اثبات حقائق کے لیے طریقہٴ استدلال (امام محمد قاسم نانوتویؒ کے اِفادات کی روشنی میں)

از: مولانا فخر الا سلام مظاہری علیگ

دور حاضر میں حقائق کو ثابت کر نے کے لیے کن اصولوں کی ضرورت ہے؟

موجود ہ حا لات میں حقائق کو ثابت کر نے کے لیے چوں کہ مادی امور(Substantial events)اور حسی مواد(Perceptible materials)کی اہمیت زیادہ ہو گئی ہے، اِس لیے اِسی تناسب سے طریقہٴ اِستدلال میں کلیاتی منہج (Holistic approach) کی طرف اِلتفات کم ہو گیا ہے ۔یہ بات ڈاکٹر یوسف امین صاحب نے ایک موقع پر کہی تھی ،اورمحسوس یہ ہوتا ہے کہ اُن کی یہ شکایت بجا ہے؛ کیوں کہ حقیقت یہ ہے کہ دور حاضر میں جب تک سائنس،ماڈرن فلاسفی اور قدیم فلسفہ،اِ ن تینوں کو پیشِ نظررکھ کر بات نہ کہی جائے ،اُس وقت تک مسائل کا حل پیش کر پا نا،اور صحیح فکر متعین کرنا مشکل ہے؛کیوں کہ:

$ ۱۶،ویں صدی عیسوی کے ماڈرن عہد سے زور پکڑنے والا سائنسی مزاج اپنی تمام تر جولانی کے ساتھ آج ہمارے سامنے مو جود ہے؛اس لیے اس کی ضرورت پر دلائل پیش کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔اورماڈرن فلاسفی کو زیرِ بحث لانا؛ اس لیے ضروری ہے کہ :

$ ۱۷ ویں صدی سے لے کر اب تک جتنے اہم اِزم، افکاراور نظریات ہیں،اُن کے بانی اور موجد فلسفی ہیں،خواہ اُن موجدین کی شہرت اپنے اپنے وقت کے بڑے بڑے سائنس داں ہونے کی حیثیت سے کیوں نہ رہی ہو؟رہاقدیم فلسفہ،تو:

$ قدیم فلسفہ کا ایک خاص مزاج اور خاص خصوصیت ہے،جس کی وجہ سے اُس کا سہارا لینا ضروری ہے۔وہ خصوصیت یہ ہے کہ اس نے مٹیریلزم(Materialism) سے اپنا دامن بچا کر خالص عقل و حکمت پر مبنی دلائل و براہین اور کلیات و اصول مقرر کیے ہیں۔پھر اس قدیم فلسفہ کے حوالے سے اُن فلاسفہ کی نظر زیادہ دقیق اور باریک ہے،جوآسمانی ہدایات(Divine law)کے پابند رہ کر باطنی علوم،وجدان ووحی(Revalation)سے اِستفادہ کرتے ہیں۔اِن باتوں کو سامنے رکھتے ہوئے ہم دیکھتے ہیں کہ:

$ عہد جدید(۱۷ ویں تا ۲۰ویں صدی عیسوی)میں شاہ ولی ا لله صاحب کے بعد ۱۹ ویں اور بیسویں صدی میں علی الترتیب امام محمد قاسم نا نوتوی اور حکیم ا لامت مولانا اشرف علی تھانوی کے نام بہت نمایاں ہیں۔اِس موقع پر حیات اور ذی حیات کی ماہیت سے متعلق اہلِ سائنس کے ذکر کردہ معیار کا ایک اِجمالی جائزہ، امام محمد قاسم نا نوتوی کے اصولوں کی روشنی میں پیش کیا جا تا ہے۔

ذی حیات و غیر ذی حیا ت(Living& Non living)

ذی حیات اجسام کی خصوصیات بیان کرتے ہوئے سائنس میں یہ باتیں ضرو ری قرار دی گئی ہیں:

(ا) خلیہ(cell) سے بنے ہوتے ہیں۔(۲) تولید و تناسل ہو تا ہے(۳)نشو و نماپایا جا تا ہے (۴) اپنی غذا تیار کرتے اور اُسے استعمال کرتے ہیں۔(۵)اپنے ما حول سے تاثر اور احساس ،ان میں پایا جا تا ہے(۶) ان میں حرکت پا ئی جاتی ہے۔ (۷) تنفس پایا جا تا ہے(۸) فضلات خارج ہو تے ہیں۔اِس معیار کے تحت انسان،حیوانات،بیکٹیریا،پروٹسٹ(خوردبینی اجسام کی ہی ایک قسم)، فنجائی ،طحلب(کائی،algae) اورنبا تات ذی حیات میں داخل کیے جا تے ہیں۔اِس کے برعکس غیرذی حیات اجسام میں نشو و نما،حرکت،تنفس،فضلات کا اِخراج وغیرہ حیات سے متعلق کوئی بات نہیں پا ئی جا تی:جیسے تمام جمادات ؛ مٹی ،ہوا،معادن،روشنی اور پانی وغیرہ،یہ سب غیر ذی حیات ہیں۔

مگر ذی حیات اور غیر ذی حیات کی اِس ماہیت کے ساتھ ہی یہ بھی معلوم ہو نا چا ہیے کہ یہ وضاحت استقرائی اصول(Inductive method)پر مبنی ہے؛اس لیے اِس کو حتمی اور قطعی قرار نہیں دیا جا سکتا۔یہی وجہ ہے کہ ۱۹ ویں صدی عیسوی کے عظیم عبقری مولا نا محمد قاسم نا نوتوی نے اِس کے بر عکس ایک دوسری تحقیق پیش کی ہے ۔

وجود(Existence):

مولا نا محمد قاسم نا نوتوی کی تحقیق کی رو سے ذی حیات اور غیر ذی حیات کا مذکورہ معیار (criteria)اُس وقت تک ناتمام رہتا ہے؛ جب تک اِس میں ”وجود “کی بحث کو شامل کر کے ”موجود “کے اجزاء پر کلام نہ کیا جا ئے -اجزاء سے مراد وہ دو چیزیں جو ہر موجود میں پائی جاتی ہیں جنہیں حضرت نانوتوی کے محاورہ میں”وجود“ اور” ذات“ کہتے ہیں، اُن کے خواص و اوصاف کا جائزہ، جب تک نہ لے لیا جائے اور تجزیہ کر کے ، الگ الگ روشنی ڈال کر ان کی ماہیتیں واضح نہ کر دی جائیں ۔نیز یہ نہ بتلا دیا جا ئے کہ کسی بھی موجودکی ”ذات“ یعنی اُس کا اپنی خصوصیات کے ساتھ تشخص اُس وقت تک پا یا نہیں جا سکتا؛ جب تک کہ اُس کے ساتھ” وجود “شامل نہ ہو۔اور وجود جب بھی شامل ہو گا ،حسبِ استعدادِ ”قابل“(object)اپنی خصوصیاتِ سبعہ (حیات، علم، مشیت، کلام، ارادہ، قدرت، تکوین) کے ساتھ شامل ہو گا۔اِس معیار پر حیات، شعور،علم،ارادہ وغیرہ صفات نہ صرف انسان ،حیوان اور نبات میں؛بلکہ ہر موجود حجر،شجر،جماد،میں پائی جانی ضروری ہیں ۔

حیات :

انسا ن اور حیوانات میں تو حیات کی گفتگو خارج از بحث ہے۔رہے نبا تات و جما دات،تو نبات میں اہلِ سائنس حیات کے قائل ہیں،اور اِسی وجہ سے وہ اِ س کے بھی قائل ہیں کہ درختوں کے تنے اپنی توانائی حاصل کرنے کے لیے خود کو آفتاب کے محاذات میں لانے کے وقت حرکت کرتے ہیں۔ (ملاحظہ ہو: www.bbc.uk/education/clips/zyvs34j،نیز gravitotropism in plant)لیکن جمادات میں ،وہ اِس شعور و حیات کی موجودگی کے منکرہیں۔ حیات سے متعلق سائنسدانوں اور فلسفیوں کی ذکر کردہ مذکورہ ماہیت کو مزید وسعت دیتے ہوئے مشہور مفکر و محقق امام محمد قاسم نانوتوی (۱۸۳۳تا۸۸۰ا)نے اپنی ایک تحقیقی گفتگو میں یہ اہم اورحیرت انگیز نتیجہ پیش فرمایا ہے کہ:

”ما سوا انسان اور حیوانات کے زمین،آسمان،درخت،پہاڑ؛بلکہ مجموعہٴ عالم“ کے لیے حیات اور روح ثابت ہے۔اور یہ کہ :

 ”ہر ہر شی میں جان ہے،اور ہر ذرہ اور ہر چیز کے لیے ایک روح ہے۔“(تقریر دل پذیر ص۹۵،۹۶.از امام محمد قاسم نانوتوی،شیخ الہند اکیڈمی۱۴۳۱ھ)

طبیعت:

اسی طرح فلسفہ اور علم طبعی میں”طبیعت “کی تعریف یہ ہے کہ یہ ایک ایسی قوت ہے جس میں خود توشعور اور ارادہ نہیں ہو تا؛لیکن ہر شعوری اور ارادی حرکت کی ذمہ دار ہو تی ہے۔اِس لحاظ سے حرکت کی بھی تین قسمیں کی گئی ہیں۔ (۱)حرکتِ ارادی(Voluntary movement)  (۲)حرکتِ طبعی(Immanently Movement)  (۳)حرکتِ قسری(Involuntary movement) لیکن امام محمد قاسم نا نوتوی کے نزدیک یہ تقسیم مخدوش ہے۔وہ حرکتِ طبعی کا-اس معنی میں جس کے فلاسفرز اور سائنسداں قائل ہیں-انکار کرتے ہیں۔وہ فرماتے ہیں کہ حرکت کی صرف دو قسمیں ہیں:(۱)حرکتِ ارادی (Voluntary movement) (۲)حرکتِ قسری (Involuntary movement)۔ رہی حرکتِ طبعی،تو اُس کو وہ حرکتِ ارادی (Voluntary movement)کی ہی ذیلی قسم قرار دیتے ہیں؛ کیوں کہ شی کی طبعی حرکت کا یہ مطلب کہ وہ فاعل کے ارادہ کے بغیر صادر ہو رہی ہو-حضرتِ نانوتوی کے بیان کے بموجب،دلائل کی روشنی میں- نہ صرف یہ کہ ناثابت ہے؛بلکہ نا قابلِ ثبوت ہے،جس کی دلیل ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں :

”کون نہیں جانتا کہ فاعل بے ارادہ ایک مفہومِ بے مصداق؛بلکہ ممتنع (محال)ہے۔فعل کے لیے فاعل میں ارادہ شرط ہے،ورنہ وہ اُس کا فعل نہیں ،کسی قاسر (مجبور کرنے والی قوت)کا فعل ہے۔ بہر حال فعلِ فاعل (دو قسموں)ارادی اور قسری میں منحصر ہے۔فعلِ طبعی ظاہر میں قسم ثالث ہے، ورنہ غور سے دیکھو،تو انہی (ارادی اور قسری)میں داخل ہے۔“(آبِ حیات ص۴۳.از امام محمد قاسم نانوتوی،شیخ الہند اکیڈمی ۱۴۲۹ھ)

موصوف کے قول کے مطابق فعلِ ارادی میں ارادہ نمایاں اور ظاہر ہوتا ہے؛جب کہ فعلِ طبعی میں ارادہ مخفی اور پوشیدہ ہوتا ہے؛لیکن ہوتا ضرور ہے۔ امام محمد قاسم نا نوتوی کی یہ تحقیقات جو ”وجود“،”ذات“،اِن دونوں کے ما بین ربط(connection)،”حیات“،”روح“ اور ”طبیعت“ سے متعلق ہیں ،نہایت درجہ اہمیت کی حامل ہیں۔اِن تحقیقات کی روشنی میں نہ صرف جدید فلسفہ کے بعض عقدے کھولے جا سکتے ہیں؛بلکہ ایک طرف جہاں سائنس کے بعض قوانین کے اِجرا و اِطلاق کی نوعیت واضح کی جا سکتی ہے،وہیں دوسری طرف مذہبِ اسلام کے متعدد مسائل سے متعلق فلسفہ اور سائنس ،دونوں کے اِضطرابات کو بھی،اِن تحقیقات کی رو سے دور کیا جا سکتا ہے۔اِس کی کچھ تفصیلات احقر کی مرتب کردہ کتاب ”الامام محمد قاسم النانوتوی اور جدید چیلنج“ باب۱۰کے تحت دیکھی جا سکتی ہیں۔

———————————————————-

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ10 ، جلد:101‏، محرم-صفر 1439 ہجری مطابق اکتوبر 2017ء

Related Posts