شکیلی فتنے کے خلاف ملکی پیمانے پر کل ہند مجلس تحفظ ختم نبوت دارالعلوم دیوبند کی مساعی جمیلہ

از:    حضرت مولانا قاری محمد عثمان منصور پوری

ناظم کل ہند مجلس تحفظ ختم نبوت واستاذ حدیث دارالعلوم دیوبند

الحمدُ للّٰہ وحدَہ والصلوٰۃ والسلامُ علیٰ مَن لا نبيَّ بعدَہ۔ أمّا بعد!

            شکیل خان ابن حنیف خان صوبۂ بہار میں دربھنگہ شہر سے متصل ایک گائوں عثمان پور، رتن پور کا باشندہ ہے سرکاری ریکارڈ سے اس کی پیدائش ۱۹۶۸ء معلوم ہوتی ہے۔ اس نے پہلے مقامی اسکول اور بعد میں پٹنہ کالج سے تعلیم حاصل کی، اس کے بعد تبلیغی جماعت سے وابستہ ہوگیا۔ پختہ ثبوت وشواہد بتاتے ہیں کہ تبلیغی جماعت سے وابستگی کے دوران ہی اس نے عوامی رابطے مضبوط کیے؛ بلکہ جگہ جگہ اپنے فتنے کی جڑیں مستحکم کرنے میں خاصی کامیابی حاصل کرلی تھی۔

            شکیل خاں کی فتنہ پردازی کی اطلاعات کہیں سے زبانی اور کہیں سے تحریری طور پر تقریباً ۲۰۰۳ء سے مرکزی دفترکل ہند مجلس تحفظ ختم نبوت دارالعلوم دیوبند کو ملنی شروع ہوئی تھیں؛ لیکن اس وقت کی جو بھی اطلاعات تھیں وہ اس عنوان سے ملتی رہیں کہ لکشمی نگر دہلی میں سرگرم یہ شخص شاید قادیانی ہے یا قادیانیوں کا ایجنٹ ہے جو تبلیغی جماعت میںلگا ہوا ہے۔ اطلاع دینے والوں میں سے بڑی تعداد علمائے دہلی اور ائمہ مساجد کی تھی اور کچھ احباب وہ بھی تھے جو تبلیغی جماعت سے منسلک تھے؛ چنانچہ اس سلسلے میں کل ہند مجلس کی ہدایت پر مجلس تحفظ ختم نبوت صوبہ دہلی کے دفتر واقع جمعیۃ علماء ہند دہلی میں مسلسل کئی میٹنگیں بھی بلائی گئیں؛  بعض میٹنگوں کی صدارت امیرالہند حضرت مولانا سیداسعد مدنی نور اللہ مرقدہ نے فرمائی، جس میں شکیل کی ارتدادی سرگرمیوں کے سدباب کی فکر کی گئی؛ لیکن فتنہ چونکہ بالکل ابتدائی مرحلے میں تھا جس کی وجہ سے اس کی سنگینی کا اتنا احساس کسی کو نہیں تھا، جتنااب ہورہا ہے۔

            اُس وقت اس کے ساتھ لگے کچھ لوگ تو وہ تھے جو اس کی خفیہ سازشی تحریک کا حصہ تھے اور کچھ ایسے بھی تھے جو ناواقفیت کے سبب بسااوقات اس کی پردہ پوشی پر اترآتے تھے؛ کیوںکہ خود ان کو بھی اس نے دھوکہ میں مبتلا کررکھا تھا؛ بلکہ اس کے ساتھ شب وروز اٹھنے بیٹھنے والوں کو بھی پتہ نہیں چلتا تھا کہ وہ آگے کیا کرے گا؛ لیکن اس کے فتنہ ہونے کا احساس پڑھے لکھے علماء اور اہل علم طبقہ کو ہوچکا تھا البتہ عموماً اس وقت جو شکایتیں آتی تھیں تو اس زاویہ سے آتی تھیں کہ یہ شاید قادیانی ہوگیاہے یا قادیانیوں کا ایجنٹ ہے۔

            مئی ۲۰۰۳ء میںہی جس رات اس نے جمنا پار لکشمی نگر کی ایک منارہ مسجد میں کھل کر مہدویت کا دعویٰ کیا اورمقامی مسلمانوں نے اس کو دہلی سے نکال کر بہار کے لیے اسٹیشن روانہ کیا؛ اس کے اگلے روز بھی لکشمی نگر کے مسلمانوں نے کل ہند مجلس میںاطلاع دی اور یہ بتایا کہ اس کو بھگادیا گیا ہے؛ لیکن کچھ ہی مہینوں بعد دوبارہ دہلی میں اس کے سکونپ پذیر ہونے کی بھی اطلاع ملی؛ چنانچہ اس سے ملاقات اور تفہیم کے لیے باضابطہ ایک وفد بھی صوبائی مجلس دہلی کی طرف سے بھیجا گیا؛ مگر اس میںکامیابی نہ ملی۔

            تاہم شکیل کی فتنہ پردازی کو دیکھتے ہوئے مسلسل اس علاقہ کی متعدد مساجد میں تحفظ ختم نبوت کے پروگرام ہوئے۔

            مارچ ۲۰۰۴ء میں مدرسہ افضل العلوم آگرہ کے مفتی عبدالستار صاحب نے باضابطہ کل ہند مجلس کو بذریعہ تحریر اطلاع دی کہ شکیل نامی ایک شخص کے متعلق مسلسل اطلاعات مل رہی ہیں کہ اس کے بیانات قادیانیوں سے ملتے جلتے ہیں؛ لیکن وہ تبلیغی جماعت سے وابستہ ہے جس کی وجہ سے کچھ بھی کہنا بڑا مشکل ہورہا ہے۔ اس سلسلے میں کل ہند مجلس سے مفتی صاحب کے مشورہ طلب کرنے پر ہدایت کی گئی کہ تبلیغی جماعت کے مقامی اور مرکزی ذمہ داران کو اس کی اطلاع دی جائے۔

            اس دوران مجلس تحفظ ختم نبوت دہلی سے وابستہ علماء اورائمہ مساجد کی اطلاع اور دعوت پر اس کے ہیڈکواٹر لکشمی نگر کے پاس پڑوس میں، دلشادگارڈن، سیماپوری، شہیدنگر اور خود لکشمی نگر میں بھی ۲۰۰۳ء تا ۲۰۰۶ء مسلسل کئی ایک پروگرام کبھی میٹنگوں کی شکل میں اور کبھی اجلاس عام کی شکل میں ہوئے۔ جس میں راقم سطور (محمد عثمان) نے بھی شرکت کی۔ ان عمومی پروگراموں سے شکیل کا دائرہ کافی حد تک تنگ ہوا اور عام مسلمانوں کو اس کے دام فریب سے بچانے میں مدد ملی اور عوام وخواص نے اس کے خلاف کھل کر رپورٹیں دینی شروع کردیں، ایک دفعہ بذریعہ فون جناب رضوان احمد صاحب آفیسر نیوی ڈپارٹمنٹ دہلی نے بتایا کہ ایک دفعہ ۲۰۰۳ء میں ترلوک پوری علاقہ میں مستورات کی جماعت نکلی جس کے امیر جناب رضوان احمد صاحب خود تھے اس میں نویڈا کے کچھ لوگوں کے ساتھ شکیل خاں بھی مامور کی حیثیت سے تھا۔ اس دوران وہ عجیب عجیب باتیں کرنے کے ساتھ اپنے تقدس وپاکیزگی کو بھی خوب بیان کرتا رہا۔ سائنس سے جنت وجہنم کو ثابت کرتا رہا، اسی وقت اس کے کچھ لوگ گرویدہ نظر آنے لگے تھے۔

            مورخہ ۹؍اگست ۲۰۰۴ء میں سرفراز احمد صاحب، رمیش پارک لکشمی نگر دہلی نے کل ہند مجلس تحفظ ختم نبوت دارالعلوم دیوبند میں تشریف لاکر جو حالات بتائے اس میں یہ بھی بتایاکہ انھوں نے محسوس کیا کہ یہ آدمی انتہائی جذباتی باتیں کرتا پھرتا ہے۔ سائنس اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشینگوئیوں میں تطبیق دیتا اور عموماً ایسی ہی باتیں بیان کرتا رہتا ہے۔ انجینئرشکیل نے جب یہ دعویٰ کیا کہ وہ مہدی وقت ہے، تو بروقت علماء اور تبلیغی جماعت کے احباب نے اس کا گھیرا تنگ کیا۔

            دفتر جمعیۃ علماء دہلی میں بھی مسلسل اس طرح کی خبریں ملتی رہتی تھیں، بروقت اس سلسلہ میں صحیح معلومات حاصل کرنے کے لیے متعدد افراد کو لگایاگیا؛ مگر کوئی خاص کامیابی اس لیے نہیں مل سکی کہ شکیل براہ راست کسی سے ملاقات کے لیے سامنے ہی نہیں آتا۔

            ۲۰۰۶ء میںجب اس کی ایک کتاب منظرعام پر آئی تو اس سے صرف اس کے دعویٰ مہدویت کا ثبوت ملتا تھا۔ اس کتاب میں اس نے ظہور مہدی سے متعلق احادیث شریفہ کا مصداق موجودہ زمانہ کو قرار دیتے ہوئے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ ظہور مہدی کے لیے سرزمین عرب کا ہونا ضروری نہیں؛ بلکہ ہندوستان میں بھی ظہور ہوسکتا ہے اور اس کے لیے جو بھی علامات ظہور مہدی سے متعلق احادیث میں وارد ہیں، ان کا مصداق موجودہ دور میں تلاش کرکے ان کو اپنے اوپر منطبق کرنے کی کوشش کرتا رہا۔ بات اگرچہ طویل ہوتی جارہی ہے؛ لیکن مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس کے چند خیالات ونظریات شرکاء میٹنگ کی معلومات کے لیے مختصراً پیش کردیے جائیں۔

            چنانچہ اپنی کتاب کے ص۴۱ پر مندرج حدیث نمبر ۱۷ سے  ’’یکون اختلاف عند موت خلیفۃ‘‘  میں خلیفہ کی موت سے ۱۹۹۵ء میں حضرت مولانا انعام الحسن صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی وفات کو مراد لیتے ہوئے لکھتا ہے:

            ’’ان کے انتقال کے بعد ہی مرکز میں امیر کو چننے کے بارے میں شدید اختلاف پیداہوگیا بڑی مشکل سے لوگوں نے تبلیغی مرکز دہلی میں ایک امیرمنتخب کرنے کے بجائے مجلس شوریٰ قائم کردی، اس سے ظاہر ہے کہ مہدی علیہ السلام کا اس شہر (دہلی) سے مکہ کی جانب روانہ ہونا بہت ہی قریب ہے۔‘‘

            اسی طرح حدیث شریف میں وارد  ’’فیخرج رجل من أہل المدینۃ ہاربًا‘‘  میں لفظ مدینہ کی تشریح میں لکھتا ہے:

            ’’بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ مدینہ سے مراد مدینۃ الرسول ہے؛ حالانکہ اس حدیث میں ایسی کوئی وضاحت نہیں کی گئی ہے۔۔۔۔ واضح ہو کہ مدینہ کے معنی شہر کے ہوتا ہے قرآن پاک میں بہت سے شہروں کو اللہ پاک نے مدینہ کہا ہے، اس سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ خلیفہ کا انتقال کسی بھی شہر میں ہوسکتا ہے‘‘ ص۴۴۔

            اس طرح ابن ماجہ کی ایک حدیث  ’’یقتل عند کنزکم ثلاثۃ کلہم ابن خلیفۃ‘‘  سے استدلال کرتے ہوئے ’’خزائن‘‘ سے مراد ’’مرکز نظام الدین‘‘ کی امارت یعنی خلافت قرار دیتا ہے اور تین ابن خلیفہ کا مصداق تین امرائے جماعت کو بتاتا ہے۔

            حضرت مہدی کے نام ونسب کے سلسلہ میں بہائیوں اور قادیانیوں کی طرح اپنا ایک مفروضہ منوانے کی کوشش کرتے ہوئے (ص۵۳) پر لکھتا ہے :

            ’’اس طرح یہ کہا جاسکتا ہے کہ مہدی کا نیا نام یا تو محمد یا احمد ہوگا یا پھر اس کے نام میں محمد یا احمد شامل ہوگا، جیساکہ ہمارے ہندوستان میں رواج ہے۔‘‘

            گویا کہنا یہ چاہتا ہے کہ ظہور مہدی کی تمام علامات پائی جارہی ہیں اور میرے نام میں محمد لگا ہوا ہے اور میرے باپ کے نام میں ’’حنیف‘‘ جو حضرت ابراہیم کا صفاتی نام ہے، لہٰذا میں بھی مصداق ہوسکتا ہوں۔

            خلاصہ یہ ہے کہ ہر حدیث کی تاویل کرکے اپنے اوپر چسپاس کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اس کی مطبوعہ کتاب کو سامنے رکھ کر جناب مولانا شاہ عالم گورکھپوری نے اس کا مفصل جواب دہلی مجلس کی ایک میٹنگ منعقدہ ۲۰۰۷ء میں پیش کیا؛ لیکن اس دوران اس کے پیروکاروں کے ذریعہ یہ معلوم ہوا کہ وہ صرف مدعی مہدویت نہیں؛ بلکہ مسیحیت کا بھی دعویدار ہے اور نزول عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام کا اعلانیہ منکر بھی ہے۔ جناب مولانا شاہ عالم صاحب اور دیگر رفقاء مجلس سے بھی شکیلیوں کی ملاقاتوں میں یہ بات واضح ہوگئی کہ شکیل نہ صرف یہ کہ مدعی مسیحیت ہے؛ بلکہ نزول عیسی علیہ السلام کا منکر بھی ہے۔

            چنانچہ اس سلسلے میں ممبئی، حیدارآباد، دہلی وغیرہ علاقوں سے بھی مسلسل اطلاعات ملنے لگیں اور اس کے پیروکاروں کے واسطے سے عوام وخواص نے کل ہند مجلس سے معلومات حاصل کرنی شروع کردیں کہ ایسے شخص کے متعلق کیا معاملہ اپنایا جائے۔

            کثرت سے خبریں ملنے کے بعد اس دعویٰ کی تحقیق وتنقیح اور ثبوت فراہم کرنے میں نہایت حزم واحتیاط سے کام لیاگیا اور باضابطہ دارالافتاء دارالعلوم دیوبند کے ساتھ جامعہ مظاہرعلوم سہارنپور، مدرسہ شاہی مرادآباد اور حیدرآباد وغیرہ سے استفتاء کرکے اس کے پیش کردہ تلبیسات کے جوابات مرتب کیے گئے اوراس کی تکفیر کا فتویٰ منظرعام پر لایاگیا جو اس وقت آپ کے ہاتھوں میںہے۔

            ان تفصیلات کے ذکر کرنے سے یہ بتانا مقصود ہے کہ آغاز میں بھی شکیل کے فتنہ کو فتنہ تو کہا جاتا تھا؛ لیکن قادیانیت کے نام سے موضوع گفتگو بنایا جاتا تھا، سندرنگری، دلشادگارڈن وغیرہ علاقوں میں شکیل کے پیروکاروں سے اس کے جو مستدلات معلوم ہوتے تھے علمی انداز میں ان کے جوابات بھی دیے جاتے رہے۔ جب معاملہ ۲۰۰۶ء میں کچھ زیادہ بڑھا تو ’’فتنۂ شکیلیت‘‘ کے عنوان سے اس کا ایک الگ نام تجویز کیاگیا۔ پھر رفتہ رفتہ دیگر افراد بھی اسی نام سے اس فتنہ کو موضوع سخن بنانے لگے۔ بحمداللہ کل ہند مجلس میں محفوظ رپورٹیں اس بات کا پختہ ثبوت ہیں کہ دارالعلوم دیوبند اس فتنہ سے کبھی بھی غافل نہیںرہا؛ البتہ شکیل نے ابتدائی زمانے میں مسلمانوں کو ہی اپنی ایسی ڈھال بنارکھا تھا کہ نام بنام رپورٹوں کو منظر عام پر لانا بڑا مشکل ہوتا تھا۔

            البتہ جب عوام پراس کی حقیقت منکشف ہوئی تو مختلف علاقوں سے شکیل کی ارتدادی سرگرمیوں کی خبریں ملنے لگیں؛ بلکہ جماعت سے وابستہ لوگوں نے بھی اس کے خفیہ گماشتوں کی خبریں دینی شروع کردیں۔ کل ہند مجلس کی رپورٹ پر فتنے کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے مؤقر اراکین مجلس شوریٰ نے کئی اہم تجویزیں منظور کیں، صدرمجلس حضرت مفتی ابوالقاسم مدظلہ اورناظم عمومی حضرت مفتی سعید احمد پالن پوری مدظلہ کی حسب ہدایت خاص اس موضوع پر کئی کامیاب کتابیں وجود میں آئیں جو کل ہند مجلس تحفظ حتم نبوت کی جانب سے شائع کی گئیں۔ کل ہند مجلس نے خاص اس عنوان پر کئی اکابر علماء دیوبند کی تصنیفات کو ہندی زبان میں بھی منتقل کرایا اور بعض پمفلٹ انگلش زبان میں شائع کیے۔ اس کے بعد کل ہند مجلس سے ملحقہ مجالس نے بھی اس کو اپنا موضوع سخن بنایااور ان کی جانب سے بھی مناسب اورمعقول لیٹریچر منظرعام پر آنے شروع ہوگئے جس سے علاقائی اور وقتی تقاضوں کی بحمداللہ تکمیل ہورہی ہے۔

موضوع پر خصوصی اجلاس عام اور تربیتی کیمپ

            اس موضوع پرکل ہند مجلس تحفظ ختم نبوت دارالعلوم دیوبند کی زیرنگرانی مختلف صوبوں میں عمومی میٹنگیں ہوئیں یا جو اجلاس ہائے عام ہوئے یا تربیتی کیمپ منعقد کیے گئے ان کی تفصیلات طویل ہیں۔ یہاں تمام پروگراموں کا احاطہ مقصود نہیں ہے، اختصاراً چند مقامات کا ذکر کیاجاتا ہے۔

            حسب ہدایت دفتراہتمام کل ہند مجلس تحفظ ختم نبوت کی زیرنگرانی ہر سال ماہ شعبان میں منعقد ہونے والے چھ روزہ تربیتی کیمپ میں باضابطہ اس موضوع کا بھی اضافہ کیاگیا ہے۔ جس میں دارالعلوم کے علاوہ، وقف دارالعلوم دیوبند، جامعۃ الامام انور شاہ کشمیری دیوبند، دارالعلوم شیخ زکریا دیوبند، جامعہ مظاہرعلوم سہارنپور، شاہی مرادآباد، جامعہ رحیمیہ بانڈی پورہ کشمیر، مجلس تحفظ ختم نبوت کیرالہ، بھوپال وغیرہ اور دیگر بہت سے مدارس عربیہ سے تقریباً تین سو سے زائد فضلاء شریک ہوتے ہیں؛ جب کہ خصوصی طور پر ایک سو کی تعداد میں مختلف صوبوں کے علماء اور اساتذہ بھی شریک پروگرام ہوتے ہیں۔

            دہلی کی یونیورسٹیوں میں شکیلیت کی وبا خاموشی کے ساتھ بڑی تیزی سے پھیل رہی تھی۔ اطلاع ملنے پر جگہ جگہ چھوٹے چھوٹے اجلاس عام اور مساجد میں بیانات کا سلسلہ شروع کیاگیا جس کے نتیجے میں بے شمار لوگوں کو الحمدللہ اس فتنے کی زد میں آنے سے بچالیا گیا۔ مارچ ۲۰۱۴ء میں دہلی میںمجلس تحفظ ختم نبوت دہلی کے زیراہتمام ایک سہ روزہ تربیتی کیمپ خاص اسی موضوع پر منعقد کیاگیا۔

            مجلس تحفظ ختم نبوت ٹرسٹ آندھرا پردیش وتلنگانہ کے زیراہتمام شہرحیدرآباد اور اس کے مضافات میں متعدد بڑے پروگرام ہوئے ان میں سے بعض میں حضرت مہتمم صاحب دامت برکاتہم اور بعض میں حضرت مولانا مفتی سعید احمد صاحب دامت برکاتہم اور بعض میں جناب مولانا شاہ عالم صاحب نے شرکت فرمائی۔

             مجلس تحفظ ختم نبوت کانپور، شہر نیلور (آندھرا) مجلس تحفظ ختم نبوت ستپون گجر، مجلس تحفظ نبوت گوالیار کے زیراہتمام خاص اسی موضوع پر باضابطہ تربیتی کیمپ منعقد کیے گئے جس میں جناب مولانا شاہ عالم صاحب نے مربی خصوصی کی حیثیت سے شرکت فرمائی۔

            صوبہ تلنگانہ کے ضلع نلگنڈہ کی مجلس تحفظ ختم نبوت کی زیرنگرانی دسمبر ۲۰۱۶ء میں دوروزہ تربیتی کیمپ منعقد ہوا۔ صوبہ بہار میں اجلاس عام تو کئی ایک ہوئے؛ لیکن باضابطہ تین روزہ تربیتی کیمپ جولائی ۲۰۱۷ء میں جامعہ امدادیہ مادھے پور ضلع کٹیہار میں منعقد ہوا جس کے داعی بہ طور خاص حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی مدظلہ تھے۔ صوبہ مدھیہ پردیش کے ضلع اندور اور بھوپال کی مجلس تحفظ ختم نبوت اور جامعہ اسلامیہ عربیہ ترجمہ والی مسجد بھوپال کے زیراہتمام بھی کئی تربیتی پروگرام بہ طور خاص اسی موضوع پر ہوئے جس سے شکیلی فتنے کا زور کافی حد تک ٹوٹا ہے۔ ان علاقوں میں مساجد میں پروگرام اور تقسیم لیٹریچر کے ذریعہ اس فتنہ پر قابوپایاگیا۔ مارچ ۲۰۱۸ء میں بنارس میں فتنے کے سدباب کے لیے شہر بنارس میں ایک روزہ تربیتی پروگرام منعقد کیاگیا۔ اپریل ۲۰۱۸ء میں شاہجہاں پور شہر میں دوروزہ تربیتی کیمپ منعقد کیاگیا۔ اسی طرح اکتوبر ۲۰۱۸ء لکھنؤ کے مضافات میں مدرسہ ضیاء الحرم قصبہ جبری میں ایک روزہ تربیتی پروگرام منعقد ہوا۔ کانپور اور اس کے مضافات میں بھی کئی ایک پروگرام ہوئے۔

            سال گذشتہ اپریل ۲۰۱۸ء میں جامعہ حسینیہ کایم کولم کیرالہ میں مئی ۲۰۱۸ء میں مدرسہ دارالتوحید اعلیٰ ہلی بنگلور شہر میں، اکتوبر ۲۰۱۸ء میں سجان گڑھ ضلع چورو راجستھان میں اور نومبر ۲۰۱۸ء میں دارالعلوم کنتھاریہ بھروچ گجرات میں بھی خاص اسی موضوع پر بڑے پیمانے پر کل ہند مجلس کی زیرنگرانی تربیتی کیمپ منعقد کیے گئے جس کی افادیت الحمدللہ اہل علاقہ محسوس کررہے ہیں۔

            فتنۂ شکیلیت کے بارے میں یوپی کے مغربی اضلاع کی صورت حال سامنے آنے کے بعد مجلس کی کمیٹی نے یہ فیصلہ کیا کہ ارباب مدارس کے سامنے مسئلہ کی نزاکت کو رکھ کر مشورے کے بعد مزید اقدامات طے کیے جائیں۔ بعض مقامات سے تحریری اور بعض مقامات سے زبانی مصدقہ اطلاعات مل رہی ہیں کہ مظفرنگر، میرٹھ، مراد آباد، نجیب آباد، بجنور وغیرہ علاقوں میں مسلمانوں کی غفلت کا فائدہ شکیلی گماشتے اب بھی اٹھارہے ہیں، ’’گوتم بدھ نگر یونیورسٹی‘‘ اسی طرح جہاں جہاں بھی کالج ہیں وہاں کے مسلم نوجوانوں کو بہکانے اوران کو اپنا ہم نوا بنانے میں مصروف عمل ہیں۔

————————————-

دارالعلوم ‏، شمارہ : 2،  جلد:103‏،  جمادی الاول – جمادی الثانی 1440 مطابق فروری 2019ء

٭           ٭           ٭

Related Posts