از: مولاناعبد اللہ بن مسعود
فاضلِ جامعہ دارالعلوم کراچی
دینِ اسلام کا طرّہ امتیازہے کہ یہ اپنے پیروکاروں کو افراط وتفریط سے بالاتر رکھ کر شاہراہِ اعتدال پر گامزن رہنے کی تلقین کرتا ہے،کسی بھی شعبہ سے متعلق اس کے ارشادات وفرمودات کا جائزہ لیا جائے تو وصفِ اعتدال اس کے ہر ہرجزو میں واضح نظر آئے گا،یہی وجہ ہے کہ جب انسان مصائب و تکالیف ،امراض واسقام کا شکار ہوتا ہے تو شریعت اس کو اپنے پرودگار کی طرف رجوع ،اور اس سے توبہ و استغفار کرنے کے ساتھ ساتھ جائز اسباب اختیار کرنے کی تعلیم بھی دیتی ہے؛بلکہ بہت سی بیماریوں کا علاج خود شریعتِ مطہرہ نے انسانیت کے فائدہ کی خاطر تجویز بھی فر مادیا ہے ،جس کا علم احادیث مبارکہ کے مطالعہ سے حاصل کیا جاسکتا ہے اور اسی کو دنیائے حکمت میں طبِ نبوی کے عنوان سے موسوم کیا جاتا ہے۔
اسلام سے قبل تاریخ کے جائزہ سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اُس دور میں طبی علم تقریباًبھلایا جاچکا تھا،یہی نہیں بلکہ طبی علاج ومعالجہ کوغیر دینی عمل تصور کیا جاتاتھا ،مشرکانہ جھاڑپھونک کا عروج تھا، نبی اکرم ا کی تعلیماتِ مبارکہ سے بھٹکی ہوئی انسانیت کو ان فر سودہ خیالات واعتقادات سے نجات ملی اور علاج ومعالجہ کا صحیح اور دینی تصور قائم ہوا، چنانچہ مشہور موٴرخ ڈگلس گتھری بھی اس بات کو تسلیم کرتا ہے کہ مسلمانوں میں طبی سائنس کی گہری دلچسپی اور فروغ کی اصل وجہ وہ ارشادات اور احکام تھے جو رسول اللہا نے مسلمانوں کو دےئے تھے۔
اسی طرح بعد کے ادوار میں بھی جب یوررپ اس حوالے سے انحطاط کا شکار تھا دنیائے ا سلام کے زعمائے طب نے طبِ اسلامی کو خوب فروغ دیا جس کی گواہی دیتے ہوئے ڈونالڈکیمبل اپنی کتاب Arabian Medicine میں اس طرح رقم طراز ہے: ﴿اسلامی سائنس (کے فروغ) کے دور میں یورپ تاریکی کے دور سے گزر رہا تھا﴾، آگے لکھتا ہے :﴿جن دنوں عیسائی دنیا تاریک دور سے گذر رہی تھی، اس وقت اسلام کے عالموں نے ”علم الطب“ میں حیرت انگیز سرگرمی کا مظاہرہ شروع کردیا ﴾۔
طبِ اسلامی کی اہمیت اور اہلِ اسلام کی اس میں ترقی اور برتری کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ دنیا کے بہترین ہسپتالوں کی بنیاد بغداد،دمشق،قاہرہ،غرناطہ ،قرطبہ اوراشبیلیہ وغیرہ میں پڑی اور مسلم اطباء کی ”القانون“ اور ”الحاوی“ جیسی تصنیفات کو یورپ کی میڈیکل یونیورسٹیوں میں چھ سو سال سے زیادہ عرصہ تک پڑھایا جاتا رہا ہے ۔
لیکن صد افسوس!کہ طبِ نبوی جو دنیائے اسلام کا ایک مقدس موضوعِ فکرومطالعہ تھا ،جس کی روشنی میں تجاویز کردہ امور دوا اور غذا کا بہترین مرکب اور قدرتی فوائدسے بھرپور ہوتے تھے، وہ اب محض کتابوں کی نذر ہو کر رہ گیا ہے، اور بقول ِحکیم سعید:﴿افسوس کہ تیرگیٴ خرد نے اور نیرنگیٴ عصرِحاضر نے آج کی دنیائے اسلام کے زعمائے طب کو مرکز گریز بنا دیا اور وہ خود بھی آواز ِمغرب سے ایسے مرعوب ہوئے کہ اپنے ورثہ ہائے علمی کے ناقد بن گئے پھر یہ تنقید تنقیص میں بدل گئی﴾۔
لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ طب سے متعلق ذخیرہٴ احادیث کو امت کے سامنے پیش کیا جائے، اور اس حوالے سے حکمائے اسلام کی تحقیقات اور تجاویز کو اہلِ اسلام کے سامنے اجاگر کیا جائے؛ چنانچہ اسی مقصد کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے ذیل میں شہد سے متعلق فرمودات ِنبویہ اور اس کے چند فوائد کو ذکر کیا جاتا ہے ۔
لفظِ شہد اردو زبان کا لفظ ہے، فارسی اور ہندی میں بھی یہ لفظ بولا جاتا ہے ،اور عربی میں اس کو عَسَل،انگریزی میں Honey ، فرانسیسی میں Miel، جرمن میںHonig، یونانی میںMeliاور بنگالی میں مودھو کہا جاتا ہے۔
رب ِ ذوالجلال نے شہد کو باعثِ شفاء قرار دیا ہے؛چنانچہ قرآن میں ارشاد ہے:﴿فِیہِ شِفآءٌ لِّلنَّاس﴾(النحل:۶۹)ترجمہ: اس(شہد)میں لوگوں (کی بہت سی بیماریوں)کے لیے شفاء ہے۔ اسی آیت کے تحت مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد شفیع صاحب اپنی شہرہ آفاق تفسیر معارف القرآن (۵:۳۵۲) میں لکھتے ہیں:﴿اس میں اللہ تعالی کی وحدانیت اور قدرتِ کاملہ کی قاطع دلیل موجود ہے، کہ ایک چھوٹے سے جانور کے پیٹ سے کیسا منفعت بخش اور لذیذمشروب نکلتا ہے؛ حالانکہ وہ جانور خود زہریلاہے ،زہر میں سے یہ تریاق واقعی اللہ تعالی کی قدرتِ کاملہ کی عجیب مثال ہے ،پھر قدرت کی یہ بھی عجیب صنعت گری ہے کہ دودھ دینے والے حیوانات کا دودھ موسم اور غذا کے اختلاف سے سرخ و زرد نہیں ہوتا اور مکھی کا شہد مختلف رنگوں کا ہو جاتا ہے﴾اسی وجہ سے اللہ تعالی فرماتے ہیں: ﴿ یَخْرُجُ مِن بُطُوْنِھا شَرَابٌ مُّخْتَلِفٌأَلْوَانُہ‘﴾(النحل:۶۹)ترجمہ:اس کے پیٹ میں سے پینے کی ایک چیز نکلتی ہے (شہد)جس کی رنگتیں مختلف ہوتی ہیں۔
محسنِ انسانیت جنابِ نبی کریم ا کے فرمودات سے بھی شہد کی اہمیت و افادیت کا اندازہ ہوتا ہے ،جن میں سے چند کا ذکر کیا جاتا ہے :
۱- عن ابی ھریرة قال:قال رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم : ﴿مَنْ لَعِقَ الْعَسَلَ ثَلاثَ غَدَوَاتٍ کُلَّ شَھْرٍ لَمْ یُصِبْہ عَظِیْمٌ مِنَ الْبَلاءِ﴾․ (سنن ابن ماجہ، ۴/۱۲۴، حدیث نمبر:۳۴۵۰، دارالجیل، بیروت)
ترجمہ:حضرتِ ابو ہریرہ صسے روایت ہے کہ رسول الله ا نے ارشاد فرمایا:جو شخص ہر مہینے تین دن تک صبح میں شہد چاٹے ،تو اس کو کوئی بڑی مصیبت نہیں پہنچے گی۔
۲- عن عبدالله ص قال: قال رسول الله ا: ﴿عَلَیْکُمْ بالشِّفائَیْنِ:العَسَلِ وَالْقُرْآنِ﴾۔ (سنن ابن ماجہ،۴/۱۲۴،حدیث نمبر:۳۴۵۲،دارالجیل،بیروت)
ترجمہ:حضرت عبد الله ص نبی کریم ا کا فرمان نقل فر ماتے ہیں :دو باعثِ شفاء چیزوں کو لازم پکڑ لو ۱: شہداور ۲۔قرآن۔
رسولِ اکرم ا کی یہ حدیث ِمبارک بڑی جامعیت کی حامل ہے ، اس میں طبِ الٰہی وبشری ،دواء ارضی و سماوی اورطبِ جسدی و نفسی کو جمع فرماکر دونوں کو اختیارکرنے کا حکم دیا گیا ہے ،لہٰذا جسمانی امراض کے لاحق ہونے کی صورت میں جس طرح اطباء وحکماء کی طرف رجوع کرکے علاج کرانا سنت ہے ،بالکل اسی طرح روحانی امراض (تکبر،عجب، حسد،ریاء وغیرہ)سے اپنے قلب کو پاک رکھنے کے لیے قرآن کریم کی تلاوت ،علماء کی راہنمائی میں احادیث کا مطالعہ اور اہل الله کی صحبت اختیار کرکے اپنی اصلاح کروانا بھی لازم او ر راحت ِدنیا وی واخروی کے حصول کی شاہِ کلید ہے۔
۳- عن عائشة قالت: کَانَ النَّبِیُ ا یُعْجِبُہ الْحَلْوَاءُ وَالْعَسَلُ․ (صحیح البخاری، باب:الدواء بالعسل، ۵/۲۱۵۲حدیث نمبر:۵۳۵۸، دار ابن کثیر، دمشق، بیروت)
ترجمہ: ام ّالموٴمنین حضرتِ عائشہ فرماتی ہیں کہ آقائے دو جہاں صلی اللہ علیہ وسلم کو میٹھی چیز اور شہد مرغوب تھا۔
۴- عن ابی سعید ص أَنَّ رَجُلاً أَ تَی النَّبِیَّ ا فقال: اَٴخِیْ یَشْتَکِی بَطْنہ، فَقَالَ: اِسْقِہِ عَسَلاً، ثُمَّ اَٴتَاہ الثَّانِیْةَ، فَقَالَ: اِسْقِہ، عَسَلاً، ثُمَّ اَٴتَاہ الثَّالِثَةَ، فَقَالَ: اِسْقِہِ عَسَلاً، ثُمَّ اَٴتَاہ، فَقَالَ: قَدْ فَعَلْتُ فَقَالَ: ﴿صَدَقَ اللهُ وَکَذَبَ بَطْنُ اَٴخِیْکَ، اِسْقِہِ عَسَلاً﴾، فَسَقَاہ فَبَرِاَٴ (صحیح البخاری، کتاب: الطبّ، باب: الدواء بالعسل، ۵/۲۱۵۲ حدیث نمبر: ۵۳۶۰، باب: دواء المبطون، ۵/۲۱۶۱، حدیث نمبر: ۵۳۸۶، دار ابن کثیر، دمشق، بیروت)
ترجمہ:حضرتِ ابو سعیدص فرماتے ہیں:ایک آدمی سرکارِ دو عالم ا کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوا اور کہا :میرا بھائی پیٹ کے مرض میں مبتلا ہو گیا ہے ،آپ انے فرمایا :اس کو شہد پلاوٴ،وہ دوسری بار آیا تو پھر آ پ انے اس کو شہد پلانے کی تاکید کی اسی طرح تیسری مرتبہ بھی، جب چوتھی بار بھی آ کر اس نے شکایت کی تو رسول الله ا نے ارشاد فرمایا : تمہارے بھائی کا پیٹ تو جھوٹا ہوسکتا ہے؛ لیکن الله کا کلام تو سچاہی ہے ،اس کو پھر شہد پلاوٴ، اس نے اس مرتبہ جا کر جب شہد پلایا تو اس کو شفا نصیب ہو گئی۔
اس حدیث سے امراضِ بطن میں افادیتِ شہد کا علم ہونے کے ساتھ ساتھ طبّ کے ایک بنیادی اور اہم ترین اصول کی طرف راہنمائی بھی ملتی ہے کہ کسی بھی مرض کے علاج کے لیے دوا کی مقدار ،اس کی کیفیت اور مریض کی قوت کی رعایت اور لحاظ رکھنا دوا کے مفید ہونے کے لیے انتہائی ضروری ہے، جیسا کہ مذکورہ بالا حدیث میں چوتھی بارشہد کے استعمال کرنے پر مرض سے افاقہ حاصل ہوا۔
شہد کی افادیت اور اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ خود رسول الله ا بھی اہتمام سے اس کو استعمال فرمایا کرتے تھے ،آپ کا معمول تھا کہ صبح کو شہد کے شربت کا پیالہ نوش فرماتے اور کبھی عصر کے بعد بھی پیتے تھے ،ان اوقات میں جب پیٹ خالی ہو اور آنتوں کی قوتِ انجذاب دوسری چیزوں سے متاثر نہ ہو، شہد پینا جسم کے اکثر و بیشتر مسائل کا حل ہے ۔
حضرتِ عمرص کے بارے میں آ تا ہے کہ اُن کے بدن پر اگر پھوڑا بھی نکل آتا تو اس پر شہد کا لیپ کرکے علاج کرتے ،بعض لوگوں نے وجہ دریافت کی تو فرمایاکہ الله تعالیٰ نے اس کے متعلق یہ نہیں فرمایا : فِیہِ شِفآءٌ لِّلنَّاس․ (النحل:۶۹) ترجمہ: اس(شہد)میں لوگوں (کی بہت سی بیماریوں)کے لیے شفا ہے ۔(معارف القرآن(۵:۳۵۳)
اب سائنسی تحقیقات سے بھی یہ ثابت ہو گیا ہے کہ قدرت کی طرف سے جتنی اشیاء غذا کے طور پر انسان کو مہیا کی گئی ہیں، ان میں شہد سب سے زیادہ مکمل اور جامع غذا ہی نہیں؛ بلکہ اپنی طبّی خصوصیات کی بنا پر غذا اوردوا کے طور پر لا ثانی ہے؛ چنانچہ یورپ اور دوسرے ممالک میں ایلو پیتھک کی متعدد دواوٴں میں اس کا بے پناہ استعمال کیا جا رہا ہے ،اسی طرح یورپ کے ہسپتالوں میں چہرے کی حفاظت کے لیے جو Face pack بنائے جاتے ہیں ان میں شہد ایک لازمی جزو ہوتا ہے،شہد میں بہترین Presevative ہونے کی بناء پر اُسے پھلوں کو محفوظ رکھنے کے لیے بھی استعمال کیا جانے لگاہے؛ کیونکہ یہ خود بھی خراب نہیں ہوتا اور دوسری اشیاء کی بھی طویل عرصہ تک حفاظت کرتا ہے ،یہی وجہ ہے کہ ہزارہا سال سے اطباء اس کو الکحل کی جگہ استعمال کرتے آئے ہیں ۔
ماہرین ِ طب نے اپنی تحقیقات اور تجربات کی روشنی میں شہد کے کئی فوائد ذکر کیے ہیں جن میں سے چند فوائد ہدیہٴ ناظرین کیے جاتے ہیں:
۱- شہد پیاس کو بجھاتا ہے ۔
۲- حافظہ کو قوت بخشتا ہے؛چنانچہ امام ِزہری کا ارشاد ہے :﴿عَلَیْکَ بِالْعَسَلِ فَاِنَّہ جَیِّدٌ لِلْحِفْظِ﴾ ترجمہ :شہد کا اہتمام کرو؛ کیونکہ یہ حافظہ کے لیے بہترین ہے ۔
۳- شہد ردی رطوبتیں نکالتا ہے ۔
۴- اس کا کثرتِ استعمال استسقاء،یرقان ، عسرالبول ،ورمِ طحال،فالج ،لقوہ ،زہروں کے اثرات اور امراض سر وسینہ میں مفید ہے۔
۵- پتھری کو خارج کرتا ہے ۔
۶-باہ ، بصارت ،اور جگر کو قوت ملتی ہے۔
۷- بو علی سینا اسے مقوی معدہ بھی قرار دیتے ہیں۔
۸- دانتوں کے لیے شہد ایک بہترین ٹانک ہے ،اسے سرکہ میں حل کرکے دانتوں پر ملنا ان کو مضبوط کرتا ہے، اور مسوڑھوں کے ورم دور کرنے کے علاوہ دانتوں کو چمکدار بناتاہے،گرم پانی میں شہد اور سرکہ کے ساتھ نمک ملا کر غرارہ کرنے سے گلے اور مسوڑھوں کا ورم جاتا رہتا ہے۔
۹- نہار منہ شہد پینے سے پرانی قبض ٹھیک ہو جاتی ہے،کھٹے ڈکار آنے بند ہو جاتے ہیں اور اگر پیٹ میں ہوا بھر جاتی ہو تو وہ نکل جاتی ہے ۔
۱۰- اطباء قدیم نے افیون ،پوست اور بھنگ کے نشہ کو زائل کرنے کے لیے گرم پانی میں شہد مفید بتایا ہے۔
۱۱- انسان بڑھاپے میں عموماًتین مسائل کا شکار ہو تا ہے:۱۔ جسمانی کمزوری، ۲۔بلغم، ۳۔جوڑوں کا درد،قدرت کا کرشمہ ہے کہ شہد کے استعمال سے یہ تینوں مسائل آسانی سے حل ہو جاتے ہیں ۔
۱۲- شہد میں Antiseptic خصوصیات ہونے کی بنا پر زخموں پر لگانا یا جلی ہوئی جلد پر لگانا نہایت مفید پایا گیا ہے۔
۱۳- چہرے سے مہاسے اور پھنسیاں دور کرنے کے لیے بہت اچھا علاج سمجھا جا تا ہے ۔
۱۴- طب ِنبوی کے مشہور مرتب علاء الدین کحال (م۷۲۰ھ -۱۳۲۰م)نے شھد کو اسہال کے علاوہ غذائی سمیت یعنی Food poisining میں مفید قرار دیا ہے۔
۱۵- طالبِ علموں کے لیے انتھائی مفید بتایا جاتا ہے ،زیادہ دیر تک پڑھ سکنے کا باعث اور ان کی یادداشت کے بہتر رہنے کا ذریعہ ہے۔
۱۶- دل کے مریضوں کو اسے پینے کے دوران دورے نہیں پڑتے۔
یہ شہد کی چند خصوصیات تھیں جن سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ قدرت کا یہ عظیم الشان تحفہ کتنی اہمیت و افادیت کا حامل ہے ،جوایک معمولی سی لطیف گشتی مشین جو ہر قسم کے پھل پھول سے مقوّی عرق اور پاکیزہ جوہر کشید کرکے اپنے محفوظ گھروں میں ذخیرہ کرتی ہے، اس سے حاصل کیا جاتا ہے، ربّ ذوالجلال سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اپنی نعمتوں کی کما حقّہ قدردانی اور اپنے حبیب جناب ِنبی کریم ا کے قیمتی ارشادات کو اپنے سینوں سے لگانے کی توفیق عطاء فرمائیں،اور اپنے آباوٴاجداد کے حقیقی وارث بن کران کے علمی سرمایہ سے بھٹکی ہوئی انسانیت کو راہِ راست پر لانے کے لیے قبول فرمائیں۔ آمین!
—————————————————-
ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ7، جلد:101 ،شوال 1438 ہجری مطابق جولائی 2017ء