از: مولانا اشتیاق احمد قاسمی
مدرس دارالعلوم دیوبند
دارالعلوم دیوبند ملت اسلامیہ کا سرمایۂ افتخار ہے، اس کے بنیادی مقاصد میں روح اسلامی کی آبیاری اور علوم شرعیہ کی حفاظت واشاعت ہے، مغلیہ دور حکومت میں مدرسہ اور اسکول کا کوئی فرق نہیں تھا، سارے علوم وفنون ایک ساتھ پڑھائے جاتے تھے، نصاب میں صرف، نحو، بلاغت، فقہ، اصول فقہ، حدیث، اصولِ حدیث، تفسیر، اصول تفسیر، منطق، فلسفہ (سائنس)، کلام (عقائد)، ہیئت، حساب، اُقلیدس (جیومیٹری)، طب، ادب، انشاء، اخلاق اور مناظرہ وغیرہ سارے علوم وفنون داخلِ نصاب تھے، اس وقت کی سرکاری اور دفتری زبان فارسی تھی سارے فنون اسی زبان میں پڑھائے جاتے تھے، فارسی زبان وادب کی تقریباً تیس (۳۰) کتابیں نصاب میں داخل تھیں۔
جب مغلیہ حکومت کی گرفت کمزور ہونے لگی تو انگریزوں نے ایک نئی بحث شروع کی کہ سارے علوم وفنون کو فارسی کی بجائے انگریزی زبان میں پڑھایا جائے، اس کی مخالفت ہوتی رہی؛ مگر ۱۸۳۵ء میں لارڈ میکالے نے انگریزی زبان کی حمایت کی اور بڑی شدت سے اس پر عمل آوری شروع ہوئی، اب فارسی دھیرے دھیرے رخصت ہونے لگی، انگریزی حکومت نے اگلا اقدام یہ کیا کہ نصاب سے اسلامی علوم کی کتابوں کو گھٹانے لگی، اس کے بعد اسلامیات کے نام کا صرف ایک شعبہ رکھا گیا۔
حضرت مولانامملوک العلی نانوتوی، حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی، حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی، حضرت مولانا ذوالفقار علی دیوبندی، حضرت مولانا فضل الرحمن عثمانی، حضرت حاجی محمدعابد دیوبندی اور دیگر ہم عصر علمائے کرام ان حالات کا مشاہدہ کررہے تھے، جب مدرسہ غازی الدین کشمیری گیٹ دہلی کو قدیم دلّی کالج میں تبدیل کیاگیا تو یہ حضرات اکابر بہت بے چین ہوئے، دارالعلوم دیوبند کی بنیاد کا محرک یہی حالات تھے، حضرت نانوتوی علیہ الرحمہ نے علوم اسلامی کی حفاظت کے لیے چھ سالہ نصاب مرتب فرمایا، دارالعلوم دیوبند کا اولین نصاب (۱۲۸۳ھ) وہی تھا، اس نصاب کی بنیادملا نظام الدین سہالوی (۱۰۸۵-۱۱۴۱ء) کا تیار کردہ نصاب تھی، جو انھوں نے فرنگی محل لکھنؤ کے لیے قدیم نصاب میں حذف و اضافہ کے بعد تیار کیاتھا، اس میں منطق وفلسفہ کی کتابیں بہت زیادہ تھیں، حضرت نانوتویؒ نے منطق وفلسفہ کی غیرضروری کتابوں کو حذف کرکے حدیث شریف کی نو کتابوں کا اضافہ فرمایا، ولی اللّٰہی علوم وافکار کاآمیزہ بھی شامل کیاگیا، یہ نصاب چھ سالہ تھا، حضرت نانوتوی نے اتنا مختصر نصاب؛ اس لیے تیار کیا تھا کہ طلبہ، کالج اوریونیورسٹی سے پڑھ کر اس نصاب کو بہ آسانی پڑھ سکیں، یا اس نصاب کو مکمل کرکے علومِ دانش مندی میں کمال حاصل کرکے کالج، یونیورسٹی میںجاکر جدید علوم حاصل کرسکیں۔ ۱۲۹۰ھ میں چھ سالہ نصاب کو آٹھ سالہ کیاگیا، پھر بارہ سال کے بعد ۱۳۰۲ھ میں نصاب میں مزید اضافہ ہوا، فارسی اور ریاضی کی کتابیں بڑھائی گئیں۔
مغلیہ دور میں فارسی کا جو نصاب چل رہا تھا، اسی نصاب کی منتخب کتابوں کے ذریعہ پانچ سالہ نصاب بنایا گیا، اس میں دسویں جماعت تک پڑھائی جانے والی کتابیں داخل کی گئیں، حضرت حکیم الاسلام قاری محمد طیبؒ اور ان کے رفقانے اسی نصاب کو پڑھاتھا، پھر کافی دنوں کے بعد جب فارسی کا رواج کم ہوگیا تو اس نصاب میں تخفیف کی گئی، بالکل ختم نہ کیاگیا، اس کی وجہ یہ تھی اور ہے کہ آج بھی علوم اسلامیہ کا ذخیرہ بڑی مقدار میں فارسی زبان میں موجود ہے، بہت سی کتابوں کی شرحیں فارسی زبان میں ہیں، بہت سی کتابوں کے حواشی فارسی میں ہیں، پہلے کی لکھی ہوئی کتابوں کے بین السطور فارسی زبان میں ہیں، عربی حواشی کے ساتھ ہی فارسی حواشی ملے جلے ملتے ہیں۔
ان سب کے ساتھ اردو زبان کی اصل ماں چوںکہ فارسی زبان ہے؛ اس لیے بھی فارسی زبان کا جاننا ضروری ہے، اردو کی حفاظت کے لیے بڑی حد تک فارسی کی حفاظت ضروری ہے۔ ان ساری وجوہات کی بنا پر دارالعلوم دیوبند نے فارسی زبان وادب کو اپنے نصاب کا جزء بنایا ہے۔
دارالعلوم دیوبند نے ابتدائی دینیات اور فارسی کو ضم کرکے پانچ سالہ نصاب بنایا ہے۔ اس میں نورانی قاعدہ، ابتدائی حروف شناسی، بنیادی عقائد، کلمہ، نماز، گنتی، ناظرئہ قرآن مجید کے ساتھ ہی ہندی اور انگریزی زبان کی تعلیم بھی دی جاتی ہے، فارسی زبان، اردو زبان کے اصول وقواعد کے ساتھ سائنس کی کتابیں بھی پڑھائی جاتی ہیں۔
معلوماتِ عامہ اور تاریخِ اکابر دیوبند بھی ان کے نصاب کا حصہ ہے۔ یہ سب مضامین ابتدائی تین سالوں میں پڑھائے جاتے ہیں۔ ۲۰-۲۱؍محرم الحرام ۱۴۱۵ھ میں ’’رابطہ مدارس کے اجلاس کے موقع سے نصاب کمیٹی نے جو ترمیم وتوثیق کی ہے، اسی کے مطابق آج تک نصاب پڑھایا جارہا ہے، فارسی زبان کے لیے چہارم اور پنجم کا سال مختص ہے، ان دو سالوں میں فارسی کی نو کتابیں پڑھائی جاتی ہیں۔
(۱) تیسیرالمبتدی: فارسی کے لیے سب سے پہلے یہ کتاب پڑھائی جاتی ہے، اس کا موضوع فارسی کے قواعد ہیں، ساری اصطلاحات کو اردو زبان میں نہایت آسان انداز میں لکھاگیا ہے، طلبہ کو وہ سب زبانی یاد کرائے جاتے ہیں، جب وہ قواعد مثالوں کے ساتھ طلبہ کی گرفت میں آجاتے ہیں، تو کتاب میں دیے گئے مصادر لے کر ان کااجرا کرایا جاتا ہے، جہاں گردان کی ضرورت ہے وہاں گردان کرائی جاتی ہے اور صَرفِ کبیر پر زیادہ زور دیا جاتا ہے، اسی کے ساتھ فارسی کی پہلی سے اجرائے قواعد میں مدد لی جاتی ہے، مرکبات کی شناخت کرائی جاتی ہے، مرکبِ تام اور مرکبِ ناقص کی مثالیں طلبہ سے تلاشوائی جاتی ہیں۔
(۲) آمدنامہ: تیسیرالمبتدی کے ساتھ دوسرے گھنٹے میں آمدنامہ بھی پڑھائی جاتی ہے، اس میں صَرفِ صغیر پر زیادہ زور دیا جاتا ہے، حاصلِ مصدر اور مصدر کا فرق ڈھیرساری موجود مثالوں سے سمجھایا اور یاد کرایاجاتا ہے، مضارع کے بنانے کا چوںکہ کوئی منضبط قاعدہ نہیں ہے؛ اس لیے مصدر کے ساتھ اس کو اچھی طرح یاد کرادیا جاتا ہے، اسم فاعل سماعی اور اسم فاعل قیاسی پر استاذ صاحب خوب دھیان رکھتے ہیں۔
(۳) ’’فارسی کی پہلی کتاب‘‘: مذکورہ بالا دونوں کتابوں کے ختم کرنے کے بعد طالب علم کو باضابطہ طور پر ’’فارسی کی پہلی‘‘ شروع کرادی جاتی ہے، اس میں مفردات کے معانی یاد کرانے پر خصوصی توجہ ہوتی ہے، مقصد یہ ہوتا ہے کہ طالب علم کے پاس الفاظ کا اتنا ذخیرہ ہوجائے جس کی مدد سے وہ فارسی زبان میں اپنی ضرورت کی چیز لکھ اور بول سکے۔ ترجمے کے ساتھ ترکیبِ نحوی بھی کرائی جاتی ہے۔
(۴) ’’رہبرِ فارسی‘‘: فارسی کی پہلی کے ساتھ قواعد کی کتاب رہبرِ فارسی بھی پڑھائی جاتی ہے، اس کا معیار ’’تیسیرالمبتدی‘‘ سے قدرے بلند ہے، اس میں بھی قواعدزبانی یاد کرائے جاتے ہیں، اسی کے ساتھ قواعد کا اجرا بھی کرایا جاتا ہے؛ کیوںکہ محض زبانی رٹوانامفید نہیں ہوتا۔
(۵) ’’گلزار دبستان‘‘: مذکورہ بالا چار کتابوں کے بعد ریڈر کے طور پر گلزار دبستان پڑھائی جاتی ہے۔ یہ نہایت آسان فارسی نثر ہے، دلچسپ حکایات، محاورات اور لطائف کے آمیزہ کی وجہ سے بچے اسے خوشی خوشی پڑھتے ہیں، اس کے ختم کرنے کے بعد وہ آسان فارسی نثر کے پڑھنے اور سمجھنے پر قادر ہوجاتے ہیں، اب یہ اس قابل بھی ہوجاتے ہیں کہ ان کو فارسی نظم پڑھائی جائے۔
(۶) ’’کریما‘‘: یہ شیخ سعدیؒ کی فارسی نظم ہے، انداز بیان نہایت عمدہ، شستہ اور شگفتہ ہے، اخلاقی مضامین والے شعری ادب میں اس کے مقام سے اہلِ علم واقف ہیں۔
(۷) ’’پند نامہ‘‘: یہ دارالعلوم دیوبند کے موجودہ نصاب میں داخل نہیں ہے؛ لیکن طلبۂ کرام اپنی دلچسپی سے اس کو خصوصی طور پر اساتذہ سے پڑھتے ہیں، اس کا موضوع تجرباتِ زندگی سے سبق لینا ہے، شعری ادب میں فریدالدین عطارؒ کی یہ کتاب اپنی مثال آپ ہے۔ اس کے پڑھنے کے بعد گلستاں پڑھنے کی استعداد پیدا ہوجاتی ہے۔
(۸) ’’فارسی کا معلم‘‘: یہ بھی فارسی زبان کے قواعد پر مشتمل ہے،اس کا معیار ’’رہبر فارسی‘‘ سے بھی بلند ہے، دونوں کتابوں کے پڑھنے کے بعد طلبہ قواعد سے اس قدر مانوس ہوچکے ہوتے ہیں کہ اس کا پڑھنا، یاد کرنا اوراجرا کرنا طلبہ کے لیے پچھلی محنتوں کی وجہ سے آسان رہتا ہے۔ یہ ’’فارسی پنجم‘‘ کے نصاب کا جزء ہے۔
(۹) ’’گلستانِ سعدی‘‘: حکائی ادب کی معروف ومشہور کتاب ہے، ہے مشکل؛ مگر پچھلے مراحل طے کرنے کے بعد اس کے پڑھنے کی استعداد طلبہ میں پیدا ہوجاتی ہے اس کا خاص موضوع ’’اصلاحِ اخلاق‘‘ اور تجرباتِ زندگی بیان کرنا ہے، حکائی انداز میں ایک بات پہلے نثر میں بیان کرتے ہیں پھر اسی کو شعر میں بڑے پر لطف انداز میں موزوں کردیتے ہیں، اعجاز بیانی کا یہ عالم ہے کہ ان کی نقل میں بہت سے لوگوں نے کتابیں لکھیں؛ مگر کوئی کتاب اس کی ہمسری نہ کرسکی ’’کلاسیکی ادب‘‘ کے اعلیٰ ترین نمونے اس میں موجود ہیں۔
(۱۰) ’’بوستانِ سعدی‘‘: مدارسِ اسلامیہ میں داخل فارسی کتابوں میں سب سے بڑی اور اہم کتاب ’’بوستاں‘‘ ہے، یہ خالص شعری ادب پرمشتمل ہے۔صنفی لحاظ سے ’’مثنوی‘‘ ہے۔ حکایتوں اور نصیحتوں پر مشتمل ہے، اردو ادبیات میںاس کے اشعار خوب ملتے ہیں۔ دس ابواب پر مشتمل ہے، شیخ شرف الدین مصلح الدین بن عبداللہ سعدی شیرازی نے تجربات کی باتیں حکایات کے پردے میں بیان کی ہیں، اخلاقی، سماجی اور تربیتِ انسانی کے بہترین نکات سے لبریز ہے۔
فارسی زبان پڑھانے کا مقصد
دارالعلوم دیوبند کا مقصد چوںکہ علوم اسلامی کی حفاظت ہے؛ اس لیے اس نے اس ضمن میں ان سارے علوم کو اپنے نصاب کا جزء بنایاہے جو علوم اسلامی کے لیے معاون ہیں، ان میں سے فارسی زبان بھی ہے؛ اس لیے صرف اسی حد تک فارسی پڑھائی جاتی ہے جس سے علوم اسلامی کے ذخیرے سے استفادہ کیا جاسکے، یہی وجہ ہے کہ آج کی جدید فارسی داخلِ نصاب نہیں، قدیم فارسی کے مقابلے میں جدید فارسی میں بہت بڑی تبدیلی آچکی ہے، ایک بار ایران سے ایک بڑے عالم مولانا عبدالقادر عارفی ہندوستان تشریف لائے، ہندوستان کے علماء نے ان سے فارسی زبان میں بات کرنے کا مطالبہ کیا، انھوں نے فرمایا کہ آپ حضرات مکمل طور پر نہیں سمجھ سکتے ہیں؛ اس لیے کہ زبان وادب میں کافی فرق آگیا ہے، اصرار کیاگیاتو واقعتا بہت سی تعبیرات فارسی داں علماء کو سمجھ میں نہ آئیں، انھوں نے مسکراتے ہوئے فرمایاکہ آپ کی طرح ہم بھی ’’گلستاں‘‘ اور ’’بوستاں‘‘ اردو شرح دیکھ کر پڑھاتے ہیں۔
ہمیں قدیم فارسی نہیں آتی ہے۔ غرض یہ کہ دارالعلوم دیوبند نے قدیم علمی ورثہ سے استفادہ کے لیے قدیم فارسی اور اس کے قواعد کو نصاب کا جزء بنایا ہے۔
عربی زبان میں دارالعلوم دیوبند نے کافی ترقی کی ہے؛ جدید عربی اسالیب و تراکیب سے بھی یہاں کے فضلاء خوب واقف ہیں، فارسی کے بالمقابل عربی پر توجہ زیادہ ہے؛ اس لیے کہ یہ قرآن وحدیث کی زبان ہے، براہِ راست علوم اسلامی کے ذخیرے اس میں موجود ہیں، فضلائے دارالعلوم میں قدیم عربی کی استعداد بہت پختہ ہوتی ہیں، ہر فاضل اس پر گرفت رکھتا ہے، قرآن وسنت سے براہِ راست استفادے کی استعداد ہر فاضل میںموجود ہوتی ہے؛ مگر ترقی یافتہ جدید اسالیب وتراکیب سے واقفیت رکھنے والے فضلاء کی تعداد محدود ہے، اس کی وجہ بھی یہی ہے کہ دارالعلوم دیوبند کے پیش نظر دراصل شریعت اسلامیہ کی حفاظت ہے، زبان اس کاذریعہ اور آلہ ہے، اس سے زیادہ کی طرف وہ اَصالتاً متوجہ نہیں ہے۔
ماہانہ امتحان
فارسی زبان کے طلبہ کا ششماہی اور سالانہ کے علاوہ ماہانہ امتحان بھی لیا جاتا ہے، ان کو آموختہ یاد کرانے کا التزام بھی ہے؛ تاکہ ان کی استعداد اچھی رہے، یہی وجہ ہے کہ دوسرے علوم کی طرح فضلائے دارالعلوم میں فارسی کی استعداد بھی دوسرے مدارس کے طلبہ کے مقابلے میں زیادہ ہوتی ہے، یہ سب اللہ تعالیٰ کا فضل اوراس کی رحمت ہے۔
مذاکرے کی وجہ سے ٹیوشن سے بے نیازی
عصری اداروں میں تدریس برائے ملازمت اور حصول تعلیم برائے اسناد ہوتی ہے؛ اس لیے اکثر ضابطے کی تکمیل ہوتی ہے، اساتذہ پڑھانے کے بعد یہ سمجھتے ہیں کہ ہماری ذمہ داری پوری ہوگئی، طلبۂ کرام میں اساتذہ کا احترام اور اتباع برائے نام ہوتا ہے، جب طالب درس گاہ سے سبق پڑھ کر نکلتا ہے تو اس کو سبق یاد کرنے کے لیے ٹیوٹر کے پاس جانا پڑتا ہے، یا ٹیوٹر خود گھر آکر سبق یاد کراتا ہے، ہوم ورک میںمدد کرتا ہے، شبہات کو دور کرتا ہے؛ چنانچہ جس کاٹیوٹر اچھا ہوتا ہے اس کی استعداد اچھی ہوتی ہے، اس کے نمبرات بھی اچھے آتے ہیں اور جس کو یہ سہولت میسر نہیں ہوتی وہ پیچھے رہ جاتا ہے۔ عموماً غریب ونادار گھرانے کے طلبہ اس وجہ سے بھی تعلیم میں ترقی نہیں کرپاتے۔
دارالعلوم دیوبند اوراس نہج پر چلنے والے عام مدارس میں مذاکرے کا ماحول ہوتا ہے، جس سے ٹیوشن سے بے نیازی ہوجاتی ہے، پہلے تو طالب علم استاذ محترم سے کھل کر اپنے شبہات درس گاہ میں ہی دور کرلیتا ہے، پھر عموماً مغرب اور عشاء کے بعد تھوڑے تھوڑے طلبہ کی ٹولی بن جاتی ہے، اس میں ایک طالب علم استاذ محترم کی سمجھائی ہوئی باتوں کو دہراتا ہے، دوسرے طلبہ سنتے ہیں، جس کو جو اعتراض اور شبہ ہو وہ اس کو دور کرتا ہے، جب نہیں حل ہوتا تو نگراں استاذ سے مدد لی جاتی ہے، اس طرح کتاب کے مضمون پر گرفت ہوجاتی ہے۔ بعض مدارس میں اساتذہ صرف دو دو طلبہ کی جوڑی بنادیتے ہیں اور دونوں کے ذمہ باری باری کتابوں کے سمجھانے کی ذمہ داری ہوتی ہے، یہ طریقہ زیادہ مفید ہے؛ اس لیے کہ اس میں گپ شپ کی نوبت کم آتی ہے، سارا وقت کام میںلگتا ہے۔ دارالعلوم دیوبند کے صدرالمدرسین حضرت مفتی سعیداحمد صاحب پالن پوری مدظلہ العالی بھی اسی طریقے کی حمایت کرتے ہیں۔ مدارس میں اس مذاکرے کو ’’تکرار‘‘ بھی کہتے ہیں۔ غرض یہ کہ اس طرز تعلیم کی وجہ سے مدارس کے طلبہ عموماً عصری ادارے کے طلبہ سے استعداد میں فائق ہوتے ہیں، مذاکرہ کے عادی طلبہ کو عموماً مدرسی کے زمانے میں ٹیچرٹریننگ کی ضرورت پیش نہیں آتی۔ وللہ الحمد
———————————–
دارالعلوم ، شمارہ : 2، جلد:103، جمادی الاول – جمادی الثانی 1440 مطابق فروری 2019ء
٭ ٭ ٭