از: مفتی محمد ساجد قاسمی ہردوئی
استاذ تفسیر وادب دار العلوم دیوبند
پچھلے دنوں ملتِ اسلامیہٴ ہند کو جن عظیم شخصیات کی رحلت کے صدمے سے دوچار ہونا پڑا اُن میں ایک شخصیت استاذِ گرامی مرتبت حضرت مولانا ریاست علی ظفر بجنوری کی ہے، جو مختصر علالت کے بعد۲۳/شعبان ۱۴۳۸ھ= ۲۰/ مئی ۲۰۱۷ء کو دنیا سے رحلت کرگئے۔
آپ کے انتقال سے آپ کے اہلِ خانہ ، دار العلوم دیوبند کے اربابِ انتظام، اساتذہ، طلبہ اور آپ کے متعلقین کو گہرا رنج ہوا۔ یقینا آپ کی وفات کاروانِ دار العلوم کے لیے بالخصوص اور ملت اسلامیہٴ ہندکے لیے بالعموم ایک ناقابل تلافی خسارہ ہے۔
آپ دار العلوم کے موٴقر استاذِحدیث، اس کی نشأةِ ثانیہ کا ایک اہم دماغ ، اس کی روایات کے امین، اس کے منہاج ومزاج سے باخبر اور اس کے مسلک و مشرب کے تئیں بڑے غیور واقع ہوئے تھے۔اسی کے ساتھ آپ ایک بلند پایہ عالمِ دین، عظیم موٴلف ، باکمال شاعر، شرافت ومروت کے پیکر، وقار کا کوہِ گراں، ہمدردی وغمگساری کا مجسمہ، منکسر المزاج، مال ومتاع کے حصول سے بیزار، جاہ و منصب کی چاہت سے کوسوں دور، فراخ دل، سیر چشم اور ایک سادہ لیکن دلآویز شخصیت کے مالک تھے۔
کہا جا تاہے کہ آدمی کی شخصیت کی تشکیل میں موروثی پس منظر، تعلیم وتربیت، گردو پیش کے ماحول اور ذاتی تجربات کا اہم کردار ہوتا ہے۔کوئی بھی شخصیت مذکورہ عناصر سے تشکیل پاتی ہے ، یہ عناصر جتنے زیادہ صحت مند، حیات افزا اور طاقتور ہوں گے اتنی ہی زیادہ طاقتور شخصیت تشکیل پائے گی۔جب ہم آپ کی شخصیت کا مطالعہ کرتے ہیں تو یہ عناصر آپ کے یہاں ہمیں کچھ اس طرح ملتے ہیں ۔
موروثی پس منظر
آپ کے موروثی پس منظر کو لے لیجیے، توآپ نسبی اعتبار سے ایک شریف خانوادے کے چشم و چراغ تھے، آپ کا سلسلہٴ نسب میزبانِ رسول حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے جاملتاہے ، اوریہ بات پایہٴ تحقیق کو پہنچ چکی ہے کہ نسبی خصوصیات نسلوں میں منتقل ہوتی ہے۔آپ کو بھی نسبی خصوصیات سے ایک وافر حصہ ملا ہوا تھا؛ چنانچہ مہمان نوازی وکرم گستری، ہمدردی و غمگساری، شرافت ومروت اور ذکاوت وذہانت آپ کی نمایاں موروثی صفات تھیں۔
تعلیم وتربیت
والد صاحب کا سایہٴ عاطفت بچپن ہی میں آپ کے سر سے اٹھ گیا تھا، آپ کے پھوپھا حضرت مولانا سلطان الحق صاحب ( سابق ناظم کتب خانہ دار العلوم دیوبند) بغرضِ تعلیم و تربیت آپ کو اپنے ساتھ دیوبند لائے ، آپ نے دار العلوم دیوبند میں آپ کی سرپرستی میں تعلیم کی تکمیل کی اور فرسٹ پوزیشن سے دور ہٴ حدیث کا امتحان پاس کیا۔
حضرت مولانا سلطان الحق صاحب کے بارے میں جو تذکرے سننے میں آئے ہیں، ان سے اندازہ ہوتا ہے کہ آپ حضرت مدنی کے جانثاروں میں تھے، اور آپ کا ایک حلقہ تھا جس سے بہت سے اساتذہ اور طلبہ وابستہ تھے۔ آپ کے فیضِ صحبت اٹھائے ہوئے دار العلوم کے بہت سے قدیم فضلا آپ کی طلبہ کے ساتھ ہمدردی و خیر خواہی کا تذکرہ کرتے رہتے ہیں۔
حضرت مولانا سلطان الحق صاحب کو آپ سے قرابت کا تعلق تھا؛ اس لیے لازمی طور پر انھوں نے آپ کی تربیت پر خصوصی توجہ دی ہوگی۔ اور حضرت مولانا سلطان الحق صاحب کی معیت اور تربیت سے آپ کو بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا ہوگا۔ میر ا خیال ہے کہ آپ کے یہاں مجلسی مزاج ومذاق اور طلبہ کے ساتھ ہمدردی اور تعلق دار ی اسی تربیت کا اثر تھا۔
دار العلوم میں آپ نے اپنے اساتذہ سے تحصیلِ علم کے ساتھ ساتھ بہت کچھ سیکھا ہوگا، ان میں سے شیخ الحدیث حضرت مولانا فخرالدین احمد مرادآبادی صدر المدرسین دار العلوم دیوبند کی شخصیت خاص طور پر قابلِ ذکر ہے۔آپ دورہٴ حدیث سے فراغت کے بعد اگلے سال بھی ان کے درس میں شریک ہو کر آپ کی بخاری شریف کی تقریر محفوظ کرتے رہے، جسے آپ نے بعد میں مرتب کر کے ”ایضاح البخاری“ کے نام سے شائع کیا۔
تیسری شخصیت جس کا آپ کی شعری و ادبی زندگی پر بڑا اثر ہے، وہ جناب مولانا محمد عثمان کاشف الہاشمی رحمة اللہ علیہ کی شخصیت ہے، آپ نے جناب کاشف صاحب سے شعر گوئی کی تربیت حاصل کی تھی۔ آپ اعلی شعری و ادبی ذوق رکھتے تھے، آپ اپنے اس ذوق کی بنا پر شاعری کے باب میں اپنے پیش رو اکابرِ دیوبند کی صف میں نظر آتے ہیں۔
گردو پیش کا ماحول
آپ نے جس ماحول میں نشو ونماپائی، وہ ابتدائًا آپ کا خاندانی ماحول اور ثانیاً دار العلوم دیوبند کا علمی وروحانی ماحول تھا، جو اساتذہ ٴ دار العلوم( جو بیک وقت اساطینِ علم اور اصحابِ نسبت بزرگ تھے) کے سانسوں سے پُر تھا، ان میں سے شیخ الاسلام حضرت مولانا حسین احمد مدنی ، حضرت مولانا فخرالدین احمدمرادآبادی ، حضرت علامہ محمد ابراہیم بلیاوی اور شیخ الادب حضرت مولانا محمداعزازعلی امروہوی خصوصی طور پر قابلِ ذکر ہیں۔یہ ایک حقیقت ہے کہ آدمی اپنے ماحول کی پیداوار ہوتا ہے۔ اصول پسندی اور وقت کی پابندی، حق گوئی وبیباکی اور بہت سی اچھی عادتیں یقینا آپ نے اسی ماحول سے سیکھی تھیں۔
ذاتی تجربات
جہاں تک آپ کے ذاتی تجربات کا تعلق ہے تو یقینا وہ بہت مختلف اور متنوع ہوں گے جو کچھ اس حوالے سے میں جانتا ہوں وہ یہ ہے کہ آپ نے یتیمی کی زندگی گذاری اور تنگ دستی اور خوشحالی کے دونوں دور دیکھے ہیں ، یتیمی اور تنگ دستی کے دور میں نہ معلوم کتنے ایسے ہوں گے جنھوں نے آپ سے منہ پھیر لیا ہوگا اور خوشحالی کے دور میں بہت سے ایسے بھی ہوں گے جنھوں نے آپ سے تعلقات استوار کرنے کی کوشش ہوگی۔ آپ نے کئی اداروں میں کام کیا ، ان میں نہ معلوم کیسے کیسے لوگوں سے سابقہ پڑا ہوگا۔ ان تمام چیزوں سے آپ کو یقینا بہت سے تجربات حاصل ہوئے ہوں گے۔
یہ وہ عناصر ہیں جن سے آپ کی شخصیت تشکیل پائی تھی، اور جن سے آپ ایک ممتاز حیثیت کی حامل شخصیت کہلائے۔
آپ دار العلوم کی روایات کے امین اور اس کے اصول وضوابط سے پورے طور پر باخبر تھے ، جب کبھی آپ کوکسی روایت سے انحراف یا کسی ضابطے کی خلاف ورزی ہوتی ہوئی محسوس ہوتی تو آپ اس کا بلا تکلف اظہار فرمادیتے۔
آپ وقت کے بہت پابند تھے، اسباق کی پابندی کے علاوہ ، امتحان گاہ میں بڑی پابندی سے حاضر ہوتے تھے، اگر طبیعت بہت زیادہ ناساز ہوتی تو رخصت کی درخواست بھیجتے تھے۔ ورنہ عام حالات میں آپ نے امتحان گاہ میں حاضر ہونے کی ہمیشہ پابندی کی۔ طبیعت کی ناسازی کی بنا پر ذمے داروں کی جانب سے اس بار امتحان سالانہ میں آپ کو اس حاضری سے مستثنیٰ بھی قرار دیا گیا ، پھر بھی آپ امتحان کے آخری دن تک پابندی سے امتحان گاہ میں آتے رہے۔
عصر کے بعد کی مجلس
عصر کے بعد آپ کی مجلس ہوتی تھی، جس میں بڑی تعداد میں اساتذہ شریک ہوتے تھے، میرا خیا ل ہے کہ آپ کو یہ مجلسی ذوق حضرت مولانا سلطان الحق صاحب کے یہاں سے ملا تھا اور آپ کی یہ مجلس ان کی مجلس کا امتداد تھی۔
آپ کی مجلس میں مختلف موضوعات پر گفتگو ہوتی ، کبھی علمی موضوع پر، کبھی حالات حاضرہ پراور کبھی تفریحِ طبع کی باتیں ہوتیں۔ مجلس میں ہر ایک کو گفتگو، سوال و جواب کی پوری آزادی ہوتی، اور آپ بھی ہر ایک سے بے تکلف رہتے۔راقم الحروف مجلس میں روزانہ حاضر نہیں ہوپاتا، کبھی ہفتہ دس دن گذر جاتے اور کبھی مہینہ، جب کافی مدت کے بعد حاضری ہوتی تو آپ یہ ضرور معلوم کرتے کہ آج کل کیا کام کررہے ہو، جب میں اپنی مشغولیت بتا تا تو بہت خوش ہوتے اور حوصلہ افزائی فرماتے۔
خورد نوازی و حوصلہ افزائی
مجلس شوری کی تجویز کے مطابق دار العلوم کے تعارف میں حضرت مولانا ذو الفقار علی دیوبندی کی تالیف کردہ عربی کتاب ,,الہدیةُ السَّنیةُ في ذکرِ المدرسة الدیوبندیة،، کے ترجمہ کا کام راقم الحروف کو سپر د کیا گیا، ناچیز نے اس کا ارود ترجمہ مکمل کر کے شیخ الہند اکیڈمی کے حوالے کردیا، پھر مجلس نے نظرِ ثانی کے لیے مسودہ حضرت الاستاذرحمہ اللہ اور حضرت مولانا عبد الخالق سنبھلی دامت برکاتہم کودیا؛ چنانچہ آپ دونوں حضرات نے اس پر نظرثانی فرمائی اور ترجمے کی بعض غلطیوں کی نشاندہی کر کے ان کی اصلاح فرمائی۔ پھر آپ نے رپورٹ میں اس ترجمہ کی تصویب فرماتے ہوئے اسے قابلِ اشاعت قراردیا۔ مجھے آپ کی نظرِ ثانی اور اصلاحات سے کافی فائدہ ہوا اور بڑا حوصلہ ملا۔
عادات واخلاق
میں نے آپ کو ۱۹۹۱ء سے دیکھا ہے ،اس وقت سے انتقال تک آپ کی زندگی کی ایک ہی روش اور ایک ہی انداز دیکھا ، یقینا آپ کی زندگی میں بہت سے نشیب و فراز آئے ہوں گے؛ لیکن آپ کے طور وطریق میں کبھی کوئی فرق نہیں آیا۔ آپ وقار کا کوہِ گراں تھے، بے نفسی اور تواضع آپ کی نمایاں خصوصیت تھی۔آج کے اس مادیت کے دور میں لوگ طرح طرح سے مادی منافع حاصل کرتے ہیں اور دنیوی مال ومتاع حاصل کرنے کے لیے سرگرداں رہتے ہیں حتی کہ طبقہٴ خواص میں بھی بہت سے افراد اس وبا سے متاثر معلوم ہو تے ہیں؛ لیکن آپ کو اس طرح کی تگ ودو سے بہت دور پایا؛ بلکہ ہمیں آپ اس حوالے سے ایک گوشہ نشیں زاہدِ مرتاض نظر آتے ہیں۔ مجھے آپ کی یہ صفت بہت متاثر کرتی تھی ۔میں اپنے دل میں کہتا تھا کہ آپ کی طرح دنیوی منافع اور مال ومتاع کی طمع سے بالا تر ہوکراخروی اجر وثواب اور وہاں درجات کی بلندی کے علاوہ دنیا میں اپنے قیمتی وقت کو بچایا جاسکتا ہے اور اسے مفید علمی کاموں میں لگایا جاسکتا ہے۔
سنا ہے کہ آپ کی بعض موروثی جائیداد پر کچھ لوگوں نے ناجائز قبضہ کرلیا تھا، آپ نے اپنے آپ کو اختلاف ونزاع سے بچایا اور اس جائیداد کی بازیابی کے لیے کوئی جدو جہد نہیں کی؛ بلکہ اولاد کوبھی اس طرح کے نزاعات میں پڑنے سے دور رکھا۔
اللہ تعالی نے آپ کو اصابتِ رائے کی صفت سے نوازا تھا،بہت سے معاملات میں آپ سے تعلق رکھنے والے آپ سے مشورہ کیا کرتے تھے۔ بعض معاملات میں دیکھا کہ آپ نے ایک جملے میں اپنی رائے کا اظہار کردیا۔ بہت سے اہم اور نازک مسائل میں آپ مصلحت کوشی سے بالا تر اور بلاخوفِ لومتِ لائم بڑی بے باکی سے اپنی رائے کا اظہار کردیا کرتے تھے۔یہ وہی شخص کرسکتا ہے جو مخلص ہواور جس کا دل ذاتی مفادات کی آلودگی سے پاک ہو۔
اسی طرح آپ بہت سی پریشانی میں مبتلا لوگوں کو ایک جملہ کہہ کر تسلی دے دیا کرتے تھے، اور واقعی آدمی کو تسلی ہو جاتی تھی ۔ایک مرتبہ میں اپنے بعض مسائل کو لے کر پریشان تھا، آپ کو معلوم ہو ا تو ملاقات پر آپ نے ایک تسلی بھرا جملہ فرمایا:”․․ بیٹے! محنت کرتے رہو، محنت کرنے والے کا کوئی راستہ روک نہیں سکتا“۔
دار العلوم دیوبند میں میرے جتنے اساتذہ ہیں،الحمدللہ وہ ایسی خصوصیات و کمالات کے حامل ہیں جو یکجا طورپر دوسروں میں خال خال ہی ملیں گی؛مگریہ بات بلا کسی موازنہ کے کہی جاسکتی ہے کہ بعض خصوصیات کے لحاظ آپ منفرد نظر آتے تھے۔
کہتے ہیں لوگ ذوق دنیا سے چل بسا کیا خوب آدمی تھا خدا مغفرت کرے
—————————————————————
ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ8-9، جلد:101 ،ذی قعدہ-محرم 1438 ہجری مطابق اگست-ستمبر 2017ء