حرف آغاز
محمد سلمان بجنوری
ہمار وطن عزیز ہندوستان، اس وقت جس صورت حال سے گزررہا ہے، وہ آزادی کے بعد کی بہترسالہ تاریخ میں بعض پہلوئوں سے انوکھی صورت حال ہے۔ ایک تو اس لیے کہ اس کے اسباب ومحرکات خود اُن کی طرف سے وجود میں آئے ہیں جن کی ذمہ داری، پورے ملک کے شہریوں اور اُن کے تمام طبقات کو مطمئن رکھنا اور ان کے درمیان برابری اورانصاف قائم کرنا تھی؛ لیکن انھوں نے مسلسل ایسے رُخ پر کام کیا بالخصوص گزشتہ چھ ماہ کے عرصے میں کہ ملک عالمی سطح پر نکتہ چینی کا شکار ہونے کے ساتھ ساتھ اندرونی بے چینی کی طاقت ور لہروں سے دوچار ہوگیا۔ خاص طور پر شہریت ترمیمی بل کی منظوری کے بعد، جو دستور میں دی گئی مذہبی آزادی اور مذہب کی بنیاد پر کسی کے ساتھ امتیاز نہ برتنے کی ضمانت سے متصادم ہے، یہ بے چینی نقطئہ عروج پر پہنچ گئی اوراب حال یہ ہے کہ ملک کے تمام مذاہب سے تعلق رکھنے والے صاف ذہن اورانصاف پسند شہری اور کمزور طبقات اس قانون کے خلاف مسلسل احتجاج کررہے ہیں ، یہاں تک کہ مسلمان جنھوں نے بابری مسجد سے محرومی کا، کڑوا گھونٹ، بے مثال صبر وہمت کے ساتھ پی لیا تھا، اس قانون کو اپنے وجود ہی کے لیے چیلنج سمجھ کر میدان میں ہیں اور اس جدوجہد میں مختلف یونیورسٹیوں خصوصاً جامعہ ملیہ کے طلبہ ایک نئی تاریخ رقم کرنے میں مصروف ہیں ۔
ان حالات میں سب سے پہلی بات تو ہمیں اپنی حکومت ہی سے کہنی ہے اور وہ یہ کہ یہ فیصلہ فوری طور پر نظرثانی کا محتاج ہے جس نے ملک کو ایک سنگین دوراہے پر لاکھڑا کیا ہے، اس بات کو ارباب حکومت سے زیادہ کون سمجھ سکتا ہے کہ ملک کے باشندوں کی بے اطمینانی کا نقصان سب سے پہلے خود حکومت ہی کو اٹھانا پڑتا ہے۔ پھر اس فیصلے نے تو ملک کو کمزور کیا ہے اور دنیا میں ہمارے وطن کی وقعت کو گھٹایا ہے۔ ہم اس موقع پر حکومت میں شامل یا باہر سے حکومت کی سرپرستی کرنے والے معمر رہنمائوں سے یہ اپیل کرتے ہیں کہ وہ اس قسم کے فیصلے کرنے والے نسبتاً کم عمر ارباب حکومت کی اس پہلو سے نگرانی کرتے رہیں کہ کہیں اُن کی تیزگامی اور جلدبازی، ملک کو ایسے مسائل ومشکلات میں نہ الجھا دے جن کا حل کسی کے پاس بھی نہ ہو۔
دوسری بات سیکولر کہلانے والی یا حکمراں پارٹی سے اختلاف رکھنے والی تمام سیاسی پارٹیوں سے کہنی ہے کہ وہ تاریخ کے اس نازک موڑ پر اپنی ذمہ داری سمجھنے اور ادا کرنے میں کسی کوتاہی سے کام نہ لیں اور بے عملی کی راہ نہ اپنائیں کہ یہی وقت اُن کی بقا کے سلسلے میں فیصلہ کن کردار ادا کرنے والا ہے۔ ہندوستان میں رہنے والے تمام شہری تو یہیں موجود رہیں گے؛ لیکن سیاسی پارٹیوں کی بے عملی یا کمزور طرز عمل خود اُن کے وجود کو دائوپر لگادے گا۔
یہ دونوں باتیں تو اس حقیقت کو پیش نظر رکھ کر کہی گئی ہیں کہ ان مسائل کا تعلق ملک کے تمام شہریوں اور اُن کے تمام طبقات سے ہے؛ لیکن کچھ باتیں ہمیں اپنے آپ سے بھی کرنی ہیں کہ ان تمام مسائل اور فیصلوں کا مرکزی نشانہ ہم ہی ہیں اوراگر ہم اب بھی اپنے آپ کو بدلنے اور صحیح فیصلے کرنے میں کامیاب نہ ہوسکے تو اسباب کی اس دنیا میں اپنے نقصان کے ذمہ دار خود ہم ہوں گے۔ یہاں ہمیں یہ ارشاد ربانی ضرور یاد کرلینا چاہیے وَمَا أَصَابَکُم مِّن مُّصِیبَۃٍ فَبِمَا کَسَبَتْ أَیْدِیکُمْ وَیَعْفُو عَن کَثِیرٍ(الشوری:۳۰)کہ جوکچھ مصیبت تمہیں پہنچتی ہے وہ تمہارے اعمال ہی کا نتیجہ ہوتی ہے اوراللہ تعالیٰ بہت سی غلطیاں معاف فرمادیتے ہیں ۔
اس پہلو سے جب ہم اپنے حالات کا جائزہ لیتے ہیں تو عجیب وغریب کیفیت ہوتی ہے اور سچی بات یہ ہے کہ مخالفوں کی کارروائیوں سے زیادہ اپنے حالات دیکھ کر ڈر لگتا ہے۔ حالات کے بھی دو پہلو ہیں ایک ہمارے اعمال کا دوسرا ہماری جانب سے مشکلات کے حل کی تدابیر کا۔ اگر اعمال پر نظر ڈالی جائے تو غفلت کی ایسی چادرتنی نظر آتی ہے جو کم از کم موجودہ حالات میں تو باقی رہنے کا کوئی جواز نہیں ہے۔ اس کا اندازہ کرنا ہو تو اس سادہ سی حقیقت پر غور کیا جائے کہ عدالتی فیصلہ کے بعد مسجد ملنے سے مکمل مایوسی ہوجانے کے باوجود یہ جذبہ کسی شخص میں بیدار ہوتانظر نہیں آیا کہ ہماری ایک مسجد ہمارے ہاتھ سے چلی گئی، اب ہم اپنی ہر مسجد کو آباد کرنے کی فکر کریں ، کسی مسجد میں اس احساس کے تحت ایک نمازی کا بھی اضافہ نہیں ہوا۔ یہ تو ہماری عبادات کا حال ہے، اور اگر معاملات اور اخلاق پرنظر ڈالیں تو سرشرم سے جھک جاتا ہے، اخلاقی پستی کا یہ عالم ہے کہ معتبر اطلاعات کے مطابق موجودہ مشکل حالات میں کچھ کلمہ پڑھنے والوں نے اپنے بھائیوں کے خلاف استعمال ہونے کو ذریعہ معاش بنالیا ہے۔ یہ تو عام مسلمانوں کی صورت حال ہے، اگر قیادت کے حالات پر نظر ڈالیں تو وہاں بھی معاملہ دگرگوں ہے، قائدین ایک دوسرے کی نیتوں پر شک کررہے ہیں اوران ہنگامی حالات میں بھی باہمی مشاورت سے کوئی لائحہ عمل طے کرنے میں ناکام ہیں ۔ دوسری طرف قیادت سے بدگمان کرنے کی مہم زور پکڑ چکی ہے اوراحتجاجی تحریک بغیر کسی قیادت کے چلنے پر داد دی جارہی ہے، حالانکہ یہ نہ تعریف کی بات ہے نہ مطمئن ہونے کی اور نہ ہی اس تحریک کے حق میں فال نیک ہے۔ کچھ لوگ دعائوں کی اپیل کرنے والوں پر تنقیدیں کررہے ہیں کہ ان حالات میں دعائوں کی نہیں ، کچھ کرنے کی ضرورت ہے، حالانکہ اسلامی تعلیمات سے واقف کار جانتے ہیں کہ اس دارالاسباب میں عملی محنت اور جدوجہد بیشک پہلی ذمہ داری ہے؛لیکن اس کوکامیاب کرنے میں خدائی مدد حاصل کرنے کے لیے دعاء کی اہمیت اپنی جگہ ہے اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت وسنت دونوں چیزوں کو جمع کرنے کی طرف رہنمائی کرتی ہے۔ ایک چیز یہ بھی دیکھنے میں آرہی ہے کہ علماء اور عام مسلمانوں کے درمیان بدگمانی پیدا کرنے اور فاصلے بڑھانے کے لیے بھی ان حالات کو استعمال کیا جارہا ہے اور ان سب باتوں سے بڑھ کر خراب بات یہ ہے کہ اس سنگین ماحول میں بھی کچھ لوگ اپنی قیادت کے پروپیگنڈے اور دوسروں سے بدگمان کرنے کی مہم چلانے میں مصروف ہیں ۔
ایک بہت اہم بات یہ ہے کہ عام طور پر وقتی، ہنگامی اور عارضی اقدامات کیے جارہے ہیں یا قلیل مدتی منصوبوں پر کام ہورہا ہے۔ طویل مدتی منصوبہ سازی کا عمل قطعاً موقوف ہے۔ حالانکہ قوموں کی تاریخ میں حالات کی تبدیلی کے لیے لمبی محنت کی ضرورت ایک مسلّمہ حقیقت ہے اور موجودہ حالات بھی کسی کی طویل مدتی منصوبہ سازی کا ہی نتیجہ ہیں ۔ ان سے نکلنے کے لیے ہمیں بھی جہدمسلسل کے لیے تیار ہونا چاہیے۔
ایک بڑا نقصان، ان حالات سے یہ ہوا ہے کہ مسلمانوں میں خوف اور مایوسی کی کیفیت پیدا ہورہی ہے، حالانکہ ایک مؤمن کی حیثیت سے بھی یہ چیز غلط ہے اور تدبیر کے اعتبار سے بھی اس کا نقصان بہت زیادہ ہے جب کسی کے دل میں خوف یا مایوسی پیدا ہوجائے تو وہ حالات کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت کھو بیٹھتا ہے اور اگر یہ بات اجتماعی اور عمومی طور پر پیدا ہوجائے تو اس کا نقصان نہایت سنگین ہوجاتا ہے۔
ان تمام باتوں کے پیش نظر، چند گزارشات پیش خدمت ہیں جن پر توجہ کی جائے تو یقین ہے کہ حالات کا رُخ بدل جائے گا ان شاء اللہ تعالیٰ۔
(۱) سب سے پہلی بات تو یہی ہے کہ خوف اور مایوسی کو ذہن سے نکال دیا جائے، جب یہ بات ہمارے ایمان کا حصہ ہے کہ دنیا میں جو کچھ ہوتا ہے اللہ تعالیٰ کے حکم کے بغیر نہیں ہوتا، تو پھر بندوں کی تدبیروں سے اتنا ڈرنے کا کیا مطلب ہے؟ ظاہر ہے کہ وہ بھی انسان ہیں اور انھوں نے کچھ منصوبے بنائے ہیں تو ہم بھی انہی کی طرح انسان ہیں اور ہمارے پاس بھی عقل وشعور ہے، ہمیں کس نے روکا ہے، ہم بھی پورے اعتماد کے ساتھ محنت کریں اور یہ بات ذہن میں رکھیں کہ اگر ہم نے اللہ کی رضا اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کو سامنے رکھ کر اپنا لائحۂ عمل طے کیا تو ہمارے ساتھ اللہ کی مدد ہوگی اورہماری تدبیروں میں اللہ کی تدبیر شامل ہوکر ہمیں کامیابی سے ہمکنار کردے گی۔ ہم اللہ پر بھروسہ رکھ کر کام کریں اور صرف اللہ کا خوف اپنے دلوں میں رکھیں تو ہمیں کسی سے ڈرنے اور مایوس ہونے کی ضرورت نہیں رہے گی۔
(۲) جذباتیت یا وقتی جوش کے تحت کام نہ کریں ، اپنی بھڑاس نکالنے کو مقصد نہ بنالیں ؛ بلکہ جذبات کو محفوظ رکھتے ہوئے پوری ہوش مندی، غور وفکر اور مشاورت سے کام کرنے کی عادت بنائیں ۔
(۳) آپس کے معاملات ٹھیک کریں ، ذاتی اختلافات دور کریں ۔ انتقام کے مزاج سے بچیں ، جہاں تک ہوسکے اپنے جھگڑوں کو خود ہی حل کرنے کی کوشش کریں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ کسی سے ذاتی اختلاف کا انتقام اس طرح لینے کی کوشش نہ کریں کہ وہ ملی نقصان بن جائے، جیساکہ آج کل اس کا مشاہدہ ہورہا ہے۔
(۴) اپنی دینی اوراخلاقی حالت کو سدھارنے کی کوشش کریں ۔ نماز کی پابندی اور انسانوں کے حقوق کی ادائیگی پوری فکرمندی کے ساتھ کریں ۔
(۵) دیگر مذاہب کے جن لوگوں سے بھی وقتی یا مستقل واسطہ پڑے اُن پر اپنے کردار و اخلاق کی خوبی کا ایسا نقش چھوڑیں کہ وہ آپ سے اور تمام مسلمانوں سے قریب ہوجائے اور اُن کو آپ سے بدگمان کرنے کی ہر کوشش ناکام ہوجائے۔
ان گزارشات کے مخاطب تو ظاہر ہے تمام ہی مسلمان ہیں ؛ لیکن یہ بات سمجھانے کی ضرورت نہیں ہے کہ حالات کو بدلنے اور خود مسلمانوں کے مزاج وکردار میں یہ خوبیاں پیدا کرنے میں اصل کردار قیادت کو ادا کرنا ہے اور قیادت کے تمام طبقات اس وقت امتحان کی منزل میں ہیں جن سے وقت پکار پکار کر کہہ رہا ہے کہ
یہ گھڑی محشر کی ہے تو عرصۂ محشر میں ہے
پیش کر غافل عمل کوئی اگر دفتر میں ہے
اس لیے نہایت ادب کے ساتھ چند گزارشات مزید پیش خدمت ہیں :
(۱) اکیلے چلنے کی پالیسی وقتی طور پر ہی سہی، چھوڑدی جائے اور کم ازکم موجودہ صورت حال کے لیے باہمی مشاورت سے لائحۂ عمل طے کیا جائے، آگے طویل مدتی منصوبوں میں آپ اپنے اپنے انداز سے کام کرسکتے ہیں ؛ لیکن ان کے لیے بھی اگر بنیادی پالیسی مشورے سے طے ہوجائے تو اچھا ہوگا۔
(۲) ہمارے درمیان مختلف امور پر اختلافات ہوسکتے ہیں جن کا تعلق مسلک ومشرب سے، فکر ونظر سے، جماعت وتنظیم سے یا کسی بھی پہلو سے ہوسکتا ہے؛ لیکن اگر ہم نے اس وقت اختلاف میں اتحاد کی صلاحیت کا ثبوت نہیں دیا تو تاریخ ہمیں معاف نہیں کرے گی۔
(۳) اپنے نام کی فکر قطعاً چھوڑ دیں ، ہمیں قرآن وحدیث میں بھی یہی بتایاگیا ہے کہ تمام اعمال کی اصل روح بلکہ کامیابی کی کلید، نیت کا صحیح ہونا ہے اور تاریخ کا بھی یہی سبق ہے کہ نام انہی کا زندہ رہتا ہے جو اپنے لیے نہیں ؛ بلکہ اللہ کے لیے اور ملت کے مفاد کے لیے کام کرتے ہیں ۔
(۴)دوستوں اور دشمنوں کو پہچانیں تاکہ جدوجہد صحیح رُخ پر ہو، خاص طور سے اپنی صفوں میں چھپے ہوئے دشمنوں سے بہت زیادہ ہوشیار رہیں ، کہ وہ اپنی خفیہ یا علانیہ کارروائیوں سے یا بظاہر خیرخواہ بن کر اپنے مشوروں سے نقصان نہ پہنچادیں ۔
(۵) آپس کی بدگمانیاں دور کرنے کی کوشش کریں ، ایک دوسرے کو متہم نہ ٹھہرائیں ، نیتوں پر حملے نہ کریں ، اگر کوئی غلط ہوگا تو وقت اُس کو خود چھانٹ کر الگ کردے گا۔
(۶)وقتی اقدامات کے لیے ضروری جدوجہد پر پوری توجہ دینے کے ساتھ ساتھ طویل مدتی منصوبہ بندی پر محنت کریں ، خاص طور پر مسلمانوں کی عملی واخلاقی اصلاح اور تعلیمی ومعاشی پسماندگی دور کرنے کے لیے فوری طور پر منصوبے بناکر عملی اقدامات شروع کردیے جائیں ۔
(۷) اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ہونے والے پروپیگنڈے کا توڑ کرنے اور غلط فہمیاں دور کرنے کے لیے بھی فوری طور پر کام شروع کرنے کی ضرورت ہے۔ اس مقصد کے لیے اور تمام ہی کاموں میں مدد کے لیے میڈیا اور ذرائع ابلاغ کی اہمیت پر نظر رکھ کر کام کیا جائے۔
(۸) اپنے بڑوں کے کاموں اور فیصلوں کے منفی تجزیے سے احتیاط کریں ۔ انھوں نے اپنے زمانے کے حالات کے تحت کام کیا تھا اور بلاشبہ اُن کے سارے منصوبے یا عزائم پورے نہیں ہوسکے جن کے مختلف اسباب ہیں ؛ لیکن اُن کی جدوجہد بہرحال رائیگاں نہیں ہے، جس کا ثبوت ہمارا وجود ہے۔
(۹)غیرمسلم بھائیوں تک دین کا پیغام پہنچانے پر بھی محنت کی ضرورت ہے؛ لیکن یہ کام امانت کی ادائیگی کی نیت سے ہو نہ کہ اس لیے کہ اس سے ہمارے اور اُن کے معاملات سدھر جائیں اورہمیں تحفظ حاصل ہوجائے، یقینا یہ فوائد بھی حاصل ہوں گے؛ لیکن ان کو مقصد بنانا اصل نیت سے غافل ہونا ہے۔
(۱۰)مسلمانوں کے کردار واخلاق کی اصلاح کے کام کو غیرمسلموں کی دعوت سے بھی زیادہ اہمیت واولیت کے ساتھ کرنے کی ضرورت ہے اس لیے کہ بگاڑ اندازے سے زیادہ ہے اور دوسروں کو متاثر کرنے والی اصل چیز ہمارا عمل اور اخلاق و کردار ہی ہے، جو حضرات غیرمسلموں میں دعوت کا کام کرتے ہیں اور اُن کواس میں خوشگوار تجربات ہوتے ہیں وہ بھی بنیادی طور پر اخلاق و کردار کی ہی تاثیر کے تجربات ہیں ، اس لیے مسلمانوں کو مسلمان بنانے پر زیادہ توجہ کی ضرورت ہے۔ سب کاموں کے ساتھ ہر مسلمان رجوع الی اللہ اور دعائوں کا خوب اہتمام کرے کہ اللہ تعالیٰ ہی حالات بدلنے والے ہیں اور ان کی رحمت ہی ہمارا اصل سہارا ہے۔
آخر میں اپنوں اور غیروں سبھی سے بے تکلف یہ عرض کرنا ہے کہ یہ بات ذہن سے نکال دیں کہ کوئی طاقت اس ملک سے ہمیں نکال سکتی ہے یا ہمارا نام ونشان مٹا سکتی ہے۔ ہم اگر اپنے اصل کردار کو زندہ کرلیں تو یقین ہے کہ ہم اس ملک میں پہلے سے زیادہ عزت، قوت، آزادی اور اپنے پورے مذہب کی مکمل پابندی کے ساتھ زندہ رہیں گے۔ ان شاء اللہ۔
آساں نہیں مٹانا نام و نشاں ہمارا
—————————————
دارالعلوم ، شمارہ : 1، جلد:104، جمادى الاول 1441ھ مطابق جنوری 2020ء
٭ ٭ ٭