساتھ موازنہ کرنا۔ کون سی مخلوقات مراد ہیں؟ تو سمجھیے کہ یہاں نورانی مخلوق یعنی وہ جو آسمانوں کے فرشتے ہیں وہ زیر بحث نہیں۔ اس سے مراد زمینی مخلوقات ہیں۔ چرند ہوں ، پرند ہوں ، کیڑے ہوں، مکوڑے ہوں۔ خاک کے ذرے ہوں، شجر ہوں ، حجر ہوں۔ تمام مخلوقات کے سامنے یہ امانت پیش کی گئی۔ یعنی ان کی صلاحیتوں کے ساتھ موازنہ کیا گیا؛ چنانچہ دنیا کی کسی بھی مخلوق میں اس امانت کو اٹھانے کی استعداد نہیں پائی گئی۔ یہ جو استعداد نہیں پائی گئی، یہی انکار کرنے کا مطلب ہے۔

            یہ بات حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمة اللہ علیہ نے قاضی بیضاوی اور امام غزالی کے حوالے سے لکھی ہے کہ اس آیت میں اباء کا مطلب اباء طبعی ہے۔ یعنی ان میں سے کسی میں یہ استعداد نہیں پائی گئی۔ اباء اختیاری اور ابا ء قولی مراد نہیں؛ اس لیے کہ اباء قولی اگر کوئی مخلوق کرتی ہے تو وہ انسان کرتا ہے۔ انسان کے علاوہ کوئی بھی مخلوق اباء قولی نہیں کرتی ہے۔ قرآن کریم میں ہے کہ اللہ کے لیے سجدہ ریز ہیں تمام چیزیں – : اَلَم تَرَ اَنَّ اللَّہ یَسجْدْ لَہ مَن فِی السَّمَٰوَٰتِ وَمَن فِی الاَرضِ وَالشَّمسْ وَالقَمَرْ وَالنّْجْومْ وَالجِبَالْ وَالشَّجَرْ وَالدَّوَابّْ وَکَثِیرٌ مِّنَ النَّاسِ وَکَثِیرٌ حَقَّ عَلیہ العَذَابْ وَمَن یھِنِ اللَّہْ فَمَا لَہ مِن مّکرِمٍ اِنَّ اللَّہ یَفعَلْ مَا یَشَاء(الحج : ۱۸)یعنی کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ جو آسمانوں میں ہیں اورجو زمین میں ہیں اور سورج اور چاند اورستارے اور تمام پہاڑ اور درخت اور چوپائے اور بہت سے آدمی یہ سب اللہ کو سجدہ کرتے ہیں اور بہت سے لوگ وہ (بھی)ہیں جن پر عذاب مقرر ہوچکا ہے اور جسے اللہ ذلیل کرے تواسے کوئی عزت دینے والا نہیں ، بیشک اللہ جو چاہتا ہے کرتا ہے۔

             یہاں نجوم ، شجر اور جبال کے ساتھ ”وکثیر من الناس“ ہے؛ اس لیے کہ اباء قولی صرف انسان میں پایا جاتا ہے دوسری کسی مخلوق میں یہ صفت نہیں پائی جاتی ہے۔ انسان کے علاوہ خدا کی جو مخلوق آسمان و زمین کے درمیان ہے وہ ہمہ وقت اللہ کی تسبیح میں لگی ہوئی ہے۔ لہٰذا وہ مخلوق تو ہمہ وقت اللہ کی تسبیح خواں ہے ، اس سے یہ امید کرنا، ان سے یہ توقع کرنا کہ وہ انکار کرے ، یہ درست نہیں ہوسکتا۔

            ”ابین“ کا مطلب ہے۔ اباء طبعی، یعنی موازنہ کرنے کے عمل سے یہ ثابت ہوا کہ کسی مخلوق میں اس امانت کو اٹھانے کی صلاحیت نہیں ہے اس کی حفاظت کرنے کی استعداد ان میں نہیں پائی گئی۔

             آیت کریمہ کا اگلا حصہ ہے ”واشفقن منھا“

            پہلے یہ سمجھیے! کہ نہ پائے جانے کے بھی کئی درجے ہیں، کسی ایک چیز کے نہ پائے جانے کی استعداد کے بھی درجے ہیں ، ایک درجہ ہے صفر اور ایک ہے زیرو صفر۔ یا پوائنٹ صفر یعنی سوواں حصہ بھی نہیں ہے اور پوائنٹ صفر یعنی ہزارواں حصہ بھی نہیں ہے۔

            منطق کی اصطلاح میں کہہ سکتے ہیں مطلق۔ یعنی مطلق استعداد اس میں نہیں پائی گئی۔ یہی ”اشفقن منھا“کے معنی ہوئے۔

            و حملہا الانسان : یعنی اس بار امانت کو اٹھانے کی استعداد انسان میں پائی گئی یعنی یہ پیش کرنا تو بدوِ کائنات یعنی ابتدائے آفرینش میں ہے اللہ نے جب کائنات پیدا کی ہے۔ تو پیش کیا ہے ، انسان تو ابھی وجود میں بھی نہیں آیا تھا۔

حضرت قاری محمد طیب کے حوالہ سے ظلم و جہول کی تفسیر

            انہ کان ظلوما جہولا: حکیم الاسلام حضرت قاری محمد طیب رحمہ اللہ جو دارالعلوم دیوبند کے مہتمم سادس ہیں۔ حجةاللہ البالغہ کے درس میں اپنی طرف سے ”حکمت قاسمیہ“ کے وارث کے طور پر اضافات فرمایا کرتے تھے ،،ایسی باتین عام طور پر ارشادفرمایا کرتے تھے، جواگرچہ حجة اللہ البالغہ میں نہیں ہوتیں؛ لیکن اس کے مضامین کی ان سے تکمیل ضرور ہوتی تھی ۔ حضرت فرمایا کرتے تھے کہ ”انہ کان ظلومًا جہولًا“ میں انسان کی تعریف کی گئی ہے۔ کس طریقے پر تعریف کی گئی؟ حضرت فرماتے تھے کہ ظالم کے مبالغہ کا صیغہ ظلوم ہے ۔ ظالم اسے کہیں گے جس میں انصاف کرنے کی استعداد ہو اور وہ انصاف نہ کرے؛ اس لیے دیوار کو ظالم نہیں کہیں گے ؛ اس لیے کہ اس میں انصاف کی صلاحیت ہی نہیں ہے۔ اسی طرح جاہل اور جھول اسے کہا جائے گا، جس کی اصل شان تو یہ ہے کہ وہ علم حاصل کرے اور پھر وہ علم حاصل نہ کرے؛ بلکہ نرا جاہل اور گنوار رہ جائے ، تو وہ جاہل ہے۔ اس کی ڈگری جب بڑھ جاتی ہے ، تو وہ جہول بن جاتا ہے۔ دیوار کو نہ تو جاہل کہہ سکتے نہ جہول؛ اس لیے کہ اس میں مطلق علم حاصل کرنے کی صلاحیت نہیں ہے۔

مگر مرد آفاقی در دو عالم نمی گنجد

            اللہ تعالیٰ نے انسان کی جو تعریف کی ہے ، اس کے دو پہلو ہیں۔ ایک یہ کہ انسان علم اور عدل و انصاف کے پہلو پر چلے گا تو اتنی دور تک پہونچ جائے گا کہ کوئی اس کی خاک کو بھی نہیں پا سکے گا، اتنی دور چلا جائے گا جس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے شاعر نے کہا کہ:

عیاں گر دیدہ می گنجد، نہاں در سینہ می گنجد

مگر مرد آفاقی ، در دوعالم نمی گنجد

            اور اگر خدانخواستہ انسان اس کی مقابل راہ اختیار کرے ، جہالت کی راہ پر چلے، ظلم کے راستے پر چلے، تو اسے بھی کوئی نہیں پکڑ سکتا۔ وہ اتنی دور جائے گا کہ جاہل نہیں، جہول ہو کر رہ جائے گا ، ظالم نہیں ظلوم بن کر رہ جائے گا۔ ضدّین کی اس میں پوری صلا حتیں ہیں۔

            تو اللہ تعالی نے ایک پہلو کو ذکر کیا اور اس کا مقابل پہلو مخاطبین کی فہم پر چھوڑ دیا کہ خود ہی سمجھنے کی کوشش کریں۔

قرآن کریم کا خاص اسلوب

            قرآن کا ایک خاص اسلوب ہے کہ وہ بہت سی جگہوں پر آدھا مسئلہ بیان کرتا ہے اور آدھا حکمت کے تحت چھوڑ دیتا ہے۔ عام طور پر اسے مخاطبین کی فہم پر چھوڑ دیا جاتا ہے۔ ایسا موقع محل کے اعتبار سے ہوتا ہے۔

            ایک مثال دیتا ہوں کہ ایک جگہ پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا: قْلِ اللّٰھْمَّ مٰلِکَ المْلک تْوٴتِی المْلکَ مَن تَشَآءْ وَ تَنزِعْ المْلک مِمَّن تَشَآءُ وَ تْعِزّْ مَن تَشَآءْ وَ تْذِلُّ مَن تَشَآءُ بِیَدِکَ الخَیرْ اِنَّکَ عَلٰی کْلّ  شَیءٍ قَدِیرٌ (آل عمران:۲۱)

            ترجمہ: یوں عرض کرو، اے اللہ! مْلک کے مالک! تو جسے چاہتاہے سلطنت عطا فرماتا ہے اور جس سے چاہتا ہے چھین لیتا ہے اور توجسے چاہتا ہے عزت دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے ذلت دیتا ہے، تمام خیر تیرے ہی قبضہ قدرت میں ہے، بیشک تو ہر شے پر قدرت رکھنے والاہے۔ (آل عمران :۲۱)

            اس آیت کے اخیر میں فرمایا گیا کہ تمام خیر اللہ کے قبضے میں ہے․․ سوال یہ ہے کہ شر کس کے قبضے میں ہے ؟

            اہل السنة والجماعة کا عقیدہ ہے کہ خیرو شر دونوں اللہ کے قبضہ میں ہے۔ تو پھر آدھا مسئلہ بیان کر کے آدھا کو کیوں چھوڑ دیا گیا ؟ جواب یہ ہے کہ آدھے کو مخاطب کے فہم پر چھوڑ دیا گیا؛ اس لیے کہ یہ موقع اللہ تعالیٰ کی تعریف بیان کرنے کا ہے اور اللہ کی تعریف کے موقع پر دوسری ضد کو بیان کرنا مصلحت کے خلاف ہے۔ اسی طرح کا مسئلہ شرح عقائد نسفیہ میں آپ نے پڑھا ہے ، عذاب القبر حقٌ – یعنی عذاب قبر بر حق ہے؛ لیکن یہ پورا مسئلہ نہیں ہے؛بلکہ اس کے ایک حصہ کو چھوڑ دیا گیا ہے۔ اس لیے کہ قبر میں صرف عذاب ہی نہیں؛ بلکہ نیک بندوں کو نعمت بھی بہم پہنچانی جاتی ہے۔

            حضرت حکیم الاسلام قاری طیب صاحب فرماتے تھے کہ اگر اس آیت میں برائی ہے، توان انسانوں کی برائی ہے ، جو حق کی امانت ادا نہیں کرتے؛ لیکن جو موٴمنین حق کی امانت اداکرتے ہیں، ان کی برائی اس میں نہیں ہے ؛ بلکہ اس میں ان کی تعریف ہے۔

            یہ آیت کر یمہ کے چند اجزاء تھے ، جو میں نے سمجھائے۔ اب آگے بڑھیے ، یہ جو اٹھانا ہے کہ انسان نے اس بوجھ کو اٹھالیا، یہ منطقی اصطلاح میں کلّی مشکّک ہے، چوں کہ اٹھانا معنوی ہے اور اس کے درجے الگ الگ ہیں، جس طرح احمر، ابیض واسود کے بے شمار در جے ہیں، اسی طرح اٹھانے کے بھی بے شمار درجے ہیں۔

دو واقعات دو اسباق

            دو حدیثوں کو ذہن میں لائیے کہ ایک صحابی نے غصہ اور طیش میں آکراپنی گونگی باندی کو تھپڑ ماردیا۔ جلدہی انھیں اپنے اس عمل پر پچھتاوا ہوا ، وہ حضور کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ صورتحال کو بیان کیا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس باندی کو بلوا کر پوچھا : این اللّٰہ؟ یعنی اللہ کہاں ہے ؟ اس نے اشارہ کیا کہ وہ آسمان میں ہے ، آپ نے پوچھا ۔ من أنا ؟ کہ میں کون ہوں تو وہ جواب میں ، انت رسول اللہ نہیں کہہ سکتی تھی ؛ بلکہ آسمان کی طرف ہاتھ اٹھایا پھر آپکی طرف اشارہ کر دیا۔ یعنی آپ اللہ کے بھیجے ہوئے ہیں۔ اس حدیث پرا شکال ہوتا ہے کہ اللہ تومکان سے منزہ ہیں اور اللہ کے رسول اس کے جواب پر فرماتے ہیں: أعْتِقْہا فانہا مومنةٌ: تم اسے آزاد کردو؛اس لیے کہ وہ مومنہ ہے۔یہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے ایمان کی گواہی دے رہے ہیں۔

            دوسری حدیث یہ ہے کہ ایک جوان آدمی تھا جس نے اپنے اوپر ظلم اور گناہ کررکھا تھا، جب اس کی موت کا وقت آیا؛ تو اس نے اپنے بیٹوں سے کہا کہ جب میں مر جاوٴں تو مجھے جلا کر آدھی راکھ کو خشکی میں اور آدھی کو سمندر میں پھینک دینا، تاکہ میں خدا کے عذاب سے بچ جاوٴں؛ اس لیے کہ اگر خدا کا بس چل گیا تو وہ مجھے درد ناک عذاب دے گا؛ اس لیے کہ میں نے بے تحاشا گناہ کیے ہیں۔ وہ شخص وصیت کر کے مرگیا۔ وصیت کے مطابق اس کی اولاد نے اس کے ساتھ ایسا ہی کیا؛ لیکن اللہ نے خشکی اور سمندر کو حکم دیا اور اس راکھ کو جمع کر کے اس کو زندہ کردیا ، پھر اللہ نے پوچھا کہ میرے بندے تو نے تدبیر کیوں کی تھی؟ اس نے وہی جواب دیا کہ پروردگار عالم میں نے آپ کے خوف سے ایسا کیا کہ اگر آپ کا بس چل گیا تو آپ بڑا دردناک عذاب دیں گے ۔(مشکوٰة ۲۰۷) اس حدیث کو ذکر کر کے حضرت شاہ ولی اللہ نے لکھا کہ اس شخص کی بخشش ہوگئی ؛ اس لیے کہ وہ مومن تھا۔

            اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جہاں میری صفت شدید العذاب ہے وہیں میں غفور الرحیم بھی ہوں۔ تم اس صفت کو کیوں نہیں دیکھتے اور اللہ نے اس کی بخشش کردی ، محض اس وجہ سے کہ وہ اللہ سے اس قدر ڈرا۔

            شاہ صاحب لکھتے ہیں کہ یہ ایمان کیسے ہوا ؟ وہ تواللہ کو قادر مطلق نہیں مان رہا ہے؟ وہ تو مان رہا ہے کہ میری راکھ اس طرح بکھیر دی جائے گی تو خدا کا بس اس پر نہیں چلے گا اور وہ میری مٹی کو نہیں جمع کر سکے گا۔ وہ قادر مطلق نہیں مانتا تو بھی وہ مومن کیسے ہوا ؟

            اس کے بعد حضرت شاہ صاحب نے ایک جملہ جواب کے طور پر لکھا کہ ہر شخص سے مطلوب وہ بات ہے، جو اس کی استعداد میں ہے ، ہر شخص کی جتنی استعداد ہے ،اتنا ہی اس سے مطلوب ہے۔ آپ حضرات سے ہم پوچھیں کہ : این اللہ ؟ اور آپ کہیں کہ ”ھو فی السماء“، وہ جواب درست نہیں ہوگا؛ اس لیے کہ آپ کی استعداد اس سے بہتر جواب کی ہے؛ لیکن اس باندی کا جواب قبول کرلیا گیا اس لیے کہ باندی گونگی تھی اس کی استعداد اتنی ہی بات کی تھی اور وہ آدمی اتنی ہی استطاعت رکھتا تھا کہ راکھ کے جمع کرنے پر خدا کو قادر نہ مانے۔ تو اللہ نے جتنی استطاعت دی ، اس کے موافق اس کا جواب قبول کرلیا۔

 حسناتِ ابرار، سیئاتِ مقربین

            مجھے اس سے یہ سمجھا نا ہے کہ انسانوں میں جو امانت اٹھانے کی استعداد ہے، اس کا کمتر درجہ یہ ہے اور اعلیٰ درجہ وہ ہے؛ جو انبیائے کرام اور ان کے سردار محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور اولیائے کرام اور بڑے بڑے لوگوں کو حاصل ہے ، اس مقام کی تشریح مشکل ہے۔

             البتہ ایک مشہور جملہ ہے۔ ”حسنات الابرار سیئات المقربین“۔ اس جملے میں یہ سمجھایا گیا ہے کہ ابرار ایک کام کرتے ہیں تو، وہ ان کے حسنہ ہے؛ لیکن وہی کام اگر مقربین کریں تو وہ حسنہ نہیں بلکہ ان کے لیے سیئہ ہے۔

            حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ ارشاد آپ کے ذہنوں میں ہوگا کہ : ما عرفناک حق معرفتک: آپ کے پہنچاننے کا جو حق ہے ہم اس تک نہیں پہونچے۔ اس حق تک پہونچیں گے؛ جب اس کا خاص وقت آئے گا اور وہ وقت ہے مرنے کے بعد قبر کی زندگی یعنی عالم برزخ میں۔ یہ معرفت بڑھتی چلی جائے گی اور پھر میدان حشر میں بھی بڑھے گی پھر جنت کی ابدی زندگی میں بڑھتی چلی جائے گی، حضرت شاہ صاحب نے لکھا ہے کہ جنت میں پہنچنے کے ایک لمبے عرصہ بعد جو علوم حاصل ہوں گے وہ درجہ تو ہم سمجھ بھی نہیں سکتے۔جس درجے میں امانت اٹھائی اسی درجہ میں حق اداکریں!

             اس تفصیل کے عرض کرنے کا مقصد یہ جاننا ہے کہ آپ حضرات کس درجہ میں ہیں ، یہ جو امانت اٹھائی ہے سبھی انسانوں نے اٹھائی ہے۔ آپ نے بھی اٹھائی ہے ، ہم نے بھی اٹھائی ہے۔ پوچھنا یہ ہے کہ ہم نے کس درجہ میں وہ امانت اٹھائی ہے؛ اگر ہم اس درجہ کا حق ادا کریں گے ، تو سر خرو ہوں گے۔ اگر اس درجہ کا حق ادا نہیں کریں گے تو ناکام رہیں گے ، اگر ہم مقربین میں ہیں اور ابرار والے حسنات کر رہے ہیں۔ تو آپ کے لیے کافی نہیں۔ وہ تو آپ کے لیے سیئات بن جائیں گی۔ آپ مقربین میں ہیں تو مقربین والا عمل کرنا ہوگا ، اس کو سمجھنا آپ کے لیے آسان ہے۔ آپ جانتے ہیں کہ علم کا سب سے نچلا درجہ فرض عین ہے ، جس کی تحصیل ہر انسان پر لازم ہے ، یہ جو فرض عین ہے اس کے بھی درجے میں ، پھر اس کے اوپر جو درجہ ہے وہ فرض کفایہ ہے اور آپ جو کچھ حاصل کر رہے ہیں وہ فرض کفایہ کا اونچا درجہ ہے ، پہلے جو تعلیمی صورت حال تھی اس کے مقابلہ میں صورتحال بدل گئی ہے اور اب آپ جیسے طلبہ کے لیے بھی نگرانی متعین کرنی پڑتی ہے۔

حضرت علامہ عبد الحئی فرنگی محلی کے استغراقِ علم کا واقعہ

            موتی سمندر کے اوپر نہیں ملتے۔ اس کے بعد حضرت پالنپوری صاحب نے مولانا عبدالحئی فرنگی محلی کا واقعہ تفصیل سے بیان کیا ،جس کا خلاصہ یہ ہے کہ!

            حضرت مولانا عبدالحئی صاحب فرنگی محلی ایک روز کمرے میں مطالعہ کررہے تھے۔ دوران مطالعہ پانی طلب کیا ، ان کے والد حضرت مولانا عبدالحلیم صاحب تشریف فرماتھے ، ان کو فکر ہوا کہ مطالعہ کے دوران ذہن کسی اور طرف کیسے گیا ، معلوم ہوتا ہے کہ یہ نہ پڑھے گا ، حکم دیا کہ بجائے پانی کے انڈی کاتیل جو وہاں رکھا ہوا تھادے دیا جائے ، مولانا عبدالحئی صاحب نے گلاس منہ میں لگایا تیل پی گئے اور یہ احساس نہ ہو اکہ تیل ہے یا پانی؟ اس کے بعد پھر مطالعہ میں مشغول ہوگئے، والد کا فکر دور ہوا اور کہا کہ امید ہے کہ پڑھ لے گا، والد صاحب چونکہ بہت بڑے طبیب بھی تھے؛ اس لیے صاحبزادے کودواپلاکر تیل کا اثر زائل کردیا۔

            اس واقعہ سے نتیجہ نکالتے ہوئے فرمایا۔

            میرے عزیزو! آپ کا مقام یہ ہے کہ آپ ایک ماہر غواص بن جائیے ، جو اتنی گہرائی میں چلا جائے کہ دنیا و مافیہا سے وہ بے خبر ہو جائے اسے کچھ پتہ نہیں کہ ٹائم کیا ہوا ہے، ایسے دماغ کے ساتھ کسی چیز کی گہرائی میں اترے گا تو موتی ملیں گے۔ موتی سمندر کے اوپر نہیں ملتے جب تک آپ غوطہ لگا کے گہرائی میں نہیں جائیں گے ،تب تک نہیں ملے گا اور جو گہرائی میں جائے گا اسے اس وقت دنیا و مافیہا سے بے نیاز ہونا پڑے گا، شمع علم کے لیے پروانہ وارنثار ہونا سیکھیے !

            تو آپ کا مقام یہ ہے۔ اس کو پرانے فضلاجانتے تھے۔ آج صورتحال تو زمانے کے ساتھ تبدیل ہو ئی وہ افسوسناک ہے؛ لیکن یہ صورتحال سو فیصد نہیں بدلی؛ بلکہ الحمد للہ آج بھی ہمارے طبقہ میں ایسے ممتاز فضلا ہیں جو اپنے مقام کو پہچانتے ہیں اور اپنے مقام کے مناسب محنتیں کرتے ہیں، آج اللہ کی نعمتوں کا شکر ادا کیجیے کہ اللہ تعالیٰ نے آج آپ حضرات کے لیے ان بزرگوں کی برکت سے ہمہ جہت آرام و سکون میسر فرمایا ہے آپ کے پاس بہترین بیڈ ہیں۔ شاندار کھانے ہیں ، اڑانے کے لیے وظیفے ہیں ایسی کوئی راحت نہیں جو آپ کو حاصل نہیں ؛ لیکن آپ ان را حتوں سے مولانا فرنگی محلی کا مقام حاصل کرنا چا ہیں۔ امام احمد بن حنبل کا مقام حاصل کرنا چاہیں نا ممکن ہے وہ مقام تو حاصل ہوتا ہے جد جہد سے اور علم کے پیچھے مرمٹنے سے اور اس کے پیچھے اپنی تمام توانائیاں صرف کرنے سے اور ہر چیز کی گہرائی میں اترنے سے۔

مستقبل کے اکابر

            ہماری آنکھیں تو کل بند ہو جانے والی ہیں، آنے والی دنیا کی زمام آپ کے ہاتھ میں ہے، آپ مستقبل کے اکابر ہیں۔

            اس لیے میرے بھا ئیو،! اپنا مقام پہچانو، اپنے وقت کی قدر کرو! جس مقصد کے لیے آپ یہاں آئے ہیں اس کو حاصل کیجیے ، ہوش کا ناخن لیجیے، اپنی گتھیاں سلجھائیے، علم میں گیرائی اور گہرائی پیدا کیجیے! فقاہت سے حظ وافر حاصل کیجیے ، اساتذہ کی قدر کیجیے ، ان سے خوب استفادہ کیجیے اور منزل کی طرف رواں دواں رہیے۔ منزل دور نہیں ہے۔ منزل آپ کا انتظار کر رہی ہے کیوں ؟ اس لیے کہ آپ نے امانت اٹھائی ہے اور امانت اٹھانے کا بہت اونچا مقام اور درجہ ہے ، لہٰذا آپ نے جس درجہ میں امانت اٹھائی ہے اسی درجہ میں اس کا حق ادا کیجیے۔ اللہ نے آپ حضرات کو اعلی درجہ کی استعدادیں دی ہیں اور آپ پر بڑی ذمہ داری عائد کی ہے۔ ہماری آنکھیں تو کل بند ہوجانے والی ہیں۔ آنے والی دنیا کی زمام آپ کے ہاتھ میں ہے ، آج آپ اپنے کو تیار نہیں کریں گے؛ کل کی راہنمائی کے قابل اپنے آپ کو نہیں بنائیں گے؛ تو امت کی گاڑی کیسے چلے گی؟ دین کی محنتیں کون کرے گا؟ دین کا صحیح مفہوم جو حضور سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے حاصل کیا، صحابہ سے تابعین نے حاصل کیا اور نسلاً بعد نسل و قرنا بعد قرن ، امتاً بعد امة جو امانت چلی آرہی ہے ، دین کا جو صحیح فہم چلا آرہا ہے ، اسے حاصل کر نا دین میں فقاہت پیدا کرنا؛ یہی آپ کی زندگیوں کا مقصد ہے۔

            میں امید کروں گا کہ آپ حضرات اپنے اس مقصد کو سمجھیں گے اپنے مقام و مرتبہ کو سمجھیں گے وقت کو ضائع کرنے سے بچیں گے۔ اللہ آپ کے علم میں برکت عطا فرمائے اور اوقات میں برکت عطا فرمائے اور اللہ آپ کو اس قابل بنائے کہ آنے والی امت کی آپ حضرات قیادت کر سکیں اور دین کی امانت جو آپ حضرات کے سپرد ہے ، آپ اس کے لیے اپنی زندگیوں کو وقف کر دیں․․․ وآخر دعوانا ان الحمد للّٰہ رب العالمین!

حضرت امیر شریعت مولانا سید نظام الدین کے اختتامی کلمات

             ہمارے رفقاء اور ہمارے عزیزان گرامی فضلائے کرام!

            آج حضرت مولانا سعید احمد صاحب پالنپوری جو دارالعلوم کے استاذ حدیث اور اونچے درجے کے اساتذہ میں سے ہیں، درس و تدریس اور طلبہ کی نفسیات کا بہت طویل تجربہ رکھتے ہیں ، وہ حسن اتفاق سے ہمارے درمیان تشریف لائے ہیں اور آج ہم سب کو ان سے استفادہ کا موقعہ ملا اور میں صرف استفادہ کی غرض ہی سے حاضر ہوا ہوں ، میرے لیے اسٹیجی صدارت کا اعلان محض ایک اتفاق ہے،اصل صدر تو حضرت مفتی صاحب ہیں۔

            الحمد للہ آپ کو جتنا فائدہ پہنچا؛ اتنا فائدہ مجھے بھی پہنچا اور جو بہت ہی قیمتی باتیں آپ نے کہی ہیں ان کا خلاصہ یہ ہے کہ وقت کی قدر کریں اور اپنی صلاحیت کی قدر کریں ، ہم اپنی صلاحیت کی قدر کہاں تک کرتے ہیں اور ہم سے اس میں کیا کوتا ہی رہ گئی ہے۔اس کا احتساب کیجیے اور اس کا جائزہ لیجیے۔ ہمیں ہمارے اکابر سلف صالحین نے کیا پیغام دیا، کیا نقش راہ چھوڑا، ان کے نقوش پا کی جستجو کیجیے۔ میں ایک واقعہ سناتا ہوں حضرت شیخ الہند رحمہ اللہ علیہ تھانہ بھون تشریف لے گئے تو اپنے جلیل القدر استاد شیخ الہند کی خدمت میں حضرت مولانا اشرف علی تھانوی نے ناشتہ وغیرہ پیش کیا، خاطر مدارات میں لگے رہے؛ لیکن جب دن کے دس بجے تو انھوں نے حضرت شیخ الہند نے فرمایا حضرت یہ میرے بیان القرآن لکھنے کا وقت ہے، اگر آپ اجازت دیں تو میں وہاں جاوٴں ! یہ ہیں وقت کی قیمت پہچاننے والے ہمارے اسلاف ، اس کی قدر کرنے والے لوگ۔ اسی قدر دانی کی وجہ سے انھوں نے عظیم الشان کارنامے انجام دیے۔ انھوں نے کیا کارنامے انجام دیے اس کی شاندار مثالوں سے تاریخ کے اوراق پْر ہیں۔۔۔ آں حضور کاعہد نبوت صرف تئیس سال ہے لیکن اتنے قلیل عرصہ میں ایسا روحانی و اخلاقی انقلاب آیا کہ اس سے پہلے کبھی نہیں آیا تھا۔

             اسی طرح امت میں ایسے مجددین ، ایسے علماء اور اولیاء پیدا ہوئے کہ ان میں سے ایک ایک شخص نے اتنا بڑا کام کیا ہے کہ آج بڑے بڑے ادارے اس کو نہیں کرپاتے۔ ہمارے اکابر واسلاف کی جو سلسلہ الذھب ہے ان میں سے ہر شخص ایسا ہی ملے گا اور آپ بھی اس میں داخل ہو سکتے ہیں ، یہ کبھی نہ سمجھو کہ ہم وہاں تک نہیں پہنچ سکتے ، ہم علم کی بلندیوں تک نہیں جا سکتے! ، ہمیشہ اونچی باتیں سوچا کرو! قرآن کی ایک آیت ہے؛ جس کا ترجمہ ایک انگریز نے کیا ”لیس للانسان الا ما سعی“ تم وہی ہو جو تم ہونا چاھتے ہوں، گویا آپ مفتی بننا چاہتے ہیں یا قاضی بننا چاھتے ہیں تو اس پر محنت کرو، بن جاوٴ گے۔ ہمارے حضرت مفتی سعید احمد صاحب نے ان تمام چیزوں پر روشنی ڈالی ہے۔ آج کی مجلس مختصر ہونے کے باوجود بڑی قیمتی ہے؛ اس لیے آپ سب حضرات اس پر عمل کریں اساتذہ کرام اگر اس نہج پر طلبہ کی تربیت کریں گے تو طلبہ بہت کچھ بن سکتے ہیں۔ میرے دوستو! بڑی حوصلہ افزا بات فرمائی ہے ہمارے مفتی صاحب نے۔ اللہ تعالی انھیں اجر عظیم عطا فرمائے۔ آمین !

وآخر دعوانا ان الحمد للّٰہ رب العالمین․

————————————-

دارالعلوم ‏، شمارہ : 7،  جلد:106‏،  ذی الحجہ 1443ھ مطابق جولائی  2022ء

٭        ٭        ٭

Related Posts