حضرت اورنگ زیب عالم گیر علیہ الرحمۃ حیات اور کارنامے اور الزام تراشی کی تردید (۲/۲)

از: مولانا شاہد قاسمی سیتاپوری

فاضل دارالعلوم دیوبند

سیاسی وملکی خدمات

            عالمگیر ؒکی پوری زندگی جدوجہد اور تحریک سے عبارت ہے، بادشاہ ہونے سے پہلے اولاً دوسال  ۱۶۴۵ء سے ۱۶۴۷ء تک گجرات کے گورنر رہے،اس کے بعد بلخ کی جنگی مہم پر بھیج دیا گیا،جہاں ان کی قیادت میں مغل تسلط قائم ہوا،پھر ملتان، سندھ کی صوبہ داری دی گئی جہاں ۱۶۴۸ء تا ۱۶۵۲ء کے درمیا ن دو دفعہ قندھار پر حملہ کرکے اپنا تسلط قائم کیا گیا، ۱۶۵۲ء میں نہایت کٹھن مہم پر دکن کا صوبہ دار بنا دیا گیا جہاں ۲۴/سالہ قیام کے دوران متعدد مہمات میں شرکت کے ساتھ ان بھائیوں سے بھی جنگ لڑی جو شاہ جہاں کی حیات میں ہی سلطنت پر قبضہ کرنا چاہتے تھے، سری نگر، بہار، آسام، تبت، اراکان، چاٹگاؤں ،بیجاگاؤں ،گولکنڈہ کی فتح کے ساتھ افغانستان کے ان سرحدی پٹھانوں کو بھی نہیں بخشا جو آج بھی ناقابل تسخیر تصور کیے جاتے ہیں (۳۷)اور بہ قول قاضی شوکت فہمی :

            ’’اس کے خلاف جتنی بھی انقلابی سازشیں اور بغاوتیں اٹھیں وہ صابن کے جھاگ کی طرح بیٹھ گئیں جسونت سنگھ اس کے سامنے جھک گیا، شیوا جی جیسے سخت آدمی کو اس کے دربار میں حاضری دینی پڑی، ستنامیوں کا خوف ناک فتنہ آن کی آن میں ختم ہو گیا،مہارانا اودیپور کی سرکردگی میں راجپوتوں نے اس کے خلاف مشترکہ محاذ بنایا مگر بھاگ کھڑے ہوئے،اس کے بیٹے کو توڑا گیا مگر کوئی نتیجہ نہ نکلا غرض یہ کہ اورنگ زیب ؒ(ملک کے لیے )ایک ایسی مضبوط چٹان تھا اس سے جو بھی ٹکرایا پاش پاش ہوگیا‘‘۔(۳۸)

ملک کو متحدہ بنانے کا سہرا

            بہ قول ایک مؤرخ: ’’اورنگ زیب ؒنے ہندوستان کو ایک متحد ملک یعنی نیشن اسٹیٹ بنا دیاتھا اور پہلی بار ہندوستان سے لے کر چٹا گانگ اور کشمیر سے لے کر کرناٹک تک ایک ایسا ملک تھا جس کا ایک حکمراں ، ایک فوج، ایک سکہ اور ایک جھنڈا تھا گویا ہندوستان کو نیشن اسٹیٹ بنانے کا سہرا اور نگ زیب کے سر جاتا ہے ‘‘۔(۳۹)

            چنانچہ ’’الدکتور سید حسین العفانی ‘‘لکھتے ہیں :

          ’’وامتدت دولۃ الإسلام من سفوح ’’الھملایا ‘‘فی الشمال حتی شواطئی البحر فی أقصی الجنوب ‘‘۔(۴۰)

            ان تما م کارناموں کا محرک در اصل اورنگ زیبؒ کی وہ حمیت وحمایت اسلام ہے جو اس کی رگ و پے میں سرایت کیے ہوئے تھی، اس کی بے نظیر قوت ارادی،استقلال طبیعت، انتظامی صلاحیت سادہ بلکہ زاہدانہ زندگی نے ملک کو وسعت دینے اور اس کی تعمیر ترقی کے لیے آرام کا موقع نہ دیا؛چنانچہ مولانا سید ابوالحسن علی میا ں ندوی ؒلکھتے ہیں :

          ’’لم یقطع ولم یتوقف یوماً واحداً فی خمسین سنۃ حکم فیھا ۔۔۔۔۔ ولم یزل مرابطاً منا زلاً الی ٰآخر ساعاتہ‘‘۔(۴۱)

            الدکتور سید حسین العفانی ’’ألملک العظیم الراشد أورانک زیب عالمکیر لانظیر لہ فی العدل والزہد‘‘

               جیسا عظیم ترین عنوان ڈال کر ’’الامام العادل ‘‘کی فہرست میں شمار کر تے ہوئے لکھتے ہیں :

          ’’ومع ہذہ الفتوحات العظیمۃ کا ن ینظر فی کل شئون الملک وقضایا الرعیۃ بمثل عین العقاب‘‘(۴۲)

الزام تراشی کی حقیقت

            مغلیہ سلطنت کے زوال کے بعد ہندوستان میں انگریزوں نے اپنے دور حکومت میں سیاسی مصالح کی خاطر نیز ہندو ومسلم میں منافرت پیداکرنے کے لیے اس بات کی پوری کوشش کی ہے کہ مسلم حکمرانوں کو زیادہ سے زیادہ برا دکھا کر پیش کیا جائے تاکہ ان کی غاصبانہ حکومت رحمت الٰہی سمجھی جائے گی۔اس کا م کو انجام دینے میں متعصب مؤرخین اور برطانوی عہد کے مرتبوں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔اور گمراہ کن استدلالات، مغالطہ آمیز معلومات اور غلط تعبیرات بلکہ اپنے ذاتی مفادات کے واسطے مادر وطن کی اصل تاریخ کو مسخ کرتے ہوئے قومی یکجہتی واتحاد کے علمبردار بلکہ علامت اس عظیم حکمراں کو بت شکن، ہندوکش،ظالم وجابر بادشاہ کی حیثیت سے متعارف کرایا،یہی نہیں بلکہ ان کی تاریخ نویسی وسوانحی نگاری کامقصد بہ قول سید صباح الدین عبدالرحمن یہ ثابت کرنا تھا کہ       

            ’’اورنگ زیب ؒنے پچاس برس تک اس لیے حکومت کی کہ وہ ہندوؤں کو ذلیل کرے، ان کو ملازمتوں سے محروم رکھے،ان کے مندروں کو منہدم کرتا رہے،ان کے علوم وفنون کو برباد کردے، راجپوتوں کی حب الوطنی کے جذبات کو کچل کر رکھ دے اور فادر لینڈ کی محبت میں لڑنے والے اور قومی حکومت قائم کرنے والے مرہٹوں کو راکھ کا ڈھیر بنا دے ‘‘۔(۴۳)

            مگر حقیقت بالکل برعکس ہے اگر معتبر اور مستند تاریخ،حالات وواقعات کے پس منظر اور وقت کی نزاکتوں ومجبوریوں کو سامنے رکھتے ہو ئے ان الزامات کی تحقیق کی جائے تو معلوم ہوگا کہ اورنگ زیب ؒکی ہی وہ عالمگیر شخصیت ہے جو غیر متعصب،روادار ی وخیر سگالی کے جذبے سے سر شار ہو کر ۵۱/سالہ دور حکومت میں بکھرے ہوئے ہندوستان کے گیسوؤں کو سنوار کر سونے کی چڑیا بنایا۔

الزام تراشی کی وجہ

             قاضی شوکت فہمی رقم طراز ہیں کہ

            ’’یہ ضرور ہے کہ وہ اکبر کی طرح بے دین اور جہاں گیر کی طرح مذہبی معاملات میں لاپرواہ نہیں تھا، بلکہ شعائر اسلام کا سختی کے ساتھ پابند تھا غالباً یہی اس کا سب سے بڑا گناہ ہے ‘‘۔(۴۴)

            نیز ہندوستان کی بد قسمتی ہے کہ عالم گیر ؒکے جانشیں ایسے ناخلف ہوئے جنھوں نے اپنی کوتاہیوں پر پردہ ڈالنے کے لیے عالمگیر ؒکو بدنام کرنا ضروری سمجھا۔غالباً یہی اسباب ہیں جن کی بناء  پر لوگوں کو الزام تراشی کا موقع ملا اور فن تاریخ کے لیے یہ کوتاہی یقیناشرمناک ہے کہ ایسے جلیل القدر سلطان کے ’’صحیح حالات‘‘ ڈھائی سو برس کے بعد مرتب ہوئے۔(۴۵)ذیل میں چند مشہور الزامات کی تحقیق وتردید تاریخی حوالہ جات کی روشنی میں کی جارہی ہے۔

مندر شکنی کاالزام

            اورنگ زیب ؒپر سب سے بڑا اورسنگین الزام یہ ہے کہ وہ مندروں کو دیکھ ہی نہیں سکتا ہے؛جب کہ حقیقت اس کے بر عکس ہے چنانچہ قاضی شوکت فہمی لکھتے ہیں کہ

            ’’سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب وہ مندروں کا اتنا بڑا دشمن تھا تو دکن میں ایلورا کے بت کدے کیسے باقی رہ گئے جو عین اورنگ زیب ؒکی قیام گاہ دولت آباد اورنگ آباد کے نواح میں تھے ‘‘۔(۴۶)

            اس الزام سے پردہ مسلمانو ں نے ہی نہیں بلکہ ہندو عالموں اور محققین نے بھی اٹھایا ہے اور یہ ثابت کیا ہے کہ مندر کے انہدام کے بجائے ان کی تعمیر وترقی کے لیے جاگیریں بھی دی ہیں جن میں الہ آباد، بنارس،چترکوٹ، جکھیا ر، اجین،گوہاٹی اور جودھپور کے مندر سرفہرست ہیں ۔ پنڈت سندر لال رقم طراز ہیں :

            ’’بے شمار مندروں کو جاگیریں اور معافیاں بھی دی گئی تھیں ،آج تک متعدد ہندومندروں کے پجاریوں کے پاس اورنگ زیب کے دستخطی فرمان موجود ہیں ‘‘۔(۴۷)

            اسی طرح بنارس فرمان کو زوروشور کے ساتھ اچھالا جاتا ہے(۴۸) جب کہ اس فرمان کا بہ غور مطالعہ یہ بتاتا ہے کہ عالمگیر ؒ نے مندروں کی تعمیر کے خلاف کوئی حکم نہیں کیا بلکہ صرف مروجہ دستور کی طرف اشارہ کرتے ہوئے موجودہ مندروں کی توثیق کی تھی۔(۴۹)

وشوناتھ مندر کاانہدام

            وشوناتھ مندر بنارس کے انہدام کوبھی متعصبین نے خوب اچھالا؛مگر اس کی حقیقت کچھ اور تھی؛ چناں چہ ڈاکٹربی این پانڈے لکھتے ہیں کہ

            ’’ بنگال جاتے وقت راجا ؤں کی درخواست پر رانیاں گنگا اشنان اور وشوناتھ کی پوجا کے واسطے اس مندر میں گئیں ،کچھ رانیوں کے سوا سب آگئیں ،تلاش کے باوجود نہ ملنے پر اعلی عہد یداروں کو بھیجا گیا وہ گنیش مورتی کے پاس پہنچے،حرکت دینے پر سیڑھیاں نظر آئیں جو اندر تہہ خانہ میں جاتی تھیں وہاں رانیوں کو عصمت دری کے بعد روتا پایا،احتجاج کے بعد بادشاہ نے حکم دیا کہ یہ مقدس جگہ ناپاک ہوگئی ہے؛ اس لیے مورتی کو دوسری جگہ منتقل کرکے مندر کو زمین بوس کردیا جائے اور مہنت کو گرفتار کیا جائے‘‘۔(۵۰)

            اس سے معلوم ہوا کہ اورنگ زیب ؒنے کسی بھی مندر کو بربنائے تعصب گرانے اور منہدم کرنے کا حکم نہیں دیا؛بلکہ اسلامی تعلیمات کو سامنے رکھتے ہوئے بلاتفریق مذہب وملت ہرایک کے ساتھ یکساں معاملہ کیا۔(۵۱)

ہندو دشمنی کا الزام

             علامہ شبلی نعمانی ؒاس الزام کا خلاصہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ

            ’’سب سے بڑا جرم؛ بلکہ مجموعہ جرائم یہ ہے کہ عالم گیر ؒنے ہندوؤں کو ملازمت سے یک قلم برطرف کردیا ان کے مذہبی میلے ٹھیلے موقوف کرادئیے ان کی درسگاہیں بند کروادیں بت خانہ تڑوادئیے‘‘۔(۵۲)

            اس الزام کی اصل حقیقت کا اندازہ اس کی مذہبی روادار ی،بے تعصبی اور ہندوؤں کو ملازمت میں نہ صرف شرکت بلکہ مناصب دینے سے لگایا جا سکتا ہے۔

اورنگ زیب کی مذہبی رواداری

            اورنگ زیب کے عہد میں جب یورپین سیاح ہملٹن ہندوستان آیا تو اس نے یہاں کی مذہبی، رواداری کی تفصیل یوں بیان فرمائی کہ

            ’’ریاست کا مسلمہ مذہب اسلام ہے؛ لیکن تعداد میں اگر دس ہندو ہیں تو ایک مسلمان ہے ہندوؤں کے ساتھ مذہبی رواداری پورے طور پر برتی جاتی ہے وہ اپنے برت رکھتے ہیں اور اسی طرح تہوار مناتے ہیں جیسے کہ اگلے زمانے میں مناتے تھے جب کہ حکومت خود ہندوؤں کی تھی ‘‘۔ (۵۳)

حقوق ملازمت

            یہ بھی کہاجاتا ہے کہ اورنگزیب ؒنے ہندوؤں کو سرکاری ملازمتوں سے برطرف کردیا؛ جب کہ حقائق کچھ اور کہتے ہیں ؛ چنا ں چہ بنگال کے مشہور عالم ’’ پی رائے‘‘ نے بیان کیاہے کہ

            ’’اورنگ زیب کے عہد میں بنگال کے ہندوؤں کو منصب داری اور بڑی بڑی جاگیریں عطا کی گئیں ۔ بڑے بڑے زمین دار بنا دئیے گئے، اورنگ زیب نے ہندوؤں کو گورنر بنایا،گورنر جنرل، وائسرائے یہاں تک کہ خالص اسلامی صوبہ افغانستان پر بھی جو نائب دارالسلطنت تھا وہ ہندو راجپوت  ہی تھا‘‘۔(۵۴) ان کی ایک لمبی فہرست ہے۔(۵۵)

عالم گیر ؒکی بے تعصبی

             سید طفیل منگلوری لکھتے ہیں :

            ’’ملازمتوں کے بارے میں مشہور ہے کہ ایک شخص نے انھیں (اورنگ زیب ؒکو )عرضی دی کہ تنخواہ تقسیم کرنے والے دونوں افسر پارسی ہیں ، انہیں برخاست کیا جائے۔اس کا جواب یہ ملا کہ: سلطنت کے کاروبار میں مذہب کو دخل نہیں دینا چاہیے،اگر مسائل کی بات پر عمل کیا جائے تو تمام راجاؤں اوران کی رعایا کا کہاں ٹھکانہ ہوگا شاہی نوکریاں لوگوں کو ان کی صلاحیت وقابلیت ہی کے لحاظ سے ملنی چاہئے‘‘۔(۵۶) یہ تھا شہنشاہ اورنگ زیب کا طرز عمل جس پر ہندو دشمنی کا الزام لگایا جاتا ہے۔

درسگاہوں کا بند کرنا

            شاہ جہاں کے عہد میں ہندو مسلمانوں پر جبر کرنے لگے تھے، دارا شکوہ کے طرز عمل نے مزید بے باکی دے دی،وہ اپنے پاٹ شالوں میں مسلمان بچوں کو اپنے مذہبی علوم سکھانے لگے، ایسی ترغیب دینے لگے کہ مسلمان ان کے پاٹ شالوں میں آنے لگے عالم گیرؒ نے ان ہی مدرسوں کو بند کرایا،ماٰثرعالم گیری میں ہے :

             ’’بادشاہ پناہ کو معلوم ہوا کہ ٹھٹھ وملتان میں بالعموم او رخاص کر بنارس میں برہمنوں نے مدارس قائم کیے ہیں اور کتب باطلہ کی درس وتدریس میں مشغول ہیں ، قبلہ عالم نے صوبہ جات کے نظماء کے نام فرامین جاری کر کے ان مدارس کو مسمار کرنے کا حکم دیا کہ ان کے علوم وفنون کی درس وتدریس کی تاکید کے ساتھ ممانعت کی جائے ‘‘۔(۵۷)

            اس سے معلوم ہوا کہ انہدام کی اصل وجہ کیا تھی۔درحقیقت ہندوؤں کی علمی وتعلیمی ترقی میں صرف اورنگ زیب ؒہی نے نہیں بلکہ دوسرے مسلم حکمرانوں نے بے پناہ کوششیں کی ہیں ۔(۵۸)

مرہٹوں کو کچلنے کا الزام

            عالمگیر ؒپر ایک الزام یہ بھی لگایا جاتا ہے کہ اس نے مرہٹوں (۵۹) کے ٹھکانوں کو اجاڑ کر شیواجی کے لڑکے سمبھا اور اس کے برہمن وزیر کو قتل کر کے اولاد کو قید خانہ میں ڈال کر بری طرح کچلا۔اس کی تردید کرتے ہوئے قاضی شوکت فہمی لکھتے ہیں کہ

            ’’ ذرا سوچئے !او رغور کرنے کی بات ہے کہ کیا موجودہ زمانہ کی کوئی مہذب سے مہذب حکومت بھی اس قسم کے باغیوں کو برداشت کر سکتی ہے۔اورنگ زیب ؒنے تو پھر شیواجی کی اولاد کے ساتھ رحم ومروت، پوتے کو منصب و جاگیر، خاندان کے بچوں کے وظیفہ جاری کرکے اچھا برتاؤکیا،لیکن انھوں نے پھر بھی بغاوتیں کیں ، ان کے جواب میں اگر ان کے ساتھ سختی کی جاتی ہے تو اس خالص سیاسی معاملہ کو مذہب کا رنگ دینا کہاں کا انصاف ہے ‘‘۔(۶۰)

جنگ براداران

            عالم گیر ؒکے فردجرم کا ایک اہم حصہ یہ ہے کہ اس کا دامن بھائیوں کے خون کے چھینٹوں سے داغ دار ہے۔

            شاہ جہاں کی بیماری، داراشکوہ کی بادشاہ کی خبروں پر نگرانی، بنگال، گجرات اور دکن کے راستوں کا بند کرنا، بھائیوں کے وکلاء کی گرفتاری ‘عیسی بیگ کے گھر کا ضبط کرنا،بغیر اس کے کہ کسی شہزادہ کی طرف سے پیش قدمی ہو، مراد، عالمگیر اور شجاع کے مقابلہ کے لیے فوجیں روانہ کرنا،یہ وہ واقعات ہیں کہ جنھوں نے جنگ کی راہ ہموار کی اور داراشکوہ کی روباہ مزاجی نے اس کے خود ساختہ تصوف وتقوی ٰ کے خاتمہ کر دینے پر مجبور کیا۔(۶۱)

            مراد اگر چہ دلیر،بہادر تھا؛لیکن ساتھ ہی سادہ لوح آسانی کے ساتھ دام میں آنے والا تھا۔ جب متحدہ طور پر داراشکوہ پر فتح حاصل ہوئی تو تن تنہا مالک بننے پر لوگوں نے بہکایا، اس لیے عالمگیر سے علیحدہ ہو کر عالم گیر ؒکے امراء کو بھاری تنخواہ پر توڑنے لگا۔مجبوراً عالمگیر کو اس کا بند وبست کرنا پڑا۔ (۶۲) اور شجاع کی غداری کے سبب حملہ کیا گیا جس سے وہ فرار ہو گیا(۶۳)  بہ قول علامہ سید سلیمانؒ:

            ’’یہ قطعی امر ہے کہ داراشکوہ جب تک زندہ رہتا، سازشیں برپا رہتیں ، ملک کو امن وامان نصیب نہ ہوتا، اس لیے عالمگیر کو بھی وہی کرنا پڑا جوخود اس کے باپ شاہ جہاں سے اس کو ترکہ میں ملا تھا شاہ جہاں نے بھائیوں اور بھتیجوں کو قتل کروایا تھا عالمگیر کوبھی اس قسم کی بھینٹ چڑھانے کا حق تھا‘‘۔(۶۴)

شبہ کا ازالہ

            اعتراض کیا جاتا ہے کہ ان کو کسی محفوظ مقام پر بند کر دیا جاتا، عالمگیر ؒان کے خون سے اپنے ہاتھ رنگین نہ کرتا، جواب یہ ہے کہ تیموری سلاطین بلکہ تمام ایشیائی سلطنتوں میں مدعیان سلطنت قید وبند ہوکر بھی اپنے منصوبوں سے دست بردار نہیں ہوتے بلکہ ان کے حامیان کا گروہ اس وقت تک موجود رہتا ہے جب تک نخل آرزو کے تمام رگ وریشے نہ کٹ جائیں ۔(۶۵)

شاہ جہاں کی معزولی ونظر بندی

            عالمگیر پر الزام لگایا جاتا ہے کہ شاہ جہاں کا مد مقابل نہیں بلکہ داراشکوہ کا تھا پھر اس نے اقتدار پانے کے بعد شاہجہاں کو تخت پر متمکن کیوں نہیں کیا ؟بلکہ معزول رکھا۔

            اس کا جواب یہ ہے کہ شاہجہاں کو اقتدار سونپنے کا ارادہ ہی تھا؛ اسی لیے آگرہ گیا تھا؛ مگر وہاں پہنچ کر دیکھا کہ شاہجہاں خود اس کی جان کا گاہک ہے اور اس کے خون کا پیاسا ہے(۶۶)  تو اس نے واپس آکر خودمختاری کا اعلان کیا۔

            عام طور پر یہی مشہور ہے کہ شاہ جہاں کو عالمگیر ؒ نے معزول کرکے قلعہ میں محبوس کر دیا حالانکہ حقیقت اس کے برعکس ہے اور قصور وار دارا ہے۔وکلاء کو بند کرنا، خبروں کو روک لینا، معزول کردینے کے مترادف ہے، علاوہ ازیں شاہ جہاں کے لیے آگرہ کی ہواغیر مناسب ہونے کی وجہ سے اطباء نے دہلی جانے کا مشورہ دیا؛ لیکن چونکہ یہ حکم دارا کی مصلحت کے مخالف تھا؛ اس لیے اس پر عمل اور شاہ جہاں کی خواہش کو پوری نہ ہونے دیا۔اپنی مرضی کے مطابق فرامین مرتب کرنا یہ وہ امور ہیں کہ جن سے پتہ چلتا ہے کہ شاہ جہاں معزول کر دئیے گئے؛ اس لیے اس کی رہائی کے لیے تینوں نے کمر کس لی اور جنگ برادران پیش آئی اور حالات کے مطابق اورنگ زیب ؒنے تخت سنبھالا۔

جامع مسجد کا انہدام

            اسی طرح گولکنڈہ کے حاکم تانا شاہ کے محصول کی عدم ادائیگی مزید اس رقم کو دفن کرکے اس پرجامع مسجد کی تعمیر ہوئی اطلاع یابی کے بعد اس مسجد کے انہدام اور مدفون کو ضبط کرکے رفاہ عام میں خرچ کرنے کا حکم دیا۔(۶۷)

            یہ اور ان جیسے اور الزامات جنہیں متعصب مؤرخین نے مسلمانوں کے خلاف محاذ قائم کر نے، ہندو مسلم میں منافرت پیدا کرنے کے لیے غلط کاری، فریب بازی اور دانستہ تحریف کی وجہ سے جنم دیا ان کی تردید، حالات، واقعات اور اصل حقائق کو سامنے رکھ کرکی جا سکتی ہے اور  اصل تصویر تک پہنچا جا سکتا ہے۔

وفات وتدفین

            آہ !ہندو ستان میں اسلامی سلطنت کا عظیم حکمراں ،۵۱؍ سالہ جہاں بانی وجہاں رانی کے نقوش ثبت کرنے وا لا عظیم مرد مجاہد، ہندوستان کے متفرق اجزاء کو جوڑ کر اس کی زلفوں کو سنوار نے والا بادشاہ اسلامی احکام وتعلیمات کے اجراء کے کوشاں ، شریعت اسلامی کے پاسباں نے ۲۸؍ذی قعدہ ۱۱۱۸ھ مطابق ۱۷۰۷ء بروز جمعہ فجر کی نماز ادا کی، کلمۂ توحید کے ورد میں مشغول ہو گئے کچھ ہی حصہ گزرا تھا کہ روح قفس عنصری سے عالم بقاء کی طرف ۹۱؍ سال کی عمر میں پر واز کر گئی۔ رحمہ اللّٰہ تعالی رحمۃ واسعۃ۔

            قصبہ جلال آباد ضلع اورنگ آباد احاطہ درگاہ حضرت زین العابدین قدس سرہ میں مدفون ہوئے۔(۶۸)

حرف آخر

            یہ ہے ’’حضرت اورنگ زیب عالم گیر ؒحیات وکارنامے اور الزام تراشی کی تردید‘‘ کی ایک جھلک اور نمونہ اگر تفصیل سے گفتگو کی جائے  تو کئی ضخیم جلدیں تیار ہو سکتی ہیں ۔

ع         سفینہ چاہیے اس بحرِ بیکراں کے لیے

            حقیقت یہ ہے کہ اورنگ زیب ؒ نے غیر معمولی صلاحیت، کمالات وخصوصیات اور پوری توانائی کے ساتھ نصف صدی تک انتہائی وقار ودبدبہ کے عالم میں ، بیدار مغزی، فرض شناسی اور جز وکل پر واقفیت کی وجہ سے بلاامتیاز مذہب وملت ظلم و جبر کا مقابلہ، سر کشوں وباغیوں کی سرکوبی کرتے ہوئے اپنی رعایا کو عیش وآرام پہنچایا۔دینی ‘علمی ‘رفاہی وسیاسی طور پر ملک کی خدمت کرتے رہے۔حق وانصاف کی مدد کی، نادر روزگار علم وفن کے شاہ کار پیش کیے اور حوصلہ وہمت، جواں مردی وبہادری کے ساتھ زوال وانحطاط کی تمام طاقتوں کو روک کر کھڑے رہے، مگر یہ اس کی بد قسمتی کہیے کہ اس نے ایسے نااہل جانشیں چھوڑے جس سے مغل سلطنت کا چراغ ڈوبتا ہی چلا گیا۔اور ۱۸۵۷ء میں بہادر شاہ ظفرکے بعد ہمیشہ ہمیشہ کے لیے خاتمہ ہو گیا۔اگر ایک بھی جوہر قابل نکلتا تومغل خاندان کی عمر اور ہندوستان میں اسلامی حکومت مزید بڑھ جاتی۔

٭        ٭        ٭

حواشی

(۳۷)     ہندوستان سے محبت وشیفتگی کے جذبات ص/۱۷۲۔

(۳۸)    مختصر تاریخ ہند از ابوظفر ندوی ص/۱۶۴۔

(۳۹)     ہندوستان سلاطین کے عہد میں صفحہ : ۲۹۰۔

(۴۰)      ہفت روزہ نئی دنیا خصوصی شمارہ دسمبر ۲۰۱۱ء صفحہ ۱۹‘مغل بادشاہوں کے عہد میں ۔صفحہ: ۱۷۱۔

(۴۱)     ترطیب الافواہ بذکرمن یظلہم اللّٰہ صفحہ: ۲۱۹۔                                (۴۲)    المسلمون فی الہند صفحہ ۵۱۔

 (۴۳)    ترطیب الافواہ بذکرمن یظلہم اللہ ص/۲۱۹                                  (۴۴)    ترطیب الافواہ بذکرمن یظلہم اللہ صفحہ ۲۱۹۔

(۴۵)     ہندوستان کے عہد ماضی میں مسلم حکمرانوں کی مذہبی رواداری جلد /۳صفحہ ۳۳۔

(۴۶)     ہندوستان پر مغلیہ حکومت صفحہ ۲۹۰۔                                       (۴۷)  علمائے ہند کا شاندار ماضی جلد /۱صفحہ ۲۹۵۔

(۴۸)     ہندوستان میں مغلیہ حکومت ص/ ۲۰۔

(۴۹)     ہندوستان میں قومی یکجہتی کی روایات صفحہ ۴۹بحوالہ روزنامہ الجمعیۃ قومی اتحاد نمبر صفحہ ۶۰۔

(۵۰)    ملاحظہ ہو :فرامین سلاطین صفحہ ۵۹،ہندومندراور اورنگ زیب کے فرامین صفحہ ۱۴۔

(۵۱)     ہندومندر۔صفحہ ۱۵۔                                                           (۵۲)     ایضاً صفحہ۲۲۔

(۵۳)    تفصیلات کے لیے ملاحظہ ہو:اسلام اور ہندوستانی ثقافت صفحہ ۲۳تا ۲۵،تاریخ ہند عہد وسطی میں صفحہ ۲۰۷تا ۲۷۹، ماہنامہ دارالعلوم دیوبند ذی الحجہ   ۲۹ھ۔

(۵۴)    اورنگ زیب عالم گیر پر ایک نظر صفحہ ۵۹۔

(۵۵)    سلاطین ہند جلد /۲صفحہ ۱۱۹، ہند عہد اورنگزیب میں صفحہ ۴۸۔         (۵۶)    بحوالہ روشن مستقبل صفحہ ۴۵۔

(۵۷)    تفصیلات کے لیے ملاحظہ ہو:عالمگیر صفحہ ۳۱، مذہبی رواداری صفحہ ۱۲۳تا ۱۳۳جلد /۳۔

(۵۸)    روشن مستقبل صفحہ ۵۳۔                                                       (۵۹)     مآثر عالمگیری ص/۶۹۔

(۶۰)     ملاحظہ ہو:ہندوؤں کی علمی وتعلیمی ترقی میں مسلمان حکمرانوں کی کوشش از علامہ سید سلیمان ندوی۔

(۶۱)     تفصیلی حالات کے لیے ملاحظہ ہو:مفتاح التاریخ جلد /۲صفحہ ۲تا ۱۵۔

 (۶۲)     ہندوستا ن پرمغلیہ حکومت ص /۲۹۲۔                                      (۶۳)    علمائے ہند کا شاندار ماضی جلد /۱صفحہ ۲۹۶تا ۲۹۷۔

(۶۴)    اورنگ زیب پر ایک نظر صفحہ ۹۵۔                                           (۶۵)     علمائے ہند کا شاندار ماضی صفحہ ۳۰۱جلد /۱۔

(۶۶)     اسے آگرہ پہنچنے کے بعد ملاقات کے لیے جاتے وقت ایک خط ملاجس سے پتہ چلا کہ خواجہ سراؤں ، لونڈیوں وغیرہ کو مسلح کرکے حملہ کرنے کا ارادہ تھا۔ علمائے ہند کا شاندارماضی صفحہ ۳۰۲جلد /۱۔

(۶۷)     ہندو مندر۔صفحہ ۲۳، قوانین عالم میں اسلامی قانون کا امتیاز صفحہ ۳۴۔  (۶۸)    منتخب اللباب جلد /۳ ص/۴۷۱۔

————————————–

دارالعلوم ‏، شمارہ : 9،  جلد:103‏،  محرم الحرام 1441ھ مطابق ستمبر 2019ء

*    *    *

Related Posts