نشہ اور خودکشی کابڑھتا رجحان اور خیرِامت کی خاموشی

از: ڈاکٹر ایم اجمل فاروقی

جولائی ۲۰۱۷/ میں بہ ظاہر دو معمولی واقعات کی رپورٹنگ ہوئی، جو امت مسلمہ کے خصوصاً اور عالمِ انسانیت کے لیے عموماً وجہٴ تشویش ہے۔

 پہلی خبر علی گڈھ مسلم یونیورسٹی میں یونیورسٹی کی تاریخ میں کسی طالب علم کی پہلی خودکشی سے متعلق ہے۔ تفصیلات کے مطابق طالب علم انجینئرنگ کی تعلیم حاصل کررہا تھا اور غیرمقیم ہندوستانی تھا۔ ایک امتحان میں ”بیک“ ہونے کی وجہ سے انتہائی دل برداشتہ تھا، گھر کے دباؤ یا ساتھیوں سے شرمندگی کے احساس سے مغلوب ہوکر خودکشی کا فیصلہ کرلیا مسجد میں جاکر دورکعت نماز پڑھی اور ہاسٹل ہال کی چھت پر چڑھ کر پٹرول چھڑک کر آگ لگالی، جب تک دوسرے طلباء پہنچتے بدقسمت طالب علم ستر فی صد سے زائد جل چکا تھا، بعد میں دہلی کے اسپتال میں طالب علم کا انتقال ہوگیا۔

دوسری خبر N.D.T.V. پر پیش کیے گئے دستاویزی پروگرام سے ہے، جس کے مطابق دہلی کے مسلم اکثریتی غریب علاقہ سیماپوری میں نشے کے جال میں پھنستی مسلم نئی نسل کے احوال و بستی میں ہورہی نشہ آورادویہ، شراب کی بڑھتی لعنت کی تصویر کشی کی گئی ہے۔

یہ پروگرام دیکھنے کے لیے بڑے دل گردہ کی ضرورت تھی کس طرح گندگیوں کے ڈھیر، گندی نالیوں اور تعفن زدہ مکانوں میں نوخیزمسلم بچہ انجکشن لگارہے ہیں۔ ماں، باپ، بھائی، بہن، بیویاں، بچہ روروکر تباہی اور بربادی کی داستان بیان کررہے ہیں؛ مگر نشہ کے شکار نوجوان اپنے مستقبل سے بے پرواہ، بے ہوش اپنی دنیا میں مست گندگیوں میں پڑے ہوئے تھے۔ کئی خاندانوں میں پسماندگان نے بتایا کہ کس طرح ان کے بیٹے، شوہر نشہ کا شکار ہوگئے اور یہ حال کسی دورافتادہ گاؤں یا شہر کا نہیں، راجدھانی دہلی کے محلہ کا ہے۔ جہاں ہر بڑی چھوٹی دینی ملی جماعت کا مرکزیا آفس ہے۔ بڑی بڑی درگاہیں اور صوفیاؤں کی خانقاہیں ہیں، بڑے بڑے N.G.O. ہیں؛ مگر ان سب کے وجود کا اس بستی پر کوئی اثر نہیں آیا۔ خوکشی اور نشہ کی لت اس وقت پوری دنیا میں وبا کی شکل اختیار کرتی جارہی ہے، پورے پورے خطے نشہ آور ادویہ کی زد میں ہیں۔

 مسلم ممالک ایران، افغانستان، پاکستان، سعودی عرب سب نشہ کی روز افزوں لعنت کی گرفت میں ہیں۔ مسلم معاشرہ یا ممالک کے علاوہ غیرمسلم مقامی معاشرہ یا مغربی معاشرہ سب کے سب نشہ اور خودکشی دونوں کی لعنت میں تیزی سے گرفتار ہورہے ہیں۔

 اگر یہ مسئلہ صرف غریب، کم پڑھے لکھے یا جاہل معاشرہ کا ہوتا تو ہم اس کو کم تعلیم، بیروزگاری، وسائل کی کمی، غربت سے جوڑ کر دیکھ سکتے تھے؛ مگر اعداد وشمار اور روزانہ کے واقعات بتارہے ہیں کہ سماج کا ہر طبقہ اس سے یکساں طور پر متاثر ہے۔ اوسط کا کچھ فرق ہوسکتا ہے۔ مثلاً ہندوستان میں پنجاب ہرلحاظ سے خوشحال ریاست ہے؛ مگرنشہ نے پوری ریاست کو جس بری طرح جکڑ رکھا ہے وہ اس بات سے ظاہر ہے کہ حالیہ اسمبلی الیکشن میں نشہ کا موضوع بہت اہم تھا اور اکالی، بی جے پی سرکار اس کے لیے ذمہ دار بتائی جارہی تھی۔ اس موضوع پر ”اڑتا پنجاب“ نام کی فلم بھی چرچا میں رہی۔ وہیں کیرل کی ریاست ملک کی سب سے زیادہ خواندگی والی تقریباً صد فی صد خواندہ ریاست مانی جاتی ہے۔ مالی حالات بھی بہار، بنگال اوریوپی جیسے برے نہیں ہیں، پھر بھی ملک گیر اعداد وشمار میں خودکشی کے واقعات سب سے زیادہ اسی ریاست میں ہورہے ہیں۔ پھر ان حالات کی توجیہ وتوضیح کیسے کی جاسکتی ہے؟

دونوں موضوعات پر دنیا بھر میں بحث ومباحثہ، غور وخوض، تجربہ چل رہا ہے۔ عموماً دنیاوی اسباب جو گنائے جارہے ہیں، ان میں بے روزگاری، آمدنی کی کمی، جہالت اور بکھرتا انسانی معاشرہ، انسانی رشتہ وروابط میں محبت اور غمگساری کا کم ہوتا رجحان اہم مانے جارہے ہیں۔ سماج کے مختلف طبقات کی بات کریں تو نوجوان لڑکے لڑکیاں، طالبِ علم، خواتین اور کسان مختلف الگ الگ وجوہات کی بنا پر دونوں خطرات میں زیادہ پھنس رہے ہیں؛ مگر یہ تجربات اور ان کی بنا پر پیش کیے جانے والے حل دونوں ہی اکثر وبیشتر غلط ثابت ہورہے ہیں؛ کیوں کہ دنیا میں رائج نظریات اور ان کی بنا پر تعمیر کیاگیا انسانی معاشرہ مطلقاً کائنات کے خالق ومالک کو اور اس کے ذریعہ کی گئی رہنمائی سے انکار اورمخالفت پر مبنی ہے۔

آسمانی ہدایت آج کے معاشرہ میں مذاق کا موضوع ہے اور یہ ایک عجیب صورت حال ہے کہ آج پوری دنیا کے تمام مذاہب کے پیروکاروں میں جہاں مذہب پرستی اور اس کے مظاہر کا اُبال آیا ہوا ہے، وہیں حقیقی دین پسندی عملی زندگی میں داخل ہونے سے دین کی برکات حاصل نہیں ہورہی ہیں۔ دنیا کی حقیقت، انسانی زندگی کی حقیقت، دنیا میں آنے کا مقصد، موت کے بعد کے حالات وغیرہ سے متعلق اہم سوالات ہیں، جن کے جوابات خدا بیزار علم گمراہ کُن طورپر دے رہا ہے۔ اللہ پاک کے ارشاد ”خشکی اور تری میں لوگوں کی بداعمالیوں کے باعث فساد پھیل گیا؛ اس لیے کہ ان کے بعض کرتوتوں کا پھل اللہ تعالیٰ چکھا دے (بہت) ممکن ہے کہ وہ باز آجائیں“ (الروم:۴۱)۔

کیوں کہ یہ فساد عقیدہ کا بھی ہے اور عمل کا بھی؛ اسی لیے اس کے مظاہر گوناگوں طریقہ سے ظاہر ہورہے ہیں، مادی دنیا میں جہاں ماحولیات اور آلودگی، ارضی درجہٴ حرارت کی خطرناک بڑھوتری، موسموں کا غیریقینی ہونا، سمندر کی سطح کا بلند ہونا اور سطح سمند پر درجہٴ حرارت بڑھنا جیسے مظاہر ظاہر ہورہے ہیں۔

سماجیات کی دنیا میں مذکورہ بالا مسائل خودکُشی اور نشہ آور اشیاء کا استعمال انسانی معاشرہ کو گھن کی طرح کھارہا ہے۔ آج بچہ کی پیدائش کے ساتھ ہی اس کے کان میں اچھے اسکول، حقِ تعلیم، اچھا کیرئیر، بہتر مستقبل ہی واحد مقصدِ زندگی کے طورپر گھولاجاتا ہے۔ پورے معاشرہ اور سرکار کی کوشش اسی کے گرد گھومتی ہے۔ زندگی کے متعلق اس نظریہ کو قرآنِ پاک میں اس طرح واضح کیاگیا ہے کہ ”یہ کہتے ہیں کہ دنیا کی زندگی ہی ہماری زندگی ہے۔ ہم مرتے اور جیتے ہیں اور ہمیں صرف زمانہ ہی مارڈالتا ہے۔ دراصل انھیں اس کا کچھ علم ہی نہیں ہے، یہ صرف قیاس اور اٹکل سے کام لے رہے ہیں۔“ (الجاثیہ:۲۴)

اب جب دنیا کی زندگی ہی سب کچھ ہے اور اسی کو زیادہ سے زیادہ حاصل کرلینا ہی کامیابی مانا گیا، انسان کے دوسرے اوصاف کی کوئی قدر وقیمت نہیں رہی، بغیر مادی فائدہ کے کوئی کام بیکار سمجھا گیا، تو اس دوڑ میں جس کو قرآن پاک میں ”تنافس“ ، ”تکاثر“ اور ”تفاخر“ کے نام سے موسوم کیاگیا ہے، جو پیچھے رہ جائے گا، اس کے لیے جینے میں مزہ کیا ہے؟ وہ کس عزم اور مقصد کے لیے زندہ رہے؟ وہ اپنی مجبوری، ناکامی، مایوسی کے احساس کو دفن کرنے کے لیے کیوں نہ ڈرگس اور شراب کا استعمال کرے؟ جب اس کی ”ناکامی“ اور”مایوسی“ کی حالت میں نہ سماج اورنہ حکومت کوئی مدد کرتی ہے؛ کیوں کہ یہ دونوں مادہ پرستانہ نقطئہ نظر کے حامل ہیں اور غیرنفع بخش کام میں وسائل خرچ نہیں کرتے تو ”مایوس“، ”مجبور“ انسان چاہے وہ طالب علم ہو، خاتون ہو، کسان ہو، مریض ہو؛ کیوں اور کس کے سہارے زندہ رہے؟ آج مختلف حیلہ بہانوں سے عقیدہ کی گرفت کمزور کی جارہی ہے، جس کی وجہ سے انسان اندر سے کمزور ہورہا ہے اور مجموعی طور پر سماج صرف ”نفع“ اور ”فائدہ“ کے اصول کے تحت زیادہ سے زیادہ ”خود غرض“ اور انفرادیت پسند ہورہا ہے۔ اب وہ سماج کے تئیں اپنی کوئی ذمہ داری نہیں سمجھتا ہے۔

 امتِ مسلمہ بھی آج عقیدہ کی کمزوری میں بُری طرح مبتلا کی جارہی ہے، عقیدہ کو مراسمِ عبودیت تک محدود کیا جارہا ہے۔ اس کے باوجود ان دونوں بیماریوں سے یہ امت کافی حد تک محفوظ تھی اوراب بھی نسبتاًدوسری اقوام سے حالات بہتر ہیں؛ کیوں کہ اللہ پر بھروسہ، دنیا کے فانی ہونے کا عقیدہ اور آخرت کی زندگی اور حساب وکتاب پر ایمان اور وہاں کی کامیابی کا عقیدہ، ”جو آگ سے ہٹالیاگیا اور جنت میں داخل کیاگیا وہ کامیاب ہوگیا اور یہ دنیا کی زندگی دھوکہ کا سامان ہے“ (آل عمران:۱۸۵) کا وہ عقیدہ ہی انسان کا وہ سہارا ہے جو اسے مایوسیوں اورناکامیوں کی انتہاؤں میں بھی انسان کا حوصلہ بلند رکھتا ہے۔

دنیا کی طرح یہاں کے حالات کے بھی تغیر پذیر ہونے کا عقیدہ ”آدمی کو مکمل مایوسی سے بچاتا ہے اور انتہائی اقدامات اٹھانے سے محفوظ رکھتا ہے“۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ”تاکہ تم اپنے سے فوت شدہ کسی چیز پر رنجیدہ نہ ہوجایا کرو اور نہ عطا کردہ چیز پر اترایا کرو“ جیسے احکامات انسان کے لیے انتہائی تقویت کا باعث ہوتے ہیں۔

خدا بیزارنظاموں میں چاہے وہ جمہوری ہوں یا آمریت پسند انسانوں کے مختلف طبقات کے ساتھ مکمل انصاف نہیں ہورہا ہے۔ وہ کسی نہ کسی طبقہ کی طرف جھکا ہوا رہتا ہے۔ یہ حقیقت انقلاب فرانس کے بعد تاریخ سے بالکل عیاں ہے۔ چاہے سرمایہ دارانہ نظام ہو یا اشتراکی نظام دونوں میں یہ کمی موجود ہے۔ نتیجتاً عوام کا بڑا طبقہ آزمائشی یا ایمرجنسی حالات میں اپنے آپ کو بے دست و پا محسوس کرتا ہے۔

ہمارے ملک میں سماجی تحفظ کے نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔ اگر ہے تو اونٹ کے منھ میں زیرہ جیسی بھی نہیں ہے۔ عوامی فلاحی بجٹ مستقل کم کیا جارہا ہے۔ خوراک، دوا، علاج، مکان، تعلیم لگاتار سب مہنگے ہورہے ہیں۔ اگر گھرمیں اچانک حادثہ یا بیماری یا تعلیمی خرچ آجائے تو سود پرقرض لینے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ہے۔ سرکاری اسپتالوں میں ہر سہولت کی فیس مقرر ہوگئی ہے۔ تعلیمی بجٹ لگاتار کم ہورہا ہے۔ تعلیمی قرض کا حجم لگاتار کم ہورہا ہے۔ پرائیویٹ بینک تعلیمی قرض کا حجم پچیس فی صد سے پانچ فی صد پر لے آئے ہیں۔ یہ بات ۲۳/جولائی۲۰۱۷/ کو شائع شدہ مضمون میں پی چدمبرم نے لکھی ہے۔

اچانک بیماری، موت یا حادثہ اور بے روزگاری نشہ اور خودکشی کی بڑی وجہ ہے، جس میں خاندان کا تانا بانا بکھر جاتا ہے، سرکار کی بیوہ پنشن کی مقدار اتنی ہوتی ہے کہ اس سے آدھا کیلو دودھ ماہانہ لینا بھی مشکل ہے۔ پھر ان سب کو حاصل کرنے کے لیے لمبی چوڑی سرکاری کارروائی پٹواری، لیکھ پال، انسپکٹر کے چکر اور کمیشن سب مل کر بہت مایوس کرنے والا ہوتا ہے۔ طالب علموں پر زبردست ذہنی دباؤ ہمیشہ نمبر۱ پر رہنے کا والدین کا ذریعہ بنارہتا ہے، جس کی وجہ سے وہ مستقل زبردست تناؤ کی حالت میں رہتے ہیں اور قراریا سکون کے لیے ڈرگس کے چکر میں آرہے ہیں۔

یہ کہانی ہر چھوٹے بڑے اسکول: IIT، میڈیکل کالج اور ریسرچ اسکالروں کی ہے۔ کوٹہ میں ہونے والی خودکشی کی روزافزوں واردات اور IIT کانپور میں خودکشی کی شرح اموات کے پیچھے یہی احساسِ ناکامی یا اندیشہٴ ناکامی پایا جاتا ہے۔

ایک اور بڑی وجہ سماج میں صارف کلچر کی بے پناہ طلب اور ہوس بھی ہے، جہاں گھر کے مکھیا پر گھر کے لوگوں کا ھَلْ مِنْ مَزِیْد کا نعرہ ہے، جس کی وجہ سے نشہ، کرپشن اورانجام کار خودکشی کے واقعات ہر معاشرہ میں تیزی سے بڑھ رہے ہیں۔ وجوہات الگ الگ ہوسکتی ہیں؛ مگر نتیجہ یہی فرار اور مایوسی ہے۔ یہ بات تو طے ہے کہ دنیا میں نافذ نظامِ حیات یہ اور اس کی طرح کے مظاہر فساد فی الارض روکنے میں ناکام ہیں اور رہیں گے؛ کیوں کہ یہ ان کے دماغوں کی اُپج ہے، جن کا انسان اور کائنات کے بارے میں علم ناقص، ادھورا اور تغیرپذیر ہے۔ یہ آج کچھ قانون بناتے ہیں کل اس کے الٹا قانون بناتے ہیں۔ مثلاً جب نشہ کی لت کوروک نہیں پائے تو اُسے جرم کی فہرست سے ہی خارج کردیا۔ خودکشی پہلے ہمارے ملک میں جرم تھی، اب اس مسئلہ کو ایسے حل کیا کہ اسے جرم کی فہرست سے خارج کردیاگیا۔ اس طرح مانگ اٹھ رہی ہے کہ سٹہ، جوا بھی جرم کی فہرست سے خارج کردیا جائے۔ اس کے برعکس الٰہی رہنمائی میں قوانین اس خالق کی طرف سے بنائے گے ہیں جس نے انسانوں کو تخلیق کیا ہے جو انسانوں کو اور ان کی ہر طرح کی ضروریات کو پورا کرنے والا اور نشوونما دینے والا رب العالمین ہے۔ اس نے ایک طرف عقیدہٴ آخرت، تقدیر پر بھروسہ، اللہ پر توکل اور دعا ومناجات کے ذریعے انسانوں کے قلوب کو ہر طرح کی مصیبت اور آزمائش کے لیے مضبوط بنایا، ان کو زندگیوں کو سادہ بنائے رکھنے کی تلقین، ”اس کی امیدیں قلیل، اس کے مقاصد جلیل“ کے تحت انسانوں کو زیادہ سے زیادہ حاصل کرنے اور صرف کرنے کی خواہش پر لگام لگایا۔

دوسری طرف زکوٰة اور بیت المال کے نظام اور حقوق العباد کی زبردست ترغیب اور نظم کے ذریعہ سماج کے ہر فرد کو دوسرے فرد کے ذریعہ مضبوطی عطا کی۔

حضورِ اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (مفہوم) تم مال چھوڑ کر گئے تو مال تمہارے وارثوں کا اور اگر ذمہ داری چھوڑ کر گئے تو وہ میری یعنی (اسلامی ریاست) کی ذمہ داری ہے۔ جس طرح سے زکوٰة کو عبادات میں شامل کرکے فرض قرار دیاگیا اور اس کے لیے اوپر سے نیچے تک ایک نظم بنایا گیا اور سود کو حرام قرار دیاگیا، اگر صرف یہ دو چیزیں ہی اپنالی جائیں تو بیروزگاری، نشہ، خودکشی، گداگری اور کرپشن سب پر قابو پایا جاسکتا ہے؛ مگر آج صورتِ حال یہ ہے کہ مسیحا آپ خود بیمار ہے وہ عقیدہ کے محاذ پر بھی کمزور اور بیمار ہورہا ہے اور عملاً زکوٰة، صدقات اور سماجی فلاح کے کاموں سے بھی دور ہورہا ہے؛ بلکہ ان کو دھندا بنالیا ہے۔

آج اگر گلی گلی، محلہ محلہ زکوٰة کا نظم ہو غریبوں، بیماروں، طالب علموں، بے روزگاروں کی خبر گیری ہو، ان کو اپنے پیروں پر کھڑا کرنے کی کوشش ہو، ان کی ہنگامی ضرورتیں پوری کرنے کا نظم ہو تو مایوسی اور ناکامی کیوں ڈیرا جمائے گی؟ امتِ مسلمہ کو حالات کی سنگینی کو سمجھ کر اپنے وسائل اور افرادی طاقت کو استعمال کرنا ہوگا۔

ایک طرف عقیدہ کی مضبوطی، دنیا اور آخرت کی حقیقت اور حقیقی کامیابی کے الٰہی پیمانہ عام کرنے ہوں گے۔ جس عقیدہ کو ہم رٹاتے ہیں اسے سمجھانا بھی ہوگا۔

دوسری طرف امربالمعروف ونہی عن المنکر کے ذریعہ سماج میں فحش ومنکرات کا مقابلہ کرنا ہوگا۔

تیسری طرف زکوٰة، صدقات کے محلہ واری نظم کو منظم کرنا ہوگا۔ آخر قوم آج بھی اربوں روپیہ زکوٰة ادا کررہی ہے، پھر بھی مجبوری اورمحرومی کیوں؟ ہمارے بچوں اور نئی نسل کو خودکشی، جرائم اورنشہ میں مبتلا کررہی ہے؟ ہونا یہ چاہیے کہ یہ خیرِامت دوسروں کی رہنمائی کرتی، ان کی داد رسی کرتی، ان کی مشکل کشائی کرتی؛ مگر یہ خود انھیں امراض میں مبتلا ہوکر خدا اور رسولِ خدا کی رسوائی کا باعث ہے۔ ہمیں دنیا اور آخرت میں عزت اور کرامت چاہیے تو اپنا خیرِامت کا کردار ادا کرنے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ہے۔

———————————————————–

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ10 ، جلد:101‏، محرم-صفر 1439 ہجری مطابق اکتوبر 2017ء

Related Posts