از : اخلاق حسین قاسمی
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا مشن حضرات انبیاء کرام کے مقابلہ میں یہ قرار دیاگیا تھا کہ محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم اخلاقی معجزہ سے دین توحید کو غالب کریں گے۔
حضور علیہ السلام کے لیے رحمة للعالمین، صاحب خلق عظیم اور رؤف رحیم کے اوصاف رحمت سے آپ کے اسی مشن رحمت کی طرف اشارہ کیاگیاہے۔
سورہ فصلت کی مشہور آیت (۳۴) ادفع بالَّتی ہی أحسن میں حضور کے اسی معجزہ کی طرف حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو توجہ دلاکر دشمنوں کے ساتھ محبت کا سلوک کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔
علامہ اقبال نے محبت کے بارے میں یہی کہا ہے:
محبت کے شر ر سے د ل سرا پا نور ہوتا ہے
ذ ر ا سے بیج سے پیدا چراغ طور ہوتا ہے
محبت ہی سے پائی ہے شفاء بیما ر قدموں نے
کیاہے اپنے بخت خفتہ کو بے دار قوموں نے
اسلام میں جہاد اور تلوار ڈاکٹر کا نشتر ہے جو ڈاکٹر اسے علاج کے آخری مرحلہ میں استعمال کرتا ہے۔
ڈاکٹر پہلے مرہم استعمال کرتا ہے، اینٹی بائیٹک دوائیں استعمال کراتا ہے اور جب علاج کے یہ سارے نرم مرحلے گذر جاتے ہیں اور مریض کا زخم نہیں بھرتا تو پھر وہ نشتر استعمال کرتا ہے اور جسم کے بیمار حصہ کو کاٹ کر پھینک دیتا ہے تاکہ جسم کا باقی حصہ صحت مند ہوجائے۔
انبیاء سابقین کی قوموں پر عذاب نازل ہوئے، خدا تعالیٰ کا فیصلہ یہ ہوا کہ اب جدید دنیا میں کوئی عذاب نازل نہیں ہوگا۔
اس لیے آخری پیغمبر کا مشن یہ قرار دیاگیا کہ وہ محبت و رحمت کی قوت سے دین حق کو غلبہ حاصل کرائیں اور رسول آخری اپنے اس مشن میں کامیاب ہوئے۔
مادی معجزات کے مقابلہ میں اخلاقی معجزہ
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ آپ کی صداقت کی دلیل کے طور پر مادی معجزات کی قوت سے زیادہ اخلاقی قوت تھی، اور خدا تعالیٰ نے آپ کے اندر اخلاقی قوت بھرپور اورمکمل طور پر پیدا کی تھی۔
چنانچہ قرآن کریم نے پوری تاریخ انسانی کو گواہ بناکر کہا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم خلق عظیم اور اخلاق عظیم کے مالک ہیں۔
ن ، والقلم وما یسطرون o ما انت بنعمة ربک بمجنون o وان لک لأجراً غیر ممنون o و انک لعلی خلق عظیم o فستبصر ویبصرون․ (سورہ القلم)
اخلاقی قوت کا بڑا عنصر ایثار ہے، یہ ایثار ہی صاحب ایثار کے رحم و کرم کی عملی شہادت ہے۔
رحم و محبت کے زبانی دعوے آسان ہیں، عملی طور پر رحم و محبت کا ثبوت یہ ہے کہ انسان اپنی ضرورت پر دوسروں کی ضرورت کو ترجیح دے،خود بھوکا رہ کر دوسروں کو کھانا کھلائے اپنی ضرورتوں کو مارے، اپنی خواہشات کو مارے اور دوسرے ضرورت مندوں، بیماروں، دکھیوں کے کام آئے۔
رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی ایثار کا بے مثال نمونہ تھی، قرآن کریم نے حضرات صحابہ کے ایثار کی تعریف کی ہے۔ کسی جگہ حضور کے ایثار کی تعریف نہیں کی لیکن شاگردوں کا کمال دراصل استاذ کی تعلیم و تربیت کا کمال ہوتا ہے۔
صحابہ کرام کے اندر جو ایثار آیا وہ اپنے مربی رسول پاک کی اخلاقی تربیت سے آیا، قرآن نے کہا:
ویوثرون علی انفسہم ولو کان بہم خصاصہ (حشر:۹)
یہ صحابہ محتاجوں کو اپنی ضرورتوں پر ترجیح دیتے ہیں اگرچہ یہ خود ضرورت مند اور محتاج ہوتے ہیں۔
صحابہ کرام قریش عرب تھے اور قریش عرب بات بات پر آپس میں خوں ریزی کرنے میں مشہور تھے، یہ اتحاد و ایثار اس حیثیت سے ایک عظیم کارنامہ تھا، رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا ۔ ہاں ایک جگہ حضور کے اثیار کی طرف اشارہ کیا ہے، فرمایا : عزیز علیہ ما عنتم (توبہ:۲۸)
رسول پاک پر تمہاری پریشانی گراں گذرتی ہے، شاق گذرتی ہے یعنی وہ تمہاری پریشانی کے مارے اپنی پریشانی کو بھول جاتا ہے یہی ایثار ہے۔
اخلاقی قوت معجزہ تھی
رسول پاک کے اندر جو اخلاقی قوت تھی وہ بڑا معجزہ تھی، آپ کو موسیٰ علیہ السلام کی طرح یدبیضاء اور عصاء جیسے ظاہری معجزات نہیں دیئے گئے۔
حضرت عیسیٰ جیسے مردوں کو زندہ کرنے اور مٹی کے پرندوں کو زندہ پرندہ بناکر اڑانے کے جیسے معجزات نہیں دیئے گئے۔ لیکن قرآن جیسا علمی معجزہ دیاگیا اور عملی معجزہ آپ کے اخلاق کریمانہ کا وجود تھا۔
اس طرح قرآن علمی اور اخلاق حسنہ عملی یہ دونوں معجزے مل کر ایک عظیم بے مثال معجزہ بن گئے تھے۔
آخری ایثار کی مثال
رسول پاک کی ساری زندگی فقر و افلاس میں گذری اور یہ فقر و افلاس آپ کا اختیاری تھا۔
زندگی کے آخری ایام میں ایثار کی ایک مثال یہ ہے :
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے گھریلو مصارف اور باہر کے مہمانوں کے مصارف کا سارا انتظام حضرت بلال کے ہاتھوں میں رہتا تھا۔ بلال ہی آنے والے ہدایا، عطایا اور صدقات کی رقموں کو اپنی تحویل میں رکھتے تھے اور ضروری اخراجات کرتے تھے۔
اتفاق سے کسی طرح دو درہم حضرت عائشہ کے حجرہ پاک کے طاق میں رکھے گئے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم جب بخار کی شدت سے افاقہ پاتے تو حضرت صدیقہ سے فرماتے، عائشہ! یہ درہم طاق میں رکھے ہیں، انہیں ضرورت مندوں تک پہنچادو، حضرت صدیقہ غالباً یہ سوچتی ہوں کہ دکھ بیماری کے دن ہیں، اگر ضرورت پڑگئی تو کس سے مانگتی پھروں گی، چراغ کے لیے تیل تو برابر کی سوکن کے حجرہ سے مانگا ہے۔ اس خیال سے صدیقہ خاموشی اختیار کرگئیں مگر حضور کو بے چینی لگی ہوئی تھی آپ برابر تاکید کرتے رہے یہاں تک کہ صدیقہ نے باندی سے کہہ کر وہ دراہم خیرات کرادئیے۔
ایثار سے اتحاد!
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ایثار سے امت میں اتحاد قائم ہوا، آپ امت کے امیر و قائد تھے، آپ نے رہن سہن میں اور معاملات کے فیصلوں میں صحابہ کرام کے مقابلہ میں ایثار اختیار کیا۔
رہن سہن اور معاشرت میںآ پ کی سادگی آپ کے ایثار کا نتیجہ تھا اور آپ انتظامی امور کے اندر صحابہ کرام سے بحکم الٰہی مشورہ کرتے تھے اور کبھی ایسا بھی ہوتا تھا کہ آپ صحابہ کرام کی رائے کے مقابلہ میں اپنی رائے واپس لے لیاکرتے تھے۔
غزوہٴ احد کے موقعہ پر مدینہ کے اندر رہ کر مقابلہ کیا جائے یا باہر میدان میں نکل کر دفاع کیا جائے، اس معاملہ میں آپ کی رائے شہر کے اندر رہ کر دفاع کرنے کی تھی، مگر چند نوجوانوں نے جب جوش جہاد میں باہر نکل کر جہاد کرنے کی رائے دی اوراس پر اصرار کیا تو آپ نے اپنی رائے واپس لے لی یہ الگ بات ہے کہ نوجوانوں کی رائے کے نتیجہ میں مسلمانوں کو ابتداءً جنگ میں زبردست جھٹکا لگا مگر آپ کو ایک مثال قائم کرنی تھی کہ امیر و امام جماعت میں اتحاد قائم کرنے کے لیے اپنی رائے واپس لے لے تواس سے اس کے وقار میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔
احد کی ہزیمت کے نتیجہ میں ہوسکتا تھا کہ آپ آئندہ صحابہ کرام سے مشورہ کرنے سے گریز کریں اس لیے قرآن کریم نے آپ کو ہدایت کی فاعف عنہم واستغفرلہم وشاورہم فی الامر (آل عمران: ۱۴۹)
اے رسول محترم! اس گستاخی پر آپ انہیں معاف کریں اور ان کے حق میں مغفرت کی دعا کریں اور انتظامی معاملات میں ان سے مشورہ کرنے کا معمول جاری رکھیں۔
حضور علیہ السلام نے قرب قیامت کی ایک علامت یہ بیان فرمائی ہے:
واعجاب کل ذی رایٴ برایہ ہر صاحب الرائے اپنی رائے پر اصرار کریگا، اپنی رائے کے درست ہونے پر تکبر کرے گا اور یہ شان ختم ہوجائے گی۔ وامورہم شوری بینہم (قرآن) ان کے معاملات مشورہ سے طے پائیں گے۔ مسلمانوں کے تمام معاملات باہمی مشورہ سے طے پاتے ہیں۔
غزوہٴ احد میں بددعاء سے کیوں روکا؟
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو غزوہ احد میں زخمی کرنے والے دشمنوں کو جنھوں نے رحمت عالم کے چہرئہ انور کو زخمی کیا، دندان مبارک کو شہید کیا، آپ کی موت کا اعلان کیا، ابوسفیان اعلان کرتا ہے کہ (مات محمد) محمد انتقال کرگئے، حالاں کہ آپ ایک خندق میں چلے گئے تھے ایسے دشمنوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ کو کیا ہمدردی تھی؟
آپ نے صرف ایک فقرہ استعجاب استعمال کیا تھا، اور یہ فرمایا تھا کیف یفلح قوم قد شج نبیًّا یہ قوم کیسے فلاح پائے گی جس نے اپنے نبی کو زخمی کردیا ہو۔
پس اتنے فقرہ پر وحی الٰہی نے آپ کو روک دیا کہ کہیں کھلے لفظوں میں آپ کی زبان پر بددعاء جاری نہ ہوجائے۔ وحی آئی: لیس لک من الامر شيء أو یتوب علیہم أو یعذبہم فانہم ظالمون (آل عمران: ۱۲۸)
اے نبی رحمت! آپ کو اس معاملہ میں کوئی اختیارحاصل نہیں، خدا تعالیٰ اپنی مصلحت کے مطابق یا ان پر رحم کرے یا انہیں عذاب دے، بے شک یہ لوگ ظالم ہیں۔
آپ فوراً ہوشیار ہوگئے اور بددعاء کی جگہ دعاء دینے لگے اور فرمایا: اللّٰہم اہد قومی فانہم لا یعلمون الٰہی ! یہ نادان بھائی ہیں، انہیں ہدایت دے۔ (حدیث)
مشیت الٰہی کو ان دشمنوں سے ہمدردی نہیں تھی بلکہ آپ کے اخلاقی معجزہ کو کمزور ہونے سے بچانا مقصود تھا اور قدرت کا یہ منشاء تھا کہ اس نے جس قوت کو فتح مند ہونے کی بشارت دی تھی اس قوت کو کمزور نہ ہونے دے۔
صدقات مسجد میں رکھوایا کرتے تھے
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم صدقات وغنائم کا مال و اسباب مسجدنبوی کے اندر ایک طرف رکھوادیا کرتے تھے حالاں کہ صحن مسجد میں ایک طرف ازواج مطہرات کے نو کمرے بنے ہوئے تھے، جن میں سے کسی ایک کمرہ میں آپ وہ قومی مال رکھواسکتے تھے، لیکن آپ کی یہ احتیاط تھی کہ قومی امانت کا مال سب کے سامنے رہے۔
چنانچہ یہ ڈیوٹی حضرت ابوہریرہ کی تھی کہ وہ مسجد نبوی کے چبوترہ پر سوتے تھے اوراس مال کی دیکھ بھال کرتے تھے۔
امانت کی حفاظت کے کام سے بھی حضور نے اپنے گھروالوں کو دور رکھا ایک دفعہ ایسا ہوا کہ شیطان آدمی کا روپ بدل کر مسجد میںآ یا اور صدقات کے مال میں سے کچھ مال چراکر لے گیا۔
ابوہریرہ بہت پریشان کہ یہ چوری کس نے کی؟
دوسری رات کو ابوہریرہ ہوشیار ہوگئے اور دوسری رات کو شیطان بھی آیا۔ اس ملعون کا مقصد یہ تھا کہ ابوہریرہ جیسے درویش صفت صحابی بدنام ہوجائیں ۔ ابوہریرہ نے دوسری رات کو جب آہٹ محسوس کی تو کھڑے ہوگئے اور شیطان ملعون کو پکڑ لیا، شیطان نے پریشان ہوکر ابوہریرہ کو یہ لالچ دیا کہ وہ شیطان سے ایک عمل سیکھ لیں جو انہیں آئندہ شیطانی اثرات سے محفوظ رکھے گا۔
ابوہریرہ اس حفاظت شیطانی کے عمل سے خوش ہوگئے اور شیطان کو چھوڑنے پر راضی ہوگئے۔
شیطان نے ابوہریرہ کو آیت الکرسی کا عمل بتایا کہ جو شخص رات کو سوتے وقت بستر پر باوضو، آیت الکرسی کی تلاوت توجہ اور خشوع کے ساتھ پڑھے گا اس سے تمام رات اور تمام دن شیطانی اثرات اور اغوا کاری سے محفوظ رہے گا۔
صبح کو ابوہریرہ نے رات کا سارا واقعہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا، آپ نے فرمایا:
شیطان جھوٹا ہے مگراس کا بتایا ہوا یہ عمل سچا ہے، تم اس پر عمل کیاکرو شیطان جنات کی مخلوق میں سے ہے اور آگ کا عنصر یعنی ناری عنصر اس پر غالب ہے، ناری مخلوق دوسرا روپ اختیار کرسکتی ہے۔
انسانی مخلوق پر خاک کا عنصر غالب ہے، یہ دوسرا روپ اختیار نہیں کرسکتا۔
اخلاقی معجزہ کا ایک پہلو
خدا تعالیٰ نے رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو جو اخلاقی معجزہ عطا کیا تھا اس کا عملی پہلو یہ بھی تھا کہ آپ نے عبادات نماز روزہ وغیرہ کے نظام کو اخلاق حسنہ کی تربیت سے جوڑ دیا تھا۔
چنانچہ خدا کی ہر عبادت، خدا کی رضا جوئی کا پہلو بھی رکھتی ہے اور اخلاق حسنہ کے ذریعہ بندوں کی خدمت کا پہلو بھی رکھتی ہے۔ دوسرے لفظوں میں اسلامی عبادات و عقائد سے آخرت کی زندگی میں بھی جنت بنتی ہے اور دنیا کی زندگی بھی جنت کا نمونہ بن جاتی ہے۔
قرآن کریم نے دنیا کی حیات کو حیاة طیبہ (پاکیزہ زندگی) سے تعبیر کیا ہے، فرمایاگیا:
من عمل صالحا من ذکر او انثیٰ وہو مومن فلنحیینہ حیٰوة طیبة ولنجزینہم اجرہم بأحسن ما کانوا یعملون (نساء: ۱۲۴)
یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ ہر عبادت جو حق اللہ کی ادائیگی ہے اس میں ضمنی طور پر حق العباد کی ادائیگی بھی ہے۔
اسلام نے حقوق العباد کی اہمیت کے پیش نظر حقوق العباد کی واضح تعلیم بھی دی ہے، حقوق العباد کامستقل نظام بھی بنایا ہے اور عبادات (حقوق اللہ) کے ساتھ بھی حقوق العباد کی تربیت کا انتظام کیا ہے یعنی تعلیم بھی ، تربیت بھی ہے۔
قرآن کریم نے دین کی تکمیل کا اعلان کیا:
الیوم اکملت لکم دینکم (مائدہ:۳) آج (حجة الوداع میں) میں نے اے مسلمانو! تمہارے دین کو مکمل کیا۔
دین کی تکمیل، عقائد، عبادات اور اخلاق تینوں حصوں کی تکمیل تھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اخلاق حسنہ کی تکمیل کا خاص طور پر اعلان کیا اور فرمایا:
انما بعثت لاتمم محاسن الاخلاق (حدیث) میں اخلاق حسنہ کے نظام کو مکمل کرنے آیاہوں۔
______________________________
ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ10-11، جلد: 89 ، رمضان، شوال 1426ہجری مطابق اکتوبر، نومبر 2005ء