حضرت مولانا نور عالم خلیل امینیؒ
شخصیت اور انفرادیت
بہ قلم: مولانا اشرف عباس صاحب قاسمی
استاذ دارالعلوم دیوبند
۱۹-۲۰/رمضان المبارک کی درمیانی شب میں استاذِ گرامی مربی نسل نو حضرت مولانا نور عالم صاحب خلیل امینی رحمة اللہ علیہ کا انتقال پرملال ذہن ودماغ کو مضمحل کردینے والا ایسا زبردست حادثہ ہے جس کی کسک علمی و دینی حلقے میں دیر تک محسوس کی جاتی رہے گی اور اس زخم کے مندمل ہونے میں نہ جانے کتنا عرصہ لگے ! انا للّٰہ وانا الیہ راجعون، إن للّٰہ ما أخذ ولہ ما أعطی، وکل شیء عندہ بأجل مسمی․
حضرت الاستاذ عربی اور اردو کے صاحبِ طرز ادیب ہونے کے ساتھ ساتھ مثالی معلم، بے نظیر مربی اور جامع کمالات تھے؛ ہم جیسے طالب علموں کو آپ کی شخصیت کے متعدد پہلوؤں نے متاثر کیا، اور ان میں سے ہر پہلو تفصیل سے لکھے جانے کا متقاضی ہے؛ تاہم زیر نظر مضمون میں صرف بعض اشارات پر اکتفا کیا جارہا ہے جن سے شخصیت کی جامعیت وعبقریت سامنے آسکے گی۔
۱- عربی زبان سے عشق
رسول کونین صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان عربی مبین سے والہانہ عشق، جذباتی وابستگی، زبان و قلم سے اس کی تعلیم و اشاعت کے لیے اپنا سب کچھ تج دینے کا بے پناہ جذبہ آپ کی زندگی کا نمایاں وصف ہے، اور زبان کے ساتھ یہ شیفتگی محض زبان کی حیثیت سے نہیں؛ بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کمال محبت اور کتاب وسنت کے ساتھ انتساب نے آپ کو اس پاکیزہ زبان کا ایسا اسیر بنادیا تھا کہ زندگی بھر اسی کی زلفیں سنوارتے رہے، طلبہ کے ساتھ آپ کا اختلاط بہت کم تھا، اور آپ اپنے مصروف نظام الاوقات کی وجہ سے عموماً طلبہ کی انجمنوں اور پروگراموں سے گریزاں رہتے تھے، اس لیے عام طلبہ کے ذہن و دماغ میں آپ کا تصور فقط ایک عام ادیب اور باکمال قلم کار کی حیثیت سے ہوتا تھا؛ لیکن تکمیل ادب عربی میں آپ سے شرفِ تلمذ حاصل کرنے کے بعد آپ کی اصلی شخصیت کھل کر سامنے آتی، آپ کی ادبیت کے ساتھ صالحیت اور جذب دروں کا قلب پر ایسا نقش قائم ہوتا کہ وہ بھی شریک زمرہ لا یحزنوں ہوجاتا۔ ۲۰۰۰ء میں جب عربی ادب میں ہمارا داخلہ ہوا تو دوچار روز آپ ہمارے قلب و نظر کی تطہیر، نیت کی درستگی، عربی زبان کے حوالے سے شہید جستجو بن جانے اور اعلی اخلاق واقدار اختیار کرنے پر ایسی مؤثر گفتگو فرمائی کہ ہم میں سے بہت سوں کے قلبی جذبات آنسوؤں کی راہ سے باہر نکل آئے، ایک ممتاز ساتھی میرے کان میں کہنے لگے: ”یہ عام ادیب ومصنف نہیں بلکہ صلاح و تقوی اور سوزِ دروں کے اعتبار سے الگ ہی شخصیت ہیں“ اور پھر سال بھر یہ شخصیت اپنے اسی خاص رنگ و انداز میں زبان و ادب کی حلاوت کے علاوہ طیبہ کی مئے محبوب بڑی فیاضی کے ساتھ ہمیں پلاتے رہے۔ سرکار دو عالم …کی زبان مقدس کے ساتھ والہانہ تعلق کا نتیجہ تھا کہ اس کی خدمت آپ کی زندگی کی سب سے بڑی شناخت بن گئی۔
۲- حسن خط
آپ ایک نستعلیقی مزاج کے باوقار اور ذکی الحس عالمِ دین تھے، نشست و برخاست، رفتار و گفتار اور لباس و پوشاک غرضیکہ ہرچیز میں منفرد جمال پسند انداز تھا، کسی بھی کام کو انتہائی سلیقہ مندی اور خوش اسلوبی سے انجام دینے کا مزاج رکھتے تھے، چنانچہ عربی کے ایک بڑے قلم کار ہونے کے ساتھ جودت خط اور مختلف اسالیب کتابت کے بھی بڑے ماہر تھے۔ کسی زبان میں مہارت کے ساتھ خط کی عمدگی کبھی کبھار ہی جمع ہو پاتی ہے، اور بہت سے مشاہیر بھی اس خوبی سے محروم رہے ہیں۔ عبدالحمید الکاتب نے واضح کیا ہے کہ بیان وفصاحت کا تعلق زبان کے ساتھ انگلی کے پوروے سے بھی ہے جس سے قلم پکڑا جاتا ہے، مشہور ادیب مبرد نے بدنما خط کو ادب کا بانجھ پن اور عیب قرار دیا ہے۔ حافظ ابن حجر عسقلانی نے لکھا ہے کہ عربوں میں ایک کہاوت رائج ہے، جس کا حاصل یہ ہے کہ سبز پتے میں لپٹے ہوئے تازہ پھل کی خوبصورتی سفید کاغذ پر بکھرے ہوئے شان دار خط کے سامنے ہیچ ہے۔(فتح القدیر شرح الجامع الصغیر۳/۵۰۵)
حضرت مولانا شروع ہی سے حسن خط اور خوش نویسی کے حوالے سے ممتاز رہے،اور دارالعلوم دیوبند میں پڑھتے ہوئے مختلف مداخل و مخارج پر آپ کی نمایاں تحریر آویزاں کی جاتی۔ ندوة العلماء لکھنوٴ میں مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابو الحسن علی ندوی کی خاص توجہات کو اپنی طرف منعطف کر وانے میں اس وصف کا بھی خاص دخل رہا ہے، بدنما اور کج مج تحریر سے آپ کو بڑی اذیت ہوتی، ہم جیسوں کی کاپی چیک کرتے وقت، مزاج سے ہم آہنگ خط نہ ہونے کی صورت میں بڑی خشمگیں نگاہوں سے دیکھتے اور اسے کبھی تو خط خرطوم اور کبھی خط لا قانونی کا نام دیتے تھے، اور بالخصوص خط رقعہ کی غیر معمولی اہمیت کی طرف توجہ دلاتے تھے، آپ نے اپنی بعض تحریروں میں اس سخت موقف کی کھل کر وکالت کی ہے: چناں چہ فرماتے ہیں:
”حسن خط انسان کابہت خوبصورت زیور ہے، کسی پڑھے لکھے شخص کے لیے زیبا نہیں کہ وہ بد خطی کے مرض میں مبتلا ہو، اگر خدانخواستہ مبتلا ہو تو اسے ”زود اثر دواؤں“ کے ذریعے اس کا ازالہ کرنا چاہیے۔“
اس سلسلے میں باضابطہ آپ نے طلبہ کی رہنمائی کے لیے مستقل کتاب ”خط رقعہ کیوں اور کیسے لکھیں“ بڑے اہتمام سے مرتب کرکے شائع بھی کی۔
۳- قواعدِ املا کی تعلیم
حسن خط، کسی زبان کو لکھنے کی معیاری اور جاذب نظر صورت کا نام ہے، اور اس خط کے مطابق،صحت کا اہتمام کرتے ہوئے لکھنے کا نام املا ہے، بہت سے قلم کار علامات وقف اور رموز املا کا خاص خیال رکھتے ہیں، جس سے قاری کی رسائی بہ آسانی مضمون نگار کی مراد تک ہوجاتی ہے اور وہ کسی الجھاؤ کا شکار ہوئے بغیر مضمون کی خواندگی سے فائدہ اٹھاتا اور لطف حاصل کرتا ہے، حضرت مولانا کے یہاں اس کا بڑا التزام تھا، ایک مقام پرصحتِ املا کی خصوصیت بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
”نویسندہ ایک لفظ کو اس کے املا کے بر خلاف لکھ کر ایک باذوق قاری کو ایک طرح کی الجھن میں ڈال دیتا ہے، بلکہ اسے مجبور کردیتا ہے کہ وہ اسے اس لفظ کے علاوہ کوئی دوسرا لفظ پڑھ لے،جو نویسندہ کا مقصود نہیں ہوتا“
واقعہ یہ ہے کہ ہم نے اپنے اساتذہ میں سب سے پہلے اور سب سے زیادہ اس پہلو پر توجہ دینے والا حضرت مولانا کو ہی پایا، آپ نہ صرف یہ کہ زندگی بھر اپنی تحریروں میں شدت کے ساتھ اس کا التزام کرتے رہے؛ بلکہ اپنے شاگردوں کی بھی ہمیشہ اس حوالے سے ذہن سازی فرماتے رہے۔ آپ اس موضوع پر بڑی تفصیل اور اہتمام کے ساتھ روشنی ڈالتے تھے، آپ ہی کی ترغیب وتحریض پر رشید احمد صدیقی کی مفصل کتاب ”اردو املا کیسے لکھیں“ اور گوپی چند نارنگ کے مختصر رسالے ”املا نامہ“پڑھنے کا موقع ملا، آپ ان دونوں کتابوں کے بہ کثرت حوالے دیتے تھے، طلبہ کی صحیح رہنمائی کے لیے آپ نے ”حرف شیریں“ میں رہنما اصول بڑی خوبی اور جامعیت کے ساتھ جمع کردیے ہیں۔
۴- تدریس کا خاص نہج
آپ کا انداز روایتی تدریس سے خاصا مختلف تھا۔ عبارت خوانی میں نحو و صرف کی رعایت کافی نہیں تھی؛ بلکہ طالب علم کو عربی کے تمام قواعد کا لحاظ رکھنا پڑتا تھا، جس سے صحیح مخرج سے حروف کی ادائیگی اور قواعدِ وقف کے التزام کی عادت پڑ جاتی تھی؛ حضرت مولانا گنتی کے چند چوٹی کے ادبا میں شمار ہوتے تھے؛ لیکن آپ ہمیشہ طلبہ کی سطح کا خیال رکھتے ہوئے اس طرح پڑھاتے تھے کہ اس سے سارے طلبہ خوب مستفید ہوتے اور ہر ایک کا یہ تصور ہوتا کہ یہ درس مجھے ہی سامنے رکھ کر مرتب کیا گیا ہے۔ تکمیل ادب کے طلبہ کو صرف ایک گھنٹہ پڑھاتے تھے؛ لیکن مختلف انداز سے مشق وتمرین کے ذریعے ایسا نہج دے دیتے کہ اس سے منزل تک رسائی کی راہیں کھل جاتیں۔ آپ کے طاقت ور جملے، لطافت وظرافت سے بھرپور تمثیلات، برمحل اشعار وتلمیحات اور خاص انداز واشارات طلبہ کو اس طرح گرویدہ بنا لیتے کہ وہ قلب اور قالب دونوں کے ساتھ از اول تا آخر درس گاہ میں حاضر رہتے، اور یہ بھی آپ کا ممتاز وصف تھا کہ دوران درس مختلف علمی فکری اور فنی کتابوں اور مراجع کی نشان دہی فرماتے؛ چنانچہ پہلی بار آپ ہی کی ترغیب پر ”پرگتی میدان“ دہلی میں منعقد ہونے والے عالمی کتاب میلے میں حاضری ہوئی اور اپنے مطلب کی کئی کتابیں خرید لایا۔ ہرسال حضرت کا معمول اس کتاب میلے میں شرکت کا تھا۔
۵- ذکرِ امت فکر امت
ملکی اور عالمی حالات پر گہری نظر تھی، اسلام کی محدود دعوتی و اصلاحی کوششوں اور ان کے بعض صالح اثرات کے ساتھ صہیونی اور استبدادی تحریکوں اور ان کے منفی اثرات پر آپ انتہائی با بصیرت تبصرے کرتے تھے، ملت کی زبوں حالی اور اس کے لیے صحیح راہ عمل کی نشان دہی میں آپ نے عمر کھپا دی، آپ کے قلم کا رخ قضیہ فلسطین اور مسجدِ اقصی کی طرف بہ کثرت رہا ہے۔
صحیح معنی میں آپ اسلامی افکار و خیالات سے لیس ایک بہترین قلم کار تھے، آپ کا کوئی اداریہ ایسا نہیں ہوتا تھا جس میں آپ نے اپنا سینہ چیر کر نہ رکھ دیا ہو، آپ کے قلم نے زبردست آنسو نہ بہائے ہوں اور اپنے قاری کو نہ رلایا ہو۔ ان کے علاوہ آپ کے گہر بار قلم سے نکلنے والی نادر و فکر انگیز کتابیں جیسے، ”کیا اسلام پسپا ہورہا ہے؟“، ”موجودہ صلیبی صہیونی جنگ“، ”فلسطین کسی صلاح الدین کے انتظار میں“۔آپ کی عالم اسلام کے تئیں ہمدردی اور فکرمندی کا بین ثبوت ہیں۔
آپ کا قلم اخلاص و للہیت کے نور سے منور اور عشق و محبت اور سوز دروں کی حرارت سے لبریز تھا، آپ کا خیال تھا کہ انشاء پردازی اگر تقوی و طہارت کے نور سے خالی ہو تو اس میں وہ تاثیر اور جاذبیت پیدا نہیں ہوسکتی۔ ”متی تکون الکتابات مؤثرة“ میں بڑے موثر انداز میں آپ نے یہ حقیقت سمجھائی ہے کہ الفاظ وحروف کی حیثیت جسم کی ہے، اصل روح قلم کار کا سوزِ دروں اور جذبہ اخلاص ہے۔ ایک مقام پر لکھتے ہیں:
”کوئی عالم، مصنف، اہل قلم، داعی، فقیہ، محدث، قائدِ دینی، مصلحِ اجتماعی؛ بل کہ ادیب، شاعر اور فن کار؛ خواہ کتنا ہی قد نکال لے، وہ محض علم و اطلاع کے بل بوتے پر اور صرف ذہانت وذکاوت، عقل و عبقریت، دور نگاہی و روشن خیالی کے سہارے اپنے کام میں برکت کا نور، مقبولیت کی سحر کاری، قدر افزائی، تب و تابِ اخلاص، بے تابیٴ عشق رسول، سرشاری محبت الٰہی، لذتِ سحرخیزی، ذوقِ عبادت اور شوقِ ریاضت سے نہ اٹھاہو۔ یہی وہ چیز ہے جو کسی عمل کو صاحب عمل کے لیے اور خلق خدا کے لیے ذریعہٴ فائدہ رسانی اور باعثِ حیاتِ جاودانی بنا دیتی ہے۔“
درس میں بھی موقع بہ موقع موجودہ احوال و کوائف پر اپنے کرب کا اظہار فرماتے اور اس کے ساتھ یہ بھی کہتے: أنا لست بمتشاؤم بمستقبل أمة الإسلام․اس لیے طلبہ درسگاہ میں آپ سے صرف عربی ہی نہیں سیکھتے تھے؛ بلکہ ان میں دل دردمند ملت کے لیے فکر مندی اور اس کے مسائل کے مختلف جہات سے واقفیت اور فکر ونظر کی آفاقیت بھی منتقل ہوتی تھی۔ صہیونیت کے بارے میں تھوڑا بہت پہلے پڑھ رکھا تھا لیکن تکمیل ادب کے سال آپ کی رہنمائی سے موضوع کی مختلف گرہیں کھلتی گئیں اور آپ ہی کی نشان دہی پر اور اس جیسی اصطلاحات کی حقیقت سے واقفیت کے لیے ”فرہنگ سیاست“ جیسی کتابوں سے بھی خوب استفادہ کیا۔
۶- دارالعلوم اور مسلک دار العلوم سے تعلق اور ترجمانی
دار العلوم دیوبند سے محبت وعقیدت آپ کے رگ و ریشے میں پیوست تھی؛ بلکہ آپ زندگی بھر اس کے فکر و مشن کے ترجمان رہے، درس کے دوران اور نجی مجلسوں میں سلف صالحین اور اکابر علماء دیوبند کی خدمات اور کارنامے ایسے مؤثر انداز میں ذکر کرتے کہ دلوں پر ان کی عظمت کے نقوش مرتسم ہوجاتے، آپ کی بڑی خواہش تھی کہ اکابر علماء دیوبند کے علوم و افکار سے عالم عرب کو بھی واقف کرایا جائے؛ چنانچہ آپ نے اس کے لیے کامیاب عملی کوششیں کیں اور الداعی کے صفحات پر حضرت تھانوی ودیگر اکابر علماء دیوبند کے تراجم اور قیمتی تراشوں کے شائع کرنے کا سلسلہ جاری رکھا جو بعد میں کتابی شکل میں بھی شائع ہوئے۔ دارالعلوم دیوبند کے مسلک کی ترجمانی وتشریح بھی اپنے زبان و قلم سے مثبت اور ٹھوس انداز میں کرتے رہے۔ حکیم الاسلام حضرت قاری محمد طیب کی مشہور کتاب ”علماء دیوبند کا دینی رخ اور مسلکی مزاج“ کو شان دار عربی کے قالب میں آپ ہی نے ڈھالا ہے۔
۷- ادبی امتیاز
علمی طبقے میں یہ بھی آپ کا خصوصی امتیاز ہے کہ آپ عربی اور اردو زبان و ادب کے حوالے سے اپنی ایک خاص شناخت رکھتے تھے، چناں چہ دونوں ہی زبانوں میں آپ نے جو قابل قدر لسانی و ادبی سرمایہ چھوڑا ہے اس کی مثال تقریباً ناپید ہے، دونوں زبانوں کے ادبا اور قابل فخر شخصیات نے آپ کا لوہا مانا، اور آپ کو خراج تحسین پیش کیا ہے. عربی کی طرح اردو میں بھی آپ کا خاص اسلوبِ نگارش رہا ہے، عموماً آپ کے جملے، درمیان کے وضاحتی بیان کی وجہ سے طویل ہوتے ہیں؛ تاہم اپنی معنویت، استدلالی انداز اور رموز املا کی خاطر خواہ رعایت کی وجہ سے قاری پر ایسا اثر چھوڑ جاتے ہیں کہ وہ اس کے سحر میں کھو جاتا ہے،مولانا کے جذبے کی صداقت اور طاقتور طرز نگارش کی دھمک کو قلب و نظر کی گہرائی میں اترتا ہوا محسوس کرتا ہے،ذیل میں دیکھیے وہ کس خوبی کے ساتھ موثر انداز میں مفکرِ اسلام مولانا سید ابو الحسن علی ندوی رح کی با عظمت شخصیت کا ہالہ اپنے قاری کے ذہن ودماغ کے ارد گرد تیار کرتے ہیں:
”میں نے صرف اردو میں نہیں عربی میں بھی تحریر کے بادشاہوں کو پڑھا ہے، تقریر کے جادوگروں کو سنا ہے، الفاظ کے شہنشاہوں کو برتا ہے،فصاحت و بلاغت کے دریا بہانے والوں کا تجربہ کیا ہے،مطالعہ و معلومات کی گم نام اور تاریک سرنگوں میں، بے خطر بہت دور تک چلے جانے والے، بہت سے لوگوں کا علم ہے؛ لیکن دل کی اتھاہ گہرائیوں سے میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ تحریرو تقریر کے لفظ لفظ نہیں،حرف حرف پر اور ہر زیر و بم پرخلوص کا جو حسن،ایمان و یقین کی جو مہر تابی،درد دل کی جو لذت،انسانوں سے محبت کا جو جمال،اعلا ئے کلمة اللہ کا جو جلال،صدائے حق کی جو دل نوازی،اور سوزِ دروں کی جو تمازت اور فقر غیور و زہد پر نورکی جو جاذبیت و حرارت،میں نے مولانا علی میاں کے ہاں محسوس کی ہے،وہ میرے محدود علم و مطالعہ میں،ان میں سے کسی کے ہاں اس بھرپور کیفیت اور طرز خاص کے ساتھ نہیں ملتی“۔(پس مرگ زندہ،ص:۵۴۱)
مولانا نے شاعری نہیں کی ہے؛ البتہ بعض شعرا کے تذکرے اور ان کے کلام پر تبصرے سے واضح ہے کہ سخن فہمی کی اعلیٰ صلاحیت، گہری بصیرت اور بالغ نظری عطا ہوئی تھی، مفتی کفیل الرحمن نشاط عثمانی کی شاعری پر تبصرہ کرتے ہوئے آپ نے لکھا تھا: ”مفتی کفیل الرحمن نشاط کے اشعار، رواں دواں اور پیہم جواں زندگی کے نت نئے مسائل کی ترجمانی میں لب ولہجہ، انداز وادا اور رنگ و آہنگ کے تعلق سے اپنی مخصوص طرح رکھتے ہیں، زندگی کی کامرانیوں اور فیض بختیوں اور اس کی ناقابل تلافی ناکامیوں اور محرومیوں دونوں کی نقشہ گری اپنے اشعار میں لاجواب انداز میں کرتے ہیں، ان کے اشعار کا بغور مطالعہ کیجیے اندازہ ہوگا کہ وہ شاعر کی پاکیزہ نفسی، روح کی شفافیت، احساس کی نزاکت، تخیل کی بلندی، مسائل حیات کے احاطے اور کائنات کی سچائیوں کی ہمہ گیر تعبیر پر شاہد عدل ہیں۔“ (ایضاً، ص:۹۴)
آسام یونی ورسٹی سے آپ کی کتاب ”فلسطین فی انتظار صلاح دین“ اور مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی سے آپ کی زیر ادارت شائع ہونے والے مجلے ”الداعی“ پر آپ کے فکر وفن اور ادبی وسماجی شعور کے مطالعے کے تناظر میں ڈاکٹریٹ کے مقالات تحریر کیے جاچکے ہیں، علمی خدمات کے اعتراف میں حکومت ہند کی طرف سے با وقار صدرجمہوریہ ایوارڈ بھی آپ کو تفویض کیا جا چکا ہے۔
۸- اپنی دنیا آپ پیدا کی
بہت سے حضرات اپنی خاص نسبتوں اور وسائل کے سہارے کامیابی کی منازل طے کرتے ہیں، لیکن مولانا کا معاملہ یکسر مختلف رہا ہے۔صغر سنی میں ہی یتیمی کا درد جھیلنا پڑا، والدہ محترمہ کا دوسرا نکاح ہوجانے کے سبب ان کی خصوصی توجہات سے بھی محروم ہوگئے، اس طرح نامساعد اور صبر آزما حالات کے باوجود توفیق ایزدی سے ایسے سخت جان اور پر عزم واقع ہوئے تھے کہ کبھی ہار نہیں مانی، سمندر پاٹنے اور کوہ سے دریا بہانے کے حوصلے کے ساتھ آگے بڑھے اور بڑھتے چلے گئے، آپ نے ایک بار دوران درس بڑے جذبات کے ساتھ فرمایا تھا: ”میں نے افلاس کے چراغ سے علم کی روشنی حاصل کی ہے۔“
کچھ عرصے قبل گھر پر حاضری ہوئی، تو فرمانے لگے:
”مولانا! میں کھیتی کے کام سے خوب واقف ہوں، میں نے نو عمری میں سب کام کیا ہے، حتی کہ طالب علمی کے دوران بھی جب کبھی گھر پہنچتا تو دوسرے دن ہی کدال لے کر کھیت چلا جاتا تھا۔ میں خود کیاری بناتا، بیج ڈالتا اور خود رو پودے اور گھاس صاف کرتا تھا“ اس طرح آپ نے اپنی محنت اور جہد مسلسل سے کامیابی کی نئی تاریخ رقم کی اور اپنے کمالات اور خوبیوں کی وجہ سے ہی اپنے رفقاء اور اساتذہ کی آنکھوں کا تارا بنے، اسی پس منظر میں آپ ہمیشہ اپنے ان بزرگوں اور اساتذہ کے منت کش رہے جنہوں نے آپ کو کسی بھی طرح سنبھالا دیا، الداعی میں شائع ہونے والے مشہور کالم ”إشراقة“ میں علمی و ادبی موضوعات اور طویل تجربات کے علاوہ زندگی کی نا ہمواریوں اور مختلف مراحل کی دشواریوں کی جھلک کسی بھی حساس قاری کو نظر آسکتی ہے، اور اس کے ذریعے آپ کی زندگی کے مختلف اوراق پڑھے جا سکتے ہیں، اشراقات کا یہ مجموعہ”من وحی الخاطر“کے نام سے پانچ جلدوں میں شائع ہوچکا ہے۔
۹- ترجمہ وخاکہ نگاری
زبان کی نزاکت و لطافت کے ساتھ آپ کو شروع ہی سے جستجو، تحقیق اور درست معلومات وحقائق تک رسائی کا خاص اہتمام رہا ہے؛ اس لیے آپ نے شخصیات کے احوال وکوائف کے تعلق سے جو کچھ تحریر کردیا ہے اس کو دستاویزی حیثیت حاصل ہوگئی ہے۔ آپ کی عادت عموماً کسی بڑی شخصیت کے انتقال پر الداعی میں تعزیتی وتاثراتی مضامین تحریر کرنے کی رہی ہے، جس میں شخصیت کی نمایاں خصوصیات موٴثر انداز میں پیش فرماتے۔ اس کے بعد بڑی جامعیت کے ساتھ سوانحی نقوش بھی درج کرتے، جس میں ماہ وسنین اور دوسری معلومات پیش کرنے میں صحت کا خاص خیال رکھتے۔ انھیں مضامین کو جب آپ نے اردو کا قالب دیا تو اردو میں بھی سوانح و وقائع نگاری کی ایک نئی روایت سامنے آئی، جس میں نام سے لے کر ٹائٹل، ترتیب اور مشمولات تک ہر اعتبار سے انفرادیت اور خوبی نمایاں تھی؛ چنانچہ ”وہ کوہ کن کی بات“کے بعد ”پسِ مرگ زندہ“کو اہل ذوق نے ہاتھوں ہاتھ لیا اور اب بہت جلد ان شا ء اللہ ”رفتگان نارفتہ“ اہل بصیرت کی آنکھوں کا سرمہ ثابت ہوگی۔ اختصار اور جامعیت کے ساتھ آپ کے ترجمہ وخاکہ نگاری کی زبردست صلاحیت اور قابل تقلید اسلوب کا اظہار وہاں ہوتا ہے جہاں آپ نے کسی شخصیت پر کوئی حاشیہ اور تشریحی نوٹ لگایا ہے۔ اردو کتابوں کے علاوہ عربی میں ”العالم الہندی الفرید“ اس کی بہترین مثال ہے۔ مذکورہ بالا کتابوں میں ”پس مرگ زندہ“ کو خاص مقام حاصل ہے، فنی اعتبار سے ”خاکہ“ کی تعریف صادق آتی ہے۔ حضرت مولانا نے اس کتاب میں قارئین کی نفسیات، ضروریات اور جذبات کا لحاظ رکھا ہے اور اس پہلو سے وہ اپنے مقصد بلکہ اس صنف ادب میں نئی طرح ڈالنے اور خوش گوار اضافہ کرنے میں کامیاب ثابت ہوئے ہیں۔
۱۰- زہد و عبادت
صرف بھاری بھرکم الفاظ، پرشکوہ تعبیرات اور نادر استعارات وتشبیہات سے تقریر یا تحریر میں اثر انگیزی اور طاقت وقوت پیدا نہیں ہوتی ہے، جب تک اس میں سوز دروں اور اخلاص و تقویٰ کی آنچ شامل نہ ہو۔ جذبہ طاعت وعبادت کے بغیر محض عبارت آرائی مس خام اور نقش ناتمام ہے، جس میں خون جگر سے رنگ بھرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ حضرت مولانا کو سوز دروں اور تعلق مع اللہ کی خاص دولت عطا ہوئی تھی۔ عبادت بڑے ذوق و شوق سے کرتے اور رب کے حضور گرم گرم آنسو بہا کر دل کا بوجھ ہلکا کر تے تھے۔ آپ کے رفیقِ حج مشہور صحافی معصوم مرادآبادی عینی شہادت دیتے ہوئے لکھتے ہیں: ”میں نے پایا کہ مولانا ایک انتہائی متواضع اور منکسر شخصیت کے مالک ہیں، عبادت وریاضت کا یہ عالم تھا کہ جب کبھی رات میں میری آنکھ کھلتی وہ مصلے پر ہوتے، کبھی نماز پڑھتے ہوئے اور کبھی اللہ کے حضور میں گڑگڑاتے ہوئے، اکثر پوری پوری رات یوں ہی بسر ہوتی، میں نے پہلی بار کسی بندہ خدا کو یوں اپنے رب کے حضور میں گڑگڑاتے ہوئے دیکھا تھا، ان کے اس عمل کا میرے دل پر خاص اثر ہوا، یہ پورے سفر میں ان کا معمول رہا۔“
مولانا کی ذاتی زندگی میں استغنائیت کا وصف بھی نمایاں تھا، عزتِ نفس پر حرف نہ آئے اس کا بڑا خیال تھا، عالمانہ وقار کو ٹھیس نہیں پہنچنے دیتے تھے اور اس سلسلے میں طلبہ کو بھی ہدایت دیتے رہتے تھے۔
اپنے ناقص تتبع کے اعتبار سے حضرت مولانا کی عبقریت کو سمجھنے کے لیے دس خصوصیات ذکر کردی ہیں اورانھیں پر اکتفا کرتا ہوں۔ورنہ حقیقت یہ ہے کہ۔۔۔۔۔۔ع
دامنِ نگاہ تنگ وگل حسن تو بسیار
اللہ ربّ العزت حضرت مولانا کی جملہ خدمات وحسنات کو قبول فرمائیں اوراعلی علیین میں مقام بلند عطا فرمائیں۔ آمین!
——————————————–
دارالعلوم ، شمارہ :6-7، جلد:105، شوال المكرم – ذی الحجہ 1442ھ مطابق جون-جولائی 2021ء
٭ ٭ ٭