از:مولانا عبداللطیف قاسمی

جامعہ غیث الہدیٰ بنگلو ر

            جس طرح کھانا، پینااورسونا انسان کی بنیادی ضرورتوں میں سے ہے، اسی طرح پیشاب اور پاخانے سے فراغت بھی انسانی ضرورت ہے، یہ ضرورت فطری وطبعی نظام پر قائم ہو،تو انسان صحت مند اورتندرست رہتاہے، خدانہ خواستہ اگریہ نظام گڑبڑ ہوجائے، تو ناقابل برداشت تکلیفوں کا سامناکرتاہے، آدمی ڈاکٹروں کا کھلونا بن جاتاہے، یہ نظام اللہ تعالیٰ کی قدرت کی نشانی ا وربہت بڑی نعمت ہے۔

            طبعی طریقے پر سہولت کے ساتھ غذا کااستعمال، پھراس کاہضم ہونا، پھرغذاکے جواجزاء مفیدِبدن ہوں، ان کا جزءِ بدن بن جانا،جو فضلہ اورمضرِصحت وبدن ہو، ان کا بدن سے سہولت وآسانی کے ساتھ خارج ہوجانا، یہ سب اللہ کی بہت بڑی بڑی نعمتیں ہیں، ان عظیم نعمتوں کی قدرلوگوں کواس وقت ہوتی ہے ؛جب وہ بڑھاپے کی عمر میں داخل ہوجائیں، یابیمارہوکر ڈاکٹروں کا کھلونابن جائیں۔

            ہمارے محسن ومہربان نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں ان نعمتوں کا استحضارکرنے، ان کا شکر ادا کرنے کی تلقین فرمائی اوراس کا طریقہ بھی بتایا، انسان قضائے حاجت کے لیے تنہا کھلے میدان، یا بیت الخلا میں جانے اور اپنا سترکھولنے پرمجبورہوتاہے ؛تاکہ اپنے بدن میں جوفضلہ و گندگی ہے، اس کو خارج کرے، شیاطین اورخبیث مخلوقات کو گندگی اورگندگی کے مقامات سے خاص مناسبت ہوتی ہے، وہی ان کے مراکز اوردل چسپی کے مقامات ہوتے ہیں، جب ان کو شرارت اور انسان کو نقصان پہنچانے کا موقع ملتاہے، توضرورجسمانی اورروحانی نقصان پہنچاتے ہیں، جب انسان سترکھولتاہے اور دعاسے اپنی حفاظت کا انتظام نہیں کرتاہے، تو ارشادنبوی کے مطابق شیاطین اس کی شرم گاہ سے کھیلتے اورہنستے ہیں ۔

             اس لیے ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں سمجھایاکہ میں تم لوگوں کے لیے ایسے ہی ہوں، جیسے اولاد کے لیے باپ، یعنی جس طرح ایک خیرخواہ، عقل مند، مشفق اورمہربان باپ اپنی اولادکی تربیت کرتاہے اوراپنی اولاد کو بے تکلف زندگی کے ہرچھوٹے اوربڑے ادب کوبتاتا اور سکھاتا ہے، اس کی دنیوی اوراخروی ضروریات کو پوری کرنے کاطریقہ بتاتاہے اوران کو دنیوی واخروی نقصانات سے بچانے کی فکراورکوشش کرتاہے، اسی طرح میں تمہیں زندگی گذارنے کاطریقہ، انسانی زندگی سے متعلق ہرضرورت کوسلیقے سے پوراکرنے کا طریقہ بتاتا اورسکھاتاہوں ۔

            لہٰذا تم بیت الخلا اورگندگی کے مقامات میں جانے سے پہلے خبیث مخلوقات سے اللہ کی پنا ہ طلب کرلو، ضرورت پور ی کرتے وقت لوگوں کے سامنے سترکھولنے اورگندگی کو داہنے ہاتھ سے صاف کرنے سے احتیاط کرو، احترامِ کعبہ اورمکمل صفائی کاخیال کرو،بے موقع اورقابل احترام چیزوں سے ضرورت پوری کرکے لوگوں کو تکلیف مت پہنچاوٴاور اپنے آپ کو مستحقِ ملامت مت بناوٴ ۔

            یہی وجہ ہے کہ جب مشرکین نے حضرت سلمان فارسی سے مذاق کیا اورطنزکرتے ہوئے کہاکہ تمہارے نبی تمہیں ہگنے کا طریقہ بھی سکھاتے ہیں، تمہارا عقیدہ ہے کہ وہ خداکے نبی ہیں، بھلا جو خداکے نبی ہوں، وہ گندگی سے متعلق باتیں کرتے ہیں؟اور تمہیں اس کا طریقہ بھی سکھاتے ہیں؟ حضرت سلمان فارسی نے فرمایا : ارے بے وقوفو! نبی کی تعلیم، ان کی تربیت اورفکر کی گہرائی تک تمہاری عقلیں پہنچ نہیں سکتیں، پھر سلمان فارسی  نے بیت الخلاکے چندنبوی آداب بتائے کہ بظاہر یہ معمولی آداب معلوم ہوتے ہیں، حقیقت میں یہ آداب احترامِ کعبہ اور پاکی صفائی کے غایت درجہ اہتمام اور کسی بھی جان دارکی ایذارسانی سے اجنتاب کرنے کی ہدایات پرمبنی ہیں، کبھی تم نے ان آداب کی حقیقت پر غورکیا؟ ۔

میں تمہارے کے لیے مہربان باپ ہوں

            حضرت ابوہریرہ  فرماتے ہیں:

             قال رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم: انما أنا لکم بمنزلة الوالد، أعلمکم اذا أتی أحدکم الغائط، فلایستقبل القبلة، ولایستدبرھا، ولا یستطیب بیمینہ، وکان یامر بثلاثة احجار، وینھی عن الروثة، والرمة․ (رواہ أبوداوٴد،کتاب الطھارة، باب کراھیة استقبال القبلة: ۸،۳/۱)۔

            میں تم لوگوں کے لیے باپ کے درجے میں ہوں، جب تم میں سے کوئی استنجے کے لیے جائے، تو چاہیے کہ وہ قبلے کی طرف نہ منہ کرے نہ پیٹھ، اپنے داہنے ہاتھ سے استنجا نہ کرے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم استنجے میں تین ڈھیلوں کے استعمال کا حکم دیتے تھے، لید اور ہڈیوں سے استنجاکرنے سے منع فرماتے تھے۔       

آداب ِنبوی پر طنز اور اس کا حکیمانہ جواب

            حضرت سلمان فارسی سے چند مشرکین نے مذاق اورطنز کرتے ہوئے کہا:

            قد علمکم نبیکم کل شیء حتی الخرائة، قال، فقال: اجل، لقد نھانا ان نستقبل القبلة لغائط أو بول، أونستنجی بالیمین، أونستنجی باقل من ثلثة احجار، أوان نستنجی برجیع أوبعظم․ (رواہ مسلم، کتاب الطھارة، باب الاستطابة: ۲۶۲،۱/۱۳۹)

             تمہارے نبی عجیب آدمی ہیں،وہ تمہیں ہگنے کا طریقہ بھی سکھاتے ہیں یعنی انھوں نے تم کو بے وقوف سمجھ رکھاہے کہ معمولی معمولی باتیں بھی سکھاتے ہیں، حضرت سلمان فارسی نے نہایت حکیما نہ طریقہ اختیارکرتے ہوئے جواب دیا،ہاں، ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں(اس حدیث میں) استنجاکرنے کی چارضروری باتوں کی تعلیم دی ہے جہاں تک تمہاری عقلوں کی رسائی نہیں ہے ۔

          پہلی بات: ہم استنجاکرتے وقت کعبہ شریف کی طرف نہ منہ کریں، نہ پیٹھ ۔

            شریعت نے قبلہ اورکعبہ کے احترام کا حکم دیاہے، کفارومشرکین مکہ چونکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام واسماعیل علیہ السلام کی نسل سے تھے؛ اس لیے ان کے دلوں میں بھی کعبہ کی عقیدت، محبت اورعظمت پیوست تھی اورکعبہ کا نہایت ادب واحترام کرتے تھے، اس وجہ سے اس ادب کو ان کے سامنے بیان کرنا نہایت اہمیت کا حامل تھا۔

          دوسری بات: ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں تعلیم دی ہے کہ ہم داہنے ہاتھ سے استنجا نہ کریں، اچھے برے کاموں کے لیے ہاتھوں کی تقسیم ہونی چاہیے، تمہارے نزدیک اس کی کوئی تمیز نہیں ہے، تم داہنے ہاتھ سے استنجا بھی کرتے ہو اور اسی ہاتھ سے کھاتے بھی ہو ۔

          تیسری بات: ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں بتایاہے کہ بڑے استنجا میں کم از کم تین ڈھیلوں کا ضرور استعمال کرو، تم لوگ ایک ڈھیلے پر اکتفا کرتے ہو، خواہ جگہ صاف ہوجائے،یانہ ہو۔

          چوتھی بات : ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی تعلیم دی ہے کہ ہم لید،گوبر اورہڈی سے استنجانہ کریں،(کیونکہ لیداورگوبرخودناپاک ہیں، وہ دوسروں کوکیسے پاک کرسکتے ہیں ؟ ہڈی کے چکنے ہونے کی وجہ سے صفائی مکمل نہیں ہوتی)۔

            غرض یہ کہ حضرت سلمان فارسی نے ان مشرکین کا مذاق کا حکیمانہ جواب دیاکہ استنجاء کرنے کا طریقہ بھی تعلیمات ِنبوی کامحتاج ہے، شریعت کی ہدایت کے بغیریہ معمولی کام بھی انسان سلیقے سے نہیں کرسکتا۔         

بیت الخلاجانے سے پہلے خبیث شیاطین سے پناہ طلبی

            بیت الخلا اور گندگی کے مقامات شریرجنات اورشیاطین کے مرکز ہوتے ہیں اورقضائے حاجت کے وقت انسانوں کوتکلیف پہنچاتے ہیں، بعض روایات سے معلوم ہوتاہے کہ شریرجنات وشیاطین سترکھلاہونے کے وقت انسانوں سے کھیلتے اورہنستے ہیں ۔

            جنات وشیاطین ہم کو دیکھتے ہیں، ہم ان کو دیکھ نہیں سکتے، جب انھیں شرارت کا کوئی موقع ملتاہے، توشیاطین اس موقع کو ہاتھ سے جانے نہیں دیتے، ان کی شرارت سے بچنے کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں بیت الخلاجانے سے پہلے شیاطین سے پناہ طلب کرنے کاحکم دیااوردعائیں سکھائی ہیں کہ جب بیت الخلا جاوٴ، تو مندرجہ ذیل دعائیں پڑھو، شیاطین کے شرونقصان سے محفوظ رہوگے ۔

            رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

            ان ھذہ الحشوش محتضرة، فاذااتی احدکم الخلاء، فلیقل :اللھم انی اعوذ بک من الخبث والخبائث․ (رواہ ابوداوٴد عن زیدبن ارقم، کتاب الطھارة، باب مایقول الرجل اذا دخل الخلاء: ۶،۱/۱، ترمذی، باب ما یقول اذا دخل الخلاء: ۵،۱/۷)

            بیت الخلااورگندگی کے مقامات میں شیاطین وخبیث جنات رہتے ہیں؛ لہٰذاجب تم میں سے کوئی بیت الخلا جائے، تو مندرجہ ذیل دعاپڑھ لے ۔

                                                اللّٰھم انی أعوذ بک من الخبث والخبائث․

            اے اللہ! میں مذکروموٴنث شیاطین سے آپ کی پناہ طلب کرتاہوں۔

            انسانوں کے سترپر جنات کی نگاہ پڑھنے سے حفاظت کا ذریعہ یہ ہے کہ آدمی جب بیت الخلا جائے، تو، بسم اللہ پڑھے۔

            ستر ما بین أعین الجن وعورات بنی آدم اذا دخل أحدھم الخلاء أن یقول بسم اللّٰہ (رواہ الترمذی عن علی بن طالب، باب ما ذکر من التسمیة عند دخول الخلاء أبواب السفر: ۶۰۶،۱/۱۳۲)

            خزرج کے مشہور سردار صحابیٴ رسول حضرت سعدبن عبادہ قضائے حاجت کے لیے گئے، بعد میں وہیں مردہ پائے گئے، جسم سبز ہوچکاتھا،اس وقت ایک پراسرارآواز سنی گئی کہ کوئی یہ شعرپڑھ رہاہے ۔

قتلنا سید الخزرج سعد بن عبادة                         #                                     رمیناہ بسھمین فلم نخط فوٴادہ

            ہم قبیلہٴ خزرج کے سردارسعدبن عبادہ پردوتیر چلائے، وہ تیران کے دل پر لگے، ہمارانشانہ خطانہیں ہوا۔(الاستیعاب فی ذکرالاصحاب حافظ ابن عبدالبر۲/۲۹۹،معارف السنن ۱/۷۸)

قضائے حاجت سے فراغت پر مغفرت طلبی اورادائے شکر

            حضرت عائشہ فرماتی ہیں:

            کان النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم اذا خرج من الخلاء، قال غفرانک․ (رواہ الترمذی، باب ما یقول اذا خرج من الخلاء: ۷،۱/۷)

            رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دستورتھاکہ جب آپ قضائے حاجت سے فارغ ہوکربیت الخلاسے باہرآتے، تو (اللہ تعالیٰ سے) عرض کرتے ”غفرانک“ اے اللہ!میںآ پ کی معافی چاہتاہوں۔

            قضائے حاجت سے فراغت کے بعد اللہ سے مغفرت طلبی کا موقع نہیں ہے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ سے مغفرت کیوں مانگی؟اس سوال کے مختلف جوابات دیے گئے ہیں ۔

            الف:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہروقت اللہ کاذکر فرماتے رہتے تھے؛چونکہ بیت الخلا میں زبانی ذکر کا موقع نہیں رہتا،تھوڑی دیرذکرکا سلسلہ موقوف ہونے پر آپ نے استغفار فرمایا،اے اللہ! یہ وقت ذکرکے بغیرگذرگیا،مجھے معاف فرما!

            حضرت رشیداحمدگنگوہیؒ فرماتے ہیں:

            ب:قضائے حاجت کے وقت انسان اپنی نجاستوں کا مشاہدہ کرتاہے، اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ ان ظاہری نجاستوں کو دیکھ کر انسان کو اپنی باطنی نجاستوں کا استحضارکرناچاہیے اورظاہرہے کہ یہ استحضاراستغفارکا موجب ہوگا؛ اس لیے ”غفرانک“ کہنے کی تعلیم دی گئی۔

            ج:علامہ خطابی فرماتے ہیں: فضلات کا انسان کے جسم سے نکل جانا، اس کی صحت وزندگی کے لیے اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے،موجودہ دور میں جولوگ کمزوں ہاضمہ کا شکارہیں،یا پیشاب وبیت الخلاکی پریشانیوں میں مبتلاہوجاتے ہیں، ان کی پریشانی وبے بسی کا عالم یہ ہوتاہے کہ ان کے پیشاب کو خارج کرنے کے لیے پائپ لگایاجاتاہے، جہاں جائے، اُسے ساتھ لے کرجاتا ہے، بسااوقات پاخانے کو ناک کے راستے سے پائپ ڈال کر نکالاجاتاہے، انسان ڈاکٹروں کا کھلونا بن کررہ جاتاہے،ان مصیبتوں میں مبتلامریضوں کودیکھنے سے اللہ تعالیٰ کی اس عظیم نعمت کا احساس ہوتاہے، اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قضائے حاجت کے بعد اس دعا کی تلقین فرمائی ہے کہ اللہ کی اس عظیم نعمت کا شکراداکرے اور اللہ کی نعمتوں کا شکرکاحق ادانہ کرنہیں سکتا، اس لیے اللہ سے مغفرت بھی طلب کرے ۔(شرح مہذب،باب الاستطابة ۲/۷۶)

            د:علامہ سیدمحمدیوسف بنوری  فرماتے ہیں: کلام عرب میں ”غفرانک“ شکرکے مفہوم میں استعمال ہوتاہے، عرب حضرات کہتے ہیں : ”غُفْرَانَک لَاکُفْرَانَکَ“،اس توجیہ کی تائید ابن ماجہ میں حضرت انس کی روایت سے ہوتی ہے جس میں بیت الخلا سے نکلنے کے وقت کی دعاان الفاظ میں مروی ہے :

            الحمد للّٰہ الذی اذھب عنی الأذی وعافانی․ (ابن ماجہ، کتاب الطھارة، باب ما یقول اذا خرج من الخلاء: ۳۰۱،صف:۲۶)

            ترجمہ: تمام تعریفیں اس اللہ کے لیے ہیں جس نے مجھ سے گندگی کو دورکردیا اور عافیت عطافرمائی۔

            بندوں پر اللہ تعالیٰ کی بے شمارنعمتیں ہیں، جن میں سے ایک اہم نعمت یہ ہے کہ انسان غذاکا استعمال کرتاہے، غذا کا آسانی کے ساتھ پیٹ میں جانا، غذاکاہضم ہونا،مفیدِبدن کا بدن کا جزء بن جانا اوربدن وصحت کے لیے جوچیزنقصان دہ ہو، اس کا باہرنکل جانا،یہ سب اللہ کی بڑی بڑی نعمتیں ہیں ۔(مستفاد:ازدرس ترمذی ۱/۱۷۹)

کھڑے ہوکر پیشاب کرنااسلامی تہذیب کے خلاف

            کھڑے ہوکر پیشاب کرنا اسلامی تہذیب کے خلاف ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت مبارکہ کھڑے ہوکرپیشاب کرنے کی نہیں تھی، حضرت عمر فرماتے ہیں : جب سے میں نے اسلام قبول کیا ہے، تب سے میں نے کبھی کھڑے ہوکر پیشاب نہیں کیا ۔(ترمذی باب النھی عن البول قائما:۱۳،۱/۹)

            حضرت عبداللہ بن مسعو د فرماتے ہیں: کھڑے ہوکرپیشاب کرنا بدسلیقہ گی اورگنوارپن ہے۔ (ترمذی باب النھی عن البول قائما:۱۴،۱/۹)

            حضرت عائشہ  فرماتی ہیں :

            مَنْ حَدَّثَکُمْ اَنَّ النبیَّ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کَانَ یَبُوْلُ قَائِمًا، فلا تُصَدِّقُوْہُ، ماکانَ یبول الّا قاعدا․ (رواہ الترمذی، باب النہی عن البول قائما: ۱۲،۱/۹)

            جوشخص تم سے کہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوکر پیشاب کرتے تھے، توتم اس کی بات مت مانو،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت مبارکہ بیٹھ کر ہی پیشاب کرنے کی تھی۔

عذرکی بناپرکھڑے ہوکر پیشاب کرنا

            حضرت حذیفہ  فرماتے ہیں:

                                                 أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم أتی سباطة قوم، فبال علیھا قائما الخ․ (رواہ الترمذی، باب ما جاء فی الرخصة فی البول قائما: ۱۳،۱/۹)

            نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم قوم کی کوڑی پرتشریف لے گئے اورکھڑے ہوکر پیشاب کیا ۔

            حضر ت عائشہ کی حدیث سے معلوم ہواکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت مبارکہ بیٹھ کر ہی پیشاب کرنے کی تھی، پھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھڑے ہوکر کیو ں پیشاب فرمایاہے ؟شارحینِ حدیث نے اس کی مختلف وجوہات بیان کیں ہیں جودرج ذیل ہیں:

            الف:امام شافعی وامام احمد فرماتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عرب کی عادت کے مطابق پیٹھ اورکمر کے دردکے علاج کے طورپر کھڑے ہوکر پیشاب فرمایاہے۔ (السنن الکبری للبیہقی، کتاب الطھارة، باب البول قائما:۴۸۹،۲۴۴/۱) حاکم اوربیہقی کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کمرمیں دردتھا جس کی وجہ سے بیٹھ کر پیشاب کرنا دشوارتھا؛اس لیے کھڑے ہوکر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پیشاب فرمایاہے۔ (المستدرک للحاکم، کتاب الطھارة: ۶۴۵، ۱/۲۹۱، السنن الکبری للبیہقی، کتاب الطھارة، باب البول قائما:۴۸۹، ۱/۲۴۴)

            ب:ابن حبان  فرماتے ہیں : جس جگہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھڑے ہوکر پیشاب فرمایا، وہاں نجاستوں کی وجہ سے بیٹھ کر پیشاب کرنا ممکن نہیں تھا۔

            ج:اکثرمحدثین نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان جواز کے لیے کھڑے ہوکر پیشاب فرمایاہے ۔(معارف السنن، باب فی الاستتارعندالحاجة ۱/۱۰۸)

            حاصل کلام یہ ہے کہ کسی شخص کو کمر،گھٹنے، پیروغیرہ میں سخت تکلیف ہو، جس کی وجہ سے بیٹھ کر پیشاب کرنے میں تکلیف ہوتی ہے، یا ایسی جگہ ہو جونجاستوں سے بھری ہوئی ہے، اس کے علاوہ قضائے حاجت کے لیے کوئی مناسب جگہ میسر بھی نہیں ہے،نیز عوامی مقامات :بازار، کاروباری علاقے، بس اڈے، ریلوے اسٹیشن اورایرپورٹ میں کھڑے ہوکر ہی پیشاب کرنے کے لیے پیشاب خانے بنائے جاتے ہیں، جہاں بیٹھ کر پیشاب کرنا ممکن ہی نہیں ہوتاہے، اس طرح کے مواقع اور مقامات میں شرعی اعذاراورمجبویوں کی بناپر کھڑے ہوکر پیشاب کرنے کی اجازت ہوگی۔

            علامہ انورشاہ کشمیری فرماتے ہیں:

             حضرت حذیفہ کی روایت سے کراہت تنزیہی کے ساتھ کھڑے ہوکر پیشاب کرنے کا جواز ثابت ہوتاہے ؛تاہم آج کے دورمیں کھڑے ہوکر پیشاب کرنا غیرمسلم اورفساق وفجارکا شیوہ وشعار بن چکاہے؛ لہٰذا بلاضرورتِ شدیدہ کھڑے ہوکر پیشاب کرنے کی بالکل اجازت نہیں ہوگی۔ (مستفاد: العرف الشذی مع الترمذی باب الرخصة فی ذالک۱/۹،درس ترمذی۱/۱۹۹)

WESTERN TOILET مغربی طرز کے بیت الخلا کااستعمال

            مذکورہ بالااحادیث مبارکہ، آثارصحابہ اورشراح حدیث کی تشریحات سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ کمریاپیٹھ میں درد،پیرمیں چوٹ، بواسیرکی شدت، بہت زیادہ موٹا پاوغیرہ اعذارلاحق ہوں جن کی وجہ سے طبعی طریقے پر بیٹھ کر بڑااستنجا کرناناممکن، یانہایت دشوارہو،تو ایسے معذورین کے لیے مغربی طرزکے بیت الخلاکا استعمال بلاکراہت درست ہوگا، عام حالات میں بلاعذرمغربی طرزکے بیت الخلاکا استعمال فساق وفجار اورمغربی تہذیب کے شیدائیوں کی عادت وشیوہ ہونے کی وجہ سے کراہت سے خالی نہیں ہوگا۔

استنجے کا حکم

             اگرنجاست وگندگی مخرج سے بالکل ادھر ادھرنہ لگی ہو، تو استنجاکرنا (پانی یا ڈھیلے سے صفائی کرنا) مستحب ہے، اگرنجاست مخرج سے متجاوز ہوکر اِدھر ُادھرلگ گئی ہواورایک درہم(نجاست جامد ہو، تقریباًساڑھے تینگرام، اگرمائع مثلاًپیشاب، ہوتو چوڑائی میں ایک سکّے کے برابر) سے کم مقدار میں ہو،تو استنجاکرنا سنت ہے، نیزڈھیلے پر اکتفاکرنا بھی جائز ہے، اس حالت میں نماز پڑھے گا، تونماز بلاکراہت ہوجائے گی، اگرایک درہم کے بقد رہو،تو استنجا واجب ہے، اسی حال میں نماز پڑھے گا، تو نماز مکروہ تحریمی ہوگی، اگرایک درہم سے زیادہ ہو،تو استنجافرض ہے، استنجاکے بغیر نماز نہیں ہوگی۔ (البحرالرائق، کتاب الطھارة، باب الانجاس، تعلیم الاسلام حصہ اول : ۲۶،۱/۴۱۹، تحفة الالمعی۱/۲۲۱)

ڈھیلے اورپانی دونوں سے استنجاکا اہتمام

            استنجے کے تین طریقے ہیں:

            پہلا طریقہ : ڈھیلے اورپانی کو جمع کرنا، یعنی پہلے ڈھیلے سے مخرج صاف کرنا،چھوٹے استنجے میں پیشاب خشک کرنا، پھرپانی سے دھونا، یہ سب سے افضل طریقہ ہے،موجودہ زمانے میں قُویٰ اور اعصاب کمزورہیں، تقریباً لوگوں کو پیشاب کے قطرات کی شکایت ہے، لہٰذا اولاً ڈھیلے کا استعمال، یا ٹشو کا استعمال، یااچھے طریقے سے استبراء حاصل کرنے کے بعد پانی سے استنجاکرنا چاہیے؛کیوں کہ پیشاب کی بے احتیاطی کی بناپر عذاب قبرہوتاہے ۔

            علامہ سیدمحمدیوسف بنوریتحریرفرماتے ہیں:

            ڈھیلے اورپانی دونوں سے استنجاکرنے سے متعلق کوئی روایت صریح اورصحیح نہیں ہے، اس کے باجود جمہورِامت کے نزدیک ڈھیلے اورپانی دونوں سے استنجاکرنا افضل ہے، بڑے استنجے میں اولاً ڈھیلے کے استعمال سے نجاست کم ہوجائے گی، پھرپانی استعمال کرے گا، تو تھوڑی ہی نجاست وگندگی کو صاف کرنے کے لیے ہاتھ کا استعمال ہوگا،یہ زیادہ بہتر ہے، (چھوٹے استنجے میں پیشاب کو خشک کرنے میں مدد ملے گی)۔(معارف السنن ۱/۱۳۱)

            دوسرا طریقہ: چھوٹے اوربڑے استنجے میں صرف پانی کا استعمال کرنا، یہ فضیلت کا دوسرا درجہ ہے،جس کی فضیلت کی طرف قرآ ن مجید میں اشارہ کیاگیاہے ۔

            حضرت محمدبن عبداللہ بن سلام فرماتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے(اہل قبا) پاس قباتشریف لے آئے اورفرمایا: اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں ”فیہ رجال یحبون أن یتطھروا، واللّٰہ یحب المطھرین“(التوبة۱۰۸)قبابستی میں ایسے لوگ آباد ہیں جوخوب پاکی حاصل کرنا چاہتے ہیں،اللہ تعالیٰ خوب پاکی حاصل کرنے والوں سے محبت فرماتے ہیں) میں تمہاری تعریف فرمائی ہے، کیاتم مجھے نہیں بتاوٴگے (کہ تم پاکی کے سلسلے میں کیاعمل کرتے ہو؟)اہل قبا نے کہا: یارسول اللہ !ہم تورات میں پانی سے استنجاکرنے کا ذکرپاتے ہیں (چنانچہ ہم بھی پانی سے استنجاکرتے ہیں)۔(مسنداحمد: ۲۳۸۳۳)

            رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں پانی کم تھا،لوگ عام طور پر ڈھیلااستعمال کرتے تھے، بعدمیں پانی کااستعمال شروع ہوا، تو آپ علیہ السلام نے بھی پانی سے استنجافرمایاہے،بعض حضرات پانی کی قلت، یا پانی کے احترام کے خیال سے پانی سے استنجا کرنا پسند نہیں کرتے تھے، حضرت عائشہ  نے لوگوں کوپانی سے استنجا کرنے کی ترغیب دی ہے ۔

            حضرت عائشہ  نے عورتوں سے فرمایا :

            اپنے شوہروں سے کہو کہ وہ پانی سے استنجا کریں ؛کیو ں کہ یہ مسئلہ مجھے مردوں سے بیان کرتے ہوئے شرم آتی ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم استنجے میں پانی استعمال فرماتے تھے ۔(رواہ الترمذی، باب الاستنجاء بالماء : ۲۲،۱/۱۱)

            تیسراطریقہ: صرف ڈھیلا، یاموجودہ زمانے میں ٹشوکاغذ کا استعمال بھی جائزہے، کوئی شخص بیمارہے، پانی کا استعمال نہیں کرسکتاہے، یا صاحبِ فراش مریض ہے جو طبی عملہ کی نگہداشت میں ہے،یا مریض کو بسترسے الگ کرکے پانی سے چھوٹے بڑے استنجے کی صفائی کرناناممکن، یا کافی دشوار ہے، یاحالت ِسفرمیں پانی دستیاب نہیں، ان جیسی صورتوں میں ڈھیلے،یا ٹشوکاغذسے اچھی طرح صفائی کرکے نماز اداکرکرسکتے ہیں،شرعاًاس میں کوئی حرج نہیں ہے ۔

کن چیزوں سے استنجا کرنا جائز

            ہرپاک چیز جوقابلِ احترام نہ ہواور نجاست کو زائل کرنے والی ہو، اس سے استنجاکرنا جائزہے، خواہ پتھرہو، مٹی کا ڈھیلا، یااستنجے ہی کے لیے تیارکیاجانے والاکاغذ (ٹشوپیپر) ہو،یاپراناکپڑا۔

            نئے اورکارآمدکپڑے، لکھنے کے کاغذوغیرہ چیزوں سے ان کے قابلِ احترام ہونے کی وجہ سے استنجا مکروہ ہے۔

            ناپاک چیز سے استنجابھی جائزنہیں؛اس لیے کہ جوخودناپاک ہو، وہ دوسری چیز کو پاک کیسے کرے گی۔(معارف السنن ۱/۱۱۵، البحرالرائق،کتاب الطھارة، باب الانجاس۱/۴۱۸)

استنجے کے آداب

            (۱)ہاتھ میں انگوٹھی ہو جس میں اللہ کا نام نقش ہو، یا تعویذ وغیرہ ہو جس میں اللہ کا نام ہو،یا قرآنی آیات اوردعائیں لکھی ہوئی ہوں اوراس کو لپیٹانہ گیاہو، یادیگرچیزیں ہوں جن میں اللہ کا نام یاکوئی قابلِ تعظیم چیزلکھی ہوئی ہو،توان کو باہررکھ کر بیت الخلاجائے ۔(بذل المجہود ۱/۲۲۹)

            کان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم اذا دخل الخلاء، نزع خاتمہ․ (رواہ الترمذی، أبواب اللباس، باب ماجاء فی لبس الخاتم فی الخلاء: ۱۷۴۶،۱/۳۰۵ والنسائی، کتاب الزینة: ۵۲۳۱)

            (۲)بیت الخلامیں کھلے سرنہ جائے، نیز ننگے پیربھی نہ جائے ۔

            رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیت الخلا میں سرڈھانک کر اورچپل پہن کر جاتے تھے۔

            أن النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم اذا دخل الخلاء، لبس حذائہ وغطی رأسہ․ (روی البیھقی فی السنن الکبری مرسلا عن حبیب بن صالح، کتاب الطھارة، باب تغطیة الرأس: ۴۵۶)

                                                 عن عائشة کان النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم اذا دخل الخلاء غطی راوٴأسہ واذا أتی أھلہ غطی رأسہ․ (روی البیھقی فی السنن الکبری باسناد ضعیف، کتاب الطھارة، باب تغطیة الرأس: ۴۵۵،۱/۲۳۴)

            (۳) بنے ہوئے بیت الخلا میں جائے، تواندرداخل ہونے سے پہلے درج ذیل دعاپڑھے ۔

            اللّٰھم انّی أعوذُ بِکَ مِنَ الخُبُثِ وَالخَبَائث․

            (۴)اگرکھلے میدان میں استنجا کرے، تو کپڑے کھولنے سے پہلے پڑھے۔

            حضرت انس  فرماتے ہیں:

             کان النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم اذا أرادَ الحاجةَ لم یَرْفَعْ ثَوْبَہ حتی یَدْنُوَ من الأرضِ۔ (رواہ الترمذی باف فی الاستتارعندالحاجة : ۱۴،۱/۱۰)

            رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب قضائے حاجت کے لیے تشریف لے جاتے، تو زمین سے قریب ہونے سے پہلے کپڑے نہیں کھولتے تھے۔

          مسئلہ: اگراندرجاتے وقت دعابھول جائے، تو دل میں دعا پڑھے، زبان سے نہ پڑھے، بیت الخلاسے فراغت کے بعد کی دعا باہرنکل کر پڑھے ۔

            (۵)بیت الخلامیں بایاں پیررکھ کر داخل ہو، جب باہر نکلے، تواولاً داہنا پیر نکالے۔(شرح مہذب،باب الاستطابة ۲/۷۷)

            (۶)کھلے میدان میں استنجاء کرے، تو لوگوں کی نگاہ سے دورجائے؛تاکہ لوگوں کے سامنے سترکھولنے سے حفاظت ہوسکے، اگربنے ہوئے بیت الخلا میں استنجا کرے، تو پردے کا خاص خیال رکھے کہ کسی کی نگاہ نہ پڑے ۔

            حضرت مغیرہ بن شعبہ فرماتے ہیں:

                                                کان اذا ذَھَبَ المذھبَ، أبعد․ (رواہ أبوداوٴد، کتاب الطھارة، باب التخلی عند قضاء الحاجة: ۱،۱/۱)

            رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب قضائے حاجت کے لیے جاتے، تو (لوگوں کی نگاہ سے) دورچلے جاتے ۔

            من أتی الغائط، فلیستتر، فان لم یجد الّا أن یجمعَ کَثِیْبًا من رَمَلٍ، فلیستدبر، ان الشیطان یلعب بمقاعد بنی آدم․ (رواہ أبوداوٴد عن أبی ھریرة وأبی سعید، کتاب الطھارة، باب الاستتارفی الخلاء: ۳۵،۶/۱)

            جوشخص بیت الخلاجائے، اس کو چاہے کہ پردے کانظم کرے، اگرپردے کا کوئی نظم نہ ہو، توریت کو اکٹھاکرکے ایک تودے کی طرح بنالے اوراس کے اوٹ میں بیٹھ جائے؛اس لیے کہ شیطان انسان کی شرم گاہوں سے کھیلتاہے ۔

            (۷)استنجے کے لیے ایسی جگہ تلاش کرے جہاں استنجا کرنے سے پیشاب اورگندگی کے چھینٹے کپڑوں اورجسم پرنہ اڑیں، کھلے میدان میں استنجا کرے، تونرم جگہ پیشاب کرے، بنے ہوئے بیت الخلا میں بیسن میں کرے، پکے فرش پر پیشاب کرے گا، تو چھینٹے اڑیں گے ۔

                                                اذا أرادَ أحدُکُمْ أَنْ یَبُوْلَ، فَلْیَرْتَدَّ لِبَوْلِہ  مَوْضِعًا․ (رواہ أبوداوٴد عن أبی موسی، کتاب الطھارة، باب الرجل یتبوأ لبولہ: ۳،۱/۱)

            جب تم میں سے کوئی شخص پیشاب کرے، تو پیشاب کرنے کے لیے جگہ تلاش کرے (یعنی نرم زمین جس میں پیشاب کے قطرات کے اڑنے کا خطرہ نہ ہو،پردہ والی جگہ ہو،نشیب کی طرف چہرہ کرنے کی نوبت نہ آئے )

            (۸) چھوٹے اوربڑے استنجے کے وقت قبلے کی طرف نہ منہ کرے اورنہ پیٹھ کرے ۔

            حضرت ابوایوب انصاری فرماتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

            اذا أَتَیْتُمُ الغائطَ، فَلَا تستقبلوا القبلةَ، ولا تستدبروھا ولکن شَرِّقُوْا أو غَرِّبُوْا․ (رواہ البخاری، کتاب الصلوة، باب قبلة أھل المدینة: ۳۹۴،۱/۵۷)

            جب تم استنجاکرو، توقبلے کی طرف نہ منہ کرو نہ پیٹھ، (اے اہل مدینہ !)مشرق یامغرب کی طرف رخ کرو۔

            (۹)استنجے کے وقت داہنے پیرکو سیدھاکھڑاکرے اوربائیں پیر پرسہارے لے، اس کیفیت سے استنجاکرنے میں سہولت بھی ہوتی ہے ۔

            سراقہ بن مالک بن جعشم  فرماتے ہیں:

                                                علمنا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم اذا دخل أحدنا الخلاء أن یعتمد الیسری وینصب الیمنی․ (السنن الکبری للبیھقی باسناد ضعیف، کتاب الطھارة، باب تغطیة الرأس: ۴۵۷،۱/۲۳۴)

            (۱۰)بلاضرورت شدیدہ کھڑے ہوکر پیشاب نہ کرے ۔

            حضرت عائشہ  فرماتی ہیں :

            مَنْ حَدَّثَکُمْ أنَّ النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم کان یَبُوْلُ قائمًا، فلا تُصَدِّقُوْہُ، ماکان یبولُ الّا قاعدًا․ (رواہ الترمذی، باب النھی عن البول قائما: ۱۱،۱/۹)

            جوشخص تم سے کہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوکر پیشاب کرتے تھے، توتم اس کی بات مت مانو،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت مبارکہ بیٹھ کر ہی پیشاب کرنے کی تھی۔

            (۱۱) بلاضرورت شدیدہ استنجے کے لیے داہنے ہاتھ کا استعمال نہ کرے ۔

             حضرت عائشہ  فرماتی ہیں :

                                                کانت یدُ رسولِ اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم الیُمْنٰی لِطُھُوْرِہ، ولطعامہ، وکانت الیُسْریٰ لِخلائِہ، وماکان من أذی․ (رواہ أبوداوٴد، کتاب الطھارة، باب کراھیة مس الذکر بالیمین: ۳۳،۱/۵)

            آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا داہنا ہاتھ پاکی اورکھانے کے استعمال ہوتاتھا اوربائیں ہاتھ استنجے اورگندگی چیزوں کے لیے استعمال ہوتاتھا۔

            اگرکوئی عذرہو،تو داہنے ہاتھ سے استنجاکرنے کی بلاکراہت اجازت ہے ۔

            علامہ ابن نجیم فرماتے ہیں:

                                                ان کان بالیسری عذر یمنع الاستنجاء بھا جاز أن یستنجی بیمینہ من غیر کراھة․ (البحرالرائق، کتاب الطھارة، باب الانجاس ۱/۴۲۱)

            (۱۲)قضائے حاجت کے موقع پر شرم گاہ اورگندگی پر نگاہ نہ ڈالے،نہ آسمان کی طرف دیکھے نہ ہی اعضائے مستورہ کے ساتھ کھیلے،(شرح المہذب،باب الاستطابة۲/۹۴ ) نیز تھوکنے اور ناک صاف کرنے سے بھی احتیاط کرے ۔(البحرالرائق، کتا ب الانجاس ۱/۴۲۲)

            (۱۳)کسی سوراخ، جانوروں اورحشرات الارض کے بلوں میں پیشاب، پائخانہ نہ کرے ۔

            حضرت عبداللہ بن سرجس فرماتے ہیں:

                                                أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نھی أن یُبَالَ فِیْ الجُحَرِ، قالوا لِقتادةَ، ما یُکْرَہُ من البول فی الجحر؟ قال: کان یقال انھا مساکن الجن․ (رواہ أبوداوٴد، کتاب الطھارة، باب النھی عن البول فی الجحر: ۲۹،۱/۵)

            رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سوراخ میں پیشاب کرنے سے منع فرمایا ہے، حضرت قتادہ سے تلامذہ نے سوال کیاکہ سوراخ میں پیشاب کرنے کی کراہیت کیوں ہے؟ حضرت قتادہ نے فرمایا: کہاجاتاہے کہ سوراخ جنات کے گھرہیں (نیز حشرات الارض کا مسکن ہیں، نقصان کا اندیشہ ہے )

            (۱۴)حمام وغسل خانے میں پیشاب نہ کرے ؛کیوں کہ حمام وغسل خانے میں پیشاب کرنا وسوسوں کا سبب ہے۔

            حضرت عبداللہ بن مغفل فرماتے ہیں :

            أن النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم نھی أن یبولَ الرجلُ فی مُسْتَحَمِّہ، وقال ان عامةَ الواسواسِ منہ․ (رواہ الترمذی، کتاب الطھارة، باب ماجاء فی کراھیة البول فی المغتسل: ۲۱،۱/۱۲)

            رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حمام اورغسل خانے میں پیشاب کرنے سے منع فرمایاہے اورارشادفرمایاکہ اکثر غسل خانے میں پیشاب کرنے سے وسوسے پیداہوتے ہیں ۔

            (۱۵)راستہ، سایہ دارجگہ جہاں کسی کے بیٹھنے کا امکان ہو، اور پانی کے گھاٹ پر بیت الخلانہ کرے ۔

            حضرت معاذ بن جبلفرماتے ہیں:

                                                قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: اتقوا الملاعن الثلاثة: البراز فی الموارد، وقارعة الطریق، والظل․ (رواہ أبوداوٴد، کتاب الطھارة، باب المواضع التی نھی النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم عن البول فیھا: ۲۶،۱/۵)

            رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تین قابلِ ملامت ولعنت مقامات (میں استنجاکرنے) سے احتیاط کرو، پانی کی جگہیں، راستے اورسایہ کی جگہوں میں استنجاکرنے سے احتیاط کرو۔

            (۱۶)رکے ہوئے پانی میں پیشاب وپائخانہ نہ کرے۔

            حضرت ابوہریرہفرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

                                                لایبولنَّ أحدُکم فی الماءِ الدائمِ، ثم یغتسلُ منہ․ (رواہ مسلم، باب النھی عن البول فی الراکد: ۲۸۱)

             تم میں سے کوئی ٹہرے ہوئے پانی میں ہرگزپیشاب نہ کرے کہ پھراسی سے غسل بھی کرے گا۔

            ٹہرا ہواپانی تھوڑا ہے، تو پانی ناپاک ہوجائے گا، اگرٹہرا پانی زیادہ ہے، تو پانی ناپاک نہیں ہوگا؛ لیکن نظافت اورانسانی شرافت کے خلاف ہے۔

            (۱۷)چھوٹے اوربڑے استنجے کے موقع پر بات چیت نہ کرے ۔

            رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دوآدمی سترکھول کر استنجا کرتے ہوئے بات چیت میں مشغول ہو ں، تواللہ تعالیٰ ان سے ناراض ہوتے ہیں ۔

            حضرت ابوسعیدخدری فرماتے ہیں:

                                                سمعت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یقول: لایخرجُ الرجلانِ یضربانِ الغائطَ کاشفین عن عورتھما یتحدثان، فان اللّٰہ عزوجل یَمْقُتُ علی ذالک․ (رواہ أبوداوٴد، کتاب الطھارة، باب کراھیة الکلام عند الحاجة: ۱۵،۱/۲)

            رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا : دو آدمی سترکھول کراستنجاکرتے ہوئے باتیں کرتے ہیں، تو اللہ تعالیٰ ان پرغصہ ہوتے ہیں۔

            (۱۸)بیت الخلا کے موقع پر کوئی سلام کرے، تو جواب نہ دے، چھینک آنے پرالحمدللہ نہ کہے، نہ اذان کا جواب دے،یہ تمام باتیں مکروہ ہیں ۔(شرح مہذ ب، باب الاستطابة۲/۸۸)

            حضرت ابن عمر فرماتے ہیں:

                                                ان رجلا سَلَّمَ علی النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم وھویبولُ، فلم یَرُدَّ علیہ․ (رواہ الترمذی، کتاب الطھارة، باب فی کراھیة رد السلام غیرمتوضی: ۹۰،۱/۲۷)

            رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پیشاب فرمارہے تھے کہ ایک شخص نے آپ کو سلام کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے سلام کا جواب نہیں دیا۔

            (۱۹)جب بیت الخلاسے فارغ ہوجائے، تو اولًا داہنا پیرباہرنکالے اورمندرجہ ذیل دعاپڑھے۔ (شرح مہذب،باب الاستطابة ۲/۷۷)

            الحمد للّٰہ الذی أذْھَبَ عَنِّي الأذیٰ وعافانی․ (ابن ماجہ، کتاب الطھارة، باب ما یقول اذا خرج من الخلاء: ۳۰۱،صف:۲۶)

            (۲۰)بڑے استنجے سے فارغ ہونے کے بعد اپنے ہاتھ کو مٹی پر رگڑکردھوئے، اگرمٹی میسرنہ ہوتوصابون وغیرہ سے دھوئے ۔

            حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں:

کان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم اذا أتی الغائطَ، أتیتہ بماء فی تَوْرٍ أوْرَکْوَةٍ، فاستنجی، ثم مسح یدہ علی الارض، ثم أتیتہ باناءٍ آخر، فتوضأ․ (رواہ أبوداوٴد باب الرجل یَدْلُکُ یَدَہ بالأرض اذا استنجیٰ: ۴۵،۱/۷)

            جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بڑاستنجافرماتے، تو میں پیتل یا پتھر کے برتن یاچمڑے کے چھوٹے برتن میں پانی لے آتا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم استنجافرماتے، پھر اپنا ہاتھ زمین پررگڑتے، پھردوسرے برتن میں پانی لے آتا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس برتن کے پانی سے وضوفرماتے ۔

            معلوم ہواکہ بڑے استنجے سے فارغ ہونے کے بعد استنجے میں استعمال ہونے والے ہاتھ کو مٹی سے رگڑنا چاہیے،پھرہاتھ کو دھوناچاہیے؛ اس لیے کہ پاخانے میں زہریلے اثرات ہوتے ہیں، مٹی نوشادرہ ہوتاہے جس سے زہریلی اثرات زائل ہوتے ہیں، اگرمٹی موجود نہ ہو، تو صابون استعمال کرے ۔

———————————————

دارالعلوم ‏، شمارہ :11،    جلد:105‏،  ربیع الاول – ربیع الثانی 1443ھ مطابق   نومبر 2021ء

٭        ٭        ٭

Related Posts