از: مولانا محمد تبریز عالم قاسمی
استاذ دارالعلوم حیدرآباد
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلمجب بیت الخلاء جانے کا ا رادہ فرماتے تھے تو(یہ دعا) پڑھتے تھے: الَّلھُمَّ إِنّيْ أَعُوْذُ بِکَ مِنَ الخُبُثِ وَالْخَبَائِثِ (ایک روایت میں بسم اللہ کا ذکر بھی ہے؛ اِس لیے مذکورہ دعا کے شروع میں بسم اللہ پڑھنا چاہیے)
ALLAHUMMA, INNEE, AOOZU BIKA, MINALKHUBUSI WALKHABA,ES
ترجمہ: اے اللہ! میں تیری پناہ چاہتا ہوں خبیثوں سے اور خبیثنیوں سے۔(مسلم، رقم: ۳۷۵- ترمذی، رقم:۶۰۶)
تشریح: قضائے حاجت انسان کی بشری ضرورت ہے، یہ ضرورت کیسے پوری کی جائے، اسلام میں اِس کی مکمل رہنمائی موجود ہے، امام ابوداوٴد نے سنن ابی داوٴد میں تقریباً پچیس ابواب منعقد فرمائے ہیں اور اِن سب میں آدابِ خلاء یعنی پیشاب وپاخانہ کے طور طریقے بیان کیے ہیں، ہماری شریعت کتنی جامع اور مکمل ہے کہ اِس میں استنجاء جیسی معمولی چیز کے لیے بھی تفصیل سے آداب ہیں اور اِسی لیے اسلام کو دینِ فطرت بھی کہاجاتا ہے، حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ(بعض مشرکین کی طرف سے استہزاء اور طنز کے طور پر) اُن سے کہا گیا کہ تمہارے پیغمبر نے تم لوگوں کو ساری باتیں سکھائی ہیں؛ یہاں تک کہ پاخانہ کرنے کا طریقہ بھی؟ حضرت سلمان فارسی نے اُن سے کہا :ہاں، ہاں! بے شک انھوں ہمیں منع فرمایا ہے کہ پاخانہ وپیشاب کے وقت ہم قبلہ کی طرف رخ کریں یا یہ کہ ہم داہنے ہاتھ سے استنجاء کریں یا یہ کہ ہم استنجے میں تین پتھروں سے کم استعمال کریں یا یہ کہ ہم کسی چوپائے کے گوبر اور لید یا ہڈی سے استنجاء کریں (مسلم، رقم ا لحدیث: ۲۶۲، کتاب الطہارة) حضرت سلمان کے جواب کا مطلب یہ تھا کہ یہ کوئی قابل استہزاء بات نہیں ہے؛ بلکہ یہ اِس مذہب کی جامعیت کی دلیل ہے، اور بلا شبہ وہ خاص وقت ایسا ہوتا ہے کہ اُس وقت اللہ کا نام لینا اور اُس سے دعا کرنا بے ادبی کی بات ہوگی؛ اِس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہدایت فرمائی کہ جب کوئی بندہ قضائے حاجت کو جائے تو مشغول ہونے سے پہلے مذکورہ دعا پڑھے۔
چند مسائل
۱- بیت الخلاء جاتے وقت اور نکلتے وقت حدیثوں میں جو دعائیں آئی ہیں، و ہ باہر پڑھ کر بیت الخلاء میں جانا چاہیے اور بعد کی دعا باہر نکل کر پڑھنی چاہیے اور کھلی جگہ، مثلا: جنگل وغیرہ میں قضائے حاجت کے لیے جائیں تو ستر کھولنے سے پہلے اور ستر ڈھانکنے کے بعد پڑھنی چاہئیں۔
۲- اگر کوئی شخص باہر دعا پڑھنا بھول جائے اور اندر جانے کے بعد یاد آئے تو اگر بیت الخلاء صاف ستھرا ہے، جیسے فلش: جہاں بالفعل گندگی نہیں ہوتی تو و ہ جنگل کے حکم میں ہے، ستر کھولنے سے پہلے دعا پڑھ سکتا ہے اور بعد کی دعا باہر نکل کر پڑھنی چاہیے؛ کیوں کہ استنجے کے بعد بیت الخلاء میں بدبوہوگی۔
۳- اگر بیت الخلاء میں بالفعل گندگی ہو یا صفائی نہ ہونے کی وجہ سے بدبو ہو تو دعا دل میں پڑھے، زبان سے نہ پڑھے؛ کیوں کہ گندگی اور بدبو کے قریب اللہ کا ذکر کرنا مکروہ ہے۔
۴- ایسا واش روم جس میں کمبوڈ، واش بیسن اور غسل ٹب ایک جگہ پر ہوں تو یہ بیت الخلاء کے حکم میں ہے ایسے واش روم میں داخل ہونے سے پہلے دعا پڑھنی چاہیے اور قضائے حاجت سے فارغ ہونے کے بعد اگر وضو کرنا ہے تو وضو کی ابتداء اور درمیان کی دعائیں دل میں پڑھیں، زبان سے کچھ نہ پڑھیں اور باہر نکل کر بیت الخلاء سے نکلنے اور وضو کے بعد کی دعائیں پڑھیں؛ البتہ اگر واش روم میں ڈھکن والا کمبوڈ لگا ہوا ہے اور وہ بند بھی ہے اور صفائی کا بھی خوب اہتمام کیا ہوا ہو تو پھر بوقت ِ وضو دعائیں زبان سے پڑھ سکتے ہیں۔
۵- قضائے حاجت کے وقت اِس طرح بیٹھنا چاہیے کہ قبلے کی طرف نہ منھ ہو اور نہ پیٹھ ورنہ قبلہ کا تقدس پامال ہوگا۔
۶- استنجے کی جو دعائیں منقول ہیں وہ چھوٹے بڑے دونوں استنجوں کے لیے عام ہیں، لوگ بڑے استنجے میں اُن کا اِہتمام کرتے ہیں؛ مگر چھوٹے استنجے کے وقت اُن دعاوٴں کا اہتمام نہیں کرتے، یہ ٹھیک نہیں؛ بلکہ دونوں صورتوں میں پڑھنا چاہیے؛ کیوں کہ ستر دونوں استنجوں میں کھلتا ہے۔
بیت الخلاء کی دعا کی حکمت اور پیغام
۱- جنات ہم کو دیکھتے ہیں اگر چہ ہم اُن کو نہیں دیکھتے اور جب شرارت کا کوئی موقع آتا ہے تو اس کو شیاطین ہاتھ سے نہیں جانے دیتے، اُن کی شرات سے بچنے کے لیے یہ دعا تلقین کی گئی ، ایک حدیث (ترمذی، رقم:۶۰۶) میں ہے کہ جب انسان بسم اللہ پڑھ کر بیت الخلاء میں جاتا ہے تو شیاطین کو انسان کی شرم گاہ نظر نہیں آتی؛ اِس لیے ان کے لیے کھلواڑ کرنا ممکن نہیں ہوتا؛ اِس لیے بہتر ہے کہ قضائے حاجت کے لیے جانے والا یوں دعا پڑھے۔
بسم اللہ اللّٰھم إنّي أَعُوْذُ بِکَ مِنَ الخُبُثِ والخَبَائِثِ ․ (تحفة الالمعی:۱/۲۰۱،الاذکار: ۱/۲۵،شاملہ)
۲- جس طرح مکھیاں اور دوسرے غلاظت پسند کیڑے مکوڑے غلاظت پر گرتے ہیں اِسی طرح خبیث شیاطین اور بعض دوسری موذی مخلوقات غلاظت کے مقامات سے خاص دلچسپی اور مناسبت رکھتے ہیں؛ اِس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اِن مقامات میں جانے کے وقت کے لیے یہ دعا بتائی اور خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول بھی تھا کہ بیت الخلاء جانے کے وقت دعا پڑھتے تھے۔ (معارف الحدیث: ۵/۱۳۲)
۳- روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ شیاطین جسمانی طور پر بھی انسان کو نقصان پہنچا سکتے ہیں اور روحانی طور پر بھی، جسمانی نقصان یہ پہنچا سکتے ہیں کہ تمھیں ظاہری گندگی میں ملوث کردیں اور اس کے نتیجے میں تمہارے کپڑے اور جسم ناپاک ہوجائیں اور بعض اوقات جسمانی بیماری میں مبتلا کردیتے ہیں؛ چناں چہ تاریخ میں بعض ایسے واقعات پیش آئے ہیں کہ شیاطین نے اُن گندے مقامات پر باقاعدہ کسی انسان پر حملہ کیا اور بالآخر اُس کو موت کے منھ میں پہنچادیا، بعض علماء نے یہ بھی فرمایا ہے کہ بیماری کے جراثیم شیاطین ہی کا ایک حصہ ہوتے ہیں؛ لہٰذا اِن مقامات پر انسان کی صحت کو بھی نقصان پہنچ سکتا ہے۔
روحانی نقصان یہ ہے کہ اِن مقامات پر انسان کی شرم گاہ اور ستر کھلی ہوتی ہے،اُس وقت شیطان انسان کے دل میں فاسد خیالات پیدا کرتا ہے، غلط قسم کے خیالات، خواہشات اور غلط قسم کی آرزوئیں پیدا کرتا ہے جس کی وجہ سے انسان کے سفلی جذبات، سفلی خواہشات زیادہ زور دکھاتے ہیں، اگر اللہ کی پناہ شاملِ حال نہ ہو تو انسان ان مقامات پر گناہوں کا بھی ارتکاب کرلیتا ہے۔ (اسلام او رہماری زندگی:۱۰/۹۵)
۴- ایک کامل مسلمان کے لیے ضروری ہے کہ اس کی زبان ہر وقت ذکر الٰہی میں مشغول رہے؛ لیکن نجاست اور گندگی کی جگہ میں ذکر کرنا بے ادبی اور بے احترامی کی بات ہوگی، معلوم ہوا کہ بیت الخلاء میں جا کر ذکر ِاللہ میں اِنقطاع پیدا ہوگا؛ اِس لیے اِس موقع پر دعا پڑھنے کی تعلیم دی گئی؛ تاکہ مسلمان کا رابطہ اللہ رب العزت سے جڑا رہے، اب ظاہر ہے کہ انسان اگر اِس حالت میں بھی اللہ کے ساتھ رابطہ قائم رکھے تویقینا وہ وہاں پر گناہوں سے محفوظ رہے گا، اور اگر اِس طرح پوری زندگی میں اِس کا خیال رکھے گاتواُس کی زندگی سنت وشریعت کے عین مطابق ہوگی، اس کی دنیا وآخرت سنور جائے گی۔(مرقاة المفاتیح:۱/۳۷۵ شاملہ)
۵- ذکر ُاللہ، شیاطین سے بچنے کا ذریعہ ہے، جس قلب میں اللہ کا ذکر سما جائے گا، وہاں پر شیاطین کاتصرف زیادہ نہیں ہوگا، ترمذی شریف کی ایک روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ ذکر کی مثال ایک محفوظ اورمضبوط قلعہ کی سی ہے، جس طرح آدمی دشمنوں اور ڈاکوٴوں کے تعاقب سے ایک مضبوط قلعہ کے ذریعہ سے بسہولت بچ سکتا ہے، اسی طرح شیاطین کے اثرات سے ذکر کے ذریعہ ہی بچ سکتا ہے؛ ورنہ یہ کسی کو بخشتے نہیں۔(الدر المنضود:۱/۹۱)
۶- بیت الخلا جانا ہماری مجبوری ہے، اللہ تعالیٰ اِس موقع پر بھی ہماری آزمائش فرماتے ہیں کہ ہم اللہ کو یاد رکھتے ہیں یا بھلا دیتے ہیں۔
لمحہٴ فکریہ
اِس ترقی یافتہ دور میں مکانات اور بلڈنگیں نہایت عمدہ، خوب صورت بن رہی ہیں، مکانات کی زینت، نقاشی، رنگ وروغن پر کروڑوں روپے خرچ ہوتے ہیں، بیت الخلاوٴں اور ٹوائیلٹس کو بھی صاف ستھرا اور عمدہ بنایا جارہا ہے، اسلام اِس سے منع نہیں کرتا؛ لیکن تعمیر و ترقی کے اِس دور میں مسلمانوں کی زندگیوں سے مذکورہ دعا غائب ہوگئی، نوجوانوں اور عورتوں کا بہت بڑا طبقہ اِس دعا سے غافل ہے، ضرورت اِس بات کی ہے کہ ہم تمام مسلمان اِس دعا کا اہتمام کریں اور دعا پڑھتے وقت اِس دعا کی حکمت اور پیغام کو ذہنوں میں مستحضر رکھیں، زندگی سکون سے گذرے گی؛ کیوں کہ اصل سکون واطمینان اللہ کے ذکر اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں کی پیروی میں مضمر ہے، اگر دعا یاد نہیں تو بیت الخلاوٴں کے دروازوں پر لکھ کر چپکا دیں؛ تاکہ بیت الخلاء جاتے وقت دعا یاد آجائے، ایک گمنام اقتباس پڑھیے۔
آج کی دنیا میں جس کو دیکھو مسائل کا شکار ہے جانی، سماجی یا معاشی پریشانی کا شکار ہے، سکون نام کی چیز ہماری زندگی سے نہ جانے کہاں چلی گئی، وجہ کیا ہے آخر ہم جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے امتی ہیں، اتنے مصائب میں گھرے ہوئے ہیں، ذرا سا غور کریں تو وجہ بالکل سامنے ہی ہے، ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں زندگی گذارنے کا ایک طریقہ دیا ہے، ہم اگر زندگی کے ہرقدم پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں کا اہتمام کریں تو بڑی بڑی پریشانیوں سے بچ سکتے ہیں۔ انسان کی ۹۰ فیصد روحانی اور ۵۰ فیصد جسمانی بیماریوں کا تعلق صرف بیت الخلاء یعنی واش روم سے ہے، ایک چھوٹی سی دعا کو چھوڑا اور کتنی بیماریوں نے ہمارا گھر دیکھ لیا، جراثیم، جِرم تھیوری وغیرہ یہ سب شیطان کے ہی نظام ہیں ہر گندی جگہ جہاں زیادہ جراثیم ہوتے ہیں، جنات اور شیاطین وہاں رہتے ہیں، اب چاہے اس بیت الخلاء کو آپ جتنا سجا لو یہ ظاہری نظام ہی ہے، اس کے لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دی ہوئی دعا کو پڑھ کر جانے میں ہی عافیت ہے، بیت الخلاء جانا ہماری مجبوری ہے؛ مگر ا للہ جل شانہ اِس موقع پر بھی ہماری ذمہ داری لیتے ہیں۔
أعوذ بک کا مطلب ہے پناہ میں آتا ہوں یعنی اللہ کے سپرد اپنے آپ کو کرتا ہوں، اب جب بندہ اللہ کے سپرد اپنے آپ کو کردے تو اللہ پاک سے بڑا محافظ بھلا کون ہے؟ ہم نے بیت الخلاء کو ٹائلوں سے مزین کرلیا اور پہلو میں سجا لیا اور بے فکر ہوگئے، یہاں کچھ لوگوں نے تو مغرب کی اندھی تقلید میں بیت الخلاء کو آرام گاہ بناڈالا، جتنے نفسیاتی امراض کے مریض مغربی ممالک میں ہیں اور کہیں نہیں۔اللہ تعالیٰ ہم تمام مسلمانوں کو اِس دعا کو حسب ِ موقع پڑھنے اور سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین۔
بیت الخلاء سے باہر نکلنے کی دعا
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب بیت الخلاء سے باہر نکلتے تو یہ دعا پڑھتے۔
غُفْرَانَکَ اے اللہ میں تیری مغفرت چاہتا ہوں۔ (ترمذی،رقم:۷)
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیت الخلاء سے باہر تشریف لاتے تو یہ دعاپڑھتے تھے اورترمذی شریف کی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ آں جناب صلی اللہ علیہ وسلم بیت الخلاء سے نکلتے وقت ”غفرانک“ پڑھتے تھے،اور ابن ماجہ وغیرہ کی روایتوں میں الحمد للہ الذي أذْھَبَ عَنِّي الأذی وعافاني کے الفاظ آئے ہیں، دونوں میں تطبیق یہ ہے کہ کبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم پہلی دعا پڑھتے تھے اور کبھی دوسری، محدثین لکھتے ہیں کہ دونوں کو جمع کرلینا بہتر ہے؛ اِسی لیے دعاوٴں کی اردو کتابوں میں یہ دعا ایک ساتھ لکھی ہوئی ہے یعنی غفرانک، الحمد للہ الَّذِيْ أَذْھَبَ عَنِّيْ الأذَی وعَافَانِي۔(ابن ماجہ، رقم:۳۰۱)
GHUFRANAKA, ALHAMDULILLAHILLAZEE,
AZHABA ANNIL, AZAA, WA, AA’FAANEE
ترجمہ: حمد وشکر اُس اللہ کے لیے جس نے میرے اندر سے گندگی اور تکلیف والی چیز دور فرمادی اور مجھے عافیت وراحت دی۔
تشریح: انسان جب فراغت کے بعد بیت الخلاء سے باہر نکلنے کا ارداہ کرے تو اُس وقت سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلمنے دوسری دعا تلقین فرمائی ہے اور دوسرا ادب بتایاہے کہ جب باہر نکلنے لگو تو پہلے دایاں پاوٴں باہر نکالو اور مذکورہ دعا پڑھو: اِس موقع پر دعا پڑھنے کی تلقین در حقیقت یہ بتانا ہے کہ انسان کے لیے ہمیشہ اپنے رب اور خالق ومالک کو یاد رکھنا نہ صرف ضروری ہے؛ بلکہ اس کی تخلیق کا مقصد بھی ہے، آخر انسان؛بالخصوص مسلمانوں میں اور جانوروں؛بالخصوص غیر مسلموں میں کچھ تو ما بہ الامتیاز ہونا چاہیے، مذکورہ موقع پر دعا اسلام کی جامعیت اور اس کے سراپا مہذب مذہب ہونے کی واضح دلیل ہے، کیا کوئی اور مذہب بھی ہے جس میں ایسی جامع تعلیمات کی رہنمائی ہے۔
مذکورہ دعا کی حکمت اورپیغام
(۱) دعا کا آغاز غفرانک سے ہورہا ہے جس کا مطلب ہے اے پروردگار عالم میں آپ سے مغفرت اور بخشش مانگتا ہوں، فطری طور سے یہ سوال پیدا ہوگا کہ اِس موقع پر بظاہر کسی گناہ کا ارتکاب تو نہیں ہوا ہے پھر کس چیز سے مغفرت مانگتا ہوں، فقہاء نے اِس کے مختلف جوابات لکھے ہیں، آپ بھی پڑھیں، ایمان میں اضافہ ہوگا۔
۱- اِس موقع پر دو باتوں سے مغفرت مانگی گئی ہے: ایک اِس بات سے کہ اِس وقت میں جس حالت میں تھا، ہوسکتا ہے کہ مجھ سے کوئی غلط عمل سرزد ہوگیا ہو، اُس سے مغفرت مانگتا ہوں، دوسری بات یہ کہ اے اللہ! آپ نے اپنے فضل و کرم سے مجھ پر جتنے انعامات فرمائے ہیں، میں اُن انعامات پر شکر کا حق ادا نہیں کرپایا: اب ایک نعمت او رمجھے حاصل ہوگئی ہے؛ کیوں کہ جسم سے نجاست کا نکل جانا یہ اللہ تعالیٰ کا اتنا بڑا انعام ہے کہ انسان کی زندگی کا دارومدار اِس پر ہے، اب اِس وقت اے اللہ! آپ نے جو یہ نعمت عطا فرمائی ہے، میں اس نعمت کے شکر کا حق ادا نہیں کرسکتا، اِس پر میں آپ سے پہلے ہی مغفرت مانگتا ہوں۔(اسلام اور ہماری زندگی:۱۰/۹۶)
۲- حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہر وقت ذکر فرماتے رہتے تھے؛ لیکن بیت الخلاء میں ذکر ِ لسانی کا سلسلہ منقطع رہتا تھا،اِس انقطاعِ ذکر ِ لِسانی پر آپ نے استغفار فرمایا( ہم ہر وقت ذکر ِ الٰہی میں مشغول نہیں رہتے، یہ ہماری کوتاہی شمار ہوگی، گویا اِس دعا میں ایک پیغام یہ بھی ہے کہ ہمیں ہر وقت ذکر ِ الٰہی میں مشغول رہنا چاہیے اور بیت الخلاء میں انقطاعِ ذکر لسانی پر معافی مانگنی چاہیے، سرکارِدوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی ہی کامیابی وکامرانی اور اسلامی زندگی کی فلاح وبہبود کی کنجی ہے)
۳- ایک جواب حضرت گنگوہی(م:۱۳۲۳ھ) نے یہ دیا ہے کہ قضائے حاجت کے وقت انسان اپنی نجاستوں کا مشاہدہ کرتا ہے، اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ ُان ظاہری نجاستوں کو دیکھ کر انسان کو اپنی باطنی نجاستوں(نجاست قلبیہ یعنی گناہ) کا استحضار کرنا چاہیے اور ظاہر ہے کہ یہ ا ستحضار، استغفار کا مُوجِب ہوگا؛ اِس لیے ”غفرانک“ کہنے کی تعلیم دی گئی۔(درس ترمذی:۱/۱۸۰)
۴- قضائے حاجت سے فراغ کا وقت نعمتِ غذا کی تکمیل کا وقت ہے، اول اللہ تعالیٰ نے کھانے پینے کی نعمت عطا فرمائی پھر اُس کو سہولت کے ساتھ حلق سے نیچے اتارا ورنہ بعض مرتبہ پھندہ بھی لگ جاتا ہے پھر اس کے بعد معدہ کا اس غذا کو قبول کرنا اوراُس کا ہضم ہوناا ور ہضم ہونے کے بعد کار آمد اجزاء کا جُزوِبدن بننا اور سب سے اخیر میں فُضلہ کا عافیت کے ساتھ جسم کے اندر سے باہر آجانا جو آخری مرحلہ ہے؛ غرضیکہ یہ نعمت ِغذا کی تکمیل کا وقت ہے جس کا حق اور شکر ہم سے ادا نہیں ہوسکتا اِس تقصیر(کوتاہی) پر آپ نے امت کو استغفار کی تعلیم فرمائی(بندہ اپنے آپ کو عاجز اور لاچار سمجھ کر خدا تعالیٰ کے سامنے گڑگڑائے، یہ اعترافِ گناہ کہلاتا ہے اور اعترافِ گناہ، اللہ کے نزدیک شکر کی حقیقت ہے، شکر سے عاجزی کا اعتراف، شکر کہلاتا ہے)(الدر المنضود:۱/۱۳۰ – مرقاة المفاتیح:۱/۳۸۷)
۵- اللہ کی نعمتیں بندے پر ہر وقت برستی ہیں، ان نعمتوں کا تقاضا یہ ہے کہ بندہ ہر وقت اللہ کے ذکر میں مشغول رہے، ایک لمحہ بھی غافل نہ ہو اور قضائے حاجت انسان کی مجبوری ہے وہ اس وقت میں ذکر نہیں کرسکتا، اس کوتاہی پر -اگر چہ وہ بدرجہٴ مجبوری ہے- غفرانک کے ذریعہ معافی مانگی گئی ہے، بندہ عرض کرتا ہے: خدایا! جو غفلت میری طرف سے پائی گئی اس کوتاہی کا میں معترف ہوں اور بخشش طلب کرتا ہوں، مجھے معارف فرما۔(تحفة ا لالمعی:۱/۲۰۴)
۵- چوں کہ یہ وقت اورحالت شیطان کے تَلَعُّب(کھیلنے)، معیت (ساتھ رہنے) اور تلوُّث (نجاست لگنے) کی ہے؛ لہٰذا اس کے مقابلہ میں طلب ِ مغفرت کو ضروری قرار دیا گیا۔
۷- طلبِ مغفرت کے لیے پہلے گناہ کا ہونا ضروری نہیں ہے؛ بلکہ جس طرح نیکی کی نورانیت قلب پر اثر کرتی ہے، اسی طرح گناہ کی کدورت بھی قلب پر اثر کرتی ہے، طلبِ مغفرت سے غرض یہ ہے کہ جو کدورت اور میل گناہ کی وجہ سے قلب پر جم گئی ہے، اس کا ازالہ کیا جائے۔ لہٰذا قضائے حاجت کی وجہ سے ذکر سے محرومی کا جرم غیر اختیاری ہونے کے سبب یقینا معاف ہے؛ لیکن اس کی وجہ سے روحانی ترقی میں جو کمزوری، سستی اور پیچھے رہ جانا ہوا ہے، طلب ِ مغفرت سے اس کا ازالہ مقصود ہے۔(حقائق السنن:۱/۱۴۲)
۸- انبیاء کے علاوہ کوئی فرد یا جماعت گناہوں سے محفوظ نہیں ہے، موجودہ دور بددینی، دین بیزاری اور اسلامی تہذیب واخلاق سے عاری ہے، اِس دور میں تو گناہوں کی کثرت ہے، سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے قضائے حاجت کے بعد مذکورہ مغفرت کے ذریعہ اپنی امت کو یہ تعلیم دی کہ تمھارا نبی گناہوں سے پاک صاف ہے،اس کے اگلے اور پچھلے سارے گناہوں کی بخشش کا علان ہوچکا ہے تب بھی وہ مغفرت الٰہی کا طالب ہے تو تمھیں طلبِ مغفرت کی کتنی ضرورت ہونی چاہیے، تم تو گناہوں کے پتلے ہو، تمہارا نبی ایک ایسی جگہ مغفرت کا طالب ہے جہاں کسی طرح کا کوئی گناہ نہیں ہوا ہے اور جہاں قضائے حاجت کے لیے جانا ایک فطری مجبوری ہے؛ لہٰذا تمھیں تو یہ عملِ نبوی اپنی زندگی میں لاکر یہ عہد کرنا چاہیے کہ ہم پوری زندگی گناہوں سے دور رہیں گے اور اگر کبھی گناہ ہوگیا تو فوراً مغفرت کی درخواست کریں گے؛ اِسی لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم مختلف اوقات اور مختلف اعمال کے اخیر میں استغفار پڑھا کرتے تھے؛ تاکہ جہاں ایک طرف اپنی کوتاہی اور عاجزی کا اعتراف ہوسکے جو شکر کا لازمی حصہ ہے وہیں دوسری طرف امت بھی طلب ِ مغفرت کی عادی ہوجائے اور یہی چیز انسان کے ترقی درجات کا سبب ہے، اللہ ہمیں اِس کی توفیق دے!
دوسری دعا کی حکمت اور پیغام
۱- مولانا منظور نعمانی رحمة اللہ علیہ لکھتے ہیں:
پیشاب یاپاخانہ خدا نخواستہ رک جائے اور فطری طریقہ سے خارج نہ ہو تو اللہ کی پناہ! کیسی تکلیف ہوتی ہے اور اس کے خارج کرنے کے لیے اسپتالوں میں کیا کیا تدبیریں کی جاتی ہیں، اگر بندہ اِس کا دھیان کرے تو محسوس کرے گا کہ فطری طریقے سے پیشاب یا پاخانے کا خارج ہونا اللہ تعالیٰ کی کتنی بڑی نعمت اور کتنا عظیم احسان ہے، رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ا سی احساس اور دھیان کے تحت اس موقع پر اِس کلمہ کے ذریعہ اللہ کی حمد اور اس کا شکر ادا کرتے تھے، الحمدُ للہ الذي أذْھَبَ عَني الأَذَی وعَافَانِي سبحان اللہ! کیسی بر محل او رکتنی عارفانہ دعا ہے۔(معارف الحدیث:۵/۱۳۳)
۲- مفتی تقی عثمانی زید مجدہ کے افادات میں ہے:
اگر اِس دعا میں غور کریں تو یہ نظرآئے گا کہ اِس مختصر سی دعا میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے معانی کی عظیم کائنات بیان فرمادی ہے، اِس کے علاوہ ایک دوسری دعا بھی منقول ہے جس میں اِس سے زیادہ وضاحت ہے، آپ پڑھتے تھے:
الحمد للہ الذي أذَاقني لذَتَہ وأبقی فِيَّ قُوَّتَہ وأذھب عَنِّي أذاہ․(کنز العمال، رقم:۱۷۸۷۷)
ترجمہ: اس اللہ کا شکر ہے جس نے مجھے اس کھانے کی لذت عطا فرمائی اور اِس کھانے میں جو قوت والے اجزاء تھے اور جو میرے جسم کو طاقت بخش سکتے تھے، وہ اجزاء میرے جسم میں باقی رکھے اور جو اجزاء تکلیف دہ او رگندے تھے وہ میرے جسم سے دور کردیے۔
آپ غور کریں کہ انسان دن رات یہ کام کرتا رہتا ہے؛ لیکن اس کے نعمت ہونے کی طرف دھیان نہیں جاتا، ہم جب کھانا کھاتے ہیں تو ہمارے پیشِ نظر صرف زبان کا ذائقہ اور لذت ہوتی ہے، کھاتے وقت اِس طرف دھیان نہیں ہوتا کہ یہ کھانا ہمارے اندر جاکر کیا فساد مچائے گا، کھائی جانے والی مختلف اشیاء کے مختلف اثرات ہوتے ہیں، اللہ تعالیٰ نے تمھارے جسم میں ایک مشین بنائی ہے جو اس غذا کے ہر حصہ کو چھانٹ چھانٹ کر الگ کرتی ہے، یہ خود کار مشین قوت والے اجزاء کو محفوظ رکھتی ہے اور بے فائدہ اجزاء کو پیشاب وپاخانہ کے ذریعہ خارج کردیتی ہے؛ اِس لیے جب تم قضاء حاجت سے فارغ ہو تو اِس پر شکر ادا کرلو کہ آپ نے مجھ سے یہ گندگی دور فرمادی اور مجھے عافیت عطا فرمادی۔(اختصار :اسلام اور ہماری زندگی:۱۰/۹۹)
۳- انسان کے پیٹ میں جو گندہ فضلہ ہوتا ہے وہ ہر انسان کے لیے ایک قسم کے انقباض اور گرانی کا باعث ہوتا ہے،اگر وہ بر وقت خارج نہ ہو تو اس سے طرح طرح کی تکلیفیں اور بیماریاں پیدا ہوجاتی ہیں اور اگر طبعی تقاضے کے مطابق پوری طرح خارج ہوجائے تو آدمی ایک ہلکاپن اور ایک خاص قسم کا انشراح محسوس کرتا ہے اور اِس کا تجربہ ہر انسان کو ہوتا ہے؛ اِس لیے قضائے حاجت سے فارغ ہونے کے بعد اللہ کی تعریف کرنے کا حکم ہے۔(سنن ابن ماجہ اردو:۱/۱۳۴)
۴- ذرا سوچیے اگر پیشاب اور پاخانہ کے ساتھ انتڑیاں اور دیگر مخفی قوتیں اور طاقتیں بھی خارج ہوجائیں تو ا للہ کے بغیر اِس درد وکرب سے کون محفوظ رکھ سکتا ہے؟ اب جب کہ قضائے حاجت کے وقت اللہ نے ان چیزوں سے ہماری حفاظت فرمائی؛پس اُس ذات کا شکریہ ادا کرنا ضروری ہے، مذکورہ دعا کے ذریعہ اُسی حقِ شکرکی ادائیگی کا حکم ہے۔
۵- شریعت نے ”حمدوشکر“ کا ایک جامع نظام بنایا ہے، بندوں پر اللہ کی نعمتیں ہر آن برستی رہتی ہیں، سانس لینا اور چھوڑ نا مستقل نعمتوں کا حصہ ہیں، ان نعمتوں کے بدلے میں اللہ کی تعریف اور اس کا شکریہ ادا کرنا بندگی اور عبدیت کا تقاضا ہے، گندگی کا دور ہونا اور عافیت نصیب ہونا بھی ایک نعمت ہے، پس اِس موقع پر اللہ کی تعریف کرنا ضروری ہے، اِس موقع پر مذکورہ جملہ کے ذریعہ اللہ کی تعریف کرنا اُسی نظامِ حمد وشکر کا ایک حصہ ہے، گویا غُفْرَانَکَ کے ذریعہ پہلے ادائے شکر میں کوتاہی پر معافی مانگی گئی اور دوسری دعا میں اُسی شکر کو ادا کرنے کی کوشش کی گئی،اور دونوں جملوں کا مشترکہ پیغام یہ ہے کہ انسان پوری زندگی اللہ کی تعریف اور گناہوں اور کوتاہیوں پر شرمندگی کے اظہار میں گذارے۔
یہ دعائیں دھیان سے پڑھنی چاہئیں
اگر ہر مسلمان روزانہ بیت الخلاء جاتے وقت او رنکلتے وقت دھیان دے کر دعائیں پڑھنے کا معمول بنالے تو کیا اس کے نتیجے میں اللہ جَلَّ شانُہ کی عظمت اور محبت پیدا نہیں ہوگی؟ کیا اس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ کی خشیت پیدا نہیں ہوگی کہ جو ما لک بے نیاز میرے جسم میں اتنی قیمتی مشینیں لگا کر میرے لیے یہ کام کرارہا ہے، کیا میں اس کے حکم کی نافرمانی کروں؟ کیا میں اس کی مرضی کے خلاف زندگی گزاردوں، اگر انسان یہ تصور کرنے لگے تو پھر کبھی گناہ کے پاس بھی نہ پھٹکے؛ اِس لیے حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بیت الخلاء سے نکلتے وقت یہ دعا پڑھ لو، یہ کوئی منتر نہیں ہے؛ بلکہ اِس کے پیچھے ایک پورا فلسفہ ہے اور معانی کی پوری کائنات ہے جو اللہ تعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ ہم کو عطا فرمائی ہے؛ لہٰذا ان دعاوٴں کو پڑھنے کی عادت ڈالیے اور اِس تصور کے ساتھ پڑھیے کی اللہ تعالیٰ نے کیا نعمت ہم کو عطا فرمائی ہے، اللہ تعالیٰ مجھے اور آپ کو بھی اِس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین(اسلام اور ہماری زندگی: ۱۰ / ۹۹)
————————————————————-
ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ5-6، جلد:101 ،شعبان۔رمضان 1438 ہجری مطابق مئی۔جون 2017ء