از: مولانا خورشید عالم دائود قاسمی
مون ریز ٹرسٹ اسکول،زامبیا، افریقہ
قرآن کریم کی مختلف آیات کریمہ اور متعدد احادیث شریفہ سے یہ بات واضح طور پر معلوم ہوتی ہے کہ ایک مسلمان کو اللہ تعالی، سیدنا محمد رسول اللہﷺ اور دین اسلام سے بے انتہا محبت کرنی چاہیے۔ در حقیت یہ سب ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں ۔ ایسا نہیں ہے کہ ایک شخص اللہ تعالیٰ سے محبت کرے؛ مگر اس کے پیارے رسول محمدﷺسے محبت نہ کرے یا اس کے بھیجے ہوئے دین اسلام سے محبت نہ کرے،یا اللہ کے رسولﷺسے محبت کرے اور اللہ تعالی اور دین اسلام سے محبت نہ کرے۔حقیقت یہ ہے کہ آپﷺسے محبت کرنا ضروری ہے اور کمال ایمان اسی پر موقوف ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ آپﷺکونبی ورسول ہونے کے ساتھ، اللہ تعالی نے آپﷺ کو ایک ایسا انسان بنایا تھا جوکسی بھی طرح کے نقص سے پاک تھا۔آپ ﷺ کو من جانب اللہ حسن وجمال، لیاقت وکمال اوراحسان ونوال کا اتنا وافر حصہ ملاتھا کہ آپﷺکے علاوہ کسی شخص کو میسر نہیں ہوا۔ آپﷺاس دنیا کے کامل ومکمل انسان اور افضل البشر تھے پھر آدمی آپﷺسے محبت کیوں نہ کرے!
محبت کا مفہوم ومطلب
علامہ نووی (۶۳۱-۶۷۶ھ) فرماتے ہیں : ’’محبت کی اصل یہ ہے کہ (دل)کسی ایسی چیز کی طرف مائل ہوجو مرغوب وپسندیدہ ہو۔ پھر (دل کا) میلان کبھی ایسی چیز کی طرف ہوتا ہے جس میں انسان لذّت محسوس کرتا ہواور اسے حسین سمجھتا ہو، جیسے حسن صورت اور کھانا وغیرہ اور (دل کا) میلان کبھی ایسی چیز کی طرف ہوتا ہے جس کی لذّت باطنی وجوہ کی بنا پر اپنی عقل سے معلوم کرتا ہو، جیسے صلحا، علما اور اہل فضل کی مطلق محبت اور کبھی دل کا میلان کسی کی طرف اس کے احسان اور اس سے کسی تکلیف دہ اور ناپسندیدہ چیزیں دور کرنے کی وجہ سے ہوتا ہے۔‘‘ (المنھاج شرح صحیح مسلم بن الحجاج ۲/۱۴۲)
علامہ عینی (۱۳۶۱-۱۴۵۱ء) فرماتے ہیں : ’’دل کا تعلق اورمیلان کسی چیز کی طرف ہونا، اس تصور سے کہ اس میں کوئی کمال اور خوبی وعمدگی ہے، اس طرح کہ وہ شخص اپنے رجحان اور آرزو وخواہش کا اظہار اس چیز میں کرے جو اس کو اس سے قریب کردے۔‘‘(عمدۃالقاری۱/۱۴۲)
’’الحبّ‘‘ اور ’’المحبّ‘‘یہ دونوں (عربی کے) الفاظ ایسے معنی کو ادا کرتے ہیں جس کا تعلق قلب سے ہے، جو دوسری صفات کے مقابلہ میں اپنے اندر ایک وسیع مفہوم رکھتا ہے اور اپنی تاثیر کے اعتبار سے، سب سے زیادہ عظیم ہے؛ کیوں کہ اس میں دل کا میلان اور محبوب کی طرف کھچاؤ پایا جاتا ہے اور وہ انسان کی طبیعت میں ایسا شعور اور سلوک کا جذبہ پیدا کردیتا ہے کہ کبھی یہ کیفیت ہوجاتی ہے کہ محبت کرنے والا اپنے محبوب کی رضا حاصل کرنے کے لیے اپنا سب کچھ قربان کردیتا ہے؛ بل کہ اپنے محبوب کی محبت میں ، وہ اپنے آپ سے بھی بیگانہ ہوجاتا ہے اور اپنی صفات چھوڑ کر محبوب کی صفات اختیار کرلیتا ہے۔‘‘(محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم ایمان میں سے ہے، ص:۱۰)
قرآن کریم میں آپ ﷺسے محبت کا تذکرہ
ارشاد خداوندی ہے:(ترجمہ) ’’ایمان والوں کے لیے یہ نبی ان کی اپنی جانوں سے بھی زیادہ قریب تر ہیں ۔‘‘(الاحزاب:۶)
مفتی محمد شفیع (۱۸۹۷-۱۹۷۶ء) اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں :’’نبیﷺمومنین کے ساتھ تو ان کے نفس اور ذات سے بھی زیادہ تعلق رکھتے ہیں ؛ کیوں کہ انسان کا نفس تو کبھی اس کو نفع پہونچاتا ہے، کبھی نقصان؛ کیوں کہ اگر نفس اچھا ہے، اچھے کاموں کی طرف چلتا ہے؛ تو نفع ہے اور برے کاموں کی طرف چلنے لگے؛ تو خود اپنا نفس ہی اپنے لیے مصیبت بن جاتا ہے، بخلاف رسول اللہﷺکے کہ آپﷺکی تعلیم نفع ہی نفع اور خیر ہی خیر ہے۔اور اپنا نفس اگر اچھا بھی ہو اور نیکی ہی کی طرف چلتا ہو، پھر بھی اس کا نفع، رسولﷺکے نفع کے برابر نہیں ہوسکتا؛ کیوں کہ اپنے نفس کو تو خیر وشر اور مصلحت ومضرت میں مغالطہ بھی ہوسکتا ہے اور اس کو مصالح ومضار کا پورا علم بھی نہیں ، بخلاف رسول اللہﷺکے کہ آپﷺکی تعلیمات میں کسی مغالطہ کا خطرہ نہیں اور جب نفع رسانی میں رسول اللہﷺہماری جان اور ہمارے نفس سے بھی زیادہ ہیں ؛ تو ان کا حق ہم پر ہماری جان سے زیادہ ہے اور وہ حق یہی ہے کہ آپﷺکی ہر کام میں اطاعت کریں اور آپﷺکی تعظیم وتکریم تمام مخلوقات سے زیادہ کریں ۔‘‘(معارف القرآن:۸۶-۸۵/۷)
ایک دوسری جگہ ارشاد ربانی ہے:(ترجمہ)’’آپ کہہ دیجیے کہ اگر تمہارے باپ اور تمہارے بیٹے اور تمہارے بھائی اور تمہاری بیویاں اور تمہارا کنبہ اور وہ مال جو تم نے کمائے ہیں اور وہ تجارت جس میں نکاسی نہ ہونے کا تم کو اندیشہ ہواور وہ گھر جن کو تم پسند کرتے ہو؛ تم کو اللہ سے اور اس کے رسولﷺ سے اور اس کی راہ میں جہاد کرنے سے زیادہ پیارے ہوں ؛ تو تم منتظر رہو۔یہاں تک کہ اللہ تعالی اپنا حکم (سزائے ترک ہجرت کا) بھیج دیں ۔اور اللہ تعالیٰ بے حکمی کرنے والے لوگوں کو ،ان کے مقصود تک نہیں پہنچاتا۔‘‘(التوبہ:۲۴)
اس آیت کے تحت حضرت مولانا منظور نعمانی (۱۹۰۵-۱۹۹۷ء)رقم طراز ہیں : ’’پس قرآن مجید کی اس پر جلال آیت کا تقاضا اور مطالبہ بھی یہی ہے کہ ایمان والوں کو اپنی تمام قابلِ محبت چیزوں سے زیادہ، اللہ ورسولﷺکی اور اس کے دین کی محبت ہونی چاہیے۔اس کے بغیر اللہ کی رضا اور اس کی خاص ہدایت حاصل نہیں ہوسکتی اور ایمان کامل نہیں ہوسکتا۔‘‘
آپؒ مزید لکھتے ہیں : ’’کھلی ہوئی بات ہے کہ جس کو یہ دولت نصیب ہوجائے، اس کے لیے ایمان کے سارے تقاضوں کا پورا کرنا اور اللہ ورسولﷺکے احکام پرچلنا نہ صرف یہ کہ آسان ہوجاتا ہے؛ بل کہ اس راہ میں جان عزیز تک دے دینے میں بھی وہ ایک لذت محسوس کرے گا اور اس کے برخلاف جس کے دل پر اللہ ورسولﷺکی محبت کا ایسا غلبہ نہ ہوگا، اس کے لیے روزمرہ کے اسلامی فرائض کی ادائیگی اور عام ایمانی مطالبات کی تعمیل بھی سخت گراں اور بڑی کٹھن ہوگی اور جتنا کچھ وہ کرے گا بھی، تو اس کی حیثیت زیادہ سے زیادہ بس قانونی پابندی کی سی ہوگی، پس اسی لیے فرمایا گیا ہے کہ جب تک اللہ ورسولﷺکی محبت دوسری ساری چاہتوں اور محبتوں پر غالب نہ ہوجائے، ایمان کا اصل مقام نصیب نہیں ہوسکتا اور ایمان کی حلاوت حاصل نہیں ہوسکتی۔‘‘(معارف الحدیث۱/۹۳)
آپﷺسے محبت کمال ایمان
حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ اللہ کے رسولﷺنے فرمایا: ’’اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے، تم میں سے کوئی اس وقت تک (کامل) مومن نہیں ہوسکتا، جب تک کہ اس کواپنے والد (ماں اور باپ) اور اپنی اولاد سے زیادہ میں محبوب نہ ہوجاؤں ۔‘‘(صحیح البخاری:۱۴)
حضرت انسؓ فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسولﷺنے ارشاد فرمایا: ’’تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک (کامل) مومن نہیں ہوسکتا، جب تک کہ اس کو اپنے والد (ماں اور باپ)، اپنی اولاد اور تمام لوگوں سے زیادہ میں محبوب نہ ہوجاؤں ۔‘‘(صحیح البخاری:۱۵)
حضرت انسؓ فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسولﷺنے ارشاد فرمایا: ’’تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک (کامل) مومن نہیں ہوسکتا، جب تک کہ اس کو اپنے مال ودولت، اہل وعیال اور تمام لوگوں سے زیادہ میں محبوب نہ ہوجاؤں ۔‘‘(سنن النسائی:۵۰۱۴)
حضرت انسؓ بن مالک بیان کرتے ہیں کہ نبیﷺنے فرمایا: ’’اس شخص نے ایمان کا مزہ چکھ لیا، جس میں تین باتیں ہوں :
(۱) اللہ اور اس رسول کی محبت اس شخص میں تمام ماسوا سے زیادہ ہو،
(۲) یہ کہ کسی شخص سے بھی محبت کرے، توصرف اللہ کے لیے کرے اور
(۳) یہ کفر کی طرف لوٹنے کو ایسا ہی ناپسند کرے جیسا کہ آگ میں ڈالے جانے کو ناپسند کرے۔‘‘(صحیح البخاری:۱۶)
ان آیات واحادیث کا حاصل یہ ہے کہ ایک مومن اپنے اہل وعیال، مال ودولت، خویش اقارب اور دنیا کی دوسری تمام چیزوں سے زیادہ محبت اللہ تعالی، رسول اکرمﷺکی ذات اور دین متین سے کرے۔اگر کسی دوسرے سے محبت کرتا ہو؛ تو وہ محبت بھی اللہ کی خاطر ہو؛جب تک اللہ اور اللہ کے رسولﷺاور دین سے سب سے زیادہ محبت نہیں ہوگی، کوئی بھی شخص کامل مومن نہیں ہوسکتا ہے۔
ان مذکورہ بالا احادیث سے یہ سمجھ میں آتا ہے کہ ’’جب تک نبیﷺسب سے زیادہ محبوب نہ ہوجائیں ، ایمان کامل نہیں ہوسکتا‘‘؛ جب کہ بسا اوقات طبعی طور پر ایک آدمی کا قلبی لگاؤ اور دل کا میلان اپنے والدین، خویش واقارب اور بیوی بچوں کی طرف زیادہ ہوجاتا ہے۔بظاہر اس کا مطلب یہ ہوا کہ کوئی بھی مسلمان ’’کامل مومن‘‘ نہیں ہے؟ محدثین کرام نے اس سوال کا جواب یوں دیا ہے کہ محبت کی تین قسمیں ہیں :
محبت طبعی: یہ غیر اختیاری محبت ہے۔ والدین، خویش واقارب اور بیوی بچوں سے جو محبت ہوتی وہ محبت طبعی یعنی غیر اختیاری ہوتی ہے۔حدیث میں یہ ’’محبت طبعی‘‘ مراد نہیں ہے۔
محبت ایمانی: یہ اختیاری محبت ہے۔ اس کا خلاصہ یہ ہے کہ ایک کام کے کرنے سے طبیعت انکار کرتی ہے؛ مگر ایمان یہ تقاضا کرتا ہے کہ یہ کام شریعت کا حکم ہے؛ اس لیے ہمیں یہ کام کرنا ہے۔
محبت عقلی: یہ بھی اختیاری محبت ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ بسا اوقات طبیعت کا میلان کسی کام یا حکم کی ادائیگی کی طرف نہیں ہوتا ہے؛ مگر عقل رہنمائی کرتی ہے اس حکم کے بجالانے میں ہمارا فائدہ ہے؛ لہٰذا ہم اسے کرتے ہیں ۔ حدیث میں جس محبت کا ذکر ہے، وہ یہی محبت اختیاری یعنی محبت ایمانی اور محبت عقلی کا ذکر ہے؛ چناں چہ ہماری عقل ہمیں اس بات پر آمادہ کرتی ہے کہ ہم آپﷺ سے سب سے زیادہ محبت کریں ؛ کیوں کہ وہ ہمارے اس دنیا کے محسن اکبر ہیں اور آخرت میں شفیع اعظم ہیں ۔ علامہ ابن حجر عسقلانی (۱۳۷۲-۱۴۴۸ء) فرماتے ہیں : ’’والمراد بالمحبۃ ہنا حب الاختیار لا حب الطبع‘‘(فتح الباری۵۹/۱) یعنی حدیث میں جس محبت کا ذکر ہے، اس سے مراد محبت اختیاری ہے نہ کہ محبت طبعی۔
محبت کے اسباب
عام طور سے ایک آدمی کسی سے تین اسباب میں سے کسی ایک یا ایک سے زیادہ کی وجہ سے محبت کرتا ہے۔ وہ اسباب :حسن وجمال، لیاقت وکمال اوراحسان ونوال ہیں ۔ یہ اسباب آپﷺ کی مبارک ذات میں بدرجۂ اتم پائے جاتے ہیں ۔ان اسباب کو ذیل میں بیان کیا جارہا ہے:
حسن وجمال
ایک آدمی کسی سے محبت اس کی ظاہری خوب صورتی وجمال کی وجہ سے کرتا ہے، جیسا کہ زلیخا نے حضرت یوسف علیہ السلام سے حسن وجمال کی وجہہ سے محبت کی۔ نبی اکرمﷺ تو دنیا کے حسین ترین انسان تھے۔آپﷺکے حسن وجمال کی گواہی متعدد صحابۂکرامؓ نے دی ہے۔ ملاحظہ فرمائیے چند احادیث:
حضرت جابرؓ بن سمرہ فرماتے ہیں : ’’ایک چاندنی رات میں ، میں اللہ کے رسولﷺکو دیکھ رہا تھا، پھر میں اللہ کے رسولﷺاور چاند کی طرف دیکھنے لگا؛ جب کہ آپﷺسرخ جوڑے میں ملبوس تھے۔آپﷺمجھے چاند سے زیادہ حسین لگے۔‘‘(سنن الترمذی:۲۸۱۱)
ہندؓ بن ابی ہالہ فرماتے ہیں : ’’اللہ کے رسولﷺاپنی ذات کے اعتبار سے عظیم تھے اور دوسروں کی نظروں میں بھی بڑے رتبہ ومرتبہ والے تھے۔ آپﷺکا چہرہ چودھویں رات کے چاند کی طرح چمکتا تھا۔‘‘(شعب الایمان:۱۳۶۲)
حضرت انسؓ فرماتے ہیں : ’’اللہ کے رسولﷺمیانہ قد تھے: قد کے اعتبار سے نہ لمبے تھے، نہ بونے۔ آپﷺخوب صورت جسم والے تھے۔ آپﷺکے بال نہ بالکل پیچ دار تھے، نہ بالکل سیدھے۔آپ گندمی رنگ کے تھے۔جب آپﷺچلتے تھے؛ توجھک کر چلتے تھے۔‘‘ (شمائل ترمذی: حدیث:۲)
حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں کہ میں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ خوب صورت کوئی چیز نہیں دیکھی، گویا سورج آپﷺکے چہرے میں رواں (چہرہ نہایت ہی منور) تھا۔ (شمائل ترمذی: ۱۱۶)
کمال:کسی سے محبت کا ایک سبب اس کے اندر کا کمال ولیاقت اورخوبی وعمدگی بھی ہوتی ہے، جیسے علم وفضل اور صلاحیت وصالحیت وغیرہ۔ آپﷺمیں سیکڑوں کمالات تھے۔ آپﷺپر نبوت ختم ہوئی اور آپﷺخاتم النّبیین تھے۔ آپﷺنے فرمایا: ’’مجھ پر نبوت ختم ہوئی اور میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔‘‘ (المعجم الأوسط:۳۲۷۴) اللہ تعالی نے آپﷺکو اولین وآخرین کے علم سے نوازا تھا۔ پھر مخلوقات میں جتنے بھی کمالات ہیں وہ سب آپﷺکے ہی واسطے سے ہیں ؛ کیوں کہ آپﷺہی مبلغ اور قاسم ہیں ۔آپﷺنے فرمایا: ’’إنّما أنا قاسم واللّٰہ یعطی‘‘۔(صحیح البخاری:۷۱)
احسان: ایک آدمی کسی کے احسان کی وجہہ سے بھی اس سے محبت کرتا ہے۔صفت احسان بھی نبی اکرمﷺمیں حد درجہ پائی جاتی تھی۔ حدیث میں ہے: ’’اللہ کے رسولﷺلوگوں میں سب سے زیادہ سخی تھے۔ جب رمضان کا مہینہ آتا؛ تو آپﷺجبرئیل علیہ السلام کے ساتھ قرآن کریم کا دور کرتے تھے۔(اور خاص طور پر رمضان میں )آپﷺکی سخاوت ہوا سے بھی زیادہ تیز ہوتی تھی۔‘‘ (مسند امام احمد:۳۴۶۹)
ایک دوسری روایت میں حضرت عبد اللہ بن عباسؓ فرماتے ہیں : ’’جب رمضان کا مہینہ شروع ہوتا؛ تو اللہ کے رسولﷺ ہر قیدی کو رہائی بخشتے اور ہر سائل کی مراد پوری فرماتے۔‘‘ (مشکاۃ:۱۹۶۶)
علامہ نووی (۶۳۱-۶۷۶ھ) محبت کے وجوہ واسباب بیان کرنے کے بعد فرماتے ہیں : ’’یہ سارے اسباب نبیﷺکی ذات میں موجود ہیں ؛ کیوں کہ آپﷺجمال ظاہری وباطنی، کمال اور ہر طرح کے فضائل کو جامع ہیں اور آپﷺنے خاص طورسے مسلمانوں کو صراط مستقیم، دائمی نعمت اور جہنم سے دور رہنے کی ہدایت کرکے احسان فرمایا ہے۔ (المنھاج شرح صحیح مسلم بن الحجاج:۱۴/۲)
آپﷺسے محبت کا تقاضا
صرف زبان سے یہ کہہ دینا کہ ہم اللہ تعالی اور نبی اکرمﷺسے دل وجان سے محبت کرتے ہیں ، کافی نہیں ہے؛ بل کہ آپﷺسے محبت کا تقاضا یہ ہے کہ ہم ان احکام خداوندی کو بجا لائیں جن کا اللہ تعالی نے حکم دیا اور ان چیزوں سے رک جائیں جن سے ذات باری تعالی نے منع فرمایا ہے۔قرآن کریم کی ہدایات کو اپنے سینے سے لگائیں ۔ ہم رسول اکرمﷺکی سنتوں پر عمل کریں ۔ آپﷺکی زندگی کو ہم اپنے لیے نمونہ بنالیں اور اسی کے مطابق ہر کام انجام دیں ۔آپﷺ کے شمائل وسیرت کا مطالعہ کریں ۔آپﷺکا خوب ذکر کریں ۔ آپﷺپر درود وسلام کا نذرانہ پیش کریں ۔مختصر یہ کہ ایک مسلمان آپﷺکے اتباع میں ہی اپنی کام یابی سمجھے۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے: (ترجمہ) ’’آپ فرمادیجیے کہ اگر تم اللہ سے محبت رکھتے ہو؛ تو تم لوگ میرا اتباع کرو، اللہ تعالی تم سے محبت کرنے لگیں گے اور تمہارے سب گناہوں کو معاف کردیں گے اور اللہ تعالی بڑے معاف کرنے والے، بڑے عنایت فرمانے والے ہیں ۔‘‘(سورہ آل عمران:۳۱)
حرف آخر
ہر مسلمان کی یہ دلی تمنا ہوتی ہے کہ اس کا ایمان پر خاتمہ ہو اور اس دار فانی سے رخصت ہوجانے کے بعد، جب دار جاودانی میں پہنچے؛ تو وہاں اس کا حشر انبیاء ورسل، صحابہ وتابعین ، شہداؤصدیقین اور اولیاء واتقیا کے ساتھ ہو۔ ایسے حشر کے لیے ضروری ہے کہ ہم ان حضرات سے محبت کریں ، ہم ان کو دل وجان سے چاہیں اور ہم ان کی ہدایات کے مطابق عمل کریں ۔ پھر ہمارا حشر ان حضرات کے ساتھ ہوگا۔ صادق ومصدوق رسول اکرمﷺکی حدیث ہے: ’’المرء مع من أحبَّ‘‘(صحیح البخاری:۶۱۶۸) یعنی انسان کا حشر اس شخص کے ساتھ ہوگا جس سے وہ محبت کرتا ہے۔ یہ حدیث بھی ہمیں رہنمائی کررہی ہے کہ اگر ہم اپنا حشر نبی اکرمﷺکے ساتھ چاہتے ہیں ؛ تو دل وجان سے آپﷺسے محبت کریں ۔
—————————————–
دارالعلوم ، شمارہ : 7، جلد:103، ذی القعدہ 1440ھ مطابق جولائی 2019ء
٭ ٭ ٭