—از: محدث کبیر حضرت مولانا حبیب الرحمن صاحب اعظمیؒ—

            اہل سنت وجماعت کا اجماعی مسلک، جس میں کسی سنی کا کوئی اختلاف نہیں ہے، یہ ہے کہ صحابہؓ کل کے کل عدل ہیں، ان میں کوئی بھی فاسق وفاجر نہیں ہے۔

            حافظ ابو عمربن عبدالبر استیعاب  ج۱ ص۲ میں لکھتے ہیں:

            فہم خیر القرون وخیر أمۃ أخرجت للناس ثبتت عدالۃ جمیعہم بثناء اللّٰہ عز وجل علیہم وثناء رسولہ ﷺ ولا أعدل ممن ارتضاہ اللّٰہ صحابۃ نبیہ ونصرتہ ولا تزکیۃ أفضل من ذلک ولا تعدیل أکمل منہ۔

            ترجمہ: صحابہ خیرالقرون اور خیرامت ہیں، تمام صحابہ کی عدالت یوں ثابت ہے کہ اللہ اور اللہ کے رسول … نے ان کی ثنا کی ہے اوراس سے بڑھ کر کوئی دوسرا عادل نہیں ہوسکتا جس کو اللہ نے اپنے نبی کی صحبت اور نصرت کے لیے پسند کیا ہو اور اس سے بڑھ کر کوئی تزکیہ نہیں ہوسکتا، نہ اس سے زیادہ کامل کوئی تعدیل ہوسکتی۔

            آگے چل کر پھر فرماتے ہیں:

            وان کان الصحابۃ رضی اللہ عنہم قد کفینا البحث عن أحوالہم لإجماع أہل الحق من المسلمین وہم أہل السنۃ والجماعۃ علی أنہم کلہم عدول (ص۹)

            ترجمہ: صحابہؓ کے احوال سے بحث کی ضرورت ہم کو نہیں ہے؛ اس لیے کہ مسلمانوں میںجو اہل حق ہیں یعنی اہل سنت وجماعت ان سب کا اجماع واتفاق ہے کہ صحابہ کل کے کل عدل ہیں۔

            علامہ ابن الاثیر جزری جامع الاصول میں فرماتے ہیں:

            الصحابۃ کلہم عَدول بتعدیل اللّٰہ عزوجلّ ورسولہ ﷺ لا یحتاجون إلی بحث في عدالتہم وعلی ہذا القول معظم المسلمین من الأئمۃ والعلماء من السلف والخلف (قلمی نسخہ ندوہ)

            ترجمہ: تمام صحابہ اللہ اور اللہ کے رسول کے عادل قرار دینے کی وجہ سے عادل ہیں ان کی عدالت میں بحث کی حاجت نہیں ہے، یہی قول مسلمانوں کے بڑے طبقے (اہل سنت وجماعت) کے اگلے وپچھلے تمام ائمہ و علماء کا ہے۔

            امام نوویؒ شرح مسلم ج۲ ص۲۷۳ میں فرماتے ہیں:

            اتفق أہل الحق من یعتد بہ في الإجماع علی قبول شہاداتہم وروایاتہم وکمال عدالتہم رضي اللہ عنہم أجمعین۔

            ترجمہ: اہل حق اور وہ سب لوگ جن کا اجماع میںاعتبار ہے اس امر پر پورا اتفاق کیا ہے کہ صحابہ کی گواہی اور روایت مقبول ہے اور وہ کامل طور پر عادل ہیں، ان سب سے اللہ راضی ہو۔

            اور اس سے پہلے لکھا ہے  کلہم عدول،  پوری عبارت دوسرے موقع پر نقل کی جائے گی۔

            امام غزالیؒ احیاء العلوم اور علامہ سید مرتضیٰ زبیدیؒ اس کی شرح ج۲ ص۲۲۳ میں فرماتے ہیں:

            واعتقاد أہل السنۃ والجماعۃ تزکیۃ جمیع الصحابۃ رضی اللّٰہ عنہم وجوبًا بإثبات العدالۃ لکل منہم والکف عن الطعن فیہم الثناء علیہم کما أثنی اللّٰہ سبحانہ وتعالیٰ وأثنیٰ رسولہ ﷺ علیہم لعمومہم وخصوصہم (إلی قول الشارح) وحقیق علی المتدین أن یستصحب لہم ما کانوا علیہ في عہد رسول اللّٰہ ﷺ فإن نقلت ہنأۃ فلیتدبر العاقل النقل وطریقہ فإن ضعف ردہ و إن ظہر وکان آحادا لم یقدح فیما تواتر أو شہدت بہ النصوص۔

            ترجمہ: اہل سنت وجماعت کا عقیدہ یہ ہے کہ تمام صحابہ کا تزکیہ اس طور پر کہ ان میں  سے ہر ایک کی عدالت ثابت مانی جائے اور ان میں طعن کرنے سے بچا جائے، واجب ہے اور جس طرح اللہ اور اللہ کے رسول … نے ان کے عام کی اور خاص کی تعریف کی ہے، تعریف کی جائے اور دین دار کے لیے یہ زیبا ہے کہ صحابہ جس حال پر عہد نبوی میں تھے، اسی حال پر آخر تک ان کو باقی رہنے والا اعتقاد کرے، پس اگر کوئی لغزش نقل کی جائے تو عاقل کو چاہیے کہ اس نقل پر غور کرے اگر وہ کمزور ہو (سند وغیرہ ٹھیک نہ ہو) تو ان کو رد کردے اور اگرایسا نہ ہو اور روایت آحاد ہوتو بھی متواتر بات میں اور جس چیز کی شاہد نصوص ہیں وہ نقل کوئی قدح پیدا نہیں کرسکتی۔

            حافظ ابن حجرؒ نے اصابہ میں ایک خاص فصل ہی اس مقصد کے لیے منعقد کی ہے، فرماتے ہیں:

            الفصل الثالث في بیان حال الصحابۃ من العدالۃ، اتفق أہل السنۃ علیٰ أن الجمیع عَدول و لم یخالف في ذلک إلّاشذوذ من المبتدعۃ۔

            ترجمہ: ’’تیسری فصل صحابہؓ کی عدالت کے حال میں‘‘ تمام اہل سنت کا اتفاق ہے کہ کل صحابی عادل ہیں اس عقیدہ کی مخالفت سوائے چند بدعتیوں کے کوئی دوسرا نہیں کرتا۔

            اس کے بعد آگے چل کر حافظ ابن حجرؒ فرماتے ہیں:

            قد کان تعظیم الصحابۃ ولو کان اجتماعہم بہ ﷺ قلیلًا مقررًا عند الخلفاء الراشدین وغیرہم۔

            ترجمہ: صحابہؓ کی تعظیم اگرچہ ان کی ملاقات آں حضرت … سے تھوڑی دیر ہی رہی ہو خلفاء راشدین وغیرہم کے نزدیک ایک مقرر اور مانی ہوئی بات تھی۔

            پھر حضرت عمرؓ کا ایک واقعہ نقل کرکے فرماتے ہیں:

            وفي ذلک أبین شاہد علی أنہم کانوا یعتقدون أن شان الصحبۃ لایعدلہ شيء (ج۱،ص۷۷۶)

            ترجمہ: اس واقعہ میں کھلا ہوا شاہد موجود ہے کہ حضرت عمرؓ وغیرہ کا اعتقاد یہ تھا کہ صحابیت کے برابر کوئی چیز نہیں ہے۔

            خطیب بغدادیؒ نے کفایہ ص۴۱۵ میں محمد بن عبداللہ بن عمارؒ کا قول نقل کیا ہے:

            فإن جمیع أصحاب النبي ﷺ کلہم حجۃ۔

            ترجمہ: آں حضرت … کے تمام صحابی حجت ہیں۔

            امام محقق کمال الدین ابن الہمام حنفیؒ صاحبِ فتح القدیر مسامرہ میں اور ان کے شاگرد رشید ابن ابی شریفؒ مسائرہ میں فرماتے ہیں:

            واعتقاد أہل السنۃ والجماعۃ تزکیۃ جمیع الصحابۃ رضی اللّٰہ عنہم وجوبًا بإثبات العدالۃ لکل منہم والکف عن الطعن والثناء علیہم کما أثنیٰ اللّٰہ سبحانہ وتعالیٰ۔ (ص۱۳)

            ترجمہ: اہل سنت وجماعت کا اعتقاد تمام صحابہؓ کو وجوبی وحتمی طور پر عادل اور پاک  وصاف ماننا ہے، اس طرح کہ ان میں سے ہر ایک کی عدالت ثابت مانی جائے اور طعن سے پرہیز کیا جائے اور جیسے اللہ نے ان کی تعریف کی ہے، اس طرح تعریف کی جائے۔

            ملا علی قاریؒ شرح فقہ اکبر میں فرماتے ہیں:

            ذہب جمہور العلماء إلی أن الصحابۃ کلہم عدول قبل فتنۃ عثمان وعلي وکذا بعدہا۔

            ترجمہ: جمہور علماء اس طرف گئے ہیں کہ تمام صحابہؓ عدول ہیں فتنۂ عہد عثمانی وعلوی کے پہلے بھی اور بعد بھی۔

            خطیب بغدادیؒ نے اپنی کتاب کفایہ میں ایک باب کا عنوان یہ قائم کیا ہے:

            باب ما جاء في تعدیل اللّٰہ و رسولہٖ للصحابۃ۔

            ترجمہ: اللہ اور اس کے رسول کا صحابہؓ کو عدول قرار دینے کا باب۔

            اس کے ماتحت فرماتے ہیں:

            عدالۃ الصحابۃ ثابتۃ معلومۃ بتعدیل اللّٰہ لہم وإخبارہ عن طہارتہم واختیارہ لہم۔

            ترجمہ: صحابہؓ کی عدالت محقق ومعلوم ہے اللہ کے عادل قرار دینے سے ان کو اور ان کی پاکیزگی کی خبر دینے سے اور ان کو اپنے لیے چن لینے کی وجہ سے۔

            اس کے بعد چند آیات واحادیث نقل کرکے فرماتے ہیں:

            وجمیع ذلک یقتضی القطع بتعدیلہم ولا یحتاج أحد منہم مع تعدیل اللّٰہ لہ إلی تعدیل أحد من الخلق، علی أنہ لو لم یرد من اللّٰہ ورسولہٖ فیہم شيء مما ذکرنا لأوجبت الحال التی کانوا علیہا من الہجرۃ والجہاد ونصرۃ الإسلام وبذل المہج والأموال وقتل الآباء والأبناء والمناصحۃ في الدین وقوۃ الإیمان والیقین القطع علی تعدیلہم والاعتقاد لنزاہتہم وأنہم کافۃ أفضل من جمیع الخالفین بعدہم والمعدلین الذین یجیئون من بعدہم، ہذا مذہب کافۃ العلماء و من یعتمد قولہ۔۔۔ ثم رویٰ بسندہ إلی أبي زرعۃ الرازي قال إذا رأیت الرجل ینقص أحدًا من أصحاب رسول اللّٰہ ﷺ فأعلم أنہ زندیق۔ (ص۴۶ تا ۴۹)

            ترجمہ: اور یہ تمام دلائل مقتضی ہیں صحابہ کو قطعی طور پر عادل قرار دینے کو، ان میں سے کوئی اللہ کی تعدیل کے بعد کسی دوسرے کی تعدیل کا محتاج نہیں ہے، اس کے علاوہ اگر بالفرض اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے ان کے حق میں کچھ بھی وارد نہ ہوا ہوتا جب بھی ہجرت، جہاد،نصرۃ اسلام، جان ومال سے دریغ نہ کرنا، باپ اور بیٹوں کو اللہ کی راہ میں قتل کرانا، دین میں خیرخواہی، قوت ایمان ویقین جس کے ساتھ وہ متصف تھے، یہی ان کے قطعی طور پر عادل قرار دینے اور ان کی براء ت وپاکی کے اعتقاد کو کافی ہے اور یہ کہ وہ سب کے سب اپنے بعد کے سب لوگوں سے اور ان معدلین سے جو بعد میںآئیںگے ان سے افضل ہیں، یہی تمام علماء کا مذہب ہے اور جن کا قول قابل اعتماد ہے، پھر اپنی سند سے ابوزرعہ رازیؒ کا قول نقل کیا ہے کہ جب تم کسی کو دیکھو کہ کسی صحابی کی تنقیص کرتا ہے تو جان لو کہ وہ زندیق (بے دین) ہے۔

————————————-

دارالعلوم ‏، شمارہ : 12-11،  جلد:102‏،  صفر المظفر –ربيع الثانی 1440ھ مطابق نومبر –دسمبر2018 ء

۞     ۞     ۞

Related Posts