از: مفتی اشرف عباس قاسمی، استاذ دارالعلوم دیوبند
ترجمہ از عربی : محمد اکرام سعادتی
حضور اقدسﷺ کے روضۂ اطہر کی زیارت ایک صحیح العقیدہ مسلمان کے لیے یقیناشرف اور اعزاز کی بات ہے،جب وہ نبیوں کے سردار،ربِ کائنات کے محبوب اور اپنے عظیم نبی کے آستانے کی چوکھٹ پرسر جھکائے کھڑا ہوتاہے اور حضور اکرم ﷺ کی خدمت میں اور حضرت ابو بکرؓ وعمرؓ کی خدمت میں عظمت آمیزاور محبت بھر ادُرود وسلام کا نذرانہ پیش کرتا ہے تو اس کے باطن میں اعزاز وافتخا رکے بے پناہ جذبات کا سمندر موج زن ہوتاہے ۔روضۂ نبوی کی زیارت سے آنکھیں ٹھنڈی کرنے کے بعد جب وہ وطن کا رخ کرتاہے اور گنبدِ خضرا نگاہوں سے اوجھل ہونے لگتاہے،تو احساسات کی دنیا میں ہل چل مچ جاتی ہے،اور جذبات کے ساگر میں تلاطم برپا ہوجاتاہے ۔جب اس کی نظر رسول اللہ ﷺ کے ہاتھوں انجام پانے والے ان لازوال اور عرفانی کارہائے نمایاں پر پڑتی ہے جن سے دنیا دنگ ہے تو قلب ونظر خوش گوار احساسات سے لبریز ہوجاتے ہیں ۔
مسلمانوں کی اپنے نبی کی ذاتِ اقدس کے ساتھ یہ وارفتگی اور شیفتگی ’’سبوکیمون ‘‘نامی مستشرق کو ایک آنکھ نہ بھائی؛چنانچہ وہ مسلمانوں اور نبی اکرم ﷺ کی بے مثال عظیم ہستی پر حسد اور عداوت میں جل بھن کرایک کتاب میں لکھتاہے :’’مکہ میں محمد کی قبر صرف ایک برقی ستون ہے،جو مسلمانوں کے دلوں میں جنون پیدا کرتاہے،جس سے مجبور ہوکر وہ انوکھی حرکتیں کرنے لگتے ہیں ،عقل غائب ہوجاتی ہے اور لفظ اللہ اللہ کے تکرار کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہوتاہے‘‘ ۔(افترائات المستشرقین والرد علیھا: الدکتوریحیٰ مراد، ص:۲۸)
لیکن صحیح بات یہ ہے کہ یہ ہر گز جنون نہیں ،یہ تو وہ پاکیزہ اور راسخ محبت ہے جو مسلمانوں کے دل میں یہ جذبہ پیدا کرتی ہے کہ وہ بلند مقاصد کی خاطر اپنی جان جیسی متاعِ عزیز راہِ خدا میں قربان کردے ۔یہ وہ محبت ہے جس کی نظیر سے دنیا کی پوری تاریخ کا دامن خالی ہے،یہ وہ عشق ومحبت اور شوق ووارفتگی ہے جو مسلمانوں کو مرگی کی یہ حرکتیں کرنے پر مجبور نہیں کرتی ہے کہ وہ اپنے نبی کو معبود بنالیں ،یا اس کا بیٹا تجویز کرلیں ،یاصفات واعمال میں اس کا ہم سروہم پلہ قرار دیں ؛بلکہ یہ محبت ان کے دلوں میں یہ اعتقاد بحال رکھتی ہے کہ جناب نبی اکرم ﷺ اللہ تعالی کے بندے اور رسول ہیں ۔ جنھیں اللہ پاک نے ساری انسانیت کی ہدایت کے لیے مبعوث کیاہے۔
مقامِ روضۂ اقدس
حضور اکرم ﷺ ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کے حجرے میں دفن ہوئے ہیں ،جس میں رسول اللہ ﷺ حضرت عائشہؓ کے ساتھ رہتے تھے۔ امام بخاری ؒ نے حضرت عائشہ سے روایت کیا ہے کہ نبی کریم ﷺ مرض الوفات میں طبیعت کی گرانی کے باعث دریافت فرماتے تھے کہ آج میں کہاں رہوں گا؟کل کہاں ہوں گا؟یہ سب کچھ حضرت عائشہ کی باری کے انتظار اور اشتیاق میں تھا۔جب میری باری کا دن تھا تو اللہ پاک نے آپ کو دنیاسے اس حال میں اٹھایا کہ آپ میرے سینے سے ٹیک لگائے ہوئے تھے اور آپ کی تدفین میرے گھر میں ہوئی۔ (صحیح البخاری،کتاب الجنائز،نمبر:۱۳۸۹)
حضور کی تدفین کہاں ہو ؟ اس کو لے کر پہلے توصحابۂ کرامؓ میں اختلاف ہوا؛لیکن جب حضرت ابو بکر صدیقؓ نے اس امر کی بابت حضور اکرم ﷺ سے براہِ راست سنی ہوئی حدیث سنائی تو اتفاق ہوگیااور یہ طے پایا کہ حضرت عائشہؓ کے اسی حجر ے کو مدفنِ رسول بننے کی عظیم سعادت نصیب ہوگی۔ حدیث یہ ہے :امام مالک ؒ فرماتے ہیں :’’ مجھے یہ خبر ملی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے پیر کے دن وفات پائی اور منگل کے روز آپ کی تدفین ہوئی،حضور کی نماز ِ جنازہ لوگوں نے تنہاتنہا ادا کی،کسی نے امامت نہیں کی،کچھ لوگوں کا کہناتھاکہ حضورﷺ کی تدفین منبر کے پاس ہو؛جب کہ دوسروں کی رائے یہ تھی کہ جنت البقیع میں ہو ۔اس دوران حضرت ابو بکر صدیقؓ تشریف لائے اور فرمایا:میرے ان کانوں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سناہے کہ نبی جہاں وفات پاتاہے وہیں دفن ہوتاہے؛چنانچہ اسی حجرے میں آپ کے لیے قبرِ مبارک تیار کی گئی،پھر جب غسل دینے کا وقت آیا توصحابہؓ نے قمیص کو اتارنا چاہا،یکایک غیب سے ایک آواز آئی :’’قمیص نہ اتارو!‘‘ پھر صحابۂ کرامؓ نے قمیص اتارے بغیر اسی حال میں غسل دیا‘‘۔(مؤطا امام مالک :کتاب الجنائز،باب ماجاء فی دفن المیت )
پانچویں خلیفۂ راشد حضرت عمر بن عبد العزیزؒ نے جب مسجد نبوی کی از سرِ نو تعمیر کروائی تو اس حجرۂ شریفہ کو چھوڑ کر باقی تمام ازواجِ مطہرات کے حجروں کو منہدم کردیا۔
قبرِ مبارک کی کیفیت
علامہ سمہودیؒ کی بیان کردہ تفصیلات سے معلوم ہوتاہے کہ حضورﷺ کا روضۂ انور قبلے کی جانب سب سے پہلے ہے،اس سے متصل حضرت ابو بکر صدیقؓ کی قبر ہے اس طرح کہ ان کا سر حضور ﷺ کے شانۂ مبارک کے برابر ہے،اس کے بعد حضرت عمرؓ کی قبر ہے،اس طرح کہ اُن کا سر حضرت ابو بکرؓ کے کاندھوں کے برابر ہے ۔جیساکہ نافع بن ابی نعیم سے مروی ہے کہ جناب نبی اکرم ﷺ کی قبر جہتِ قبلہ میں مقدم ہے ۔پھر حضورﷺ کے مبارک کاندھوں کے برابر میں حضرت ابو بکرؓ کی قبر ہے اور حضرت ابو بکرؓ کے کاندھوں کے برابر میں حضرت عمر ؓکی قبرہے ۔علامہ سمہودی ؒکہتے ہیں کہ اکثر علماء کی رائے اس روایت کے مطابق ہے ۔(دیکھیے وفاء الوفاء : ۲؍۵۵)
نبی اکرم ﷺ کی قبرِ مبارک لحدی ہے،حضرت قاسم سے منقول ہے کہ مدینہ شریف میں ایک آدمی شقی قبر(صندوقی) کھودنے والا تھااور دوسرا لحدی(بغلی)قبر کھودنے والا تھا،جب حضورﷺ کی وفات حسرت آیات کا سانحہ پیش آیا تو صحابۂ کرامؓ جمع ہوئے اور اُن دونوں آدمیوں کو بلاوا بھیجااور اللہ پاک سے دعا کی کہ اپنے محبوب کے لیے ان میں سے کسی کا انتخاب کرلے،اتنے میں لحدی قبر تیار کرنے والانمودار ہوا۔(الطبقات الکبری:۲؍۲۹۲)
حضرت عبد اللہ بن عباسؓ کہتے ہیں کہ جب صحابۂ کرامؓ اللہ کے رسول اللہ ﷺ کو غسل دینے کے لیے جمع ہوئے تو حضرت عباسؓ (حضور کے چچا)نے دو آدمیوں کو بلایا اور ان سے کہاکہ تم میں سے ایک آدمی ابو عبیدہ بن جراحؓ کے پاس جائے اور دوسرا ابو طلحہ کے پاس (ابو عبیدہ بن الجراح اہلِ مکہ کے لیے شقی قبر کھودتے تھے،اور ابو طلحہؓ اہلِ مدینہ کے لیے لحدی قبر تیار کرتے تھے)ابن عباس کہتے ہیں کہ ان دونوں آدمیوں کو بھیجنے کے بعدحضرت عباس ؓ نے بارگاہِ رب میں ہاتھ اٹھائے اور اللہ سے دعا کی کہ اپنے نبی کے لیے کسی ایک کا انتخاب کرلے؛چنانچہ ابو عبیدہؓ تو نہیں ملے؛لیکن ابو طلحہؓ مل گئے،پس انھوں نے رسول اللہ ﷺ کے لیے لحدی قبر تیار کی،اس طرح یہ سعادت ان کے حصے میں آئی۔ (الوفا باحوال المصطفیٰ :۲؍۵۵۲)
جن لوگوں نے حجرۂ شریفہ کے اندر داخل ہوکر حضور پاکﷺ کی قبر دیکھی ہے اور اپنی آنکھیں ٹھنڈی کی ہیں ،انھوں نے خبر دی ہے کہ صحابۂ کرام نے آپ ﷺ کی قبر پختہ نہیں بنائی تھی؛چنانچہ قاسم بن محمد سے منقول ہے وہ کہتے ہیں :’’میں حضرت عائشہ کی خدمت میں حاضر ہوااور ان سے کہا:اماں جان! مجھے حضور اور آپ کے دونوں ساتھیوں کی قبر دکھائیں ،تو انھوں نے مجھے تین قبریں دکھائیں ،جو نہ تو زیادہ زمین سے اوپر اٹھی ہوئی تھیں اور نہ ہی زیادہ لگی ہوئی تھیں ،بطحائے مدینہ کے سرخ سنگ ریزے ان پر پڑے ہوئے تھے۔(سنن ابی داود،کتاب الجنائز، باب ماجاء في تسویۃ القبر، رقم الحدیث:۳۲۱۸)
قبر کی کیفیت اورہیئت کے بارے میں ابو بکر آجری نے غنیم بن بسطام مدنی سے نقل کیا ہے: وہ کہتے ہیں کہ حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ کے عہد گورنری میں میں نے حضورﷺ کی قبر دیکھی ہے، لگ بھگ چارانگلیوں کے برابر زمین سے بلندتھی۔ (فتح الباری ۳؍۲۵۷)
رجاء بن حیوہ کہتے ہیں : ازواج مطہرات کے حجرے خرید لینے کے بعد ولید بن عبدالملک نے عمر بن عبدالعزیزؒ کو خط لکھا کہ حجرے منہدم کرکے مسجد نبوی کی توسیع میں شامل کرلیں ،جب گھر گرایا گیا تو تین قبریں ظاہرہوئیں جن کے اوپر کی مٹی گری ہوئی تھی (ایضاً) ان تصریحات سے معلوم ہوا کہ وہ جو چند تصویریں کچھ لوگوں کے یہاں متداول ہیں جن میں اینٹوں سے بنی ہوئی اور زمین سے اٹھی ہوئی قبریں دکھائی دیتی ہیں ان کی اصل عہد نبوی سے ثابت نہیں ہے اور نہ ہی حقیقتِ واقعہ سے میل کھاتی ہیں ۔ (تاریخ المسجدالنبوی الشریف:ص ۱۶۴)
زیارت ِ نبی کی فضیلت
زیارت کی فضیلت میں کئی احادیث وارد ہوئی ہیں ، جنھیں شیخ عبدالعزیز بوطیبان نے تحقیق کے ساتھ ذکر کیا ہے،چنددرجِ ذیل ہیں :
جس نے میری قبر کے پاس مجھ پر درود پڑھا تو میں سنتاہوں اور جس نے دور سے درود پڑھا تو وہ مجھ تک پہنچایا جاتا ہے۔قول بدیع میں ص: ۱۵۳پر حافظ سخاویؒ لکھتے ہیں : اس کی سند جید ہے، جیساکہ ہمارے شیخ حافظ ابن حجر ؒ نے بتایا ہے، اسی طری یہ حدیث ہے : جس نے میری قبر کی زیارت کی اس پر میری شفاعت واجب ہوگئی ۔ اس کی تخریج دارقطنی نے اپنی سنن(۲؍۲۷۸) میں ،بیہقی نے شعب الایمان ( ۳؍۴۹۰) میں اور علامہ سبکی ؒ نے شفاء السقام میں کی ہے اور اس کوصحیح یاحسن کا درجہ دیا ہے ۔ علامہ سیوطی ؒ نے بھی مناھل الصفا فی تخریج احادیث الشفامیں اس کی تخریج کی ہے، دیکھیے(رفع المنارۃ لتخریج احادیث التوسل والزیارۃ۔ للشیخ محمود عبد ممدوح ص:۲۸۱-۳۵۱)
علامہ ابن حجرہیثمی ؒ نے تحفۃ الزوار میں حضرت انس ؓ سے نقل کیاہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : جو بھی مجھ پر درود وسلام پیش کرتاہے تو اللہ تعالیٰ میری روح لوٹاتے ہیں ، پس میں اس کے سلام کا جواب دیتاہوں ۔ (سنن ابی دائود،حدیث نمبر ۱۷۴۵)
علامہ بیہقی ؒ نے ’’باب زیارۃ قبر النبی‘‘ میں سب سے پہلے اس روایت کو ذکر کیا ہے، اور ائمہ کی ایک بڑی جماعت نے اس پر اعتما د کیاہے، علامہ سبکیؒ کہتے ہیں یہ اعتماد صحیح ہے؛ اسلیے کہ یہ زائر کی فضیلت اور منقبت کو متضمن ہے، پس اس پر ہم اللہ پاک کی بے انتہاء حمد وثنا کرتے ہیں ۔ (تحفۃ الزوار الی قبر النبی ؐص: ۲۱)
حضرت ابو ہریرہ ؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:آدمی جب کسی جانے پہچانے انسان کی قبر کے پاس سے گزرتاہے اور اسے سلام کرتاہے تو مردہ اُس کے سلام کا جواب دیتا ہے اور اسے پہچان لیتاہے اور جب کسی انجانے انسان کی قبرکے پاس سے گزرتاہے تو مردہ اس کے سلام کا جواب دیتاہے ۔ (رواہ البیہقی فی شعب الایمان )علامہ ابن تیمیہ کے حوالے سے حافظ ابن حجر نقل کرتے ہیں کہ شہداء بلکہ تمام مسلمانوں کا معاملہ یہ ہے کہ جب مسلمان ان کی زیارت کرتاہے اور انھیں سلام پیش کرتاہے تو وہ اسے پہچان لیتے ہیں اور اس کے سلام کا جواب دیتے ہیں ، حافظ ابن حجر کہتے ہیں کہ جب عام مسلمانوں کا یہ معاملہ ہے توسید الاولین والآخرین کے بارے میں کیا کہنا! امام سبکی فرماتے ہیں : روضۂ اقدس کی زیارت اللہ تعالیٰ کے ہاں ایسی عبادت ہے،جس کی ادائیگی کتاب وسنت اور اجماع و قیاس کی روشنی میں مطلوب معلوم ہوتی ہے، جہاں تک قرآن کریم کا تعلق ہے تواللہ پاک کا یہ ارشاد ہے {ولوأنھم إذ ظلموا أنفسھم جائوک فاستغفروا اﷲ واستغفرلھم الرسول لوجدوا اﷲ توابًا رحیما} (سورۃ النساء:۶۴)
ترجمہ: اگر یہ لوگ اپنے آپ پر ظلم و زیادتی کرنے کے بعد آپ کی خدمت میں حاضر ہوتے اور اللہ سے معافی مانگتے اور خدا کا رسول ان کے لیے استغفار کرتا تو اللہ کو توبہ قبول کرنے والا اور رحم کرنے والا پاتے ۔ یہ آیت رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضری دینے اور آپ کے پاس استغفار کرنے کی ترغیب پر دلالت کررہی ہے ۔ اور یہ مقام و مرتبہ آپ کی وفات سے منقطع ہونے والا نہیں ہے۔
اور جہاں تک حدیث وسنت سے زیارت کی فضیلت کے ثبوت کا تعلق ہے تو پیچھے چند احادیث گذرچکی ہیں ، ان کے علاوہ متفق علیہ روایت میں زیارتِ قبور کا حکم وارد ہواہے اور حضور کی قبر تو سیدالقبورہے ۔اور فضیلتِ زیارت اجماع سے بھی ثابت ہے؛ چنانچہ قاضی عیاض مالکیؒ فرماتے ہیں حضورﷺ کی قبر کی زیارت ایک ایسی سنت ہے جس پر پوری امت اسلامیہ کا اجماع ہے اور یہ ایسی فضیلت ہے جس کی ترغیب دی گئی ہے،رہی بات قیاس کی تو آپ ﷺ سے اہل بقیع اور شہدائے احد کی زیارت کرنا ثابت ہے ۔ جب ان حضرات کی قبروں کی زیارت مستحب قرارپائی تو آپﷺ کی قبر کی زیارت بدرجۂ اولیٰ مستحب ہوگی؛ کیونکہ آپ کا حق ہے اور آپ کی تعظیم واجب ہے ۔ (شفاء السقام:۱۸)
استحبابِ زیارت پر علماء امت کا اتفاق ہے
امت کے راسخ فی العلم علما اور رشدو ہدایت کے ائمۂ متبوعین کا اتفاق ہے کہ زیارت مندوب اور مستحب ہے، علامہ ابن بطال صحیح بخاری کی شرح میں فرماتے ہیں : ’’آں حضورﷺ اورحضرت ابوبکر ؓوعمر ؓکی قبر کی زیارت پر امت کا اجماع ہے، اور خطا پر اجماع نہیں ہوسکتا، شیخ خلیل نے اپنی کتاب ’’مناسک‘‘ میں ابن ہبیرہ کی ’’اتفاق الائمۃ‘‘سے نقل کیا ہے کہ امام مالکؒ، امام شافعی،ؒ امام ابو حنیفہؒ اور امام احمد بن حنبل ؒ کا اس بات پر اتفاق ہے کہ زیارت مستحب ہے ۔‘‘
احناف میں سے حافظ ابن ہمام ؒ فرماتے ہیں : ’’ہمارے مشائخ کے بقول : حضورﷺ کے روضے کی زیارت سب سے افضل مندوب ہے ‘‘ (فتح القدیر:۳/۱۸۹)
علامہ ابن عابدین شامیؒ لکھتے ہیں :’’ حضورﷺ کی قبر کی زیارت مندوب ہے؛بلکہ یہ بھی کہاگیا ہے کہ جس کے پاس وسعت ہو اُس پر واجب ہے۔ (رد المحتار:۲/۱۲۶)
ابن قدامہ حنبلیؒ فرماتے ہیں : ’’حضورﷺ کے روضے کی زیارت مستحب ہے اور اس کی دلیل وہ روایت ہے جسے دار قطنی نے اپنی سندسے عبداللہ بن عمرؓ سے نقل کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : جس نے حج کیا اور میری وفات کے بعد میری قبر کی زیارت کی تو گویا اس نے میری زندگی میں میری زیارت کی، پھرعتبی کی وہ روایت ذکر کی ہے جوقبرِرسول کے پاس آنے والے اعرابی سے منقول ہے(المغنی:۳/۵۸۸)کشاف القناع للبہوتی الحنبلیمیں بھی اسی کے مثل مذکور ہے۔‘‘
علامہ ذہبی ؒکہتے ہیں :’’ جو حجرۂ شریفہ کے پاس کھڑے ہوکر نیاز مندانہ دُرود وسلام پیش کرتاہے اس کے لیے بڑی خوشخبری ہے کہ اس نے بہتر زیارت کی اور عجزو نیاز اور محبت و وارفتگی میں بہترین راہ اپنائی اور اپنے وطن میں درود وسلام پڑھنے والے سے زائد عبادت کی ‘‘(سیراعلام النبلاء ۴/۴۸۴)
شوافع میں سے امام نووی ؒ فرماتے ہیں : ’’ہر حاجی کے لیے مناسب ہے کہ وہ روضۂ نبوی کی زیارت کے لیے جائے، مدینہ خواہ اپنے وطن کے راستے میں آئے یانہ آئے؛کیونکہ یہ عبادتوں میں سب سے عظیم عبادت ہے، سب سے زیادہ بارآور سعی ہے اور مستحبات میں سب سے افضل ہے ۔ علامہ قسطلانی نے یہی بات المواھب اللدنیۃ میں کہی ہے ۔
اور جہاں تک مالکیہ کا تعلق ہے تو شیخ خلیل کی مناسک کے حوالے سے ہم پیچھے ذکر کرآئے ہیں ۔
حدیث نبوی: لاتشد الرحال الا الیٰ ثلاثۃ مساجد۔ سے روضۂ نبوی کی زیارت کی ممانعت پر استدلال صحیح نہیں ہے؛ کیونکہ بہت سے علما نے اس پر رد کیاہے، حافظ ابن الحجر ؒنے فتح الباری میں اس پر عمدہ کلام کیاہے اور آخر میں کہاہے کہ اس بحث کے بعد ان لوگوں کی بات قابل التفات نہیں رہتی جو روضۂ اقدس کی زیارت کے لیے سفر کرنے کو منع کرتے ہیں ۔
آداب ِ زیارت
علمائے کرام نے تفصیل سے زیارت کے آداب ذکر فرمائے ہیں ، ہم درج ذیل سطروں میں ان میں سے چند آداب ذکر کرنے پر اکتفا کرتے ہیں ، زائر جب مدینہ منورہ کا رخ کرے اور اس سمت چلنا شروع کرے تو نبی اکرم ﷺ پر کثرت سے درود وسلام پڑھے اور اللہ پاک کے حضور دعا کرے کہ حضورﷺ کی زیارت سے مجھے نفع پہنچا اور اس کو قبول کر ۔
حضور کے سامنے کھڑے ہونے سے پہلے صدقہ کرنا مناسب ہے، ارشاد باری تعالی ہے : {یٰأَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا إِذَا نَاجَیْتُمُ الرَّسُولَ فَقَدِّمُوا بَیْنَ یَدَیْ نَجْوَیٰکُمْ صَدَقَۃً}(المجادلۃ:۱۲) [اے اہلِ ایمان ! رسولِ خدا سے محوکلام ہونے سے پیشتر صدقہ کرلیا کرو!]
آیت کا حکم اگرچہ منسوخ ہے؛ لیکن بعض علما آپ کی وفات کے بعد بھی اس کو مستحسن سمجھتے ہیں ۔
اور مستحب ہے کہ مدینہ منورہ میں داخل ہونے سے پہلے غسل کرے اور صاف ستھرے کپڑے زیب تن کرے اور جب مسجد نبوی کے دروازے پر پہنچے تو دایاں پیرپہلے داخل کرے اور نکلے تو بایاں پیر پہلے نکالے ۔
داخل ہونے کے بعد ’’ریاض الجنۃ‘‘ کا رخ کرے اورتحیۃ المسجد کی نماز پڑھے، پھر قبر اطہر کے قریب ہو اور حضورﷺ کے رخِ انور کے سامنے ادب کے ساتھ قبر شریف کی دیوار سے لگ بھگ چار گز کے فاصلے پر کھڑا ہوجائے، پھر ادب کا لحاظ کرتے ہوئے درمیانی آواز میں سلام کا نذرانہ پیش کرے، ادب کے اعلیٰ مقام کا پاس رکھتے ہوئے آواز زیادہ اونچی نہ کرے، پھر ایک گز دائیں جانب سے پیچھے ہٹ جائے اور سیدنا ابو بکر صدیقؓ کو سلام پیش کرے، اس کے بعد بائیں جانب سے دائیں ایک گز ہٹ کر سیدنا عمر فاروقؓ کی خدمت میں سلام پیش کرے پھرریاض الجنۃ میں لوٹ آئے اور نماز ودعا میں کچھ کسر باقی نہ رکھے ۔
روضۂ اطہر پر حملے
قبرِ شریف پر ہونے والے حملے دو قسم کے ہیں :ایک روحانی،دوسرے ظاہری ۔روضۂ اطہر کو سجدہ گاہ بنانا، اس سے مدد مانگنا اور حضورﷺ کی نسبت قادرِ مطلق اور مختارِ کل ہونے کا عقیدہ رکھنا، روحانی ظلم وزیادتی اور باطنی حملہ ہے ۔حضور اکرمﷺ نے باقاعدہ اِس پر تنبیہ فرمائی ہے اور سختی کے ساتھ اپنی قبر کو سجدہ گاہ بنانے سے منع فرمایا ہے،مرض الوفات کے دنوں میں ارشاد فرمایا:’’یہود ونصاریٰ پر اللہ کی لعنت ہو جنھوں نے اپنے نبیوں کی قبروں کو سجدہ گاہ بنالیا۔‘‘(صحیح البخاری، حدیث نمبر:۱۳۹۰) نیز روضۂ اقدس کی زیارت کو قربِ خداوندی کے حصول کاذریعہ نہ ماننااور یہ خیال کرناکہ روضے کی زیارت کا دین سے کوئی تعلق نہیں ،روحانی ظلم اور باطنی حملہ ہے؛بلکہ دورِ آخرمیں رواج پانے والی ایک بدعت ہے؛کیوں کہ یہ بات پیچھے گذر چکی ہے کہ روضۂ اقدس کی زیارت کے استحباب پر تمام علماء وفقہاء کا اجماع ہے۔آدابِ زیارت(جن کا ذکر پیچھے گذرا)کے تعلق سے غفلت اور لاپرواہی برتنا بھی روحانی حملہ ہے ۔
اور قبرِ انور پر ہونے والی ظاہری جارحیتیں اور حملے دشمنانِ اسلام کی وہ خبیث ترین کوششیں ہیں جو قبرِ مبارک کو اکھاڑنے اور حضورِ اکرم ﷺ کے جسدِ اطہرکو کسی دوسری جگہ منتقل کرنے کے لیے کی گئی ہیں ۔
قبرِ مبارک اکھاڑنے اور جسدِ اطہر منتقل کرنے کی ناکام کوششیں
مؤرخین نے حضورِ اکرمﷺ کے جسدِ اطہر کو چرانے اور قبرِ مبارک اکھاڑنے کی چند بد ترین کوششوں کا ذکر کیاہے؛مگر وہ تمام مذموم کوششیں ناکام رہیں ۔ اور اللہ تعالی کا فرمان: {واللّٰہ یعصمک من الناس}(المائدۃ:۶۷)پورا ہوا کہ اللہ پاک لوگوں سے آپ کی حفاظت فرمائیں گے؛ چنانچہ زندگی میں بھی حفاظت کی اور موت کے بعد بھی۔محمد الیاس عبد الغنی نے اپنی کتاب ’’تاریخ المسجد النبوی الشریف‘‘ میں اور محمد علی قطب نے اپنی تصنیف ’’القبۃ الخضراء ومحاولۃ سرقۃ الجسد الشریف ‘‘ میں اِن تمام واقعات کا ذکر کیاہے۔
مصادر ومراجع کی کتابوں سے معلوم ہوتا ہے کہ روضۂ اطہر کو اکھاڑنے کی پہلی کوشش ۳۸۶ھ میں چھٹے عبیدی حاکم ’’حاکم بامر اللہ ‘‘کے اشارے پر ہوئی تھی،مؤرخین نے ابن نجار کی تاریخِ بغداد سے ان کی سند کے ساتھ نقل کرتے ہوئے لکھاہے کہ بعض زندیقوں نے عبیدی حاکم کو حضور ﷺ اور صاحبین کو مدینہ منورہ سے مصر منتقل کرنے کا مشورہ دیا تھااور شیطان نے ان کی نگاہوں میں اس کام کو مزین کیا؛چنانچہ حاکم نے مختصر سی مدت میں بڑی جاں فشانی سے مصر میں ایک مکان تعمیر کرایا کہ اس میں جسدِ اطہر کا استقبال کیا جائے گا اور اُس پر بہت ساری دولت خرچ کی اور ابو الفتح نامی شخص کو روضۂ مبارکہ کو اکھاڑنے کے لیے بھیجا۔جب وہ مدینے پہنچا اور ذرا دم لیا تو اہلِ مدینہ کی ایک جماعت حاضر ہوئی جو ابو الفتوح کے مقصد سے واقف تھی،زلبانی کے نام سے معروف ایک قاری صاحب نے مجلس میں پڑھا {وَإِن نَّکَثُواْ أَیْمَانَہُم مِّن بَعْدِ عَہْدِہِمْ} إلی قولہ تعالیٰ {إِن کُنتُم مُّؤُمِنِینَ} (التوبۃ:۱۲-۱۳)تو لوگوں میں اشتعال پیدا ہوگیا اورقریب تھاکہ وہ ابوالفتوح اور اُ س کے لشکریوں کو قتل کردیں ؛مگر اِس خیال نے اُ ن کے پائوں میں زنجیر ڈال دی کہ یہ سرزمین اپنی ہے۔ [اوراپنی سرزمین پر دشمن کو قتل کرنا بہادری نہیں ۔]جب ابو الفتوح نے یہ منظر دیکھا تو اُن سے کہا: ’’اللہ پاک زیادہ حق دار ہے کہ اس سے خوف کھایاجائے،خدا کی قسم اگر حاکم کی طرف سے مجھے اپنی جان کا خطرہ نہ ہوتا تو میں اِس حرکت کی جرأت نہ کرتا ۔‘‘
تاریخی مصادر سے معلوم ہوتاہے کہ روضۂ اقدس کو کھولنے کی دوسری کوشش بھی حاکم بامراللہ عبیدی کے ہاتھوں ہوئی تھی؛لیکن پہلے کی طرح ناکام رہی اور اللہ پاک نے اپنے نبی کی حفاظت فرمائی، مؤرخین نے اس کی تفصیل ابن سعد قیروانی کی کتاب ’’تأسی أھل الایمان فی ماجری علی أھل القیروان‘‘ سے نقل کرکے لکھی ہے ۔
تیسری کوشش کا تذکرہ جمال الدین عبد الرحیم بن حسن بن علی الاسنوی نے اپنے رسالے ’’نصیحۃ أولی الألباب فی منع استخدام النصاری‘‘ میں کیاہے اور اُن سے علامہ سمہودی ؒ نے اپنی کتاب ’’وفاء الوفا بأخباردارالمصطفی‘‘میں اِس کو نقل کیاہے۔یہ واقعہ ۵۵۷ھ کو ملکِ عادل،سلطان نورا لدین زنگی کے عہد میں دوعیسائیوں کے ہاتھوں پیش آیا تھا۔مؤرخین نے ذکر کیا ہے کہ سلطان نور الدین کو خواب میں رسولِ اکرم ﷺ کی زیارت ہوئی،آں حضوردوزردی مائل سرخ آدمیوں کی طرف اشارہ کرتے جارہے تھے اور فرماتے جارہے تھے :’’مجھے اِن سے بچا ‘‘سلطان گھبرا کر بیدار ہوئے،وضو کرکے نماز پڑھی اور پھر سوگئے،تیسری مرتبہ بھی جب حضور اکرمﷺ کو دیکھا تو اٹھے اور اٹھ کر اپنے ایک نیک طینت وزیر جمال الدین موصلی کے ہمراہ مدینہ منورہ کی راہ لی،اور سولہ دن میں مدینہ پہنچ گئے،مدینہ منورہ سے باہر غسل کیاپھر شہرِ نبی میں داخل ہوئے،روضے میں نماز پڑھی اور زیارت سے مشرف ہوئے،پھر بیٹھ گئے،سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کیاکیا جائے ؟وزیر نے اہلِ مدینہ سے کہا:سلطان کا ارادہ روضۂ نبوی کی زیارت کا ہے اور اپنے ساتھ صدقے کا بہت سارا مال لائے ہیں ،اس لیے تم اپنے آدمیوں کے نا م لکھوائو،جب تمام اہالیانِ مدینہ کے نام لکھے جاچکے تو سلطان نے انھیں حاضر ہونے کا حکم دیا،جو بھی آتا سلطان اس کو غور سے دیکھتے؛ تاکہ خواب میں حضور ﷺ کی بتلائی ہوئی نشانی مل جائے،مخصوص علامت نہ پانے پر سلطان اُسے کچھ دے کر واپس جانے کا حکم دے دیتے۔ یہاں تک کہ لوگ منتشر ہوگئے،تو سلطان نے کہا :’’ کیا کوئی ایسا شخص بچاہے؟جسے صدقہ نہ ملاہو۔‘‘لوگوں نے جواب دیا:نہیں ؛سلطان نے پھر کہاکہ اچھی طرح غور کرلو! تو لوگوں نے کہاکہ صرف دو مغربی آدمی باقی رہ گئے ہیں ،جو کسی سے کچھ نہیں لیتے ہیں اور وہ دونوں متقی اورصاحبِ ثروت ہیں ،حاجت مندوں پر دل کھول کر خرچ کرتے ہیں ۔بس سلطان کو انشراحِ صدر ہو گیا اور حکم دیا کہ انھیں لے آئو !وہ حاضر کیے گئے تو سلطان نے دیکھا کہ یہ دونوں وہی آدمی ہیں جن کی طرف نبیِ اکرم ﷺ نے یہ کہہ کر اشارہ فرمایا تھا:’’انجدنی، أنقذنی من ھٰذین‘‘ان سے میری حفاظت کرو۔ سلطان نے ان سے پوچھا کہ تم کہاں کے ہو؟انھوں نے کہا ہم حج کے لیے آئے تھے،پھر ہم نے رسول اللہ ﷺ کی مجاورت اختیار کرلی،سلطان اُن کے ساتھ اُن کے گھر گئے اور بہ نفسِ نفیس گھر میں چکر لگانے لگے،گھومتے گھومتے ایک چٹائی اٹھا کر دیکھا، تو ایک ایسی سرنگ پر نظر پڑی جو حجرۂ شریفہ کی سمت میں کھدی ہوئی تھی،یہ دیکھ کر لوگ حیران رہ گئے۔اُس وقت سلطان نے اُن سے کہا:تم سچ سچ اپنا حال بتا دو!اور ان کی سخت پٹائی کی۔ان دونوں نے اعتراف کیا کہ ہم عیسائی ہیں ،اہلِ مراکش کے بھیس میں عیسائیوں نے ہمیں روضۂ نبوی اکھاڑنے کی غرض سے بھیجا ہے،اس کے بعد سلطان نے ان کے قتل کا حکم جاری کیا،اسی خطرناک کوشش نے سلطان نور الدین زنگی کو حجرۂ نبوی کے چاروں طرف بڑی خندق کھودنے پر مجبور کیا اور پھر اِس خندق کو پگھلے ہوئے سیسے سے بھر دیا،اس طرح یہ شہرپناہ کے مانند بن گئی جو مستقبل میں کسی بھی گستاخانہ کوشش سے حجرۂ نبوی کی حفاظت کریگی۔ یہ فصیل ’’سقیفۂ رصاص ‘‘کے نام سے معروف رہی،یہاں تک کہ بہ روز پیر۱۸؍رجب ۱۳۹۷ھ کو کپڑا مارکیٹ میں آگ لگنے سے منہدم ہوگئی ۔
اس سلسلے کا سب سے مشہور واقعہ سلطان صلاح الدین ایوبیؒ کے زمانے میں اُس وقت رونما ہوا تھا جب صلیبی جنگوں کے دوران صلیبی قائد’’ ارناط‘‘ نے سینا کے بعض عربوں کے ساتھ معاہدہ کرلیا تھا کہ وہ عیذاب کے راستے مدینہ منورہ پہنچ کر جسد اطہر چرالے جائے گا، سلطان صلاح الدین ایوبی اس وقت مکہ مکرمہ میں تھے، جب یہ خبر پہنچی تو فوراً ارناط کی خبر لینے کے لیے چل دیے اور تلوار سے ان کے دوٹکڑے کردیے اور انگریز لشکر کے دو آمیوں کو روزۂ اقدس تک پہنچنے سے پہلے قتل کردیا، مشہور سیاح ابن جبیرابو الحسن محمدبن احمد اس واقعے کی تفصیلات پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’جب ماہ ذیقعدہ میں ہم اسکندریہ میں اترے تو ہم نے دیکھا کہ لوگوں کا ایک عظیم مجمع رومی قیدی دیکھنے کے لیے اس حال میں شہر میں داخل ہوا کہ وہ اونٹوں پر سوار تھے اور ان کے گرداگرد طبل ونقارے تھے، ہم نے ان کا قصہ دریافت کیا تو ہمیں ایک ایسے امر کی خبر ملی جس کی دہشت نے ہمارے کلیجوں کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا ۔ واقعہ یہ تھا شام کے نصاریٰ کا ایک گروہ جمع ہوا اور اس نے بحر احمر کے پاس قریبی جگہ میں کشتیاں تیار کیں ، پھر عربوں سے معاہد ہ کرکے کرائے کے اونٹوں پر سامان لادا، جب وہ بحر احمر کے کنارے پہنچے تو اجزاء باہم جوڑ کر، کیلیں لگاکر کشتیاں مکمل طور پر تیار کرلیں ، تیار کرنے کے بعد سمندر میں اتاردیں اور ان پر سوار ہوکر حجاج کو غارت کرنا شروع کردیا، بحر نعم پر پہنچ کر تقریبا سولہ کشتیوں کو نذر آتش کیا،بالائی مصر میں قوص کے عیذاب بندرگاہ پر جدہ سے حجاج کو لارہی کشتی کو پکڑلیا اور خشکی میں قوص سے آرہے ایک بڑے کارواں کو گرفتار کرلیا اور ان تمام کو موت کے گھاٹ اتاردیا، اسی طرح انھوں نے دو اور کشتیوں کو قبضے میں لیا جس میں یمن کے تاجر سوار تھے، اس کے علاوہ انھوں نے ساحل پر موجود بہت سی اشیاء ِ خوردنی کو آگ لگادی، جو مکے اور مدینے کے لیے تیار کی گئی تھیں اور انھوں نے ایسی شنیع حرکتیں کی کہ اس کی مثال تاریخِ اسلام میں نہیں ملتی، ان تمام میں سب سے بڑا وہ حادثہ تھا جس کی شناعت اور بدی سے کان بندہوجاتے ہیں ، واقعہ یہ تھا کہ وہ مدینہ منورہ میں داخل ہوکر قبرِ مبارک سے جسدِ اطہر کو نکالنے کا پختہ ارادہ رکھتے تھے،انھوں نے اس کا اعلان کردیا تھااور ان کی زبانوں پراسی کاچرچاتھا،آخر کار ان کی اس جرأتِ بیجا پر اللہ تعالی کی گرفت آگئی،محبوب ﷺ اور ان کے درمیان حائل عنایتِ الٰہی کے پردوں سے چھیڑ چھاڑ کرنے کے سبب ان پر عذابِ الٰہی نازل ہوا،مدینہ منورہ صرف ایک دن کی مسافت پر رہ گیاتھاکہ مشہور حاجب لؤلؤنامی بحری جنگ کے ماہر،چند دلیر مراکشی نوجوانوں کو لے کر آگیا اور اس نے دشمنوں کو اُس وقت تہِ تیغ کیا جب وہ نجات کے قریب تھے اور کسی ایک کو بھی نہ چھوڑا،اس طرح یہ واقعہ زبردست عنایتِ الٰہی کی نشانی بنا۔
محب طبری ’’الریاض النضرۃ فی فضائل العشرۃ‘‘ میں پانچویں کوشش کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’روضۂ اطہرکے خادمِ اعلی شمس الدین صواب لمطی کہتے ہیں کہ میرا ایک رفیق گورنر کے پاس اٹھتا بیٹھتا تھا اور اس کی مجلس کی روداد سے مجھے آگاہ کرتاتھا، ایک دن اچانک میرے پاس آیا اور کہنے لگا : آج ایک بڑاخطرناک معاملہ پیش آیا، میں نے پوچھا وہ کیا ؟ کہنے لگا کہ اہلِ حلب کی ایک جماعت آئی اور گورنر پر دادو دہش اور تحفے تحائف کی بارش کردی، پھر امیر سے کہا کہ وہ حجرۂ شریفہ کھولنے دے اور ابو بکرؓ وعمرؓ کو وہاں سے نکالنے دے ۔ امیر نے ہامی بھرلی۔ چیف خادم کہتے ہیں کہ اس امر نے مجھے رنج وغم اور کرب والم میں مبتلا کردیا،اتنے میں گورنر کا نمائندہ مجھے بلانے آپہنچا،میں حاضر ہوا تو مجھ سے کہا کہ اے صواب ! کچھ لوگ مسجد کا دروازہ کھٹکھٹائیں گے، آپ ان کے لیے دروازہ کھول دینا اور وہ جو چاہیں کرنے دینا، نہ ان کے درمیان حائل ہونا اورنہ ان پر اعتراض کرنا،میں نے کہا :بہ سرو چشم قبول ہے،صواب کہتے ہیں کہ میں نکل گیا اور دن بھر حجرۂ نبوی کے پیچھے گریہ وزاری کرتا رہا اور بے بسی کی وجہ سے روتا رہا؛یہاں تک کہ جب رات ہوگئی تو ہم نے عشاء کی نماز پڑھی اور لوگ مسجد سے نکل گئے، اتنے میں وہ دروازہ بجا جو باب السلام کے قریب تھا، میں نے اٹھ کر دروازہ کھولا، میں ایک ایک کرکے گن رہا تھا،چالیس آدمی داخل ہوئے اور ان کے ساتھ کھدائی کے آلات اور تخریب کے اوزار تھے اور روضۂ شریفہ کی طرف قدم بڑھائے جارہے تھے ؛خدا کی قسم وہ منبر تک پہنچنے بھی نہ پائے تھے کہ زمین نے ان تمام کو اوزاروں سمیت نگل لیا اور ان کا کوئی نام و نشان نہیں رہا ۔
محمدالیاس عبدالغنی نے اپنی کتاب ’’تاریخ المسجد النبوی الشریف‘‘میں اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ یہ کوشش چھٹی صدی ہجری کے وسط میں اُس وقت ہوئی تھی،جب عباسی فتنۂ تاتارمیں الجھے ہوئے تھے ۔
—————————————-
دارالعلوم ، شمارہ : 11-12، جلد:103، ربیع الاول– ربیع الثانی 1441ھ مطابق نومبر – دسمبر 2019ء
٭ ٭ ٭