حرف آغاز

حضرت مولانا مفتی ابوالقاسم نعمانی صاحب دامت برکاتہم

مہتمم دارالعلوم دیوبند

            دارالعلوم دیوبند کو اللہ رب العزت نے جن بے شمار خصوصیات وامتیازات سے نوازا ہے، اُن میں سے ایک اہم چیز ضرورت کے مطابق بروقت ملت کی رہنمائی اوراصلاح کی فکر اور مناسب عملی اقدامات کی صلاحیت ہے، موجودہ حالات میں جب کورونا کی وبا کے سبب تمام تعلیمی وتربیتی سرگرمیاں معطل ہوگئیں اور تمام ترکوششوں کے باوجود مدارس کے تعلیمی نظام کو متحرک کرنے میں کامیابی نہیں ملی تو دارالعلوم کے ارباب حل وعقد اور اکابر اہل علم نے ایک نہایت مفید فیصلہ یہ فرمایاکہ حضرات اساتذئہ کرام کی صلاحیت اور وقت کو دیگر اہم اور ضروری کاموں میں مشغول کیا جائے۔ اس کے تحت تین کمیٹیاں تشکیل دی گئیں ۔

            (۱) پہلی کمیٹی تصنیف و تالیف اور حضرات اکابر کی تصانیف پر تحقیقی کاموں کے لیے تشکیل پائی،اور بڑی تعداد میں اساتذئہ کرام نے اس کے طے کردہ نظام کے مطابق کام شروع کردیا۔

            (۲) دوسری کمیٹی دارالعلوم کے قدیم اور عظیم کتب خانے کی ترتیب کے لیے وجود میں آئی اور وہ بھی اپناکام کررہی ہے۔ ان دونوں کی تفصیلات کسی مناسب وقت پر پیش کی جائیں گی، ان شاء اللہ۔

            (۳) تیسری کمیٹی اصلاح معاشرہ کے لیے تشکیل دی گئی، اس کے تحت باقاعدہ نظام کے تحت حضرات اساتذئہ کرام کے بیانات کا سلسلہ شروع کیاگیا اور مختصر اصلاحی کتابچوں کی اشاعت عمل میں آئی۔ اس کمیٹی کے کام نہایت سرگرمی سے حضرت مہتمم صاحب دامت برکاتہم اور حضرت مولانا قاری سیّدمحمدعثمان صاحب دامت برکاتہم معاون مہتمم دارالعلوم دیوبند کی نگرانی میں انجام پارہے ہیں ۔

            سردست اسی کمیٹی کے کام کی ضرورت اور طریقۂ کار وغیرہ کی تفصیلات پرمشتمل، حضرت مہتمم صاحب دامت برکاتہم کی یہ تحریر پیش کی جارہی ہے۔ جس میں اس کمیٹی کی تشکیل اور اس کے پس منظر کے ساتھ، اصلاح معاشرہ کی ضرورت واہمیت اور علماء کی ذمہ داریوں پر نہایت سہل انداز میں مختصر گفتگوکی گئی ہے۔ (محمدسلمان)

بسم اللہ الرحمن الرحیم

صالح معاشرہ کی تشکیل

             ہر مسلمان مرد وعورت کی ذمہ داری ہے کہ ایمان وعقیدہ کی درستگی کے ساتھ خود بھی نیک اعمال کا خوگر ہو، برائیوں سے پرہیز کرے اور دوسروں کو بھی صالح بنانے کی کوشش کرے، اچھائیوں کو پھیلانے اور برائیوں کو مٹانے کی فکر اور جد و جہد کرے۔

            ٭        اللہ جل شانہ نے قرآن پاک میں اس امت کا تعارف کراتے ہوئے فرمایا:

          ’’کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَتُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ‘‘ (سورہ آل عمران:۱۱۰)

            تم لوگ بہترین امت ہو جو لوگوں کو نفع رسانی کے لیے پیدا کی گئی ہے، تم اچھائی کا حکم دیتے ہو اور برائی سے روکتے ہو اور خود بھی ایمان والے ہو۔

            ٭        حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

           ’’کُلُّکُمْ رَاعٍ وَکُلُّکُمْ مَسْئوُلٌ عَنْ رَعِیَّتِہِ‘‘(بخاری)

            تم سب ذمہ دار ہو  اور تم سب سے اپنے ماتحتوں کے بارے میں سوال کیا جائے گا۔ 

            ان سب ارشادات سے معلوم ہوا کہ ہر مسلمان کی پہلی ذمہ داری یہ ہے کہ اپنے ایمان اور عقیدہ کی درستگی کے ساتھ اپنے اعمال، اخلاق ، عادات اور معاملات کو شریعت وسنت کے مطابق بنانے کی کوشش کرے لیکن صرف اپنے ایمان اور اعمال کی فکر کافی نہیں بلکہ درجہ بدرجہ اپنے اہل خانہ، اہل وعیال، اہل محلہ، اہل شہر بلکہ تمام لوگوں کو نیکی کی راہ پر لانے کی فکر کرے۔ اللہ تعالیٰ نے سورہ’’ والعصر‘‘ میں زمانے کی قسم کھا کر فرمایا ہے کہ تمام انسان خسارے اور نقصان میں ہیں ، سوائے ان کے جوا یمان والے ہوں ، اچھے کام کریں ، آپس میں ایک دوسرے کو صحیح بات کی تلقین کریں اور آپس میں ایک دوسرے کو صبر واستقامت کی تاکید کریں ۔

ایمان کا ادنیٰ درجہ

            ٭        رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

          ’’مَنْ رَأَی مِنْکُمْ مُنْکَرًا فَلْیُغَیِّرْہُ بِیَدِہٖ فَإِنْ لَمْ یَسْتَطِعْ فَبِلِسَانِہٖ فَإِنْ لَمْ یَسْتَطِعْ فَبِقَلْبِہٖ وَذٰلِکَ أَضْعَفُ الإِیمَانِ‘‘ (مسلم شریف)

            یعنی تم میں سے جو شخص بھی کسی منکر (غلط کام) کو دیکھے اسے اپنے ہاتھ سے مٹائے، اگر اس کی طاقت نہ ہو تو اپنی زبان سے نکیر کرے، اگر اس کی بھی استطاعت نہ ہو تو دل سے مٹائے یعنی دل میں برائی کو دیکھ کر کڑھن پیدا ہو اور اس برائی کو ختم کرنے کی فکر کرے، اور یہ ایمان کا ادنیٰ درجہ ہے ۔ اور ایک روایت میں ہے کہ اس سے نیچے ایمان کا معمولی درجہ بھی نہیں ہے۔

            اس حدیث سے معلوم ہوا کہ یہ ذمہ داری بلا امتیازہر امتی کی ہے کہ اپنی آنکھیں کھلی رکھے۔ حالات کا جائزہ لے، اور اپنے ارد گرد جہاں بھی کوئی عملی، اخلاقی برائی نظرآئے اس کو ختم کرنے کی پوری کوشش کرے۔

امر بالمعروف ونہی عن المنکر

            اسی عمل کو قرآن وسنت کی زبان میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے عنوان سے بیان کیا گیا ہے، اور جگہ جگہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی تاکید فرمائی گئی ہے۔ اور اس عمل میں کوتاہی برتنے پر سخت وعیدیں بیان کی گئی ہیں ۔

            ٭        ایک حدیث میں فرمایا گیا:

          ’’والَّذِی نَفْسِی بِیَدِہٖ، لَتَأْمُرُنَّ بالْمَعْرُوفِ، وتَنْہَوُنَّ عَنِ المُنْکَرِ، أَوْ لَیُوشِکَنَّ اللّٰہ أَنْ یَبْعَثَ عَلَیْکُمْ عَذَاباً مِنْ عِندِہِ ثُمَّ لَتَدْعُنَّہُ ولا یُسْتَجابُ لَکُمْ‘‘(ترمذی)

            فرمایا کہ قسم اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے تم ضرور بالضرور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرتے رہو ورنہ بہت جلد اللہ تعالیٰ اپنے پاس سے تمہارے اوپر عذاب بھیجے گا پھر تم اس سے دعائیں مانگو گے اور تمہاری دعائیں قبول نہیں ہوں گی۔

            ٭        ایک دوسری حدیث میں ارشاد ہے :

          ’’مَا مِنْ رَجُلٍ یَکُونُ فِی قَوْمٍ یُعْمَلُ فِیہِمْ بِالْمَعَاصِی یَقْدِرُونَ عَلٰی أَنْ یُغَیِّرُوا عَلَیْہِ وَلَا یُغَیِّرُونَ إِلَّا أَصَابَکُمُ اللّٰہُ مِنْہٗ بِعِقَابٍ قَبْلَ أَنْ یَّمُوتُوا‘‘(ابوداؤد وابن ماجہ)

            فرمایا کہ جو شخص بھی ایسی قوم میں ہو جن میں گناہ کئے جارہے ہوں اور وہ اس کے مٹانے پر قادر ہوں اور پھر بھی نہ مٹائیں ان کو اللہ تعالیٰ ان کے مرنے سے پہلے عذاب میں مبتلا کر دے گا۔

معاشرہ کی حالت زار

            اس وقت عام طور پر مسلم معاشرہ کی جو صورت حال ہے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے، سب سے اہم عبادت نماز سے غفلت عام ہے، نشہ بازی، جوا ، سٹہ اور طرح طرح کی مخرب اخلاق اور تباہ کن عادتوں میں معاشرہ کا بڑا طبقہ مبتلا ہے، شادی کے موقعہ پر فضول خرچی ، تلک، جہیز  اور لا یعنی رسوم کی پابندی کی وجہ سے کتنے گھرانے تباہ ہو رہے ہیں ، ملٹی میڈیا موبائل کے غلط استعمال سے نوجوان طبقہ بے حیائی اور فحاشی کا شکار ہورہا ہے۔

            گھروں میں ایک دوسرے کے حقوق کی ادائیگی میں کوتاہی ہو رہی ہے۔ یہ اوراس جیسی متعدد عملی اور اخلاقی خرابیوں میں معاشرہ تباہ ہورہا ہے۔

            دوسری طرف ان جیسی خرابیوں کے ازالہ کے لیے، امر بالمعروف ، نہی عن المنکر یعنی اصلاح معاشرہ کے لیے جیسی مسلسل اور منظم جدوجہد کی ضرورت ہے اس میں بھی عام طور پر کوتاہی ہو رہی ہے جس کے نتیجہ میں امت میں عام طور پر بے چینی، پریشانی پھیلی ہوئی نظر آتی ہے۔

ہماری ذمہ داریاں

            ان حالات میں تمام مسلمانوں اور خاص طور پر علماء کرام ، ائمہ مساجد ، متولیان مساجد، بستی اور برادری کے ذمہ دارافراد کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ معاشرہ کی اصلاح کے لیے خود محنت کریں اور اس سلسلہ میں کی جانے والی کوششوں کے ساتھ عملی اور فکری تعاون پیش کریں ۔

            یہ بات بھی پیش نظر رہنی چاہیے کہ معاشرہ کی اصلاح اور رسم ورواج کو ختم کرنے کی محنت بہت قیمتی عمل ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ کام انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام سے لیا ہے۔ جب بھی دنیا میں بگاڑ پیدا ہوا اللہ تعالیٰ نے اپنے کسی برگزیدہ بند ہ کو نبوت سے سرفراز فرماکر قوم کی اصلاح کے لیے مبعوث فرمایا۔

داعی کے اوصاف

            اب جبکہ اللہ کے آخری پیغمبر خاتم النّبیین حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دنیا میں آچکے اور آپ نے تبلیغ دین کا کام امت کے حوالہ فرماکر انھیں یہ ہدایت دی کہ جن لوگوں تک دین کی تعلیمات پہونچیں وہ دوسروں تک پہونچائیں ، تو اب ختم نبوت کی برکت سے اللہ تعالیٰ نے یہ سعادت امت کے علمائ، مشائخ، مصلحین، ائمہ اور فکر مند افراد کو عطا فرمائی ہے۔ اس لیے جو حضرات بھی اس سلسلہ میں اپنی صلاحیت ، محنت اور وقت صرف کریں یہ ان کے لیے موجب سعادت ہے۔ خوش دلی اور بشاشت کے ساتھ اس کام میں لگنا چاہیے۔ اور یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ اس راہ میں مخالفت اور طعن وتشنیع کا بھی سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے سورہ ’’والعصر‘‘ میں اس بات کی بھی تاکید فرمائی ہے کہ اپنے ایمان وعقیدہ کی درستگی اور اعمال صالحہ کے اہتمام کے ساتھ ایک دوسرے کو حق بات کی تلقین کریں تو اس بات کی بھی تلقین کریں کہ حق کی اشاعت کی راہ میں آنے والی دشواریوں اور مشکلات پر صبر کریں ، اور استقامت کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑیں ۔ساتھ ہی ساتھ اس بات کا بھی خیال رکھنا ہے کہ جس خیر کی دعوت دی جائے خود اس پر عمل کی کوشش کی جائے۔ اورجس منکر سے دوسروں کو روکا جائے خود بھی اس سے پرہیز کیا جائے۔

            اللہ تعالیٰ نے قرآن میں ان لوگوں پر نکیر فرمائی ہے جو دوسروں کو نیکی کا حکم دیں اور خود اس پر عمل پیرا نہ ہوں ۔

            ٭        ارشادخداوندی ہے:

          ’’ اَتَأْمُرُوْنَ النَّاسَ بِالْبِرِّ وَتَنْسَوْنَ اَنْفُسَکُمْ‘‘ (البقرہ:۴۴)

            کیا تم لوگوں کو نیکی کا حکم دیتے ہو اور خود اپنے کو بھلا دیتے ہو۔

            حاصل یہ ہے کہ معاشرہ کا فساد اپنی انتہاء کو پہنچ چکا ہے جس کے نتیجہ میں امت بے چینی، پریشانی، ذلت ونکبت اور زبوں حالی میں مبتلا ہے اس لیے اس صورت حال کو بدلنے کے لیے ہر رخ سے محنت کرنا ضروری ہے، اور یہ محنت وقتی اور محدود نہیں ہونی چاہیے بلکہ پوری لگن ودلچسپی کے ساتھ جاری رہنی چاہیے۔

دارالعلوم دیوبند کا اقدام

            اصلاح و تجدید دارالعلوم دیوبند اور اس کے فضلاء کی سرشت میں داخل ہے، مجدد الف ثانی، شاہ ولی اللہ محدث دہلوی اور سید احمد شہید رحمہم اللہ تعالیٰ جس امانت کے حامل تھے وہ امانت علماء دیوبند کے خمیر کا حصہ ہے، فرنگی دور میں مسیحیت کے فتنے سے شروع ہوکر قادیانیت، شیعیت، شرک وبدعت ، نیچیریت اور آریہ سماج وغیرہ جس دروازے سے بھی فساد وضلال نے دین کے چشمۂ صافی میں راہ پانے کی کوشش کی تو ارباب دارالعلوم سینہ سپر ہوکر کھڑے ہوئے ہیں اور ہرطبقۂ انسانی تک حق پہنچاکر دم لیا ہے۔ (تفصیل کے لیے دیکھئے : مختصر وجامع تاریخ دارالعلوم )

            ٭        خصوصاً جب شدھی اور  سنگٹھن کا فتنہ شدت اختیار کیے ہوئے تھا اور ایک مقام پر شدھ ہونے والے چند لوگوں نے کہا :

 ’’مولوی جی! ہم اس لیے شدھ نہیں ہوئے کہ ہم کو ویدک دھرم یا آرریت، اسلام سے اچھامعلوم ہوتا ہے بلکہ بات یہ ہے کہ آپ مسلمان بھائیوں نے ہماری خبر گیری نہیں کی۔۔۔۔ الخ‘‘۔  (اسباب ارتداد وتدابیرانسدادپر بسیط  تبصرہ از شعبۂ تبلیغ جمعیۃ علماء ہند ، ص : ۲۲)

            تو اس وقت کسی بھی دوسری اصلاحی تحریک سے آگے آگے علماء دیوبند طوفان کی طرح اٹھے اور ارتداد زدہ علاقوں کے علاوہ دیگر علاقوں میں بھی اصلاح و تبلیغ کی تحریک چلائی، مغربی یوپی کے بیشتر اضلاع کے دورے کیے ، اصلاح وتبلیغ کے مراکز قائم کیے اور امت کو فتنۂ ارتداد سے بچالیا۔(تفصیل کے لیے حوالہ بالا ، ص: ۳۹)

            ان حالات میں ’’ دارالعلوم سے مبلغین کا ایک وفد روانہ کیا گیا، وفد کی رپورٹ سے معلوم ہوا کہ۔۔۔۔تحریک نہایت منظم اور وسیع پیمانے پر پھیلی ہوئی ہے۔۔۔۔۔اس پر دارالعلوم کے اساتذہ اور طلبہ کے پے در پے متعدد وفد روانہ کیے گئے آگرہ کو تبلیغی کا موں کا مرکز قرار دے کر علماء دیوبند کا دفتر کھو لا گیا۔۔۔۔۔‘‘(تاریخ دارالعلوم دیوبند ۱؍۲۶۴)

            الغرض عقائد یا اعمال کے اندر جب بھی کوئی بگاڑ آیا اس وقت ارباب دارالعلوم نے اصلاح کا بیڑا اٹھایا ہے اس وقت بھی دارالعلوم دیوبند کے اکابر اور اساتذہ کرام نے جب معاشرے کی بگڑتی ہوئی صورت حال کو دیکھا اور محسوس کیا کہ کہیں دیر نہ ہو جائے اور لوگ کہیں پھر ہم سے یہ نہ کہنے لگیں کہ ’’آپ علماء کرام نے ہماری خبر گیری نہیں کی ‘‘ تو باہمی مشورہ سے اصلاح معاشرہ کے لیے ایک نظام بنایا۔ پہلے مرحلہ میں دارالعلوم کے اساتذہ کرام اور مبلغین پر مشتمل اصلاح معاشرہ کمیٹی کا قیام عمل میں آیا۔ اور اس کا ایک دفتر قائم کیا گیا اور طے کیا گیا کہ دارالعلوم کے اساتذہ کرام اہل مساجد کی طلب پر طے شدہ نظام کے مطابق مساجدمیں مصلیان کے سامنے اصلاحی بیانات فرمائیں گے۔ جن میں ماحول اور حالات کے پیش نظر ضروری اصلاح طلب امور کو عنوان بنایا جائیگا۔ جہاں ضرورت ہوگی تعلیم قرآن اور تصحیح قرآن کے حلقے قائم کئے جائیں گے۔ حسب طلب درس قرآن اور درس حدیث کا نظام بنایا جائے گا۔

کام کا آغاز

            اس سلسلہ میں سب سے پہلے تین مرحلوں میں دیوبند اور قرب وجوار کی ۱۲۰ مساجد کے متولیان کو دعوت دی گئی، اور دارالعلوم دیوبند کے مہمان خانہ میں ان حضرات کے سامنے اصلاح معاشرہ کی ضرورت اور افادیت بیان کرتے ہوئے دارالعلوم میں قائم شدہ اصلاح معاشرہ کمیٹی کے پروگرام کے بارے میں ان کو باخبر کیا گیا۔ اور حضرات متولیان سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ اپنی مساجد کے ذمہ داروں سے مشورہ کرکے اصلاحی بیان، تعلیم وتصحیح قرآن بیانِ مسائل اور درس قرآن وحدیث کے لیے اپنی اپنی مساجد میں دن اور وقت کی تعیین کرکے تحریری طور پر دفتر اصلاح معاشرہ کمیٹی (احاطہ مولسری)دارالعلوم دیوبند میں اطلاع دیدیں ۔

            صالح معاشرے کی تشکیل میں خواتین کے کردار کو فراموش نہیں کیا جاسکتا یہ کسی سے مخفی نہیں ہے کہ ماں کی گود بچے کا سب سے پہلا مکتب ہو اکرتی ہے جب کہ یہ بھی عیاں ہے کہ بے پردگی، بے دریغ اجنبی مردوں سے اختلاط، شادی بیاہ کی رسموں پر اصرار، غیر اسلامی لباس جیسی بے شمار برائیاں مسلم خواتین میں بہت خطرناک شکل اختیار کر چکی ہیں ، ایسے میں ضرورت ہے کہ اسلامی اصولوں کا لحاظ رکھتے ہوئے ان میں بھی بیانات اور تعلیم کی شکلیں پیدا کی جائیں ، اساتذہ دارالعلوم اس خدمت کے لیے ان شاء اللہ تیار رہیں گے۔

            تمام شرکاء مجلس نے دارالعلوم کے اس اقدام کی تحسین کی اور اصلاح معاشرہ کی ضرورت کا اظہار واعتراف کرتے ہوئے اپنے عملی تعاون کا یقین دلایا۔

            الحمد للہ مساجد کی طرف سے اطلاعات موصول ہونی شروع ہو گئی ہیں ، اور حسب طلب مساجد میں حضرات اساتذۂ کرام کے بیانات بھی ہورہے ہیں ۔

            ضرورت ہے کہ تمام حضرات مسئلہ کی اہمیت کو سمجھیں اور اصلاح معاشرہ کے سلسلہ میں اپنی اپنی ذمہ داریوں کو انجام دیں ۔

            اطراف دیوبند میں بھی یہ سلسلہ جاری ہے گاؤں میں بکثرت اساتذۂ دارالعلوم کی آمد ورفت ہورہی ہے ان کے اصلاحی بیانات سے مفید اثرات مرتب ہورہے ہیں ، اصلاح معاشرہ کمیٹی ضروری موضوعات پر پمفلٹ اور کتابچے بھی مفت تقسیم کر رہی ہے جو ان شاء اللہ تعالیٰ ہر گھر میں دینی رہنمائی میں معاون ہوں گے، قرآن کریم کی آیات اور احادیث شریفہ کو پڑھ کر یہ احساس ہوگا کہ شریعت ودین کا ہم سے کیا مطالبہ ہے؟ اگر گھروں میں ان کی تعلیم کا ماحول بنایا جائے گا تو مفید اثرات مرتب ہوں گے۔

            نوٹ: احاطہ مولسری دارالعلوم دیوبند میں اصلاح معاشرہ کمیٹی کا دفتر روزانہ (جمعہ کے علاوہ) اس وقت صبح ۱۱؍بجے سے ۱؍بجے تک کھلا رہتا ہے، یہ وقت مدرسہ کے اوقات کے مطابق بدلتا بھی رہے گا، یہاں کمیٹی کے کنوینر جناب مولانا محمد مزمل بدایونی صاحب استاذ دارالعلوم دیوبند اور دوسرے کارکنان موجود رہتے ہیں ، اہل شہر واطراف دفتر میں تشریف لاکر ملاقات کریں اور اپنی مساجد کے لیے نظام طے کریں ۔

—————————————–

دارالعلوم ‏، شمارہ :1-2،    جلد:105‏،  جمادی الاول-  رجب المرجب 1442ھ مطابق   جنوری- فروری 2021ء

٭           ٭           ٭

Related Posts