از: مفتی سید ابراہیم حسامی قاسمی

استاذ جامعہ اسلامیہ دارالعلوم حیدرآباد

            حضرت مولانا مفتی عبدالمغنی صاحب مظاہری بھی ۸/محرم الحرام۱۴۴۳ھ مطابق ۱۸/اگسٹ ۲۰۲۱ء بہ روز چہارشنبہ رات۳/بجے اپنی عمر تمام کر گئے۔ اناللہ والیہ راجعون۔

            حضرت مولانا مفتی عبدالمغنی مظاہری ایک زبردست عالم دین اور بہترین دینی خدمت گزار تھے، ان کی خدمات کا دائرہ کافی وسیع اور بلند تر ہے، انھوں نے اپنی شخصیت کو کسی ایک میدان میں مقید نہیں رکھا، تمام دینی شعبوں میں انھوں نے اپنی گراں قدر خدمات کے ذریعہ اہلیان دکن کے سینوں پر اپنے انمٹ نقوش ثبت فرمائے ۔

            وہ عابد وزاہد، صابر وشاکر اور حددرجہ قانع تھے، ان کی زندگی میں نئی نسلوں کے لیے خدمت دین کے اور پرانوں کے لیے عزیمت واستقامت کے کئی اسباق پنہاں تھے، وہ اکابر سے تعلق رکھنے میں یکتا تھے، کام ان کی فطرت تھی، قناعت ان کی زندگی کا لازمہ تھا۔ حقیقت یہی ہے کہ ان کی رخصتی نے ہر قدرداں کو آبدیدہ اور ہر اہل تعلق کو نم دیدہ کردیا۔

پیدائش ، تعلیم و تربیت

            حضرت مولانا مفتی عبدالمغنی مظاہری کی ولادت غالباً۱۹۵۵ء میں ہردوئی میں ہوئی، والد گرامی کا وطن تلنگانہ ریاست کے ضلع نلگنڈہ میں واقع نارکٹ پلی کے اطراف میں موضع نارائن پور خورد ہے اور ننھیال عنبرپیٹ حیدرآباد ہے۔ حفظ کی تعلیم مدرسہ فیض العلوم سے حاصل کی، حفظ کے اساتذہ میں خود آپ کے والد ماجد اسی طرح مولانا عبدالروٴف صاحبقابل ذکر ہیں ، شعبہٴ عالمیت کا آغاز محی السنہ حضرت مولانا شاہ ابرارالحق صاحب ہردوئی کے حکم پر ہردوئی میں کیا اور ابتدائی درجات کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد عارف باللہ حضرت مولانا قاری سید صدیق احمد صاحب باندوی کے مدرسہ جامعہ عربیہ ہتھورا باندہ میں داخل ہوئے اور درجات وسطیٰ تک فیضان علم ومعرفت سے مستفیض ہوئے بعدازاں جامعہ مظاہر علوم سہارن پورمیں علیا وفضیلت کی ۱۹۷۹ء میں تکمیل کی ، دورہ ٴ حدیث سے فراغت کے بعد وہیں پر۱۹۸۰ء میں تکمیل افتاء کیا۔

تدریسی خدمات کا آغاز

            جامعہ مظاہر علوم سہارن پور سے فراغت کے بعد۱۹۸۰ء میں آپ کا تقرر مدرسہ فیض العلوم سعیدآباد میں ہوا، کچھ مہینوں بعد آپ کا تبادلہ برہم پور اڈیسہ میں کردیا گیاجہاں آپ نے مدرسہ کاشف العلوم کا قیام عمل میں لایا ، اس سلسلہ میں کافی جد وجہد کی حضرت محی السنہ بھی تقریباً تین روز آپ کے ساتھ وہاں قیام پذیر رہے ، ادارہ کے استحکام کے بعد آپ حیدرآباد چلے آئے ، اسی اثناء میں کاماریڈی میں کچھ حالات ناموافق پیش آئے تو غالباً ۱۹۸۳ء میں آپ کاماریڈی تشریف لے گئے اور جامع مسجد کاماریڈی میں امامت وخطابت کے فرائض انجام دینے کے ساتھ ساتھ تعلیم دین کا سلسلہ بھی جاری رکھا، کاماریڈی کے شاگردوں میں جناب محمد علی شبیر (سینئر سیاسی قائد) قابل ذکر ہیں، ڈیڑھ سال وہاں پر خدمات کی انجام دہی اس کے بعد آپ پھر مدرسہ فیض العلوم تشریف لے آئے اور ایک عرصہ دراز تک فیض العلوم میں تدریسی خدمات انجام دیتے رہے، پھر ۱۹۹۲ء میں آپ کا دوبارہ تبادلہ بھونیشور اڈیسہ میں مدرسہ جامع العلوم کے کچھ ناموافق حالات کی بناپر کیا گیا جہاں آپ نے تقریباً چھ ماہ کا عرصہ گزارکر پھر فیض العلوم تشریف لے آئے اور اپنی خدمات کا سلسلہ جاری رکھا، اسی دوران آپ دو مرتبہ فیض العلوم کے نائب ناظم بنائے گئے ، آپ نے اپنے دونوں عہدنظامت میں فیض العلوم کی تعلیمی و تعمیری ترقی و استحکام کے لیے خوب کام کیا،اور دونوں مرتبہ شعبہ عالمیت کا قیام عمل میں لایا جوکہ آپ کے عہد انتظام تک کافی قبولیت کے ساتھ چلتا رہا۔

مدرسہ سبیل الفلاح کا قیام

            ۱۹۹۳ء میں حضرت مفتی صاحب نے مدرسہ سبیل الفلاح قائم کیا جو کہ ابتداء میں الفلاح لتحفیظ القرآن الکریم کے نام سے موسوم تھا، بعد میں مستقل مدرسہ سبیل الفلاح کے نام سے متعارف ومقبول ہوا،اس ادارہ کو بھی حضرت مفتی صاحب نے دعوة الحق ہردوئی سے ملحق فرمادیا تھا، ۱۹۹۷ء میں آپ اس ادارہ کے نائب ناظم منتخب کیے گئے، پھر اس ادارہ کا الحاق ہردوئی سے ختم ہوا تو چوں کہ آپ ہی اس کے بانی تھے بنابریں آپ ہی ناظم مقرر ہوئے اور تادم زیست اس کے روح رواں رہے، اس ادارہ نے آپ کی ہمہ تن کاوشوں کے بدولت کافی ترقی کی او رسیکڑوں حفاظ اس ادارہ سے نکل کر صرف تلنگانہ ہی نہیں ؛ بلکہ بیرون ریاست نیز بیرون ممالک میں بھی دین کی خدمت انجام دے رہے ہیں۔

مجلس دعوة الحق ہردوئی سے تعلق

            مجلس دعوة الحق ہردوئی سے حضرت مولانا مفتی عبدالمغنی مظاہری کا گہرا تعلق رہا؛ بلکہ اسی پلیٹ فارم سے آپ کی شخصیت متعارف ہوئی، عرصہٴ درازتک مجلس دعوة الحق سے وابستہ رہے، اس کے ایک معمولی فرد سے لے کر ریاستی نظامت تک کا آپ نے سفر کیا ، اس دوران لاکھ خم وپیچ کے باوجود اپنی شخصیت کو کبھی داغدارہونے نہیں دیا اور نہ ہی مجلس پر کوئی حرف شکایت آنے دیا؛ بلکہ مجلس دعوة الحق کو ریاست میں متعارف کرانے میں آپ نے کلیدی رول ادا کیا ہے ،ریاست میں اس کی کئی شاخوں کا قیام عمل میں لایا، مجلس کو پروان چڑھانے میں آپ نے کافی مشکلات کا سامنا بھی کیا اور ا س کی ترقی میں ہر ممکنہ جد وجہد بھی فرمائی۔

بزرگوں سے اجازت وخلافت

            حضرت مفتی صاحب کو اپنے تمام بزرگوں سے تعلق رہا، اہل نسبت بزرگوں کی خوب قدر کرتے تھے، آپ نے اپنا پہلا اصلاحی تعلق محی السنہ حضرت مولانا شاہ ابرارالحق صاحب ہردوئی سے قائم کیا، حضرت نے آپ پر دینی واصلاحی اعتمادکرتے ہوئے آپ کو اجازت وخلافت سے سرفراز فرمایا، حضرت مولانا حکیم اختر صاحب  نے بھی آپ کو خلافت سے نوازا ، اسی طرح پرنامبٹ جنوبی ہند کی عظیم شخصیت حضرت مولانا مفتی سعید احمد صاحب دام ظلہ نے بھی آپ کو اجازت وخلافت عطافرمائی تھی۔

سفرحرمین شریفین

            یوں تو حضرت مفتی صاحب نے اپنی زندگی میں حج وعمرہ کے کئی اسفار فرمائے ، حضرت مفتی صاحب کا پہلا سفر حج ۱۹۹۳ء میں ہوا او رآخری سفر۲۰۱۸ء میں ہوا،آپ نے متعدد حج وعمرے کیے اور حرمین سے کافی گہرا لگاوٴ رکھتے تھے اور وہاں کی حاضری کے لیے ہر دم مشتاق رہتے تھے اور ساتھ رہنے والے جانتے ہیں کہ کس درجہ عقیدت واحترام سرزمین حرمین شریفین کا آپ کے جلو میں پایا جاتا تھااور وہاں عشق وکیف کی جو کیفیت آپ پر طاری ہوتی، وہ تو بس دیدنی تھی۔

تاجِ ختم نبوت کی پاسبانی

            حضرت مولانا عبدالمغنی مظاہری تحفظ ختم نبوت کے سلسلہ میں بڑے حساس اور متحرک تھے، انھوں نے ختم نبوت کی تحریک کو اپنے لیے اوڑھنا بچھونا بنا رکھا تھا، وہ مجلس تحفظ ختم نبوت تلنگانہ وآندھرا کے اہم ترین ذمہ داراور مقبول نائب صدر تھے، انھوں نے مجلس تحفظ ختم نبوت کے استحکام میں کافی اہم کردار ادا کیا تھا، ارکان میں ان کی رائے قابل قدر بھی ہوتی اور قابل عمل بھی۔ مجلس تحفظ نبوت کے ہرکاز میں انھوں نے خود کو پیش پیش رکھا،تاج ختم نبوت کی دربانی کے لیے اضلاع، بیرون ریاست اور ریاست کے چھوٹے چھوٹے قریوں تک کے دورے کیے ، جب قادیانیوں نے کاماریڈی کے ایک دیہات میں اپنی محنتوں کا زور دکھایا اور کئی مسلمانوں کو اپنے چنگل میں پھانس لے گئے تو حضرت مفتی صاحب نے اس علاقہ کا دورہ کیا،قادیانیوں نے مناظرہ کا چیلنج کیا تو اس کو قبول کیا اور بروقت مقامِ مناظرہ پر حاضر ہوئے ؛ مگر جب قادیانیوں کو ان حقانی علماء کی آمد کی اطلاع ہوئی تو راہ فرار اختیار کرگئے۔ شہر حیدرآباد میں ۲۰۰۸ء میں جب قادیانیوں نے صدسالہ اجلاس کرنا چاہا توحضرت مفتی صاحب نے بڑی فکر مندی ظاہرکی، بڑے بڑے سیاسی قائدین سے ملاقاتیں کیں جس کی بہ دولت دارالسلام کے وسیع میدان میں امیر ملت مولانا محمد حمید الدین عاقل حسامی کی زیر صدارت کل جماعتی اجلاس عام منعقد ہوا،نصرت الٰہی شامل حال رہی اور قدرت کی کرشمہ سازی ہوئی بالآخر وہ اپنا اجلاس ملتوی کرنے پر مجبور ہوئے۔مولانا عبدالمغنی صاحب کو ختم نبوت کے سلسلہ میں جب بھی جہاں بھی اور جس وقت بھی بلایا گیا انھوں نے کبھی بھی پس وپیش نہیں کیا؛ بلکہ بڑی تندی کے ساتھ تیار ہوگئے اور تاج ختم نبوت کی پاسبانی کا فریضہ انجام دینے میں کوئی کسر روا نہ رکھا، حضرت کے برادر صغیر ترجمان اہل سنت حضرت مولانا عبدالقوی صاحب دام ظلہ کے بقول: تدفین سے قبل چند نوجوان ان سے ملاقات کرکے بتانے لگے کہ ہم فلاں(آندھراکے کسی ) گاوٴں کے لوگ قادیانیوں سے متأثر ہوگئے تھے تو ہمارے گاوٴں حضرت مفتی صاحب تشریف لے آئے اور ہم کو دوبارہ کلمہ پڑھا کر اسلام میں داخل کیا اور آج ہم حضرت مفتی صاحب کے جنازے میں آئے ہوئے ہیں۔

”مجلس علمیہ“ سے وابستگی

            حضرت مولانامفتی عبدالمغنی مظاہری کوعلماء تلنگانہ وآندھرا کی موٴقر دینی وقدیم تنظیم ”مجلس علمیہ“ سے بھی گہرا لگاوٴ تھا، وہ مجلس علمیہ کے بڑے متحرک اور مخلص رکن عاملہ تھے۔ انھوں نے مجلس علمیہ کے لیے بھی بڑی جد وجہد کی۔ حضرت مولانا عبدالعزیز صاحب قاسمی#  (سوریا پیٹ)کے دور نظامت میں انھوں نے خوب کام کیا اور جب تک مولانا عبدلعزیز صاحب  حیات رہے ،ان کی نگرانی میں مکمل فعالیت کے ساتھ کاموں کو انجام دیتے رہے۔ مجلس علمیہ کے ہر چھوٹے بڑے کاموں میں خود کو شریک کرتے اور کئی کام بذات خود کرتے۔ مجلس علمیہ کے جلسوں کے کامیاب انعقاد کے لیے بڑی فکرو کوشش فرماتے اورآنے والے اکابر کی نیاز مندانہ ضیافت فرماتے اور کسی بھی کام میں عار یا چھوٹا پن محسوس نہیں کرتے ۔

جمعیة علماء سے وابستگی

            حضرت مولانا مفتی محمد عبدالمغنی مظاہری جمعیة علماء کے مقبول ترین ارکان میں شمار کیے جاتے تھے۔ انھوں نے جمعیة کے لیے جو انتھک کوششیں کی ہیں وہ ناقابل فراموش ہیں اور نہ ہی ان کا بآسانی احاطہ ممکن ہے، جمعیة کے کاز کو وسعت دینے اور نت نئے انداز سے کاموں کی تشکیل میں ان کا کردار ناقابل انکار ہے،خدائے غنی نے ان کو بے پناہ صلاحیتوں کا انبار بخش رکھا تھا۔ وہ کاموں کو پھیلانے اور کام لینے کے عظیم فن میں فردفرید تھے۔ کوئی کام ان کے لیے ناممکن نہیں تھا؛ بلکہ مشکل سے مشکل ترین کاموں کو بڑی آسانی کے ساتھ کربھی لیتے اور کروابھی لیتے تھے، ان کی باکمال ذہانت کے سب قائل تھے، مثبت انداز سے کام کرنے کا خوب سلیقہ رکھتے تھے۔ جمعیة کے تمام ارکان کی ہر ممکنہ وابستگی کے لیے مستقل مشاورت کرتے رہتے ۔ کسی سے لاکھ اختلاف کیوں نہ ہوں اس کو بالائے طاق رکھ کر کا م کی جانب اپنی اور سب کی توجہ مبذول کرتے،انھوں نے اپنے کارہائے دل بستہ سے سب کو اپنا بنالیا تھا۔ ان کے اندر چھوٹوں کو بڑا بنانے کا بے بدل فن تھا۔ انھوں نے اپنی زندگی میں کئی بے ناموں کو بڑا نام اور اونچا مقام عطا کیا۔ ان کی شخصیت میں وہ مقناطیسیت تھی کہ ہر کوئی ان کی جانب کھنچا چلا آتا تھا۔ وہ کاموں کو سراہتے اور ہنر مندوں کی قدر کرتے اور بے کار لوگوں کو بھی غیر محسوس طریقہ پر کام کے لائق بنادیتے تھے۔۲۰۰۷ء میں جمعیة علماء گریٹر حیدرآباد کے صدر منتخب کیے جانے کے بعد تو آپ کی فکری وعملی جولان گاہ جمعیة ہی رہی، آپ جمعیة کی دیوانہ وار خدمت کرتے اور جمعیة کے ہر پلیٹ فارم پر اپنی نمائندگی کرتے، نوجوان فضلاء کو آپ نے جمعیة سے جوڑ کر بڑا کارنامہ انجام دیا ، حلقوں کی منظم تشکیل، ہر حلقہ کی وقفہ وقفہ سے کارگزاری، کاموں کی قدردانی، ہفتہ واری مشورے اور اس جیسے کئی کام آپ ہی کی دین ہیں ۔

جلسہائے عظمت صحابہ واہل بیت اطہار

            اس بات سے تو کسی کو انکار نہیں کہ شہر حیدرآباد میں امیر ملت اسلامیہ حضرت مولانا محمد حمید الدین عاقل حسامی کے بعد عظمت صحابہ کے متعلق اگر کسی نے بڑا کام کیا تو وہ صرف اور صرف حضرت مولانا عبدالمغنی مظاہری کی شخصیت تھی۔ انھوں نے عظمت صحابہ کے جلسوں کو نئی جہت وشکل دے کر شیعیت کا غیر محسوس تعاقب کیا۔ لوگوں کو عقائد اہل سنت سے روشناس کرایا۔ عظمت صحابہ کے جلسوں میں شیعوں کے وہ عقائد جنھیں ناواقف لوگ اہل سنت کا شعار و مسلک متصور کرتے ہیں حضرت مفتی صاحب نے ان کو خوب اجاگر کیا ، شہر کے ہر محلہ میں ان جلسوں کا جال بچھادیا گیا۔ صرف ایک ہی حلقہ میں تیس سے زائد جلسہائے عظمت صحابہ منعقد ہوئے اور یہ سب حضرت مفتی صاحب کی فکروں کا نتیجہ تھا۔عظمت صحابہ حضرت مفتی صاحب کی پہچان بن چکی تھی، انھوں نے اس سلسلہ میں انتھک کوششیں کی ، شہر میں عظمت صحابہ کے کئی مرکزی اجلاس منعقد کروائے، سٹی جمعیة کے پلیٹ فارم تلے غالباً ۲۰۰۸ء میں مغل پورہ پلے گراوٴنڈ پر پہلا اجلاس حضرت امیر ملت مولانا محمد حمید الدین عاقل حسامی کی صدارت میں منعقد ہوا، اس کے بعد یہ سلسلہ بلا توقف جاری رہا۔ اسی نام سے کل ہند نعتیہ ومدح صحابہمشاعرے بھی ہوئے ، جس کی حضرت مفتی صاحب صدارت فرمایا کرتے تھے، ہر سال بہ پابندی یہ مشاعرے ہوتے رہے، کورونا وبا کے پیش نظر اس سلسلہ کو موقوف کریا گیا۔ غرض عظمت صحابہ واہل بیت اطہار  کے سلسلہ میں حضرت مفتی صاحب نے اپنی فکرمندی کے ذریعہ ہزاروں مسلمانوں کے عقائد کی اصلاح فرمائی اور صحابہ کرام سے لگاوٴ وتعلق پیدا کیا۔

            شہرحیدرآباد میں فضائل حضرت امیر معاویہ پر ایک اجلاس رکھا گیا؛ مگر حاسدین ودشمنان حضرت معاویہ نے اس جلسہ کے انعقاد میں کافی رکاوٹیں پیدا کردیں جس کی وجہ سے وہ اجلاس نہ ہوسکا۔ حضرت مفتی صاحب کواس کا بڑا قلق رہتا تھا اور اس کا تذکرہ بھی کیا کرتے تھے، رجب ۱۴۴۲ھ مطابق ۲۰۲۰ء میں جب مسجد نزھت ٹپہ چبوترہ میں تحریک غلامان صحابہ کے بینرتلے جلسہ فضائل و مناقب حضرت امیر معاویہ منعقد کیا گیاتو اس اجلاس میں اپنی صحت کی ناسازی اور دوسرے تقاضوں کے باوجود تشریف لے آئے اور خوب حوصلہ افزائی کرتے ہوئے فرمایا: یہ ہم شہریان حیدرآباد پر ایک قرض تھا جو آج الحمدللہ اترگیا اور ہم سب کی طرف سے فرض کفایہ ادا ہوگیا۔

خدمت خلق

            حضرت مفتی صاحب نے خدمت کے کسی بھی میدان سے خود کو دور نہیں رکھا؛ بلکہ خلق خدا کی ہرمحاذ پر خدمت کرتے رہے، خدمت خلق کے میدان میں بھی آپ کی نمایاں خدمات رہیں، آپ نے ۲۰۰۹ء میں کرنول سیلاب کے موقع پراسی طرح حالیہ۲۰۲۰ء کے حیدرآباد سیلاب کے موقع پر اور کئی مواقع پر آپ کی خدمات نہایت تابندہ رہیں، آپ نے عثمان نگر اورہر نشیبی علاقہ کا دورہ کر کے خدمت خلق کا فریضہ انجام دیا ۔ وفات سے قبل۲۰۲۱ء میں کوکن سیلاب متأثرین کے لیے کارکنان جمعیة نے آپ کی سرپرستی میں بڑی فکرمندی کے ساتھ کام کیا۔آپ شہرحیدرآباد کے نہایت متحرک اورفعال ادارہ ”آل انڈیا بیت الامداد چیرٹیبل ٹرسٹ“ کے سرپرست بھی تھے۔

            اسی طرح لوگوں کے مسائل کرنے میں آپ کافی مقبول تھے، لوگ اپنے مسائل آپ کے پاس لاتے اور آپ بڑی سنجیدگی کے ساتھ ان مسائل کو حل فرماتے تھے، آپ کی کونسلنگ بڑی معروف تھی، ہرلائن کی کونسلنگ کرتے تھے اور بین زوجین معاملات کی توآپ کے یہاں بھرمار ہوتی اور آپ کئی کئی نشستوں میں ان مسائل کوحل فرماتے ، اپنے مصروف ہونے کا کبھی حیلہ نہ کرتے اور نہ ہی کسی کے ساتھ کوئی ناگواری کا معاملہ کرتے ۔

سرفرازی یوں ہی نہیں ملتی ہے

            اللہ تعالیٰ دنیا میں ہر کسی کو سرفرازی عطا نہیں فرماتا ہے اور سرفرازی بغیر قربانی و خوف خدا کے ملتی بھی نہیں ہے ۔

            الغرض آپ کی زندگی دینی و ملی خدمات سے لبریز رہی ، کئی دینی اداروں اور ملی تنظیموں کے سرپرست تھے۔ کئی تحریکوں میں آپ کے وجود سے دم خم تھا، آپ جہاں بھی گئے اور جہاں بھی رہے دینی و ملی خدمات کو اپنی زندگی کا نصب العین بنائے رکھا، اکابر و صلحاء کے طرز کے عین مطابق اپنی زندگی گزارتے رہے، علم کی شمعوں کو روشن کرتے رہے، جام معرفت پلاتے رہے، لوگوں کو اللہ اللہ کراتے رہے، لوگوں کو کام پر لگاتے رہے، چھوٹوں کی سرپرستی وحوصلہ افزائی کرتے رہے، بزرگوں سے گہرا تعلق رکھتے رہے۔ مسلک حق کی خوب ترجمانی کرتے رہے۔ فرق ضالہ کا تعاقب کرتے رہے۔ پوری زندگی خدمت قرآن سے وابستہ رہے ۔ اہل اللہ کے منہج ومزاج کی عکاسی کرتے رہے۔ اور یہ بھی ایک المیہ ہے کہ لوگوں نے آپ کی ویسی قدر نہیں کی کہ جو آپ کی شایان شان تھی، آپ کی رحلت کے بعد آپ کی شخصیت سب پر کھل کر سامنے آئی اور آپ کی ضرورت و اہمیت اجاگر ہونے لگی۔آپ کے جنازہ نے عنداللہ وعندالناس آپ کی مقبولیت کا کھلا ثبوت پیش کیا۔ بہرحال تین ماہ کی طویل علالت کے بعد خدائے قیو م نے اپنی جائے پناہ میں آپ کو بلوالیا اورآپ اپنی تھکاوٹوں کو دور کرنے اور حقیقی آرام کرنے کے لیے ۸/محرم الحرام۱۴۴۳ھ مطابق ۱۸/اگست ۲۰۲۱ء بہ روز چہارشنبہ رات ۳/بجے اپنے محبوب حقیقی سے شرف لقاء حاصل کر گئے ۔

آہ کو چاہیے ایک عمر اثر ہونے تک

کون جیتا ہے تری زلف کے سر ہونے تک

ہم نے مانا کہ تغافل نہ کرو گے لیکن

خاک ہوجائیں گے ہم تم کو خبر ہونے تک

———————————————

دارالعلوم ‏، شمارہ :12،    جلد:105‏،  ربیع الثانی – جمادِی الاول 1443ھ مطابق   دسمبر 2021ء

٭        ٭        ٭

Related Posts