از:   مولانا قاری عبدالعزیز صاحب شوقی رحمہ اللہ

            صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی پوزیشن عام معمولی انسانوں کی سی نہیں، ان کو ہم بلا مبالغہ صاحب رسالت ونبوت علیہ الصلوٰۃ والتسلیم کی ۲۳ سالہ شبانہ روز کی جدوجہد کاروشن ترین اورکامیاب ماحصل سمجھتے ہیں۔ اگر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کے لیے دلائل وشواہد پیش کرنے کی ضرورت ہوتو ہم بلا ریب اصحابؓ پاک کو پیش کرسکتے ہیں۔

            (۱) سوچنے کی بات ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے جو کچھ پیغام اور تعلیم اپنے ربّ سے حاصل کی،اگر انھوںنے اس کو چھپاکر اپنے ہی تک محدود رکھا تو یقین کیجیے کہ اس صورت میں مقصد نبوت پورا نہیں ہوپاتا اور اگر آپؐ نے  بَلِّغْ مَا اُنْزِلَ اِلَیْکَ مِنْ رَّبِّکَ  (پہنچادیجیے! جو کچھ بھی آپؐ کے رب کی طرف سے اُتارا جائے) کے حکم کی تعمیل فرماتے ہوئے سب کچھ پہنچادیا؛ لیکن اس پہنچائی چیز پر معدودے چند حضرات کے سوا کوئی کاربند نہیںہوا گویا کہ باقی سب حضرات (نعوذباللہ) مُرتد اور منافق ہی تھے، تو اس صورت میں رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک کامیاب نبی نہیںکہاجاسکتا۔

            مختلف انبیاء علیہم السلام مختلف قوموں کی طرف بھیجے گئے اُن میں سے بہت سے حضرات ایسے ہیں کہ جن کو کوئی صحابی نہیں کہ اُن پر ایمان کوئی لایا ہی نہیں تھا اور بہت سے پیغمبر ایسے ہیں کہ اُن کے صحابیوں یا حواریوں کی تعداد اس قدر کم ہے کہ اس کو انگلیوں پر شمار کیا جاسکتا ہے۔ ایک صرف موسیٰ علیہ السلام ایسے نبی ہیں جن کے ماننے والوں کی تعداد زیادہ تھی؛ لیکن خود حضرت موسیٰ علیہ السلام اپنے ان ماننے والوں کی حرکات سے زندگی بھر تنگ رہے؛ اس لیے ان کے اصحاب کا شمار بھی بہت کم ہے۔

            جس طرح خاتم النّبیین اور سید الانبیاء ہونے کا فخر ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو حاصل ہے اسی طرح آپ کو یہ فخر بھی حاصل ہے کہ آپ … اپنے مقصد میں تمام نبیوں سے بڑھ کر کامیاب ہیں، یہ خصوصیت آپ … ہی کو حاصل ہے کہ آپ نے اپنی مبارک زندگی میں اپنے مشن کو خود پھلتے پھولتے دیکھ لیا۔

            آپؐ دنیا سے رخصت ہوئے تو اس حالت میں کہ آپؐ کے پیغام کو آباد دُنیا کے انتہائی کناروں تک پہنچانے کے لیے پانچ، سات افراد نہیں لاکھوں جاں نثار موجود تھے اور پھر تاریخ کے روشن صفحات شاہد ہیں کہ ان جاںنثاروں نے اپنے نبی کے پیغام کو وہاں تک پہنچاکر دم لیا جہاں تک (اس زمانہ کے مطابق) عقل انسانی تصور بھی نہیں کرسکتی تھی۔ صاحب رسالت اورمقصد رسالت کے ایسے جفاکوش اور مستعد دیوانوں کو صحابیت تو کیا، مومنیت کے مقام سے بھی خارج کردینا اُنھیں لوگوں کا کام ہوسکتا ہے جو افلاسِ خرد کے اسیر اور نقصانِ فہم کے مریض ہیں۔

            (۲) کوئی اُستاد اور معلم بہترین اور کامیاب معلم اُسی وقت کہلاسکتا ہے جب کہ اس کے تلامذہ لائق اور ہونہار بھی ہوں اور اُن کی تعداد بھی کثیر ہو شاگردوں کی لیاقت وقابلیت اکثر وبیشتر اُستاد کی لیاقت وقابلیت کا پَرتَو ہوتی ہے۔ اگر اُستاد میں کوئی جوہر نہ ہوتو شاگرد میں کسی کمال کی جھلک کا نمودار ہونا ممکن نہیں ہے۔ نیز کسی اُستاد کے شاگرد کثیر تعداد میں ہیں تو یہ اس کے فیضان کی عمومیت کا نشان ہوگا۔ شاگردوں کی قلت اس بات کی دلیل ہوگی کہ اُستاد کا فیض وسیع نہیں محدود ہے۔ ساتھ ساتھ اس بات کو بھی ذہن میں رکھنا چاہیے کہ اُستاد کی قابلیت اور کمال کے ناپنے کا معتبر پیمانہ شاگردوں کے سوا اور کوئی نہیں، جس اُستاد کے شاگرد عام طور پر یا اکثریت کی صورت میں لائق ثابت ہوتے ہوں وہ استاد یقینا باکمال ہے اور اپنے مشن میں کامیاب ہے؛ لیکن جس کے شاگرد اکثر طور پر نالائق ثابت ہوں ایسے شخص کو باکمال اور کامیاب استادوں کی فہرست میں ہرگز نہیں رکھا جاسکتا۔ جب آپ اسے تسلیم کرتے ہیںتو اب اصل بات کی طرف آئیے۔

            انبیاء علیہم السلام بھی اپنے اپنے وقت میں اپنی قوموں اور آبادیوں کے استاد تھے، اللہ نے ان کے ذمہ ضروری قرار دیا تھا کہ وہ لوگوں کو احکامِ الٰہی کی تعلیم دیں۔ سب سے آخری اور سب سے بڑھ کر معلم ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ صحابۂ کرامؓ آپ کے شاگرد ہیں اورہم اس پر یقین رکھتے ہیں کہ آپ جیسے اکمل ترین معلم کے تمام تلامذہ ہونہار، لائق اور ہدایت یافتہ تھے اور پھر اُن کی تعداد بھی تقریباً سوا لاکھ تھی، جس سے معلوم ہوا کہ آپؐ کا فیضان عام سے عام تر تھا۔

            حاصل یہ کہ صحابۂ کرامؓ کی تعداد کا کثیر ہونا اور اُن  کا مشہدی ومہدی ہونا رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے کمال معلّمیت اور عمومِ فیضان کی دلیل ہے اور جو شخص آپ کے اس وصف کا منکر ہے وہ رسالت کا منکر ہے۔

            اب اُن لوگوں کی بات پر بھی ذرا غور کرلیں جن کو صحابۂ کرامؓ کی دشمنی کا وافر حصہ نصیب ہوا ہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے معلم اکمل ہونے سے تو وہ بھی انکار نہیں کرسکتے؛ لیکن یہ عجیب تماشہ ہے کہ ثبوتِ کمال کی جو صورت ہے اس سے انکار کربیٹھتے ہیں۔

            کہتے یہ ہیں کہ شاگرد تو آپؐ کے سارے ہی صحابہؓ ہوگئے تھے لیکن آپؐ کے وصال کے بعد سب آپؐ کی تعلیم سے پھر گئے، صرف پانچ سات افراد اصل تعلیم پر باقی رہے۔ ان لوگوں کی سمجھ پر افسوس بھی ہے اور حیرت بھی۔ کیا نبی کی تعلیم بھی کوئی مداری کا جادو ہے کہ جیسے جادوگر کے مرتے ہی اس کا جادو ٹوٹ جاتا ہے۔ اسی طرح نبیؐ کے وصال فرماتے ہی تعلیم نبویؐ کا اثر بھی ختم ہوگیا۔ ایک معمولی دنیا دار استاد تو اپنے خیالات اپنے شاگردوں میں ایسے راسخ کردے کہ اس کے مرنے کے بعد شاگرد اسی ڈگری پر قائم رہیں اور اُستاد کے خیالات کو عملی جامہ پہنچائیں؛ لیکن نبی صرف نبی نہیں؛ بلکہ خاتم النّبیین کے تلامذہ آپؐ کے وصال کے فوراً بعد آپ کا سبق بھلادیں یہ کیسے ہوسکتا ہے؟ کیا آپؐ کی ذاتِ گرامی اس قدر معمولی قوتِ تاثیر سے بھی خالی تھی؟ (استغفراللہ)

            پھر تقریباً سوالاکھ افراد میں سے چند گنے چنے افراد تو لائق شاگرد ثابت ہوں اور باقی سب نالائق۔ کیادُنیا جہان کی قدیم وجدید تاریخ میںکوئی ایسا ’’شاندار‘‘ ریکارڈ دکھایا جاسکتا ہے؟ یا اس ذلت کے الزام کے لیے اللہ کے حبیبؐ کے سوا اِن مہربانوں کو اور کوئی ملا ہی نہیں؟ پھر جس اُستاد کے اس قدر لاکھوں شاگرد ناکارہ ہوں اُن میں چند کو مستثنیٰ کیاجاتا ہے، ان کے لائق ہونے کی کیاضمانت ہے؟ ممکن ہے ان لاکھوں کی طرح یہ چند شاگرد بھی امتحان میں فیل ہوں، بہرحال ’’معصوم‘‘ نظر والوں کو سوچنا چاہیے کہ استاد وشاگرد اور رسولؐ واصحابؓ میں فرق پیدا کرکے انھوں نے نوبت کہاں تک پہنچائی ہے؟ کہ ایک کی عداوت دُوسرے کے انکار کا باعث بنی جارہی ہے۔ ہاں اگر درپردہ مقصد ہی یہ ہو کہ رسالت کا  انکار کردیا جائے (جیسا کہ بعض لوگوں کا خیال ہے) تو پھر کوئی بحث ہے نہ شکایت۔

            (۳) ایک مصلح کا کمال یہ ہے کہ جو لوگ اس کے حلقۂ تربیت میں آجائیں اُن میں اس کی اصلاح کا اثر کامل طور پر موجود ہو، اگر اصلاح کا اثر کسی مصلح کے گرد جمع ہوجانے والوں میں قطعاً نہ پایا جائے یا اثر موجود تو ہو؛ لیکن دیرپا نہ ہو تو ایسے شخص کو مصلح شاید کہہ لیاجائے؛ لیکن اس کو باکمال مصلح نہیں کہا جاسکتا۔

            ہمارا ایمان ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم دُنیا کے اکمل ترین مصلح ہیں، قیامت تک اس امت میں اصلاح کے جس قدر بھی سلسلے پائے جائیںگے اُن سب کا مرکز حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ گرامی ہے اور جس طرح اللہ رب العزت نے آپؐ کو تمام دیگر کمالات سے پورے طور پر عنایت فرمایا۔ اب اگرحقائق سے آنکھیں بند کرکے یہ کہہ دیا جائے کہ رسولِ کریم علیہ الصلوٰۃ والتسلیم کی شانِ مصلحت کا پَرتَو صرف معدودے چند حضرات پر پڑا باقی تمام حضرات محروم ہی رہے یا اس سے متاثر ہی نہیں ہوئے، تو کوئی انصاف والا اگر موجود ہے تو بتائے کہ یہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے مصلحانہ کمالات کی تعظیم ہے یا تنقیص؟

            اس دور میں اگر کوئی آپؐ کا پیرو واصلاح وتجدید کا جذبہ لے کر اٹھتا ہے اور چند ہی روز میں اپنی مخلصانہ جدوجہد سے لاکھوں انسانوں کی کایاپلٹ کردیتا ہے تو اس کے اثرات بھی برسوں نہیں صدیوں تک فنا نہیںہوتے اور ظاہر ہے کہ یہ سب کچھ فیض ہوتا ہے آقائے مدنی کی اطاعت واتباع کا، تو خود سرکارِ مدینہ کے مصلحانہ کمالات کا اثر اورنتیجہ کیا ہونا چاہیے؟ لوگ کہنے کو تو ایک بات منہ سے نکال دیتے ہیں؛ لیکن یہ نہیں سوچتے کہ اس کے نتائج کیا ہوںگے اوراس کا اثر کہاںکہاں تک پہنچے گا؟ کسی قدر بھی عمیق نظر سے کام لیا جائے تو یہ بات صاف طور پر واضح ہوجائے گی کہ صحابۂ کرامؓ کی عداوت اور ان کے انکارِ ایمان کے پردہ میں اعتقادِ رسالت کی بنیادیں متزلزل ہیں۔ جس شخص کو رسالت ونبوت پر اعتماد ہو وہ صحابۂ کرامؓ کی عقیدت سے کبھی خالی نہیں ہوسکتا۔

———————————————

دارالعلوم ‏، شمارہ : 12-11،  جلد:102‏،  صفر المظفر –ربيع الثانی 1440ھ مطابق نومبر –دسمبر2018 ء

۞     ۞     ۞

Related Posts