از: مولانا مفتی عبداللہ معروفی

استاذ تخصص فی الحدیث دارالعلوم دیوبند

موت ہر ایک کو آنی ہے اورآتی ہے، مگر اللہ کے کچھ بندے ایسے بھی ہوتے ہیں جن کی موت اکیلے کی نہیں؛ بلکہ ایک آباد اور ہری بھری دنیا کو ویران کردیتی ہے، استاذِ محترم شفقتِ مجسم حضرت مولانا ریاست علی ظفر بجنوری رحمہ اللہ، استاذِ حدیث دارالعلوم دیوبند، ونائب صدر جمعیة علماء ہند کی وفات حسرت آیات بھی ایسی ہی ایک رحلت ہے جس کی کسک ہر خاص وعام کو مدتوں رہے گی، جن کو آج مدظلہ العالی اور دامت برکاتہم جیسے الفاظ کے بجائے رحمة اللہ علیہ لکھتے ہوئے کلیجہ منہ کو آتا ہے۔

وہ ایک ایسے فراغ دل اور سایہ دار درخت تھے جس کی چھاؤں میں اپنا پرایا، چھوٹا بڑا، امیر غریب، استاذ شاگرد، خواندہ وناخواندہ ہر ایک ہی پناہ لینے کی کوشش کرتا اور آپ بڑی ہی وسعتِ ظرفی سے اپنے سایہٴ عاطفت میں جگہ دے بھی دیتے تھے، ایک طویل صحبت میں رہ کر ناچیز راقم الحروف نے جو محسوس کیا وہ یہ کہ دیوبند میں جس کا کوئی عزیز یاسرپرست نہیں ہوتا، ہمارے حضرت اس کے عزیز وسرپرست ہوتے، طلبہ اور فضلائے دارالعلوم کے علاوہ عام باشندگانِ شہر وقرب و جوار کی ایک بڑی تعداد کو میں نے آپ کو ”ابو“ سے خطاب کرتے یا ذکر کرتے سنا، سچ ہے، آپ اپنی صلبی اولاد ہی کے نہیں؛ بلکہ ہمارے جیسے نہ جانے کتنے وابستگان ومتوسلین، غریب الدیار وبے سہاروں کے ”ابو“ تھے۔

قدرت نے آپ کو زبردست انتظامی صلاحیت کے سات صالحیت سے بھی نوازا تھا، منتظم میں صلاحیت کے ساتھ جب صالحیت بھی ہوتی ہے تو اس کا انتظام پختہ اور مثمرِبرکات ہوتا ہے اور انتظام سے جڑے ہوئے افراد میں سے ہر ایک اپنی جگہ پرمطمئن ہوتا ہے، مولانا مرحوم کی یہ خوبی تھی کہ لوگ ان سے مطمئن رہتے تھے اور نظام بھی مستحکم طریقہ سے چلتا تھا، مولانا نے اپنے متعلقہ نظام کو بہتر سے بہتر بنانے کی کوشش فرمائی، مثلاً دارالعلوم میں امتحانات کا نظم بہت مستحکم نہیں تھا، معیارِ تعلیم بلند کرنے کے لیے آپ نے اساتذہٴ کرام کے مشورہ سے ایک ایسا ٹھوس اور مضبوط نظام بنایا جو ہر قسم کے شک اور کمزوری سے محفوظ ہے جس کی وجہ سے معیارِ تعلیم بند ہونے کے ساتھ ملک میں دارالعلوم کی نئی انتظامیہ پراعتماد بھی بحال ہوا؛ چنانچہ آج بھی دارالعلوم میں امتحانات مولانا مرحوم ہی کے قائم کردہ خطوط کے مطابق ہورہے ہیں۔

آپ کا درس طلبہ میں انتہائی مقبول تھا، راقم الحروف کو آپ سے مشکوٰة شریف اوّل، شرح نخبة الفکر اور ابن ماجہ شریف پڑھنے کا شرف حاصل ہوا ہے،آخر میں دورہٴ حدیث شریف کی اہم ترین فنی کتاب جامع ترمذی جلد اوّل کی تدریس آپ سے متعلق تھی، علمی بحثیں بہت مرتب اور منقح ہوتی تھیں، مسلکِ حنفی کی تشفی بخش ترجیحات کے ساتھ ساتھ، عقائدوفروعات میں اہل السنة والجماعة اور فکرِ دیوبند کی بھرپور ترجمانی اور طلبہ کی اس کے مطابق مثبت ذہن سازی آپ کے درس کا امتیاز تھا، اس پر زبان کی شستگی، محاورات کا برمحل استعمال اور نپے تلے الفاظ کی روانی سونے پر سہاگہ کا کام دیتی تھی۔

ناچیز راقم الحروف کو دورِ طالب علمی ہی سے حضرت مرحوم کی شفقتیں حاصل رہی ہیں، شوال ۱۴۰۱ھ مطابق ۱۹۸۱/ میں بندے کا داخلہ مادرعلمی دارالعلوم دیوبند میں ہوا، پنجم عربی کا سال تھا، ”نورالانوار“ کا سبق حضرت مولانا لقمان الحق صاحب رحمہ اللہ سے متعلق ہوا، جو حضرت مولانا سلطان الحق صاحب (ناظم کتب خانہ) رحمہ اللہ کے بڑے صاحبزادے تھے اور حضرت مولانا ریاست علی صاحب رحمہ اللہ کے برادرِ نسبتی بھی تھے، مولانا لقمان الحق صاحب رحمہ اللہ بھی طلبہ پر انتہائی شفیق تھے، ہم لوگوں کا ان کے گھر پر کثرت سے جانا ہوتا تھا، گاہے گاہے مولانا مرحوم کھانے پر بھی بلالیتے تھے، حضرت مولانا ریاست علی صاحب رحمہ اللہ سے سب سے پہلے وہیں ملاقات ہوئی۔ وضع داری، غریب پروری اور ملنے جلنے والوں کا پاس ولحاظ مولانا سلطان الحق صاحب رحمہ اللہ کی پہچان تھی اور یہ وصف ان کے دونو نسبی ونسبتی صاحبزادگان میں بدرجہ اتم منتقل ہوا، حضرت مولانا ریاست علی صاحب رحمہ اللہ اِس غریب طالب علم پر صرف اس لیے شفقت کا برتاؤ کرتے تھے کہ ”بھائی لقمان“ سے اس کا خصوصی تعلق ہے؛ چنانچہ بارہا اپنے اعزاء اور متعارف لوگوں سے حضرت مرحوم نے احقر کا اسی عنوان سے تعارف بھی کرایا تھا، پھر جب حضرت مرحوم سے براہِ راست استفادہ ہونے لگا تو یہ تعلق بالواسطہ ہونے کے بجائے بلاواسطہ اور مضبوط ہوگیا۔

حضرت مرحوم کو بدلتے حالات میں ملتِ اسلامیہ کے تقاضوں کے مطابق دارالعلوم کی جانب سے عملی اقدامات کی بھی دھن رہتی تھی، چنانچہ آپ نے اپنے دورِ نظامت میں شعبہٴ تخصص فی الحدیث کے قیام کی تجویز رکھی اور آپ کی تحریر پر ۱۴۱۱ھ میں مجلس شوریٰ نے اسے منظور بھی کرلیا؛ لیکن کسی وجہ سے اس تجویز کو عملی شکل دینے میں تاخیر ہوتی گئی اور ۱۴۲۰ھ میں حضرت مولانا نعمت اللہ صاحب دامت برکاتہم کو نگراں مقرر کرکے باضابطہ شعبے کا قیام عمل میں آیا۔ ابتدائی خاکہ اور نصاب وطریقہٴ کار کے تعین کے سلسلہ میں حضرت مرحوم، حضرت مولانا نعمت اللہ صاحب مدظلہ کے معاون ومشیر رہے اور الحمدللہ ایک جامع ومفید دوسالہ نصاب مرتب ہوکر کام شروع ہوگیا۔

اس شعبہ میں مستقل مدرس کی حیثیت سے احقر کا تقرر عمل میں آ یا، جس میں حضرت مرحوم کا انتہائی اہم کردار رہا، شعبہٴ تخصص فی الحدیث کے نصاب کی ایک بڑی خوبی یہ ہے کہ اس میں محدثین اور فقہاء دونوں کے مذاق کا یکساں طور پر خیال رکھا گیا ہے، نہ تو فقہی پہلو کو نظر انداز کرکے صرف قواعدِ محدثین ہی کی تطبیق ومشق میں طلبہ کو لگادیا جاتا ہے کہ فقہائے کرام کی تمام تر کاوشیں ہمارے فاضل کو کمزور اور بے دلیل نظر آنے لگیں اور نہ ہی طریقہٴ محدثین کے مطابق حدیثوں کی تصحیح و تضعیف کے اصول کی معرفت اور تطبیق کی مشق میں کوئی کسر چھوڑی جاتی ہے؛ بلکہ ناقدینِ حدیث کے معیارِ تنقید کو باریکی سے پڑھنے کا موقع دیا جاتا ہے؛ تاکہ اس فن میں ہمارے باحث کو مکمل بصیرت حاصل ہو اور فکری آزادی وکج روی سے محفوظ رہتے ہوئے حدیثوں پر حکم لگانے کی ان میں صلاحیت پیدا ہو، ساتھ ہی فقہی ابواب کی اُن احادیث کی ایک معتدبہ مقدار بھی طلبہ کو یاد کرادی جاتی ہے جن سے حضراتِ فقہاء استدلال کرتے ہیں؛ چنانچہ تین سو (۳۰۰) احادیث کو ان کی اسنادی حیثیت سمیت حفظ کرنے کا ہر طالب علم پابند ہوتا ہے۔

حضرت مولانا ریاست علی صاحب رحمہ اللہ کو اس شعبہ سے اتنی دلچسپی تھی کہ ہر سال حفظِ حدیث کا امتحان شوق سے لیتے تھے؛ چنانچہ وفات سے چند روز قبل بھی دونوں جماعتوں کے امتحانات لیے اور شعبہ کی عمدہ کارکردگی کو سراہا۔

     حضرت مرحوم اس شعبہ کی افادیت، اس کے نصاب اور طریقہٴ کار کے اس قدر قائل تھے کہ آپ نے ملک میں اس طرز پر دیگر اداروں کے قیام یا مدارس وجامعات میں اسی نہج پر تخصصاتی شعبے قائم کرنے کا مخلصانہ مشورہ بھی دیا ہے، ۱۴۲۵ھ میں طلبہٴ تخصص کے ذریعہ انجام پانے والے اہم علمی وتحقیقی کام کا ”الحدیث الحسن فی جامع الترمذی/ دراسة وتطبیق“ پر اپنی تقریظ میں رقم طراز ہیں:

”وحقًا لو أشار أحد علیٰ معاہد التخصص فی علوم الحدیث باتباع ہذا المنہج القویم فی دراساتہا، أو أوصی الی الجامعات ودور التعلیم بانشاء الأقسام التابعة لہا علیٰ ہذا المنوال؛ لکان اشارتہ غنما وجدیرًا بالقبول والتقدیر“․

یعنی علومِ شرعیہ کے دیگر تخصصاتی اداروں، یا یونیورسٹیوں کے تخصصاتی شعبوں کو اسی نصاب اور طریقہٴ کار کی اقتداء کرنی چاہیے،اگر یہ مشورہ دیا جائے تو قابلِ قبول اور قابلِ توجہ مشورہ ہوگا۔

کچھ قابلِ تقلید صفات

یوں تو حضرتِ مرحوم گوناگوں خوبیوں کے مالک تھے، ان میں چند قابلِ تقلید خوبیاں حسبِ ذیل ہیں:

۱- تواضع وکسرنفسی

یہ صفت حضرتِ مرحوم میں فطری تھی، لباس اور وضع ایسی اختیار کرتے جس میں کسی قسم کا امتیاز نہ ہو،مجلس میں اپنی نشست اس طرح رکھتے کہ حاضرین کی نشست سے ممتاز نہ ہو، کوئی نووارد شخص ملنے آتا تو مجلس میں حضرت مرحوم کے تعین وتشخص میں اسے تذبذب ہوتا؛بلکہ حضرت کے علاوہ مجلس میں شریک کسی صاحب کو حضرت سمجھ کر اپنا مدعا عرض کرنے لگتا۔ کوئی علمی انداز کا سوال کرتا تو فرماتے: بیٹے یہ سوال تو مفتی سعید احمد صاحب یا مولانا نعمت اللہ صاحب سے کرنے کا ہے۔ کوئی اپنے یا اپنے عزیز کے متعلق آسیبی اثرات وغیرہ کی بات کہہ کر تعویذ وغیرہ کا طالب ہوتا تو فرماتے: بھائی تم غلط جگہ آگئے، یہ کام صوفی اسماعیل کا ہے، آپ کے سبق سے متاثر ہونے والے غیرمتعارف طلبہ اگر برائے ملاقات آجاتے تو فرماتے: بیٹے مجھ سے مل کر تمہیں کیا ملے گا؟ چائے پی لو۔

کرتا عموماً گھٹنے تک، پائجامہ علی گڈھی اور دوپلی ٹوپی پہنتے، نووارد مہمانوں کو حضرت کا یہ لباس آپ کے علمی وعرفی مقام ومرتبہ سے میل کھاتا ہوا نظر نہ آتا تو انھیں شک اور تردد ہوتا، ایک بنگالی فاضل نے جو آپ کے شاگرد تھے ایک مرتبہ ہمت کرکے عرض کیا: حضرت ہمارے دیار میں بڑے علماء ٹخنوں تک لمبے جبے پہنتے ہیں، تو برجستہ فرمایا: بیٹا! کیا کروں اپنے اندر اتنے ہی کی اوقات پاتاہوں۔

۲- دیانت واحساسِ ذمہ داری

 یہ وصف آپ کی زندگی کا نمایاں ترین وصف ہے، دیانت وامانت کے آپ پیکرتھے، نیز دارالعلوم کی جانب سے سپردکی جانے والی ذمہ داریوں کو دیات کے ساتھ کماحقہ نبھانا اپنا فرض منصبی سمجھتے تھے، وقت پرحاضری، سبق کی پابندی، امتحانات میں دلچسپی کے ساتھ شرکت ہر شخص پر ظاہر وعیاں ہے، دارالعلوم میں امتحانات کی ذمہ داری چند سالوں سے احقر سے متعلق رہا کرتی ہے اوراس سلسلہ میں حضرت مرحوم میرے لیے بہت بڑے سہارا تھے، اہم امور میں حضرت سے مشورہ ہوتا اور حضرت مناسب مشوروں سے نوازتے، آخری امتحان سالانہ میں جب کہ ضعف بڑھ گیا تھا ہر روز رکشہ سے دارالامتحان تشریف لاتے، دارالامتحان میں داخل ہونے کے لیے بہت سے زینوں پر چڑھنا اترنا پڑتاتھا، جس کی تاب لانا مشکل ہوتا، امتحان گاہ میں داخل ہوکر کسی قریبی کرسی پر تھوڑی دیر دم لیتے پھر مقررہ نشست گاہِ اکابر تک بہ تکلف تشریف لے جاتے، بحیثیت ذمہ دارِ امتحان احقر نے عرض کیا کہ حضرت آپ تشریف نہ لائیں، گھر ہی سے توجہ اور دعا فرماتے رہیں، فرمایا کہ جب گھنٹہ کی آواز سنتا ہوں تو رہانہیں جاتا، ایک روز حضرت مہتمم صاحب مدظلہ نے بھی یہی بات فرمائی، پھر بھی تشریف لاتے رہے، ایک روز حضرت مولانا نعمت اللہ صاحب مدظلہ سے پوچھا کہ کیا مہتمم صاحب یا کسی ذمہ دار کی اجازت دینے سے میرے لیے حاضری سے رکنا جائز ہے؟ مولانا نے فرمایا: ”اِسْتَفْتِ قَلْبَکَ“ اپنے دل سے پوچھیے (مشکوٰة)، ظاہر ہے مہتمم صاحب کے فرمانے پرتو آپ کو رک ہی جانا چاہیے تھا؛ مگر واہ رے دیانت واحساسِ ذمہ داری! کہ ان کے دل نے حاضر ہونے ہی کا فتویٰ دیا اور آخری دن تک تشریف لاتے رہے۔

۳- خوردنوازی وحوصلہ ا فزائی

خورد نوازی اور چھوٹوں کی حوصلہ افزائی تو آپ کاطرئہ امتیاز تھا، اپنے تعلق رکھنے والے شاگردوں، خصوصاً نوجوان اساتذہٴ دارالعلوم کو اہم موضوعات پر تصنیف اور مطالعہ کا شوق دلاتے رہتے تھے، براہِ راست کہنے کے بجائے موضوع سے متعلق کچھ سوالات اور قابلِ غور پہلو سامنے لاتے؛ تاکہ انھیں خود پڑھنے اور لکھنے کاشوق ہو؛چنانچہ اس طرح متعدد اساتذہ اور فضلاء کے ذریعہ کئی اچھے اورمفید کام سامنے آگئے۔

۴- خودداری وبے نیازی

یہ صفت بھی آپ کی طبعی تھی، غیرت وخودداری آپ کا ایسا قیمتی اثاثہ تھا جس کو ٹھیس لگنا کسی قیمت پر آپ کو گوارا نہیں تھا، اپنی ضرورت کسی سے نہ کہتے،اپنا کام خود کرتے، ضرورت کے باوجود طلبہ تو کیا صاحبزادگان تک سے بھی بدنی خدمت کبھی نہیں لیتے، کوئی ہدیہ پیش کرتا،اگر شناسا نہ ہوتا تو قبول ہی نہ فرماتے، بہت اصرار کرتا تو گرانی کے ساتھ قبول فرمالیتے اور ذاتی استعمال میں لانے سے پھربھی احتیاط برتتے؛ البتہ شناسا اور بے تکلف لوگوں سے تکلف کے ساتھ قبول فرمالیتے تھے، راقم الحروف نے بارہا آپ کو یہ شعر پڑھتے ہوئے سنا جو ان کے واقعی حال کاترجمان ہے۔#

تمام عمر اسی احتیاط میں گزری      کہ آشیاں کسی شاخِ چمن پہ بار نہ ہو

راقم الحروف نے یہ دعا بھی بارہا آپ کی زبان سے سنی کہ اللہ کبھی کسی کا محتاج نہ بنائے، آپ کے مجبوبِ حقیقی نے اس خواہش کا خیال رکھتے ہوئے اسی شانِ بے نیازی کے ساتھ اس دارِفانی سے کوچ کرنے کا انتظا فرمایا، ایسا لگا جیسے عصا لے کر معمول کے مطابق دارالعلوم کی طرف جارہے ہوں کہ اچانک مزارِقاسمی کی گلی پر پہونچ کربائیں طرف مڑگئے اور جوارِ قاسمی میں جاکر لیٹ گئے۔

وفات ۲۳/شعبان المعظم ۱۴۳۸ھ مطابق ۲۰/مئی ۲۰۱۷/ روز شنبہ بوقت ۴/بجے صبح ہوئی، حضرتِ مرحوم کے ایک باصلاحیت وباذوق شاگرد جناب مولانا مفتی محمد طاہر صاحب اعظمی مقیم حال جدہ سعودی عرب نے درج ذیل مادئہ تاریخ وفات نکالے ہیں: ”محمودِجہاں مولانا ریاست علی صاحب بجنوری“ (۱۴۳۸ھ)۔

”محمودِجہاں مولاناریاست علی صاحب بجنوری رحمہ المقسط المجیب“ (۲۰۱۷/)۔

”محدثِ نکتہ شناس“ (۱۴۳۸ھ)

بگواستاذِ خود را سالِ رحلت غمزدہ طاہر ”کہ باید لحد فردوسِ بریں از رحمتِ مولیٰ“ ۱۴۳۸ھ

جھکاکرسر سنِ رحلت میں جب ہم غور کرتے ہیں

ندا پہونچتی کی جنت میں وہ مُفرح سیر کرتے ہیں(۲۰۱۷/)

اللّٰھم اغفر لہ وارحمہ وعافہ ونقہ من الخطایا کما نقیت الثوب الأبیض من الدنس، اللّٰھم لا تحرمنا أجرہ ولا تفتنا بعدہ․ آمین!

—————————————————————-

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ8-9، جلد:101 ‏،ذی قعدہ-محرم 1438 ہجری مطابق اگست-ستمبر 2017ء

Related Posts