حرفِ آغاز
مولانا محمد سلمان بجنوری
گذشتہ دنوں، مسلم نام کے حامل ایک پاکستان نژاد شخص (طارق فتح) کی ہندوستان آمد ہوئی، جس نے اپنی اسلام مخالف اور مسلم دشمن ناپسندیدہ سرگرمیوں سے وطن عزیز کے ماحول کو خراب کیا اور مسلمانوں کے لیے مسائل کھڑے کرنے کی کوشش کی۔ ”فتح کا فتویٰ“ نام سے زی، ٹی وی پر چلنے والے اس کے پروگرام نے فضاء کو بڑی حد تک مسموم کیا؛ لیکن ہمارے علماء اور دین پسند نوجوانوں نے اس فتنے کا مقابلہ مختلف سطحوں پر کیا، بعض فضلاء نے دورِجدید کے وسائل کا سلیقہ سے استعمال کرکے اس کا کامیاب تعاقب کیا۔ اب اگرچہ یہ شخص ہندوستان سے جاچکا ہے؛ لیکن یہ سوال تو بہرحال ہمارے سامنے کھڑا ہے کہ ایسے حالات میں ہمیں کیا کرنا چاہیے، ذیل کی سطور میں اسی پس منظر کو سامنے رکھ کر چند ضروری باتیں عرض کی گئی ہیں۔ (مدیر)
اسلامی تعلیمات پر حملہ کرنے والے اور مسلمانوں کی تصویر بگاڑنے والے افراد، خواہ مسلم نام کے حامل ہوں اور مسلم خاندانی پس منظر رکھتے ہوں یا باضابطہ غیرمسلم پس منظر اور غیرمسلم نام کے حامل ہوں، ان دونوں قسم کے لوگوں کی زہرناکی تقریباً یکساں ہے؛ بلکہ بسا اوقات مسلم نام والے زیادہ بڑے نقصان کا سبب بن جاتے ہیں، خصوصاً اس لیے کہ مسلم نام کے ساتھ کافرانہ کردار، مسلمانوں میں اشتعال پیدا کرتا ہے، یہی وجہ ہے کہ ماضی قریب میں ہمارے یہاں، اس گھناؤنے کردار کے حوالے سے، سلمان رشدی، تسلیمہ نسرین اور اب طارق فتح جیسے لوگ زیادہ جانے گئے یا بدنام ہوئے؛ جب کہ اسی دور میں دوسرے مذاہب کے ماننے والوں میں بہت سے لوگوں نے یہی کردار ادا کیا۔ مثلاً اسلام کو ایک برائی قرار دینے والا امریکی پادری فرینکلن گراہم حضور علیہ الصلوٰة والسلام کی شان میں گستاخی کرنے والا پادری جیری فال ویل اور اسی قسم کی ہفوات بکنے والا وٹیکن کا پوپ بینڈیکٹ شانزدہم وغیرہ۔
اس سلسلے میں قابلِ توجہ بات یہ ہے کہ اس قسم کے لوگوں کی فتنہ انگیزی کے جواب میں عام طور پر ہمارا طرز عمل یہ رہا ہے کہ ہم وقتی کارروائیوں پر اکتفاء کرتے ہیں۔ مثلاً احتجاج کرتے ہیں، حکومتوں سے اُن پر پابندی لگانے کا مطالبہ کرتے ہیں اور ان سے نفرت کا اظہار کرتے ہیں اور اس میں کسی شبہ کی گنجائش نہیں کہ یہ اقدامات ہماری ایمانی غیرت کا تقاضا بھی ہیں اور اس فتنے کے وقت کی ضرورت بھی؛ لیکن اسی کے ساتھ یہ بات بھی تسلیم کرنے میں تامل نہیں ہونا چاہیے کہ یہ اقدامات اصل مسئلہ کے حل کے لیے قطعی طور پر ناکافی ہیں اور اس کی وجہ سادہ الفاظ میں یہ ہے کہ ہمارے یہ اقدامات وقتی اور عارضی ہوتے ہیں؛ جب کہ یہ مسئلہ مستقل اور دائمی ہے۔
دراصل یہ حق وباطل کی ایک رزمِ مسلسل ہے جس کا آغاز اسی وقت ہوگیا تھا جب اللہ کی طرف سے حق اپنی آخری اورکامل ومکمل شکل میں اسلام کے نام سے آیا، اس وقت اسلام کی مخالفت کا ایک سلسلہ تو کفار ومشرکین کی جانب سے براہ راست شروع ہوا؛ لیکن ایک دوسرا سلسلہ یہود ونصاریٰ کی جانب سے شروع ہوا جو اس قدر کھلا اور سیدھا مقابلہ نہیں تھا؛ بلکہ آج کل کی زبان میں بڑی حد تک پراکسی وار (غیرراست جنگ) کی حیثیت رکھتا تھا؛ لیکن دنیا کے مزاج کے مطابق یہی زیادہ خطرناک اور دوررس تھا، یہود ونصاریٰ نے ابتدائی دور میں عمومی طور پر اسلام اور مسلمانوں کے خلاف راست جنگ سے گریز کیا؛ مگر اسلام اور پیغمبراسلام کے خلاف پروپیگنڈہ اور مسلمانوں میں انتشار پھیلانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا، انھوں نے اسی دور سے اسلامی تعلیمات کو نشانہ بنانے، قرآن کے بارے میں شک پیدا کرنے اور حضور علیہ الصلوٰة والسلام کی شخصیت کو مجروح کرنے کی کوشش ایک مہم کے طور پر جاری رکھی، اس مہم نے تاریخ کے ایک موڑ پر تحریکِ استشراق کی شکل اختیار کی اور اب جہاں کہیں بھی اس ذہنیت کے افراد یا تحریکات سامنے آتی ہیں وہ اسی تحریک استشراق کے برگ وبار اور اسی کلی کے جزئیات ہیں۔
اب ظاہر ہے، ایک مسلسل تحریک کا مقابلہ وقتی اقدامات سے تو نہیں ہوسکتا؛ اس لیے ضرورت ہے کہ اس میدان میں منصوبہ بندی کے ساتھ جہدمسلسل کا آغاز کیا جائے۔
اس موقع پر ضروری ہے کہ تحریک استشراق پر ایک سرسری نظر ڈال لی جائے۔ استشراق کے لفظی معنی تو ہیں:مشرق کو جاننے کی طلب یا شرق شناسی۔ اصطلاحی اعتبار سے استشراق کی مختلف تعریفات کی گئی ہیں جن کا آسان خلاصہ یہ ہے کہ اہل مغرب یعنی یورپین لوگوں کا، مشرق کے عقائد، تاریخ، فنون اور تہذیب وثقافت کو جاننا اور اس کا مطالعہ کرنا، جس میں مرکزیت اسلام کے مطالعہ کو حاصل ہے۔ اسی سے لفظ مستشرق نکلا ہے، جس کا مفہوم ماہر علوم شرقیہ یا عالم مشرقیات ہے۔ تحریک استشراق کا آغاز کب ہوا؟ یا سب سے پہلے مستشرق کا لفظ کب اور کس کے لیے استعمال ہوا؟ اس میں موٴرخین کی آرا ء مختلف ہیں؛ لیکن اکثر حضرات کی رائے میں اس تحریک کا موجودہ مفہوم میں آغاز دسویں صدی عیسوی میں ان یورپین راہبوں سے ہوا جنھوں نے مشرقی علوم وفنون کے حصول کے لیے اندلس کا سفر کیا، جن میں جربرٹ آف اورے لیک، پطرس المحترم اور ریمنڈ مارٹن کے نام شامل ہیں؛ لیکن ہمارے لیے اس وقت اس تاریخی بحث سے زیادہ اہم اس تحریک کے مقاصد اور محرکات ہیں۔
تحریک استشراق کے مقاصد ومحرکات موٴرخین نے اپنے اپنے انداز سے بیان کیے ہیں، خلاصہ یہ ہے کہ استشراق کے محرکات وعوامل پانچ ہیں:
۱- مذہبی: یہ تحریک استشراق کا اصل محرک ہے کہ اسلام کا چہرہ مسخ کیا جائے اور اسلامی تعلیمات کے بارے میں تشکیک پیدا کرکے مسلمانوں کو بھی اسلام سے دور کیا جائے اورعیسائیوں کو بھی اسلام کی طرف آنے سے روکا جائے، اس نوع کے مستشرقین میں اہم نام یہ ہیں: گولڈ زیہر، نولڈیکے، رچرڈبیل، ریجس بلیشے اور ولہاؤزن وغیرہ۔
۲- استعماری: انیسویں صدی میں عالم اسلام کا اکثر حصہ مغربی استعمار کے ماتحت ہوگیا تھا، اپنے اس غلبہ کو برقرار رکھنے کے لیے مشرقی واسلامی علوم وفنون کا استعمال کیا، نیز اس کے لیے قدیم قومیتوں کو ابھارا گیا جیسے مصر میں فرعونیت اور لبنان، فلسطین اور سوریا کے علاقوں میں فینیقیت تاکہ اسلامی اتحاد کو پارہ پارہ کیا جاسکے۔
۳- تجارتی: اس میں عالم اسلام کے قدرتی وسائل پر قبضہ کی کوششیں شامل ہیں۔
۴- سیاسی: اس مقصد کے لیے عرب ملکوں میں مغربی ملکوں کے سفارت خانوں کے اندر اسلامی ومشرقی علوم وفنون کے ماہرین کو سکریٹری یا کلچرل اتاشی کے طور پر رکھا گیا؛ تاکہ وہ وہاں فتنہ انگیزی کرسکیں۔
۵- علمی: یہ محرک سب سے کم ہے؛ لیکن بہرحال کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جنھوں نے اپنے علم میں اضافہ کی خاطر مشرقی و اسلامی علوم وفنون کو حاصل کیا۔ اس جگہ یہ اعتراف بھی ضروری ہے کہ مقاصد کے اختلاف کے باوجود مستشرقین کی محنت سے بے شمار قدیم اسلامی علمی نوادر ومخطوطات زیورطبع سے آراستہ ہوئے اور ان پر بے شمار تحقیقی کام ہوئے؛ لیکن مجموعی طورپر اس تحریک کا رُخ اسلام مخالف ہی رہا۔
اس تحریک کے مقاصد میں بنیادی طور پر یہ چیزیں شامل ہیں:
۱- مسلمانوں کو اپنے نبی، قرآن، شریعت اور فقہ اسلامی کے بارے میں شبہات میں مبتلا کرنا۔
۲- مسلمانوں کا اپنے تہذیب وثقافت سے اعتماد اٹھانا۔
۳- عقائد و افکار میں کمزوری پیدا کرنا۔
۴-اخوتِ اسلامی کی روح کو کمزور کرنا۔
ان مقاصد کے حصول کے لیے درج ذیل نکات پر بنیادی حیثیت سے کام کیاگیا:
۱- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا انکار: اس کے لیے آپ کی شخصیت کو ہر طرح مجروح اور بدنام کرنے کی کوشش منظم انداز میں کی گئی اور آج تک جاری ہے۔
۲- قرآن کریم کے کتاب الٰہی ہونے کا انکار: اس پر بھی تفصیل سے محنت کی گئی؛ تاکہ کسی طرح قرآن کے کتاب الٰہی ہونے کو مشکوک بنایا جاسکے۔
۳- اسلام کے دین سماوی ہونے کا انکار: اس کے لیے یہ ثابت کرنے کی ناکام کوشش کی گئی کہ اسلام یہودیت وعیسائیت سے مستفاد ہے۔
ان تینوں مقاصد کے لیے وحی الٰہی کا بھی انکار کیاگیا یعنی یہ کہ آسمان سے کسی فرشتے کا وحی لے کر آنا، ایک وہم ہے جو بعض بیماریوں کا نتیجہ ہے۔ اس پر مستقل کتابیں لکھی گئیں۔
۴- حدیث نبوی کے بارے میں شکوک وشبہات پیدا کرنا؛ تاکہ اس پر سے مسلمانوں کا اعتماد اٹھ جائے۔
یہاں یہ بات بھی ملحوظ رہے کہ اکثر مستشرقین نے یہ کام ایک منصوبہ کے تحت کیے اور بعض اپنی ناقص معلومات کی بنا پر ان مقاصد کے لیے استعمال ہوئے۔
یہ تحریک استشراق پر ایک سرسری نظر ہے جس سے اس فتنہ کی سنگینی کا ہلکا سا اندازہ لگایا جاسکتا ہے، ایک نہایت اہم بات یہ کہ ان مستشرقین کا کام عموماً چوں کہ مغربی زبانوں میں ہے؛ اس لیے ہمارے جدید تعلیم یافتہ طبقہ کے لیے بھی اسلام کے بارے میں معلومات کا ذریعہ اکثر و بیشتر مستشرقین ہی کی کتابیں ہیں؛ اس لیے ان کی معلومات بھی اسلام کے بارے میں ناقص اور غلط فہمیوں سے پُرہیں، جس کے نتیجے میں اس طبقہ کے زیادہ کج فکر لوگ سلمان رشدی یا طارق فتح بن جاتے ہیں اور عام لوگ جدت پسند ہوجاتے ہیں۔
اب اندازہ لگایا جائے کہ اس درجہ منظم تحریک جس کی پشت پر ہر دور میں حکومتوں کی طاقت اور وسائل رہے ہیں، اس کا مقابلہ کس درجہ منظم انداز میں کرنے کی ضرورت ہے۔
ایسا بھی نہیں ہے کہ اس موضوع پر کوئی کام نہ ہوا، حقیقت یہ ہے کہ بیسویں صدی کے نصف اخیر میں استشراق اور مستشرقین پر خاصا کام ہوا ہے، جس کا اندازہ کرنے کے لیے عربی میں شیخ مصطفی سباعی کی ”الاستشراق والمستشرقون“، دکتور عبدالقہار داؤد عبداللہ العانی کی ”الاستشراق والدراسات الاسلامیہ“ اور اردو میں ”اسلام اور مستشرقین“ (مرتبہ سید صباح الدین عبدالرحمن مرحوم ۷/جلدیں) اور ”اسلام اور مستشرقین“ مرتبہ ڈاکٹر حافظ محمد زبیر کا مطالعہ مفید ہوگا۔ خود ہمارے اکابر دیوبند اور ان سے پہلے علماء امت کی کتابوں میں بڑا مواد موجود ہے جس سے اس موضوع پر کام کرنے میں مدد مل سکتی ہے اور بعض حضرات جیسے حجة الاسلام حضرت اقدس مولانا محمد قاسم نانوتوی اور حکیم الامت حضرت اقدس تھانوی وغیرہ نے باقاعدہ موضوع بناکر اسلام کے دفاع کا کام کیا ہے؛ لیکن آج ضرورت اس بات کی ہے کہ ان موضوعات پر مسلسل اورتفصیلی کام کیا جائے اور وہ عربی اور اردو کے علاوہ انگریزی اور دیگر یورپین زبانوں میں نیز ہمارے ملک کی زبان ہندی میں بھی ہو؛ تاکہ پوری وضاحت کے ساتھ حق کا پیغام عام ہوسکے۔ خاص طور سے فضلاء مدارس ان موضوعات پر محنت کرنے کی کوشش کریں کہ یہ خدمتِ دین کا وسیع ترین میدان ہے۔
اسی کے ساتھ وقتاً فوقتاً اٹھنے والے ان فتنہ گروں کے خلاف قانونی چارہ جوئی سے بھی گریز نہ کیا جائے؛ بلکہ اس پر روک لگانے کے لیے اپنے اپنے ملکوں میں قانون سازی کی بھی کوشش کی جائے۔
————————————————-
ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ4، جلد:101 ، رجب 1438 ہجری مطابق اپریل 2017ء