از: مولانا محمد ساجد قاسمی ہردوئی
استاذ تفسیر وادب، دارالعلوم دیوبند
اسلامی تاریخ میں جن حکمائے اسلام نے دین کا فلسفہ بیان کیا ہے اور عقلی بنیادوں پر دین کی تفہیم وتشریح کی ہے، ان میں سے ہر ایک کا نہج اور اُسلوب ایک دوسرے سے جدا گانہ تھا؛چنانچہ امام غزالی(متوفی ۵۰۵ھ) ہوں، یا امام رازی(متوفی ۶۰۴ھ)، حکیم الامة شاہ ولی اللہ دہلوی (متوفی ۱۱۷۶ھ) ہوں،یا حجة الاسلام مولانا محمد قاسم نانوتوی(متوفی ۱۲۹۷ھ)،ان میں سے ہر ایک نے اپنے منفرد انداز میں اسلام کا فلسفہ پیش کیا۔ مذکورہ حکمائے اسلام کے فلسفوں کے مناہج واسالیب کا تقابلی مطالعہ اس وقت میرا موضوع نہیں ہے؛ البتہ ہم حضرت نانوتوی کے فلسفے کا منہج اور اس کے اصولوں کے سلسلے میں گفتگو کریں گے۔
حضرت نانوتوی کی کتابوں کے مطالعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ اللہ تعالی نے آپ کو بلا کی ذہانت، غیر معمولی استدلال کی صلاحیت اورفریقِ مخالف کے اعتراضات کا مُسکِت جواب دینے کی بے مثال مہارت عطا فرمائی تھی؛ چنانچہ اسلام کی عقلی تشریح اور اس کے دفاع کے لیے آپ نے اپنا منفرد فلسفہ اور اصول وضع کیے اور ان سے اسلام اور اس کی ابدی تعلیمات کی معقولیت اجاگر کی۔
آپ کی تحریروں کی روشنی میں کچھ یوں محسوس ہوتا ہے کہ آپ کا فلسفہ عقلی اصول، جدلیاتی براہین، مقبولاتِ مشہورہ(امور مسلمہ عند الناس) اور تمثیلات پر مبنی ہے، آپ نے اسلام کی تشریح کے لیے عام طورپرعقلی اصول استعمال کیے ہیں؛جب کہ دفاع عن الدین کے لیے عموماً آپ نے جدلیاتی براہین، مقبولاتِ مشہورہ اور تمثیلات سے کام لیا ہے۔ اگر آپ کی تحریروں کی روشنی میں آپ کے فلسفے کی اصول بندی کی جائے تو درج ذیل اصول نکل کر آئیں گے۔آئندہ سطور میں ہم ان اصولوں کو مثالوں کے ساتھ ذکر کر رہے ہیں۔
(۱)اتصاف ذاتی واتصاف عارضی
یہ حضرت نانوتوی کے اصولوں میں سب سے اہم اصل ہے، اس کے تحت آپ نے اسلام کی بنیادی تعلیمات کا فلسفہ بیان کیا ہے اور معترضین کے بہت سے اعتراضات کا جواب دیا ہے۔اگر یہ کہا جائے کہ یہ اصول آپ کے فلسفے کی شاہ کلید ہے توبے جا نہ ہوگا۔ آپ کی کتاب ”حجة الاسلام اور تقریر دل پذیر“ اسی اصول پر مبنی ہیں۔
اس اصول کی وضاحت یہ ہے صفات دو قسم کی ہوتی ہیں؛ ایک ذاتی اور دوسرے عارضی۔ جس چیز میں ذاتی صفت ہوتی ہے اس کو موصوف بالذات کہتے ہیں اور جس میں عارضی صفت ہوتی ہے اس کو موصوف بالعرض کہاجاتاہے۔ذاتی صفت اپنے موصوف سے کبھی بھی جدا نہیں ہوتی ہے؛ جب کہ عارضی صفت اپنے موصوف سے جدا ہو سکتی ہے۔اسی طرح ذاتی صفت اپنے موصوف کی خانہ زاد صفت ہوتی ہے کسی سے مستعار لی ہوئی نہیں ہوتی؛ جب کہ صفت عارضی مستعار ہوتی ہے اور کسی موصوف بالذات کا فیض ہوتی ہے؛ اس لیے ہر موصوف بالعرض کے لیے کسی موصوف بالذات کا ہونا ضروری ہے جو اس کے لیے اصل سرچشمہ ہو اور اس کی صفت اس کا فیض ہو۔
حضرت نانوتوی رحمہ اللہ نے اس اصول کوآفتاب اور زمین کی مثال دے کر سمجھایا ہے کہ جب آفتاب طلوع ہوتاہے تو خودبھی روشن ہوتاہے اور زمین پر بھی اس کی روشنی پھیلی ہوتی ہے؛ لیکن دونوں کے روشن ہونے کے باوجود دونوں میں نمایاں فرق ہوتاہے۔ ایک کی روشنی ذاتی ہے اور دوسرے کی عارضی؛چنانچہ آفتاب کی روشنی ذاتی ہے؛ اس لیے وہ منور بالذات ہے اور زمین کی روشنی عارضی ہے اس لیے وہ منور بالعرض ہے۔آفتاب کی روشنی خود اس کی ذاتی اور خانہ زاد ہے کسی سے مانگی ہوئی نہیں ہے۔ وہ اس سے کبھی جدا نہیں ہوتی ہے۔ جب کہ زمین کی روشنی عارضی ہے اور آفتاب کی روشنی سے مستعار لی ہوئی ہے اور وہ اس سے جدا بھی ہوجاتی ہے؛ چنانچہ جب تک آفتاب طلوع رہتاہے زمین پر روشنی پھیلی ہوئی رہتی ہے اور جب آفتاب غروب ہوجاتا ہے تو زمین کی روشنی ختم ہو جاتی ہے۔
لہٰذا اس مثال میں آفتاب موصوف بالذات ہے اور زمیں موصوف بالعرض۔آفتاب کی روشنی اس کی صفت ذاتی ہے اور زمین کی روشنی اس کی صفت عارضی۔
وجود باری تعالی
مذکورہ بالااصول سے آپ نے باری تعالی کے وجود کو ثابت کیا ہے۔ اس کی تفصیل یہ ہے کہ ہم دیکھتے ہیں کہ انسان پیدائش سے پہلے پردئہ عدم میں تھا اور مرنے کے بعد پھر معدوم ہوجائے گا، اس سے معلوم ہوا کہ اس کا وجود عارضی ہے ذاتی نہیں، اگر اس کا وجود ذاتی ہوتا تو اس کی ذات سے کبھی جدا نہ ہوتا اور وہ ازل سے ابد تک رہتا کبھی معدوم نہ ہوتا۔
جب اس کا وجود عارضی ہے اور وہ وجود کے حوالے سے موصوف بالعرض ہے، تو لازمی طور پر کوئی نہ کوئی ذات ایسی ہوگی کہ جس کا وجود ذاتی ہوگا اور وہ وجود کے حوالے سے موصوف بالذات ہوگی ؛کیوں کہ ہر موصوف بالعرض کے لیے موصوف بالذات کا ہونا ضروری ہے؛ اس لیے انسان کے وجود کے ساتھ موصوف بالعرض ہونے کی بنا پر ایک ایسی ذات کو تسلیم کرنا پڑتاہے کہ جس کا وجودذاتی ہو اور وہ موصوف بالذات ہو اور انسان کا وجوداس کے وجود کا فیض ہو۔انھیں اوصاف (جس کا وجودذاتی ہو اور وہ موصوف بالذات ہو اور انسان کا وجوداس کے وجود کا پر تو ہو)کی حامل ذات کو ہم خدا کہتے ہیں(۱)۔
وحدانیت باری تعالی
نیز اسی اصول سے حضرت نانوتوی نے خدا کی وحدانیت بھی ثابت کی ہے۔اس کی تفصیل یہ ہے کہ مذکورہ بالا قاعدے سے یہ معلوم ہوا کہ تمام مخلوقات کا وجود خدا کے وجود سے اسی طرح نکلا ہے جس طرح زمین کی روشنی آفتاب سے؛ لیکن اس سے یہ شبہ ہوتا ہے کہ جس طرح ہر مخلوق کا وجو د الگ الگ اور مستقل حیثیت رکھتا ہے؛ اس لیے مخلوقات کے وجود میں تعدد ہے۔ اسی طرح ان کے سرچشمہٴ وجود یعنی خالق کائنات کے وجود میں بھی تعدد ہوگا اور جب یہ بات ہے تو خدا کی وحدانیت باقی نہیں رہی۔
اس شبہ کا جواب یہ ہے کہ مخلوقات کے وجود میں تعددہے؛ لیکن خدا کا وجود ایک ہے اس میں کسی قسم کا کوئی تعدد نہیں۔اس کی مثال یہ ہے کہ جس طرح صبح جب آفتاب طلوع ہوتاہے اور اس کی روشنی کمرے کے مختلف الاشکال روشن دانوں سے اندر آتی ہے، تو روشنی کی مختلف اور متعدد شکلیں بن جاتی ہیں؛ لیکن کمرے کے باہر آفتاب کی روشنی ایک ہوتی ہے اور اس میں یہ شکلیں نہیں ہوتیں۔ اسی طرح مخلوقات باہم ممتاز ہیں اور ان کے وجود میں تعدد ہے؛ لیکن ان کے سرچشمہٴ وجود یعنی خالق کائنات کے وجود میں وحدت ہے، تعدد نہیں(۲)۔
نبوت ورسالت
آپ نے اسی اصول سے رسالت ونبوت کو بھی عقلی طور پر ثابت کیا ہے۔اس سلسلے میں یہاں دو باتیں جاننا ضروری ہیں۔ پہلی بات یہ ہے کہ خدا مالکِ نفع وضرر ہے؛ کیوں کہ جہاں یہ حقیقت ہے کہ خدا کا وجود خانہ زاد ہے اور مخلوقات کا وجود خدا کے وجود سے مستعارہے تو وہیں یہ بھی حقیقت ہے کہ ُمعِیر(عاریت پر دینے والا)جب چاہے مستعیر(عاریت پر لینے والا) سے اپنی عاریت واپس لے لے، مستعیر کو یہ اختیار نہیں ہے کہ عاریت کو اپنے پاس رکھ لے اور معیر کو واپس نہ کرے۔اس کی مثال ایسی ہے جیسے کہ زمین پر پھیلی ہوئی روشنی آفتاب کی روشنی سے مستعار ہے۔ یہ روشنی گو کہ زمین سے متصل اور ملی ہوئی ہے؛ لیکن اس پر زمین کا اتنا اختیار نہیں ہے جتنا کہ آفتاب کا؛چنانچہ جب آفتاب طلوع ہوتا ہے تو زمین پر دھوپ پھیل جا تی ہے اور جب آفتاب غروب ہوتا ہے تو وہ اپنی روشنی اپنے ساتھ لیے جاتاہے۔ زمین کو یہ اختیار نہیں ہے کہ وہ اس کی روشنی چھین کر اپنے پاس رکھ لے۔
اسی طرح مخلوقات کا وجود خدا کے وجود کا پر تو ہے، وہ جب چاہے ان کو وجود عطا کر ے اور جب چاہے ان سے وجود سلب کرلے۔مخلوقات کا وجود گو کہ ان سے متصل ہے؛ لیکن اس پر ان کو اختیار نہیں ہے کہ اسے روک کر رکھ لیں۔مخلوقات کو وجود عطا کرنا ان کے حق میں نفع ہے اور اس کو سلب کرلینا ان کے حق میں ضرر۔ اس سے یہ ثابت ہوا کہ خدا ہی مخلوقات کے نفع وضرر کا مالک ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ خدا ہی محبوبِ حقیقی ہے ؛ کیوں کہ کسی کی اطاعت کے تین اسباب ہیں۔ (۱) جلبِ منفعت (۱) دفعِ مضرت (۳) محبت۔یہ تینوں اسباب خدا میں موجود ہیں وہ مخلوقات کے نفع وضرر کا مالک ہے اور محبوب حقیقی بھی ہے۔
جہاں تک اس کے نفع وضرر کے مالک ہونے کا تعلق ہے تو اوپر کی گفتگو سے یہ بات ثابت ہوچکی ہے۔ رہا خدا کا محبوب حقیقی ہونا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ کسی سے محبت اس کے کمال کی بنا پر کی جاتی ہے۔ جب تمام مخلوقات کا وجود خدا کا عطا کردہ ہے تو مخلوقات میں پائے جانے والے تمام کمالات بھی اسی کے عطا کردہ ہوں گے؛ کیوں کہ کمالات و صفات وجود کے تابع ہیں، یہ ممکن نہیں ہے کہ کسی چیز کا وجود نہ ہو اور وہ کمالات کی حامل ہوجائے۔اس سے معلوم ہو ا کہ مخلوقات میں پائے جانے والے تمام کمالات بھی اُن کے وجود کی طرح خدا تعالی کے عطا کردہ ہیں: اس لیے تسلیم کرنا پڑے گا کہ خدا تعالی تمام کمالات کا جامع ہے۔ جب وہ تمام کمالات کا جامع ہے تووہی محبوب اصلی ہے۔
جب خدا تعالی نفع و ضرر کا مالک اور محبوب حقیقی ہے تو اس کی اطاعت اور رضا جوئی تما م انسانوں کے لیے ضروری ہوگی۔
مذکورہ بالا تفصیل سے جب یہ بات ثابت ہوگئی کہ خدا تعالی تمام نفع وضرر کا مالک اور محبوب حقیقی ہے تو اس کی اطاعت اور رضاجوئی تمام انسانوں کے لیے ضروری ہے۔ اد ھر ہم انسانوں میں دیکھتے ہیں کہ ایک دوسرے کے دل کی بات اس کے بتائے بغیر معلوم نہیں ہوسکتی خواہ سینے سے سینہ ملا دیں، تو خداکی مرضی اور اس کے دل کی بات اس کے بتائے بغیر انسانوں کو کس طرح معلوم ہوسکتی ہے؟۔
نیز جس طرح بادشاہ اپنے احکام ہر شخص کے پاس جاکر نہیں پہنچاتے ہیں؛ بلکہ اس کام کے لیے کچھ قابلِ اعتماد افراد کو منتخب کرتے ہیں اور یہ کام ان سے لیتے ہیں۔ جب بادشاہ اپنی فنا ہونے والی عظمت وشوکت اور جاہ و جلال کی بنا پر اپنے احکام خود نہیں پہنچاتے تو خدا تعالی جو لازوال شان و شوکت اور لافانی جاہ وجلال کا مالک ہے وہ اپنے پیغامات واحکامات بذات خود انسانوں تک کیوں کر پہنچائے گا؟ اس لیے اس نے اپنی پیغام رسانی کے لیے کچھ قابلِ اعتماد افرادمنتخب کیے ہیں جنھیں اسلامی اصطلاح میں انبیاء و رسل کہا جاتاہے۔
اس کے علاوہ حضرت نانوتوی نے حضرت عیسی کی الوہیت کا بطلان، خدا کے افعال کا اختیاری ہونا، تقدیر، عالم کا حدوث، نماز و زکوة، صوم وحج اور جہادکا فلسفہ، جانوروں کے خداکے نام پر ذبح کرنے کی حکمت اور ملائکہ وشیاطین کا وجود وغیرہ تمام مسائل کو اسی اصول سے ثابت کیا ہے(۳)۔
(۲)تاثیر وتاثرُّ
پنڈت دیانند سرسوتی نے یہ اعتراض کیا تھا کہ مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ خدا قادر مطلق ہے؛ لیکن خدا اپنے آپ کو مار نہیں سکتا اور نہ چوری کرسکتا ہے؛ اس لیے وہ قادر مطلق نہیں۔
حضرت نانوتوی نے اس اعتراض کا جواب اسی اصول سے دیاہے۔ اس اصول کی وضاحت یہ ہے کہ ہر فعل(تاثیر) کے لیے ایک فاعل(موٴثرِّ) اور ایک منفعل(متاثرِّ) کا ہونا ضروری ہے؛ مگر منفعل وہی ہوتا ہے جس میں تاثیر قبول کرنے کی صلاحیت ہو۔ ہاں یہ ممکن ہے کہ جیسے موٴثرِّ باعتبار تاثیر کم و زیادہ ہوتے ہیں،ایسے ہی منفعل اور متاثرِّ بھی باعتبار قبول تاثرُّ و انفعال کم و زیادہ ہوتے ہیں۔مگر منفعل اور متأثر کی قابلیتِ تاثیر کے فقدان یا کمی سے موٴثرِّ کی صلاحیت اور قابلیت پر کوئی فرق نہیں پڑتا ہے۔ اسی طرح نہ موٴثرِّ کی صلاحیتِ تاثیر کے فقدان یا کمی سے منفعل اور متاثرِّ کی قابلیتِ تاثیر کی صلاحیت پر کوئی اثر پڑتاہے۔
مثلا آفتاب آسمان وزمین وغیرہ کو روشن کرنے کے حوالے سے موٴثرِّ ہے، اگر آئینہ آفتاب کے مقابلے میں رکھ دیاجائے تو یہ متاثرِّ کہلائے گا، آفتاب فاعل وموٴثرِّ کامل ہو گا اورآئینہ(خود روشن ہونے اور گردوپیش کو روشن کرنے کی وجہ سے) متاثرِّ اور منفعل کامل ہوگا۔
لیکن اگر آئینہ کی جگہ پتھر فرض کیا جائے تو یقینا وہ ایسا متا ثرِّ ہوگا جس میں قابلیتِ تاثیر کی کمی ہوگی؛کیوں کہ وہ خو دروشن ہوجائے گا اور دکھائی دے گا؛ لیکن اپنے گردو پیش کو روشن نہیں کرپائے گا۔
اسی طرح اگر آئینہ کے بجائے ایسی چیز فرض کی جائے جس میں تاثیر قبول کرنے کی بالکل صلاحیت نہیں ہے مثلاروح، آواز یا ہوا، کہ جن میں خود روشن ہونے اور دکھائی دینے کی کوئی صلاحیت نہیں ہے تومتاثرِّ میں تاثیر قبول کرنے کا فقدان ہوگا۔
موٴخر الذکر دونوں صورتوں میں متاثرِّ میں تاثیر قبول کرنے کی صلاحیت کی کمی یا فقدان کی وجہ سے آفتاب پرُ انوار (موٴثرِّ) کی صلاحیت میں کوئی کمی یا نقص نہیں ہوگا وہ بدستور موٴثرِِّ کا مل رہے گا۔
اسی طرح اس کے بر عکس موٴثرِّ میں تاثیر کی صلاحیت کی کمی یا فقد ان کی وجہ سے متاثرِّ کی قبول تاثیر کی صلاحیت کے کمال پر کوئی فرق نہیں پڑ تا ہے؛چنانچہ مذکورہ مثال میں اگر آفتاب کی جگہ ہم کالا توا فرض کریں کہ جس میں تاثیر (روشن کرنے کی صلاحیت) کا بالکل فقدان ہوتاہے، توموٴثرِّ میں تاثیرکی صلاحیت کے فقدان کی وجہ سے آئینہ کی قابلیتِ تاثیر میں کوئی کمی نہیں آئے گی۔اسی طرح اگر آفتاب کی جگہ چاند یا چراغ فرض کیا جائے تو یقینا موٴثرِّ میں تاثیر کی صلاحیت کی کمی ہوگی؛ کیوں کہ چاند اور چراغ کی روشنی آفتاب کی روشنی سے ہلکی ہوتی ہے، اس صورت میں بھی متاثرِّ (آئینہ) میں قابلیت ِتاثیر کم نہ ہوگی۔
اس اصول کی وضاحت کے بعد ملاحظہ ہو، کہ قادر، قدرت کا فاعل ہے اور مقدور قدرت کا مفعول۔ اگر فاعل کی جانب خدا ہے اور مفعول کی جانب ممکنات (وہ چیزیں جن کا وجود اور عدم ضروری نہیں ہے) تو فاعل بھی کامل(یعنی اس کے اند ر ممکنات کو وجود دینے اور فنا کرنے کی مکمل قدرت)ہے۔ اور مفعول بھی کامل (ممکنات میں موجود ہونے اور فنا ہونے کی مکمل صلاحیت)ہے۔
اگر فاعل کی جانب خداکے بجائے مخلوق کو فرض کیا جائے تو فاعل ناقص ہوگا کیوں مخلوق کے اندر قدر ت کی کمی ہے، لہٰذ ا اس میں فاعلیت ناقص ہوگی، اور ممکنات بدستور مفعولِ کامل ہوں گی۔ اسی طرح اگر فاعل کی جانب پتھر وغیرہ بے جان چیز کو فرض کیا جائے تو اُن میں فاعلیت کا بالکل فقدان ہوگا۔ ادھر مفعول کی مفعولیت اور مقدور یت بدستور رہے گی، فاعل میں صلاحیت کی کمی یا فقدان سے مفعول کی مفعولیت ومقدوریت پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔
اسی طرح اگر مفعول کی جانب ممکنات کے بجائے ممتنعات ذاتی یعنی محالات ذاتی ہوں تو فاعل کا کمال بدستور رہے گا اور مفعول میں صلاحیت کا فقدان ہوگا یعنی وہ مقدور نہیں ہوگا۔ اور اگر ممتنعات ذاتی کے بجائے ممتنعات بالغیر ہوں تو مفعول میں صلاحیت کی کمی ہوگی۔موٴخر الذکر دونوں صورتوں میں فاعل کی صلاحیت اور اس کے کمال میں کوئی فرق نہیں آئے گا۔
چنا نچہ پنڈت جی کے اعتراض میں خدا کا اپنے آپ کو مار نا یا چوری کرنا محال ہے۔اور مذکورہ بالا قاعدے کی روسے اگر محال بذریعہٴ قدرت وجود میں نہیں آتا ہے تو اس میں قدرت ِخداوندی اور اس کی قادریت کا کوئی قصور نہیں ہے؛ بلکہ خود محال میں مقدوریت نہیں ہے اور اس میں وجود میں آنے کی صلاحیت کا فقدان ہے (۴)۔
(۳)بداہت عقل
اس اصول کا مطلب یہ ہے کہ عقل کے نزدیک کسی چیزکا بلا واسطہٴ دلیل واضح اور روشن ہونا۔ اگر کوئی چیز عقل کے نزدیک بداہتہً باطل ہے (اس چیز کے بطلان کا عقل بلا واسطہٴ دلیل ادراک کرتی ہے) دوسری طرف اسی چیز کو دلیل سے ثابت کیا گیا ہو تو وہ چیز باطل ہوگی اور اس دلیل کو غلط مانا جائے گا؛ کیوں کہ عقل مصفا اشیا کے ادراک میں غلطی نہیں کرتی ہے ؛ جب کہ بواسطہٴ دلیل ثابت ہونے والی چیز میں غلطی ہوسکتی ہے۔
عقل کے نزدیک اگر کوئی چیز بلا واسطہٴ دلیل ثابت ہے تو وہ مشاہدے کے درجہ میں ہے اورآنکھ مبصرات کے مشاہدے میں غلطی نہیں کرتی ہے اور دلیل سے ثابت شدہ چیز سنی ہوئی چیز کے درجے میں ہے اور سننے میں غلطی کا امکان ہے۔اسی لیے کہا گیا ہے کہ
ع شنیدہ کے بود ما نند دیدہ
اس کی مثال ایسی ہے کہ جیسے ایک شخص کسی اونچی جگہ پر کھڑا مشاہدہ کر رہا ہے کہ سورج ابھی نکلا ہوا ہے۔ دوسرا شخص کسی کمرے میں بیٹھا ہوا اپنی گھڑی دیکھ کر کہہ رہا ہے کہ سورج غروب ہوگیا ہے۔تو وہ شخص جو اپنی آنکھ سے سورج نکلا ہوا دیکھ رہا ہے یقینا یہی کہے گا کہ یہ گھڑی غلط ہے۔
اس اصول سے حضرت نانوتوی نے عیسائیوں کے اس عقیدے کی تردید کی ہے کہ خدا ایک بھی ہے اور تین بھی۔
آپ نے فرمایا کہ توحید اور تثلیث کا اجتماع محال ہے اور اس کے محال ہونے پر عقل ایسے ہی شاہد ہے جیسے آنکھ آفتاب کے نورانی ہونے پر، یعنی جیسے بے واسطہٴ غیر، ہر کسی کو اپنی آنکھ سے آفتاب کا روشن ہونا معلوم ہوجاتاہے، ایسے ہی اجتماع ِمذکور کا محال ہونا بے واسطہٴ دلیل،عقل کے نزدیک واضح اور روشن ہے۔
اور اگر عیسائی اپنے دعوے پرموجودہ انجیل کی عبارت بطور دلیل پیش کرتے ہیں تو کہاجائے گا کہ انجیل کی وہ عبارت غلط ہے؛ کیوں کہ بداہت ِعقل کے خلاف کوئی دلیل معتبر نہیں۔
الغرض جیسے گھڑی اوقات شناسی کے لیے بنائی گئی ہے لیکن چشمِ بینا کے مقابلے میں اس کا اعتبار نہیں، اسی طرح انجیل ہدایت کے لیے اتاری گئی تھی مگر(موجودہ انجیل کا) عقل ِمصفَّا کے مقابلے میں اعتبار نہیں؛اس کی وجہ یہ ہے کہ نقل ِکتاب میں غلطی ممکن ہے؛البتہ آنکھ بشرطیکہ صاف ہو اپنے ادراک میں غلطی نہیں کرتی، اس کا ادراک یہی ہے کہ وہ مبصرات کو بے واسطہٴ غیر دریافت کرے، سماعت کی نوبت نہ آئے۔ ایسے ہی عقلِ مصفَّا بھی اپنے ادراک میں غلطی نہیں کرتی؛ مگر اس کا ادراک یہی ہے کہ معقولات کا بے واسطہٴ دلائل ادراک کرے، استدلال کی نوبت نہ آئے(۵)۔
$$$
حواشی:
(۱) حجة الاسلام، ص:۱۳۔
(۲) حجة الاسلام، ص: ۱۵، ۱۶۔
(۳) حجة الاسلام، ص: ۲۴ تا ۷۷، انتصار الاسلام، ص: ۱۷۔
(۴) انتصار الاسلام، ص:۱۳، ۱۵۔
(۵) حجة الاسلام، ص:۲۶۔
———————————————————-
ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ10 ، جلد:101، محرم-صفر 1439 ہجری مطابق اکتوبر 2017ء