حرف آغاز

محمد سلمان بجنوری

            گزشتہ چند سالوں کے دوران عالمی اور ملکی حالات نے ملت اسلامیہ کو جس انداز سے متاثر کیا ہے، اس سے ایک عجیب قسم کی فکری بے چینی اور ذہنی انتشار کی کیفیت پیدا ہوئی ہے، جس کے مضمرات کو باریکی سے سمجھنا اور ان کے تدارک کی کوشش کرنا، علماء حق اور حضرات اکابر دیوبند رحمہم اللہ کے نام لیواؤں کے لیے حد درجہ ضروری ہے، ورنہ ملت اسلامیہ کو صحیح راہ پر قائم رکھنا بہت دشوار ہوجائے گا۔ اس سلسلے میں چند نکتے قابل غور ہیں:

            (۱) ہمارے ملک میں ارباب اقتدار کے مخصوص طرزعمل اور طرز فکر نے ملت کے لیے معاشی، سماجی، ثقافتی اور مذہبی معاملات میں دشواریاں پیدا کی ہیں اور ملکی نظام کا نقشہ بڑی حد تک تبدیل کردیا ہے جس سے نئی نسل اپنے مستقبل کے بارے میں مایوسی کا شکار ہورہی ہے۔

            (۲) کورونا اور لاک ڈاؤن سے پیدا ہونے والے مسائل ساری قوموں کی طرح مسلمانوں کے حصے میں بھی آئے ہیں اور پہلے ہی سے پائی جانے والی کمزوری نے مسلمانوں کے لیے ان مسائل کی سنگینی کو کئی گنا بڑھا دیا ہے۔

            (۳) بڑی تعداد میں پختہ کار علماء رخصت ہوئے ہیں جن سے عام مسلمانوں اور نئے فضلاء کو رہنمائی ملتی تھی، بلاشبہ اب بھی ایسے علماء ومشائخ موجود ہیں؛ لیکن جانے والوں کا خلابھی ایک حقیقت ہے، جس کے پُرکرنے کی محنت ہونا ضروری ہے۔

            (۴) لاک ڈاؤن اور دیگر ہنگامی مواقع پر لوگوں کی امداد وتعاون کا کام ہرقسم کی تنظیمیں اور جماعتیں کرتی ہیں ان سے لوگوں کا متاثر ومانوس ہونا ایک فطری بات ہے، ان میں سے جو اہل حق کی تنظیمیں ہیں وہ تو اخلاص کے ساتھ اپنی ذمہ داری پوری کرکے الگ ہوجاتی ہیں؛ لیکن باطل افکار والے لوگ اس قسم کے مواقع کو اپنی فکر عام کرنے اور سادہ لوح عوام کو اپنی تنظیم یا فکر وعقیدہ سے جوڑنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔

            (۵) گزشتہ چند سالوں کے دوران انٹرنیٹ سے ساری دنیا جس طرح مربوط ہوئی ہے، اس سے ہر شخص واقف ہے۔ اس کی وجہ سے سوشل میڈیا کا استعمال جس کثرت اورجس منصوبہ بندی کے ساتھ اہل باطل نے کیا ہے۔ اس سے شاید ہمارے بہت سے حضرات پوری طرح واقف بھی نہ ہوں؛ لیکن اس سے دنیا بھر میں جو نقصان ہورہا ہے، وہ ایک کھلی حقیقت ہے، سچی بات یہ ہے کہ دین دار گھرانوں تک اس کے نقصانات پہنچنا شروع ہوگئے ہیں۔ یہ صحیح ہے کہ ان ذرائع کے استعمال کے سلسلے میں ہمارے سامنے شرعی حدود کی پابندی کا مسئلہ ہے جو دوسروں کے سامنے نہیں ہے اور ہمیں شرعی حدود سے باہر نکل کر کوئی بھی کام نہیں کرنا ہے؛ لیکن مسئلہ کا حل تو تلاش کرنا ہی ہوگا۔

            (۶) گزشتہ چند سالوں کے دوران بعض مسائل پر دارالعلوم دیوبند اور علماء حق کی جانب سے شرعی موقف کی وضاحت کو بھی اہل حق کے درمیان اختلافات اور دوریاں پیدا کرنے کے لیے منصوبہ بند طریقہ پر استعمال کیاگیا ہے۔ جس انداز سے ہمارے آپس کے ان اختلافات کو ہوا دی گئی ہے اور دارالعلوم دیوبند اور اس کے ذمہ داروں کے بارے میں جس زبان میں اور جس سطح پر اُتر کر بات کی گئی ہے، اس سے اس بات کا پورا یقین ہوجاتا ہے کہ پس پردہ کام کرنے والا ذہن کوئی اور ہے، ہمارے لوگ خواہ وہ کسی بھی فریق سے تعلق رکھتے ہوں، علماء ومدارس کے سلسلے میں اس سطح پر آکر بات کریں یہ ناقابل فہم ہے۔

            پھر اس اختلاف کو مدارس اور علماء سے عوام کا رشتہ کاٹنے کے لیے جس طرح استعمال کیا جارہا ہے وہ بھی لمحہٴ فکریہ ہے۔ اب تو سرے سے مدارس کی ضرورت ہی موضوع بحث بنائی جارہی ہے، خاص طور سے عربی تعلیم کے مدارس کی جو علوم اسلامیہ کی تعلیم، اشاعت اور حفاظت کا کام کرتے ہیں؛ حالانکہ یہ حقیقت ہر سمجھدار مسلمان پر واضح ہے کہ مسلمان بچوں کے ایمان کی حفاظت کے لیے مکتب کی تعلیم جس درجہ ضروری ہے۔ اس سے اُن مدارس کی ضرورت کسی طرح کم نہیں ہے جو اوپر کی تعلیم دیتے ہیں اور تفسیر، حدیث، فقہ، عقائد اور ان سے متعلق تمام علوم اسلامیہ عالیہ وآلیہ کی حفاظت کرتے ہیں جو امت مسلمہ کا سب سے قیمتی ورثہ ہے جو نسل درنسل منتقل ہوتا چلا آرہا ہے اور جسے اگلی نسلوں کو منتقل کرنا ہم سب کی ذمہ داری ہے۔

            (۷) دینی تعلیم کی اہمیت میں کمی لانے اور اس سے دوری پیدا کرنے میں ان حالات کا بھی دخل ہے جو لاک ڈاؤن کے نتیجے میں سامنے آئے۔ ایک طرف تو مدارس میں تعلیم بند ہونے کی وجہ سے طلبہ اپنے گھروں پر رہے اور وہاں معاشی ضرورتوں اور مجبوریوں نے اُن کی ایک تعداد کو تعلیم چھوڑ کر روزگار کی محنت میں مشغول کردیا، جس سے دینی تعلیم میں مسلمان بچوں کا تناسب جو پہلے ہی کم تھا مزید کم ہوا۔ اسی کے ساتھ مدارس میں مدرسین کی تنخواہیں بند ہونے کی وجہ سے اُن کے سامنے معاش کا مسئلہ کھڑا ہوگیا اور وہ طرح طرح کے مسائل کا شکار ہوئے۔ اب مدارس کھلنے کے بعد چاہے اُن میں اکثر لوگ اپنی خدمات پر واپس آگئے ہوں؛ لیکن اس سے عام ذہن پر برااثر پڑا اور مدارس کی لائن میں معاش کی کسی بھی درجہ میں ضمانت نہ ہونے کا پیغام چلاگیا۔

            (۸) ان حالات سے مدارس کا تربیتی نظام جو پہلے ہی محتاج توجہ تھا، مزیددگرگوں ہوگیا ہے، تعلیم میں محنت اور یک سوئی کا مزاج بہت زیادہ متاثر ہوگیا ہے اور سوشل میڈیا تک طلبہ کی عام رسائی نے صرف عملی بگاڑ ہی نہیں فکری بگاڑ کے خطرات بھی پیداکردیے ہیں۔

            (۹) ہمارے ملک کی نئی تعلیمی پالیسی بھی پوری ملت کے لیے باعث تشویش ہے۔ اس پر گفتگو ایک پیراگراف کیا ایک کتاب میں بھی سمانا مشکل ہے؛ لیکن اس بات پر توجہ ہر وقت رہنی چاہیے کہ اپنی نسلوں کے دین وایمان کی حفاظت اور اسلامی ثقافت سے اُن کی وابستگی کے سلسلے میں یہ تعلیمی پالیسی ہمارے سامنے بہت بڑا سوالیہ نشان بن کر کھڑی ہوگئی ہے۔

            (۱۰) ان تمام مسائل کے ساتھ ایک انتہائی سنگین مسئلہ وہ ہے جو مختلف انداز سے اہل ایمان کے ارتداد کی شکل میں سامنے آرہا ہے۔ اس کی ایک صورت تو بین المذاہب شادیوں کی وجہ سے پیش آرہی ہے، جس سے واقف تو بہت سے حضرات ہیں؛ لیکن صحیح تعداد کا اندازہ شاید عام نہیں ہے، یہ واقعات جس کثرت سے پیش آرہے ہیں وہ ہماری نینداڑانے کے لیے کافی ہے۔ ارتداد کا دوسرا خطرہ تعلیم گاہوں سے الحاد کی صورت میں آرہا ہے، جس پر ابھی تک عام طور پر توجہ نہیں ہوپائی ہے؛ لیکن وہ بھی ایک سنگین اور موجب تشویش مسئلہ ہے۔

            اس وقت یہ دس باتیں جو اس ناتواں قلم سے تحریر ہوگئیں، اپنے اکابر اور تمام علماء ودردمندان ملت کی خدمت میں اس خیال کے ساتھ پیش ہیں کہ ہم میں سے جس کو جو توفیق مل جائے وہ سنجیدگی کے ساتھ اپنے حصے کا کام کرے۔

            ہمارے سامنے ہمارے اکابر رحمہم اللہ کا نمونہ موجود ہے، جنھوں نے مشکل اورمخالف حالات میں پامردی اور استقامت کے ساتھ کام کیا ہے۔ ہمیں اپنے طرز عمل اور طرزفکر دونوں میں انہی کے نقش قدم پر چلنے کی ضرورت ہے۔

———————————————

دارالعلوم ‏، شمارہ :11،    جلد:105‏،  ربیع الاول – ربیع الثانی 1443ھ مطابق   نومبر 2021ء

٭        ٭        ٭

Related Posts